Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#2

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
دوسری قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Second Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
..
..
ملک حویلی میں زور و شور سے تیاریاں جاری تھی. خالد ملک گاڑی بھر کر شہر سے چیزیں لایا تھا. ملازم چاچا شیدا ہر چیز بڑی اختیاط سے نکال کر کچن میں لا رہا تھا. " یہ لے چھوٹی مالکن یہ سب چیزیں سنبھال لیں. " ہاجرہ پسینے میں شرابور بڑے پتیلے کو بڑی مشکل سے چولہے سے اٹھا کر رکھنے کی کوشش کر رہی تھی تبھی شیدے نے سب چیزیں الگ رکھتے ہوئے جلدی سے ہاجرہ کی مدد کرواتے ہوئے پتیلا نیچے رکھا.
" چھوٹی مالکن آپ کہیں تو میں اپنی بیوی کو آپ کی مدد کے لئے بھیج دوں ."
چاچے شیدے نے ہاجرہ پر پر ترس کھاتے ہوئے کہا. شیدا جسے بڑے چھوٹے سب چاچا شیدا بلاتے تھے. کئی سالوں سے ملک خویلی میں کام کر رہا تھا وہ ملکوں کا ہرسیاہ و سفید جانتا تھا. اسے اکثر ہاجرہ پر بہت ترس آتا تھا. مگر چونکہ وہ صرف ایک معمولی سا ملازم تھا اس لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا. 
ہاجرہ ملک خاندان کی سب سے چھوٹی بہو اور ریاض ملک کی بیوہ تھی. جو کہ دو سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد لاہور سے سیالکوٹ شفٹ ہوگی تھی.اور اب اپنے بیٹے بالاج کے ساتھ ریاض ملک کے بھائیوں اور بھاوجوں کے سہارے تھی. جس کی حیثیت اب ملازموں سے بھی کمتر تھی. 
" نہیں چاچا شیدے میں کر لوں گی. آپ جلدی سے پانی پی لیں. " ہاجرہ نے چاچے شیدے کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا.
" پتر اللہ تمھیں بہت اجر دے. مگر صبح سے لگی ہوئی ہو کام کرنے. تھک گئی ہوں گی. " 
" چاچا اب کیا تھکنا اس ذندگی سے ؟ " 
اتنے میں خالد ملک کی بیوی بیگم شمیم یہ کہتے ہوئے کچن میں داخل ہوئی. " کام پورا کرلیا تم نے ؟ مہمان آتے ہی ہوں گے. "
شمیم شیدے اور ہاجرہ کو کچن میں دیکھتے ہوئے برا سا منہ بناتے ہوئے کہنے لگی. " مگر یہاں تو مہرانی خوش گپیوں میں مگن ہے. " 
" نہیں آپا شمیم . سب تیار ہے. " 
چاچا چھیدا گلاس رکھتے ہوئے یہ سن کر باہر نکل گیا. ورنہ بیچارے کی خواہمخواہ شامت آجاتی.
" بس بس زیادہ باتیں نہیں کرو. کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے. پورے گاوں کو پتا چلنا چاہیے آخر میری بیٹی کی سالگرہ ہے. "شمیم بیگم آرڈر دیتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی.
" جی آپا. " ہاجرہ پھر سے کام میں لگ گئی. اتنے میں بالاج بھی سکول سے آگیا تھا. وہ یونیفارم چینج کر کے روز کی طرح بیٹھا ہوم ورک کرنے لگا. بھوک سے برا حال تھا مگر اماں کا ابھی تک کوئی اتاپتا نہیں تھا. وہ ہوم ورک کرتے کرتے سو گیا. 
ادھر کیان ، زینب ، فاطمہ اور مہک بھی سکول سے آگئے تھے. اور کھانے کی میز پر بیٹھے شور مچا رہے تھے. تبھی ہاجرہ کو بالاج کی فکر ہوئی.
" بھابھی جب تک بچے کھانا کھا رہے ہیں. میں بالاج کو کھانا دے آوں ؟ اس نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا. " ہاجرہ نے ثریا بیگم سے ڈرتے ڈرتے پوچھا.
