Tuesday, 6 August 2019

Dil py Lagy Wo zakham Piya ||Episode15

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_15
وہ سیدھا وہاں سے اُٹھ کر ندا خاتون کے پاس گیا جو نعیم صاحب سے بات کررہی تھیں ، اس کے ہاتھ میں وہی البم تھا۔
”ارے زایان آؤ بیٹھو۔۔۔“
وہ اسے دیکھ کر اسکے لئے جگہ بناتے ہوئے بولیں۔
”خالہ جانی !! ، مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ، کیا ہم آپ کےکمرے میں چل سکتے ہیں ۔ “
وہ اب بھی ویسے ہی کھڑا ان سے کہہ رہا تھا ۔۔
”کیا ہوگیا زایان ،، کچھ بولو گے ؟“
ندا خاتون اس بار تشویش انداز میں بولیں ، ناجانے ایسی کون سی بات تھی جسے وہ سب کے سامنے کرنے پر آمادہ نہیں تھا ،،انکے ہمراہ نعیم صاحب بھی پریشان ہوئے تھے۔
”اب کچھ بتاؤ گے کیا ہوا ہے؟ “
”ایسی بھی کیا بات ہوگئی جو تم باہر نہیں کہہ سکتے تھے ۔“
ندا خاتون کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھنے لگیں ۔
”آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں کہا خالہ جانی !! 
کہ زارا پاکستان میں نہیں رہتی ۔۔“
وہ اپنے سامنے کھڑی ندا خاتون سے پوچھ رہا تھا جبکہ اسکے سوال پر وہ چونک گئی تھیں ۔
” زایان !! ، یہ تم کیا بول رہے ہو ؟“
وہ راز کھل جانے پر اپنی اندورنی کیفیت کو چھپاتے ہوئے بولیں۔
”شاید سچ ۔۔۔ جس سے آپ نے ہمیں بے خبر رکھا ، آپ اپنی بھتیجی کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتی ہیں بولیں “
اسکا لہجہ کافی تلخ تھا ،،، آنکھوں میں بے پناہ غصّہ لیئے وہ ان سے پوچھ رہا تھا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے زایان ،، یہ تم کیا بولے جارہے ہو میں نہیں سمجھ پارہی ۔۔“
وہ سب جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی کوشش کررہی تھیں۔
”آپ نے کہا تھا کہ زارا کی شادی بہت اچھے گھرانے میں ہوئی ہے اور اُسکا شوہر اُس سے بہت پیار کرتا ہے ، وہ اسکے ساتھ بہت خوش ہے لیکن میں اُسکی حالت دیکھ چکا ہوں ،،زبیر نہایت گرا ہوا انسان ہے ،،، وہ زارا کے لائق کبھی نہیں تھا یہ سچ جاننے کے باوجود آپ نے اس معصوم کو اس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا۔“
وہ ہر ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا ،، اسکے آنکھوں غصّہ سے سُرخ تھیں ۔
”زایان تم غلط سمجھ رہے ہو ،،میں ایسا کیوں کرونگی ۔؟ 
اگر میں جانتی ہوتی تو ایسا کبھی نہ کرتی ۔“
انھوں نے زایان کے غصّے کو دیکھ کر کہا۔
”بس کردیں خالہ جانی میں کوئی وضاحت نہیں سُننا چاہتا ہوں ،کاش آپ نے اُسے بھی اپنی بیٹی کی طرح سمجھا ہوتا ، اب میں ایک پل بھی یہاں نہیں رُکھوں گا ،سنا آپ نے ،میں جارہا ہوں یہاں سے ۔۔ “
وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکلنے لگا تبھی نعیم صاحب چل کر اس تک آئے اور اس سے کہنے لگے‍
”زایان بیٹا مجھے معاف کردو ،، غلطی میری بھی ہے میرے لاکھ منع کرنے پر بھی ندا نے اسکی شادی زبیر سے کروادی ۔۔
کاش میں اسے سمجھاپاتا کہ یہ جو کررہی ہے غلط کررہی ہے ، دولت کی ہوس میں یہ اتنی اندھی ہوگئی تھی کہ اس نے اپنی بھتیجی کی زندگی برباد کردی ،اتنا بھی نہیں سوچا کے اسکی خود کی بیٹیاں بھی ہیں ۔“
