#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_11
زارا بے دلی سے اُسکے پیچھے چلتی لان میں لگے پھولوں کو بھی دیکھ رہی تھی ، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا اور رنگ برنگے پھول اور چند پھولوں پر تتلیاں اُڑ رہی تھیں ،جسے دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی ،اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر وہ اپنے اندر سُکون اُترتے ہوئے محسوس کرنے لگی ۔
”ابراہیم چاچا !! کیسے ہیں آپ ؟“ سلام کے بعد وہ ان سے پوچھ رہا تھا
”جی بیٹا میں بلکل ٹھیک ہوں ،،، آپ کیسے ہو ؟“
”اللہ کا شکر ہے ،،، بس لگاتار ڈرائیونگ کرنے کے باعث زرا سی تھکاوٹ ہوگئی ہے چاچا!! ،کچھ دیر آرام کرلونگا تو بہتر محسوس کرونگا۔۔“
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا بیٹا!!،،، یہ کون ہے ؟؟“
ابراہیم چاچا پیچھے کھڑی زارا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے ۔
وہ انکے استفسار پر پیچھے مُڑ کر پھولوں کا معائنہ کرتی زارا کو دیکھ کر مسکرایا،،، اُسے لگا وہ واپس چلی جائے گی لیکن وہ یہی تھی اور بچّوں کی طرح پھولوں کی خوبصورتی سے مسرور ہورہی تھی۔۔
”یہ زارا ہیں، میں انھیں جانتا ہوں، کچھ دن یہیں رہیں گی ۔“
وہ انھیں زارا کے بارے میں بتانے لگا۔
کچھ دیر یونہی اس ہریالی کو دیکھنے کے بعد وہ چند قدم اگے آئی تھی اُسے دیکھتے ہی ابراہیم چاچا نے زارا پر سلامتی بھیجی ۔
وہ بے دھیانی میں اپنے سامنے کھڑے بزرگ کو نہیں دیکھ پائی تھی اور اپنی بے دھیانی پر وہ شرمندہ ہوئی تھی پھر نہایت ادب سے انکے سلام کا جواب دیا ۔
تینوں اس ساتھ اندر داخل ہوئے تھے ۔۔
اسکا گھر جتنا باہر سے خوبصورت تھا اندر سے اور بھی شاندار اور آرائش کا منہ بولتا ثبوت تھا ہر چیز نفاست سے اپنی جگہ پر رکھی تھی ،،، دیواروں پر بیش قیمتی پینٹنگز لگے تھے۔۔۔ہر لحاظ سے ایک حسین گھر ۔۔۔
وہ اسکی پسند کو سراہے بغیر نہ رہ سکتی ۔۔ واقعی ایک بہترین کالیکشن تھا۔
”مس زارا!! “ اُسکی پُکار پر وہ پلٹی تھی ۔۔
”جی “ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھ کر بس بولی ۔۔
اگر آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تو آپ جب تک چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں ورنہ شام تک میں آپ کو کسی ہوٹل میں چھوڑ آؤں گا فلحال مجھے سخت آرام کی ضرورت ہے ۔۔ اور یقینًا آپ بھی کافی تھکی ہوئی ہونگی ،آپ بھی آرام کرلیں ۔۔
یہ رہی اس کمرے کی چابی ،،، اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو بتادیجیئے گا ۔۔
اس نے ہاتھ میں پکڑی چابی کو زارا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
