#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_نمبر_16
اس کے عقب میں کھڑے ہوکر زایان نے آواز لگائی۔۔
"زارا۔۔۔؟"
وہ جو اس بھیڑ کا حصّہ بنی وہاں رونما ہوئے حادثے کو دیکھنے میں مصروف تھی اپنے عقب سے آتی آواز پر پلٹی اور اپنے سامنے زایان کو دیکھ کر حیران رہ گئی وہ اسکے دیکھنے پر مسکرانے لگا تھا۔
تم ۔۔۔؟ تم یہاں کیسے۔۔۔؟"
وہ قدرے توقف کے بعد بولی ۔
" بہرحال یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیے۔۔۔؟".
"تو مس زارا ، کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گی کہ آپ اس طرح کیوں چلی آئیں اور کہاں جارہی ہیں ۔۔؟"
وہ اب سنجیدہ ہوکر اس سے پوچھ رہا تھا ۔
"میں تمہیں جواب دینے کی پابند نہیں ہوں، میری مرضی میں جہاں بھی جاؤں ۔۔۔"
اُس نے چباچبا کر یہ فقرہ ادا کیا اور اگے بڑھی ہی تھی کہ اسے اپنے کلائی پرکسی کی گرفت محسوس ہوئی...
"یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔؟"
وہ پلٹ کر برق رفتاری سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی غصّے سے بولی۔
"سوری ۔۔۔ ، میں بس تم سے بات کرنا چاہتا ہوں، کیا ہم بات کرسکتے ہیں ۔۔۔؟"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جہاں غصّہ ہی غصّہ تھا۔
"ہمممم۔۔۔کیا بات کرنی ہے تمہیں ؟ "
وہ اس طرح بولی جیسے اُسے یہاں سے جانے کی بڑی جلدی ہو۔
"کہاں جارہی ہو۔۔؟ "
اس نے سوال کیا
"اپنے رشتے دار کے گھر۔۔۔" وہ نظریں جُھکائے مختصر سا بولی
"اور وہ کہاں رہتے ہیں ۔۔۔؟ کیا میں جان سکتا ہوں ؟"
وہ اُس سے پوچھنے لگا۔
"یہیں کراچی میں۔۔۔"
نظریں زمین پر مرکوز کیئے وہ اتنا ہی بول پائی۔
"چلو۔۔۔ میں تمہیں ڈراپ کردیتا ہوں، اس بہانے میری اُن سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔"
یہ کہہ کر وہ اگے بڑھ گیا لیکن وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی کچھ قدم آگے جاکر وہ رُک گیا پھر اسے آواز لگائی۔
"ارے ۔۔۔زارا وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔چلنا نہیں ہے کیا ؟"
"تم میرا پیچھا کیوں کررہے ہو ، مجھے اکیلا چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔۔؟
،میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی ،سمجھے تم ۔۔!!"
اس بار وہ سخت لہجے میں بولی جیسے اُسے باور کرنا چاہ رہی ہو کہ اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
"میں ہرگز تمہارا پیچھا نہیں کررہا ،میں بس تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں جیسے پہلے کی تھی"
اس پاگل لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا جیسے سامنے کھڑی اُس لڑکی کی بے وقوفی پر افسوس کررہا ہو ۔
"تمہیں میری مدد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، میں خود ہی چلی جاؤں گی۔۔"
وہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی اگر کچھ دیر مزید رُکتی تو آنکھیں جھلک پڑتی ،ضبط ٹوٹ جاتامگر وہ خود کو کمزور نہیں بنانا چاہتی تھی ،اب اُسے بہادر بننا تھا ۔
"اور کتنے جھوٹ بولو گی زارا عباس ۔۔۔!!
"آخر تم یہ مان کیوں نہیں لیتی کہ جھوٹ بول بول کر تم تھک گئی ہو ۔۔۔؟"
زایان کے یہ الفاظ اسکی سماعت سے ٹکرائے وہ جیسے جامد ہوگئی اُسے لگا اب وہ ایک بھی قدم نہیں بڑھا پائے گی۔ وہ اسے زارا عباس کہہ کرپُکار رہا تھا۔۔۔
لیکن ایسا کیسے ممکن تھا ،کیا اسے سچ کا پتہ لگ تھا ۔۔۔؟
کیا وہ جان گیا تھا کہ وہ اُسکی کزن ،اسکی بچپن کی ساتھی ہے ۔
اس جیسے بہت سے سوال تھے جو اسکے دماغ میں اُٹھنے لگے۔
"اب یوں بُت بنی کیوں کھڑی ہو ، جواب دو مجھے ۔۔۔
،چلو مان لیا دوسروں سے جھوٹ بول دینا آسان ہے مگر کیا تم خود سے جھوٹ بول کر آسانی سے رہ لیتی ہو۔۔۔؟"
وہ اسے چُپ کھڑی دیکھ کر غصّے میں بولا۔
"تو اور کیا کرو۔۔؟ بتاؤں مجھے کیا کرتی میں ۔۔۔؟"
"اگرمیں جھوٹ نہ بولتی ، میں تنگ آچکی ہوں سب کے سامنے جھوٹا ناٹک کر کرکے ، تم سب بھی تو مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے جیسے بابا چلے گئے فرق صرف اتنا تھا کہ اُن کا جانااٹل تھا کیونکہ مرنے کے بعد لوگ لوٹ کر نہیں آیا کرتے رب کے فیصلے پر میں راضی تھی ،
کبھی آکر یہ جاننے کی کوشش کی مسٹر زایان کہ زارا یہاں زندہ ہے یا مرگئی ، نہیں ناں ۔۔۔؟،تو پھر اب کیوں آئے ہو میری مدد کرنے ۔۔۔؟
،مرنے دو مجھے ،اور میں وہاں واپس جاکر تمہاری اور پھوپھی کی زندگی اجیرن نہیں بنانا چاہتی جیسے آج تک سب کی کرتی آئی ہوں۔ "
وہ ٹوٹ سی گئی تھی آنسوؤں کے قطرے بہہ کر اسکے سرخ رخسار کو تر کررہے تھے ۔۔۔
ایسا لگتا تھا کہ ابھی بہت بڑی مسافت طے کر آئی ہوں ،آنکھوں میں درد اُبھر رہا تھا۔
وہ اپنے سامنے کھڑی اس نازک سی لڑکی کو اس حال میں دیکھ کر دنگ رہ گیا کتنا کچھ دل میں چُھپائے بیٹھی تھی۔۔
اُسے شکایت تھی کہ وہ کیوں نہیں آیا ۔۔
اور ہونی بھی چاہیے واقعی وہ اپنی دُنیا میں گُم تھا بس ندا خالہ کی باتوں میں آکر ہر چیز ٹھیک سمجھتا رہا۔۔
اُسے روتا دیکھ وہ پریشان ہوگیا ۔
"زارا۔۔ پلیز یار !!"
