#تم_ہم_کو_یاد_رکھنا
از شاہ رخ گل
پہلی قسط
Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Episode 1 ..
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
..
( 21 فروری 2019 ہر نیوز چینل پر ایک ہی خبر چل رہی تھی. )
" بھارت کی ایک دفعہ پھر سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی. "
" ہر چینل پر ایک ہی خبر. اف پک گئی ہوں میں یہ سن اور دیکھ کر. ہمارا میڈیا بھی ناں بال کی کھال اتارتا ہے. بھئی بخش دوں اب اگر ان بیچاروں سے خلاف ورزی ہو گئی ہے." وہ منہ بنائے چینل بدلتے ہوئے کہہ رہی تھی.
" اب ہر کوئی مجھ جیسا نہیں ہوتا ناں. مسز کیان .." کیان نے اپنا کافی کا کپ پرے کرتے ہوئے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.
" کیا مطلب. مسٹر کیان ملک."
" ویسے میڈیا کے بارے میں آپ کے خیالات بلکل ٹھیک ہیں . مگر آپ کی جنرل نالج میں اضافہ کرتا چلوں. یہ جو ہمارا ہمسایہ ملک ہے ناں. کوئی بیچارہ وارہ نہیں ہے. جیسا یہ آپ کو فلموں ڈراموں میں دیکھاتا ہے ویسا ہے نہیں. " اب کی دفعہ کیان نے کافی کا ایک گھونٹ پیتے ہوئے کہا.
" یہ تو پہلی بات کا ذکر ہے. میں نے دوسری بات کا مطلب پوچھا ہے تم سے. " اس نے کافی کا مگ کیان سے پکڑتے ہوئے کہا.
" ایک تو تم خواتین بھی ہمارے میڈیا کی طرح ہوگئی ہو. بال کی کھال اتارنے والی."
( وہ کافی کا مگ ہونٹوں کو لگائے اس کی باتیں سن رہی تھی.)
" اب میری مسزز کو تشریح چاہیے تو مجھ جیسا شوہر ہر کسی کو نہیں ملتا جو بیوی کی ہر بات مانے. اپنی بیوی کو پلکوں پر بیٹھا کر رکھے. اس کے کہنے پر خود کو چینج کر لے. "
" اللہ اللہ .. کتنے جھوٹے ہو تم. "
" اب یہی دیکھ لو. ترکوں کا اثر بھی آگیا. پہلے انڈین ڈراموں نے لوگوں کے دماغ خراب کئے ہوئے تھے اور اب ترکش نے. " ( کیان نے اس سے کافی کا مگ چھینتے ہوئے کہا.)
" اب ہر بات کو بدل کیوں رہے ہو..؟" ( اس نے ریمورٹ کیان کی طرف پھینکا ہوئے کہا. )
" تا کہ مہک کیان ملک اس ٹی وی کو بند کرے اور مجھ بیچارے انسان کو بھی کچھ ٹائم دے. شکر جو تم نے خود ہی ریمورٹ پھینک دیا اب میں اس بلا کو خود ہی بند کرتا ہوں. " ( کیان ریمورٹ ایک ہاتھ سے پکڑتے ہوئے ٹی وی کو بند کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے بولا. )
" اچھا تو مطلب میں تمھیں ٹائم نہیں دیتی ؟ یا اللہ اٹھا لے مجھے. میرا شوہر اب مجھے ایسے بولے گا. " مہک نے شرارت کی.
کیان نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھا اور اس کے پاس گھٹنوں کے بل آکر بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولا.
" آج یہ بات کی ہے آئیندہ مت کرنا پلیز. اللہ نہ کرے تمھیں کبھی کچھ ہو. اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو میں کیسے زندہ رہوں گا. "
" ارے ارے ! مسٹر کیان سینٹی ہوتے بلکل اچھے نہیں لگتے مجھے. ویسے میں نے مزاق کیا تھا. تم تو سیریس ہی ہو گئے. "
" ہاں ناں ! ایک تمھارے لئے ہی تو سیریس ہوں. ورنہ مجھ پے تو آج بھی ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں. "
" مسٹرخوش فہمی اور غلط فہمی ایک ساتھ. "
" جی نہیں مسزز ! گنواوں شادی سے پہلے میرے کتنے افیرز تھے؟ "
" مجھے آپ کے بوسیدہ افئیرز سننے کا بلکل بھی موڈ نہیں ہے فی الحال میں سونے جاری ہوں. " ( وہ مسکراتے ہوئے ناں کا ہاتھ ہلاتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی. )
" ابھی تو میں نے باتیں کرنا شروع بھی نہیں کی تھی ڈاکٹر صاحبہ.( کیان نے دوبارہ سے ٹی وی آن کرتے ہوئے کہا. اور کرکٹ میچ لگا لیا. کیان یونیورسٹی کے زمانے سے ہی کرکٹ کا شوقین تھا.