" کھا کے آیا ہوگا سکول سے کچھ نا کچھ. ہمارے بچوں کی طرح تھوڑی ہے وہ. اور تم اسے کھانا کھلانے جاوں گی تو مہمانوں کو کون دیکھے گا. ؟"
" مگر بھابھی مہمان بھی ابھی کوئی نہیں آیا. " 
بس ایک دفعہ کہہ دیا ناں. تمھیں ایک بات سمجھ نہیں آتی میری ؟ بچوں کے یونیفارم کون دھوئے گا ؟ احسان فراموش نا ہو تو." 
چھوٹی چچی کو ماں سے ڈانٹ کھاتے دیکھ کر تینوں بچے ہنس رہے تھے. بچوں کے لئے اکثر بالاج اور اس کی ماں کی ڈانٹ ڈپٹ انٹرٹینمینٹ کا باعث تھی. جبکہ مہک چپ چاپ کھانا کھا رہی تھی. اسےکبھی کبھی سب کا چچی یا بالاج کو ڈانٹنا برا لگتا تھا. بالاج سے اس کی اتنی کوئی گہری دوستی نہیں تھی مگر اسے کیان ، فاطمہ اور زینب سے زیادہ اچھا اور سمجھ دار ایک وہی لگتا تھا. بالاج اور ہاجرہ حویلی کے پیچھے بنے سروینٹ روم میں رہ رہے تھے. مہک کبھی کبھی ہاجرہ کو بلانے آتی تو اس کے ساتھ بات کرتی تھی ورنہ چچی اور تائی اسے حویلی کی طرف پھٹکنے نہ دیتی تھی. اور اگر کبھی بھوک کے باعث کچن میں آجاتا تو سوائے ڈانٹ کے کچھ نا ملتا اسے. 
ہاجرہ بچوں کے یونیفارم دھو کر بچا کچا کھانا لے کر کمرے میں آئی تو بالاج کاپی کتابوں میں گھرا سو رہا تھا. ماں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھ کھل گئی. 
" امی آپ آگئی ؟ "
" جی میرا بیٹا. میں تو کب سے کھانا لے کر بیٹھی ہوں اور اس انتظار میں ہوں کہ کب میرا بیٹا اٹھے اور ہم کھانا کھائیں. "
" امی آپ مجھے اٹھا لیتی. مجھے بھی بہت بھوک لگی تھی. " 
" لیکن میرے بیٹے کی نیند بھی تو ضروری تھی ناں. اب باتوں سے ہی پیٹ بھر لوگے ؟ اٹھو ہاتھ دھو کے آو. " 
بالاج ہاتھ دھو کر آیا تو دونوں ماں بیٹے نے کھانا کھایا. بالاج ماں کو سکول کے قصے سنانے لگا تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی مہک نے اپنا تھوڑا سا سر اندر کرتے ہوئے کہا. " چچی آپ کو امی بلا رہی ہے. "
" اندر آجاو مہک بیٹا. " 
وہ پنک فراک پہنے کمرے میں آئی مہک بلکل کسی فیری لینڈ کی فیری لگ رہی تھی. بالاج نے اسے دیکھا. 
" ماشاءاللہ مہک بیٹا جنم دن مبارک اور آج تو آپ بلکل شہزادی لگ رہی ہیں. " 
وہ شہزادی ہی تو تھی. مگر اس کی سلطنت میں شہزادے کا داخلہ ممنوع تھا. وہ ہنستے ہوئے اپنی تعریف سن رہی تھی.اور پھر بالاج سے مخاطب ہوئی.
" بالاج تم بھی میری برتھ ڈے پارٹی میں آنا. چچی نے بہت مزے مزے کے کھانے بنائے ہیں. اور بابا میرا فیورٹ چاکلیٹ کیک بھی لائے ہیں. " 
" مہک بیٹا بالاج کا کل ٹیسٹ ہے. اس نے تیاری کرنی ہے. " وہ اس کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی مگر اسے یہ بھی منظور نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اسے زلیل ہوتے دیکھے. بالاج نے ماں کی طرف ایک نظر دیکھا. بالاج کا بہت دل تھا کہ وہ مہک کی سالگرہ میں جائے. ہاجرہ نے اس سے آنکھیں چراتے ہوئے کھانے کے برتن اٹھانے لگی اور مہک کے ساتھ حویلی آگئی. حویلی میں آتے ہی وہ کام پر لگ گئی.