"مجھے معاف کردو اور گھر چلو ،تمہیں جو بھی شکایتیں ہیں گھر چل کر پوری کرلینا ،ابھی مما تمہارا انتظار کررہی ہیں ۔۔
انکی طبعیت بھی ٹھیک نہیں ہے ،ناجانے رُو رُو کر اپنا کیا حال کرلیا ہوگا ۔۔۔"
وہ پیشمانی میں گھرے کمزور لہجے میں بول رہا تھا ساتھ حلیمہ خاتون کے لئے فکر مند بھی تھا جبکہ وہ اپنی پھوپھی جان کی خراب طبیعت کا سُن کر وہ اپنا غم بھول گئی تھی اور اسکے ساتھ چلنے کےلئے تیار ہوگئی تھی ۔
زارا کو دیکھ کر حلیمہ خاتون خود کو سنبھال نہیں پائیں اور اسے گھنٹوں گلے لگا کر روتی رہیں ،اس سے بے خبر رہنے کی معافی مانگتی رہیں۔۔
،
اس طرح سارے گلے شکوے ختم ہوگئے تھے ۔۔۔زارا نے بھی یہ ٹھان لی کہ اب وہ پیچھلی باتوں کو یاد کرکے اپنوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گی ،مگر اُسے اب بھی ایک فکر لاحق تھی کہ اگر زبیر یہاں آجاتا ہے تو وہ کیا کرے گی ۔
*****************
عاصم کے زریعے زبیر تک یہ خبر پہنچی کہ زارا کراچی میں ہے ۔۔اُسے تو یہی لگا تھا زبیر بھی ساتھ آیا تھا مگر حقیقت یہ نہ تھی۔
یہ اطلاع ملتے ہی وہ زارا کو ڈھونڈنے کراچی کےلئے نکل گیا لیکن پچھلے دو تین دنوں سے وہاں کی مصروف سڑکوں پر گاڑی دوڑانے کے باوجود بھی وہ اسے ںہیں ملی تھی ۔
**************
حلیمہ خاتون زارا کےلئے روز روز نئے نئے پکوان تیار کرواتی ،اسکی ہر ضروتوں کا اس طرح خیال رکھتیں جیسے ایک ماں باپ اپنی بچّوں کا رکھتے ہیں اُسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتیں۔
زارا بھی ان کا پیار پاکر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی اُسے ایسا محسوس ہوا رہا تھا جیسے عباس مرزا واپس آگئے ہوں ،وہ بھی بناء اس کے کہے اسکی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے ، اسے اپنے پاس بیٹھاکر پیار کرتے ، گھنٹوں اس سے باتیں کرتے ،اسکے ہر ناز نخرے برداشت کرتے تھے۔
آج وہ اسے قریب ہی پارک میں لےکر جانے والی تھیں تاکہ تازہ اور ٹھنڈی ہوا میں وہ بہتر محسوس کرے، زایان بھی گھر جلدی واپس لوٹ آیا تھا ،حلیمہ خاتون لاؤنج میں بیٹھی تمام سامان چیک کررہی تھیں جبکہ زارا انھیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی پچھلے کچھ دنوں سے تو جیسے مسکراہٹ اسکے چہرے کا خاصہ بن گئی تھی ۔
"چلیں لیڈیز ۔۔۔ !!"کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ٹریفک میں پھنس جائیں۔"
جب وہ تیار ہوکر نیچے آیا تو نیچے بیٹھی دونوں خواتین سے مخاطب ہوا۔
"ہم تیار ہیں ۔۔۔"
زارا اور حلیمہ خاتون ایک ساتھ بولی تھیں اور پھر خود ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگی اب پورے لاؤنج میں ان تینوں کی ہنسی گونج رہی تھی ۔
No comments:
Post a Comment