Tuesday, 6 August 2019

Dil py Lagy Wo zakham Piya ||Episode18

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_قلم_ثمرین_شاہد
#قسط_نمبر_18
صبح کے وقت زارا حلیمہ خاتون کے پاس ہی سوگئی تھی .تقریبًا گیارہ بجے جب وہ دونوں اُٹھیں تو زایان نے فہمیدہ خاتون کو ناشتہ لگانے کاکہا۔ مگر ناشتے کی ٹیبل پر بھی وہ دونوں چُپ چاپ بیٹھی رہیں انھیں خاموش دیکھ کر زایان چُپ نہ رہ سکا ...
کیا ہوا مما .....!!
زارا....!!
"کیا آپ دونوں مجھے بھوکا مارنا چاہتی ہیں؟،
کل رات سے میں نے کچھ بھی نہیں کھایا ،اب تو مجھے لگتا ہے کہ مرہی جاؤں گا ۔"
اُس نے بے چارگی سے منہ بناتے ہوئے کہا ۔
حلیمہ خاتون کے ساتھ زارا بھی اُسکی طرف متوجہ ہوئی ، واقعی اُس نے کل سے کچھ نہیں کھایا تھا سوائے چائے کی ایک پیالی کے اور وہ پچھلے چند دنوں میں یہ جان گئی تھی کہ وہ بھوکا بالکل بھی نہیں رہ سکتا تھا...
زارا سامنے پڑی پلیٹ سے سینڈوچ اُٹھا کر اسکی طرف بڑھادی مگر وہ اسے لینے کے بجائے زارا کو گُھور رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو بھلا زایان اکیلا بھی کبھی کھا سکتا ہے۔
وہ ناشتے کے بعد اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لئے نکل گیا تھاجبکہ وہ بے دلی سے ناشتہ ختم کرکے لاؤنج میں بیٹھی تھی ،حلیمہ خاتون اُسکے برابر میں بیٹھی آج کا اخبار دیکھ رہی تھیں تبھی مالی بابا لاؤنج میں داخل ہوئے اور انھیں پُکارا.
"السلام علیکم !
بی بی جی !"
آواز سُن کر وہ انکی طرف متوجہ ہوئیں ،مالی بابا کبھی کبھار ہی لاؤنج میں آتے تھے اور ایسا تبھی ہوتا تھا جب کوئی ناآشنا ان سے ملنے آتا۔
حلیمہ خاتون سلام کا جواب دینے کے بعد ان سے پوچھنے لگیں ۔
"کیا بات ہے عالم بھائی؟"
آپ سے ملنے کوئی آیا ہے ،کہہ رہی ہیں آپ کی جاننے والی ہیں ۔
وہ اپنی آمد کی وجہ بتانے لگے
"ہممممم۔۔۔ آپ انھیں اندر لے آئیں ۔"
مالی بابا سر اثبات میں ہلا کر چلے گئے جبکہ حلیمہ خاتون ہاتھ میں پکڑا اخبار واپس اسکی جگہ رکھ کر سیدھی بیٹھ گئیں ۔
"پھوپھو جان کون آیا ہے ؟"
زارا نے ان سے سوال کیا
"پتہ نہیں بیٹا!! عالم بھائی کہہ رہے تھے کوئی جاننے والی ہیں ،وہ انھیں لےکر آہی رہیں ہوں گے."
"تم ٹھیک ہو ؟ ، اگر آرام کرنا ہے تو اپنے کمرے میں چلی جاو ..."
"نہیں پھوپھو جان !! میں ٹھیک ہوں ، آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں ۔"
وہ اُن کے ساتھ رُکنے کا بتانے لگی ویسے بھی اُسے نیند کہاں آنے والی تھی ۔
"اوکے بیٹا ...جیسی تمہاری مرضی۔ "
حلیمہ خاتون مسکراتے ہوئے بولیں .
چند منٹ بعد مالی بابا کے ساتھ کچھ لوگ لاؤنج میں داخل ہوئے،
حلیمہ خاتون سامنے ندا خاتون کو دیکھ کر حیران ہوگئی ، ساتھ بچے بھی تھے ۔
انھوں نے بچپن میں ہی انھیں دیکھا تھا باقی تصویروں میں ہی دیکھ رکھا تھا ۔
