Tuesday, 6 August 2019

Dil py lagy Wo Zakham Piya ||Last Episode

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#آخری_قسط
#پہلا_حصّہ
اُسے زایان باغیچہ میں کھڑا نظر آیا تو وہ ہاتھ میں چائے کا کپ لیئے سست روی سے چلتی اسکی جانب چل دی۔
"تمہاری چائے ۔۔۔ !"
اور ایک پیالی اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولی زایان جو دیوار پر دونوں ہاتھ ٹکائے جُھک کر کھڑا تھا اسکے پکارنے پر سیدھا ہوا پھر اسکی طرف پورا گھوم گیا ، اُس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد زارا کے ہاتھ سے چائے کا تھام لیا اور اسکا شکریہ ادا کرنے لگا۔
"شکریہ۔۔ ! ، یوں روز روز میرے لئے چائے بنانے کے لئے۔۔۔"
میرے کہنے پر ہنستی و مسکراتی رہنے کے لئے ، مما کا اتنا خیال رکھنے کےلئے 
اور ہمیں معاف کرنے کے لئے۔۔۔"
وہ ایک ٹرانس میں بولتا گیا ، بولتے بولتے اُسکے لہجے میں اداسی در آئی، وہ اسکی طرف دیکھنے کے بجائے آسمان کو گُھور رہا تھا ۔۔
"
"تمہیں کتنی بار کہا ہے زایان !! ، میرے ساتھ ہوئی زیادتی کا الزام تم خود کو نہ دیا کرو ،، اس میں تمہاری اور پھوپھو جان کی کوئی غلطی نہیں تھی۔
وہ غصّے سے اُسے گھورتے ہوئے بولی ۔
وہ ہر مرتبہ ایک ہی بات کہتی مگر ناجانے وہ اس طرح کیوں کرتا تھا شاید وہ خود کو ان سب چیزوں کا ذمہ دار سمجھتا تھا یا وہ ہمیشہ اس بات کا ذمہ دار خود کو گردان کرکے تکلیف محسوس کرنا چاہتا تھا تاکہ زارا کا دُکھ محسوس کرسکے ،، مگر وہ نہیں جانتا تھا وہ ایک صابر لڑکی تھی ہر مصیبت کو خود پر جھیلنے والی مضبوط لڑکی ۔۔۔ جسے اللہ نے بہت ہمت سے نوازہ تھا اور سب سے بڑھ کر دوسروں کو خوش رکھنے والی ،دوسروں کی تکلیف پر تڑپ اُٹھنے والی
"لیکن اگر ہم تمہیں۔۔۔۔"
زایان اب بھی آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا مگر زارا اسکی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے بولی.
" چُپ کرجاؤ۔۔۔ اگر آج کے بعد تم نے اس موضوع کو اُٹھایا تو میں یہاں سے چلی جاؤں گی ۔ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ،، کبھی نہ لوٹنے کے لئے۔۔"
وہ اسکی بات سُن کر جیسے ہوش کی دُنیا میں واپس آیا اس نے جھٹکے سے اپنا رخ اسکی طرف پھیر کر اسکے چہرے کی تاثیرات کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگا جہاں بھرپور سنجیدگی تھی۔
"کیا کہا تم نے۔۔۔؟"
وہ اس بات کی تصدیق چاہتا تھا آیا جو الفاظ اسکے سماعت سے ٹکرائے اُس میں زرا بھی سچائی ہے یا اسے سُننے میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔
" وہی جو تم نے سُنا ۔۔۔"، میں نہیں چاہتی کہ تم میری وجہ سے خود کو ہلکان کرو ۔۔سمجھے تم۔۔ !" 
