Saturday, 10 August 2019

Kisi da yaar na bichry By Shah rukh Gull

#ناولٹ
#کسے_دا_یار_نا_بچھڑے
از : شاہ رخ گل
☆☆☆☆

" سو جاو مجھے اب نیند آرہی ہے." وہ ہاتھ میں سیل فون پکڑے بیڈ پر لیٹے میسج ٹائپ کررہی تھی. دوسری طرف سے جواب موصول ہوا: " مس آیت مجھے ابھی نیند نہیں آئی ہے تو تم بھی ابھی جاگو گی. "
کی پیڈ پر پھر سے ٹائپ کرنے لگی. " میں کوئی مس وس نہیں ہوں آیت گل ہوں اور میرا نام پکارنا ہی ہوتا ہے تو پورا پکارا کرو ورنہ مت پکارا کرو. اور میں نہیں جاگنے والی اتنی دیر، امی غصہ ہوں گی . "
" میں تو آیت ہی بولوں گا تمھیں غصہ لگتا ہے تو لگے." دوسری طرف سے میسج موصول ہوا.
ٹائپنگ پھر سے شروع ہوگی. " بہت ہی بگڑے ہوئے انسان ہو تم ." 
جواب موصول: " آخر ایصم خان جو ہوں. ایسے بگڑا ہوا نہ ہوتا تو مجھے ایصم کون بولتا." 
آیت پھر سے میسج ٹائپ کر رہی تھی. " مجھے ہنسی آرہی ہے تمھاری اس بات پر. اب میں سونے لگی ہوں." 
ایصم کا میسج پھر سے آیا. " تم ہنس لو مگر سونا نہیں. اگر سونا ہے تو ایک شرط پے سونے دوں گا."
" شرط؟" آیت نے میسج سینڈ کیا. نیو میسج ریسوڈ سیل پر چمک رہاتھا مگر وہ سیل فون ہاتھ میں پکڑے ہی سو چکی تھی. ایصم نے 2،3 میسج مزید کیے مگر کوئی جواب نہیں ملا. تو غصے سے بڑبڑانے لگا: " بہت ہی کوئی ڈھیٹ لڑکی ہے. میرے کہنے کے باوجود سو گئی. پتا نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے؟" 
آیت گل، حیات خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی . جبکہ اس سے بڑا ایک بیٹا داود تھا. ایصم خان ،آیت کا چچا ذاد تھا. جو کہ حیات خان کے چھوٹے بھائی بلال خان کا سب سے بڑا بیٹا تھا. اس سے چھوٹی ایک بہن اقرا اور اس سے چھوٹا بھائی عبداللہ تھا. ان دونوں گھروں کے بچے اور بڑے رسما کسی موقع پر ملتے اور وہاں بھی بس سلام دعا ہی ہوتی تھی، سواے آیت اور ایصم کے. خاندان کے سبھی لڑکے آیت کے لئے پاگل تھے مگر وہ صرف ایصم کے لئے پاگل تھی. بچپن سے ہی وہ کسی اور کو گھاس نہ ڈالتی تھی.
صبح ہوتے ہی آیت نے ادھ کھلی آنکھوں سے ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کردیا. آخر سیل فون ہاتھ آ ہی گیا. ایصم کے رات کے میسج دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی. یہ ہمارے گھر کیوں آئے گا بھلا؟ آیت نے اپنے چھوٹے سے دماغ پہ زور ڈالا. یا اللہ یہ لڑکا کیوں آرہا ہے ؟ وہ پھر سے بڑبڑائی. سیل فون ہاتھ میں پکڑے وہ وہی بیٹھے سوچ رہی تھی کہ تبھی صبا نے دروازہ کھٹکھٹایا اور ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئی. آیت نے جلدی سے سیل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا  اور آنکھیں بند کر لی ورنہ خواہمخواہ صبح صبح ڈانٹ پڑ جاتی. 
" آیت بیٹا ! اٹھ جاو اب. صبح کب کی ہو چکی ہے 9 بج رہے ہیں مگر تم دونوں بہن بھائی ساری رات موبائل پہ لگے رہتے ہو اور صبح اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے ہو " صبا نے آیت کو ہلاتے ہوئے کہا.
آیت نے بھی خوب اداکاری کرتے ،آنکھیں ملتے ہوئے، " جی امی " کہہ کر آنکھیں کھولی.
" میں ناشتہ تیار کر رہی ہوں جلدی سے منہ ہاتھ دھو کے باہر آجاو " صبا آیت کو بول کر کچن میں چلی گئی.
آیت بھی سر ہلاتے ہوئے بستر سے باہر نکل آئی, مگر دھیان اسکا ابھی بھی ایصم کے میسجز میں ہی تھا. "  اگر اس کے آنے سے امی، ابو یا داود کو پتا چل گیا تو آیت بیٹا تم تو گئی کام سے." وہ ٹوتھ برش کرتے ہوئے سچ رہی تھی. 
وہ فریش ہو کر کچن کی طرف آئی تب تک صبا ناشتہ بنا کر ٹیبل پر رکھ چکی تھی. اتنے میں داود بھی ناشتہ کے لئے آ گیا تھا. 
" ہاں بھئی! تمھارا رزلٹ کب آرہا ہے؟ " داود نے روٹی کا نوالہ لیتے ہوئے آیت کو پوچھا.
"کیا بھائی؟ آپ روز ایک ہی سوال پوچھ کر تنگ نہیں آتے ہیں؟" آیت نے بھی مانو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا.
" تو تم بتا ہی دو ناں بھائی کو. بیچارا روزانہ تم سے پوچھتا ہے." صبا نے بھی دونوں بہن بھائی کی نوک جوک میں حصہ لیتے ہوئے کہا.
"کیا امی آپ بھی ناں، کوئی بیچارا وارا نہیں ہے، اس نے تو مجھے تنگ کرنے کا ٹھیکا لے رکھا اور آپ بھی اس کے ساتھ مل جاتی ہیں." آیت نے جواب دیتے ہوئے کہا.
" صبح صبح ہی میرے بیٹی کو تنگ نہیں کرو." اب صبا نے داود کو ڈانٹتے ہوئے کہا. 
یوں ہی باتیں کرتے کرتے تینوں نے ناشتہ کیا. آیت برتن سمیٹ کر کچن میں رکھنے لگی جبکہ داود وہی بیٹھا ماں کو یونیورسٹی کے قصے سننے لگا.
     