میں تو ڈرتا ہوں کہیں اس بچی کی آہ نہ لگ جائے ۔۔
لیکن بیٹا !! تم رات کے اس وقت کہاں جاؤ گے ،ابھی رک جاؤ ،صبح چلے جانا “۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے التجائی انداز میں بول رہے تھے ۔
زایان سر اثبات میں ہلا کر کمرے سے نکل گیا ۔۔
زایان کی رات آنکھوں میں کٹی تھی ،وہ صبح سویرے ہی نکل جانا چاہتا تھا لیکن بچّوں کی وجہ سے رُکنا پڑا ،ندا خاتون کی غلطی کی سزا وہ ان بچّوں کا دل توڑ کر نہیں دینا چاہتا تھا ۔
تقریبًا دس بجے وہ وہاں سے نکل گیا ،راستے میں ڈرائیونگ کے وقت بھی وہ زارا کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔ اسے زارا سے پہلی ملاقات یاد آئی ،وہ کس طرح بہادر بن کر اس سے لڑرہی تھی البتہ اُسکی آنکھیں کچھ اور ہی بیان کررہی تھی۔ “
اور اسی لئے وہ دوسرے دن کپ دینے کا بہانا کرکے اسکے پاس گیا تھا تاکہ اُس سے پوچھ سکے کہ وہ کس لئے یوں ڈری ہوئی ہے ،، مگر اس کا التجا سے بھرپور لہجہ اسے یہ پوچھنے سے روک گیا اور پھر دوبارہ وہ ہمت نہیں کرپایا کہ اس سے پوچھ سکے ،جب وہ لاہور سے کراچی آرہا تھا اسے اس انداز میں تیار دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا ،،کیونکہ جب وہ صاعقہ آنٹی کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی تب اُس نے اچھی طرح چادر میں خود کو چُھپا رکھا تھا ۔۔ اور جب کبھی وہ اسے مخاطب کرتا تو وہ گھبراجاتی تھی ۔“
اس نے کار کی اسپیڈ اور بھی تیز کردی ،گھر پہنچتے ہی کار پورچ میں کھڑی کرکے وہ حلیمہ خاتون کو آواز لگاتا اندر داخل ہوا ۔
مما !!،
”مما کہاں ہیں آپ ؟
وہ لاؤنج میں کھڑی صفائی کروارہی تھی انھیں کام میں مصروف دیکھ کر وہ سیدھا ڈک بڑھتا ان تک آیا۔۔
زایان کو سامنے دیکھ کر وہ حیران ہوئیں ۔۔
رات میں فون کرکے اس نے بتایا تھا کہ وہ کل شام تک لوٹے گا لیکن وہ اتنی جلدی واپس آگیا تھا۔
”کیا ہوا میری جان !! ،تم تو شام میں آنے والے تھے پھر اتنی جلدی کیسے ؟“
”کیا تمہیں میری یاد آرہی تھی ؟“
وہ شرارتی انداز اپناتے ہوئے بولیں۔
جبکہ وہ مسکرا بھی نہ سکا اور آس پاس نظر دوڑانے لگا۔۔
” کیا بات ہے زایان تم پریشان لگ رہے ہو ؟“
اسکے چہرے پر سجی سنجیدگی دیکھ کر وہ اس سے پوچھنے لگیں۔
”مما زارا کہاں ہے ؟؟“
اس نے جواب کے بجائے اُلٹا سوال کیا۔
”وہ تو چلی گئی ،، کل رات میں اُس نے بتایا کہ اسکے کسی رشتے دار کا فون آیا تھا ،، وہ کافی بیمار ہیں اس لئے اُسے جانا پڑے گا ،میں نے کہا بھی میں ساتھ چلتی ہوں لیکن اُس نے صاف انکار کردیا۔۔
اور آج صبح ناشتہ کے فورًا بعد وہ نکل گئی ،کہہ رہی تھی آتی رہے گی ۔۔
وہ اسے تفصیلات سے آگاہ کررہی تھیں ۔
”کہاں۔۔۔؟؟ کہاں گئی ہے وہ !!
بولیں مما کہاں گئی ہے ز۔۔ا۔۔ر۔۔ا
آپ نے اُسے جانے کیوں دیا مما!!“
حلیمہ خاتون اُسے اس طرح چینختے دیکھ کر بولیں.
”زایان کیا ہوگیا ہے تمہیں ، بتایا تو وہ اپنے کسی رشتے دار کے پاس گئی ہے ۔۔“
”مما اسکا کوئی رشتے دار نہیں ہے بلکہ اسکا یہاں کوئی نہیں ہے اُس نے آپ سے جھوٹ کہا ہے۔“
