Tuesday, 6 August 2019

Wehshat-e-Ishq By Ramsha Mehnaz ||Episode#1


#وحشتِ_عشق
#بقلم رمشاءمہناز
#قسط_نمبر_1
********
********
آج وہ ایک بار پھر پورے پانچ سال بعد اسی گھر کی دہلیز پہ کھڑی تھی جہاں دوبارہ نہ آنے کی اس نے قسم کھا رکھی تھی۔
مگر واہ ری قسمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
انسان کو کیسے کیسے دوراہے سے گزارتی ہے کہ انسان کو اپنے زندہ ہونے پہ افسوس ہونے لگتا ہے۔
وہ اپنے ٹوٹے بکھرے سے وجود کے ساتھ اسی گھر کی دہلیز پہ کھڑی تھی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی جیسے کچھ دیر اور کھڑی رہی تو یہیں زمین بوس کو جائے گی۔
اس نے سر اٹھا کر اس سفید محل کو دیکھا جو دن کی روشنی میں پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اس کے حلق میں ایک بار پھر آنسوؤں کا گولہ سا اٹکنے لگا۔
اس کا دل کیا وہ یہیں سے واپس بھاگ جائے۔۔۔۔۔ کہیں دور بہت دور جہاں زندگی کی تلخیاں اس کے پیچھے نہ آسکیں مگر وہ جاتی بھی کہاں اس کا اندر جانا ضروری تھا۔
اگر آج وہ اندر نہ جاتی تو پوری زندگی خود سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی۔
وہ لرزتے قدموں سے آگے بڑھی اور آہنی دورازے کو کانپتے ہاتھوں سے پیچھے دھکیلا دورازہ بنا آواز کے کھلتا چلا گیا سامنے ہی ہال لوگوں سے بھرا پڑا تھا وہ اجنبی نظروں سے سب کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھی قدم سو سو من کے ہو رہے تھے۔
ہال کے ایک کونے سے رونے اور بین کرنے کی آوازیں آرہی تھی اس نے وہاں نگاہ دوڑائی اور کرب سے آنکھیں میچ لیں۔
دل تھا کہ تکلیف سے پھٹا جارہا تھا۔
اس کی نظر کفن میں لپٹے بے جان وجود پہ پڑی تو اسے اپنے اندر سناٹا سا اترتا محسوس ہوا۔
اب اس کے اندر سے ہمت ختم ہو چکی تھی وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
کتنا بڑا زخم دے گئی تھی نہ زندگی۔۔۔۔۔۔۔
اپنوں کی موت انسانوں کو توڑ کے رکھ دیتی ہے مگر اسے تو ایسا توڑا وہ کرچی کرچی بکھر گئی تھی اب اسے سمیٹنا آسان نہیں تھا۔
_________________ 