                         ☆☆☆☆

دروازے پہ دستک ہوتی ہے. داود دروازہ کھولنے جاتا ہے تو سامنے ایصم کو کھڑا دیکھ کر تھوڑا حیران و پریشان ہوتا ہے. کیونکہ نا تو ان کی طرف کسی بھی کزن کا آنا جانا تھا اور نا ہی یہ کسی کی طرف جاتے تھے.  داود ایصم کو سلام دعا کے بعد ٹی وی لاونج میں لے آتا ہے اور ماں کو آواز دیتے ہوئے کہتا ہے.
" امی دیکھیں تو سہی آج کون ہمارے گھر آیا ہے؟"
صبا بھی ایصم کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے. ارے  بسمہ اللہ ایصم بیٹا آج ہمارے گھر کا راستہ کیسے یاد آگیا.؟ 
" بس تائی امی کالج سے کچھ دوست آئے ہیں تو ان کو اقبال منزل دکھائی پہلے اور اب وہ لوگ بضد تھے کہ  تیجا سنگھ فوٹو شوٹ کرنا ہے تو نکل آئیں. اب ہمارا تو بچپن ہی انہی جگہوں میں گزرا تو میں نے سوچا کیوں ناں تب تک آپ کی طرف ہی چکر لگا لوں. " ایصم نے جواب دیا. 
اتنے میں آیت بھی ایصم کی آواز سن کر کچن کے دروازے پے آ کھڑی ہوئی تھی. 
"اسلام علیکم ! کیسے ہیں آپ؟" آیت نے سلام کرتے ہوئے  ایصم سے پوچھا.
"بیٹا بتاوں گا تمھیں. تم نے صبح سے ایک بھی میسج کا جواب نہیں دیا. " ایصم نے دل میں سوچا.
  اور جواب دیا. " وعلیکم سلام . میں ٹھیک ہوں." 
ارے آیت.بھائی سے حال ہی پوچھتی رہوں گی یا اس کے لئے کچھ ٹھنڈا بھی لاو گی.؟ صبا نے آیت کو ڈانٹتے ہوئے کہا.
ایصم نے اپنی ہنسی بڑی مشکل سے کنٹرول کی.
مگر آیت کا تو جیسے دل، دماغ، گردہ ، پھپھڑے سب باہر آنے کو تھے.بھائی لفظ اس کے دل پے ٹھاہ کر کے لگا تھا. بیچاری کا دل تو کیا تھا کہ امی کو سنا دے بھلا یہ میرا بھائی کب سے ہوا؟ بچپن سے آپ ہی تو کہتی آئی ہیں. بھائی صرف اپنے ہوتے ہیں اور آجکل تو اپنے سگے بھائی اپنے نہیں بنتے ہیں تو غیر کیا بنے گیں. مگر اسے اپنے لبوں پہ چپ کی ٹپ لگا کر کچن کی طرف منہ کرنا پڑا.
امی اس پر آسمان کی بجلیاں گرا کر ایصم سے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے میں مصروف ہوگی.آیت بھی جوس کا گلاس میز پر رکھے ادھر ہی صوفے پر بیٹھ گئی.
" رزلٹ کب آرہا ہے پھر" داود نے ایصم سے پوچھا. داود جو خود رورو کر یونیورسٹی پہنچا. مگر جب تک وہ کسی سے یہ سوال نہ پوچھ لیتا اسے سکون نہیں آتا تھا.
مگر ایصم بھی آخر اسی کا کزن ٹھہرا. اس نے بھی جواب دینے کی بجائے یہ تیر آیت کی طرف پھینک دیا.  " داود بھائی آپ کو آیت نے نہیں بتایا؟ "
" بھائی روز مجھ سے ایک ہی سوال کرتے ہیں. لگتا ہمارے رزلٹ کی ہم سے زیادہ بھائی کو فکر ہے." آیت نے بھی موقع دیکھ کر داود کی کلاس لینی چاہی.
" ناں بچو ! مجھے پتا رزلٹ کب آنا تمھارا. میں تو بس یہ سوال کر کے یاد دلاتا ہوں کہیں تم رزلٹ کو بھول نہ جاو." داود نے جواب دیا.
صبا تینوں کی گفتگو کو انجوائے کر رہی تھی. اتنے میں ایصم کو کال آگئی.اس نے کال ریسیو کی. دوسری طرف ایصم کا کوئی دوست تھا جو کہ اسے جلدی آنے کا کہتا ہے. ایصم کال بند ہونے کے بعد تائی سے جانے کی اجازت مانگتا ہے.
" تائی امی اب میں چلتا ہوں. دوست واپس بلا رہے ہیں."
" ٹھیک ہے بیٹا. مگر چکر لگا لیا کرو. " صبا نے جواب دیا.
" جی ! میں تو  اب چکر لگتا رہوں گا. آپ  مجھے یہ بتائیں کہ آپ کب چکر لگیں گی تائی امی ہمارے گھر؟ " ایصم نے پوچھا.
" تمھاری شادی پے " اب کی بار داود نے ماں کے جواب دینے سے پہلے ہی جواب دے دیا.
" مگر مجھ سے پہلے آپ کا نمبر ہے داود بھائی. " ایصم نے جواب دیا اور چاروں ہنسنے لگے. شادی کی بات ایصم اور داود کی ہو رہی تھی مگر آیت کے دل میں واقعی لڈو پھوٹنے لگے تھے. ایصم خدا خافظ کہہ کر اپنی گاڑی لے کر نکلتا ہے. تبھی آیت اپنے کمرے کی طرف لپکتی ہے.داود لاونج میں واپس آکر بیٹھ جاتا ہے اور صبا کچن میں چلی جاتی ہے اور آیت کو کچن سے آواز دیتی ہے. آیت کمرے سے نکلتے ہوئے ایصم کو میسج کرکے فون لاونج میں میز پر رکھ کر کچن میں چلی جاتی ہے. صبا آیت کو سبزی کاٹنے پے لگا دیتی ہے. ایصم آیت کے میسج پہ میسجز پے میسجز کرنے لگتا ہے.داود بار بار میسج ٹون بجنے پر تنگ آکر آیت کا فون سائلنٹ پر لگانے کے لئے پکڑتا ہے. میسجز کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو داود ابھی میسجز چیک کرنے ہی لگتا ہے تو آیت آ جاتی ہے.
" تمھاری  کسی ' 2 نمبر ثانیہ ' کے بار بار میسجز آرہے تھے تو میں نے سیل سائلنٹ پے لگانے کے لئے پکڑا تھا. " داود نے اتنا کہا تھا کہ آیت نے جلدی سے داود کے ہاتھ سے موبائل فون پکڑا. 
" تم نے میسجز پڑھے ؟ " آیت نے ڈرتے ڈرتے پوچھا.
" نہیں " داود نے ابھی اتنا  ہی کہا تو آیت کی جان میں جان آئی اور فورا سے اپنے کمرے میں چلی گئی.
                           ☆☆☆☆

کمرے میں آتے ہی اس نے میسجز پڑھے اور ان میسجز کا جواب دینے کی بجائے ایصم کو کال کردی.ایصم نے کال ریسیو کرنے کی بجائے کاٹ دی. اس نے پھر سے کال ملائی . ایصم نے پھر سے نمبر مصروف کردیا.
