#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو
( عشق مجاز سے عشق حقیقی کا سفر )
#تیرہویں_قسط
( لاسٹ ایپیسوڈ )
#از_صالحہ_منصوری
رات کے چار بج رہے تھے ۔ خاموشی اور اندھیرے کے بیچ چودھویں رات کا چاند اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہر جگہ چاندنی بکھیر رہا تھا ۔ ایسے میں وہ اپنی کھڑکی سے لگی پردوں کو ہٹا کر کسی غیر مرئی نقطے پر نظر مرکوز کئے مسلسل باہر دیکھ رہی تھی ۔ سیاہ رنگ کے لمبے گاؤن اور ہم رنگ حجاب میں ملبوس آیت کے سنجیدہ چہرے پر کھڑکی سے ہوکر گزرتی چاندنی اسے اور جاذب نظر بنا رہی تھیں ۔ کل اس کا نکاح تھا ۔ زندگی یکسر طور پر نا صحیح لیکن تھوڑی بہت تبدیل ہو ہی جانی تھی ۔ وہ اپنے اس گھر میں گزرے ایک ایک لمحے کو یاد کر رہی تھی اور پھر اسے اذان کا خیال آیا کہ کس طرح وہ پہلی بار اس سے ہم کلام ہوا تھا لیکن پھر ۔۔۔۔ پھر وہ اتنا با ادب ہو گیا کہ آیت کو خود سے زیادہ معتبر لگنے لگا ۔ وہ اذان جس کی زندگی دنیوی رنگینیوں سے مرصع تھی وہی اذان اب گناہ کے خیال سے بھی ڈرنے لگا تھا ۔ یہ سب کیوں کر ممکن ہوا ۔؟
اس کی نظر کمرے میں لگے روضہ ء انور کے طغرے کی طرف پڑی اور لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے ۔ یہ سب کچھ نبی پاک ﷺ کی عطا سے تھا ۔ آپ علیہ السلام نے اس پر نظر کرم فرمائی اور حالات بدلتے چلے گئے ۔ آیت جو خود بھی محبت رسول میں غرق رہنے والی تھی کل ایک ایسے شخص کے ساتھ منسوب ہونے والی تھی جو خود بھی عاشق رسول بن چکا تھا ۔ اسے کو بے ساختہ سورہ نور کی آیت یاد آئی :
" پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں ۔"
ایک آنسو شکر ادا کرتا پلکوں سے ڈھلک گیا ۔ کتنا پیارا احساس ہے کہ خدا جب مومنین کے مابین رشتہ ء ازواج کو قائم فرماتا ہے تو انہیں ایک دوسرے کی طبیعت والا ہی عطا فرماتا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ ہماری بیوی سے نہیں بنتی شوہر سے نہیں بنتی ۔۔۔ ارے آپ خود جیسے ہوں گے آپ کو شریک حیات بھی ویسے ہی ملیں گے کیوں کہ دنیا جھوٹی ہو سکتی ہے ، ماضی پر لوگ پردہ ڈال سکتے ہیں لیکن اللّه کے کلام میں سچ کے علاوہ کسی چیز کی گنجائش نہیں ۔ اس رب تعالیٰ کا کلام برحق ہے ، اس کے رسول سچے ہیں جنہوں نے ہمیں اللّه سے ملایا ۔
آیت نے مسکرا کر اپنے تشکر کے آنسو صاف کئے اور تہجد ادا کر نے کے بعد قرآن کریم لے کر بیٹھ گئی ۔ دوران تلاوت اس نے پڑھا :
" أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO)يونس، 10 : 62(
'’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔
اس آیت کو پڑھتے ہوئے وہ چونک گئی ۔۔۔ یہ آیت اس نے جلد ہی کہیں پڑھی تھی لیکن کہاں ۔۔۔؟ اس نے آنکھیں بند کر کے جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی پھر مصحف کو بند کر کے وہ سوچ میں ڈوب گئی ۔ اچانک ایک جھماکے سے اسے یاد آیا کہ ہاں بیشک اولیاء اللّه کو نا ہی ماضی کا کوئی غم ہوتا ہے نا ہی مستقبل کا خوف کیوں کہ وہ اپنا آپ اللّه پر نثار کرکے خالص اللّه کے لئے رہ جاتے ہیں ۔ وہ بے پرواہ ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ قیامت میں بھی انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا کیوں کہ وہ اللّه کے سائے میں رہنے والے ہوں گے ، لیکن انبیاء کا معاملہ الگ ہوتا ہے ۔ انبیاء علیہ السلام کو اپنی امّت کی پرواہ ہوگی ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللّه کے ولیوں کو قیامت میں کوئی خوف نہیں ہوگا لیکن انبیاء علیہ السلام کو خوف ہوگا اور یہ خوف امّت کے لئے ہوگا ۔
آیت کی آنکھیں بھیگنے لگیں ، اس نے مصحف کو اٹھا کر چوما پھر آنکھوں سے لگا کر سینے میں بھینچ لیا ۔ وہ زار و قطار رو رہی تھی ۔ قیامت کے پر ہول منظر کے بیچ نبی پاک ﷺ کی اپنی امّت کے لئے جو بے قراری ہوگی وہ کون بیان کر سکتا ہے ۔ میرے آقا شفیع المذنبین ہم جیسے گنہگاروں کی شفاعت کے لئے بے چین ہوں گے ۔ حضور علیہ السلام کی آنکھوں میں ہم جیسوں کے لئے آنسو ہوں گے اور لبوں پر ایک ہی جملے کی تکرار کہ " یا رب حبلی امّتی ۔"
