Monday, 5 August 2019

Dil py Lagy WO Zakham piya ||Episode#10

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#قسط_10
#از_قلم_ثمرین_شاہد
وہاں بیٹھی یونہی منتیں کرتی رہی لیکن اندر بیٹھا شخص بلکل پتھر ثابت ہوا تھا۔۔
وہ جو اُسکا مجازی خدا تھا شاید خود کو خدا سمجھ بیٹھا تھا درحقیقت وہ تو انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں تھا،،، رات کے اس وقت کون کسی کو یوں بے گھر کرتا ہے ؟،،، وہ تو اسکی عزت تھی ،، اسکے لئے ہی جیتی آئی تھی ، اسکے لئے خود کو مار ڈالا تھا ،، اور بدلے میں چاہتی ہی کیا تھی۔ اُسکا ساتھ ،، اسکے دل میں اپنے لئے محبت ۔۔۔
وہی اسکا واحد سہارا تھا،، اسکا محافظ ۔۔۔
"لیکن کیا محافظ ایسے ہوتے ہیں ۔۔۔؟"
اللہ بھی اپنے مخلوق کو بے شمار مواقعے فراہم کرتا ہے ، گناہوں پر بھی بخش دیتا ہے ، بس ایک بار رجوع کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ وہ جو سارے جہانوں کا مالک ہے اسکے در پر اتنی رعایت ہوتی ہے تو پھر یہ ادنٰی سا انسان بناء کسی غلطی کے اسے سزا کیسے سُنا سکتا تھا مگر ایسا ہوچکا تھا۔۔۔
زارا کتنے پل یونہی بیٹھی رہی۔۔۔
کیا اسکا خلوص بے معنی تھا ، کیا اُسے زندگی بھر صبر کرنا تھا ،، کیا سچائی پر جھوٹا عکس غائب آجائے گا ۔۔۔
"نہیں میں جھوٹی نہیں ، میرے خلوص پر شک کیا گیا ہے
مجھ پر اس قدر گھٹیا الزام لگانے والا میرا مجازی خدا ضرور ہے مگر وہ میرا حقیقی خدا نہیں ہے ۔۔۔"
"اور نہ میں بننے دونگی زبیر احمد!! ۔۔۔"
"میں تمہیں میرا خدا نہیں بننے دونگی۔۔۔
تم خدا نہیں بن سکتے ۔۔۔"
"دیکھنا ایک دن تم بہت پچھتاؤں گے ۔۔۔!!"
"تمہارا یہ ظلم تمہیں کبھی چین سے جینے نہیں دیگا ۔۔۔
میں تمہیں بدُدعا نہیں دے رہی ۔۔۔"
""لیکن میرا رب تمہارے کیئے کی سزا ضرور دیگا۔۔۔""
وہ آنسو پُونچھتی وہاں سے اُٹھ گئی ۔۔۔
اب اگے کا سفر اُسے اکیلے طے کرنا تھا
یہ زندگی اُسے کہاں تک لے جاتی اُسے معلوم نہیں تھا۔۔۔
بس وہ یہ جانتی تھی کہ اب اس تذلیل کے بعد اس انسان کے ساتھ ہرگز نہیں رہ سکتی تھی ۔۔۔
ایک ایسا انسان جس نے بناء سوچے سمجھے اسکی ذات پر کیچڑ اُچھالا تھا۔۔
وہ بُوجھل قدموں سے چلنے لگی۔۔
اُسکے آنسو تھم گئے تھے مگر چہرے پر اب بھی اسکے نشان موجود تھے۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گُم اپنی دُھن میں چلتی جارہی تھی کہ اچانک سے ایک گاڑی اسکے بلکل قریب آکر رُکی ،،
غالبًا گاڑی کے مالک نے بریک لگایا تھا ورنہ وہ ضرور اس آتی گاڑی سے ٹکرا جاتی ۔۔۔
خوف کے مارے اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ہیڈ لائٹ کی روشنی سے اسکی آنکھیں چوندھیا گئی۔۔۔