" پہلے میسجز کا جواب نہیں دے رہی تھی اور اب ڈرائیونگ کے دوران یہ میڈم تنگ کر رہی ہے.عجیب مصیبت پال لی ہے میں نے بھی." ایصم بڑبڑایا.
ایصم کا دوست فرقان جو کہ فرنٹ سیٹ پر ایصم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا.اس نے سیل فون سکرین پہ آیت کالنگ دیکھ لیا تھا. اس لئے فرقان نے ایصم کو تنگ کرتے ہوئے کہا. 
" ایصم کر لو بھابھی سے بات. میں ڈرائیو کر لیتا ہوں. کیوں بیچاری کو تنگ کر رہے ہو؟" 
اس سے پہلے کہ ایصم کچھ بولتا پیچھے بیٹھے دوستوں نے بھی ایصم سے سوال پہ سوال شروع کر دئیے. 
"  اوئے  ایصم کے بچے ایک اور بھابھی؟ کون ہے ؟ اور ہمیں بتایا بھی نہیں تم نے ؟ اب تم ہم سے باتیں چھپاو گے یار؟ منا کہ اب تو کیڈٹ کالج میں ہمارے ساتھ نہیں ہے مگر نئی گرل فرینڈ بنا لی اور ہمیں نہیں بتایا؟ ڈیٹس ناٹ فیئر.  بس یہی دن دیکھنے کو رہ گیا تھا؟ "
ایصم نے ان سب کے سوالوں سے تنگ آکر نہر کے کنارے بریک لگا دی. اور ان سب سے کہا :
" اترو نیچے گاڑی سے سب کے سب. کوئی نہیں لے کے جا رہا میں تم میں سے کسی کو ہیڈمرالہ." اور منہ پھلائے بیٹھ گیا.
" ارے بھائی! تم تو ناراض ہی ہوگے.میں نے تو ایویں تمھیں کہا تھا. اور یہ جو پیچھے بیٹھی مخلوق ہے کیا ضرورت تھی تم سب کو اس سے ایک ساتھ سب کچھ پوچھنے کی؟ " فرقان نے کہا.
" سوری یار ! چل ناں اب ڈرامے بند کر اور گاڑی سٹارٹ کر. نہیں بتانا تو مت بتا." پیچھے بیٹھے ایک دوست نے کہا. 
اتنے میں آیت نے میسج کیا. " کیا مسئلہ ہے؟ "
ایصم کی میسج ٹون بجنے پر فرقان نے کہا. " بھابھی میسجنگ." 
اور سبھی دوست ہنس پڑے ساتھ ایصم بھی سیل فون سکرین پر اسکا نام دیکھ کر ہنسنے لگا. 
" تجھے ہماری نئی بھابھی کی  قسم. لے چل ہیڈ مرالہ مجھے.  دیکھو میں جھنگ کی خوبصورتی چھوڑ کر صرف سیالکوٹ کو دیکھنے آیا ہوں ورنہ میں ابھی اسے نہر میں کود جاوں گا اور الزام تجھ پہ آجائے گا. " ایک اور دوست نے کہا. 
" بکواس نہیں کرو تم سب. کیا بھابھی بھابھی لگا رکھا ہے؟ یہ صرف دوست ہے کسی کی کوئی بھابھی نہیں ہے. " ایصم نے جواب دیا. 
"اچھا چل ناں. توں اس سے بات کر اب میں ڈرائیو کرتا ہوں." فرقان نے کہا.
" ناں.  ڈرائیو میں ہی کروں گا اور اس سے میں بعد میں بات کر لوں گا. "
ایصم نے یہ کہتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی اور ہیڈ مرالہ پہنچتے ہی  سب دوستوں کو اتار کر گاڑی پارک کرنے چلا گیا. گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے  اپنا سیل فون نکلا اور آیت کو کال ملائی. آیت نے پہلی ہی رنگ پر کال ریسیو کر لی. 
" کہاں تھے تم. میں کب سے کال کر رہی تھی. ؟"  آیت غصے سے چلائی.
" غصہ کیوں ہو رہی ہو یار ؟ ڈرائیو کر رہا تھا اس لئے کال ریسیو نہیں کی. بتایا تھا ناں کالج سے دوست آئے ہیں. تمھارے گھر سے نکلا تھا انکو پک کر کے ہیڈ مرالہ لے کر چلا آیا. " ایصم نے کہا.
" میں نے کچھ کہا ہے کیا ؟ " آیت نے جواب دیا.
" ہاں ناں ! غصہ تو ہو رہی ہو مس آیت. ویسے آج تم اچھی لگ رہی تھی." ایصم نے آیت کو مناتے ہوئے کہا.
" اب ڈرامے نا کرو مجھ سے تم. " آیت اب نخرے کرنے کے موڈ میں تھی.
" اچھا ناں سوری. اور تم نے آج مجھے مس کہنے پر بھی نہیں ڈانٹا ہے." ایصم نے کہا.
" ہاں ناں ! ویسے تم پر بھی بلیک سوٹ جچ رہا تھا. تمھارا فیورٹ ہے کیا؟ " دوسری طرف سے آیت نے کہا.
" نا یار . بلیک تو بس ایسے ہی پہن لیا تھا. میرا تو ییلو کلر فیورٹ ہے. " ایصم کال کرتے کرتے چناب کے کنارے آ کھڑا ہوا. تبھی اسکا دوست اسے آواز دیتے ہوئے پانی میں آنے کے لئے بلاتا ہے. " یار آجا اب. کتنی دیر بات کرے گا ؟ "  
اس سے پہلے کے آیت کچھ بولتی ایصم نے  پہلے ہی کہہ دیا. 
" چلو اب میں گھر جا کے بات کروں گا. " آیت نے بھی اللہ خافظ کہہ کر کال بند کردی. اور سیل فون کمرے میں رکھ کر  چھت پر پرندوں کو دانہ ڈالنے چلی گئی. 
دن بھر کی خوب موج مستی کے بعد شام کو ایصم دوستوں کو چھوڑ کر جب گھر پہنچا تو امی کو سلام کرتے ہوئے کمرے میں جانے ہی لگتا ہے. کہ ثمینہ نے سلام کا جواب دینے کی بجائے ایصم کی کلاس لینا شروع کردی.  
" دن بھر دوستوں کے ساتھ گزار دو اور رات ہوتے ہی گھر آ کر کمرے میں گھس جاو بس اور کوئی کام نہیں ہے. کوئی آتا پتا نہیں کیا ہوا رہا ہے گھر میں؟ نا تمھارے باپ کو کوئی فکر ہے گھر کی اور نہ تمھیں." 
"  امی کیا ہو رہا ہے گھر میں؟ سب بھلے چنگے تو ہیں. اور آپ ابو کا غصہ مجھ پہ مت نکالیں." ایصم نے جواب دیا.
" ہاں تمھیں تو سب ٹھیک ہی لگے گا." ثمینہ نے کہا.
" امی میں لڑائی کے موڈ میں نہیں ہوں. " ایصم اتنا کہہ کر دروازے کو زور سے بند کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا. 
" یہ دروازہ کسی دن ٹوٹ جائے گا.سب کو غصہ نکالنے کے لئے یہی ملتے ہیں بس ." ثمینہ کے پاس بیٹھی اقرا نے کہا. تو ثمینہ نے اسے بھی یہ کہہ کر چپ کروا دیا.
"  چپ کرو تم. بہت زبان چلتی ہے تمھاری آج کل. کچھ ذیادہ ہی پر نکل آئیں تم سب کے.  " 
                     