وہ چابی تھام چکی تھی اور سر ہلا کر اس کمرے کی جانب بڑھ گئی جس کی چابی وہ اسے تھما کر وہاں سے جاچکا تھا
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہی کمرے کے وسط میں درمیانہ سائید بیڈ نظر آیا اور اسکے ساتھ ٹیبل جس پر ایک لمپ رکھا تھا ۔۔ کمرے میں لائٹ رنگ کے پردے لگے تھے اور ایک اسٹڈی ٹیبل جس پر چند کتابیں موجود تھیں ۔۔۔ اسکے علاوہ چند پینٹنگز لگی تھی ۔۔
وہ سُست روی سے چلتے ہوئے بیڈ تک آئی وہ اب بھی رات والے ڈریس میں تھی ڈوپٹے کو سر پر ٹھیک سے لپٹ رکھا تھا۔ اسکے پاس پہننے کے لئے اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ کچھ لے کر آئی تھی اُسے موقع ہی نہیں دیا گیاکہ وہ اپنے ساتھ کچھ لے آتی بلکہ اُسے رات میں بے یارومدگار گھر سے نکال دیا گیا تھا
کچھ دیر یونہی بیٹھی رہی پھر اٹھ کر کمرے میں بنے واش روم میں گُھس گئی ۔
فریش ہوکر وہ واپس اسی جگہ آکر بیٹھ گئی جہاں سے کچھ دیر پہلے اُٹھ کر واش روم میں گئی تھی
اب اسے زوروں کی بھوک محسوس لگی تھی ، وہ کل دوپہر کا کھانا کھائی ہوئی تھی راستے میں اسے کھانے کی کئی چیزیں پیش کی گئی تھی مگر اس نے صاف انکار کردیا تھا اب وہ پچھتارہی تھی ۔۔
پہلے سوچا کہ جاکر کہے کہ بھوک لگی ہے لیکن پھر خود ہی اپنی سوچ کی نفی کرتے سونے لیٹ گئی۔۔
_____*____*___*_____
صبح زبیر دیر سے اُٹھا تھا ،اُٹھتے ہی وہ زارا کو آواز لگانے لگا وہ یہ بھول گیا تھا کہ کل رات وہ اس پر الزام لگا کر گھر سے نکال چکا تھا ۔۔
اسکا سر بہت دُکھ رہا تھا جب زارا ہوتی تھی تو اسکے بولنے سے پہلے ہی اسکے لئے چائے یا کافی بنادیتی تھی ۔۔
یاد آنے پر وہ گیٹ کھول کر باہر دیکھنے لگا مگر وہ نہیں ملی۔ وہ ملتی بھی کیسے اُس نے یہاں رُکنے کا موقع ہی کب دیا گیا ۔۔
وہ اسی حالت میں کار لے کر نکل گیا اُجڑے بال ، آدھ فولڈ آستین اور جوتوں سے بے نیاز ،وہاں کی سڑکوں پر کئی گھنٹے تک گاڑی دوڑانے کے بعد بھی اُسے مایوسی ملی تھی۔
وہ تھک ہار کر گھر واپس آیا تھا، چہرے پر پریشانی اور افسوس کے تاثیرات لیئے وہ کہیں سے بھی پہلے والا زبیر نہیں لگ رہاتھا۔۔
وہ شکستہ حالت میں گھر میں داخل ہوا ۔۔۔
بار بار اسکے ذہن میں ایک ہی خیال آرہا تھا
”کیا وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی ؟؟“
ہر بار وہ اپنی سوچ کی نفی کردیتا لیکن حقیقت کو جُٹھلانے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی ،،، اور سچ یہی تھا وہ جاچکی تھی اس سے بہت دور ،، شاید کبھی اسکے پاس لوٹ کر واپس نہ آنے کےلئے،،، وہ اسی کے لائق تھا ۔۔۔
”تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتی ۔۔۔“
”نہیں جاسکتی تم مجھے چھوڑ کر ، ز۔۔۔۔ا۔۔۔ر۔۔۔ا !!“
”تم اب بھی میری بیوی ہوں ۔“
”میں تمہیں ڈھونڈ نکالوں گا۔۔۔“
