Friday, 9 August 2019

Wehshat-e-Ishq By Ramsha Mehnaz ||Episode#3

#وحشتِ_عشق
# بقلم_رمشاء_مہناز
#قسط_نمبر _3
دن ڈھل گیا تھا اور ایک خوبصورت سی رات کا آغاز ہو گیا تھا چاند پورے کروفر سے سیاہ آسمان پہ جگمگا رہا تھا اس کے ارد گرد جھلمل کرتے تارے محویت سے اسے تک رہے تھے تاروں کی محویت اچانک چاند کے بدلیوں میں چھپ جانے سے ٹوٹ جاتی اور وہ جھلمل کرنے لگتے ٹھندی ہوائیں دلوں کو گدگدا رہی تھیں اور جھوم جھوم کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔
پورا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا شاید کہکشاں زمین پہ اتر آئی تھی۔
لان میں لگے پھولوں کی خوشبو ہوا کے دوش پہ سوار ہو کہ سب کی سانسوں میں جیسے رچ بس گئی تھی۔
تقریب میں مہمان آنا شروع ہوچکے تھے تائی امی دادو اور منال سب مہمانوں کا استقبال کر رہی تھیں۔
امین صاحب اور دلاور صاحب مہمانوں کے استقبال کے لئے دروازے پہ موجود تھے۔
آزر تیار ہو کہ نیچے آئے تو تقریباً سب مہمان آچکے تھے بلیک کوٹ پینٹ میں ملبوس ماتھے پہ سلیقے سے سیٹ ہوئے بال اور ہلکی بڑھی ہوئی شیو وہ بلاشبہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھے۔
انہوں نے شزرا کی تلاش میں ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں مگر وہ انہیں کہیں دیکھائی نہ دی صبح کی ہوئی تلخ کلامی کے بعد وہ انہیں نہیں دیکھی تھی انہیں خود پہ افسوس ہوا کیوں وہ اس پہ اتنا غصہ کر گئے تھے ابھی وہ بچی ہی تھی اسے یہ سب قبول کرنے کرنے کے لئے شاید وقت چاہیے گا وہ خود کو ملامت کرنے لگے۔
کچھ دیر بعد شزرا نیچے آتی دیکھائی دی سفید رنگ کے سادہ سے سوٹ میں ملبوس اس پہ ہلکا سا میک اپ اس کے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا وہ سہج سہج سیڑھیاں اتر رہی تھی مگر اس قدم آزر کو اپنے دل پہ محسوس ہوئے وہ تو شاید پورے حق سے ان کے دل پہ براجمان تھی مگر اپنا حق لینا بھی نہیں چاہتی تھی۔
آزر نے ایک نظر ڈال کر اس پہ سے نگاہیں ہٹا لیں کہیں ان کی نظر ہی نہ لگ جائے۔
شزرا نیچے آکے منال کے پاس چلی گئی آزر بھی سب مہمانوں میں مصروف ہو گئے۔
" شزرا ادھر آؤ بیٹا" تائی امی نے شزرا کو آواز دے کہ بلایا وہ اسے آزر کے ماموں مامی سے ملوانا چاہتی تھیں جو ایک عرصہ کینیڈا میں گزار کے واپس اپنے وطن آگئے تھے ان کے دو ہی بچے تھے بڑا بیٹا برہان اور بیٹی سویرا یہ لوگ بھی آج کی تقریب میں مدعو تھے۔
آزر ان کے پاس ہی کھڑے تھے جب شزرا وہاں آئی شزرا انہیں نظر انداز کر کے ان کی طرف بڑھی۔
" یہ میری چھوٹی بیٹی ہے شزرا" تائی امی نے محبت سے اس کا تعارف کروایا برہان نے خاص دلچسپی سے شزرا کا جائزہ لیا جو آزر کی نگاہوں سے چھپا نہ رہ سکا انہوں نے نہایت ناگواری سے برہان کو دیکھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شزرا کو یہاں سے کہیں دور لے جائیں وہ بار بار بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے شزرا سویرا سے باتوں میں مصروف تھی اس نے برہان کی طرف دھیان نہ دیا۔
"شزرا میری بات سننا دو منٹ کے لیے" آزر نے بالآخر شزرا کو مخاطب کیا شزرا نے چونک کہ ان کی طرف دیکھا اور سر ہلا کے ان کی طرف بڑھی۔
" جی۔۔۔" وہ ان کے سامنے کھڑی سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
" کچھ نہیں"  آزر نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
" تو بلایا کیوں تھا" شزرا کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی۔
" میرا دل کر رہا تھا تمہیں بلانے کا" آزر  نے مسکراتے ہوئے جواب دیا شزرا نے آزر کی طرف ایسے دیکھا جیسے اسے ان کی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔
" ایسے تو نہ دیکھو اب مجھے" آزر نے شرارت سے کہا شزرا نے گھور کے انہیں اور کچن کی طرف چلی گئی۔
کچھ دیر بعد تقریب اپنے اختتام کو پہنچی سب اپنے روم میں سونے جا چکے تھے شزرا کچن میں کھڑی اپنے اور منال کے لئے چائے بنا رہی تھی تبھی پیچھے کھٹکا ہوا شزرا نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو آزر اطمینان سے سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے وہ انہیں نظر انداز کر کے واپس چائے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
" چائے ملے گی؟" آزر نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا ان کے لہجے میں ہمیشہ والی بشاشت نہیں تھی شزرا نے ان کے لہجے کی تھکاوٹ محسوس کی شاید اس کا دل بھی اب ان کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟" شزرا نے پریشان ہو کہ پوچھا۔
"ہہہم ۔۔۔۔" انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا شزرا کچھ نہ بولی۔
"کب تک انتظار کروں میں؟" آزر نے اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا آج آزر کے ماموں مامی باتوں ہی باتوں میں برہان کے رشتے کے لئے جتا گئے تھے جب سے آزر کو کسی کل چین نہیں تھا کیتلی میں چائے پلٹتی شزرا کا ہاتھ ایک لمحے کے لئے کانپا تھا اس نے آزر کی طرف دیکھا جن کے چہرے پہ صرف سنجیدگی تھی۔
"مجھے آپی سے بات کرنی ہے پہلے" شزرا اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے ہوئے کہا آزر نے ٹھندی سانس بھر کے اس کی طرف دیکھا۔
" ٹھیک ہے کرلو۔۔۔۔لیکن یہ یاد رکھنا اگر دو دن میں تم نے کوئی جواب نہ دیا تو میں خود امی سے بات کر لوں گا" آزر نے اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا اور چائے کا کپ اٹھا کے باہر نکل گئے ان کے جاتے ہی شزرا کی جیسے جان میں جان آئی۔
وہ چائے کا کپ اٹھائے اپنے روم میں آگئی ساری رات اسے اس بارے میں سوچتے گزر گئی مگر وہ کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکی رات اس نے آنکھوں میں کاٹی تھی وہ نہیں جاتی تھی زندگی اسے کس موڑ پہ لے جانے والی ہے۔

