#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#از_قلم_علینہ
#قسط_نمبر_١
💕💕حصہ اول💕💕
"کوئی ہے اللہ کا بندہ جو مجھے کالج چھوڑ آئے۔"شیروان کی آنکھ تقریباََ روز اسی آواز پر کھلتی تھی۔
آگے سے جانے اسے کیا مشورہ دیا گیا وہ پھر با آواز بلند بولی۔
"میں قطعاََ لوکل نہیں جاؤنگی۔"
شیروان اٹھ کر نیچے آیا تو عاطف الجھ رہا تھا۔
"کتنی بار کہا ہے وین لگوا لو پر اس چڑیل کو کوئی لے جاتے ہی نہیں۔"
"میں چھوڑ آتا ہوں۔"شیروان نے اس کے جواب سے پہلے اپنی خدمات دیں۔
"دیکھو اپنوں سے غیر اچھے,یونہی نہیں کہتے۔پر آپ کیوں۔یہی چھوڑ کر آئینگے مجھے۔مذاق بنایا ہوا ہے بہن کو سڑکوں پر دھکے کھلاتے ہیں شرم نہیں آتی۔یہی میرا کوئی بھائی ہوتا تو کبھی مجھے تم لوگوں کی محتاجی نہ ہوتی۔"
اپنے فرسٹ کزن اکلوتی خالہ کے اکلوتے بیٹے کو پل میں غیر کہہ کر اپنے تمام گھر کے لڑکوں کو سلواتیں سنا کر اب وہ نقلی رونے لگی تھی۔
عاطف اس کے ناٹک سے تنگ آ کر اندر چلا گیا۔
"اب جاؤ جس کے ساتھ بھی جانا ہے۔میں نہیں لے کر جا رہا۔"
یہ اس کا روز کا معمول تھا۔سب کو ٹھیک ٹھاک سنا کر پھر اس نے کالج جانا ہوتا تھا۔
کوئی اس کو کچھ کہنے کی ہمت بھی نہیں کرتا تھا کہ پھر اس نے بابا جان کو جا کر شکایت لگا دینی ہوتی تھی اور بابا جان کی سختی سے سب واقف تھے۔
بابا جان سب کے لیے بڑے ہی سخت گیر واقع ہوئے تھے۔بس ایک یہی تھی جس کے لیے وہ بابا جان نہیں اس کے بابا جانی تھے۔
ہر وقت وہ ان سے لاڈ اٹھواتی۔
وقت بے وقت اپنی بے جا فرمائشیں پوری کرواتی۔
یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس کو بگاڑنے میں بابا جان اور ایک اور بندے کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔
اور وہ تھا اس کے بابا جانی کا منجھلا بیٹا "فراز"۔
"چل چل چل,میری ماں چل, رولا دیکھ ڈالتی۔چل میں تجھے چھوڑ آتا ہوں۔"
فراز نے سیڑھیوں سے اترتے عرینا کے ناٹک کا ختم ہونے کا انتظار کر کے بولا اور لان میں چلا آیا۔
وہ یہی تو چاہتی تھی جو مرضی ہو جائے کالج تو فراز کے ساتھ ہی جانا ہوتا تھا کہ باقی سب سے اسے کوئی نا کوئی شکایت لازمی ہوتی تھی۔
کوئی بائیک بہت تیز چلاتا ہے۔
کوئی دھیرے چلا کر اسے کالج سے لیٹ کر دیتا ہے۔
بقول اس کے اس گھر میں سوائے بابا جانی اور فراز کے کسی کو ٹھیک سے ڈرائيونگ کرنی ہی نہیں آتی۔
سب اس کی انہی باتوں کی وجہ سے اس سے چڑتے تھے۔
باہر آ کر فراز نے بائیک میں چابی لگائی۔
"بائیک پہ کبھی نہیں۔"اب یہ ایک اور نخرہ۔فراز پھر مسکرایا۔
شیراز ان کے پیچھے ہی باہر آیا۔اس کے ہاتھ میں گاڑی کی چابی تھی۔
"شیراز چابی دے گاڑی کی۔"
"میں نے بھی جانا ہے۔"
"میں ابھی اس کو چھوڑ کے آتا ہوں۔پھر چلے جانا۔"
فراز نے شیراز سے گاڑی کی چابی لے کر دروازہ کھولا۔
"چلو۔"
"چلو.......کوئی احسان نہیں کر رہے فرض ہے تمہارا۔"وہ مستی سے بولی۔
"جی پتہ ہے مجھے۔"فراز نے سعادت مندی سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور اندر بیٹھا پھر وہ دونوں چل دیے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
یہ تھا "حسان ویلا" کا صبح صبح کا منظر۔
"حسان ویلا"لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں واقع ایک خوبصورت سا بنگلہ تھا۔
جس میں تینوں بھائی اکٹھے ہی رہتے تھے۔
سب سے بڑے حسان صاحب جن کو سب بابا جان کہتے ان کے تین بیٹے شیراز,فراز اور نواز تھے۔
پھر حسیب صاحب جن کو سب بڑے پاپا کہتے ان کے پانچ بیٹے عاطف, عاکف, عاطر,عامر اور عابِر تھے۔
اس کے بعد سب سے چھوٹے محسن صاحب جن کو سب چھوٹے پاپا کہتے ان کی دو بیٹیاں ہی تھیں عرینا اور عریشہ۔
عرینا کا نام اس کے دادا چوہدری احسان نے بڑے چاؤ(شوق) سے رکھا تھا۔
جو آج سے پانچ سال پہلے وفات پا گئے تھے۔پھر ان کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی بیگم محسان یعنی دادی وفات پا گئیں۔
اس آٹھ بھائیوں کے گھر میں وہ دو ہی بہنیں تھیں۔
عاطر کی پیدائش سے گھر میں چھ بیٹے ہو گئے تھے۔اس کے بعد عرینا کی پیدائش بڑی نعمت تھی۔اور یہ وہ رحمت تھی جو سب کے لیے واقعی نعمت سے بڑھ کر تھی۔
عرینا عامر عابِر اور عریشہ سے بڑی تھی۔باقی سب اس سے بڑے تھے مگر یہ دادی اماں بنی حکم ایسے چلاتی جیسے یہ سب سے بڑی ہو۔