وہ اپنے بالوں کو مُٹھی میں لیئے دیوانہ وار چینخ رہا تھا۔۔
____*____*____*____
عائشہ اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کسی سے فون پر بات کررہی تھی،،، پھر موبائل کو بیڈ پر پھیکنے کے انداز میں رکھتے ہوئے کمرے سے نکل گئی ۔۔
ندا خاتون لاؤنج میں بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی تبھی عائشہ انکے برابر میں آکر بیٹھ گئی ۔۔
آتے ہی صوفے پر پڑا کشن اُٹھا کر اسے گود میں رکھتے ہوئے صوفے پر انکے برابر میں بیٹھ گئی۔۔
کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی پھر عائشہ نے اس خاموشی کو توڑا ۔۔
”مما !!“ ، میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں ۔“
”ہہممم۔۔۔ بولوں ، “ندا خاتون چائے کے کپ سے ایک گھونٹ بھرتے ہوئے بولیں
”مما ۔۔ میں کسی کو پسند کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں ،،، میں کب سے سوچ رہی تھی کہ آپ سے بات کروں ،،، لیکن ہر بار کل پر ڈال دیتی تھی“۔
وہ انھیں بناء کچھ سوچے سمجھے وہ بے دھڑک اپنے فیصلے سے آگاہ کررہی تھی ۔
ان پرتو جیسے کسی نے بھم پھوڑ دیا تھا۔
”یہ تم کیا کہہ رہی عائشہ ۔۔۔؟؟“
”تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟“
جب وہ چُپ ہوئی تو صدمے کی حالت بلند آواز میں بولیں۔
وہ اسکی بات سُن کر چکرا گئی تھیں ،وہ کب سے اپنے بھانجے زایان کو داماد بنانے کا سوچ رکھی تھی ،،، اور عائشہ انھیں الگ ہی کہانی سُنارہی تھی کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔“
”کیوں مما ؟؟، کیا غلط کہہ دیا ہے میں نے ۔۔۔
بس اپنی پسند سے شادی تو کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ کیا اب میں وہ بھی نہیں کرسکتی۔؟؟“
عائشہ حیرانگی سے انھیں دیکھ میں بولی ۔
”نہیں کرسکتی ۔۔۔ سمجھی تم ۔۔۔اور جاؤ اپنے کمرے میں ،،، تمہاری شادی کا فیصلہ میں کروں گی ،،، تم نہیں ۔۔۔“
انھوں نے چباچبا کر ہر لفظ ادا کیا۔
جبکہ عائشہ بھڑک گئی۔۔۔
”شادی تو میں اپنی مرضی سے ہی کروں گی مما!!“
میں زارا نہیں ہوں ،،، جو آپ کی من مانیاں سہتی رہے گی۔۔۔“
وہ اٹل لہجے میں کہتی پیر پٹکتی وہاں سے چلی گئی جبکہ ندا خاتون اپنی بیٹی کی اس حرکت پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں۔
___*____*___*___
زارا کی آنکھیں شام چھ بجے کھلی تھی ،،، وہ حیران ہوئی کہ وہ اتنی دیر سوتی کیسے رہی ،،،
پھر سے اسکی نماز قضاء ہوگئی تھی جسکا اسے بہت افسوس تھا۔۔
نماز ادا کرکے وہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھی تھی ، پتہ نہیں اُسے اور کتنی پریشانی اور دُکھوں کا سامنا کرنا تھا ،،، وہ آنکھوں میں نمکین پانی لیئے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے لئے آسانی مانگ رہی تھی، اسی نے ہر مشکل میں اُسے سنبھالا تھا ۔