وہ تپ کر بولی اور وہاں سے چلی گئی۔۔
___*___*___*___*___
اُس دن کے بعد سے ایک ہفتے تک زایان اور زارا کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی وہ روز ناشتہ کیئے بغیر ہی آفس کے لئے نکل جاتا اور رات دیر سے گھر واپس لوٹتا ،آج اتوار تھا اور اسکی چھٹی تھی اسی لئے ناشتے کی ٹیبل پر سبھی ایک ساتھ بیٹھے ناشتہ کررہے تھے تبھی حلیمہ خاتون نے سب کو مخاطب کیا ،تمام نفوس انکی جانب متوجہ ہوگئے۔
"کل سے عائشہ کی شادی کی تقریبات شروع ہوجائیں گی ، اور وہ چاہتی ہے کہ ہم اسکی شادی میں شریک ہوں۔۔ اس لئے ہمیں کل دوپہر میں نکلنا ہے۔"
" ہمممم ! یہ تو اچھی بات ہے ، ملک نواز فورًا بولے ۔
"زایان آج کل تم کافی دیر سے گھر آرہے ہو ، بیٹا جلدی آیا کرو ، اور اگر ہوسکے تو کچھ دنوں کی چھٹی لے لو۔"
وہ اب زایان سے کہنے لگیں۔
"مما لیکن میں کیسے ؟۔۔۔ "
وہ جوس کا گلاس خالی کرتے ہوئے بولا۔
"بس زایان ۔۔ میں کچھ نہیں سُننا چاہتی ،، کل ہم سب وہاں کےلئے نکل رہے ہیں ، اس لئے نو ایسکیوزز۔"
"اور یہ کیا بات ہوئی بھلا ،، میں آج کل دیکھ رہی ہوں تم دن رات آفس میں ہی گزارتے ہو ،اگر کل کو تمہاری شادی ہوجاتی ہے تو تم اپنی فیملی کو بھی اس طرح نظرانداز کرو گے ۔"
وہ غصّے میں بولیں.
وہ اسکی پچھلے ایک ہفتے کی معمول کو دیکھ کر واقعی پریشان تھیں زایان صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور رات گئے واپس لوٹنا جب سب سُو چکے ہوتے ۔نہ ٹھیک سے کھاتا اور نہ پہلے کی طرح ان سب سے بات چیت کرتا ۔
"اووو گاڈ مما ۔۔ آپ بھی نا ! "
مجھے کسی کیس کے سلسلے میں ایسا کرنا پڑا ، خیر اب سے میں جلدی گھر آیا کروں گا ،ٹھیک ہے ۔"
وہ انھیں چانچتی نظروں سے دیکھنے لگا آیا وہ اب بھی ناراض ہیں یا نہیں۔
"ہمممممم۔۔۔ چلو اب کھانا ختم کرو ۔۔"
وہ اُسے کھانے سے ہاتھ پیچھے کرتے دیکھ چکی تھیں ، فورًا بولیں تو زایان نے بے دلی سے اپنے لئے پلیٹ میں سینڈوچ نکال لیا ،کیونکہ انھیں دوبارہ منانا مشکل تھا۔
(کچھ دن قبل ......)
ندا خاتون کچھ روز قبل جب عائشہ کی شادی کا کارڈ لے کر آئیں تو اسکے ساتھ عائشہ بھی آئی تھی ۔۔اور اسکے بے حد اصرار پر ملک فیملی ہر تقریبات میں جانے کا وعدہ کرچکی تھی ۔
ندا نعیم اُس دن زارا سے بھی ملی تھی ، اور اُسے سے مل کر اپنے کیئے کی معافی مانگی تو زارا نے بناء تاخیر کیئے انھیں معاف کردیا ،اُس دن ندا خاتون زارا کو عباس صاحب کا گھر لوٹانے آئی تھیں جسکی اصل حقدار زارا تھی ۔
شاید ایسا کرنے سے عباس صاحب اُسے معاف کردیتے ،، یا اللّٰہ انکے کیئے گئے ظلم معاف کردیتا کیونکہ بے شک وہ معاف کرنے والا مہربان ہے اور سچے دل سے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُسے معاف کردیتا ہے۔
(حال .....)