                          ☆☆☆☆

کمرے میں جا کر فریش ہوکر اس نے اقرا کو آواز دی. " اقرا مجھے لیپ ٹاپ دے جاو." 
اقرا اپنے کمرے سے لیپ ٹاپ لے کر اس کو دینے کے لئے جارہی ہی رہی تھی کہ تبھی لاونج میں بیٹھی ثمینہ نے آواز دی."  کوئی ضرورت نہیں ہے اسے اپنا لیپ ٹاپ دینے کی . کس نے کہا تھا اپنا لیپ ٹاپ کیڈٹ کالج چھوڑ کے بھاگ آئے.؟  لوگوں کے بچے کیڈٹ کالج میں ایڈمیشن لینے کےلئے ترستے ہیں . مگر ایک یہ ہے جو صرف اپنی من مانی کرتا ہے. اس کے لئے تو پیسے جیسے پیڑ پے اگتے ہیں . "
" امی بس بھی کر دیا کریں آپ. ہر وقت بھائی کو اب صرف یہی طعنے دیتی رہتی ہیں.  اس نے سن لیا تو برا لگے گا اسے اور اب اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا آپ کی باتوں کا.  ویسے آپ نے ہی اسے پہلے سر پہ بٹھایا تھا اور اب جب وہ اپنی منمانی کررہا ہے تو آپ کو برا لگ رہ ہے." اقرا نے کہا.
" تم اس کی زیادہ سائیڈ مت لیا کرو. " ثمینہ نے کہا.
اتنے میں ایصم بھی ماں بیٹی کی باتیں سن کے باہر آگیا. "امی میں کسی کے باپ سے نہیں لے کے کھاتا اور میرا ہی حو صلہ تھا جو اتنا عرصہ جھنگ کی گرمی میں گزار آیا ہوں. وہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا .ایک دن کیڈٹ کالج رہنا پڑے تو لگ پتا جائے آپ کو." 
دیکھا تم نے اقرا کیسے زبان چلا رہا ہے ماں کے ساتھ یہ. اسی دن کے لئے پال پوس کے بڑا کیا تھا تم سب کو میں نے. ثمینہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا. اب اقرا بیچاری کو بھائی کو چھوڑ کر ماں کی طرفداری کرنا پڑ رہی تھی. " امی اب آپ تو نہ روئیں پلیز." 
" انسان گھر سے باہر ہی رہے تو اچھا ہے. تنگ آگیا ہوں میں اس روز کی چک چک سے."  ایصم یہ کہتے ہوئے گاڑی کی چابی لے کر گاڑی سٹارٹ کر کے گیراج سے باہر نکال رہا ہوتا ہے. آیت روز اس کو رات کو سونے سے پہلے کال کرتی تھی. آج بھی اس نے معمول کے مطابق ایصم کو کال کی.  مگر ایصم نے اس کی کال کاٹ کر سیل فون دوسری سیٹ پر غصے سے پھینک دیا.
" ایک تو اس نے بڑا تنگ کیا ہوا ہے." وہ غصے سے بڑبڑایا. وہ گاڑی لے کر باہر نکل آیا. آیت پھر سے کال کرنے لگی. ایصم نے کال ریسیو کی. آیت کے ہیلو کہنے سے پہلے سے ایصم نے غصے سے کہا . " آخر مسئلہ کیا ہے تمھارا.؟ اگر کوئی انسان کال ریسیو نہیں کر رہا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ مصروف ہے." 
آیت نے بس اتنا کہا. " میں نے کچھ کہا؟ کیا ہوا ہے؟ "
مگر وہ  مسلسل بولے جا رہا تھا. " میں ہر وقت تمھارے لئے فری نہیں بیٹھا ہوتا. جب فری ہوں گا تو کال کر لوں گا خود تمھیں. "  
. اس نے سارا غصہ آیت پے نکال دیا. اس سے پہلے کے وہ مزید بولتا آیت نے فورا کال بند کردی.
" اب مجھے اس سے بات ہی نہیں کرنی ہے. سمجھتا کیا ہے خود کو . کسی کا بھی غصہ مجھ پے نکال دے گا. بھاڑ میں جائے بدتمیز انسان. بلکہ انسان نہیں بندر کہیں کا."  آیت غصے سے بڑبڑائی. اور اپنے کمرے کی لائٹ بند کر کے سونے کے لئے چلی گئی.
ایصم گاڑی لے کر فرقان کی طرف چلا آیا. باقی کے دوست بھی اس کی طرف ہی رکے ہوئے تھے.  فرقان اس کی شکل دیکھ  کر ہی سمجھ گیا. " کیا ہوا ؟ منہ کیوں اترا ہوا ہے؟ کس سے لڑ کے آرہا ہے؟  " فرقان نے ایصم سے پوچھا.
" کچھ دماغ گھر والوں نے خراب کیا ہوا تھا اور باقی کا آیت بی بی نے خراب کر دیا." 
" یار تم نے خواہمخواہ کی مصیبت پال لی ہے یہ.خیر  چل چھوڑ اندر آ. سب تمھیں مس کر رہے تھے. اور یہ منہ سیدھا کر. " اس نے ایصم کا منہ پکڑتے ہوئے جنجھوڑا.
" اب تم ڈرامے نہ سٹارٹ کرو اور آج منٹ، چاکلیٹ فلیور مکس کردے بس. یہ موڈ تبھی ٹھیک ہوگا." ایصم نے اس کا ہاتھ ہنستے ہوئے اپنے چہرے سے پیچھے کرتے ہوئے کہا.
"  دونوں فلیورز پلاتا ہوں تم بس اپنی شکل ٹھیک کرو."  اور وہ دونوں کمرے میں چلے گئے. جہاں باقی کے دوست بیٹھے شیشہ پی رہے تھے. 
ثمینہ کمرے سے باہر آئی تو عبداللہ اور اقرا بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے. ثمینہ نے عبداللہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا. " ٹائم دیکھو زرا گیارہ بج رہے ہیں. تم نے صبح سکول نہیں جانا ناں؟ جو تم دونوں ابھی تک بیٹھے فلم دیکھ رہے ہو. اور ایصم نہیں آیا ابھی تک؟ "  " بھائی تو نہیں آئے ابھی تک امی. " اقرا نے کہا. 
" کال کرکے پوچھو اسے کدھر ہے ؟ کب تک آئے گا ؟ " ثمینہ نے اقرا سے کہا.
اقرا نے جی امی کہتے ہوئے سیل فون پکڑ کر ایصم کو  کال ملائی. اس کا نمبر بند جا رہا ہے امی.
" یا اللہ خیر ! اس وقت نمبر بند کیوں ہے ؟ " ثمینہ نے پریشانی کے عالم میں اقرا سے پوچھا. 
" امی آپ پریشان نہ ہو. عبداللہ تم فرقان کو کال کر کے پوچھو اس کے ساتھ تو نہیں ہے ایصم ؟ اقرا نے کہا. 
عبداللہ نے اپنا سیل فون جیب سے نکال کر فرقان کا نمبر دیکھ کر اس کو کال کی.  تبھی ثمینہ نے کہا. " جلدی کرو ناں. " 
امی کر تو رہا ہوں آپ کے سامنے. بیل جا رہی ہے. فرقان بھائی کال ریسیو کریں گے تو تبھی میں پوچھوں گا ناں ان سے. " عبداللہ نے جواب دیا. 
" امی آپ بیٹھ جائیں. وہ کال کر رہا ہے." 
اقرا نے ماں کو صوفے پر بیٹھاتے ہوئے کہا. 
فرقان نے کال ریسیو کی. 
" ہیلو فرقان بھائی. ایصم بھائی آپکی طرف ہیں کیا.؟ عبداللہ نے فرقان سے پوچھا. 
" ہاں ادھر ہی ہے. یہ لو بات کرو." فرقان نے ایصم کو فون دیتے ہوئے کہا.
" بھائی امی پوچھ رہی ہیں آپ گھر کب آو گے ؟ " عبداللہ نے ایصم سے بات کرتے ہوئے کہا. 
" میں آج رات فرقان کی طرف ہی رکو گا. صبح گھر آجاوں گا. " اتنا کہہ کر ایصم نے کال بند کر دی. 
" کیا کہا ؟ ثمینہ نے عبداللہ سے پوچھا. " امی وہ کہہ رہا ہے صبح آئے گا آج رات فرقان کی طرف رکے گا." عبداللہ اتنا جواب دے کر سیل فون لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا. جبکہ ثمینہ بھی اداس سی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی. اقرا وہی بیٹھی ٹی وی دیکھنے لگی.
.
                         ☆☆☆☆