”نظر نہیں آتا ہے کیا،،، خوش کشی کرنے کےلئے میری گاڑی ملی تھی۔۔۔“
گاڑی کا مالک بڑبڑاتے ہوئے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔۔
مگر اسے دیکھ کر وہ کچھ لمحے کےلئے خاموش ہوگیا تھا
جبکہ زارا کو اسے پہچاننے میں چند سیکنڈ ہی لگا تھا۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی مقابل کھڑا شخص بول پڑا۔۔
”آپ ۔۔۔ آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟؟؟ مس زارا!! “۔
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔۔
”ایسکیوز می.... مس زارا !! آپ اتنی رات گئے اسطرح سُننان سڑک پر اکیلی کیا کررہی ہیں۔؟؟“
اس بار اُس نے بلند آواز میں پُکارا۔۔۔
وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔۔۔پھر جواب دیئے بغیر وہ وہاں سے اگے بڑھ گئی ۔۔
اس شخص کو اسکی دماغی حالت پر شک ہوا۔۔۔
اگر وہ اُس سے کبھی ملا نہیں ہوتا تو ضرور اسے پاگل سمجھتا ،،،
لیکن وہ اس لڑکی سے واقف تھا ،، وہ یوں چُپ نہیں رہتی تھی بلکہ وہ مقابلہ کرتی تھی۔۔۔
”ہیلو۔۔۔رُکو کہاں جارہی ہو؟؟؟“
وہ ہوا میں ہاتھ بلند کرکے اُسے پکارنے لگا جب وہ نہیں سُنی تو پھر اسکے پیچھے گیا۔۔۔
”آپ کہاں چل دی ،، چلیں میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔“
وہ اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا زارا بھی رُک گئی تھی۔۔
”گھر ۔۔۔؟؟” سپاٹ لہجے میں وہ صرف اتنا ہی بولی
”جی آپ کے گھر ۔۔۔ آپکے شوہر آپکا انتظار کررہیں ہونگے۔۔۔
کچھ دن پہلے میری اُن سے ملاقات ہوئی تھی ۔“
سامنے کھڑا شخص اپنے اور زبیر سے ہوئی ملاقات کے بارے میں بتارہا تھا۔
”نہیں مجھے نہیں جانا ۔۔۔ میرا کوئی گھر نہیں ۔۔۔
ہٹیں یہاں سے ۔۔۔۔ اور دوبارہ مجھے روکنے کی کوشش مت کیجیئے گا ورنہ بہت بُرا ہوگا۔“
زبیر کا ذکر ہی کافی تلخ تھا وہ اپنے آنسوؤں کو حلق کے نیچے اُتارنے کے بعد ضبط کے ساتھ تھوڑا تلخ لہجے بولی اور پھر اسکے سامنے سے ہٹتے ہی آگے بڑھ گئی ۔۔
”عجیب لڑکی ہے ،،، ایک تو میں اُسکی مدد کرنا چارہا تھا اور یہ مجھے ہی سُنا گئی ۔۔“
”خیر !! کہیں بھی جائے میری بلا سے۔۔۔“
وہ کندھا اُچکاتے ہوئے بڑبڑایا۔۔
اور واپس آکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
کچھ دیر اُسے آگے جاتی دیکھتا رہا پھر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔۔
زارا ابھی چند قدم آگے ہی بڑھی تھی کہ اسکی نظر سامنے کھڑے تین لڑکوں پر پڑی جو اُسے دیکھ کر. مسکرارہے تھے۔۔۔
اسکے چلتے قدم رُک گئے۔۔۔ جب اس نے خود پر انکی نگاہیں مرکوز دیکھی تو سر جُھکا کر انھیں نظر انداز کرتی چلنے لگی۔۔