" ہاجرہ بھائی صاحب کے لئے چائے لانا."
" پلیٹ پکڑانا. "
بچوں کو جوس دینا. "
کبھی کہیں سے آواز تو کبھی کہیں سے. ہاجرہ بلکل ایک ربورٹ کی طرح کام کرنے میں مگن تھی. مہک کے خالہ ، ماموں اور ان کے بچے اور سلیم ملک اور خالد ملک کے گاوں کے دو تین دوست اور ان کے بچے سب لان میں جمع تھے. مہک کو سب سالگرہ کی مبارک باد دے رہے تھے. اس نے خوشی خوشی موم بتیاں بجھائی اور کیک کاٹا. اب کوئی اسے گفٹ پکڑا رہا تھا تو کوئی پیسے. ہاجرہ دور کھڑے یہ سب دیکھ رہی تھی. اس کی آنکھوں میں آنسو تھے. اسے وہ وقت یاد آرہا تھا جب وہ اور بالاج کے ابا بالاج کی برتھ ڈے کیا کرتے تھے اور وہ ہمیشہ ایک نئی کار گفٹ لیا کرتا تھا. 
تبھی شمیم بیگم نے ہاجرہ کو ہلایا. " کب سے یوں ہی بت بنے کھڑی ہو ؟ ملک صاحب چائے مانگ رہے ہیں. " 
وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کچن میں چائے بنانے چلی گئی. سب کام نمٹا کر تھکی ہاری کمرے میں پہنچی. جہاں بالاج رات کے کھانے انتظار کر رہا تھا. کمرے میں جا کر اسے یاد آیا کہ کھانا تو لائی ہی نہیں. کام کرتے کرتے اس کی اپنی بھوک تو مر گئی تھی مگر بالاج نے تو دوپہر کا کھانا ہی کھایا تھا بس. وہ دوبارہ کھانے لینے گئی کچن میں کچھ بھی نا تھا. تو اس نے ڈرتے ڈرتے ہال میں بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف ثریا بیگم اور شمیم کو پوچھا. 
" آپا بالاج کے لئے کھانا چاہیے تھا." 
" میں نے تو سب کچھ ہمسایوں کے گھر بجھوا دیا. مجھے لگا کہ تم کھانا لے گئے ہوگی. " ثریا بیگم نے منہ بناتے ہوئے کہا.
" مگر آپا. "
" کیا اگر مگر لگا رکھا ہے. تم بھی ایک ہی دفعہ کھانا لے کر جایا کرو. اب بھابھی کو خواب تھوڑی آنی تھی. میں نے اپنے لئے فریج میں تھوڑے سے چاول رکھے تھے وہ لے جاو اب. " شمیم نے ہاجرہ کی بات ٹوکتے ہوئے کہا. 
وہ " شکریہ " کہتے ہوئے کچن میں سے چاول لے کر کمرے میں گئی.
" امی یہ ٹھنڈے ہیں. " بالاج نے ایک ناولہ لیتے ہوئے کہا. 
" کوئی بات نہیں میرا بیٹا کھا لو. وہ لوگ بھی تو ہیں ناں جن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ہے. " بالاج چپ چاپ ناولے لیتا رہا. اتنے میں دروازے میں سے مہک جھانکتے ہوئے اندر آئی. اب کی دفعہ اس نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ کہیں ماں کو پتا نا چل جائے. 
" ارے مہک بیٹا. تم اس وقت . تم تو سو گئی تھی ناں. " 
" جی چچی . " وہ ہاتھ پیچھے باندھے کھڑی تھی.