آیت کی صبح جلدی آنکھ کھل گئی. اس نے اٹھتے ہی تکیے کے نیچے ہاتھ پھیرا. سیل فون ہاتھ لگتے ہی اس نے فون چیک کیا. اس پر کوئی میسج کوئی کال نہیں آئی ہوئی تھی. اس کا دل اداس سا ہوا. " اتنا بھی کیا سخت دل ہونا؟  ٹھیک ہے ایصم اگر تم نہیں یاد کرتے تو میں بھی تمھارے بنا کوئی مرے نہیں جا رہی. میں بھی تمھاری ہی کزن ہوں. میں بھی میسج نہیں کرنے والی تمھیں. " وہ بڑبڑاتے ہوئے بستر سے اٹھی. منہ ہاتھ دھو کر کچن کی طرف بڑھی. حیات خان کا روز کا معمول تھا کہ فیکٹری جانے سے پہلے وہ صبح سات بجے کی خبریں ضرور سنتا.  آج بھی وہ لاونج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا. آیت نے سلام کیا تو وہ تھوڑا حیران سا ہوا. کیونکہ آیت جلدی بس کالج جانے کے لئے اٹھتی تھی ورنہ چھٹی والے دن ماں اسے زبردستی ناشتہ کرنے کے لئے اٹھاتی تھی. 
" آج کالج جانا ہے کیا تمھیں ؟ " حیات خان نے پوچھا. " نہیں ابو. بس جلدی آنکھ کھل گئی. " آیت نے جواب دیا. 
" چلو اب اٹھ ہی گئی ہو تو ایک کپ چائے ہی بنا دو میرے لئے. میں تو کب سے تمھاری ماں کے اٹھنے کا انتظار کر رہا ہوں." حیات خان نے چینل بدلتے ہوئے آیت سے کہا. " ناشتہ بھی بنا دیتی ہوں ابو آپ کے لئے. " اتنا کہہ کر وہ کچن میں چلی گئی. آیت نے ناشتہ بنا کر باپ کو دیا. اتنے میں صبا بھی اٹھ گئی اور داود کو یونیورسٹی جانے کے لئے جگا کر کچن کی طرف آئی تو آیت کھڑی چائے پی رہی تھی.
" رات کو کوئی فلم نہیں دیکھے تم نے کیا. ؟ " ماں نے آیت سے پوچھا. 
" نہیں جلدی سو گئی تھی. " آیت نے چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے جواب دیا. 
" تبھی میں سوچوں کہ آج کچن میں کون گھس گیا. " صبا نے اتنا کہتے ہوئے چائے بنانے کے لئے پتیلی چولہے پر رکھی. 
" آپ رہنے دیں میں بنا دیتی ہوں." آیت نے چائے کا کپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا. 
" چلو تم بناو پھر ناشتہ. اور داود کے لئے چائے مت بنانا. شیک بنا دینا. میں تب تک تمھارے ابا کے کپڑے نکال کے رکھ آوں اور اس داود کو بھی ذرا دیکھوں اٹھا ہے یا نہیں. " صبا یہ کہہ کر کمرے میں چلی گئی. آیت نے فٹا فٹ ناشتہ بنا کر ڈائینگ ٹیبل پر لگایا.
" ارے واہ بھئی .. آج سورج کہیں مغرب سے تو نہیں نکلا ؟ " داود نے آیت کو ناشتے لگاتے دیکھ کر کہا.
" سورج مشرق سے نکلے یا مغرب سے تمھیں.... " ابا نے دونوں بہن بھائی کی طرف ٹی وی سے نظر ہٹا کر دیکھا. تو آیت کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے. داود بھی ابا کی اس نظر کا مطلب سمجھ چکا تھا اس لئے چپ چاپ بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا. آیت کچن کی طرف چلتی بنی. یہ دونوں بہن بھائی صرف ماں کے سامنے ہی ٹرٹر بولتے تھے . ابو کے سامنے ان کو جیسے سانپ سونگھ جاتا تھا. حیات خاں نے ان کو کبھی مارا نہیں تھا مگر اس کی چپ سے ہی آیت اور داود ڈرتے تھے. اب صبا بھی ناشتے کے ٹیبل پر آ کر بیٹھے ناشتہ کرنے لگی. 
" راشد کا فون آیا تھا مجھے. فریدہ اور بچے پاکستان آرہے ہیں شام کی فلائٹ سے. راشد کے کسی بھتجے کی شادی ہے. راشد خود تو نہیں آ رہا مگر احسن کو بھیج رہا ہے کیونکہ فریدہ اور رئیسہ کو اکیلے نہیں بھیج سکتا تھا. " حیات خان نے صبا کو ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا. 
" راشد بھائی خود بھی آجاتے. " صبا نے نوالہ منہ میں لیتے ہوئے کہا.  
" وہاں بھی تو کسی ایک کو ہونا چاہیے ناں ویسے بھی ایک دو روز میں یہاں سے مال ایکسپورٹ ہو جانا ہے تو پھر وہ سب معاملات بھی تو دیکھنے ہیں اسے. اور ہاں ایک اور بات ، حیات خان نے تائید کرتے ہوئے کہا. فریدہ سیدھا یہیں آئے گی اور دو تین دن تک ادھر ہی رکے گی. پھر اپنے گھر جائے گی. " 
"ابو ! پھپھو ہمارے گھر ہی رکے گی ؟ " داود نے اب کی دفعہ ابا سے پوچھا. 
" ہاں . وہ تو بضد تھی کہ اپنے گھر ہی جائے گی مگر میں نے  ہی کہا کہ ہماری طرف ہی رک جائے. " اتنا کہہ کر حیات خان فیکٹری جانے کے لئے تیار ہونے کے لئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا. جبکہ صبا اور داود ناشتہ کرنے لگے. 
فریدہ آیت کی ابا کی اکلوتی بہن تھی جو کہ انگلینڈ میں اپنے شوہر راشد اور دو جڑواں بچوں احسن اور رئیسہ کے ساتھ مقیم تھی. رئیسہ احسن سے ایک منٹ چھوٹا تھا مگر اس پہ رعب ایسے جماتا تھا جیسے اسکا بڑا بھائی ہو. رئیسہ اور احسن آیت سے دو سال بڑے اور داود سے چھوٹے تھے. ویسے تو حیات خان کے خاندان میں عورتوں کی اتنی کوئی خاص قدر نہیں تھی مگر حیات خان کو اپنی بہن سے بہت لگاو تھا.
ادھر ثمینہ بھی عبداللہ کو سکول جانے کے لئے ناشتہ بنا کر دے رہی تھی کہ تبھی اقرا اونگتے ہوئے سیل فون ہاتھ میں پکڑے ماں کے پاس آکر کھڑی ہوئے بولی. " امی ! پھپھو پاکستان آرہی ہیں ؟ " 
" مجھے کیا پتا ؟ " ثمینہ نے جواب دیا. 
" وہ میں نے رئیسہ اور احسن کا سٹیٹس دیکھا تھا 
اس لئے پوچھا. مجھے لگا ابو نے شاید آپ کو بتایا ہو. " اقرا نے ماں سے کہا.
" تمھارے ابو نے تو نہیں بتایا مجھے. چلو آج فون آئے گا تو پوچھوں گی." ثمینہ نے کہا. 
اقرا " اچھا " کہتے ہوئے واپس چلی گئی. 
دوپہر میں حیات خان نے فیکڑی کا کام ختم کرنے کے بعد گھر کال کی. صبا نے کال ریسیو کی. " میں کچھ دیر میں فیکڑی سے فارغ ہو کر سمبڑیال جاوں گا. وہاں مجھے ایک دوست سے ملنا ہے. پھر اس کے بعد میں ائیرپورٹ چلا جاوں گا فریدہ کو لینے. تو تم کھانے کا اہتمام کر لینا." حیات خان نے صبا کے کال ریسیو کرنے کے بعد کہا.
صبا نے کال بند کرنے کے بعد آیت کو آواز دے کر بلایا. آیت کے باہر آنے پر صبا نے آیت سے کہا.
" داود کو میسج کر کے بولو. جلدی گھر آجائے . بازار سے کچھ سامان لانا ہے. " 
" امی آپ لسٹ بتا دیں . میں اسے میسج کر دیتی ہوں. بھائی یونیورسٹی سے آتے ہوئے لے آئے گا. ورنہ اتنی گرمی میں اسے پھر سے چکر لگانا پڑے گا. " آیت نے دوبارہ کمرے سے سیل فون لے جاتے ہوئے کہا. تھوڑی دیر میں داود یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے ساری چیزیں لے آیا. سامان کچن میں رکھنے کے بعد داود سونے چلا گیا جبکہ دونوں ماں بیٹی مل کر مہمانوں کے لیے کھانا بنانے میں لگ گئیں.  کھانا بنا کر دونوں کچن سے باہر نکل کر بیٹھی ہی تھی کہ دروازے پر کار کے ہارن کی آواز آئی. 
" لگتا تمھارے ابو آگئے. جاو دروازہ کھولو. "صبا نے آیت کو کہا اور خود داود کو اٹھانے چلی گئی. آیت منہ بناتے ہوئے دروازہ کھولنے گئی. مین گیٹ اس نے بڑی مشکل سے کھولا. حیات خان گاڑی اندر لایا.گیٹ کھولتے ہوئے اس کا دوپٹہ سر سے اتر گیا تھا. ابا کے گاڑی سے اترنے سے پہلے وہ اپنا دوپٹہ سر پر لے چکی تھی. دروازہ کھولتے ہی احسن کی نظر اس پے پڑی تھی. اس نے لال رنگ کا ایک سادہ سا ڈریس پہنا ہوا تھا لیکن وہ ریئسہ سے زیادہ پرکشس لگ رہی تھی. ویسے تو احسن نے انگلینڈ میں اپنے ماں اور بہن کے علاوہ مختلف تہواروں پر بہت سی  اور بھی خواتین کو پاکستانی ڈریس میں دیکھا تھا. مگر وہ اسے پہلی ہی نظر میں بھاہ گئی تھی. 
سب گاڑی سے اترے تو آیت ابا کو سلام کرتے ہوئے پھپھو سے ملی. اتنے میں صبا اور داود بھی باہر آگئے تھے. احسن نے صبا سے پیار لیا. تب وہ رئیسہ سے مل رہی تھی. رئیسہ سے مل کر وہ داود کے ساتھ کھڑی ہو گئی. احسن نے داود سے ملنے کے بعد آیت کی طرف سلام کرنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا. وہ ہاتھ ملائے بغیر وعلیکم سلام کہہ کر لاونج کی طرف بڑھ گئی. " Interesting " احسن ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے بڑبڑایا. باقی سب بھی لاونج میں چلے گئے احسن بھی ان کے پیچھے ہو لیا. 
  