"آپی کہاں ہیں آپ" کالج سے آتے ہی اس نے پورے گھر میں شور ڈالا ہوا تھا وہ ایسی ہی تھی اگر کالج سے آنے کے بعد اسے منال کی شکل نہ دیکھے تو پورے گھر کو سر پہ اٹھا لیتی تھی۔
"میں یہاں ہوں تمہارے روم میں" منال نے اسے اس کے روم سے ہی آواز لگائی وہ دوڑتی ہوئی دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر اوپر گئی۔
"افف آپی آپ کو میں نے پورے گھر میں ڈھونڈ لیا اور آپ یہاں ہیں" شزرا نے روم میں آتے ہی بیگ بیڈ پہ اچھالا اور شوز ادھر اُدھر پھینک کے اس کے سر پہ جا پہنچی جو اس کی وارڈروب میں گھسی اس کے کپڑے تہہ کرنے میں مصروف تھی۔
"ہزار بار بولا ہے شزرا تمہیں اپنے کپڑے تہہ کر کے رکھا کرو اور یہ کیا حالت بنائی ہوئی تھی اپنے روم کی ہر چیز ادھر اُدھر پھیلی ہوئی ہے مجال ہے کوئی چیز اپنی جگہ پہ دیکھے" منال نے اسے دیکھتے ہی اس کی اچھی خاصی کلاس لے لی۔
شزرا نے چیونگم کے پٹاخے پھوڑتے ہوئے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا اور منہ بنا کے بولی۔
"آپی جب آپ مجھے ڈانٹتی ہیں تو آپ پہ بلکل بھی پیار نہیں آتا" اور منہ بنا کے بیڈ پہ بیٹھ گئی۔
"گڑیا میں تمہیں ڈانٹ نہیں رہی میں تو آپ کے لئے ہی بول رہی ہوں دیکھو نہ روم کی حالت" منال نے اس کے پھولے پھولے گال سکھینچتے ہوئے پیار سے کہا۔
"چلو جلدی سے چینج کر کے آؤ آج تمہاری پسند کی ڈشز بنائی ہیں" منال نے اسے بیڈ سے اٹھا کر اس کے ہاتھ میں کپڑے تھمائے۔
"آئی لو یو آپی " شزرا نے مسکرا کے اس کے گلے میں بازو حمائل کردیئے منال مسکرا دی اور اپنی اس چھوٹی سی بہن کو دیکھا جس میں اس کی جان بستی تھی۔
شزرا نیچے آئی تو دوپہر میں کچن میں خلاف معمول چہل پہل تھی اور آج تو دادو بھی کچن میں موجود تھیں اور ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا کہ دادو کچن میں کچھ اپنے ہاتھوں سے بنائیں اب ان کی عمر ہو گئی تھی تو ان سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا مگر آج تو دادو بھی چاک و چوبند لگ رہی تھیں۔
اور تائی امی جنہیں دوپہر میں کچھ دیر سونے کی عادت تھی آج تو وہ بھی جاگ رہی تھیں شزرا کو خطرے کی بو محسوس ہوئی۔
"کوئی آرہا ہے کیا گھر میں" شزرا نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا اور وہ جانتی تھی اس کا جواب کیا ہوگا اور جواب وہ سننا نہیں چاہتی تھی۔
"بھول گئیں تم بتایا تو تھا آج آزر آرہا ہے " تائی امی نے ممتا بھرے لہجے میں کہا۔
شزرا نے جھنجھلا کے منال کی طرف دیکھا منال نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیئے۔
" کیوں آرہے ہیں؟" شزرا اپنی جھنجھلاہٹ چھپا نہ سکی۔
"کیوں کا کیا مطلب لڑکی وہ اپنے گھر بھی نہ آئے" دادو نے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"نہیں میرا مطلب کہ وہ۔۔۔۔۔۔"شزرا گڑبڑا گئی۔
"شزرا تم بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں" منال نے فوراً بات سنبھالی شزرا منہ بناتے ہوئے بیٹھ گئی۔
"شزرا کیا مسئلہ ہے اپنا موڈ ٹھیک کرو" منال نے ہنوز اس کا منہ بنا دیکھ کر اسے گھر کا۔
"آپی کیوں آرہے ہیں وہ" شزرا نے منال کے کان میں سرگوشی کی مبادہ کہیں دادو تک آواز نہ پہنچ جائے۔
"ان کا اپنا گھر کے یہاں نہیں آئیں گے تو کہاں جائیں گے" منال نے پیار سے اسے پچکارا۔
" کہیں بھی جائیں بس یہاں نہ آئیں" شزرا نے جھنجھلا کے کہا اور اپنے ہاتھ میں پہنی رنگ کی طرف دیکھا پھر وہاں سے اٹھ کے اپنے روم میں آگئی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے سال بھر پہلے کا وہ منظر لہرا گیا جس نے آج تک اس کے دل کی دنیا کو تہہ و بالا کر کے رکھا ہوا تھا۔