وہ شکستہ لہجے میں بولا
”کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔ کیا جھوٹ بولا اُس نے ،،اور تمہیں کیسے بتا کہ اسکا کوئی رشتے دار نہیں ہے۔“
وہ کافی اُلجھ گئی تھیں انھیں کچھ سمجھ نہیں آیا زایان ان سے کہنا کیا چاہتا ہے اس لئے پوچھنے لگیں۔
”مما وہ زارا ہے ۔۔ہماری زارا ۔۔۔“
”عباس ماموں کی بیٹی ۔۔۔“
خالہ جانی نے ہم سے جھوٹ کہا کہ وہ یہاں نہیں رہتی ۔اتنے دن سے وہ ہمارے ساتھ رہتی رہی لیکن ہم سب اُسکی اصلیت سے ناواقف تھے ، پہچان ہی نہیں پائےکہ وہ زارا عباس ہے ،میری بچپن کی ساتھی ،، میری بہترین دوست۔۔
مجھے نہیں معلوم وہ یہ بات جانتی بھی ہے یا نہیں لیکن میں اب اُسے کہیں نہیں جانے دونگا ،، میں دوبارہ سے اُسے اُس آدمی کے پاس نہیں جانے دونگا ۔
حلمیہ خاتون اسکی بات سُن کر لڑکھڑا گئیں ،انھیں گہرا صدمہ پہنچا تھا ،اتنے دونوں سے وہ انکے پاس رہی پھر بھی وہ اُسے پہچان نہیں پائیں ۔
زایان نے اگے بڑھ کر انھیں گرنے سے بچالیا پھر انھیں صوفے پر بیٹھا کر پانی پلانے لگا۔۔
جب وہ تھوڑا سنبھلیں تو فہمیدہ خاتون کو انکا خیال رکھنے کا کہہ کر وہ اُسے ڈھونڈنے نکل گیا۔
وہ دیوانہ وار گاڑی چلاتا ہر جگہ اسے تلاش رہا تھا۔۔
لیکن وہ پیچھلے ایک گھنٹے میں بھی اسے نہیں ملی تھی۔۔
وہ مایوس نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن پھر بھی مایوسی اُسے اپنی لپٹ میں لے رہی تھی ،، اوپر سے ٹریفک جیم کی وجہ سے وہ اگے نہیں جا سکتا تھا ۔۔
کچھ دیر میں جب ٹریفک صاف ہوئی تو اس نے گاڑی آگے بڑھالی۔ مگر کچھ دور اسے لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔۔
اور ناچاہتے ہوئے بھی اُسے رکنا پڑا ۔۔
”کسی لڑکی کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ۔“
”پتہ نہیں کون ہے بے چاری ۔۔
ناجانے بچے گی بھی یا نہیں ۔۔۔
وہاں موجود لوگ آپس میں بات کررہے تھے 
اُنکی آواز جب اسکے سماعت سے ٹکرائی ۔۔
”کہیں یہ زارا تو نہیں ۔۔“
وہ حلق سے تھوک نگلتے زیر لب بڑبڑایا۔۔
پھر اپنی سوچ کی نفی کرتا کار کا دروازہ کھول کر
ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو ہٹاتا وہ اُس جگے پر پہنچا۔
سامنے ایک لڑکی خون میں لپٹی سڑک پر نیم مردہ حالت میں پڑی تھی اسکا چہرہ اسکے ڈوپٹے سے چُھپا ہوا تھا ،کچھ لوگ اُسے اُٹھانے کی کوشش کررہے تھے جبکہ ایمبولیس ابھی ابھی پہنچی تھی۔۔
اسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا ، اگر یہ زارا ہوئی تو۔۔
”نہیں یہ زارا نہیں ہوسکتی ۔۔“
اس کےلئے یہ سوچ ہی تکلیف دہ تھی وہ اُسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔
وہ کتنے پل یونہی کھڑا رہا ۔۔
مگر اچانک اسکی نظر چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ایک شناسا سے چہرے پر پڑی ۔
جس پر نظر پڑتے ہی اسکے چہرے پر مدہم سی مسکراہٹ بکھر گئی وہ ہجوم کے بیچ میں کھڑی تھی ۔۔
تھینگ گاڈ زارا تم. ٹھیک ہو۔۔۔
وہ دل ہی دل میں کہتا اسکی طرف بڑھ گیا ۔۔

____*____*____*____

No comments:

Post a Comment