#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_12
کافی سوچ بچار کر وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ وہ یہی رُکے گی ۔
دوسرے دن صبح اُسے ناشتے کی ٹیبل پر بُلایا گیا تھا،،، اور وہ کچھ دیر میں آنے کا بتا کر ہاتھ میں پکڑی کتاب کو اسٹڈی ٹیبل پر رکھنے لگی جسے وہ پڑھ رہی تھی۔
جب وہ ناشتے کےلئے اپنے کمرے سے نکل کر مطلوبہ جگے پر پہنچی تو وہ اُسے ناشتے کی ٹیبل پر ہی دیکھا ، وہ اپنی پیلیٹ پر جھکا املیٹ کی ٹکڑے کاٹ کاٹ کر منہ میں ڈال رہا تھا اسے دیکھتے ہی سر کو جنبش دے کر سلام کیا۔۔
وہ بھی سلام کا جواب دے کر وہاں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی،،، فہمیدہ خاتون اس کے آتے ہی اسکا ناشتہ کیچن سے لے آئی تھیں۔۔
”تو پھر کیا سوچا آپ نے ۔۔؟؟“
جب وہ دونوں ناشتے سے فارغ ہوئے تب وہ اس سے مخاطب ہوا۔
”جب تک مجھے کوئی دوسری ٹھکانہ نہیں مل جاتا ،مجھے یہاں رہنے میں کوئی پروبلم نہیں ہے۔۔۔“
وہ اپنے لب کانٹنے ہوئے بولی تھی پھر اُسکے جواب کا انتظار کرنے لگی آیا اُس نے اپنا ارادہ تو نہیں بدل لیا۔
”ہہمممم۔۔۔ بہت اچھا فیصلہ کیا ہے ۔“
وہ سنجیدہ سا بولا
وہ جانتا تھا کہ یہاں اُسکا کوئی نہیں ہے ورنہ وہ اسے کسی ہوٹل میں چھوڑنے کا نہیں کہتی ،،، اس لئے کل رات اس نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی ، وہ چاہتا تھا کہ وہ رات بھر میں خود ہی فیصلہ کرلے کہ وہ کیا چاہتی ہے ۔
زارا اُٹھ کر وہاں سے جانے لگی مگر سامنے سے آتی فہمیدہ خاتون سے ٹکرا گئی ،،، اس ٹکراؤ سے فہمیدہ خاتون کے ہاتھ سے جوس کا گلاس چھوٹ گیا جو سیدھا زارا کے کپڑے میں گرا تھا۔
وہ اس سے بچنے کے لئے پیچھے ہٹی تھی مگر جوس کے چند قطرے اس کے کپڑے پر گرکے اسے داغ دار کر گئے تھے۔
”اوو نو ۔۔۔ “ اپنے کپڑے کی یہ حالت دیکھ کر وہ روہانسی ہوگئی۔۔
اس کے پاس پہنے کےلئے اور کوئی ڈریس نہیں تھا ۔۔
”اووو سوری بیٹا!!، میری وجہ سے آپ کے کپڑے گندے ہوگئے ۔“
فہمیدہ خاتون معذرت گواہ لہجے میں بولی تھیں.