عرینا اپنے نام کی طرح شیرنی تھی۔سنہری بال اور سنہری آنکھیں۔گلابی ہونٹ اور گورا رنگ اور پھر اس کا دھاڑتا لاڈ اٹھواتا انداز۔
آٹھ لڑکوں میں اکلوتی کزن تھی سو خوب لاڈ اٹھواتی کہ عریشہ بہت چھوٹی تھی۔عریشہ اس گھر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا۔
عرینا BSC کی سٹوڈنٹ تھی۔گھر کے سبھی افراد مصروف تھے ماسوائے دو خواتین کے۔
عرینا کی والدہ رخسانہ بیگم اور فراز کی والدہ شمیم بیگم۔
حسیب صاحب کی بیگم اکبری عابِر کی پیدائش کے ساتھ ہی انتقال کر گئیں۔
عرینا کی والدہ رخسانہ بیگم نے ہی عابِر کو سنبھالا۔اس لیے وہ کبھی کبھار عرینا کو چِڑانے کے لیے کہتا یہ صرف میری مما ہے۔
جس پر عرینا اور عریشہ دونوں اس سے چڑتی تھیں۔اتنا عرینا نہیں اس بات پر چڑتی تھی جتنا عریشہ چڑتی تھی۔عابر عریشہ سے چھے سال بڑا تھا۔اور ان دونوں کی کبھی آپس میں نہیں بنی۔
شیروان بیگم رخسانہ کی بہن شبانہ کا بیٹا تھا۔جاب کے سلسلے میں آیا تھا CSS کی تیاری کر رہا تھا۔اس کی دو چھوٹی بہنیں تھیں۔حناء اور حرا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
کچھ ہی دنوں بعد شیروان CSS پاس کر گیا پوزیشن کے ساتھ۔اس کی والدہ شبانہ بیگم ادھر ہی مٹھائی لے کر آ گئیں۔
"مبارک ہو شیروان بھائی۔"
جب سب شیروان کو مبارکباد دے رہے تھے تو عرینا نے بھی رسماََ کہہ دیا۔
شیروان بھی فراز کا ہم عمر تھا۔
"خیر مبارک.......ارے ابھی کچھ دن پہلے تک تو میں غیر تھا پھر آج اچانک میں بھائی کیسے بن گیا۔"
"وہ خالہ کے آنے پر لگا کہ آپ تو میرے خالہ زاد بھائی ہو اس لیے۔"
اب عرینا کسی کو کہاں معاف کرنے والوں میں سے تھی۔
شیروان کی بھوری آنکھوں کی وارفتگی سے اسے کوفت ہوتی تھی۔اب بھی ہو رہی تھی سو وہ اتنا کہہ کر چلے گئی۔
"تم بھی کچھ کر لو۔دیکھو اس کی کتنی واہ واہ ہو رہی ہے۔ان اوٹ پٹانگ چیزوں کو بنا کر کچھ نہیں ملنے والا تمہیں۔"
عرینا وہاں سے ہٹی تو فراز کے پینٹنگ روم میں آ کر اس کے درپے ہو گئی۔
دوسری منزل پہ ایک کونے میں واقع یہ کمرہ پہلے سٹور روم تھا جسے اب فراز اپنی پینٹننگ کے لیے استعمال کرتا تھا۔
فراز سنجیدہ طبع تھا مگر اس کے لیے اس کے لہجے میں کبھی سنجیدگی نہیں آئی تھی۔ہمیشہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہتا۔
جہاں باقی سب اس سے بات بھی بڑی سوچ سمجھ کے کرتے تھے وہیں یہ اس سے دھڑلے سے ہر بات کر جاتی۔
فراز کے نقوش بہت پیارے تھے۔ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے۔سب سے بڑھ کر اس کی آنکھیں تھیں۔
فراز نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پینٹنگ برش رکھتے ہوئے اسے دیکھا جو خود ہی کرسی دھکیل کر اس پر بیٹھ کر اس کی پینٹنگز دیکھ رہی تھی۔
"میں اپنی اوٹ پٹانگیوں میں بڑا خوش ہوں۔"
"ہاں ہاں خوش ہو, پر ان چیزوں سے کوئی ڈھنگ کی لڑکی نہیں ملے گی تمہیں۔"
"مجھے ڈھونڈنے کی ضرورت کیا ہے۔تم ہو ناں۔"برش رکھ کر وہ پلٹا۔
"میں تو بالکل نہیں کرونگی تم سے شادی۔"
"توبہ میں نے مرنا ہے تم سے شادی کر کے۔میں تو کہہ رہا ہوں تم کوئی ڈھونڈ دینا۔تمہاری پسند بھی میری طرح اوٹ پٹانگ ہی ہے ناں۔" فراز نے دوبارہ سے ایزل پر رنگ بکھیرے۔
"جو تمہاری عادتیں اور حرکتیں ہیں ناں تمہیں میرے جیسی بھی نہیں ملنی۔"
"میں ڈھونڈوں گا بھی کیوں تمہارے جیسی۔"
"میں اتنی بری ہوں۔"
"نہیں نہیں تم بہت اچھی ہو۔پرفیکٹ گرل ہو اور مجھے پرفیکشن نہیں چاہیے۔بھئی پرفیکٹ لوگوں کی ڈیمانڈز بڑی ہوتی ہیں۔"فراز نے انداز تو مذاق اڑانے والا رکھا مگر دل سے مانتا یہی تھا۔
"کیوں تم میں کیا کمی ہے۔تمہیں کوئی بھی اچھی لڑکی مل سکتی ہے۔"
"اچھا.......تمہیں کیا ٹینشن ہے میری شادی کی۔ہو جائے گی جس سے ہونی ہو گی۔"
عرینا اٹھ کر اس کے پاس آ کر جو وہ پینٹننگ بنا رہا تھا دیکھنے لگی۔
"کیا بنا رہے ہو؟"
"ایسے ہی پینٹ ضائع کر رہا ہوں۔"
"یہ sunset ہے یا sunrise.....؟"
"جو جیسے دیکھے۔"
"ہمممممم.......طلوع کا منظر ہے ناں کیونکہ رات کو روشنی براؤن ہوتی ہے۔"
"تمہارے لیے طلوع ہے سورج۔"
"فراز نے بنائی ہے سورج کا نشیب تو نہیں بنائے گا ناں۔"
"right...."