لیکن وہ تینوں اسکی طرف ہی بڑھ رہے تھے ۔۔۔
وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی لیکن خوب کے مارے اسکے پیر جیسے شل ہوگئے۔۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھنے پر اُسے وہ کار میں بیٹھا دیکھائی دیا شاید وہ اسے تنہا چھوڑ کر جانے پر آمادہ نہیں تھا یا کسی وجہ سے اب تک اُسی جگہ پر موجود تھا اسے خود کو ان لڑکوں سے بچانے کے لئے بھاگنا تھا ۔۔۔
وہ ایک سرسری نگاہ قریب آتے لڑکوں پر ڈالنے کے بعد دوڑتی ہوئی اُس کار تک آئی تھی ۔۔۔
”در۔۔۔۔دروازہ کھولو پلیز۔۔۔”
پھولتی سانسوں کے ساتھ چند الفاظ ادا کی ۔
اُس نے فورًا ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا زارا بناء دیر کیئے اندر بیٹھ کر دروازہ بند کرچکی تھی۔۔
وہ مسکراکر گاڑی آگے بڑھا چکا تھا جبکہ وہ لڑکے وہی رُک گئے تھے۔۔
کچھ دیر پہلے جب وہ وہاں سے نکلنے کے غرض سے کار اسٹارٹ کرنے لگا تھا تو ان لڑکوں پر اسکی نظر پڑی لوہ جو وہاں سے جانے کا ارادہ رکھتا تھا یہ دیکھ کر زارا کو چھوڑ کر جانا مناسب نہیں سمجھا اُسکا اندازہ ٹھیک تھا اسے اسکی مدد کی ضرورت پڑسکتی ہے اور وہی ہوا تھا زارا ان سے بچنے کےلئے واپس اسکی طرف ہی آئی تھی۔۔۔
وہ اُس جگہ سے بہت دور نکل آئے تھے۔۔۔
وہ اپناہاتھ اسٹیئرنگ پر جمائے اس سے مخاطب ہوا۔
”میں آج کراچی جا رہا تھا،،، تبھی حادثادتی طور پر آپ راستے میں مل گئیں ، اگر وقت پر میں بریک نہیں لگاتا تو آج بہت بڑا حادثہ ہوجاتا ،،، اور شاید میں اس وقت کراچی جانے کے بجائے سیدھا جیل چلا جاتا۔۔۔
مجھے نہیں لگا تھا آئندہ کبھی آپ سے ملاقات ہوپائے گی۔۔“
”آپ اپنے گھر تو جانہیں رہی ،،، کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ آپ کو کہاں جانا ہے ؟“
وہ بیک ویو مرر سے اسے گم سم بیٹھی دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا
جواب نہ ملنے پر اس نے گردن گُھما کر اسے دیکھا ، پتہ نہیں وہ اُسے سن بھی رہی تھی یا نہیں ۔۔۔
زارا ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
”۔آپ ٹھیک ہیں ؟؟ “جواب نہ پاکر اُس نے ایک بار پھر سے اُسے مخاطب کیا
”ہمممم۔۔۔“ وہ مختصرًا بولی۔ 
”پھر آپ میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہی؟؟؟“
”کا۔۔۔کیا۔۔۔۔؟؟ کیا پوچھ رہے تھے آپ ؟؟“
اس بار وہ مدھم آواز میں بولی تھی
”آپ کو کہاں جانا ہے ؟“ وہ حیران ہوتے ہوئے بولا
”کہیں بھی۔۔۔ بس میں یہاں سے چلی جانا چاہتی ہوں ۔۔۔ بہت دُور۔۔۔“
اُسکے لہجے میں کچھ تھا جو اسے مزید سوال کرنے سے رک گیا۔۔
اور ایسا دوسری مرتبہ ہوا تھا ،پہلی بار جب وہ اس سے آخری بار ملا تھا تب اور ابھی اس کار میں ۔۔۔