" اب جو بھی باتیں کرنی ہوں گی ناں آپ صبح کر لینا. " ( اس نے کمرے سے آواز دی. )
مہک اور کیان میاں بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ چچا زاد بھی ہیں. کیان کے ابا سلیم ملک بڑے ہیں جبکہ ان سے چھوٹے مہک کے ابا خالد ملک اوز خالد ملک سے چھوٹے ریاض ملک تھے جو بہت سال پہلے ہی فوت ہو گئے تھے. سلیم ملک کی دو بیٹیاں فاطمہ اور زینب ہین جو کہ بیاہ کے اپنے اپنے گھروں کی ہو گئی. ان دونوں سے چھوٹا کیان ہے جو کہ نہ صرف اماں ابا کا بلکہ بہنوں کا بھی لاڈلہ ہے.کیان اپنا خاندانی فٹ بال ایمورٹ ایکسپورٹ بزنس کو سنبھال رہا ہے ان کی کمپنی کے فٹبال پوری دنیا میں مشہور ہیں . جبکہ مہک C.M.H میں ڈاکٹر ہے اور خالد ملک کی اکلوتی بیٹی ہے. دو سال پہلے ان کی گھر والوں کی رضامندی سے شادی ہوئی تھی لیکن اس شادی میں کیان کی پسند زیادہ شامل تھی. شادی کے فورا بعد وہ دونوں آبائی گاوں رہنے کی بجائے شہر میں شفٹ ہو گئے. جبکہ ان کے بڑے اپنی زمینیں کسی بھی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں. ان کے لئے فیکڑی سے بڑھ کر پرکھوں کی زمین جائیداد ہے. اس لئے بڑے ان دونوں کے ساتھ شہر شفٹ نہیں ہوئے تھے.
کیان کی روزانہ کی ڈیوٹی تھی کہ وہ آفس جانے سے پہلے مہک کو ہسپتال چھوڑتا. ناشتے کے بعد کیان نے گاڑی کی چابی پکڑی اور مہک کو یہ کہتے ہوئے اٹھا. "مسزز اب تیار ہونے میں گھنٹہ مت لگانا یار ."
" میں تو دس گھنٹے لگاوں گی."
کیان نے برا سا منہ بنایا.
" بس پانچ منٹ میں آئی ناں کیان. " مہک یہ کہہ کر ہنستے ہوئے اندر چلی گئی.
" پانچ منٹ کا مطلب پانچ ہی ہونا چاہئے." کیان چابی انگلی میں گھماتے ہوئے باہر نکل آیا. اس نے گاڑی سٹارٹ کرکے باہر نکالی. مہک بھی دروازے کو لاک کرنے کے بعد گاڑی میں آکر بیٹھ گئی. معمول کے مطابق کیان مہک کو ہسپتال چھوڑنے کے لئے جا رہا تھا.
آج سڑک پر دوسری گاڑیوں کا رش نسبتا کم اور فوجیوں سے بھری گاڑیاں اور ٹینک قطاروں میں جارہے تھے. فوجیوں کو دیکھ کر مہک کو کچھ ہوتا تھا.جیسے کوئی پرانی یاد بن کر اس کے اعصاب پر تاری ہونے کی کوشش کرتا ہو. اس نے اپنا سر جھٹکا. وہ بچپن میں سکول جاتے ہوئے جب بھی کوئی فوجی دیکھتی تھی تو فورا سلام کیا کرتی تھی. مگر اب اسے عجیب سی چڑ تھی. ہسپتال چونکہ کمبائنڈ ملٹری تھا تو وہاں سویلین سے زیادہ آرمی افسران یا ان کی فیملیز کا رش بنا رہتا تھا مگر مہک ان سے اختیاط سی برتتی تھی.