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عاطف بھائی مجھے کالج چھوڑ آئیں۔"
عرینا کا لہجہ دھیما تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ بابا جان بھی کہیں گئے ہوئے تھے اور فراز بھی پچھلے ایک ہفتے سے غائب تھا۔
غائب نہیں بلکہ کراچی گیا ہوا تھا۔ایک آرٹ گیلری میں اپنی پینٹننگز نمائش کے لیے دی تھیں اس نے۔
جس کی وجہ سے عرینا کافی اداس ہو گئی تھی۔
عاطف کسلمندی سے اٹھا اور بڑے احسان سے اسے کالج لے کر گیا۔
بس انہی سب وجوہات کی بناء پر عرینا کا کسی کے ساتھ جانے کو دل نہیں کرتا تھا مگر اب مجبوری تھی۔
"بڑی امی فراز کب آ رہا ہے؟"کالج سے واپس آ کر اس نے فراز کی امی سے پوچھا۔
"آج فون کیا تھا کہہ رہا تھا میں آج واپس آ جاؤنگا۔میرے خیال سے آنے والا ہی ہو گا۔"
"اب واقعی آ ہی جائے۔جب سے گیا ہے میں صرف دو دن کالج گئی ہوں۔"
"لو جی آ گیا تمہارا ڈرائيور۔"فراز نے بیگ رکھتے ہوئے کہا۔
"صرف ڈرائيور......؟؟؟؟........اسلام علیکم۔"
"وعلیکم اسلام۔"
فراز نے گھور کر اسے جواب دیا تو وہ اٹھی۔
"میں پانی لائی۔"
فراز امی کے پاس بیٹھ گیا۔
"کیسا ہے میرا بیٹا۔"
"امی میں ٹھیک ہوں۔"
"تھک گئے ہو گے۔"
"جی امی۔"
"ویسے عرینا کا ڈرائيور کہنا واقعی زیادتی ہے۔میرے خیال سے اس کا سب کچھ ہی تم ہو۔"
شمیم بیگم نے سرسری سا کہا مگر وہ الفاظ فراز کے دل میں اتر گئے۔اپنے دل کے نہاں خانے میں وہ عرینا کے لیے محبت کی کلی کو پروان چڑھتا محسوس کر رہا تھا۔پھر اس کی حد درجہ فراز کے ساتھ "انسیت" اسے مذید قریب کر رہی تھی۔یہ بڑی آنکھوں والا فراز دھیمے سے مسکرایا پھر اونچا سا بولا۔
"لے آؤ پانی سست لڑکی۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ دوم💕💕
"یہ لو چلاتے جو اتنا ہو پیاس تو لگے گی ناں۔"
"تم میرے کھانے پینے پہ ہی نظر رکھا کرو بس۔خود دیکھو کھا کھا کے کیسے موٹی ہو گئی ہو۔"
"ہائے فراز.......میں تمہیں موٹی نظر آتی ہوں......؟"
جاؤ اپنی آنکھوں کا علاج کرواؤ مجھ سے زیادہ تو خود موٹے ہو۔"فراز نے اس کے سلم سمارٹ انتہائی پرکشش فیگر کو دیکھا۔
"چلو جی.......ابھی تھوڑی دیر پہلے اداس سی بیٹھی فراز فراز کر رہی تھی اور اب وہ آیا ہے تو آتے ہی لڑنا شروع کر دیا دونوں نے۔"
"بڑی امی میں نہیں لڑ رہی اس نے لڑنا شروع کیا ہے۔"
"عرینا میں نے کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں بڑا ہے تم سے۔تمیز سے بات کیا کرو اس سے۔ہر وقت کی بدتمیزیاں نہیں ٹھیک ہوتیں۔"
عرینا اپنی امی کی ڈانٹ سن کر منہ بسور کر بیٹھ گئی۔
"چھوٹی امی اسے پتہ ہے کس سے کیسے بات کرنی ہے۔آپ خواہ مخواہ نا ڈانٹا کریں اسے۔"فراز نے عرینا کی سائیڈ لی۔
"میں تمہارے بھلے کے لیے ہی اسے سمجھا رہی ہوں کہ تم سے تمیز سے بات کیا کرے۔اب بڑی ہو گئی ہے یہ۔پر میری سنتا کون ہے۔"
"چھوٹی امی ہم ایسے ہی خوش ہیں۔اگر یہ میرے علاوہ کسی اور سے ایسے بات کرے تو آپ مجھے بتانا میں خود اسے ٹھیک کر لونگا۔"
"واہ کیا بات ہے فراز۔"
عرینا نے اسے داد دی تو چھوٹی امی غصے سے وہاں سے چلے ہی گئی۔
"عرینا۔"
"اچھا ایسے گھورو تو مت........یہ بتاؤ تمہاری ایگزیبیشن کیسی رہی۔"
"بہت اچھی......بڑی پزیرائی ملی۔مجھے کہہ رہے تھے آرٹ گیلری والے نیکسٹ ٹائم سیل کے لیے لگائیے گا۔"
"پھر تم نے کیا کہا۔"
"میں نے کہا میں اپنا فن پیچتا نہیں ہوں.........."