”ہہمممم۔۔۔ کہتا وہ کار کی اسپیڈ بڑھا چکا تھا، کار میں مکمل خاموشی تھی
وہ اس جگہ سے کافی دور آچکے تھے راستے میں وہ کئی بار گاڑی روک کر رات کے وقت کھولی دُکانوں سے کھانے پینے کی اشیاء خریدتا رہا ۔۔۔
اور اسے بھی پیش کرتا لیکن وہ ہر بار منع کردیتی ،،، اگر وہ اکیلا ہوتا تو کسی جگہ پر گاڑی روک کر کچھ دیر آرام کرلیتا لیکن اسکی موجودگی میں وہ جلد از جلد کراچی پہنچنا چاہتا تھا ۔۔
ایک طویل خاموشی کے بعد وہ ایک بار پھر اس سے مخاطب ہوا۔
”کراچی میں آپ کا کوئی ہے ،میرا مطلب کوئی رشتے دار ،بہن بھائی ؟؟؟ “
”دیکھیں بُرا مت مانیے گا ۔۔۔“
”میں یہ صرف اس لئے پوچھ رہا ہوں کیونکہ مجھے بھی پتہ ہونا چاہیے کہ آخر وہاں پہنچ کر آپ کو کہاں چھوڑنا ہے۔۔۔“
” آپ مجھے کسی ہوٹل وغیرہ میں چھؤڑ دینا ۔۔۔“
وہ بس اتنا ہی بولی تھی
وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہے جسکی وجہ سے وہ رات گئے اس طرح اکیلی گھر سے باہر تھی۔۔۔لیکن اس وقت اُس سے پوچھنا ٹھیک نہیں تھا ۔۔
کار میں پھر سے گہری خاموشی چھا گئی ۔۔۔
وہ کار میں میوزک بھی آن نہیں کرسکتا تھا کیونکہ پیچھے بیٹھی زارا کیا سوچتی ۔۔۔
ان دونوں کی پہلی ملاقات ہی کافی تلخ رہی تھی ،، 
اس نے پوچھنے کےلئے کہ کیا وہ میوزک آن کرسکتا پیچھے مُڑا ۔
اگر وہ ایک سو بیس یا ایک سو بارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی گاڑی چلاتا تب بھی اُسے لاہور سے کراچی پہنچنے میں 11 سے بارہ گھنٹہ لگ جاتا اور رات کے اس وقت وہ لگاتار خاموشی سے ڈرائیو نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ نیند کی وجہ سے کار کا ایکسڈینٹ بھی ہوسکتا تھا۔۔
اس لئے راستے میں رُک کر کیفے یا ڈھابہ سے کافی یا چائے کی ایک یا دو گھونٹ لے لیتا۔۔۔
اب وہ ایسی جگہ تھے جہاں نہ کوئی ہوٹل تھا اور نہ کوئی دکان اس لئے میوزک کے زریعے وہ اپنی نیند پر قابو پانا چاہتا تھا لیکن اب جب وہ سُو رہی تھی تو ایسا ممکن نہیں تھا
ان نے اسپیڈ بڑھادی ،، اور اسکے جاگنے کا انتظار کرنے لگا 
وہ رات کے دس بجے نکلا تھا اور اب رات کے دو بج رہے تھے یعنی اب بھی چھ سے سات گھنٹہ مزید لگنا تھا۔
وہ کسی جگہ گاڑی روک بھی نہیں سکتا تھا وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اب ایک لڑکی بھی اُسکے ساتھ تھی اور کسی مقام میں روکنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔۔
کچھ اگے جاتے ہی گاڑی اچانک سے رُک گئی۔۔۔ 
کار جھٹکے سے روکنے کی وجہ سے پیچھے بیٹھی زارا کے نیند ٹوٹی تھی۔۔ اس نے آگے دیکھا تو وہ سر ہاتھوں میں دیئے بیٹھا تھا ۔۔
