#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_قلم_ثمرین_شاہد
#قسط_نمبر_19
#سیکنڈ_لاسٹ
رات کے کھانے کے بعد زایان سیدھا ٹیرس پر آگیا ، اوپر آنے سے پہلے وہ فہمیدہ خاتون کو چائے کا کہہ چکا تھا ، یوں ٹیرس پر آنا کم ہی ہوتا تھا مگر اس وقت اُسے ٹھنڈی ہوا اور کُھلی جگہ پر سانس لینے کی اشد ضرورت تھی تاکہ اندر کا سارا غبار ہوا میں تحلیل ہوجائے اور وہ اپنے اندر سکون اُتار سکے ۔
جس زارا سے وہ بچپن میں ملا تھا وہ بالکل شوخ ، خوش کن اور زندگی سے بھرپور ہوا کرتی تھی لیکن اب جیسے وہ کہیں کُھو سی گئی تھی اُسکا اس قدر سنجیدہ رہنا ، بولتے بولتے چُپ ہوجانا اور ہر وقت گُم سم رہنا زایان کو بے چھین کر دیتا۔
ان دنوں وہ کافی ڈسٹرب رہنے لگا تھا ، وہ ہر حال میں اُسے خوش دیکھنا چاہتا تھا ۔
وہ آسمان میں چمکتے پورے چاند اور اسکی اطراف بکھری روشنی کو دیکھنے میں مصروف تھا تبھی فہمیدہ خاتون نے اسے پُکارا۔
"آسود بیٹا تمہاری چائے۔۔۔!! "
"بہت شکریہ فہمیدہ آنٹی !
سوری اتنی رات گئے میں نے آپ کو پریشان کیا ۔"
وہ چائے کا کپ اُن سے لیتے ہوئے معذرت خواہ لہجے میں بولا۔
ارے نہیں آسود بیٹا۔۔۔ اس میں سوری کی کیا بات ہے ،،، آپ میرے بچے جیسے ہو ،اور ماں کبھی اپنے بچوں کے کام کرتی نہیں تھکتی ۔"
فہمیدہ خاتون اپنے لہجے میں پیار سموئے کہہ رہی تھیں۔
"بہت شکریہ آنٹی۔۔!! ، اللّٰہ سلامت رکھے ۔
اچھا ، اب آپ سُو جائیں ، رات بہت ہوگئی ہے میں بھی کچھ دیر میں سُو جاؤں گا ۔"
"شب بخیر !"
وہ چائے کی گھونٹ بڑھتا اس سے کہہ رہا تھا
۔
انکے جانے کے بعدوہ یونہی کھڑا آسمان میں چمکتے چاند اور اسکے اردگرد جگمگاتے ستارے کو دیکھتا رہا۔۔
پھر کچھ سوچ کر نیچے چلا گیا ،اب اُسے خلع کے کاغذات کا انتظار تھا،، مگر اُس کے بعد آنے والی پریشانیوں سے وہ زارا کو کیسے بچائے گا ایسے بہت سے سوالات اسکے دماغ میں اُٹھ رہیں تھی ۔
___*___*____*____*___
زارا چائے بنارہی تھی جب زایان پانی پینے کے لئے باورچی خانہ میں داخل ہوا۔۔ اُسے دیکھ کر سلام کیا اور فریج سے جُھک کر پانی کا بوتل نکالنے لگا ۔
زارا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینے کے بعد کپ میں چائے ڈالنے لگی ۔
وہ کھڑا پانی کا گھونٹ بھر کر بوتل واپس رکھنے لگا ۔
"کیسی ہو۔۔.؟ ، مما اُٹھ گئی ہیں ؟"
اُسے خاموش دیکھ اس نے خود ہی اسکا حال و احوال جاننا چاہا ۔
"میں ٹھیک ہوں ، اور پھوپھو جان اپنے کمرے میں ہیں ۔"
" ہمممم۔۔ "
وہ کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا جو خاموشی سے چائے کپ میں ڈال رہی تھی۔ اُسے زارا سے لاہور میں ہوئی پہلی ملاقات یاد آئی ، اسکا چڑ جانا ، تپ کر جواب دینا ، لڑنا اور بچّوں کو دیکھ مسکرانا ہر چیز جیسے اسکی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلتی محسوس ہوئی ،، وہ جب اس سے ملا تھا وہ اس طرح خاموش نہیں تھی لیکن اب ہوگئی تھی۔
"کیا وہ زبیر کو پسند کرتی ہے ۔۔۔؟ "
وہ خود سے ہمکلام ہوا پھر خود ہی اسکی نفی کرنے لگا
"نہیں ۔۔۔ شاید نہیں کرتی ورنہ وہ اُس سے خلع لینے کے لئے تیار کیوں ہوتی ۔۔؟ "