اپنے رب کے سامنے بیٹھ کر اپنے دل کا حال بیان کرنے کے بعد جو سُکون اس کے دل میں اُتر رہا تھا اسکی اسے بہت ضرورت تھی۔
دُعا سے فارغ ہوکر وہ کمرے کے چکر کانٹنے لگی،،؟ بھوک کی وجہ سے اسکا بُرا حال تھا ،؟؟ بھوک کے مارے اسکے پیٹ میں جیسے چوہے کود رہے تھے۔۔۔
وہ یہاں کسی کو بھی جانتی نہیں تھی ،،، اگر وہ کمرے سے باہر جاتی اور کھانے کی فرمائش کرتی تو پتہ نہیں گھر کے مکین کیا سوچتے ۔۔۔
یہی سوچ کر وہ باہر نہیں گئی تھی۔۔
____*____*____*_____
” فہمیدہ آنٹی جلدی سے کھانا لگائیں ۔!!“
وہ ڈائینگ ٹیبل کی کرسی کھینچتے ہوئے کیچن میں کھانا تیار کرتی فہمیدہ خاتون کو کہنے لگا
کچھ دیر پہلے ہی وہ اُٹھا تھا فریش ہوکر سیدھا یہاں آکر کھانے کا بول رہا تھا ۔
اس نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں ٹائم دیکھا جو شام کے سات بجا رہی تھی۔۔۔وہ کافی دیر تک سوتا رہا تھا ۔۔
اب وہ بلکل بہتر محسوس کررہا تھا۔
کھانا لگ چکا تھا ،،، وہ اپنی پیلیٹ پر اپنی پسند کی چیزیں نکال کر کھانے لگا ابھی دو بائٹ ہی لیا تھا کہ اچانک سے اُسے زارا کا خیال آیا ۔
"زارا نے کھانا کھالیا؟،آنٹی!!“
چمچ پیلیٹ میں رکھتے ہوئے وہ سامنے کھڑی فہمیدہ خاتون سے پوچھ رہا تھا جو ٹیبل پر سوئیٹ ڈیس رکھ رہی تھیں ۔۔
”نہیں بیٹا وہ تو اپنے کمرے سے ہی نہیں نکلی ۔۔“
”کیا ؟؟۔۔۔ وہ اب تک باہر نہیں آئی ،،، آپ نے دیکھا ہے یا نہیں ؟؟ ،،، وہ ٹھیک تو ہے نہ ؟؟“
ایک ساتھ بے شمار سوال کر ڈالا
”میں ابھی دیکھتی ہوں ۔۔“فہمیدہ خاتون وہاں سے زارا کے پاس آئی تھیں۔۔۔
دو بار نوک کرنے پر زارا نے دروازہ کھولا۔۔۔
”جی ۔۔۔ آنٹی!!! “اُس نے سامنے کھڑی خاتون کو دیکھ کر کہا
”زارا بیٹا ،،، آسود بابا کھانے پر بُلا رہے ہیں ۔۔۔“
وہ دل ہی دل میں خوش ہوئی تھی چلو کسی کو تو اسکا خیال آیا ورنہ بھوک کے مارے اسکی حالت مرنے کے قریب تھی۔۔
”کیا آپ مجھے میرے کمرے میں کھانا لاکر دے سکتی ہیں ؟؟“
زارا نے چہرے پر معصومیت سجائے کھانا یہاں لانے کی فرمائش ظاہر کی ۔۔
اور ویسا ہی ہوا کچھ دیر میں کھانا اسکے کمرے میں بھیجوا دیا گیا تھا،،، وہ تو جیسے کھانے پر ٹوٹ پڑی تھی۔ جب بھوک مت گئی تو اسے اگے کی فکر لاحق ہوئی ،،،
”وہ کہاں جائے گی ؟؟“
” کیا جب تک وہ اپنے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ڈھونڈ لیتی تب تک اسے اس انجان آدمی کی آفر قبول کرکے یہاں رُک جانا چاہیے ؟؟ یا اس طرح کسی پر بھی بھروسہ کرنے جیسی غلطی سے پرہیز کرنا چاہیے؟“۔
وہ اپنے دماغ پر زور دے دے کر تھک گئی تھی لیکن اب تک اسے کوئی بھی حتمٰی جواب نہیں ملا تھا۔
____ *___*___*____
No comments:
Post a Comment