#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_نمبر_17
زایان انھیں گیٹ پہ چھوڑ کر کار پارک کرنے چلا گیا, جبکہ دونوں اندر جانے کے ارادے سے آگے بڑھیں ، سب سے پہلے دروازے پر کھڑے چوکیدار کو سلام کیا ، اور ایک ساتھ
اندر داخل ہوئیں ، ٹھنڈی ہوا نے ان کا استقبال کیا ،اندر ہر طرف گھنے درخت ،ہری بھری گھاس اور مختلف رنگوں کے پھول لگے تھے ،تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنچ لگے تھے ،وہاں سبھی اپنی فیملی کے ساتھ موجود خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے ،کچھ بچے جھولے لیتے دیکھائی دے رہے تھے تو کچھ کھیل کود میں مصروف تھے، ان کی زندگی سے بھر پور ہنسی پورے پارک میں گونج رہی تھی۔ کچھ لڑکیاں تصویر بنارہی تھیں ،تو کوئی اپنے بڑوں سے غبارے لینے کی ضد میں لگے تھے ، زارا یہ مناظر دیکھ کر اندر ہی اندر خوش ہورہی تھی ۔۔۔
وہاں موجود ہر ایک زندگی کے حسین پل جی رہا تھا ۔۔
زارا اور حلیمہ خاتون ایک ساتھ آہستہ آہستہ چل کر قریب ہی بنے ایک بنچ کی طرف بڑھ گئیں,جہاں ایک بزرگ عورت پہلے ہی بیٹھی تھی ان سے اجازت طلب کرنے کے بعد دونوں وہاں بیٹھ گئیں۔
کچھ دیر میں زایان اپنے ساتھ کچھ باسکٹ لیئے آتا دکھائی دیا یہ وہی باسکٹ تھیں جس میں انھوں نے کھانے پینے کی چیزیں رکھی تھی یہ دونوں اُسے دیکھ چکی تھیں۔
اب شاید وہ انھیں تلاش کررہا تھا آس پاس نظریں دوڑانے کے بعد وہ دونوں ایک بنچ میں بیٹھی بات کرتی نظر آئیں ۔
وہ بھی وہاں کی ٹھنڈی ہوا سے مسرور ہوتے گُنگُناتا ہوا ان تک پہنچا ۔
"ہیلو ۔۔لیڈیز ۔۔۔ !! کیا بات ہے ، آپ تو میرے بغیر ہی انجوائے کررہی ہیں ،ویسے یہ جگہ کتنی خوبصورت ہے ناں ؟؟"
بچپن میں بابا کے ساتھ یہاں آیا تھا ،مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ کبھی یہاں آنا بھی ہوگا ۔۔۔"
وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ماضی کی ایک یادگار لمحے سے آگاہ کرنے لگا اور ساتھ ہی گھاس پر سامان رکھتے ہوئے وہی بیٹھ گیا۔
زارا اور حلیمہ خاتون بھی اس کو دیکھا دیکھی وہاں سے اُٹھ کر گھاس پر آکر بیٹھ گئیں ۔
"زارا ۔۔۔!!"
زایان نے اُسے پُکارا۔۔
"ہمممم۔۔۔ وہ آس پاس کے مناظر میں کھوئی تھی زایان کے پُکارنے پر اُسکی جانب متوجہ ہوئی۔
"کہاں کھوئی ہوئی ہو۔۔۔؟"
"مم۔۔۔ میں بس یہاں کھیلتے بچّوں کو دیکھ رہی تھی ، سب اپنے والدین کے ساتھ کتنے خوش نظر آرہے ہیں ، دیکھو نا زایان ۔۔۔!!"