"اور وہ زبیر اس پر کس طرح ظلم کرتا آیا ہے ، وہ بالکل بھی اسکے لائق نہیں ہے۔۔اُس انسان کو تو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے ۔
"تمہیں چائے پینی ہے ۔۔۔؟ "
اچانک سے پوچھے جانے پر اُسکی سوچ کے بے لگام گھوڑے رُک گئے ۔
وہ جو فریج سے ٹیک لگائے کھڑا تھا سیدھا ہوگیا سرکو جنبش دےکر ہاں میں جواب دیا، اُسکی یہ حالت دیکھ کر زارا مسکرانے لگی ، وہ بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا مسکرادیا۔
تب تک زارا اُسے چائے کا کپ تھما کر وہاں سے جاچکی تھی۔
___*___*___*____*___
خلع کے کاغذات کچھ دن میں آگئے تھے ،، جب یہ بات زارا کو پتہ چلی تو اس نے بنا کسی تاثیرات کے اس پر دستخط کردیئے ۔۔
اب اُسے عدت پوری کرنی تھی ، پھر اُسکی دُنیا ہی بدل جائے گی وہ ایک شادی شدہ لڑکی سے طلاق یافتہ میں تبدیل ہوجائے گی ، لوگوں کی عجیب نظروں کا سامنا کرنا پڑے گا ، کیونکہ قصور کسی کا بھی ہو دُنیا عورت کو ہی غلط نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
اور زارا کو صرف بیس سال کی عمر میں یہ سب سہنا تھا۔
وہ سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی ، چند ماہ پہلے اُسے ایک ایسے رشتے میں باندھ دیا گیا تھا اُس وقت وہ بالکل نہیں جانتی تھی کہ اسکا اختتام یوں ہوگا ۔
زایان کچھ دن بعد لاھور چلا گیا تھا
وہ حلیمہ خاتون سے کہہ کر گیا تھا کہ اُسے کسی کیس کے سلسلے میں لاھور جانا ہے اور وہ وہاں کسی ہوٹل میں یا اپنے دوست کے گھر ٹھہرے گا ۔۔
دن جیسے پر لگا کر اُڑ رہے تھے ،، اب صرف گھر میں زارا ،حلیمہ ملک اور فہمیدہ خاتون ہی تھیں ،،، وہ دونوں مل کر زارا سے بات کرتی .،اُسے ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتیں مگر زارا کی دلی کیفیت سے نا آشنا تھیں۔
___*____*____*___*____
زایان روز اپنی مما کو فون کرکے انکی طبعیت اور زارا کے بارے میں پوچھ لیتا ،جیسے تیسے دن گزر رہے تھے وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا مگر اب بھی اُسے زارا کو لے کر پریشانی لگی رہتی تھی ۔
پورے چار ماہ بعد وہ کراچی واپس لوٹنے والا تھا اور اُس نے جیسے ہی اپنے آنے کی خبر حلیمہ خاتون کو دی وہ خوشی سے کھل اُٹھی تھیں اور وہ خوش کیوں نہ ہوتیں انکا بیٹا اتنے دنوں بعد واپس لوٹ رہا تھا ، ایک ہفتے بعد اسکی فلائٹ تھی ان دنوں ہی ملک صاحب بھی امریکہ سے آگئے تھے، چونکہ زارا عدت میں تھی اس لئے انکی اس سے ملاقات نہیں ہوپائی ،انھیں زارا کے بارے میں سُن کر بہت افسوس ہوا۔
زایان کو اپنے پہلے کیس میں ہی بڑی زبردست کامیابی ملی تھی اُس کے بعد بھی وہ چند کیسز لڑ چکا تھا ،، وہ پہلے ہی کراچی لوٹ جاتا مگر وہ زارا کی عدت پوری ہونے کا انتظار کررہا تھا کیونکہ وہ اس سے مل کر بات کرنا چاہتا تھا۔۔ ایک اچھا دوست بن کر اُسکا ساتھ دینا چاہتا تھا ۔
___*___*____*____*____
زارا اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب کا مطالعہ کررہی تھی جب حلیمہ خاتون دروازے پر کھڑی نوک کیا۔
زارا نے انھیں دیکھ کر ہاتھ میں پکڑی کتاب سامنے رکھی میز پر رکھ کر انھیں اندر آنے کو کہا۔
السلام علیکم ، پھوپھو جان !!