آج چیک پوسٹ پر کوئی فوجی نہیں تھا.ہسپتال جو کہ ہر وقت فوجیوں سے بھرا رہتا تھا اس میں آج سوائے آرمی ڈاکٹرز کے ایک بھی فوجی ڈیوٹی پر نہیں تھا. جبکہ مالی آج بھی پودوں و پھولوں کی کانٹ چھانٹ میں مصروف تھے. ہسپتال کی خوبصورتی میں جتنا ہاتھ آرمی آفیسرز کے چیک اینڈ بیلنس کا تھا اس سے بڑھ کر ان مالیوں کا بھی تھا. اکثر مریض تو ہسپتال کی خوبصورتی دیکھ کر ہی آدھے سے زیادہ ٹھیک ہو جایا کرتے ہیں. کیان مہک کو ہسپتال ڈراپ کر کے اپنے آفس پہنچا ہی تھا کہ اماں کی کال آگئی.کیان " ہیلو ، ہیلو . " کر رہا تھا جبکہ اماں جی ادھر کال ملا کر صحن میں جھاڑو لگاتی ہوئی نوکرانی کو ڈانٹنے میں مصروف ہیں . " نی بلقیس اے موٹر بند کردے نی. میں اپنے پتر نال گل کرنی وے. "
ماں بلقیس کو ڈانٹنے سے فارغ ہوئی تو کیان نے سلام دعا کی. تو ماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. "ارے اماں جی کیا ہوا ؟ سب خیریت تو ہے ناں گاوں میں ؟ " کیان نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا. کیونکہ گاوں میں جب بھی کوئی زی روح اس دنیا سے جاتا تو اماں جی سب سے پہلے اپنے سپوت کو فون کرتی اور رو رو کر مرنے والے کی موت کا قصہ سناتی تھی.
" نہیں پتر ! انڈیا والے کھسماں نوں کھانے روز گولے مار دے نے بارڈر تے. بڑی آواز آندی وے."
" ہاں جی اماں جی. حالات کافی خراب ہو رہے ہیں. "
" اہو ناں پتر کیان ! اہی گل اپنے ابا نوں سمجھا. میں صبح دی کہہ کہہ کے تھک گئی آں کہ چھڈو ڈنگر تے زمیناں دی فکر تے اپنے پتر کو چلیے. "
" جی اماں جی. توسی جدوں مرضی آجاو. "
" پتر بارڈر دے آس پاس دے سب گھر فوج نے خالی کروا دیتے نے. تے ٹینک وی آ کھڑے کیتے نے فوج نے. ہن جنگ واقعی لگ جانی وے. "
" نہیں ماں جی ! ایسی کوئی بات نہیں. فوج سنمبھال لے گی سب . اللہ ان کا مددگار ہے. اور آپ بے فکر ہو جائیں میں ابھی فیکٹری کا تھوڑا کام دیکھ کر گاوں آپ کو لینے آجاتا ہوں. "
" ناں میرا پتر ! توں خود ناں آنا. بس اپنے ابا کو سمجھا دے شہر آجائے. یہاں بندے دیکھ لیں گے سب. تمھیں پتا ہمارے ساتھ والی ثریا ہے ناں اس کی بہن معراجکے جو رہتی ہے اس بیچاری کی 4 مجھیں مر گئی ہیں کمینے انڈیا والوں نے مار دی. اور وہ اپنا سب گھر بھار چھوڑ کے ایتھے آگئی وے. "
" اچھا ماں جی میں تھوڑی دیر تک ابا جی سے بات کر کے کسی کو بھیج دیتا ہوں آپ کو اور ابا جی کو لینے. آپ آجائیے گا. "
" ٹھیک وے پتر ! جیوندہ رے. اللہ میرے پتر نوں سات پتر دے . تتی ہوا ناں لگے میرے صاب نوں. " ماں نے دعا دیتے ہوئے کہا.
کیان نے ہنستے ہوئے " آمین " کہہ کر کے فون بند کردیا. کیونکہ اسے اماں ہمیشہ ایسے ہی دعائیں دیتی تھی. شروع شروع میں وہ ماں کو منع کرتا تھا مگر اسے عادت سی ہوگئی تھی اب یہ سب دعائیں سن کر وہ صرف مسکرا دیتا تھا.
" سیالکوٹ ، ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ ،3 افراد جاں بحق ......سیالکوٹ کے چارواہ ،چپراڑاور سجیت گڑھ سیکٹر پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے 3 افراد شہید۔ ذرائع کے مطابق بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے رات 3 بجے سے چارواہ، چپراڑ اور سجیت گڑھ سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے. بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کے باعث ورکنگ باؤنڈری سے ملحقہ علاقوں کو خالی کروایا جا رہا ہے. شہری شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہیں. بھارتی جارحیت کےخلاف چناب رینجرز کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کی جارہی ہے. "
مہک کے کانوں میں یہ آواز جارہی تھی. ویٹنگ روم میں جہاں ریسیپشنسٹ کے علاوہ مریضوں کے ساتھ آنے والی ایک خاتون اور دو چار مرد خضرات ہاتھوں میں موبائل پکڑے دیوار پر لگی بڑی ایل.سی.ڈی. کی طرف متوجہ تھے.