"اور گھر میں ہی اس ردی کو جمع کیے رکھتا ہوں۔"حسان صاحب نے اندر آتے اس کی بات کا جواب دیا۔
"السلام علیکم بابا جان۔"
"وعلیکم اسلام۔"حسان صاحب کو اس کی آرٹ میں دلچسپی سے چڑ تھی۔مالائہ وہ کامرس میں ماسٹرز کر چکا تھا اور اب رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا۔اور بڑا لائق سٹوڈنٹ تھا۔فراز ان کی بے جا تنقید کی وجہ سے ان سے کترایا کرتا تھا۔اور وہ کسی حد تک کمپلیکس کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔
اب بھی عرینا کے سامنے یہ جملے وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے وہاں سے اٹھ گیا۔عرینا نے بھی محسوس کر لیا سو وہ کچن میں چلے گئی۔
"آپ بھی کیا بچے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔اسے شوق ہے پینٹننگ کرنے کا تو اسے اپنا شوق پورا کرنے دیں۔جوان اولاد پہ ہر وقت کی روک ٹوک ٹھیک نہیں ہوتی۔"
"میں اس کے بھلے کے لیے ہی اس پر سختی کرتا ہوں کہ اب خیر سے ماسٹرز کر چکا ہے تو کوئی ڈھنگ کی نوکری کرے۔یہ کیا ہر وقت اوٹ پٹانگ چیزیں بنا بنا کر کبھی کدھر گیا ہوتا ہے تو کبھی کدھر۔"
"جو بھی ہے اس نے کبھی آپ سے پیسے تو نہیں مانگے ناں اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے۔"
"ہاں وہی تو میں کہہ رہا ہوں برخودار سارا سارا دن تو گھر میں ہوتا ہے پیسے کہاں سے آتے ہیں اس کے پاس یہ سب کرنے کے۔"
"کچھ نا کچھ کرتا ہی ہو گا ناں۔"
"اس کے پاس پیسے آتے کہاں سے ہیں۔مجھے تو فکر لگی رہتی ہے اس کی کہیں غلط کاموں میں نا پڑ گیا ہو۔"
"بابا جانی آپ کو اپنے بیٹے پر یقین ہونا چاہیے کہ وہ کچھ بھی غلط نہیں کر سکتا۔جہاں سے بھی لاتا ہو گا جائز طریقے سے ہی لاتا ہو گا۔"
عرینا ٹرے میں کھانا رکھ کر کچن سے باہر نکلی تو اس نے بابا جان کی آخری بات سن لی۔اب ایسے کیسے ہو سکتا تھا کہ فراز کو کوئی کچھ کہے تو عرینا چپ چاپ سن لے۔اس لیے وہ اس کی حمایت میں بول پڑی۔
پھر کھانا لے کر اس کے کمرے میں چلے گئی۔
یہ کمرہ فراز اور نواز شئیر کرتے تھے۔فراز کمرے میں نہیں تھا باتھ روم سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔عرینا اس کا پھیلاوا سمیٹنے لگی۔اتنے میں فراز کمرے میں آیا سر پر تولیہ پھیرتے وہ اپنے دھیان میں تھا کہ عرینا کو دیکھ کر اس نے فٹافٹ شرٹ پہنی۔پھر آنکھوں کے اشارے سے پوچھا۔
"کیا بات ہے۔"
"کھانا۔"
عرینا نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا۔
"ہممممم مکس سبزی۔"
فراز کو مکس سبزی بہت پسند تھی۔
"بڑی امی نے کہا ہے اسے کھانا کھلا کر آنا۔"
عرینا بیڈ کی پائینتی کے پاس بیٹھ گئی فراز آ کر سرہانے بیٹھ گیا۔
"کیوں تم سیریلیک کھلانے آئی ہو میں کوئی چھ ماہ کا بچہ ہوں۔"
نہیں......پر بڑی امی کی بات میں کیسے ٹال سکتی ہوں۔"
فراز نے نوالہ لیا تو عرینا گال پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔
"یہ تم نے بنایا ہے۔"
"ہاں۔"
"اب تعریف سننا چاہتی ہو گی۔"فراز نے کہا تو عرینا نے مستی سے سر ہلایا۔
"یہ تم نے بنایا ہے......میں نہیں مانتا........تمہیں جو چمچ چلانا نہیں آتا.......بلکہ سوائے زبان چلانے کے آتا کیا ہے۔"
"دفع ہو جاؤ......تم سے ایسی ہی تعریف کی امید تھی۔"
"دیکھا امیدوں پر کتنا کھرا اترتا ہوں۔"
فراز آگے سے ہنس کر کھڑا ہو گیا۔عرینا بھی کھڑی ہو گئی۔
"اچھا سنو.......تمہارے لیے کچھ لایا ہوں۔"
"کیا......"