"آپ وہاں کیوں کھڑی ہیں ، پلیز اندر آئیں ۔"
"وعلیکم السلام بیٹا!! ، کیسی ہوں میری جان ؟؟"
انھوں نے علیک سلک کے بعد اسکا حال جاننا چاہا۔
"میں ٹھیک ہوں اور آپکی طبعیت کیسی ہیں ؟"
زارا انھیں اپنے برابر میں جگہ دیتی ان سے پوچھنے لگی ۔
"میں اب بالکل ٹھیک ہوں بس کل زرا سر میں درد تھا اس لئے آرام کررہی تھی اور صبح بھی میری آنکھ زرا دیر سے کھلی ، فہمیدہ کہہ رہی تھی کہ تم مجھ سے ملنے میرے کمرے میں آئی تھی ؟"
"جی ۔۔۔ بس آپ کے پاس بیٹھنے کا دل کیا،تو سوچا آپ کے پاس چلی آؤ ۔۔"
وہ تفصیل سے بتانے لگی
"ہممممم۔۔۔۔ آج میرے ساتھ باہر چلو ، تمہیں اچھا لگے گا اتنے دنوں سے یوں گھر میں بیٹھی بُور ہوگئی ہوگی ۔۔"
انھوں نے کہا تو وہ بس خاموشی سے سر ہلا کر رہ گئی۔
وہ دونوں شام میں شاپنگ کےلئے نکل گئیں ،حلیمہ خاتون کے اصرار کرنے پر زارا کو مجبورًا دو چار ڈریس اپنے لئے لینا پڑا۔۔
دو تین گھنٹہ لگا وہ دونوں بہت سی چیزیں لینے میں کامیاب ہوئی تھیں ۔
گھر پہنچ کر وہ دونوں باتیں کرتی راہ داری سے چلتی لاؤنج میں داخل ہوئیں تو سامنے زایان کو دیکھ کر حیران رہ گئیں وہ صوفے پر ایک ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مسکراتے ہوئے ملک صاحب سے بات کررہا تھا ۔۔
"لو لیڈیز آگئیں ۔۔۔"
ملک صاحب کی ان پر نظر پڑتے ہی ہاتھ کے اشارے سے بولے تو زایان بھی انھیں دیکھ کر مسکرانے لگا پھر اُٹھ کر سلام کرتا حلیمہ خاتون کے گلے لگ گیا۔
"کیسی ہیں مما۔۔۔؟ "
وہ ان سے الگ ہوتا پوچھنے لگا
" میں تو بالکل ٹھیک ہوں لیکن تم تو کل آنے والے تھے پھر۔۔۔.؟"
وہ یہ کہہ کر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں
" سرپرائز مما۔۔۔ کیا آپ کو اچھا نہیں لگا ۔۔۔؟"
وہ منہ بناکر بولا
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میرے بچے !" میں تمہیں یہاں دیکھ کر بہت خوش ہوں ۔"
وہ اسکے گال تھپکتے ہوئے بولیں تو آنکھیں میں امڈتی خوشی صاف دکھائی دینے لگی .
"ہیلو زارا!! کیسی ہو تم ؟"
اور مجھے دیکھ کر تم دونوں کے چہرے پر یوں بارہ کیوں بجے ہیں ۔۔۔؟ "
"دس از ناٹ فیئر ۔۔۔۔ میں ایک دن پہلے آکر تم دونوں کو سرپرائز دینا چاہتا تھا مگر سب بے کار۔۔۔۔"
"میں ٹھیک ہوں ، اور تمہیں یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی اور حیرانی بھی بس اس لئے۔۔۔۔"
اُسکے اس طرح کہنے پر وہ کھلکلاکر ہنس دیا.
"زارا ۔۔۔!! تم بھی نا ،، اتنی سنجیدہ ہوگئی ، میں مذاق کررہا تھا لڑکی ۔۔۔"
وہ اُسے دیکھ کر رہ گئی ۔
"ارے ۔۔۔مجھ بے چارے کو تو سب بھول گئے، میں بھی یہاں ہی ہوں ۔۔"
ملک صاحب خود کو نظر انداز ہوتا دیکھ انھیں یاد دلانے لگے تو سب کی ہنسی چوٹ گئی۔
"ہاہاہا۔۔۔"
پھر سب مل کر چائے کے ساتھ خوش گپیوں میں لگ گئے۔۔.آج
ملک ہاؤس کی درو دیوار میں ہنسی گونج رہی تھی ایسا لگتا تھا بہت دنوں بعد ان کے گھر میں کوئی خوش ہوا تھا۔
___*___*___*___
No comments:
Post a Comment