__________________

ایک سال پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
" شزرا تم یہاں ہو میں نے تمہیں پورے گھر میں تلاش کرلیا" آزر اس کے سر پہ کھڑے اسے پکار رہے تھے۔
شزرا نے کوفت سے سر اٹھا کے ان کی طرف دیکھا وہ اس وقت لان میں گھاس پہ بیٹھی اپنی اسائمنٹ کمپلیٹ کر رہی تھی ایسے میں آزر کا اسے بے وقت آواز دینا ناگوار گزرا۔
" جی میں یہاں ہوں آپ کو کوئی کام تھا۔۔۔؟" شزرا نے بیزاری سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں زمانے بھر کی بیزاری تھی اور چاند سے چہرے کے اطراف میں سیاہ بال بکھرے پڑے تھے آزر اس منظر میں کہیں کھو سے گئے جب کافی دیر تک وہ کچھ نہ بولے تو شزرا سر جھٹک کر دوبارہ اپنی اسائمنٹ پہ جھک گئی۔
آزر نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اسے دیکھا اسکے سامنے گھاس پہ بیٹھ گئے۔
"تم مجھ سے اتنی اکھڑی اکھڑی کیوں رہتی ہو؟" آزر نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
" نہیں تو" شزرا نے مختصر سا جواب دیا۔
"بتاؤ نہ ہم اچھے دوست نہیں بن سکتے کیا؟" آزر نے اس سے پوچھا۔
"بلکل بھی نہیں" شزرا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"کیوں؟" آزر نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
"کیونکہ جب جب آپ آتے ہیں تو سب آپ میں ہی لگے رہتے ہیں کسی کو بھی میرا خیال نہیں آتا اور تو اور سب کو چھوڑو منال آپی کو بھی میرا کوئی خیال نہیں آتا وہ بھی میری طرف دھیان نہیں دیتیں آپ کی وجہ سے" شزرا نے اپنی آنکھوں نے آنسو بھر کر اس سے اسی کی شکایت کی اتنے الزامات سن کے آزر کا سر ہی چکرا کہ رہ گیا۔
" میری وجہ سے۔۔۔۔۔؟" انہوں نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے  صدمے سے دوبارہ پوچھا۔
"جی آپ کی ہی وجہ سے" شزرا نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔
" میں صبح سے یہاں بھوکی بیٹھی ہوں اور آپی کو کوئی خیال ہی نہیں وہ آپ کی پسند کا کھانا بنانے صبح سے کچن میں گھسی ہیں" شزرا اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی اور وہ سامنے بیٹھے اپنی مسکراہٹ روکنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
" تم اس وجہ سے مجھ سے خفا رہتی ہوں؟" بالآخر انہوں نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔
"آپ ہنس رہے ہیں مجھ پہ؟" شزرا نے ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔
اس کی بات پہ آزر اپنی ہنسی نہ روک پائے ان کا قہقہ بے سہتا تھا۔
شزرا نے کچھ غصے سے ان کی طرف دیکھا اور اٹھ کے پیر پٹختے ہوئے اندر کی جانب چلی گئی۔
"شزرا سنو تو سہی یار" آزر اسے آوازیں دیتے ہی رہ گئے مگر اسنے پلٹ کے نہ دیکھا۔