" تمھاری امی کو پتا چلا تو وہ بہت غصہ ہوں گی بیٹا. " 
" امی اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں. اس لئے تو ابھی آئی ہوں. میں آپ کے اور بالاج کے لئے کیک لائی ہوں. " اس نے اپنا لنچ باکس آگے کرتے ہوئے کہا. بالاج نے فورا سے آگے ہو کر لنچ باکس پکڑتے ہوئے " تھینک یو " کہا. اب وہ چاول چھوڑ کر لنچ باکس کھولنے لگا. بالاج کو میٹھا بہت پسند تھا. مگر چاکلیٹ کیک اس کا آج سے فیورٹ تھا. مہک کھڑی اسے کیک کھاتا دیکھ رہی تھی. تبھی اس نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے ہاتھ آگے کیا. " اب میرا گفٹ. " 
بالاج اب اس کے یوں گفٹ مانگنے پر تھوڑا حیران سا ہوا. ہاجرہ بھی مہک کو دیکھنے لگی. کیونکہ اس نے بالاج کو اتنے پیسے دئیے ہی نہیں تھی کہ وہ بھی باقی سب کی طرح مہک کو سالگرہ پر کوئی گفٹ دے پاتا. اب بالاج سوچوں میں گم سم ہو گیا. تبھی وہ اٹھا اپنی فیورٹ " جوکر والی پنسل " جو کہ اس نے الماری میں بہت پیار سے ایک ڈبے میں رکھی تھی. نکال کر مہک کو دی. 
" wow . یہ کتنی پیاری ہے . میں صبح سب کو بتاوں گی بالاج نے مجھے اتنا پیارا گفٹ دیا. " 
" نہیں .. تم یہ کسی کو مت بتانا. ورنہ تمھارے امی بالاج پر غصہ ہوں گے. " ہاجرہ نے مہک کو سمجھایا.
" اور اگر تم بتاو گی تو سب کو پتا چل جائے گا کہ تم مجھے کیک دینے آئی تھی. " 
ارے ہاں ! میں یہ بات تو بھول ہی گئی تھی. میں اب کسی کو نہیں بتاوں گی. اب میں چلتی ہوں امی کو پتا نا چلے چچی آپ دروازہ بند کرلیں. " اس نے پنسل اپنی فراک میں چھپاتے ہوئے کہا. بالاج کیک کھاکر خوش ہو رہا تھا.
مگر اسے اپنی پسندیدہ پنسل گفٹ کرنے پر تھوڑا غمگین بھی تھا لیکن اس کے پاس دینے کے لئے کچھ اور بھی تو نہیں تھا. پھر اس نے سوچا کے اگلے برتھ ڈے پر بہت سارے پیسے جمع کرے گا اور مہک کے لئے اس کی پسند کا گفٹ خریدے گا. وہ انہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا تبھی پاس لیٹی ماں سے کہا. " امی ایک بات پوچھوں ؟ " 
ہاجرہ نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا. " جی بیٹا " 
" امی یہ دنیا اتنی عجیب کیوں ہے ؟ اور جب ہمارا کوئی اپنا اس دنیا سے چلا جائے تو لوگ ایسے کیوں منہ پھیر لیتے ہیں ؟ " 
ماں نے بالاج کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا. " میرا بیٹا ایسی باتیں نہیں کرتے ہیں. اللہ نے ہمارے لئے کچھ اچھا پلان کیا ہوتا ہے اس لئے وہ نہیں چاہتا کہ لوگ ہم سے زیادہ اٹیچ ہوں اور وہ چیز ہمیں ملنے کی بجائے انہیں مل جائے. " 
" مگر امی ان سب کے پاس تو سب کچھ ہے. "
" سو جاو بالاج صبح سکول بھی جانا ہے. " 
" امی جب میں بڑا ہو کر ' آرمی آفیسر ' بن جاوں گا پھر میں آپ کو اور مہک کو ان سب کی طرح بہت ساری چیزیں لے کر دوں گا. " 
اس نے یہ کہتے ہوئے آنکھیں بند کر لی. وہ ماں کے ساتھ ساتھ مہک کو بھی بہت ساری چیزیں لے کر دینا چاہتا تھا. حالانکہ مہک کے پاس سب کچھ تھا مگر ملک حویلی میں ایک وہی تو اسے اچھی لگتی تھی. اکثر بالاج ایسی باتیں کر دیا کرتا تھا کہ ہاجرہ کے پاس الفاظ نہیں ہوتے تھے کہ وہ اس کو جواب دے سکے. آج بھی اس نے ماں کو لاجواب کردیا تھا. ہاجرہ نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے آنکھیں بند کرلی.

.
_____☆☆☆☆☆_____
.

( جاری )

No comments:

Post a Comment