زارا انگلی کی مدد سے ایک فیملی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی, جو اپنے دو یا تین سالہ بچّے کو گود میں لیئے اسکی شرارتوں پر مسکرارہے تھے ۔۔
"واقعی۔۔" زایان نے مسکراکر بس اتنا ہی کہا:
"اچھا دیکھو تو زارا ۔۔۔!! آسمان کس قدر خوبصورت لگ رہا ہے ۔۔"
آسمان نارنجی اور نیلے رنگ میں ڈوبا ایک حسین منظر پیش کررہا تھا ۔۔
زایان نے موضوع بدلنا چاہا اس سے پہلے زارا اداس ہوتی ۔
وہ جانتا تھا اُسے عباس صاحب کی یاد آتی ہوگی ۔۔
" بہت خوبصورت ہے۔۔"
وہ جیسے اس میں کُھو سی گئی ۔۔
شام ہونے کی وجہ سے وہاں ستاروں کے مانند جگمگاتے فانوس لگے تھے ،جس سے پورے پارک کا منظر واضح دیکھائی دے رہا تھا جیسے دن کے اُجالے میں دیکھائی پڑتا ہے ۔
گیٹ پر کھڑا چوکیدار ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ مل رہا تھا ،اور پورے پارک میں بچّوں کی ہنسی گونج رہی تھی ۔
وہ سب بھی کچھ دیر تک وہی بیٹھے ٹھنڈی ہوا سے لطف اُٹھاتے رہے پھر چائے اور سنیک جو وہ اپنے ساتھ لے آئے تھے کے ساتھ انصاف کیا اور کچھ دیر میں وہاں سے گھر کےلئے نکل گئے۔۔ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ اچانک ان کی گاڑی سامنے سے آتی ایک تیز رفتار کار سے جاٹکرائی ۔ زایان اس گاڑی کو دیکھ کر پہلے ہی بریک لگاچکا تھا, مگر پھر ٹکراؤ کا سامنا کرنا پڑا ۔
گاڑی میں موجود نفوس کی چیخ اس سنسان سڑک پر سُنائی دی ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے ، مقابل گاڑی سے کوئی دروازہ کھول کر باہر نکلا ہیڈ لائٹ کی روشنی میں اسکا چہرہ صاف دیکھائی نہیں دے رہا تھا زایان بھی گاڑی سے اُتر کر باہر آیا۔ زارا اور حلیمہ خاتون اب بھی کار کے اندر ہی ڈری سہمی بیٹھی تھیں۔
"دکھتا نہیں ہے کیا۔۔۔؟ ، جو یوں اندھوں کی طرح گاڑی چلا رہے ہو ۔۔؟"
وہ شخص نکلتے ہی چیخنے لگا ۔
"سوری ۔۔۔ بھائی صاحب !!
لیکن غلطی سراسر آپ کی ہے ،یہ ون وے ہے, اور آپ غلط راستے میں گُھس آئے ہیں ۔۔،
میں نے بریک لگائی ورنہ شاید بہت بُرا حادثہ ہوجاتا "
زایان اس شخص کی حرکت پر پہلے تو خوب حیران ہوا ،مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر اُسے اسکی غلطی سے آگاہ کرنا بہتر جانا ۔
اندھیرے کی وجہ سے زایان اسکی شکل نہیں دیکھ پایا تھا لیکن اسکی چال سے تو یہی لگ رہا تھا کہ اس نے پی رکھی ہے ۔۔
"اونہہ۔۔۔کیا بکواس کررہے ہو ۔۔؟
یو اڈیٹ ۔۔۔ تم جیسے بہت دیکھے ہیں ۔"
مدمقابل شخص ہت دھرمی پر اُتر آیا تھا ، آگے بڑھ کر اس کے گریبان پکڑ کر بولنے لگا۔
ایک عجیب سی بُو زایان کے نتھنوں میں جاگُھسی ۔
وہ خود کو اس کی گرفت سے چُھڑاتے ہوئے ذرا پیچھے ہوا۔
زارا اور حلیمہ خاتون شور سُن کر باہر آئیں ۔