دوسرے دن ملک فیملی بارہ بجے کے قریب گھر سے نکل گئی کچھ دیر ڈرائیو کے بعد وہ سب نعیم صاحب کے گھر پہنچے جہاں انکا کھولے دل سے استقبال کیا گیا ۔
لائبہ ، ظفر کا تو انھیں دیکھ کر خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا،وہ تو جیسے پاگل ہونے کو تھے ۔۔
زایان اور زارا دونوں ہی اسکی بیسٹ کزنز تھے ۔۔
دوپہر کے کھانے کے بعد سبھی اپنی اپنی تیاریوں میں لگ گئے.، کوئی پارلر تو کوئی مارکیٹ جاکر اپنی ضرورت کی اشیاء خرید رہا تھا۔
جب شام ہوئی تو مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ، زارا کی ضد پر عباس ویلا میں ہی عائشہ کی نکاح کروانے کا فیصلہ کیا گیا ۔۔ جسے راضی خوشی سب نے قبول کیا عائشہ خود بھی یہی چاہتی تھی اسی لئے کسی کو اس بات سے مسئلہ نہیں تھا۔
باہر بنے خوبصورت لاؤنج کو رنگ برنگی برقی قمقوں سے سجایا گیا جسکی روشنی میں پورا عباس ویلا جگمگارہا تھا ۔
ہر ایک چیز نفاست سے سجائی گئی تھی اور تمام انتظام نعیم صاحب اور زایان نے اپنی نگرانی میں کروائی۔
لڑکے والوں کے آنے کے بعد تمام رسومات ادا کیئے گئے۔۔
سبھی کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے ان میں زارا بھی شامل تھی۔
زایان کچھ فاصلے پر کھڑا کسی سے بات کررہا تھا جب اسکی نظر زارا پر پڑی ۔
اسے کافی دنوں بعد یوں مسکراتی دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گیا کہ آخری مرتبہ وہ کب ایسے خوش ہوئی ہوگی ، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ صرف دکھاوے کے لئے اسکے سامنے مسکراتی تھی اندر سے اب بھی اُسکے وہ زخم نہیں بڑھے تھے اس لئے آج یہ منظر اس کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا ۔
وہ اپنا دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر زارا کو دیکھتا گیا جو کچھ فاصلے پر کھڑی مسکراتی چند لڑکیوں سے بات کررہی تھی ، وہ بلاشبہ ہنستی ہوئی بہت پیاری لگتی تھی ، وہ ہر بار کی طرح اسکا اعتراف کرنا نہیں بھولا کیونکہ اُسے زارا کی خوشی عزیز تھی خود سے بھی بڑھ کر۔۔۔
کھانے کے بعد کافی شور شرابہ مستی مذاق کا سلسلہ جاری رہا پھر سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ چند رشتے دار ان کے گھر پر ہی ٹھہرے تھے ،جن میں ملک فیملی بھی شامل تھی ۔
___*___*___*____*____


#آخری_قسط
#آخری_حصّہ
دوسرے دن کا آغاز بھی کافی پُرجوش تھا تمام لڑکیاں مہندی لگانے اور اپنی بھرپور تیاری میں مصروف تھیں۔۔
سبھی افراد لاؤنج میں بیٹھے تھے زارا اور نمرہ (عائشہ کی تایازاد )
چائے لے کر لاؤنج میں داخل ہوئیں۔۔ باری باری وہاں بیٹھے تمام افراد کو چائے کا کپ پکڑایا اور پھر ٹرے سامنے میز پر رکھ کر خود بھی چائے سے لطف اندوز ہونے لگیں۔
بچّوں نے اسکول اور کالج سے پہلے ہی چٹھیاں لے لی تھیں، دونوں اُٹھتے ہی زایان سے باہر گھومنے کی ضد کرنے لگے ،ندا نعیم نے انھیں ڈانٹا لیکن ان کی ڈانٹ کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔
"چلے نا زایاں بھائی۔۔۔؟"
زایان صوفے پر بیٹھا تھا دونوں اسے ہاتھ سے پکڑ کر اُٹھنے کا کہہ رہے تھے۔
"اچھا اچھا ۔۔. ٹھیک ہے بچوّں ،چلو جلدی سے تیار ہوجاو۔۔۔ ! ، پھر چلتے ہیں ۔"
زایان نے جیسے ہی ہامی بھری دونوں خوشی سے اُچھل پڑے۔
جبکہ ندا خاتون انھیں غصّے سے دیکھ کررہ گئیں۔
"ارے خالہ جان۔۔۔ پلیز غصّہ نہ کریں ، ہم جلدی لوٹ آئیں گے، اور پھر میں چلا جاؤں گا تو بچّوں کو کہاں موقع ملے گا ؟،آپ یوں منع کریں گی تو بچے اُداس ہوجائیں گے۔"
زایان نے ندا خاتون کو غصّہ میں دیکھا تو سمجھاتے ہوئے بولا۔
کچھ دیر بعد وہ تینوں گھر سے نکل گئے ، راستے میں خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد انھوں نے دوپہر کا کھانا ریسٹورینٹ سے ہی کھایا ، سارے راستے وہ بولتے رہے اور زایان انھیں سُنتا رہا ، راستے سے گزرتے ہوئے ایک بیکری سے مٹھائیاں خرید کر واپسی کی راہ لی۔
حلیمہ خاتون لاؤنج میں بیٹھی تمام اشیاء دیکھ رہی تھیں اُسے بچّوں کے ساتھ آتے دیکھ کو بولیں
"زایان بیٹا ۔۔۔ آگئے تم ۔۔۔ کافی دیر لگادی تم نے ؟"
" جی مما۔۔۔ وہ ہم نے دوپہر کا کھانا باہر ریسٹورینٹ میں ہی کھایا ،، اور بہت مزہ آیا۔ کیوں بچّوں۔۔۔؟"
"جی خالہ جان۔۔بہت مزہ آیا۔۔"
وہ دونوں ایک ساتھ بولے
"اچھا بچّوں اب اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔ ورنہ مما ناراض ہوجائیں گی ۔۔"
زایان کے کہنے پر وہ دونوں اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
اب وہ ان کے برابر میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاکر بیٹھ گیا پھر اپنا سر صوفے کی پُشت سے لگاکر آنکھیں موند لیں ۔
،"نیند آرہی ہے ۔۔۔؟ تو سُو جاؤ۔۔"
وہ ہاتھ میں پکڑی پھولوں کی ٹوکری رکھ رہی تھیں اُسے اس حالت میں دیکھ کر بولیں ۔
"نہیں ۔۔۔ بس یونہی ۔۔"
اسی حالت میں جواب دیا گیا۔
"ہممممم۔۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ تم زارا اور نمرہ کو پارلر لے جاؤ۔۔ "
تم لے جاؤ گے یا تمہارے پاپا کو بول دوں ۔۔؟"
وہ اُس سے پوچھ رہی تھیں ۔
"کب جانا ہے ۔۔۔؟"
وہ اُٹھ کر سیدھا ہوا پھر بولا
"کچھ دیر میں نکلنا ہے ، پھر میں ان دونوں کو تیار رہنے کا کہتی ہوں ۔"
وہ یہ کہہ کر لاؤنج سے نکل گئیں ۔۔
وہ تینوں ایک ساتھ پارلر کے لئے نکل گئے ،زایان ان دونوں کو وہاں چھوڑ کر گھر واپس آگیا تھا ۔۔
پھر باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر تیاری دیکھنے لگا۔۔
رات کے وقت سبھی تیار ہوکر تقریب میں پہنچے ۔اور باراتیوں کا انتظار کرنے لگے جنھیں کچھ دیر میں پہنچنا تھا۔۔
زارا اور نمرہ تھوڑی دیر پہلے ہی پارلر سے سیدھا وہیں پہنچی تھیں ،وہ دونوں بھی سب کے ساتھ مہمانوں کے استقبال کےلئے پھولوں کی پتیاں لیئے داخلی راستے پر کھڑی ہوگئیں۔
بڑی دھوم دھام اور شور شرابے کے ساتھ لڑکے والے آگئے تھے ،جنکا پُر جوش طریقے سے استقبال کیا۔۔
سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے ، ملاقات کا سلسلہ جاری تھا عائشہ پارلر سے آگئی تھی عائشہ کی ساری کزنز اور دوستیں اُسکی ساتھ بیٹھی اُسے چھیڑ رہی تھیں۔۔
عائشہ نے سُرخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اور مہارت سے کیئے گئے میک اپ کے بعد وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔
زارا حلیمہ خاتون کے ساتھ کھڑی تھی لڑکے والے کی طرف سے آئے مہمانوں سے مل رہی تھی۔
"یہ کون ہے ،اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔۔۔.۔؟"
فاروق کی والدہ کے ساتھ کھڑی ایک عورت نے پوچھا۔
یہ زارا عباس، عائشہ کے ماموں کی بیٹی اور اُسکے ساتھ کھڑی عائشہ کی خالہ جان ۔۔۔"
وہ تعارف کے بعد اُسکے ساتھ ہوئے حادثے کے متعلق بھی بتا رہی تھیں جسے سُن کر انھیں بڑا دھچکا لگا۔
حلیمہ خاتون اور زارا کی جب ان پر نظری پڑی تو وہ دونوں چل کر ان تک پہنچی ،سلام میں پہل بھی انھوں نے کیا جسکا جواب نہایت پُرجوش انداز میں دیا گیا ۔
"زارا آپی ۔۔۔ !"
لائبہ دوڑتی ہوئی آئی اور پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ زارا کو پُکارا ۔۔
"کیا ہوا ۔۔۔ لائبہ ! ، تم اس طرح کیوں دوڑ رہی تھی ۔۔؟ "
زارا نے اسے زور زور سے سانس لیتی دیکھ کر فورًا پوچھا اور اُسکے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔
"و....وہ زارا آپی ! ، مما آپ کو بُلا رہی ہیں ؟"
وہ اپنی سانسوں کو بحال کرنے کے بعد بولی۔
"اچھا۔۔۔ چلو چلتے ہیں ، پھوپھو جان میں ابھی آئی۔۔
وہ حلیمہ خاتون سے کچھ دیر میں آنے کا کہہ کر چلی گئی۔
"کتنی پیاری بچی ہے۔۔۔زارا! ، اُس کے بارے میں سُن کر بہت افسوس ہوا ، بے چاری کو طلاق ہوگئی، اب وہ آگے کی زندگی کیسے گزارے گی۔ !"
سامنے کھڑی عورت نے جو کہا یہ سُن کر حلیمہ خاتون حیران رہ گئیں ،وہ یہ سب کیسے جانتی تھی، تو کیا لوگ اب زارا کے متعلق بات کرنے لگے ہیں ۔
انھوں نے دل میں سوچا پھر خود کو سنبھالتے ہوئے بولیں۔۔
"آپ یہ کیا بول رہی ہیں۔۔، اور یہ سب آپ کو کس نے کہا ۔۔؟"
"ارے بہن ۔۔ایسی باتیں کہاں چھپتی ہیں ، اتنی کم عمری میں ایسا حادثہ انسان کو توڑ دیتا ہے ، ناجانے اب اس بچی کو کون اپنائے گا۔۔؟"
وہ عورت اپنی دُھن میں بول رہی تھی جیسے اُن کے پاس اس سے اہم موضوع اور کوئی نہ ہو۔
آپ بے فکر رہیں ، زارا اکیلی نہیں ہے ، وہ میرے اکلوتے بھائی کی بیٹی ہے ، مجھے سب سے عزیز ۔۔۔
اور وہ بہت جلد وہ میری بہو بننے والی ہے۔۔"
انھوں نے اچانک ہی یہ فیصلہ کیا۔
وہ تھوڑے تلخ لہجے میں بولیں اور معذرت کرتی وہاں سے آگے بڑھ گئیں جہاں زایان کھڑا کسی سے بات کررہا تھا ۔
___*____*___*____
زارا ٹرائل روم میں عائشہ کے ساتھ بیٹھی تھی کچھ دیر میں عائشہ کا نکاح پڑھایا جانا تھا ، حلیمہ خاتون اندر داخل ہوئیں ۔۔
"زارا بیٹا ۔۔ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔۔. !"
