Monday, 5 August 2019

Dil py lagy Wo Zakham piya ||Episode#2

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا 
#دوسری_قسط
#از_ثمرین_شاہد
وہ شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے خود کلام ہوئی تھی۔
”اپنے لئے جو چائے بنائی تھی وہ بھی اُس بھوکے کو دینا پڑا ،پتہ نہیں کیا کھا کر آیا تھا جو ایک بار بولنا شروع کیا تو رکنے کا نام ہی نہیں لیا، خیر ہے جان چُھوٹی ۔۔۔“
اس نے باقاعدہ ہاتھ اُٹھا کر شکر ادا کیا لیکن جو بُو انکے نھتنوں سے ٹکرائی، وہ اسکے ہوش اُڑانے کے لئے کافی تھا
”اوو نو ۔۔ میرا کیک ۔“
کیچن کی طرف وہ تیزی سے لپکی اور جلدی سے اوؤن بند کرکے کیک نکالنے لگی جو آدھا جل گیا تھا ۔
”پہلے چائے اور اب یہ کیک ،او خدایا ضرور کوئی جن بھوت ہوگا۔“
اس نے فورًا سے اسے جن بھوت کے القاب سے نوازہ ۔
پھر بے دلی سے اسے اُٹھا کر کھڑکی کے قریب رکھ دی 
جو یقینًا چڑیوں کی خوراک بنتا۔
اب میں کیا کھاؤں ؟“ اس نے سوچتے ہوئے خود سے سوال کیا۔
اتنے دنوں بعد وہ اپنی پسند کا کچھ بنارہی تھی اور وہ بھی خاک میں مل گیا اُسے سچ میں رونا آیا مگر اس وقت بھوک کے مارے اسکے پیٹ میں چوہے کوڈنے لگے
وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے اسنیک وغیرہ ڈھونڈنے لگی مگر ملا بھی تو کیا چند بیسکٹ ۔۔۔جسے کھا کر اسے بھوک مٹانا تھی ، اس نے بے دلی سے ان کو اپنے حلق سے نیچے اُتارا تاکہ کچھ آفاقہ ہو۔
گھر میں سودا ختم ہوگیا تھا اور زبیر بھی ناجانے کب آنے والا تھا اسکے پاس کچھ پیسے تھے لیکن اُسکے لئے گھر سے باہر جانا پڑتا ۔
”اب میں کیا کروں ؟“
اپنی اس بے بسی پر اسے پھر سے رونا آیا مگر اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا وہ ڈرتے ڈرتے زبیر کو کال لگانے لگی
وہ سوچ ہی رہی تھی کیسے بولے اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اسپیکر پر آواز ابھری جیسے وہ سخت غصّے میں ہو۔
”کچھ بولو گی یا میرا وقت برباد کرنے کےلئے فون کیا ہے ؟“
”و۔۔و۔۔وہ میں پوچھنا چا۔۔“
وہ بامشکل اتنا بول پائی تھی کہ اسے درمیان میں ٹوکا گیا۔
”کیا وہ میں لگا رکھا ہے جو بولنا ہے جلدی بولو۔۔“
کرخت لہجے میں کہا گیا
میں باہر جانے کی اجازت لینا چاہتی تھی 
زارا نے بناء رُکے فورًا سے کہا
کیوں ۔۔؟ کیوں جانا ہے باہر ۔۔۔
وہ برہم ہوا
” گھر کا سودا ختم ہوگیا ہے اور آپ بھی نہیں ہے یہاں اس لئے میں نے سوچا کہ خود جاکر لے آؤں ۔۔۔“
اس نے ایک ایک لفظ ٹہر ٹہر کا کہا گویا وہ ناراض ہی نہ ہوجائے ۔