بچّوں کے سلام کا جواب دینے کے بعد وہ انھیں بیٹھنے کا کہنے لگیں جبکہ ندا خاتون اب بھی اسی جگہ کھڑی تھیں ، حلیمہ خاتون کے ساتھ حیران تو وہ بھی تھیں لیکن حیرانگی کی وجہ کچھ اور ہی تھی ،انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ زارا ملک ہاؤس میں ان کے ساتھ رہ رہی ہے جبکہ زارا نارمل انداز میں اپنی کزنوں سے مل رہی تھی ۔
حلیمہ خاتون اُن سے ناراض تھی لیکن پھر بھی انکی آمد پر بے رُخی دکھانے کے بجائے ایک میزبان ہونے کا فرض ادا کیا ۔
زایان چار بجے کے قریب گھر واپس آیا تو اُسے بھی انھیں یہاں دیکھ کر حیرانی ہوئی تھی مگر ماں کا چہرہ دیکھ کر اور زارا کو مطمئین دیکھ کر وہ چُپ رہا ، جیسے ہی لائبہ اور ظفر کی نظر اُس پر پڑی وہ دونوں خوشی سے کھل اُٹھے وہ سلام و دُعا کے بعدکچھ دیر ان بچوں سے باتیں کرتا رہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جانے سے پہلے ندا خاتون کو حلیمہ ملک نے اپنے کمرے میں بُلایا تھا وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں جب ندا خاتون کمرے میں داخل ہوئیں اور سلام کیا۔
سلام کا جواب سپاٹ لہجے میں دیا گیا پھر آنکھ کے اشارے سے اندر آنے کا کہہ کر حلیمہ ملک اُٹھ کر ٹھیک سے بیٹھ گئیں ۔کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی پھر حلیمہ ملک بولیں۔
" تم سے مجھے یہ اُمید نہیں تھی ندا !!"
تم اس حد تک گر گئی کہ ایک معصوم پر زرا بھی رحم نہیں آیا ،
وہ تمہاری اپنی بھتیجی تھی ندا !! ،اُس بھائی کی بیٹی جس نے ہمیشہ تمہاری خواہشوں کا احترام کیا ۔
تم سے چھوٹے ہونے کے باوجود بھی وہ کسی چیز کی فرمائش نہیں کرتا تھا تاکہ تم اپنی ضد پوری کرسکو مگر تم نے اُسکی سب سے پیاری چیز کو یوں بے مول سمجھ کر ایک ایسے انسان کے حوالے کردیا جو نشی اور دماغی طور پر بیمار ہے۔۔"
"میں سُنتی آئی تھی کہ خون سفید ہوجاتا ہے مگر اس حد تک کہ تم اپنا خون ہی نہ دیکھ پائی ، تم یہ بھی بھول گئی کہ مکافات عمل کیا چیز ہے ،اگر کل کو یہ تمہاری بیٹی کے ساتھ ہو تو کیا تم برداشت کرلو گی ۔۔۔؟؟"
ندا خاتون جو کب سے نظریں جُھکائے اپنی بہن کی باتیں سُن رہی تھیں اس طرح کہنے پر تڑپ اُٹھیں ۔۔
"بے فکر رہو ندا!!،
میں تمہیں کوئی بددُعا نہیں دے رہی ،جس طرح میں زارا کے لئے بُرا نہیں سوچ سکتی اُسی طرح عائشہ اور لائبہ دونوں ہی میری بچیاں ہیں اللّٰہ نہ کرے کہ کبھی اُنھیں کسی بھی تکلیف سے گزرنا پڑے۔۔۔!!"
لیکن کبھی وقت نکال کر سوچنا ضرور!!
ایک نہ ایک دن تمہیں اس بات کا ضرور احساس ہوگا کہ تم نے ایک یتیم بچی کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے ۔۔
اور یتیموں کا حق مارنے والوں کو اللّٰہ اور رُسول صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم پسند نہیں کرتا۔۔۔
اُس بچی سے معافی مانگ لو شاید کہ اللّٰہ تمہیں معاف کردے۔
وہ ندا کو یہ سب کہہ رہی تھیں تبھی زارا کواندر داخل ہوتے دیکھ کر چُپ ہوگئیں ۔
"پھوپھو جان !! آپ نے مجھے بُلایا "
زارا حلیمہ خاتون کو پُکارتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی مگر جیسے ندا خاتون پر اسکی نظر پڑی وہ معذرت کرتی واپس جانے کو مُڑی تبھی حلیمہ خاتون کے پُکارنے پر اسکے اُٹھے قدم وہیں رُک گئے خود کو پُرسکون کرکے وہ بولی