وہ آتے ہی بولیں
"جی پھو پھو جان ۔۔ ! "
زارا عائشہ کا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
"کیا تم میرے ساتھ باہر چل سکتی ہو۔۔۔؟ "
وہ اُسے اپنے ساتھ باہر چلنے کا کہنے لگیں
" مگر عائشہ۔۔۔"
زارا نے کہا۔
" نمرہ اس کے پاس ہے ، پلیز تم چلو ! ، مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔
وہ دونوں کمرے سے باہر نکل آئیں ۔۔
"کیا ہوا پھوپھو جان ۔۔۔؟ آپ اتنی پریشان کیوں ہیں ۔۔؟ "
زارا نے انکی پریشانی کی وجہ جاننا چاہی۔
"زارا کیا تم میری ایک بات مانو گی ۔۔۔؟ "
میں نے جو فیصلہ کیا ہے ، وہ اپنی بھتیجی نہیں بلکہ تمہیں اپنی بیٹی سمجھ کر کیا ہے۔۔"
تم میرے بھائی کی واحد نشانی ہو ،جو مجھے اپنی جان سے بھی عزیز ہے ۔ میں تمہارے ساتھ مزید کچھ بُرا ہوتے نہیں دیکھ سکتی ۔۔"
حلیمہ خاتون بولتی گئیں اور زارا انکی بات سُن کر حیران و پریشان کھڑی تھی ۔۔۔
"پھوپھو جان کیا ہوا ہے اور کونسا فیصلہ ۔۔۔؟ پلیز بتائیں ۔۔۔ ! "
زارا کے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہیں ، اس لئے پوچھنے لگی۔
"کیا تم زایان سے شادی کے لئے تیار ہو ، میں تمہارا نکاح زایان کے ساتھ کروانا چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ تم ہر پل میری نظروں کے سامنے رہو ، میں اپنے بھائی کی طرح تمہیں کُھونا نہیں چاہتی۔۔"
حلیمہ خاتون روہانسی ہوگئی تھیں ، انکی آنکھوں میں عجیب سا ڈر تھا جو زارا کو بے چین کرنے کےلئے کافی تھا ۔۔
"مگر پھوپھو جان ، میں ۔۔۔ میں یہ کیسے کرسکتی ہوں ، اور زایان۔۔۔؟"
"تم اُسکی فکر مت کرو بیٹا۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ کبھی میری بات نہیں ٹالے گا۔۔۔ میں صرف تمہارا فیصلہ جاننا چاہتی ہوں.، کیا تم تیار ہو۔۔۔؟ "
بولو بیٹا ۔۔۔ !! 
وہ زارا کے بولنے کا انتظار کرنے لگیں۔۔
"جی ۔۔."