____________________________________________________

"امی جان میں سوچ رہی ہوں اب آزر سے منال کے متعلق بات کر لوں" سلمہ بیگم نے دادو کو مخاطب کر کے کہا دونوں اس وقت لان میں بیٹھی صبح کی دھوپ سینک رہی تھیں۔
" ہاں بیٹا سوچ تو میں بھی یہی رہی تھی اب آزر نے ماشاء اللہ سے تعلیم مکمل کر کی ہے اپنا بزنس سنبھال رہا ہے اب اس کے بارے میں بھی سوچو منال ماشاء اللہ سے گھر کی بچی ہے ایسی بچیاں نصیب والوں کو ملتی ہیں" دادو نے خوشی سے کہا۔
" میں کرتی ہوں بات ایک دو دن میں آزر سے مجھے یقین ہے وہ ہماری خوشی میں خوش ہوگا" سلمہ بیگم کا لہجہ پر مسرت تھا منال تھی ہی لاکھوں میں ایک اور اس کی پرورش بھی سلمہ بیگم نے کی تھی تو کیوں نہ انہیں فخر ہوتا۔
" بس مجھے یہی ڈر ہے آزر باہر سے پڑھ کے آیا ہے اس کی اپنی کوئی پسند نہ ہو ورنہ میری منال کا دل ٹوٹ جائے گا میں جانتی ہوں منال کے دل کی بات وہ خود سے کبھی نہ کہے گی مگر میں تو ماں ہوں اپنے بچوں کے دل کے حال میں کیسے نہ جانوں گی" سلمہ بیگم نے ٹھندی سانس بھرتے کہا۔
" ٹھیک کہہ رہی ہو بیٹا بس اب میری بھی عمر ہوگئی ہے اپنے اکلوتے پوتے کی خوشی دیکھ لوں" دادو نے امید سے کہا۔
" کیسی باتیں کر رہی ہیں امی ابھی آپ نے بہت جینا ہے بہت ساری خوشیاں دیکھنی ہیں" سلمہ بیگم نے پریشانی سے کہتے ہوئے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ دھرا۔
" خوش رہو بیٹا ڈھیروں خوشیاں دیکھو" دادو نے ان کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دعائیں دی۔