"بوجھو تو جانو....."
"آ............گھڑی....؟"
"نہیں۔"
"سوٹ......؟"
"نہیں.......سوچو سوچو ذرا کیا ہو سکتا ہے۔جو تمہیں بہت پسند ہو۔"
"ہمممم.......مجھے تو بہت ساری چیزیں پسند ہیں۔"
"پھر بھی سوچو تو سہی۔"
"نہیں سمجھ آ رہی.......تم بتا دو کیا لائے ہو۔"
فراز نے اپنا بیگ کھولا۔سب سے اوپر ہی ٹرانسپیرنٹ شاپر تھا۔
"یہ لو۔"عرینا نے فوراََ کھولا اندر "کی چین" اور "پرفیوم" تھا۔
عرینا کو کی چین اور پرفیوم بہت پسند تھے۔جب بھی کوئی اس سے پوچھتا تمہیں کیا چاہیے تو اس کا یہی جواب ہوتا میرے لیے پرفیوم لے آنا۔
جبکہ کی چین وہ ہمیشہ سے فراز سے ہی منگواتی تھی۔کیونکہ دونوں کی پسند تقریبا ایک جیسی ہی تھی۔
"فراز یہ تو بہت پیارے ہیں اور اس کی خوشبو بھی۔تمہیں کیسے پتہ مجھے پرفیوم اور کی چین پسند ہے۔"
"اوہ ہاں.......مجھے کیسے پتہ ہو سکتا ہے۔پچھلے کئی سالوں سے تو کوئی اور تمہیں یہ چیزیں لا کر دیتا رہا ہے ناں۔"
"اچھا ٹھیک ہے اب زیادہ شوخے ناں بنو۔اینڈ تھینک یو۔"
"چلو اب برتن اٹھاؤ اور کھسکو میں نے سونا ہے اور سنو کسی کو بتانا نہیں۔"
"اوکے۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز کا ایم۔اے کا رزلٹ آ گیا اوپر کے تین ناموں میں محمد فراز حسان تیسرے نمبر پر لکھا تھا۔
فراز نے سب سے پہلے امی کو بتایا پھر عرینا کو۔
عرینا نے خاص اس کے رزلٹ کی خاطر چھٹی کی تھی۔پھر فراز تقریب انعامات میں چلا گیا۔عرینا بھی ساتھ تھی۔
"بڑی بات ہے.......مبارک ہو.......ایویں ہی کہتے ہیں فورسٹر سبجیکٹ میں بچے سروائیو نہیں کرتے۔"
عرینا نے راستے میں کہا۔
"بس تمہاری دعاؤں کا صلہ ہے ورنہ یہ ناچیز کس قابل۔"فراز نے سعادت مندی دکھائی۔
"وہ تو مجھے پتہ ہے۔"عرینا نے ناک چڑھا کر کہا۔
"عرینا۔"اپنے برابر بیٹھی سکن سکارف کے حالے میں فراز نے عرینا کا چاند سا چہرہ دیکھا۔
"فراز۔"اور دونوں ہنس پڑے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز کو اس چیز کا بڑا دکھ ہوا کہ اس کے ساتھ تقریب انعامات میں سوائے عرینا کے گھر سے کوئی نہیں گیا۔
جب وہ دونوں واپس گھر آئے تب فراز کے چہرے پر خوشی اور دکھ کے دونوں تاثرات تھے۔
مگر جیسے ہی وہ گاڑی کھڑی کر کے اندر آیا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
عرینا پہلے ہی اندر چلے گئی اور باقی سب کے ساتھ کھڑی تھی۔جب فراز اندر داخل ہوا تو اس پر پھولوں کی برسات کی گئی۔
سامنے ہال میں سب گھر والے موجود تھے۔سب نے اسے مبارکباد دی۔
اس کو مٹھائی کھلائی گئی۔سب خوش تھے کہ اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز بیٹا۔"فراز رات کو اپنے کمرے میں جا رہا تھا جب بڑے پاپا نے اسے بلایا۔
"جی بڑے پاپا۔"
"بیٹا آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"جی کہیے بڑے پاپا۔"
"ادھر نہیں اوپر لائبریری میں چلو۔"
"جی چلیں۔"
پھر وہ دونوں لائبریری میں چلے گئے۔
"جی بڑے پاپا کہیے۔کیا بات کرنی آپ کو مجھ سے۔"دونوں آمنے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"بیٹا پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے........دیکھو تم بلا جھجھک مجھے بتا سکتے ہو جو بھی کرنا چاہتے ہو.......اگر تم پینٹننگ کو اپنا پروفیشن بنانا چاہتے ہو تو تم وہ بھی کر سکتے ہو.....میں بھائی سے بات کر لونگا......اور اگر تم کچھ اور کرنا چاہتے ہو تو وہ بھی مجھے بتا دو۔"
"بڑے پاپا پینٹننگ کرنا میرا شوق ہے۔میں اسے ایز آ پروفیشن نے اپنانا چاہتا۔میں اسے بس اپنے شوق تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔"
"تو پھر کوئی جاب کرنے کا ارادہ ہے تمہارا.....؟"
"جی بڑے پاپا۔"
"تو پھر ٹھیک ہے کل سے آپ ہمارے ساتھ آفس جوائن کرو۔"
"مگر............"