اُس نے بے دلی سے مثبت جواب دے دیا وہ جانتی کہ زایان منع کردے گا۔
حلیمہ خاتون اُسکی ہاں سُن کر خوشی سے کھل اُٹھیں اور اسے گلے سے لگا لیا۔۔
کچھ ہی دیر میں اُسے دُلہن کے لباس میں تیار کیا گیا اور عائشہ کے نکاح کے فورًا بعد مولوی صاحب اس کے سامنے بیٹھے پوچھ رہے تھے۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔؟ "
لیکن اس کی طرف سے مکمل خاموشی تھی ۔۔
مولوی صاحب ایک مرتبہ پھر سے بولے۔۔
کیا آپ کو زایان آسود ملک کے ساتھ بمع ایک لاکھ حق مہر کے یہ نکاح قبول ہے۔۔
وہ اپنی سوچ میں گُم یہ سوچ رہی تھی کہ زایان نے منع کیوں نہیں کیا، اُسے لگا تھا کہ زایان انکار کردے گا لیکن یہ اسکی بھول تھی ،وہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرچکا تھا ، وہ اُس پر ترس کھا چکا تھا۔۔ یا اس کےلئے اپنی زندگی تباہ کرچکا تھا ۔۔۔
"کیا ہوا بیٹا ،مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں۔۔؟ "
حلیمہ خاتون کے ساتھ ندا نعیم اور نمرہ کھڑی تھیں ۔۔
پوچھنے والی ندا نعیم تھیں ۔۔
" قبول ہے۔۔"
اس نے شکستہ لہجے میں کہا۔۔
پھر نکاح نامہ پر دستخط کیئے۔۔
اب سبھی ایک ایک کرکے اسے مبارک باد دے رہے تھے لیکن وہ اپنے حواس میں ہوتی تبھی مبارک بادی سمیٹی ۔۔
وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھری بیٹھی رہی کب سارے مہمان واپس گئے کب وہ گھر آئی اُسے کسی بات کی خبر نہیں ہوئی۔۔
عائشہ کی رختصی ہوگئی تھی جبکہ زارا کی رختصی چند ماہ بعد ہونا قرار پائی تھی، سوائے چند رشتے دار کے سب اپنے اپنے گھر چلے گئے تھے ۔۔
دوسرے دن ناشتے سے فارغ ہوکر ملک فیملی بھی اپنے گھر کے لئے نکل گئی ،بارات والے دن کے بعد سے زارا کی زایان سے بات نہیں ہوپائی تھی وہ اُس سے مل کر پوچھنا چاہتی تھی کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔۔
اُس نے نکاح سے منع کیوں نہیں کیا۔۔؟
کیا اُسے مجبور کیا گیا تھا۔۔؟
اس جیسے بے شمار سوالات تھے ۔
لیکن یہ تبھی ممکن تھا جب وہ اُس سے مل کر یہ پوچھتی ۔۔
زایان دوپہر سے گھر کا نکلا رات میں واپس آیا، وہ کچن سے نکلتے وقت اُسے ٹیرس میں جاتا دیکھ چکی تھی پانی کی بوتل لیئے سیدھا اوپر پہنچی ۔
"تم نے پھوپھو جان کو منع کیوں نہیں کیا۔۔؟"
وہ اسکے عقب میں کھڑی غصّے میں بولی۔
وہ کھڑا آسمان کو گُھور رہا تھا اپنے پُشت سے آتی آواز پر پلٹا۔
"کس بات سے۔۔۔"
زایان پہلے اُسے اتنی رات میں ٹیرس پر دیکھ کر حیران ہوا مگر خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا.