____________________________________________________
سنہری صبح کا سورج روشن تھا ایسے اس دو منزلہ سفید گھر میں دل معمول کے مطابق نکل آیا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے منال اور تائی امی دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں دادو اپنی روز مرہ کی تسبیحات کر رہی تھیں ان کے برابر میں بیٹھی شزرا کسی رسالے کی ورق گردانہ کر رہی تھی۔
" امی آزر کے ماموں مامی نے آزر کے آنے کی خوشی میں آج رات کو اپنے گھر ہم سب کو کھانے پہ انوائیٹ کیا ہے" سلمہ بیگم نے دادو کے برابر میں تخت پہ بیٹھتے ہوئے انہیں بتایا۔
"ٹھیک ہے بیٹا تیاری کر لینا" دادو نے اثبات میں سر ہلاتے جواب دیا۔
" اور تم زرا جلدی تیار ہو جانا ہمیشہ دیر کرتی ہو" دادو نے برابر میں بیٹھی شزرا کو گھورتے ہوئے کہا۔
"دادو ہو جاؤں گی" شزرا نے لاپرواہی سے کہا اور دوبارہ رسالے پہ جھک گئی۔
کچھ دیر بعد آزر اپنے روم سے تیار ہو کہ نکلے شزرا نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا وہ کچن کے پاس کھڑے تائی امی سے کچھ بات کر رہے تھے۔
شزرا کا دل عجب ہی تال پہ دھڑکا اس نے گھبرا کہ اپنی پلکیں جھکا لیں کہیں اس کی محبت کی ہواؤں کو بھی خبر نہ ہو جائے مگر ہواؤں کو ہو نہ ہو آزر کو ہو چکی تھی۔ اب وقت کہاں پلٹا کھاتا ہے وہ دیکھنا تھا۔
"امی میں شام تک آجاؤں گا" شزرا نے انہیں کہتے سنا اس نے سر اٹھا کہ دیکھا آزر اسی کی طرف متوجہ تھے نگاہوں کا تسادم فسوں خیز تھا۔
وہ دونوں اپنی محبت کی سرشاری پہ کھو چکے تھے اس بات سے بے خبر کہ وہاں موجود ایک اور وجود محبت کے پودے کی آبیاری کر رہا تھا ۔
آزر شام میں گھر لوٹے تو شزرا انہیں باہر لان میں ہی دیکھ گئی وہ سیدھا اس کی طرف بڑھے وہ کھڑی پودوں کو پانی دے رہی تھی آزر خاموشی سے اس کے برابر میں آکے کھڑے ہو گئے اور اس کے کانوں میں پہنی بالیوں کے واحد موتی کو دیکھا جو شاید ہولے سے ہل رہا تھا مگر وہ آزر کی موجودگی سے بے نیاز پودوں کی طرف متوجہ تھی۔
"مجھے پودوں سے حسد کرنے پہ مجبور نہ کرو" آزر نے اس کی بالیوں کے واحد موتی کو چھوتے دھیرے سے سرگوشی کی وہ ساکت ہوئی مگر پلٹ کے نہ دیکھا۔
"پودوں سے کیسا حسد؟" شزرا نے ناسمجھی سے پوچھا مگر ہنوز نگاہیں چرا کے کھڑی تھی۔
"میرے علاوہ تمہاری توجہ جس طرف بھی ہوگی مجھے اس سے حسد ہی ہوگا" ان کی آواز نہایت مدھم تھی مگر شزرا شاید دل کے کانوں سے سن رہی تھی اسے یہ آواز اپنے آس پاس گونجتی محسوس ہوئی وہ گھبرا کے پلٹی سیاہ نگینے بھوری آنکھوں سے ٹکرائے تھے وہ ان آنکھوں میں آباد محبت کے جہان کو دیکھ کے دنگ رہ گئی کیا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کرسکتا ہے اس نے اپنی دھڑکنوں کو شور مچاتے سنا وہ گھبرا کے ایک قدم پیچھے ہٹی آزر ہونٹوں پہ مدھم سی مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