صاعقہ خالہ کے ساتھ چلی جانا ،پیسے وہی پڑے ہیں لیتی جانا ۔۔۔
حکم صادر ہوا اور پھر لائن کٹ گئی ۔
وہ کھڑی فون دیکھنے لگی اور حیران بھی تھی کہ اتنی جلدی وہ مان کیسے گیا۔۔
کاش زبیر ہمیشہ ایسے ہی رہیں کبھی نہ بدلیں
ہائے رے اسکی خواہش جو شاید ہی کبھی پوری ہوتی لیکن اب وہ صاعقہ خالہ کے ساتھ کیسے جاتی وہ تو خود بیمار تھیں ۔۔
”میں ایک بار پوچھ لیتی ہوں اگر اکیلے گئی تو یقینًا زبیر ناراض ہوجائیں گے۔“
جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرکے سر پر ایک بڑا سا چادر لیا ،الماری میں پڑے پیسے جو زبیر نے بتائے تھے اور جو رقم اس کے پاس موجود تھی اسے ساتھ اپنے پرش میں ڈالتی وہ نکل گئی۔۔اب اسے تھوڑی دور صاعقہ خالہ کے یہاں جانا تھا باہر کا موسم بہت حسین تھا ٹھنڈی ہوائیں ،رنگ برنگے پھول ،درختوں پر بیٹھے پرندے اور آس پاس کھیلتے بچے ۔۔ کتنا مختلف منظر تھا جو اسے کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا تھا۔
اس نے جلدی جلدی سارے مناظر کو اپنی آنکھوں میں قید وہ بہت کم ہی باہر نکلتی تھی ، چلتے چلتے وہ صاعقہ خالہ کے گھر کے باہر کھڑی تھی دو بار نوک کیا لیکن جواب نرادر ۔۔۔
اتنے میں انکا پوتا راہب دوڑتے ہوئے وہاں پہنچا ۔۔
کیا ہوا آپیا ،آپ یہاں ۔۔۔؟
زبیر آنکل گھر پر نہیں ہیں کیا، آپ اکیلی آئی ہیں؟
راہب نے اسکے آس پاس دیکھتے ہوئے کہا وہ جب کبھی کہیں نکلتی تھی تو زبیر ساتھ ہوتا تھا ۔۔
”وہ شہر سے باہر گئے ہیں چھوٹو۔۔۔ 
پتہ نہیں کب آئیں، گھر پر تمہارے دادی جان نہیں ہیں کیا ؟“
میں کب سے دروازہ نوک کررہی لیکن کوئی کھول کر نہیں دے رہا۔
وہ سامنے کھڑے سات سالہ راہب سے پوچھنے لگی ۔
نہیں آپیا ،دادی جان گھر پہ نہیں ہیں ساتھ والے آنکل کے گھر گئی ہیں ۔۔
اس بچے نے انگلی سے اس مکان کی طرف اشارہ کیا جہاں کچھ دن پہلے نیا ہمسایہ آیا تھا اور جسکی وجہ سے اسے آج بھوکا رہنا پڑا۔
اچھا چھوٹے تم انھیں بُلا دونگے ۔۔۔
وہ راہب کو صاعقہ خاتون کو بُلانے کا کہنے لگی ۔
وہ اس گھر میں نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔
راہب کھڑا کچھ دیر سوچنے کے بعد وہاں سے چلا گیا ۔۔
زارا آس پاس کھیلتے بچّوں کو دیکھ رہی تھی ۔