شزرا اپنے روم میں کھڑی تیار ہو رہی تھی جب منال اس کے روم میں آئی۔
"کہاں جا رہی ہو شزرا اس ٹائم؟" منال نے اسے تیار دیکھ کے سوال کیا۔
"آپی میں مریم کی طرف جارہی ہوں اس کی انگیجمنٹ ہونے والی ہے نہ تو اس نے کچھ کام کے لئے بلایا ہے میں جلدی آجاؤں گی" شزرا نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
"لیکن شزرا ٹائم دیکھو اندھیرا ہونے والا ہے اور آج رات آزر کی بھی فلائٹ ہے اور تم ایسے گھر سے جارہی ہو" منال نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
" آپی پلیز جانے دیں نہ میں جلدی آجاؤں گی" شزرا نے ہمیشہ کی طرح اسے منانے کے لیے اس کے گلے میں بازو حمائل کر دیئے۔
"اوکے جاؤ لیکن جلدی آجانا" منال نے بے دلی سے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
منال تیار ہو کہ نیچے آئی تو ہال میں سامنے ہی صوفے پہ دادو اور آزر بیٹھے تھے۔
آزر نے نظر اٹھا کر سہج سہج اترتی اس اپسرا کی طرف دیکھا جو جانے کب سے ان کے دل کے سنگھاسن پہ براجمان تھی مگر کچھ خفا سی تھی ان سے، وہ پلکیں جھپکنا بھول گئے۔
سیاہ لباس میں وہ ہمیشہ سے انہیں اچھی لگتی تھی اور پھر اس کے سیاہ بال جسے وہ ہر وقت پونی میں مقید رکھتی اس کی کمر پہ جھولتے رہتے۔
آزر نے بمشکل اس پہ سے نگاہیں ہٹائیں اتنی دیر میں دونوں دادو کے قریب آگئی تھیں۔
"دادو میں مریم کی طرف جارہی ہوں" شزرا نے ان کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے جاؤ بیٹا جلدی آجانا" دادو نے اجازت دی۔
"میں بھی باہر ہی جارہا تھا چلو شزرا تمہیں چھوڑ دوں" آزر نے خیالوں کے ہجوم سے باہر نکل کر اسے پکارا۔
شزرا نے چونک کر سامنے بیٹھے آزر کی طرف دیکھا شزرا کو وہ آج کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔
" نہیں میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں گی" شزرا نے ان کی طرف دیکھتے جواب دیا۔
"چلی جاؤ شزرا بیٹا آزر چھوڑ دے گا تمہیں اور دیکھو تو دن بھی ڈھلنے والا ہے جلدی آنے کی کوشش کرنا" دادو نے اسے آزر کے ساتھ جانے کا کہا اور ساتھ ہی اسے تاکید کی۔
"جی دادو" شزرا کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں بولنا پڑا۔
"میں باہر ویٹ کر رہا ہوں آجاؤ" آزر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اٹھ کے باہر چلے گئے۔
شزرا بھی مرے مرے قدموں سے ان کے پیچھے ہولی۔
وہ باہر آئی تو آزر اسی کا ویٹ کر رہے تھے شزرا خاموشی سے کار کا دروازہ کھول کے بیٹھ گئی آزر نے بنا کچھ کہے کار آگے بڑھا دی۔
دونوں کے درمیان خاموشی حائل تھی۔
آزر کو شزرا کے خود سے گریز کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی وہ جتنا اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی ان سے دور بھاگتی تھی۔
گاڑی ہواؤں سے باتیں کرتی سڑکوں پہ دوڑ رہی تھی ۔
شزرا نے کچھ چونک کے اپنے خیالوں سے باہر سڑک کی طرف دیکھا۔
" مریم کا گھر تو پیچھے رہ گیا" شزرا نے آزر کو مخاطب کیا۔
" ہہہم " آزر نے یک لفظی جواب دیا اور گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھا دی شزرا نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔
"آزر کہاں جارہے ہیں آپ" اسے رفتار سے گاڑی دوڑاتا دیکھ کر شزرا نے جھنجھلا کے سوال کیا۔
" دو منٹ خاموش بیٹھو" آزر نے سنجیدگی سے کہا شزرا کو ناچاہتے ہوئے بھی خاموش ہونا پڑا۔
کچھ دیر بعد بالآخر گاڑی رک گئی شزرا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا آزر نے گاڑی سے اتر کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا وہ گاڑی سے باہر آئی تو حیرت سے سامنے کا منظر دیکھا۔
سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اور اس کے پار ڈوبتا سورج۔
 آزر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کہ آگے بڑھے شزرا نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو گرفت مضبوط کردی گئی۔
اب لہریں ان کے پیروں کو چھو کے گزر رہی تھیں اور دور افق پہ ڈوبتا سورج ماحول کو ایک الگ ہی رعنائی بخش رہا تھا۔
" مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے" آزر نے بالآخر ہمت جمع کرتے ہوئے کہا۔