ایک جھٹکے سے پیچھے کرتے ہوئے اس آدمی کا چہرہ زایان کو شناسا لگا ۔۔
وہ اب بھی یونہی چیخ رہا تھا۔
"میری گاڑی کا جو نقصان ہوا ہے اُسکی بھرپائی کرو۔۔۔
، ورنہ میں پولیس بُلاؤں گا۔۔"
جبکہ زایان کار کے ساتھ کھڑی زارا اور حلیمہ خاتون کو دیکھ چکا تھا انھیں سامنے سے ہٹنے کا کہہ کر وہ ٹارچ نکالنے لگا ۔
ٹارچ کی روشنی اس آدمی پر پڑتے ہی زایان حیران و پریشان رہ گیا اور کچھ فاصلے پر کھڑی زارا کے چہرے سے تو جیسے رنگ ہی اُڑا گیا ہو ،ایسا لگتا تھا جیسے کسی خوفناک خواب کے زد میں آگئی ہو۔
سامنے کھڑا شخص زبیر تھا ،پہلے کے مقابلے میں اسکے چہرے پر داڑھی بڑھی ہوئی تھی ،بال بکھرے تھے، آستین کے کف کھلے وہ پہلے سے قدرے مختلف لگ رہا تھا ۔
"زبیر ۔۔۔" زایان نے سرگوشی کی ۔
پھر زارا کی طرف دیکھا تو صدمے کی کیفیت میں گھری ایک جگہ پر سُن کھڑی نظر آئی ۔
"مما۔۔!! آپ زارا کو لے کر کار میں بیٹھیں ،میں آتا ہوں۔"
وہ اسکے ساتھ کھڑی حلیمہ خاتون سے کہنے لگا ۔
"لیکن زایان!! یہ سب کیا ہورہا ہے ،اور یہ آدمی کون ہے ۔۔۔؟"
وہ چُپ نہیں رہ سکی زایان سے پوچھنے لگیں۔
"مما میں بعد میں بتاتا ہوں ،آپ پلیز زارا کو کار میں بیٹھائیں۔
لیکن تب تک زبیر اُسے دیکھ چکا تھا وہ لڑکھڑاتے ہوئے اُس تک آیا
"زارا ۔۔۔!!
آخر تم مجھے مل ہی گئی ۔۔
، تمہیں پتہ ہے ، میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ،ہر گلی ، ہر جگہ ۔۔
لیکن تم مجھے کہیں نہیں ملی ۔۔۔
تم کہاں چلی گئی تھی مجھے چھوڑ کر ۔۔
بولو ۔۔!!"
وہ اسکے قریب کھڑے اسکا ہاتھ تھامے کسی دیوانے کی طرح کہہ رہا تھا ۔
"اب میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا، مجھے جیسے ہی پتہ چلا کہ تم کراچی میں ہو ، اُسی وقت سب چھوڑ کر تمہارے پاس آگیا لیکن یہاں بھی تم مجھے اتنی مشقت کے بعد اب ملی ہو۔۔"
وہ اسکے چہرے کو دیکھ کر توقف کے بعد بولا جہاں مکمل خاموشی تھی شاید بےیقینی بھی۔
"چلو زارا ۔۔!!"
زبیر اسکا ہاتھ پکڑکر آگے بڑھنا چاہا مگر زارا وہاں سے نہیں ہلی وہی بُت بنے کھڑی رہی۔
حلیمہ خاتون بے یقینی کی کیفیت میں گھرے کب سے اس کاروائی کو دیکھ رہی تھی وہ زبیر کے بارے میں سُن چکی تھی لیکن اُسے کبھی دیکھا نہیں تھا ، زارا کی حالت دیکھ کر نہ رہ سکیں اور چند قدم آگے بڑھ کر زارا کے ہاتھ کو زبیر کی گرفت سے آزاد کروایا۔
"چھوڑو اسے ۔۔۔ یہ تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی ۔،
"کیوں ۔۔۔ کیوں نہیں جائے گی ۔۔؟ "
وہ استفسار کرنے لگا پھر بولا:
"یہ میری بیوی ہے ، اسے میرے ساتھ ہوناچاہیے نہ کہ غیروں کے ساتھ ۔۔"
وہ قریب کھڑے زایان اور حلیمہ خاتون کو دیکھ کہر آلود لہجے میں بولا۔
"ہم غیر نہیں ہیں اسکے ، زارا میری بھتیجی ہے ۔"
"سمجھے تم مسٹر زبیر احمد۔۔۔!!"