اسے وہ دن یاد آئے جب وہ گھر میں اپنے بابا کے ساتھ کھیلاکرتی تھی وہ اسکی تمام دوستوں کو گھر پر ہی بُلالیا کرتے تھے،بہار کے وہ حسین دن اسے بلندیوں سے لگتے تھے جیسے وہ دُنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہو لیکن جب اسے پیار دینے والے بابا سپردخاک ہوئے تو اسکی دُنیا ہی بدل گئی ،پھولوں کے درمیان رہنے والی ننھی زارا کو کانٹوں کے درمیان رہنا نہیں آتا تھا ، محبت میں لپٹی اس معصوم سی پری کے دامن میں جو کانٹے اُگے تھے اس نے اسکی روح تک کو زخمی کردیا تھا اسکا غم کسی سمندر کی گہرائی کی طرح اسکے اندر موجیں مار رہا تھا جو اسکے وجود کو اپنی لہروں میں پھنسا کر اسے ساحل سے بہت دور تک لے جاتا اور وہ سوائے خود کو کمزور محسوس کرنے کے کچھ نہیں کرسکتی تھی کوئی تھا ہی نہیں جو اسے بچا سکے ۔“
____*___*___*____
صاعقہ خالہ اس گھر میں بیٹھی اپنے نئے ہمسائے سے بات کررہی تھیں ۔
„بیٹا تم یہاں اکیلے ہی رہ رہے ،تمہاری فیملی کہاں ہیں ، کیا وہ بعد میں آئی گی ؟“
”نہیں آنٹی.۔۔ دراصل یہ گھر نیا لیا ہے بس اسے دیکھنے کےلئے آگیا ۔۔“
اس نے ایک پیلیٹ میز پر رکھکر خود ساتھ والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
”ارے یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔؟
بیوی بچّوں کو چھوڑ کر تم یہاں اکیلے رہ رہے ہو ۔۔؟“
وہ اپنے سوال کا جواب نہ پاکر بگڑتے ہوئے بولیں
”کیا ۔۔۔؟ بیوی اور بچّے ۔۔۔ نہیں نہیں آنٹی آپ غلط سمجھ رہی ہیں ، میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ۔۔”
اس نے مسکراتے ہوئے انھیں تفصیل سے آگاہ کیا ورنہ وہ اسے شادی شدہ غیر زمہ دار آدمی سمجھ بیٹھی تھی ۔
”یہ کھائیں نہ ، میرے گھر میں دودھ ختم ہوگیا ہے ورنہ آپ کو چائے پلاتا خیر یہ بھی اچھا ہے ۔۔“
اس نے نمکو سے بھری پیلیٹ اُٹھا کر انھیں لینے کو کہا جوکب سے یونہی بیٹھی تھی ۔
”نہیں بیٹا ۔۔میں یہ نہیں لے سکتی میرا بلڈپریشر بڑھا رہتا اور چائے میں زیادہ پیتی نہیں ۔“
انھوں نے صاف منع کردیا اور اپنی بیماری کا بھی بتانے لگیں.
”آپ سے بات ہوئی تھی آنٹی، تو آپ چل رہی ہیں نہ ۔؟“
اس نے پہلے سے طے ہوئی گفتگو کے حوالے سے پوچھا
”ہاں۔۔۔اب تم نئے ہو ، تمہیں کسی مدد کی ضرورت پڑے تو منع کیسے کرسکتی ہوں ۔۔“
انھوں نے ہامی بھرتے ہوئے کہا
”دادی جان ۔۔ دادی جان ۔۔“
راہب انھیں آواز لگاتے دوڑتے ہوئے ان کے پاس آیا
”اررے دادی کی جان آپ یوں دوڑتے ہوئے کیوں آئے چوٹ لگ جاتی تو ۔۔۔؟“
وہ اسے اپنے قریب کرتے جلدی میں آنے کی وجہ پوچھنے لگیں اور ساتھ ہی اسے نصیحت بھی کیا۔
”دادی جان ،وہ زارا آپیا ہے نہ وہ آپ کو ڈونڈھ رہی تھیں آپ سے کچھ کام تھا شاید ان کو ۔۔۔“
اس نے ایک ایک الفاظ پھولتے سانسوں کے ساتھ کہا 
”وہ خاموشی سے بیٹھا نمکو اپنے منہ میں ڈالتا انکی بات سُن رہا تھا صوفے سے اُٹھ کر میز سے پانی کا گلاس لے کر اسے تھما دیا