””اوو شیٹ ۔۔۔ واٹ ڈا ہیل از ؟؟“ وہ اسٹیئرینگ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا
جب کبھی انگریزی کے الفاظ استعمال کرتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ پورا انگریز ہو۔۔ اُسکا لہجہ امریکن تھا ۔۔
وہ پریشان ہوکر اپنا سر سیٹ کے پُست سے لگانے کے بعد ایک آہ بڑھ کر رہ گیا پھر سوچتے ہوئے کار سے نکل کر پیچھے سے پٹرول کین نکال کر کار میں ڈالنے لگا کچھ دیر بعد واپس آکر کار اسٹارٹ کررہا تھا
وہ اسکی کاروائی دیکھ رہی تھی جب اچانک اسکی نظر اس پر پڑی تو وہ نظر جُھکا گئی۔۔۔
اسکے اُٹھنے سے ایک فائدہ ہوا تھا کہ وہ اب میوزک سُن سکتا تھا ،آس پاس ہینڈ فری ہوتا تو وہ پہلے ہی اس سے استفادہ حاصل کرتا۔۔۔
وہ اسکی اجازت سے میوزک آن کرچکا تھا ۔۔۔
وہ دونوں تقریبًا صبح ساڑھے نو بجےکے قریب کراچی کے احاطے میں داخل ہوئے تھے ۔۔۔
پھر مسلسل ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ڈرائیو کے بعد ایک خوبصورت سے گھر کے باہر کار روکی گئی اسے گاڑی سے اُترنے کا حکم آیا
وہ بھی بناء چُو چڑا کیئے نیچے اُتر گئی۔۔
کار پورچ میں کھڑی کرکے وہ اسے اپنے ساتھ آنے کا بول رہا تھا۔۔۔
مگر وہ اپنی جگہ سے زرا بھی نہیں ہلی اُلٹا اس سے سوال گیا۔۔
”یہ کونسی جگہ ہے ۔۔؟؟؟ “
زارا کے پوچھنے پر اس نے گھوری سے نوازہ پھر بولا
”میرا گھر ہے ،اندر چلیں ۔۔۔“
”نہیں ۔۔۔ مجھے اندر نہیں جانا ۔۔۔“
فورًا نفی میں جواب آیا
”کیوں؟؟؟ “وہ حیران ہوا
”کیوں کا کیا مطلب ،،، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ مجھے کسی ہوٹل مہں چھوڑدینا،،، اور تم مجھے یہاں اپنے گھر میں لے آئے۔۔۔“
وہ اب غصّے میں بول رہی تھی 
”چھوڑ دونگا لیکن اس وقت مسلسل ڈرائیونگ کے بعد میں اس حالت میں نہیں کہ کہیں بھی جاسکوں ،،،
تو آپ کو یہی رہنا پڑے گا “ یہ کہتا وہ آگے بڑھ گیا جبکہ وہ اب بھی بت بنی کھڑی تھی۔۔
”تو ٹھیک ہے جہاں مرضی چلی جائیں ،،،کیونکہ میں اب اور تمہاری وجہ سے خوار نہیں ہونے والا۔۔۔“
وہ آپ سے تم پر آیا تھا ۔۔۔
وہ دونوں ہی اس طرح منٹ منٹ میں تم سے آپ میں آجاتے تھے۔۔
وہ اس پر ایک چھبتی ہوئی نگاہ ڈالنے کے بعد اگے بڑھ کر اس آدمی سے ہاتھ ملانے لگا جو کب سے گیٹ پر کھڑا انھیں ہی دیکھ رہا تھا شاید وہ گھر کا ملازم تھا اور انکی آمد سے باخبر تھا۔۔
زارا کو اسکے پیچھے آنا پڑا ،ورنہ اس وقت وہ اس حالت میں کہاں جاتی نہ ہی اسکے پاس کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی رقم۔۔۔ وہ ہر طرح سے بے بس تھی۔
مگر وہ اس شخص پر بھی بھروسہ نہیں کرسکتی تھی آخر وہ اسے جانتی ہی کتنا تھی۔۔

___*____*___*____ 

No comments:

Post a Comment