"مگر کیا.......؟؟"
"بابا جان کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا ناں میرے آفس جوائن کرنے سے۔"
"نہیں بھائی صاحب کو کیوں اعتراض ہو گا۔تم بس کل سے ہمارے ساتھ آفس جایا کرنا۔"
"بڑے پاپا کیا میں سوموار سے جوائن نہیں کر سکتا......؟؟"
"اور دو دن کیا کرنا ہے میرے بیٹے نے......؟؟؟"
"کچھ تھوڑے بہت کام نبٹانے ہیں میں نے۔"
"چلو ٹھیک ہے پیر سے آپ ہمارے ساتھ جاؤ گے۔"
"جی ضرور بڑے پاپا۔اب مجھے اجازت.....؟"
بڑے پاپا نے سر کے اشارے سے اسے جانے کی اجازت دے دی اور خود عینک لگا کر فائل کھول کر بیٹھ گئے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"اللہ اللہ میرے کمرے میں چڑیل کہاں سے آ گئی.......؟"فراز کمرے میں داخل ہوا تو عرینا کو دیکھ کے بولنے لگا۔
"صرف چڑیل نہیں جن بھوت بھی ہیں سارے۔"جواب عریشہ کی طرف سے آیا۔
"اللہ خیر کرے۔تم سب میرے کمرے میں کیا کر رہے ہو....؟"
"تمہارے نہیں ہمارے کمرے میں۔"نواز نے توصیح کرنا لازمی سمجھا۔
"ٹھیک ہے ہمارے کمرے میں۔"
"فراز بھائی ہم آپ سے ٹریٹ لینے آئے ہیں۔"عاطر نے کہا۔
"چلیں اپنی جیب ڈھیلی کریں اور ہمیں ٹریٹ دیں۔"عاکف نے کہا۔
"آج آپ کو چھٹی نہیں ملنے والی۔"عامر نے کہا۔
"یار کچھ تو شرم کرو تم لوگ۔ابھی مجھے جاب پہ تو جا لینے دو پھر ٹریٹ بھی لے لینا۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ دوم💕💕
"یہ لو چلاتے جو اتنا ہو پیاس تو لگے گی ناں۔"
"تم میرے کھانے پینے پہ ہی نظر رکھا کرو بس۔خود دیکھو کھا کھا کے کیسے موٹی ہو گئی ہو۔"
"ہائے فراز.......میں تمہیں موٹی نظر آتی ہوں......؟"
جاؤ اپنی آنکھوں کا علاج کرواؤ مجھ سے زیادہ تو خود موٹے ہو۔"فراز نے اس کے سلم سمارٹ انتہائی پرکشش فیگر کو دیکھا۔
"چلو جی.......ابھی تھوڑی دیر پہلے اداس سی بیٹھی فراز فراز کر رہی تھی اور اب وہ آیا ہے تو آتے ہی لڑنا شروع کر دیا دونوں نے۔"
"بڑی امی میں نہیں لڑ رہی اس نے لڑنا شروع کیا ہے۔"
"عرینا میں نے کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں بڑا ہے تم سے۔تمیز سے بات کیا کرو اس سے۔ہر وقت کی بدتمیزیاں نہیں ٹھیک ہوتیں۔"
عرینا اپنی امی کی ڈانٹ سن کر منہ بسور کر بیٹھ گئی۔
"چھوٹی امی اسے پتہ ہے کس سے کیسے بات کرنی ہے۔آپ خواہ مخواہ نا ڈانٹا کریں اسے۔"فراز نے عرینا کی سائیڈ لی۔
"میں تمہارے بھلے کے لیے ہی اسے سمجھا رہی ہوں کہ تم سے تمیز سے بات کیا کرے۔اب بڑی ہو گئی ہے یہ۔پر میری سنتا کون ہے۔"
"چھوٹی امی ہم ایسے ہی خوش ہیں۔اگر یہ میرے علاوہ کسی اور سے ایسے بات کرے تو آپ مجھے بتانا میں خود اسے ٹھیک کر لونگا۔"
"واہ کیا بات ہے فراز۔"
عرینا نے اسے داد دی تو چھوٹی امی غصے سے وہاں سے چلے ہی گئی۔
"عرینا۔"
"اچھا ایسے گھورو تو مت........یہ بتاؤ تمہاری ایگزیبیشن کیسی رہی۔"
"بہت اچھی......بڑی پزیرائی ملی۔مجھے کہہ رہے تھے آرٹ گیلری والے نیکسٹ ٹائم سیل کے لیے لگائیے گا۔"
"پھر تم نے کیا کہا۔"
"میں نے کہا میں اپنا فن پیچتا نہیں ہوں.........."