                         ☆☆☆☆

مہمان جو کہ آیت کے لئے وبال جان بننے والے تھے، جب تک خوش گپیوں میں مگن تھے. آیت ان کے لئے کھانا لگانے میں مصروف تھی. آیت سلاد بنا رہی تھی کہ رئیسہ کچن میں آئی اور مسکراتے ہوئے کہا.
" Ayyat appi may i help you and mamni is asking when will food be prepared ? "
" آپی." آیت کے ماتھے پے بل پڑا. آئی بڑی انگریز کی اولاد. بڑی تم ہو اور آپی میں ہوں. واہ رے واہ پھپھو. کیا کہنے آپ کے بچوں کے. 
" آپی. میں آپ کی کچھ مدد ....."  اس نے دل میں یہ سوچتے ہوئے کہ شائد آیت کو انگلش سمجھ نہیں آئی اب کی بار اردو کو بگاڑتے ہوئے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ آیت نے کہا.
" just 10 mintue "
وہ جانے لگی تو آیت نے کہا .
" Listen Raeesa ."
" Yes. " 
رئیسہ نے کہا.
" I am not your Appi ."
رئیسہ برا سا منہ بناتے ہوئے کچن سے باہر نکل آئی. آیت نے جلدی جلدی سب کچھ کھانے کی ٹیبل پر لگایا. اور کھانا کھانے کے لئے سب کو بلایا. کھانا کھاتے ہو ئے پھپھو نے کھیر کا باول پکڑا پہلے اپنی پلیٹ میں تھوڑی ڈالی اس کے بعد احسن کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا. " احسن کو کھیر بہت پسند ہے. "
کھیر چکھتے ہی احسن سے تعریف کیے بنا رہا نا گیا. " ممانی کھیر بہت ہی مزیدار ہے. " 
" بیٹا یہ کھیر میں نے نہیں آیت نے بنائی ہے. " صبا نے کہا. 
اب آیت کو خود پے غصہ آرہا تھا. کیا ضرورت تھی کھیر بنانے کی. ؟ اور امی ویسے تو کبھی تعریف کریں گی نہیں. مگر ابھی انہیں اسے ہی بتانا تھا کہ یہ کھیر انہوں نے نہیں میں نے بنائی. وہ دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی. احسن نے ایک نظر آیت پے ڈالتے ہوئے کہا. 
" its so delicious ayyat. " 
آیت چپ چاپ بیٹھی کھانا کھانے لگی. سب کھانا کھا کر کمروں میں چلے گئے صبا اور آیت برتن اٹھانے میں لگ لگئیں. صبا نے برتن دھونے میں آیت کی مدد کرنی چاہی مگر آیت نے یہ کہہ کر منع کر دیا. میں کر لوں گی تھوڑے سے تو برتن ہیں. مگر گیارہ بج چکے تھے اور برتن تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے. اب وہ اس لمحے کو کوس رہی تھی جب اس نے اتنے سارے برتنوں کو تھوڑا سمجھا تھا.
ایصم نے احسن نے کال کی. اور صبح گھر آنے کے لئے مدعو کیا. احسن نے صبح داود کے ساتھ آنے کا کہا.احسن کال بند ہونے کے بعد کمرے کی طرف جانے لگا تبھی آیت پے نظر پڑی. آیت کو اکیلے برتن دھوتے دیکھ کر سیل فون سے آیت کی ایک تصویر لینے کے بعد پاکٹ میں ڈال لیا. اور گنگناتے ہوئے کچن کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا.
" My life is yours and all because You came into my world with love so softly love "
احسن کی آواز سن کر آیت نے پیچھے مڑ کر دیکھا. " کتنا ظلم ہوتا ہے ناں ویسے تم پر. اگر آپ کہیں تو میں کچھ مدد کروا دوں مائی ڈئیر کزن ؟ " وہ اتنا کہتے ہوئے اپنی آستین اوپر کرتے ہوئے آگے بڑھا.
" ارے ارے احسن بھائی میں کرلوں گی. آپ جائیں ." آیت تھوڑا پیچھے ہوتے ہوئے بولی. 
" I am not your Bhai. " 
یہ کہتے ہوئے اس نے آیت کا ہاتھ پکڑا.آیت نے اسکو پیچھے دکھیلتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑایا. 
" یہ کیا بدتمیزی ہے. میں ابھی ابو کو بتاتی ہوں ." وہ غرائی. اتنے میں کسی کمرے کے دروازہ کھلنے کی آواز آئی. احسن گنگناتے ہوئے جلدی سے کچن سے باہر نکلا. آیت کے چہرے پے ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ یہ ہوا کیا ہے ؟ وہ جلدی سے برتن دھو کر اپنے کمرے میں گئی. اسکا دل تو کیا کہ بیڈ پے لیٹی رئیسہ کو اٹھائے اور اس کے بھائی کی کرتوت بتائے. مگر نا جانے کیا سوچتے ہوئے پھر وہ چپ چاپ لیٹ گئی.
صبح جب داود یونیورسٹی جانے کے لئے نکلا تو احسن نے اسے کہا کہ اسے ایصم کی طرف چھوڑ دے. " احسن بیٹا اتنی گرمی میں تم کیا ادھر جاو گے. اسے ہی ادھر بلا لیتے. "  ناشتہ کرتی فریدہ نے احسن سے کہا. 
" Mama he invited me last night. اور داود بھی یونیورسٹی جارہا تو میں اکیلا گھر میں رہ کے کیا کروں گا. "
  فریدہ نے کہا .اچھا ٹھیک ہے جاو. مگر جلدی آجانا تم. داود اسے ایصم کے گھر کے سامنے اتار کے چلا گیا. احسن نے ڈور بیل بجائی. لیکن کوئی باہر نہیں آیا. اس نے دوتین بار گھنٹی بجائی. 
" ارے کون ہے بابا ؟ آرہی ہوں ناں. " آخر اللہ اللہ کرکے اندر سے آواز آئی تو احسن کی جان میں جان آئی. ثمینہ نے دروازہ کھولا تو احسن نے سلام کرنے کے بعد پوچھا. ممانی آپ نے پہچانا مجھے. میں احسن. 
" ہاں فریدہ کے بیٹے ہو ناں تم. باہر کیوں کھڑے ہو تم اندر آو. دراصل اقرا اور عبداللہ سکول چلے گئے تو میں سو گئی تھی." ثمینہ یہ کہتے ہوئے اسے اندر لے آئی. بیٹا تم بیٹھو میں تمھارے لئے کچھ پینے کے لئے لاتی ہوں. اور ساتھ ایصم کو جگاتی ہوں.
" نہیں ممانی پانی کی ضرورت نہیں. میں ناشتہ کرکے آیا ہوں. آپ بس ایصم کو بتا دیں احسن آیا ہے. " 
ادھر آیت نیند سے جاگی تو احسن کو گھر نا پاکر اس نے سکون کا سانس لیا.
ایصم اور احسن گھنٹوں بیٹھے اپنی نئی پرانی محبت کی داستانیں ایک دوسرے کو سناتے رہے. تبھی احسن نے کہا. 
" Yaar Esam i need your help. " 
میں نے کل رات کو آیت سے بات کرنی چاہی مگر وہ ........
" اچھا تم فکر نہیں کرو میں کچھ سوچتا ہوں. " ایصم نے احسن کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا. 
کچھ دیر بعد ایصم نے آیت کو کال ملائی اس نے ریسیو نہیں کی. وہ باربار ٹرائی کرتا رہا. آخرکار آیت نے تنگ آکر کال ریسیو کی. " کیوں باربار کال کر رہے ہو. جب ایک دفعہ کوئی انسان کال پک نہیں کررہا تو اسکا مطلب تو تمھیں بہت اچھے سے پتا ہے ناں ایصم خان ؟ " آیت نے اپنا بدلہ لیتے ہوئے کہا. 
" تم انسان کب سے بنی چڑیل ؟ " ایصم نے اسکا موڈ ٹھیک کرنے کےلئے کہا. احسن نے اسے سر پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا. " پوائنٹ پے آو ناں. " 
ایصم نے  احسن کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا . " صبر کر ناں. مجھے پتا اسے کیسے ہینڈل کرنا. " اور ساتھ ہی آیت سے مخاطب ہوا. " میری پیاری دوست مجھ سے ناراض ہے. ؟ چلو مجھے ڈانٹ لینا مگر اس سے پہلے کوئی تم سے بات کرنا چاہتا ہے. وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے. " 
آیت نے سوچا کہ شاید ایصم اسے تنگ کرنے کے لئے ایسا کہہ رہا ہے. ایصم  نے احسن کو فون پکڑاتے ہوئے کہا. " یہ لو اب بات کرو. "
آیت احسن کے انگریزی لہجے میں " ہیلو " سن کر ہکا بکا رہ گئی. اس نے فورا سے کال بند کردی. ایصم نے پھر سے ٹرائی کیا. آیت نے نمبر مصروف کردیا. اسے ایصم کی اس حرکت پے شدید غصہ اور رونا آرہا تھا. اب ایصم پہلے کی طرح باربار کال کرنے لگا. آیت نے اسکا نمبر بلاک کردیا. ایصم کے سودفعہ ٹرائی کرنے پر بھی جب آیت نے کال ریسیو نہیں کی تو ایصم نے میسج کیا. " یار یہ کیا ہے. ؟  تم اگر احسن سے بات کر لو گی تو مر نہیں جاو گی. پیار کرتا ہے تم سے . "
یہ سن کر آیت کو اور رونا آیا. " اس انسان کو احسن کا پیار نظر آگیا. لیکن میرا پیار نظر نہیں آیا. " اس نے یہ سوچتے سوچتے میسج لکھا. " میں بعد میں بات کرتی ہوں. " سینڈ کر دیا. اور ساتھ ہی ایصم کو پھر سے ان بلاک کردیا.ایصم یہ میسج دیکھ کر تھوڑا ریلیکس ہوا . اور احسن سے کہا.
" Donot worry. میں سب سنبھال لوں گا "
احسن نے پھیکی سی مسکراہٹ دی مگر اس کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا .میں اب اس کو بتاتا ہوں احسن کو نا کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے. 
فیکڑی سے آکر حیات خان نے نیوز چینل لگاتے ہوئے صبا سے چائے بنانے کا کہا. صبا چائے بنا کر لائی تو . ہیڈ لائنز چل رہی تھی. 
" انٹر میڈیٹ کے امتخانات کے نتائج کا اعلان کل کیا جائے گا. طلبہ و طالبات کی دعاوں کا سلسلہ عروج پر. "

" کل آیت کا رزلٹ آجائے گا. اللہ تعالی میری بیٹی کو کامیاب کرے. " صبا نے حیات خان سے کہا. تو انہوں نے اس کے جواب میں چائے پیتے ہوئے " آمین " کہہ دیا.
آدھی رات کو آیت نے ایک نظر ساتھ سوتی رئیسہ کو دیکھا اور دوسری نظر سیل فون پے چمکتے نام کو دیکھا. اور پھر دبے پاوں کمرے سے باہر نکلی. اور کال ریسیو کر کے چپ رہی. ایصم کب سے " ہیلو ، آیت یار بات تو کرو. " کہے جا رہا تھا. آخر اس نے چپ توڑتے ہوئے آہستہ سے کہا. " بولو . اب کیا بات کرنی ہے تمھیں ؟ " 
" یار تم اب ایسے بات تو نہ  کرو ناں میرے ساتھ. تم ہر وقت مجھ سے لڑتی کیوں رہتی ہو. " ایصم نے آیت سے گلہ کرتے ہوئے کہا.
" تم کس مٹی سے بنے ہو ؟ تمھیں مجھ پے ذرا ترس نہیں آتا ؟ مجھ سے بات نہ کرنے پے تمھیں کوئی اذیت نہیں ہوتی ہے ؟ " آیت نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ پیچھے سے احسن نے سیل فون کھینچتے ہوئے اسکا بازو پکڑا.
" تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ ہاتھ لگانے کی. " وہ چلائی. 
ایصم نے جلدی سے کال بند کردی.
" مجھ سے بات کرتے تمھیں موت پڑتی ہے ناں. اب دیکھنا میں تمھارا کیا حشر کرتا ہوں. " وہ آیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا. 
" ابو " وہ پھر سے چلائی. 
اور اونچی آواز دو بلکہ تم چھوڑو میں خود آواز دیتا ہوں. " ماموں ، ممانی " احسن نے شور مچایا. 
" یہ کون اس وقت شور مچا رہا ہے . " صبا بوکھلاتے ہوئی اٹھی. سب ان دونوں کے شور سے اٹھ کر باہر آچکے تھے. 
" آیت یہ کیا ہو رہا ہے ؟ حیات خان نے غصے سے کہا.
" ماموں اس سے کیا پوچھ رہے ہیں ؟ آپ کو میں بتاتا ہوں . " احسن نے کہا.
آیت جلدی سے اپنا بازو چھڑا کر ماں کے ساتھ روتے ہوئے لپٹی. 
" یہ سب کیا ہے احسن بیٹا ؟ اب کی دفعہ فریدہ بولی. 
" Mamo ask her.
کس سے بات کر رہی تھی یہ اس وقت. " احسن نے فون ماموں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا.
" آیت یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ "  داود نے آیت کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا. 
حیات خان نے کال لاگ سے 5 منٹ پہلے ختم ہونے والے نام پر ایک نظر ڈالی. ثانیہ 2 .. اس نے نمبر پر کلک کر کے سیل فون کان کو لگایا. 
" آیت کیا ہوا تھا ؟" دوسری طرف سے ایصم نے جلدی سے کہا. مردانہ آواز سنتے ہی حیات خان نے سیل فون فرش پر پھینکا. اور ایک زوردار تھپڑ آیت کے منہ پر مارا. 
" تم برسوں سے بنی میری عزت کو یوں مٹی میں ملا رہی تھی.
میں تمھیں جان سے مار دوں گا. " انہوں نے اسکا گلہ دباتے ہوئے کہا. جلدی سے داود اور احسن نے آگے بڑھ کر حیات خان کو پکڑا. " امی اسے کمرے میں لے جائیں. " داود نے ماں سے کہا. رئیسہ  بھی اپنی ماں کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلی گئی . آیت نے ساری رات یوں ہی  روتے ہوئے گزار دی.

