Tuesday, 6 August 2019

Dil py Lagy Wo zakham Piya ||Episode14


#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_14
زارا واپس آنے کے بعد کچھ بُجھی بُجھی سی تھی ،اسے ڈر تھا کہ عاصم زبیر کو اسکے کراچی میں ہونے کا بتا نہ دے ،، اگر وہ اسے ڈھونڈتا یہاں آگیا تو وہ کیا کرے گی کئی بار یہ بھی سوچتی کہ وہ کیوں آئے گا بھلا اُسی نے تو نکالا ہے مگر پھر سوچتی اگر وہ آگیا تو کیا وہ اسکے ساتھ جانے پر مجبور ہوجائے گی پھر خود ہی اس بات کی نفی کرتی۔
”نہیں میں بلکل بھی اُس شخص کے ساتھ نہیں جاؤں گی جس نے میری ذات کی دجھیاں اُڑائی ہے مجھے کن عورتوں میں شمار کیا ،،، اتنے دنوں میں بھی مجھے وہ پہچان نہیں پایا ،،، اسکی نظر میں میری کوئی اہمیت نہیں ،ورنہ شاید آج مجھے اسطرح نہیں رہنا پڑتا۔
زارا کے لئے یہ ناقابل فراموش تھا، اس نے کرب سے آنکھیں میچ لی۔
تبھی دور سے اذان کی آواز آنے لگی ۔
وہ پوری عقیدت کے ساتھ خاموشی سے اذان سُنتی رہی پھر بستر سے اُتر کر وضو کےلئے چلی گئی،،
مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد وہ جائے نماز رکھی ہی تھی کہ فہمیدہ خاتون اس کے کمرے میں آئیں۔
زارا نے اُنھیں دیکھتے ہی سلام کیا جسکا جواب بھی خوش کُن انداز میں دیا گیا۔
پھر وہ زارا سے کہنے لگیں۔
”زارا!!۔۔۔ بیٹا ،،، آپ کو حلیمہ باجی بُلارہی ہیں ،، وہ ابھی اپنے کمرے میں ہیں ۔۔“
زارا جو اپنی نظروں زمین پر مرکوز کررکھی تھی ایک بار فہمیدہ خاتون پر نظر ڈالنے کے بعد اثبات میں جواب دے دیا ،جواب ملتے ہی فہمیدہ خاتون جاچکی تھیں ۔
کچھ دیر بعد زارا حلیمہ خاتون کے کمرے میں موجود تھی ،حلیمہ خاتون اس کے نزدیک بیٹھی اس سے پوچھ رہی تھیں۔
"زارا بیٹا!! ، تم ٹھیک ہو ؟؟ ، جب سے ہم واپس آئے ہیں ، تم اپنے کمرے سے نہیں نکلی اور اب میرے سامنے بھی بُجھی بُجھی سی لگ رہی ہو؟ کوئی بات ہوئی ہے کیا؟“
انکا لہجہ تشویش سے بھر پور تھا ۔
”نہیں ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں۔“
زارا نے بناء کسی تاثیر کے نظریں جُھکائے جواب دیا۔
”تم مجھ سے کچھ چھپارہی ہو زارا؟؟ ،کیا میں اس قابل نہیں کہ وہ بات جان پاؤ جسکی وجہ سے تم پریشان ہو۔“
حلیمہ خاتون نے اسکے اس انداز پر مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
زارا انھیں کچھ پل خاموشی سے دیکھنے لگی ، وہ یہ کیا کہہ رہی تھیں ،، کیا وہ چہرہ پڑھ سکتی تھیں یا صرف ایسااُسے لگ رہا تھا۔
انکے استفسار پر بھی جب زارا چُپ رہی تو وہ دوبارہ بولیں 
دیکھو زارا !! ،،، زایان نے مجھے بتایا ہے کہ تم شادی شدہ ہو ، وہ لاہور سے جب کراچی کےلئے نکلا تھا تو تم اسے راستے میں ملی تھی ،، آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ تمہیں اتنی رات گئے گھر سے نکلنا پڑا ۔۔“
میں جاننا چاہتی ہوں ،،، ایسا نہیں ہے کہ مجھے تم پرکوئی شک ہے بلکہ میں نے تمہیں دل سے اپنی بیٹی مانا ہے ،، میں چاہتی ہوں جیسے ہر بیٹی اپنی ماں سے کچھ نہیں چُھپاتی تم بھی مت چُھپاؤ زارا !!