"اور گھر میں ہی اس ردی کو جمع کیے رکھتا ہوں۔"حسان صاحب نے اندر آتے اس کی بات کا جواب دیا۔
"السلام علیکم بابا جان۔"
"وعلیکم اسلام۔"حسان صاحب کو اس کی آرٹ میں دلچسپی سے چڑ تھی۔مالائہ وہ کامرس میں ماسٹرز کر چکا تھا اور اب رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا۔اور بڑا لائق سٹوڈنٹ تھا۔فراز ان کی بے جا تنقید کی وجہ سے ان سے کترایا کرتا تھا۔اور وہ کسی حد تک کمپلیکس کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔
اب بھی عرینا کے سامنے یہ جملے وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے وہاں سے اٹھ گیا۔عرینا نے بھی محسوس کر لیا سو وہ کچن میں چلے گئی۔
"آپ بھی کیا بچے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔اسے شوق ہے پینٹننگ کرنے کا تو اسے اپنا شوق پورا کرنے دیں۔جوان اولاد پہ ہر وقت کی روک ٹوک ٹھیک نہیں ہوتی۔"
"میں اس کے بھلے کے لیے ہی اس پر سختی کرتا ہوں کہ اب خیر سے ماسٹرز کر چکا ہے تو کوئی ڈھنگ کی نوکری کرے۔یہ کیا ہر وقت اوٹ پٹانگ چیزیں بنا بنا کر کبھی کدھر گیا ہوتا ہے تو کبھی کدھر۔"
"جو بھی ہے اس نے کبھی آپ سے پیسے تو نہیں مانگے ناں اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے۔"
"ہاں وہی تو میں کہہ رہا ہوں برخودار سارا سارا دن تو گھر میں ہوتا ہے پیسے کہاں سے آتے ہیں اس کے پاس یہ سب کرنے کے۔"
"کچھ نا کچھ کرتا ہی ہو گا ناں۔"
"اس کے پاس پیسے آتے کہاں سے ہیں۔مجھے تو فکر لگی رہتی ہے اس کی کہیں غلط کاموں میں نا پڑ گیا ہو۔"
"بابا جانی آپ کو اپنے بیٹے پر یقین ہونا چاہیے کہ وہ کچھ بھی غلط نہیں کر سکتا۔جہاں سے بھی لاتا ہو گا جائز طریقے سے ہی لاتا ہو گا۔"
عرینا ٹرے میں کھانا رکھ کر کچن سے باہر نکلی تو اس نے بابا جان کی آخری بات سن لی۔اب ایسے کیسے ہو سکتا تھا کہ فراز کو کوئی کچھ کہے تو عرینا چپ چاپ سن لے۔اس لیے وہ اس کی حمایت میں بول پڑی۔
پھر کھانا لے کر اس کے کمرے میں چلے گئی۔
یہ کمرہ فراز اور نواز شئیر کرتے تھے۔فراز کمرے میں نہیں تھا باتھ روم سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔عرینا اس کا پھیلاوا سمیٹنے لگی۔اتنے میں فراز کمرے میں آیا سر پر تولیہ پھیرتے وہ اپنے دھیان میں تھا کہ عرینا کو دیکھ کر اس نے فٹافٹ شرٹ پہنی۔پھر آنکھوں کے اشارے سے پوچھا۔
"کیا بات ہے۔"
"کھانا۔"
عرینا نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا۔
"ہممممم مکس سبزی۔"
فراز کو مکس سبزی بہت پسند تھی۔
"بڑی امی نے کہا ہے اسے کھانا کھلا کر آنا۔"
عرینا بیڈ کی پائینتی کے پاس بیٹھ گئی فراز آ کر سرہانے بیٹھ گیا۔
"کیوں تم سیریلیک کھلانے آئی ہو میں کوئی چھ ماہ کا بچہ ہوں۔"
نہیں......پر بڑی امی کی بات میں کیسے ٹال سکتی ہوں۔"
فراز نے نوالہ لیا تو عرینا گال پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔
"یہ تم نے بنایا ہے۔"
"ہاں۔"
"اب تعریف سننا چاہتی ہو گی۔"فراز نے کہا تو عرینا نے مستی سے سر ہلایا۔
"یہ تم نے بنایا ہے......میں نہیں مانتا........تمہیں جو چمچ چلانا نہیں آتا.......بلکہ سوائے زبان چلانے کے آتا کیا ہے۔"
"دفع ہو جاؤ......تم سے ایسی ہی تعریف کی امید تھی۔"
"دیکھا امیدوں پر کتنا کھرا اترتا ہوں۔"
فراز آگے سے ہنس کر کھڑا ہو گیا۔عرینا بھی کھڑی ہو گئی۔
"اچھا سنو.......تمہارے لیے کچھ لایا ہوں۔"
"کیا......"
"بوجھو تو جانو....."
"آ............گھڑی....؟"
"نہیں۔"
"سوٹ......؟"
"نہیں.......سوچو سوچو ذرا کیا ہو سکتا ہے۔جو تمہیں بہت پسند ہو۔"
"ہمممم.......مجھے تو بہت ساری چیزیں پسند ہیں۔"
"پھر بھی سوچو تو سہی۔"
"نہیں سمجھ آ رہی.......تم بتا دو کیا لائے ہو۔"
فراز نے اپنا بیگ کھولا۔سب سے اوپر ہی ٹرانسپیرنٹ شاپر تھا۔
"یہ لو۔"عرینا نے فوراََ کھولا اندر "کی چین" اور "پرفیوم" تھا۔
عرینا کو کی چین اور پرفیوم بہت پسند تھے۔جب بھی کوئی اس سے پوچھتا تمہیں کیا چاہیے تو اس کا یہی جواب ہوتا میرے لیے پرفیوم لے آنا۔
جبکہ کی چین وہ ہمیشہ سے فراز سے ہی منگواتی تھی۔کیونکہ دونوں کی پسند تقریبا ایک جیسی ہی تھی۔
"فراز یہ تو بہت پیارے ہیں اور اس کی خوشبو بھی۔تمہیں کیسے پتہ مجھے پرفیوم اور کی چین پسند ہے۔"