                          ☆☆☆☆

ساری رات رورو کر سر میں شدید درد تھا. لیکن وہ اٹھی منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم پہنا اور کمرے سے باہر آئی. تو داود اور ابو ناشتہ کررہے تھے. حیات خان نے اسے دیکھ کر ناشتہ چھوڑا اور اٹھ کر باہر چلا گیا. داود نے اسے کہا. " ناشتہ کرلو. " 
اس نے یہ کہہ کر منع کردیا. " بھائی بھوک نہیں ہے. "  تبھی باہر گیٹ کے کھلنے کی آواز آئی. حیات خان گاڑی نکال کر فیکٹری چلا گیا. " تم مجھے کالج چھوڑ دو گے پلیز ؟ " امی آج رزلٹ آرہا تو میں کالج جارہی ہوں. " آیت نے گاڑی کی آواز سنتے ہوئے کہا. صبا نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا. وہ اس سے رات والی بات پے ناراض تھی.  داود ناشتہ کرکے یونیورسٹی کے لئے نکلنے لگا تو آیت کو آواز دی. " آجاو اب. " 
آیت اور داود کالج آنے تک بلکل خاموش رہے . دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی. آیت بائیک سے اتر کر سیدھا کلاس کی طرف بڑھ گئی. کلاس میں  کچھ لڑکیاں رزلٹ کو لے کر پرجوش تھی اور کچھ پریشان . اس لئے کسی نے ہاتھ کے اس طرح منہ بنائے بیٹھے رہنے پر کوئی خاص توجہ نہیں کی. تقریبا 10 بج کر 20 منٹ پر سر کلیم ہاتھ میں دو پیج پکڑے کلاس میں داخل ہوئے تو لڑکیوں نے ہوٹنگ شروع کردی.  سر نے لڑکیوں کو رزلٹ بتانے سے پہلے اچھا خاصا لیکچر دے دیا. لڑکیوں نے ایک دفعہ پھر سے شور مچا دیا. پھر سر نے کالج میں پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن لینے والوں کو سراہتے ہوئے باقی لڑکیوں کے مارکس بتائے. آیت نے 400 مارکس لئے جو کہ نا صرف ٹیچرز بلکہ اس کے خود کے لئے بھی کافی حیران کن بات تھی. آیت کے مارکس بتاتے ہوئے سر نے کہا.
" مجھے امید نہیں تھی کہ آیت اتنے زیادہ نمبرز لے لے گی. کیونکہ پڑھتی تو یہ ہے نہیں." 
جس پر سب کلاس ہنسنے لگی مگر وہ ویسے ہی چپ چاپ بیٹھی رہی . چھٹی کا وقت ہوا تو آیت نے دواد کو کال کرنے کے لئے بیگ میں فون نکالنے کے لئے ہاتھ ڈالا تو رات کا پورا واقعہ اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا. ثانیہ نے اسے ہلاتے ہوئے کہا " چلو اٹھ جاو اب. تم نے گھر نہیں جانا آج کیا. ؟ " 
دل تو اسکا یہی کر رہا تھا کہ شاید کوئی اسے کہہ دے کہ گھر مت جاو. " میرا سیل فون گھر رہ گیا ہے . تھوڑی دیر میں ابو یا داود لینے آجاتے ہیں . آیت نے ثانیہ سے کہا. 
" چلو تب تک میں بھی تمھارے ساتھ رکتی ہوں. " ثانیہ نے آیت کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا. پوار کالج خالی ہونے کو تھا مگر آیت کو کوئی لینے نہیں آرہا تھا . تبھی ثانیہ نے آیت کو کہا. " یار آیت مجھے بھی دیر ہو رہی ہے اور مجھے لگتا تمھارے گھر والے بھول گئے ہیں کہ آج تم کالج گئی ہو تو ایسا کرو کہ تم بھی میرے ساتھ لوکل چلو. " 
" مگر مجھے راستے نہیں آتے ہیں. " آیت نے رونے والا منہ بناتے ہوئے کہا. 
" اوھو تم ٹینشن مت لو. یہاں سے میں تمھیں بتا دوں گی اور آگے سے تم گاڑی والے سے پوچھ لینا. وہ بتا دیں گے. تم چلو بس میرے ساتھ. ثانیہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا. آیت اور ثانیہ کالج سے نکل کر مین روڈ کے پاس آکر  رکشے کا انتظار کرنے لگی تبھی آیت کو چکر آنے لگے. 
" آیت تم ٹھیک ہو ؟ " ثانیہ نے پوچھا. 
" ہاں میں ٹھیک ہوں . بس دعا کرنا خیریت سے گھر پہنچ جاوں ." آیت نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا. 
ایک  چینگچی رکشہ والا آدمی ان کے پاس آکر کھڑا ہوا. " باجی کدھر جانا ہے ؟ "  
آیت نے آہستہ سے اسے " پھاٹک کہا. 
اس نے پھر سے پوچھا. " باجی کدھر ؟ "
تبھی ثانیہ نے کہا. " بہرے ہو ؟ بھائی اپنی قوالی کی آواز کم کرو ناں. تو تمھیں کچھ سنائی دے. پھاٹک جانا ہے. "
" اچھا بٹھیں. " رکشے والے نے کہا. تو ثانیہ نے پہلے آیت کو چینگچی میں بٹھایا اور پھر خود دوسرے چینگچی میں بیٹھی. آیت دل ہی دل ڈر بھی رہی تھی کیونکہ کافی دیر ہو گئی تھی.گھر میں کہیں کوئی نیا بکھیڑا نا کھڑا ہو جائے. تبھی  چینگچی رکشے والے نے نصرت صاحب کی قوالی لگا دی. اور ساتھ خود بھی بولنے لگا. 
" ایس توں ڈاڈا دکھ نا کوئی
پیار نا وچھڑے
کسے دا یار نا وچھڑے
کسے دا یار نا وچھڑے 
کسے دا یار نا وچھڑے "
یہ الفاظ سن کر آیت کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے اسے نہیں پتا تھا اسے کیا ہو رہا ہے . رکشے والے نے ایک گاڑی کو کٹ کراتے ہوئے آگے نکلنا چاہا. آیت کو چکر آیا اور وہ رکشے سے نیچے گر گئی. پیچھے آنے والی گاڑی کے ڈرائیور نے بریک لگانے کی کوشش کی. مگر گاڑی آیت کی ٹانگیں کچل چکی تھی. چینگچی ڈرائیور ڈر کر بھاگ گیا. جب کہ کار والے نے جلدی سے ریسکیو 1122 کو کال کی. روڈ پر ٹریفک جام ہو چکی تھی ہر طرف خون ہی خون تھا. ریسکیو ٹیم نے آیت کو جلد از جلد سول ہسپتال پہنچایا. آیت کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا. 
آیت کے گھر نا پہنچنے پرادھر صبا کا برا حال تھا. اس نے داود کو کال کی. 
" داود آیت ابھی تک کالج سے نہیں آئی ہے ؟ " 
" امی میں تو بھول ہی گیا تھا. میں ابھی کالج جاتا ہوں. آپ پریشان نہ ہو " داود نے ماں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا.
داود کالج پہنچا تو کالج بند ہو چکا تھا. اس نے چوکیدار سے پوچھا تو اس نے کہا ہم ہر کلاس دیکھ کر پھر اسے بند کرتے ہیں. ہو سکتا لڑکی اپنی کسی دوست کی طرف چلی گئی ہو. داود نے ماں کو کال کی.
"  امی آیت ادھر نہیں ہے. کالج بند ہو چکا ہے." 
" یا اللہ میری بچی کی خفاظت کرنا. " صبا نے روتے ہوئے کہا. 
" کہیں بھاگ واگ تو نہیں گئی ؟ بھائی کو تو بتاو ." پاس بیٹھی فریدہ نے کہا. 
" امی آپ اس کا سیل فون ڈھونڈ کر اس کی فرینڈز کو کال کرکے پوچھیں. " یہ کہتے ہی اس نے کال بند کر کے ابو کو کال کر کے سب بتایا. 
حیات خان فیکڑی سے گھر آیا تو صبا رونے لگی. " تم اپنا رونا دھونا بند کرو. اگر وہ کہیں منہ کالا کر کے آئی تو گولی مار دوں گا اسے. میں صبح تھانے جاکر رپورٹ لکھواتا ہوں. کاش پیدا ہوتے ہی میں نے اسے دفن کردیا ہوتا." وہ چلایا. پھپھو ، رئیسہ اور احسن بیٹھے یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے.