”یہ لو چھوٹو اسے پی لو ۔۔“
بچے نے فورًا سے گلاس کو پکڑ کر پورا کا پورا گلاس خالی کردیا اور خالی گلاس سامنے کھڑے نوجوان کو پکڑا کر اپنی دادی سے مخاطب ہوا
”چلیئے نہ دادی جان ۔۔“
”اچھا تو بیٹا اب میں چلتی ہوں ،دیکھوں تو زرا زارا بچے کو کیا کام ہے ۔۔”
وہ اس سے اجازت طلب کرنے لگیں
”ٹھیک ہیں آنٹی پھر میں تیار ہوکر آتا ہوں آپ مجھے باہر ملنا۔۔ اللہ حافظ “
اس نے اپنا اگے کا پلان بناتے ہوئے عقیدت سے سر کو خم کیا ۔
جبکہ وہ راہب کے ساتھ نکل گئیں ۔
___*___*___*____
”تم نے چیٹنگ کیا ہے ، تم ہار گئے ہو۔“
ایک بچہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ساتھ ہی موجود بچّوں نے بھی اسکے ہاں میں ہاں ملائی ۔
”ہاں ہاں تم ہار گئے ہو ۔۔ تم ہار گئے ہو ،ہم تمہیں نہیں کھیلائیں گے۔“
زارا شور کی آواز سے خیالوں کی دُنیا سے باہر آئی۔۔
اور سامنے بُّچّوں کو لڑتے دیکھا تو دوڑ کر ان کے پاس آئی اور انھیں ایک دوسرے سے الگ کرتے ہوئے کہا جو مار پیٹ کرنے لگے تھے۔
”کیا ہوگیا ہے بّچّوں ، لڑ کیوں رہے ہو ؟“
وہ باری باری ان دونوں بچّے کی طرف دیکھ کر بولی 
”آپی اس نے چیٹنگ کی ہے ۔۔“
”جی آپی یہ آوؤٹ ہوگیا ہے پھر بھی ہار نہیں مان رہا ۔۔“
اسکے ساتھی بھی ایک ساتھ بولے ۔
”اوووو ۔۔۔ یہ تو بہت بُری بات ہے نہ بلال !“
آپ ہار گئے ہو پھر دوسروں کو کھیلنے کیوں نہیں دے رہے ۔؟“
وہ اس نے وجہ پوچھنے لگی
”لیکن زارا آپی۔۔ مما کہتی ہیں کبھی ہار نہیں ماننا چاہیے۔۔“
بلال نے چہرے پر بلا کی معصومیت سجائے کہا
”زارا اسکی بات پر مسکرادی جبکہ وہاں کھڑے بچے بھی ہنسنے لگے ۔“
اس میں سے ایک بچہ بولا
”تو کیا تم ہماری بارے بھی لےلو گے؟“
پھر سے ہنسی گونجنے لگی .
”چپ ہوجاؤں سب ، ایسے کسی کی کا مذاق نہیں اُڑاتے ہیں ۔ “
زارا نے انھیں ڈانٹا۔
سب کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔
”بلال کی مما بلکل ٹھیک کہتی ہیں ہمیں زندگی میں کبھی ہار نہیں ماننا چاہیے ۔“
زارا کی بات سُن کر وہاں موجود سبھی حیران ہوئے کہ وہ کیا بول رہی ہے۔
زارا نے بلال کو خود سے قریب کیاپھر کچھ سوچتے ہوئے بولی
”لیکن بلال کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں جب ایک کھلاڑی ہارتا ہے تو اُسکی جگہ دوسرے کی باری آتی ہے
آپ فرض کرو حنین باربار ہار کر بھی کھیلتا رہے گا اور آپ کی باری نہیں آئے گی تو کیا آپ کو اچھا لگے گا ؟“
اب وہ جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
”نہیں ۔۔“
بلال نفی میں گردن ادھر اُدھر ہلاتے ہوئے اداس ہوکر بولا