کیا پتہ میں تمہاری کچھ مدد کر پاؤں ۔۔
وہ اسے اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے بول رہی تھیں ۔
زارا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ،، وہ خود کو سنبھال نہیں پائی ،،، اسکا سارا ضبط ٹوٹ گیا ۔۔
حلیمہ خاتون اسے روتے دیکھ کر پریشان ہوگئیں انکا مقصد اسے رُلانا نہیں تھا وہ بس اسکی تکلیف کو کم کرنا چاہتی تھیں ،وہ اسے بازو سے پکڑ کر چُپ کروانے لگیں جبکہ زارا روتے روتے انکے گلے لگ گئی پھر ایک ایک کرکے اپنی شادی کی حقیقت اور زبیر کا رویہ سب کچھ بتا ڈالا۔
حلیمہ خاتون تو جیسے یہ سب سُن کر سکتے میں آگئی ،، انھیں یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ اس معصوم پر اتنا ظلم کیا جاچکا ہے ،،، انھیں اسکی ہمت پر حیرانی ہوئی ۔۔
انھیں زارا کے لئے بہت بُرا محسوس ہورہا تھا ،،، کچھ دیر تک وہ اسے خود سے لگائے اسے چپ کرواتی رہیں جو رونے کا شُغل انجام دے رہی تھی ۔۔
جب دُکھ زرا کم ہوا ،،، دل کا بوجھ تھوڑا کم ہوا تو وہ روتے روتے وہی سو گئی ،،، انھوں نے بھی اسے جگایا نہیں ،، کتنی دیر تک وہ وہاں بیٹھی اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں
”مما !!
مما !!
۔۔تبھی زایان اُنھیں پکارتا کمرے میں داخل ہوا لیکن زارا کو انکے ساتھ دیکھ کر وہیں رُک گیا۔۔
جبکہ وہ زایان کو اشارے سے اپنے آنے کا بتانے لگی۔۔
”میں آپ سے ڈائینگ ٹیبل پر ملتا ہوں ۔“ 
کہتے ہوئے وہ وہاں سے چلا گیا ۔۔
کچھ دیر بعد حلیمہ خاتون اور زایان ایک ساتھ بیٹھے تھے البتہ زارا اب بھی انکے کمرے میں تھی۔
”مما !! کل عائشہ کی ڈیٹ فیکس ہے ،، خالہ جان نے بُلایا ہے ۔۔“
وہ کھانے سے فارغ ہوکر نیپکین سے ہاتھ پونچھتا انھیں بتارہا تھا ،، وہ کچھ دیر پہلے اس بات کی اطلاع دینے انکے کمرے میں گیا تھا مگر وہاں زارا کو دیکھ کر واپس جانا پڑا۔
”ہممم۔۔ ندا نے پہلے بتایا نہیں ،،، اسکی ان حرکتوں کی وجہ سے میں اس سے ناراض ہوں پہلے بناء بتائے میری بچی کی شادی کردی اور اب عائشہ کی منگنی ۔۔۔
پہلے تو یہ سُن کر انھیں حیرانی ہوئی مگر پھر غصّے سے بولیں۔
” او مما کول ڈاؤن ، شاید انھیں یاد نہیں رہا ہوگا“
زایان انھیں غصّے میں دیکھ کر بات سنبھالتے ہوئے بولا
”زایان تم چلے جاؤ میں یہیں رُکوں گی ،،، زارا کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ۔۔“
انھوں نےلمبی سانس لینے کے بعد کہا۔
”کیوں کیا ہوا زارا کو ۔۔؟؟ اور وہ آپ کے کمرے میں کیا کررہی تھی ..... ؟“
وہ سچ میں حیران ہوا پھر بولا
حلیمہ خاتون اسے زارا اور زبیر کی رشتے کی سچائی بتانے لگیں جسے سُن کر اسکے چہرے پر ناگواری نے جگہ لے لی۔۔
”میں اسکے شوہر سے مل چکا ہوں ، جب میری ملاقات ہوئی تب مجھے تو یہی لگا تھا کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے ،، مگر نہیں جانتا تھا کہ اس نے اپنے چہرے پر نقاب چڑھا رکھا ہے ، وہ دُنیا کے سامنے اچھائی کا ڈھونگ رچانے والا وہ شخص اندر سے اس قدر گھٹیا انسان ہوگا مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔۔ “
زایان کو ایک جھٹکا سا لگا تھا،، وہ انھیں زبیر سے ہوئی ملاقات کا بتانے لگا۔
”مجھے تو حیرت ہے کہ اُس انسان کو اس پھول سی بچی کا زرا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ کہاں جائے گی ،، اُسے اتنی رات کو گھر سے نکال دیا،، اگر اسکے ساتھ کچھ غلط ہوجاتا تو ۔۔۔
ایسے انسان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے جو عورتوں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں ،،، اتنے دنوں میں اُسے کبھی اس معصوم کا پیار نظر نہیں آیا ۔۔“
وہ افسوس کے ساتھ کہہ رہی تھیں۔۔
”لیکن مما !! ، زارا کو بھی چُپ نہیں رہنا چاہیے تھا ، مانتا ہوں وہ اسکا مجازی خدا ہے اور وہ ہر مشرقی بیوؤں کی طرح اپنے رشتے کو بچانے کےلئے یہ سب سہتی رہی مگر ایک بار اپنے حق کےلئے آواز اُٹھاتی تو شاید وہ اُس پر اتنا ظلم نہیں کرتا ،،وہ اسکی کمزوری کا فائدہ اُٹھا رہا تھا بس ۔۔“
حلیمہ خاتون سوچنے لگی زایان بھی بلکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔ زارا کو یوں چُپ نہیں بیٹھنا چاہیے ۔۔ویسے بھی آج کل گھریلو تشدد کے خلاف سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
”ہہممممم۔ تم بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن شکر ہے وہ اب اس زبیر کے پاس نہیں ہے ،،اللہ جو بھی کرتا ہے بہتر کرتا ہے ۔۔“
وہ اسکی بات سے متفق نظر آئی۔
”اوکے مما !! شب بخیر ۔۔۔ صبح مجھے نکلنا ہے ۔“
وہ انکا ماتھا چومتا اجازت لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا ،،،وہ بھی اپنے کمرے میں آگئیں ۔
دوسرے دن زایان ناشتے کے فورًا بعد ندا خاتون کے گھر کے لئے نکل گیا تھا ۔۔
____*____*____*____
جب وہ وہاں پہنچا تو اُسے دیکھ کر لائبہ اور ظفر کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ،نعیم صاحب بھی اسکی آمد پر بہت خوش تھے ۔۔
کچھ دن پہلے نعیم صاحب اور ندا خاتون فاروق کودیکھ آئے تھے ،،، اور نعیم صاحب کو وہ بہت پسند آیا تھا اسکے والدین بھی بہت اچھے ثابت ہوئے تھے ۔۔
انکا اخلاق دیکھ کر وہ خوش تھے کہ انکی بیٹی ایک اچھے گھر میں جانے والی ہے ،البتہ ندا خاتون نے اس پورے دورانیہ میں ایک لفظ نہیں کہا بلکہ خاموش بیٹھی رہیں۔
آج شام گھر پر ہی چند رشتے داروں کی موجودگی میں انکی شادی کی تاریخ رکھنے کےلئے چھوٹا سا فیکنشن رکھا گیا تھا،،اسی سلسلے میں کل رات وہ زایان کو بھی بتاچکی تھیں۔۔
اور وہ ایک اچھے بھائی کی طرح یہاں پہنچ بھی گیا تھا۔
پورا دن تیاریوں میں گزر گیا ،،شام میں سبھی مہمانوں کی موجودگی میں انکی شادی کی تاریخ پکی ہوگئی ۔۔