”نہیں ۔۔نہیں۔۔۔ پلیز آپ سوری بول کر مجھے شرمندہ نہ کریں ،،، مجھے خود ہی دیکھ کر چلنا چاہیے تھا۔“
وہ شرمندہ ہوئی ۔۔غلطی بھی اسکی اپنی تھی وہ بناء پیچھے دیکھے اچانک سے اُٹھ گئی تھی اور فہمیدہ خاتون سے ٹکراگئی۔
وہ کرسی پر براجمان ان دونوں کے درمیان ہوئی کاروائی دیکھ رہا تھا تیز قدموں سے چلتا ہوا اس تک آیا۔۔جبکہ فہمیدہ خاتون وہاں سے کانچ کے ٹکڑے اُٹھا کر جاچکی تھیں۔۔
آپ ٹھیک ہیں ؟؟”وہ اُس سے پوچھ رہا تھا ۔
”جی !“اس نے ایک لفظ میں جواب دیا
لیکن آپ کےکپڑے ۔۔۔۔ وہ اسکے کپڑے کی جانب دیکھ کر بولا، جو تازہ اورنج جوس گرنے کی وجہ سے داغ دار ہوگئے تھے۔
”میں اسے واش کرلونگی۔۔“ زارا نے جھٹ سے کہا
”آپ چینج کرلیں ،،،ورنہ یہ بُرا لگے گا ۔“اُس نے اسے مفت مشورہ دیا
اس کے کہنے پر وہ کھڑی اسکا منہ دیکھنے لگی تھی،
اس کے پاس پہنے کےلئے اور کچھ نہیں تھا وہ خالی ہاتھ لاہور سے اسکے ساتھ کراچی تک آئی تھی ۔
اسکے چہرے کے تاثیرات دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہ تو اپنے ساتھ کچھ بھی لے کر نہیں آئی تھی پھر تو اسکے پاس پہنے کے لئے کوئی ڈریس نہیں تھا
”آئے ایم سوری ۔۔۔ لیکن آپ کے پاس تو کپڑے نہیں ہیں ،،، کوئی بات نہیں میں شام تک کچھ خرید لاؤنگا جب تک آپ چاہیں تو میرے کپڑے پہن سکتی ہیں مگر وہ آپ کو فٹ نہیں آئینگے۔“
وہ اسکے آخری جملے پر غصّے سے گھورنے لگی مگر کہا کچھ نہیں ،،، ابھی وہ اسکے رحم وکرم پر تھی ۔۔
اگر اسکی کسی بات کا بُرا مان کر وہ اسے گھر سے نکال دیتا جیسے زبیر نے نکالا تھا تو وہ کہاں جاتی اسکے پاس تو پیسے بھی نہیں تھے۔
”نہیں۔۔۔ شکریہ ،میں ٹھیک ہوں ۔“
وہ کہتی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
لیکن وہ شام میں اس کے لئے چند ڈریس لے آیا تھا ۔۔
وہ دونوں لاؤنج میں موجود تھے ،،، زارا اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی جبکہ وہ صوفے پر براجمان شاپنگ بیگ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔
”یہ آپ کے لئے کچھ کپڑے ہیں ،، میں نے آج سے پہلے کبھی لڑکیوں والے کپڑے نہیں خریدے اس لئے شاید یہ آپ کو پسند نہیں آئیں ۔۔“
وہ شانے اُچکاتے ہوئے بڑے مزے سے اپنے نئے تجربے سے اُسے آگاہ کررہا تھا۔
”لیکن یہ میں آپ سے کیسے لے سکتی ہوں ؟؟“
وہ اب بھی ویسے ہی کھڑی تھی ان بیگز کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
”کیوں نہیں لے سکتی ہیں ؟؟،، یہ میں آپ کےلئے ہی لے کر آیا ہوں ۔
وہ پورا ایک گھنٹہ لگاکر دوکاندار سے یہ کپڑے پیک کرواکر لایا تھا اسکے انکار کرنے پر وہ حیران ہوا تھا۔
”میں پہلے ہی یہاں رہ رہی اور اب یہ سب ۔۔“ زارا وضاحتی انداز اپناتے ہوئے بولی
”اچھا تو یہ بات ہے،، مجھے معلوم ہے آپ کافی خوددار ہیں ، اگر مجھ سے کچھ بھی لینے سے آپکی خودداری کو ٹھیس پہنچے تو آپ بعد میں مجھے اسکے پیسے ادا کردینا۔۔ “
وہ بڑی آسانی سے اسکے نہ کو ہاں میں بدل چکا تھا۔