”بلکل ۔۔ پھر آپ اسے گیم سے نکال دو گے یا ایسا کروگے کہ اس کے ساتھ نہیں کھیلو گے ۔۔
ہیں نہ ۔۔؟“
وہ اس سے پوچھنے لگی باقی بچّے اسے خاموشی سے سُن رہے تھے جیسے وہ کلاس میں بیٹھے ہوں اور کوئی ٹیچر سبق پڑھا رہا ہو یا کوئی کہانی سُن رہے ہوں جیسے بچے رات کے وقت دادی جان سے کہانی سنتے وقت خاموشی سے انھیں سُنتے ہیں
”جی ۔۔ “
بلال نادم ہوا
”اور رہی بات آپکی مما کی تو واقعی ہمیں اپنی زندگی میں ہار نہیں ماننا چاہیے بلکہ ناکامی کے بعد دوبارہ سے کوشش کرکے اپنی ہار کو جیت میں بدل دینا چاہیے ۔
تبھی تو ہم بہادر کہلائیں گے۔
وہ کیسے۔۔؟
اس نے ناسمجھی کے ساتھ سوال کیا
”دیکھو جب آپ کچھ یاد کرو اور وہ یاد نہ ہو تو دوسری مرتبہ کوشش کرو پھر تیسری بار ۔۔
اسی طرح بار بار کوشش کرنے سے آپ کو آپکا سبق یاد ہوجائے گا اور آپ اپنے امتحان میں کامیاب ہوجاؤگے ۔
سمجھے بدھو ۔۔“
وہ اسکے بالوں پر انگلی پھرتے ہوئے وہاں سے اُٹھ گئی اور صاعقہ خالہ کا انتظار کرنے لگی جو اب تک آئی نہیں تھیں ۔
بچّے اب سکون سے کھیل رہے تھے اس نے انھیں اُنہی کے انداز میں سمجھایا تھا
راہب کے ساتھ صاعقہ خالہ جو تقریبًا پچپن سال کی لگ بھگ ایک خاتون تھیں آہستہ آہستہ چل کر اس طرف ہی آرہی تھی
اسکی نظر پڑتے ہیں اس نے سکون کا سانس لیا۔وہ خود بھی چل کر تھوڑا آگے گئی سب سے پہلے اس نے سلام کیا۔
اسلامُ علیکم خالہ! کیسی ہیں ؟
”وعلیکم اسلام زارا بچے، میں بلکل ٹھیک ہوں اب بہت شکریہ میری بچی!، اگر تم نہ آتی تو ناجانے میرا کیا ہوتا دائم اور رانیہ تو اپنی خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے ۔“
انھوں نے اپنے بیٹے اور بہو کی غیر موجودگی کا بتایا ، 
اسے دیکھ کر ہی وہ مسکرائی تھیں انھوں نے اسکا شکر ادا کیا اور اپنا شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر میں پھیرنے لگیں ۔
زارا کو کبھی ماں کا پیار نہیں ملا ۔
ملتا بھی کیسے اسکی ماں اسکے اس دُنیا میں آتے ہی مالک حقیقی سے جاملی تھیں اپنی بڑی پھپھو کو بھی وہ چند بار ہی دیکھی تھی جبکہ چھوٹی پھپھو نے تو اس پر اتنے ظلم کیئے تھے اور آج بھی انکی وجہ سے ہی اسکی زندگی میں آنسوؤں کا سیلاب تھا اسے رہ رہ کر ماں کی کمی محسوس ہوتی جب بھی وہ کسی ماں بیٹی کو پیار کرتے دیکھتی وہ یہی سُوچتی کہ کاش اس کی ماں بھی اس کے پاس ہوتے وہ اپنی ماں سے لپٹ کر رہتی کبھی انھیں خود سے دور نہیں جانے دیکھتی ۔وہ غمگین ہورہی تھی تبھی صاعقہ خاتون نے اسے پکارا ۔
”کیسی ہو زارا بچے ۔؟“