عائشہ کے تو جیسے خوشی کے مارے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے آج اسکی سب سےبڑی خواہش جو پوری ہوگئی تھی اور چند ماہ بعد وہ اس سے ازداوجی رشتے میں منسلک ہونے جارہی تھی۔۔
رات کے دو بجے بھی انکے گھر میں شام کا سماں تھا ،، فیکشن میں لگائی گئی لائٹیں اب بھی ویسے ہی لگی تھیں ،،، باقی رشتے دار گھر جاچکے تھے سوائے زایان اور عائشہ کی تایازاد بہن” نمرہ” کے ،،یہ دونوں ہی روکے تھے ۔۔
اس وقت زایان اور باقی گھر والے لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ،،اور ساتھ ہی چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔
تبھی لائبہ اپنے ساتھ ایک بڑا سا البم لے آئی ۔۔
پھر سبھی مل کر اس میں موجود ساری تصاویر زایان اور نمرہ کو دیکھانے لگی ،،،حالانکہ وہ یہ البم ہزار بار دیکھ چکی تھی ،،، لیکن وہ اسے زایان کو دیکھانا چاہتی تھی۔۔
زایان اور نمرہ بھی ان تمام تصاویر کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے ۔۔ جس میں اسکے مما اور پاپا ، ماموں مامی اور خالہ جان کے ساتھ ساتھ ان سب کی بچپن کی یادیں محفوظ تھیں لیکن چند نئی تصاویر جسے وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا ۔
جب اچانک سے اسکی نظر ایک تصویر پر جارُکی ،،، وہ اس تصویر کو دیکھ کر حیران ہوا ۔۔۔پھر البم کوتھوڑا قریب کرکے دیکھنے لگا مگر وہ چہرہ نہیں بدلا ۔۔
لائبہ یہ لڑکی کون ہے؟؟“
اسے لگا شاید اسے دھوکہ ہوا ہے اس کے گھر میں جو زارا ہے وہ انکی کزن زارا عباس نہیں ہوسکتی ،،اپنی تصدیق کےلئے سامنے بیٹھی لائبہ سے پوچھنے لگا جو یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی فورًا بولی۔
”زایان بھائی ۔۔۔ یہ تو زارا آپی ہیں ،،کتنی خوبصورت ہیں نہ ۔۔؟؟
میں عائشہ آپی سے جب بھی کہتی ہوں تو وہ مجھے ڈانٹ دیتی ہیں ۔۔“
لائبہ منہ پُھولاکر بتانے لگی ۔
جبکہ زایان بے یقینی کی کیفیت میں یونہی بیٹھا رہا ۔۔
”بتائیں نہ بھائی !!، زارا آپی پیاری ہیں نہ ؟؟؟“
لائبہ جواب نہ پاکر دوبارہ سے پوچھنے لگی ۔
مگر وہ اسکی سُن ہی کب رہا تھا، وہ تو زارا کے بارے میں سوچ رہا تھا اسکی معصوم سی کزن، جو بچپن میں ہر وقت بولتی رہتی تھی، کتنی بدل گئی تھی ،،اس کے ساتھ کیا سے کیا ہوگیا تھا اور وہ اب تک اس بات سے لاعلم رہا ، کل تک جب وہ اُسکے لئے غیر تھی تب بھی اُسکے ساتھ ہوئی زیادتی کا سوچ کر دل کیا تھا کہ وہ زبیر کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دے ۔۔
اُسے خود پر غصّہ آنے لگا ،ان نے اپنی مٹھی بھینج لیئے ۔ اگر وہ زارا کی حالت سے واقف نہ ہوتا تو شاید اتنا دُکھی نہ ہوتا لیکن اب جب اُسے زارا پر کیئے گئے ظلم کے بارے میں سب کچھ پتہ تھا تو اسکا قصوروار بھی وہ خود کو سمجھ رہا تھا کیونکہ اگر وہ لوگ ایک بار اس سے ملنے آجاتے تو شاید آج اسکی یہ حالت نہ ہوتی ۔۔

____*___*____*____

No comments:

Post a Comment