جبکہ زارا حیران ہورہی تھی کہ کوئی بناء روکے اسطرح کیسے بول سکتا ہے ، کیونکہ جب کبھی وہ بولنا شروع کرتا تو بولتا ہی چلا جاتا اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا وہ پہلی ملاقات میں ہی جان گئی تھی کہ یہ بولے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔
”اب میں اتنا بھی نہیں بولتا۔۔۔“
اسے گُم سُم دیکھ کر وہ شرارتی انداز میں بولا
بلکل صحیح اندازہ لگانے پر وہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ،کیا وہ اسکا دماغ پڑھ رہا تھا۔۔
”اب آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں ،،، وہ کیا ہے نہ اکثر لوگ مجھ سے مل کر یہی کہتے ہیں کہ میں بہت بولتا ہوں ،تو مجھے لگا شاید آپ بھی یہی سوچ رہی ہونگی ۔“
دراصل میں ایک وکیل ہوں ،،، اور اس لحاظ سے بولنا میرے پیشے کا اولین حصّہ ہے۔۔ ویسے بچپن سے ہی۔۔۔“
وہ یقینًا اپنی پوری زندگی کی داستان سُنانے کا ارادہ رکھتا تھا جبکہ زارا کو اس سے یا اسکی زندگی سے جُڑی کہانی سُننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔
”مجھے کچھ کام ہے۔“
زارا اسکا ارادہ بھاپ کر اسے درمیان میں ہی ٹوک دی
وہ خجل سا ہوا اور اپنے سر میں ہاتھ پھیرتا اسے دیکھنےلگا۔
زارا بھی شکرادا کرکے اپنے کمرے میں آکر بیگ سے کپڑے نکال کر چیک کرنے لگی ۔
وہ گرمی کے مطابق دو تین سوٹ اُٹھا لیا تھا ،اس نے چینج کرکے وہیں ٹیبل پر رکھی کتابوں میں سے ایک کتاب اُٹھا کر پڑھنے لگی ،مطالعہ کرنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا وہ کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتی تھی، کبھی رسالے، میگزین تو کبھی تاریخ اور اسلامی کتابیں ۔۔
آج رات کے کھانے پر وہ اپنے کمرے میں رہنے کے بجائے ڈائینگ ٹیبل پر موجود تھی ، فہمیدہ خاتون بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھیں اور دونوں کو اپنے بچّوں کی طرح کھانا سرو کررہی تھیں۔
فہمیدہ خاتون کئی سالوں سے اسی گھر میں رہتی تھیں
انکی دو بیٹیاں تھی جنکی شادی ہوچکی تھی جبکہ انکے شوہر دو تین سال قبل ایک کار حادثے میں اس دُنیا سے چل بسے تھے۔۔
کھانے کے بعد وہ اپنی والدہ کی آمد کے بارے میں اطلاع دے رہا تھا۔۔
زارا یہ سُن کر تھوڑی پریشان ہوئی ، پتہ نہیں اس کی والدہ اسکے بارے میں کیا سوچتی کہ وہ کیوں یہاں رہ رہی ہے۔
____*___*___*___
اُس رات جب ندا خاتون نعیم صاحب کو عائشہ کی پسندیدگی کے متعلق آگاہ کیا تو انھوں نے یہی کہا کہ انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر وہ اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو ہر ماں باپ کی طرح وہ بھی اسکی پسند کو دیکھنے کے بعد قبول کریں گے جیسے نداخاتون اور انکے والدین نے اسکی پسند کو اہمیت دی تھی۔۔
یہ سُن کر نداخاتون کو اپنا کئی سالوں کی خواہش کے ٹوٹ جانے کا آندیشہ ہوا ۔۔
وہ کسی بھی ایرے غیرے سے عائشہ کی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ انھوں نے عائشہ کے لئے اپنے بھانجے زایان کو چُن رکھا تھا جو کہ پڑھا لکھا اور ویل سیٹل تھا۔۔ تو کس طرح وہ عائشہ کو اپنی من مانی کرنے دیتی ۔۔ لیکن نعیم صاحب کی بات سُن کر وہ اور بھی پریشان ہوگئیں۔۔