"جی پھوپھو جان ۔۔۔۔؟"
اور ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگی .
"آؤ ...زارا بیٹا!! ،میرے پاس آکر بیٹھو۔"
زارا چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ سجائے چل کر انکے برابر میں بیٹھ گئی ۔
" کیسی ہے ندا پھو پھو ۔۔۔؟"
وہ خود کو نارمل کرتی ہوئی انکا حال پوچھنے لگی ، اُن کے آنے کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا جب وہ انھیں مخاطب کررہی تھی ۔
" ٹھیک ہوں اور تم ؟"
وہ اس کے ٹھیک ہونے کا پوچھ رہی تھیں حالانکہ انکی وجہ سے وہ آج اس حال میں تھی ۔
" میں بھی ٹھیک ہوں ،خوش ہوں۔"
زارا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد معذرت کرتی اپنے گھر کے لئے نکل گئیں۔
___*____*____*_____*___
وہ جب واپس آیا تو ندا خاتون اپنی فیملی کے ساتھ جاچکی تھیں ،وہ سیدھا اپنی مما کے کمرے میں چلا گیا ۔انھیں سلام کرنے کے بعد وہ آکر انکے پاس بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا ۔وہ جو کتاب کا مطالعہ کررہی تھیں اسے دیکھ کر کتاب کو سامنے میز پر رکھتی ہوئی سلام کا جواب دے کر اُسے دیکھنے لگیں۔
"کہاں گئے تھے تم ؟، دوپہر سے نکلے ابھی آرہے ہو۔۔۔۔؟"
انھوں نے سامنے بیٹھے زایان کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
"اپنے ایک دوست کے پاس زارا کے خلع کےسلسلے میں کچھ معلومات لینے گیا تھا ۔۔"
وہ انھیں بتانے لگا ۔
"ہممممم۔۔۔!! پھر ؟"
وہ فورًا بولی۔
"وہ کہتا ہے کچھ وقت لگے گا لیکن فیصلہ زارا کے حق میں ہی آئے گا ۔"
وہ مزید بتارہا تھا
"تم نے زارا سے بات کی ہے؟؟"
وہ زارا سے بات کا پوچھنے لگیں۔
"ہمممم،،، وہ کافی پریشان اور اُلجھی ہوئی ہے لیکن ہم اُسے اس آدمی کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں چھوڑ سکتے،، اگر اُسے بدلنا ہوتا تو کب کا بدل چکا ہوتا ."
" یہ بات بھی ہے اگر کسی کو ایک بار نشے کی لت لگ جائے بہت کم ہی ہوتے ہیں جو اس سے چھٹکارہ حاصل کر پاتے ہیں ۔۔
اُس میں تو اور بہت سی بُرائیاں ہیں ، عورتوں پر ہاتھ اُٹھانا بزدل اور گھٹیا مردوں کی فطرت ہوتی ہے ،اوپر سے اُسے شک کی لاعلاج بیماری ہے،،، میرا تو کلیجہ کٹا سا جاتا ہے کہ میری بچی یہ سب اتنے دنوں تک کیسے سہتی رہی ،،
مضبوط سے مضبوط انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے۔"
وہ بولتے ہوئے رُو دی تھیں ۔۔
"مما ۔۔۔!! سنبھالیں خود کو اگر آپ یوں ہمت ہار جائیں گی تو زارا کو کون سنبھالے گا، اُسے آپکی محبت اور ساتھ کی ضرورت ہے۔۔"
اُس نے یہ بات جیسے کہی یہ وہ ہی جانتا تھا ،اندر سے وہ خود بھی زارا کے لئے پریشان تھا اُسے رہ رہ کر خود پر غصّہ آرہا تھا وہ کیوں نہیں آیا یہاں ۔۔؟ کیوں اُسے یہاں اکیلا رہنے کےلئے چھوڑ دیا۔۔۔.

کہیں نہ کہیں دونوں ماں بیٹے زارا کی اس حالت کا ذمہ دار خود کو سمجھتے تھے۔

No comments:

Post a Comment