"جب پھوپھو جان تم سے نکاح کی بات کرنے آئی تھیں ۔۔؟"
وہ بلند آواز میں بولی۔ غصّہ اب بھی اسکے لہجے میں نمایاں تھا۔
"کیا مجھے انکار کرنا چاہیے تھا۔۔؟"
وہ پُر سکون انداز میں پوچھنے لگا۔
"تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو زایان۔۔۔ ؟ کیوں میری وجہ سے اپنی زندگی برباد کررہے ہو، تمہیں مجھ سے بہتر لڑکی مل جاتی پھر تم نے مجھ جیسی طلاق یافتہ لڑکی کو کیوں چُنا۔۔۔؟"
کیا تم مجھ سے ہمدردی جتانا چاہ رہے ہو کہ میں۔۔۔"
وہ اور بھی کچھ کہتی مگر زایان نے اُسے درمیان میں ٹوکا۔۔
"بس زارا۔۔۔تمہیں پتہ ہے تمہاری پروبلم کیا ہے۔۔۔؟
تم احساس کمتری کا شکار ہو ، 
تمہیں لگتا ہے دُنیا میں ہر کوئی تم سے اچھا ہے، اور تم خود کو بے مول سمجھتی ہو۔۔۔ ایک بے چاری لڑکی ۔۔۔
تبھی ۔۔تبھی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں تم سے ہمدردی کررہا ہوں ۔۔
لیکن یہ سچ نہیں ہے ۔۔۔
تم دُنیا کی ایک بہت خوبصورت لڑکی ہو ، جو خود سے پہلے دوسروں کا سوچتی ہے، چاہے خود روتی رہو مگر تم چاہتی ہو کہ دوسرے خوش رہیں، جس کے لئے اُسکے اپنے اہم ہیں ورنہ مما کے کہنے پر تم مجھ سے نکاح کے لئے رضامند نہ ہوتی ۔۔۔
وہ اُسکی بات سُن کر حیرانگی سے اُسے دیکھنے لگی ۔
زایان کچھ فاصلے پر کھڑی زارا کی طرف بڑھا اور اسکی نازک ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیئے پھر سے بولنے لگا۔
میں نے تمہیں کسی کی دباؤ میں آکر اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا ہے، بلکہ اپنی مرضی سے تمہیں اپنایا ہے، تم میری ہم راز تھی ، میری سب سے پیاری دوست لیکن میں نے تمہیں تنہا چھوڑ دیا دُنیا سے مقابلہ کرنے کےلئے۔۔
لیکن اب تم میری دوست ،میری کزن ہونے کے ساتھ ساتھ میری منکوحہ بھی ہو، اب میں تمہاری آنکھوں یہ آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔
تمہیں یوں سسکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔
زارا نظریں زمین میں مرکوز کیئے رونے میں مصروف تھی اُس نے اسکا جُھکا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اپنی جانب کیا جو آنسوؤں سے بھیگا تھا۔۔
وہ اسکے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔۔
زارا ۔۔۔ ! جو ہونا تھا وہ ہوگیا، میں اُسے بدل تو نہیں سکتا مگر تم نے جو تکلیف برداشت کی ہے، جو زخم تمہارے دل پر لگے ہیں میں اپنی محبت سے اُسے بھرنا چاہتا ہے تمہارے ساتھ اپنی زندگی کی آخری سانس تک جینا چاہتا ہوں۔۔
"کیا تمہیں اب بھی لگتا ہے یہ ہمدردی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔؟
وہ اسکی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
زارا کچھ نہیں بولی بس اپنا سر نفی میں ہلا گئی۔۔
میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں ہر پل خوش رکھنے کی اپنی پوری کوشش کروں گا ۔۔۔؟ اگر کبھی مجھ سے غلطی ہوجائے تو تم مجھے اسکی سزا دینا۔۔
وہ اسے اپنے سینے سے لگائے کہہ رہا تھا جبکہ وہ خاموش کھڑی چاند کو گھور رہی تھی۔۔
رب کریم نے اسے ایک کڑی آزمائش کے بعد ایک ایسے شخص سے نوازا ،جو اسکا درد خود پر محسوس کرتا تھا ،جو اسکی خوشی میں خوش رہتا۔ ۔۔۔
جو اسکے دل پر لگے اُس زخم کے نشان کو اپنی محبت سے مٹانا چاہتا تھا۔۔

خوشیاں دُور کھڑی ان دونوں کو مبارک باد دے رہی تھیں۔۔

No comments:

Post a Comment