____*____*____*_____
دوسرے دن صبح پورے گھر میں جیسے ہل چل مچی تھی ،،، فہمیدہ خاتون دوڑ دوڑ کر ساری تیاریاں دیکھ رہی تھیں جبکہ وہ اپنی مماکو لینے آئیر پورٹ گیا ہوا تھا۔۔ صبح دس بجے انھوں نے آنے کا بتایا تھا۔۔
زارا نے فہمیدہ خاتون کے چہرے پر سجی مسکراہٹ دیکھ یہی اندازہ لگایا کہ وہ اس گھر کی مالکن کی آمد پر بے حد خوش تھیں لیکن وہ عجیب سی گھبراہٹ کا شکار تھی رہ رہ کر اسکا دل کررہا تھا کہ وہ کہیں چلی جائے ۔۔ اگر وہ یہاں سے جاتی بھی تو کہاں جاتی نہ ہی وہ یہاں کسی کو جانتی تھی اور نہ اسکا کوئی اپنا تھا سوائے چھوٹی پھوپھو جان کے ،،، لیکن وہ ان کے پاس واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔۔
اور یہی سوچ کر وہ اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی ۔۔ تقریبًا گیارہ بجے کے قریب وہ واپس آیا تھا اور اسکے ساتھ اسکی والدہ بھی آئی تھیں لیکن تب بھی وہ اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی ۔۔۔
دوپہر کے کھانے پر جب اُسے بُلایا گیا تو اُسے ناچاہتے ہوئے بھی جانا پڑا ۔۔
لاؤنج میں بیٹھی آسود کی مما کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی انکی شکل اسکی حلیمہ پھوپھو جان سے ملتی تھی اسکا دل کیا کہ وہ جاکر انکے گلے لگ جائے ان سے شکایت کرے لیکن یہ سوچ کر رہ گئی کہ اگر وہ اسکی پھوپھو جان نہ ہوئی تو وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گیں۔۔
وہ اس سے بہت خوش دلی سے ملی تھیں شاید
آسود اُسکے بارے میں پہلے ہی بتاچکا تھا اسے کچھ نہ کھاتی دیکھ کر وہ وہاں موجود مختلف چیزیں اُٹھا کر اسکی پیلیٹ میں رکھتی جاتیں۔
اس نے بے دلی سے چند نوالہ اپنے حلق سے اُتارنے کے بعد خود کو کمرے میں قید کرلیا ۔۔
وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اسے خوش ہونا چاہیے یا دُکھی، رہ رہ کر اسے بس یہی خیال آرہا تھا کہ
”کیا سچ میں آسود کی مما اُسکی حلیمہ پھوپھو تھی یا یہ اسکا وہم تھا ،،،
یا انکی شکل اسکی پھوپھو جان سے ہو بہو ملتی تھی ۔۔
”اگر یہ سچ میں اسکی پھوپھوجان تھیں تو وہ لڑکا جیسے فہمیدہ آنٹی آسود کہہ کرپکار رہی تھیں وہ کون ہے؟؟؟“
”کیا وہ ہی زایان(اسکا کزن ) ہے یا کوئی اور ۔۔۔؟““
اس جیسے بہت سے سوالات اسکے ذہن میں اُٹھ رہے تھے
”اگر یہ اسکی پھوپھو جان تھیں اور آسود ہی زایان تھا تو فہمیدہ خاتون کااسے آسود کہنا تھوڑا عجیب لگا۔
”کیا وہ اسے بھول گئے تھے؟“ ،،،
"اگر نہیں تو پھر انھوں نے اتنے سالوں میں اسکی خیریت کیوں دریافت نہیں کی ،، کیا وہ اس بات سے بے خبر تھے یا جان کر بھی انجان بن رہے تھے ؟“۔
یہی سوچ کر اسکا دماغ ماؤف ہونے لگا۔۔
زارا اسکے بعد سے اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی ،،،رات کے کھانے پر جب فہمیدہ خاتون اسے بلانے آئی تو اس نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اسے بھوک نہیں ہے ،،وہ اپنے سوالوں کا صحیح جواب چاہتی تھی اور یہ اُس وقت ممکن تھا جب وہ خود ان سے پوچھتی یا وہ دونوں اسے کچھ بتاتے ۔
____*____*____*____
No comments:
Post a Comment