" میں نے کہا تھا نہ مجھ سے محبت ہو جائے گی تمہیں" وہ شاید پتھر کی ہوئی تھی اس کے دل کی بات آزر بناء بولے کیسے سمجھ گئے اس نے گھبرا کے نگاہیں چرائیں۔سامنے پھول پہ شاید کوئی تتلی آکے بیٹھی تھی محبت کے رنگ لئے تمام رنگوں سے مزین۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
ٹھندی ہوا ان کے دلوں کو گدگدا رہی تھی اس نے اپنی شور مچاتی دھڑکنوں کی آواز سنی۔
"کیا میری قسمت میں انتظار لکھا ہے" آزر نے ٹھنڈی سانس بھرتے دور افق میں ڈوبتے سورج کو دیکھا جس کی نارنجی شعائیں انہیں اپنے آس پاس رقص کرتی محسوس ہوئیں۔
"لیکن یہ انتظار بہت خوبصورت ہے" انہوں نے ایک دلکش سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا شزرا جیسے ان کی مسکراہٹ میں کھو سی گئی کیا کوئی انساں ایسے بھی پورے حق کے ساتھ دل پہ قبضہ کر سکتا ہے وہ صرف سوچ سکی اور اگلے ہی پل اپنی سوچ پہ مسکرا دی۔
"اگر انتظار خوبصورت ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے" شزرا نے مسکراتے ہوئے انہیں چھیڑا آزر نے ایک آنکھ کی آبرو اٹھا کر اسے دیکھا۔
"میں تو ساری زندگی انتظار کرنے کو تیار ہوں بس تم یقین دلا دو کہ تم صرف میری ہو" ان کا لہجہ محبت کی تپش لئے تھا شزرا کو اپنے گال دہکتے محسوس ہوئے۔
 "بہت فضول بولتے ہیں آپ" شزرا نے اپنی کیفیت سے تنگ آکے جھنجھلا کے کہا آزر نے نا سمجھی سے اسے دیکھا پھر سمجھ آنے پہ ان کا قہقہہ بے سہتا تھا۔
"تم کچھ نہیں بولو گی تو سب مجھے ہی بولنا پڑے گا نہ" آزر نے شرارت سے کہا۔
"میرے حصے کا بھی آپ بول لیں" شزرا کے گالوں پہ چھائی لالی اس کی محبت کا پتا دے رہی تھی۔
" تم جواب دے دو میں بولنا کم کردوں گا" انہوں نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ٹھندی سانس بھر کہ اسے بیچارگی سے دیکھا۔
" آپ بولنا تھوڑا کم کریں میں جواب دے دوں گی" شزرا نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور وہاں سے اندر جانے کے لئے پلٹی۔
"میرا جواب۔۔۔۔۔" آزر نے اسے اندر جاتے دیکھ کے آواز لگائی۔
" آپ بہت بولتے ہیں" انہیں شزرا کی آواز سنائی دی۔
" پاگل۔۔۔۔۔۔" وہ دور جاتی شزرا کو گھور کہ رہ گئے مگر اس کے گالوں سے پھوٹتی شفق ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھی۔




اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔
شزرا کب ہاں کرے گی؟
برہان کے دل میں کیا شزرا کے لئے کچھ ہے یا برہان کی وجہ سے ہوگا مسئلہ؟

کہا تائی امی کو آزر سے بات کرنی چاہیے؟

No comments:

Post a Comment