"اوہ ہاں.......مجھے کیسے پتہ ہو سکتا ہے۔پچھلے کئی سالوں سے تو کوئی اور تمہیں یہ چیزیں لا کر دیتا رہا ہے ناں۔"
"اچھا ٹھیک ہے اب زیادہ شوخے ناں بنو۔اینڈ تھینک یو۔"
"چلو اب برتن اٹھاؤ اور کھسکو میں نے سونا ہے اور سنو کسی کو بتانا نہیں۔"
"اوکے۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز کا ایم۔اے کا رزلٹ آ گیا اوپر کے تین ناموں میں محمد فراز حسان تیسرے نمبر پر لکھا تھا۔
فراز نے سب سے پہلے امی کو بتایا پھر عرینا کو۔
عرینا نے خاص اس کے رزلٹ کی خاطر چھٹی کی تھی۔پھر فراز تقریب انعامات میں چلا گیا۔عرینا بھی ساتھ تھی۔
"بڑی بات ہے.......مبارک ہو.......ایویں ہی کہتے ہیں فورسٹر سبجیکٹ میں بچے سروائیو نہیں کرتے۔"
عرینا نے راستے میں کہا۔
"بس تمہاری دعاؤں کا صلہ ہے ورنہ یہ ناچیز کس قابل۔"فراز نے سعادت مندی دکھائی۔
"وہ تو مجھے پتہ ہے۔"عرینا نے ناک چڑھا کر کہا۔
"عرینا۔"اپنے برابر بیٹھی سکن سکارف کے حالے میں فراز نے عرینا کا چاند سا چہرہ دیکھا۔
"فراز۔"اور دونوں ہنس پڑے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز کو اس چیز کا بڑا دکھ ہوا کہ اس کے ساتھ تقریب انعامات میں سوائے عرینا کے گھر سے کوئی نہیں گیا۔
جب وہ دونوں واپس گھر آئے تب فراز کے چہرے پر خوشی اور دکھ کے دونوں تاثرات تھے۔
مگر جیسے ہی وہ گاڑی کھڑی کر کے اندر آیا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
عرینا پہلے ہی اندر چلے گئی اور باقی سب کے ساتھ کھڑی تھی۔جب فراز اندر داخل ہوا تو اس پر پھولوں کی برسات کی گئی۔
سامنے ہال میں سب گھر والے موجود تھے۔سب نے اسے مبارکباد دی۔
اس کو مٹھائی کھلائی گئی۔سب خوش تھے کہ اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز بیٹا۔"فراز رات کو اپنے کمرے میں جا رہا تھا جب بڑے پاپا نے اسے بلایا۔
"جی بڑے پاپا۔"
"بیٹا آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"جی کہیے بڑے پاپا۔"
"ادھر نہیں اوپر لائبریری میں چلو۔"
"جی چلیں۔"
پھر وہ دونوں لائبریری میں چلے گئے۔
"جی بڑے پاپا کہیے۔کیا بات کرنی آپ کو مجھ سے۔"دونوں آمنے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"بیٹا پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے........دیکھو تم بلا جھجھک مجھے بتا سکتے ہو جو بھی کرنا چاہتے ہو.......اگر تم پینٹننگ کو اپنا پروفیشن بنانا چاہتے ہو تو تم وہ بھی کر سکتے ہو.....میں بھائی سے بات کر لونگا......اور اگر تم کچھ اور کرنا چاہتے ہو تو وہ بھی مجھے بتا دو۔"
"بڑے پاپا پینٹننگ کرنا میرا شوق ہے۔میں اسے ایز آ پروفیشن نے اپنانا چاہتا۔میں اسے بس اپنے شوق تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔"
"تو پھر کوئی جاب کرنے کا ارادہ ہے تمہارا.....؟"
"جی بڑے پاپا۔"
"تو پھر ٹھیک ہے کل سے آپ ہمارے ساتھ آفس جوائن کرو۔"
"مگر............"
"مگر کیا.......؟؟"
"بابا جان کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا ناں میرے آفس جوائن کرنے سے۔"
"نہیں بھائی صاحب کو کیوں اعتراض ہو گا۔تم بس کل سے ہمارے ساتھ آفس جایا کرنا۔"
"بڑے پاپا کیا میں سوموار سے جوائن نہیں کر سکتا......؟؟"
"اور دو دن کیا کرنا ہے میرے بیٹے نے......؟؟؟"
"کچھ تھوڑے بہت کام نبٹانے ہیں میں نے۔"
"چلو ٹھیک ہے پیر سے آپ ہمارے ساتھ جاؤ گے۔"
"جی ضرور بڑے پاپا۔اب مجھے اجازت.....؟"
بڑے پاپا نے سر کے اشارے سے اسے جانے کی اجازت دے دی اور خود عینک لگا کر فائل کھول کر بیٹھ گئے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"اللہ اللہ میرے کمرے میں چڑیل کہاں سے آ گئی.......؟"فراز کمرے میں داخل ہوا تو عرینا کو دیکھ کے بولنے لگا۔
"صرف چڑیل نہیں جن بھوت بھی ہیں سارے۔"جواب عریشہ کی طرف سے آیا۔
"اللہ خیر کرے۔تم سب میرے کمرے میں کیا کر رہے ہو....؟"
"تمہارے نہیں ہمارے کمرے میں۔"نواز نے توصیح کرنا لازمی سمجھا۔
"ٹھیک ہے ہمارے کمرے میں۔"
"فراز بھائی ہم آپ سے ٹریٹ لینے آئے ہیں۔"عاطر نے کہا۔
"چلیں اپنی جیب ڈھیلی کریں اور ہمیں ٹریٹ دیں۔"عاکف نے کہا۔
"آج آپ کو چھٹی نہیں ملنے والی۔"عامر نے کہا۔
"یار کچھ تو شرم کرو تم لوگ۔ابھی مجھے جاب پہ تو جا لینے دو پھر ٹریٹ بھی لے لینا۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
No comments:
Post a Comment