" کیا مصیبت ہے. "
مہک نے ٹیبل پر پڑی گھنٹی بجائی. ایک عمر رسیدہ نرس اندر آئی.
" جی ڈاکٹر صاحبہ. "
" آنٹی یہ ویٹنگ روم میں جس نے بھی خبروں کا میلہ سجایا ہوا ہے اسے بولے آواز کم کرے. یہاں میں ڈسٹرب ہو رہی ہوں. "
"جی ٹھیک ہے. ڈاکٹر صاحبہ. میں ابھی بولتی ہوں. " نرس یہ کہتے ہوئے ریسیپشن پر آئی.
" ارے مٹھو. ایس ڈبے کا شور کم کرو ڈاکٹر مہک غصہ ہو رہی ہے. آواز ان کے کمرے تک جا رہی ہے. " نرس کے یہ کہتے ہی مٹھو نے جلدی سے ریمورٹ پکڑا اور آواز کم کردی.
ابھی یہ شور کم ہوا ہی تھا کہ ایمبولینس کے سائرن کا شور کانوں میں گونجنے لگا. بھارتی فائرنگ سے شدید زخمی ہونے والے تین فوجیوں کو ہسپتال لیا گیا تھا. ایک فوجی کی حالت کافی تشویش ناک تھی. جبکی باقی دو کو تین تین گولیاں لگی تھی. ان میں سے ایک خاکی وردی پہنے ڈاکٹر مہک کے آپریشن تھیٹر میں پڑا تھا. خاکی وردی دیکھ کر مہک کو پھر سے کچھ ہوا مگر بحیثیت ڈاکٹر اس کا مقصد بلاتفریق جان بچانا تھا. مہک اور اس کی ٹیم اس فوجی جوان کی گولیاں نکالنے میں مصروف تھی. جبکہ باقی دو کا بھی یوں ہی آپریشن جاری تھا. گولیاں نکالنے کے بعد ان تینوں کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا تھا. تینوں کو خون لگا ہوا تھا کیونکہ ورکنگ باونڈری سے ہسپتال آتے آتے ان کا کافی خون بہہ چکا تھا. ہیڈ کواٹر سے ان فوجی جوانوں کے اہل خانہ کو اطلاع کر دی گئی تھی ان کے پہنچنے سے پہلے مہک سمیت باقی کے ڈاکٹرز ان کی عیادت کرنے کے لئے وارڈ کی طرف چل پڑے . تاکہ ان کی یہ احساس نہ ہو کہ ان کے گھر والے ان سے دور ہیں. البتہ مہک کو کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر سیئنر ڈاکٹرز بھی ساتھ تھے اس لئے وہ منع نہیں کر سکتی تھی.
پہلے دو فوجیوں کی عیادت کرنے کے بعد ڈاکٹرز تیسرے فوجی جوان کے پاس گئے. اس نے ایک بازو بیڈ پر سیدھا رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرا بازو اس نے اپنے منہ پر رکھ کر منہ چھپایا ہوا تھا. جیسے وہ کسی کا سامنا کرنے سے ڈر رہا ہو. سئینر ڈاکٹرز نے اس کو ڈسٹرب کرنے کی بجائے اپنے کمروں کی طرف جانا چاہا. وہ اس کی حالت سمجھتے تھے. نا جانے وہ کتنے دنوں کا تھکا ہوا تھا. مگر مہک نے آگے ہو کر اس کی وردی پر لکھے نام کو غور سے پڑھنے کی کوشش کی. " بالاج ملک " یہ نام اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا کرنے کے لئے کافی تھا. وہ ٹھٹھکی. ڈاکٹر عظمی نے مہک کو پکڑے ہوئے کہا. " ڈاکٹر مہک آپ ٹھیک ہیں کیا ؟ "
مہک " جی " کہتے ہوئے باہر نکل آئی. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا. یہ نام اتنے سالوں کے بعد اس کے سامنے کیسے آگیا. اس کادماغ شل ہو رہا تھا. وہ اپنے کمرے میں جانے کی بجاے لان میں آکر ایک بینچ پر بیٹھ گئی. وہ نام اسے نا جانے کتنے سال پیچھے لے گیا تھا.
.......☆☆☆☆☆........
( جاری )
No comments:
Post a Comment