رات کو داود تھک ہار کر گھر آیا تو صبا نے اس سے پوچھا. " کچھ پتا چلا ؟ 
" نہیں. " اس نے جواب دیا. 
" آپ نے اس کی دوستوں کو کال کر کے پوچھا ؟ " 
" نہیں اس کا سیل فون نہیں چلا. " صبا نے جواب دیا. " امی آپ بھی ناں. سم کسی اور فون میں ڈال لیتی. " اب اسے غصہ آرہا تھا. اس نے آیت کی سم اپنے فون میں ڈال کر اس کی دو، تین دوستوں کو کال کر کے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب وہ کالج سے نکلی تھی تو ثانیہ کے ساتھ تھی. داود نے جلدی سے ثانیہ کو کال کی. تو اس نے بتایا کہ آیت اس کے ساتھ ہی تھی اس نے آپ کا بہت انتظار کیا. جب آپ نہیں آئے تو میں نے اسے رکشے میں بیٹھا دیا تھا. 
" اسے راستے نہیں پتا تھے پاگل. " دواد ثانیہ پے چلاتے ہوئے بولا.
اس کی طبیعت بھی کچھ خراب سی تھی. لیکن مجھے نہیں پتا اب وہ کہاں ہے. ؟ " یہ کہتے ہوئے ثانیہ نے فون بند کردیا. 
ساری رات ایسے ہی پریشان میں گزری. سب اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی. صبا ادھر ہی بیٹھی دعائیں کرتی رہی. داود کو نو بجے کے قریب یونیورسٹی سے ایک دوست کی کال آئی. 
" یار پریزنٹیشن ہے کدھر ہو تم ؟ " 
" میں نہیں آ سکتا ایمرجنسی ہو گئی ہے . تم لوگ دے دو میں بعد میں دیکھ لوں گا جو بھی ہوگا. " داود نے اتنا کہہ کر کال بند کر کے واٹس ایپ سٹیٹس چیک کرنے لگا. ایک دوست کا سٹیٹس دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے. وہ جلدی سے اٹھا اور امی کی طرف بھاگا.  " امی . ابو . " اس نے آواز دی. 
" کیا ہوا ؟ " لاونج میں بیٹھی پھپھو نے کہا. وہ بنا جواب دئیے امی ابو کے کمرے کی طرف لپکا. 
" ابو . آیت ہسپتال میں ہے. " اسے سمجھ نہیں آہا تھا کہ وہ خوش ہو یا غمگین .؟ 
" یا اللہ . تمھیں کیسے پتا چلا ؟ صبا نے روتے ہوئے پوچھا. 
" میرے ایک یونیورسٹی فیلو نے کسی ڈاکٹر کے سٹیٹس کا سکرین شوٹ لگایا ہوا تھا . آپ بس جلدی سے اٹھیں. " وہ جلدی سے ہسپتال پہنچے. جس ڈاکٹر کا اس لڑکے نے بتایا تھا وہ سب سیدھا اس ڈاکٹر کے کمرے کی طرف گئے. تبھی ڈاکٹر راونڈ کے لئے اپنے کمرے سے نکل رہا تھا. ڈاکٹر کو دیکھ کر صبا نے جلدی سے کہا . " ڈاکٹر صاحب ! میری بیٹی کیسی ہے اور کدھر ہے ؟ " 
ڈاکٹر نے حیرانگی سے اسے دیکھا. پھر حیات خان نے ڈاکٹر کو بہت ہی تحمل سے سب پوچھا. تو ڈاکٹر نے بتایا کہ مریضہ کو کل روڈ ایکسیڈینٹ  کے بعد ریسیکو ٹیم نے ہسپتال پہنچایا. اس کی حالت کافی سیریس ہے کیونکہ ہسپتال آنے تک خون کافی بہہ چکا تھا.آپ بس دعا کریں. صبا یہ سن کر رونے لگی. فریدہ نے اسے چپ کراتے ہوئے بینچ پر بٹھایا. احسن نے ایصم کو کال کرکے آیت کی حالت کے بارے میں بتایا تو وہ بھی ہسپتال پہنچ گیا. ایصم نے آتے ہی پوچھا . " کیسے ہوا یہ سب ؟ " 
" کچھ پتا نہیں. صبح سے شام ہونے کو ہے اور آیت کو ابھی تک ہوش نہیں آیا ہے. " صبا غم سے نڈھال تھی. 
" حوصلہ کریں تائی امی. اللہ سب ٹھیک کرے گا. " ایصم نے کہا.
اتنے میں نرس آئی.آپ لوگ  آیت کے ساتھ ہیں ؟ آپ کو ڈاکٹر صاحب بلارہے ہیں. داود نے باقی سب کو ادھر ہی بیٹھنے کا کہا. اور خود ڈاکٹر کے پاس سے ہو کر واپس آکر بتایا کہ آیت کو ہوش آگیا ہے میں اس کی میڈیسنز لے کر آتا ہوں وہ پہلے سے بہتر ہے. اس نے یہ بات بتانے سے گریز کیا کہ " اس کی حالت ابھی بھی خطرے میں ہے. " 
صبا نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا. " یا اللہ تیرا شکر ہے، میری بچی کو جلد از جلد ٹھیک کردے. " 
وہ میڈیسنز لے کر آیا تو ڈاکٹر نے انہیں ملنے کی اجارت دے دی. 
" امی مجھے معاف کر دیں. میں آپ کی اچھی بیٹی نہیں بن سکی. " وہ روتے ہوئے ماں سے کہہ رہی تھی. 
" داود میرے جانے کے بعد امی ابو کا  بہت خیال رکھنا. " 
" تم ایسی باتیں مت کرو . میری ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے تم جلد ٹھیک ہو جاو گی. " داود نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا. مگر وہ اب ایک ہی دفعہ چپ ہونے والی تھی.
" اور ابو آپ کو میں نے بہت دکھ دئیے ہیں ناں. ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے اس کی عزت کا مان رکھیں . مگر میں تو آپ کا مان رکھ ہی نہیں پائی. لیکن ابو اس بچے کی خواہشات کا کیا ؟
باپ کو ہمیشہ یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی کہیں اپنی مرضی نہ کرلے. مگر یقین جانیے ابو ایک بیٹی کو بھی یہی ڈر رہتا. کہیں باپ اس کی زندگی کا فیصلہ اس کی مرضی کے بنا نہ کر دے. مگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا." وہ اب اکھڑے اکھڑے سانس لے کر کہہ رہی تھی. 
احسن زرہ دور کھڑا تھا. اس نے اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا. " جس سے محبت کرتے ہیں ناں اس کی محبت کو برباد نا کرتے ہیں بلکہ انتظار کرتے ہیں. " 
ایصم اس بات پر اپنے آنسو نا روک سکا. تو آیت نے اس سے آہستہ سے کہا. " خدا کرے تم کسی سے محبت کرو اور وہ تم سے کہے.
       میری منزل میری حد 
          تم سے تم تک
        فخر یہ کہ تم میرے ہو 
          فکر یہ کہ کب تک ؟..
اور تم جواب نا دے سکو. مگر میں یہ بھی دعا کروں گی کہ  جس سے تم محبت کرو اس سے کبھی نا بچھڑو . " 
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ہونٹوں پے مسکراہٹ تھی.اس نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا تھا. آیت نے ایک نظر سب کو دیکھا اور آنکھیں بند کرلی. صبا نے دو تین دفعہ " آیت.. آیت .. کہتے ہوئے ہلایا. داود  جلدی سے ڈاکٹر کو لینے گیا. مگر وہ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی ان سب سے دور جا چکی تھی. اس کی روح اس کے جسم سے بچھڑ چکی تھی. ڈاکٹر نے آتے ہی اس کی نبض پکڑتے ہوئے کہا. 
" I'm Sorry . She is no more. " 
حیات خان نے دیوار کو ٹیک لگائی. صبا نے اپنے صبر کے سب پل توڑ دئیے.  وہ ان سب کے بیچ خاموش پڑی تھی.
                       ☆☆☆☆ 
((ختم شد))
اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں.



No comments:

Post a Comment