" کیا بات کرنی ہے؟ ایسے آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟ مجھے مریم کے گھر کیوں نہیں چھوڑا؟" شزرا نے ایک سانس میں کئی سارے سوالات کئے۔
"آئ لو یو" آزر نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے بھاری آواز میں کہا۔ 
شزرا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
وہ اس کے روبرو کھڑی الجھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
دور افق میں سورج ڈوب رہا تھا اور ادھر شزرا کا دل۔
وہ سن سی کھڑی رہ گئی۔
"شزرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!" آزر نے اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانک کر اسے ہولے سے پکارا۔
شزرا نے اپنے خیالوں سے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
"آپ۔۔۔۔۔آپ یہ کیا بول رہے ہیں۔۔۔۔۔؟" شزرا کی زبان بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی دل کی حالت الگ عجیب تھی مانو ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔
"تم سب جانتی ہو شزرے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہو جبھی تم نے ہمارے درمیان میلوں کے فاصلے بنائے ہوئے ہیں تمہیں میرے محبت پہ کوئی شک ہے؟" آزر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا اور جتا بھی دیا وہ اس کے اس گریز سے بے خبر نہیں تھے۔
"نن۔۔۔۔نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں" شزرا نے ہوا سے اڑتے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
آزر نے کچھ کہے بنا اپنی پاکٹ سے رنگ نکال کر اس کے ہاتھ میں پہنا دی۔
شزرا نے اپنے ہاتھ میں چمکتی ڈائمنڈ رنگ کی طرف دیکھا اور آزر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکال کر رنگ اتارنے کی کوشش کی۔
"آہاں۔۔۔۔اتارنا نہیں اسے" آزر نے اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑتے ہوئے کہا۔
"میں آج جارہا ہوں اب ایک سال بعد لوٹوں گا اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کرکے جب تک کے لئے ایک التجا ہے اسے اپنی انگلی مت اتارنا تم میری امانت ہو واپس آکے اپنا جواب لوں گا جب تک اچھے سے سوچ لو کوئی جلدی نہیں" آزر نے رسانیت سے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا جیسے انہیں یقین تھا اب یہ رنگ ہر حالت میں شزرا کے ہاتھ کی زینت بنی رہے گی۔
شزرا نے نہ چاہتے ہوئے بھی رنگ اتارنے کی کوشش ترک کردی۔
آزر کے چہرے پہ دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
سورج ڈوپ چکا تھا۔خانہ بدوش ہوا ان کے اردگرد چکرا رہی تھی 
ہر طرف ملگجا سا اندھیرا پھیل گیا دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے تھے۔
"چلیں۔۔۔۔۔۔" آزر نے ٹھنڈی سانس بھر کے اس کی طرف دیکھا جس نے نہ بولنے کی قسم کھا رکھی تھی۔
آزر گاڑی کی طرف بڑھے شزرا بھی ان کے قدموں کی تقلید میں ان کے پیچھے گئی۔
سارے راستے گاڑی میں خاموشی چھائی رہی شزرا کی نگاہیں اپنی انگلی میں پہنی رنگ پہ ٹکی تھی آزر گاہے بگاہے اس کی طرف ایک آدھ نظر ڈال لیتے مگر وہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔
گاڑی پورچ میں رکی تو شزرا نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا اور پلٹ کے دروازہ کھول کے اترنے لگی آزر نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"آزر پلیز۔۔۔۔۔۔" شزرا اب رو دینے کو تھی۔
"اگر تمہارا جواب ہاں میں ہوا تو میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھوں گا" آزر نے اس کی طرف جھکتے سرگوشی کی اور اپنی انگلی کی پوروں سے ہولے سے اس کا گال چھوا شزرا کی گھنی پلکیں اس کے چہرے پہ سایہ فگن تھیں جو حیا کے بوجھ سے اٹھ ہی نہیں رہی تھیں۔
آزر نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ فوراً گاڑی سے باہر نکلی اور تیزی سے اندر چلی گئی۔
پھر اس رات آزر واپس لندن چلے گئے شزرا کو سوالوں کے نئے گرداب میں الجھا کر۔
********
********
اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔
شزرا کا جواب کیا ہوگا؟

آزر شزرا کو بغیر کسی مشکل کے پا لیں گے؟

No comments:

Post a Comment