"تم جیسے گھٹیا انسان کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔"
زارا تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی ، وہ بے شک تمہاری بیوی تھی مگر میں مذید اُسے اس جہنم میں نہیں دیکھ سکتی ۔۔
اُس وقت تمہیں زرا بھی اسکا خیال نہیں آیا جب رات کے وقت اسکی تذلیل کرکے گھر سے نکال دیا تھا تم نے ۔۔۔
اب آئے ہو اس پر اپنا حق جمانے ۔۔
تمہیں تو پولیس کے حوالے کردینا چاہیے، دماغی مریض ہوتم ۔۔۔،
جو زارا جیسی معصوم اور محبت کرنے والی بچی کی قدر نہیں کرپائے، کوئی اور ہوتا تو شکر کرتے نہیں تھکتا۔۔۔"
بولتے بولتے حلیمہ خاتون کی سانس پھولنے لگی ،، مگر دل کا غبار کم نہیں ہوا۔۔
"اے بڑھیا ۔۔۔ یہ کیا بکے جارہی ہے۔۔۔؟ تیری بھتیجی اور یہ ؟؟"
"ہاہاہا ۔۔۔"
اس کی نام نہاد پھوپھی نے ہی تو اسے میرے حوالے کیا ہے ۔"
یہ کہہ کر وہ استنزائیہ ہنستا چلا گیا جیسے اُسے یقین نہ آیا ہو۔۔
زارا کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح نکل کر رخسار پہ بہہ رہے تھے،، آج پھر سے وہ اس شخص کے سامنے کھڑی تھی جس نے ہمیشہ اسے دھتکارا تھا ، جس نے اسکی پاک دامنی پر شک کا کانٹا اگایا تھا ۔۔۔
زایان ضبط نہیں کرپایا اور آگے بڑھ کر زبیر کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا ۔
"بس ۔۔اب ایک لفظ بھی اپنے اس غلیظ منہ سے نکالا تو تمہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجتے دیر نہیں لگے گی۔،
اس لئےبہتر ہوگا کہ تم خود ہی یہاں سے جتنی جلدی ہوسکے چلتے بنو۔۔"
اب وہاں رُکنا بے معنی تھا
زایان دونوں خواتین کو لے کر گھر لوٹ گیا تھا مگر پوری رات ان میں سے کوئی بھی سو نہیں پایا تھا ،
سب کی رات آنکھوں میں کٹی تھی ۔۔
*************
جب سے زایان گیا تھا دوبارہ کبھی انکی بات نہیں ہوئی تھی، لائبہ اور ظفر اُس دن کے بعد سے بُجھے بُجھے رہنے لگے۔۔۔
اُس دن کیا ہوا تھا وہ نہیں جانتے تھے لیکن وہ جب بھی ندا خاتون سے زایان کے یوں چلے جانے کے بارے میں پوچھتے تو وہ خاموش ہوجاتیں۔
کچھ دن پہلے ہی فاروق کے گھر والے عائشہ اور فاروق کی شادی کی ڈیٹ فیکس کرکے گئے تھے ،انکی طرف سے گھر والے ہی تھے جبکہ ندا خاتون کے باقی رشتے داروں نے اس تقریب میں شرکت کی سوائے ملک فیملی کے ۔
انھوں نے یہ بات حلیمہ خاتون کو نہیں بتائی لیکن وہ اپنی بہن کی ناراضگی دُور کرنا چاہتی تھیں اس لئے شام میں انکی طرف جانے کا پروگرام بنایا۔
************
No comments:
Post a Comment