وہ اکثر اسکے چہرے پر اداسی دیکھتی آئی تھیں لیکن کبھی پوچھا نہیں کہ کیوں اس طرح اداس رہتی ہو شاید یہ سُوچ کر وہ خود ہی بتا دے گی مگر زارا اس سے ملتی ہی کم تھی تو کچھ بتانا دور کی بات ہے۔
”جی جی میں تو ٹھیک ہو خالہ۔۔۔“
اس نے ڈھیروں آنسو اپنے اندر اتارا پھر منہ پرجھوٹی مسکراہٹ سجائے بڑی مہارت سے جھوٹ بولی
”مجھ سے کوئی کام تھا بچے؟ راہب کہہ رہا تھا تم بُلا رہی ہو۔۔“
”ارے میں تو بھول گئی ،زبیر کہہرہے تھے کہ آپ کے ساتھ جا کر سودا لے آؤں گھر میں سارا سامان ختم ہوگیا ۔۔“
وہ جیسے کچھ یاد آنے پر فورًا سے بولی ۔
”چلیں خالہ ؟؟؟ “
وہ ان کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگی کہ آیا وہ اس کے ساتھ جارہی ہیں یا اسے اکیلے جانا پڑے گا۔۔
”جی بچے ۔۔۔چلتے ہیں پہلے اُسے آنے دو پھر ساتھ چلیں گے ؟ اُس نے بھی آج ہی کہا ہے ۔“
انھوں نے کسی کے ساتھ چلنے کا بتایا۔
”کون ؟ ، کسے آنے دو خالہ۔۔۔“
وہ ناسمجھی سے ان سے سوال کرنے لگی ۔
”آپ میری بات کررہی ہیں نہ آنٹی؟ “
صاعقہ خاتون اسے دیکھ چکی تھی اسے دیکھ کر مسکرانے لگیں جیسے ہی زارا کی سماعت سے وہ آواز ٹکرائی جو اس کےقریب سے ہی آئی تھی اس نے فورًا پیچھے مُڑ کر دیکھا ۔
مگر یہ کیا اس کے پیچھے کھڑا یہ شخص وہی تھا جسکی وجہ سے آج صبح اتنی محنت سے بنائے کیک پر پانی پھر گیا تھا اسے دیکھ کر اسکے منہ کا زاویہ ہی بدل گیا اس بار وہ رف سے حلیے میں نہیں تھا بلکہ پوری طرح تیار جینز کے ساتھ اسٹرپ شرٹ کے آستین کو فولڈ کررکھا تھا اور بالوں کو جیل سے سیٹ کیئے وہ قدرے مختلف نظر آرہا تھا ۔
”تم۔؟؟ تم یہاں کیا کررہے ہو؟“
وہ اپنے چہرے پر ناگواری سجائے دانت پیستے ہوئے چیخ کر بولی ۔
(وہ اس سے کبھی ملنا نہیں چاہتی تھی لیکن ایک ہی دن میں دو دو بار ایسے شخص سے ملنا جس سے پہلی ملاقات ہی تکرار کا باعث بنے کافی ناپسندیدہ مرحلہ ہوتا ہے ۔۔)
”جی محترمہ ۔۔ میں !“
وہ انگلی کی مدد سے اپنے سینے میں ہاتھ رکھ کو بولا 
”لیکن ایک بات ضرور کہوں گا۔۔ بندہ کسی کو دیکھ کر سلام کرتا ہے اس سے اسکا حال پوچھتا ہے مگر آپ ہیں کہ سیدھا لڑنے پہ آگئی ہیں ، قسم سے آپ جیسی عجیب و غریب مخلوق سے میرا پالا پہلی بار ہی پڑا ہے ۔"

وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا اس نے بھی اپنا حساب برابر کیا ، وہی انداز چھوٹے سے سوال کے جواب میں پوری تقریر کرنا جسکا پسندیدہ کام تھا گویا وہ اپنی بات چند الفاظ میں ادا کرےگا تو اوسکر ایوارڈ سے ہاتھ دُھو بیٹھے گا ۔" 

No comments:

Post a Comment