آیت کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے قرآن کو سینے سے لگائے وہ شدّت سے رو دی ۔
_ دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت ،
کتنی روشن ہے رخ شاہ کے خیالات کی رات ۔
چھائی رہتی ہے خیالوں میں تمہاری زلفیں ،
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات ۔
❤ ﷺ ❤
( کلام حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری رضی اللّه تعالیٰ عنہ )
*
" کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔؟" امام ہدایت اللّه صاحب نے اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھا ۔ آیت کے لب کپکپائے اور سر خود بخود اثبات میں ہل گیا ۔
" ج ۔۔ جی قو قبول ہے ۔"
اس کے الفاظ ادا کرنے کی دیر تھی کہ ہر طرف مبارک مبارک کا شور مچ گیا ۔ آیت نے بمشکل خود کو سنبھالتے ہوئے پیپر پر سائن کئے ۔ یہ خوف اس وجہ سے نہیں تھا کہ اسے اس نکاح پر اعتراض تھا بلکہ خوف کی وجہ یہ تھی کہ اب اسے ایک ذمہ داری مل گئی تھی ۔ وہ کسی کے ایمان کی تکمیل بن گئی تھی اب اذان کو راہ حق سے بھٹکنے نا دینا اس کا فرض تھا ۔ ہمارے معاشرے میں شادی کا مطلب سمجھتے ہیں کہ ایک لائف پارٹنر مل جائے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اصل میں شادی ہے کیا ۔؟ نکاح کرتے کیوں ہیں ۔؟ اور اگر کیا تو کیا کیا ذمہ داری آتی ہے ۔؟ بس نکاح کر لیا اور فضول باتوں کے لئے دنیا بھر کی غیبت کے لئے ایک بندہ مل گیا ۔۔ معاذ اللّه تعالیٰ ثم معاذ اللّه ۔
نکاح کا مطلب ہے جو شخص آپ سے تمام عمر یہاں تک کہ جو جنّت میں بھی آپ کے ساتھ ہوگا اس کے ساتھ مل کر اپنے اور اس کے ایمان کی تکمیل کرنا ، ایک دوسرے کو گناہ سے روک کر نیکیوں کی طرف رغبت دلانا ، اور ابن آدم بنت حوا کا ہاتھ تھام کر اسے وہیں جنّت میں لے جائے جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا ۔
نکاح کی وجوہات بھی دو ہیں :
ایک تو ضرورت سے نکاح کرنا دوسرا عبادت کی غرض سے اللّه کے احکام کی تکمیل میں نکاح کرنا ۔
اب ان دونوں کے درمیان باریک سا فرق ہے ، پہلی صورت کہ جب بندہ یہ جان لے کہ اب گناہوں سے بچنا مشکل ہے یا اگر نکاح نا کیا تو حرام میں ملوث ہو جائے گا تو ایسا نکاح کرنا فرض ہے ۔
دوسری صورت میں بندہ صرف اللّه کے اس ارشاد کے تحت عمل کرتا ہے کہ نیک اولاد کے حصول سے اپنے لئے صدقہ جاریہ چھوڑ جائے ۔ یہ مستحب ہے ۔ اللّه کے بہت سے ایسے ولی بھی گزرے ہیں جو اس دوسرے قول کی مثال ہیں ۔ ایک بزرگ تھے ان کی بی بی روز تیار ہوتی اور انتظار کرتیں کہ اب مجھے دیکھیں گے ۔ مگر وہ علم و کتاب میں اتنا غرق رہتے کہ کبھی فرصت ہی نا پاتے ۔ ایک دن ان کی زوجہ محترمہ نے کہا کہ یہ کتابیں تو مجھ پر سو سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں ۔
یہ ان کی خدمت دین کی وجہ سے تھا ۔ ورنہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے نافرمانی کی یہاں بتانے کا مقصد دوسری قسم کے لوگوں کو واضح کرنا تھا کہ جب بھی وہ اپنی زوجہ محترمہ کے پاس جاتے صرف حکم خداوندی سے جاتے ۔ یہ ان کا تقویٰ تھا ۔ ان کی عظمت اور ان کا دین سے لگاؤ تھا ۔
اللّه کے پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ابن آدم نکاح کرتا ہے تو شیطان گریہ کر کے روتا ہے اور کہتا ہے کہ ابن آدم نے مجھ سے اپنا آدھا ایمان بچا لیا ۔
نکاح کے بعد وہ دونوں شکرانہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے ۔
*
آیت نے تیسری بار گھڑی دیکھی ۔ اذان کو گئے ہوئے پندرہ منٹ ہونے آے تھے اور وہ مسجد نبوی شریف کے صحن میں کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی جو اسے ایک طرف روک کر خود ناجانے کہاں چلا گیا تھا ۔ وہ دونوں اس وقت مدینہ شریف میں تھے ۔ اذان شادی کے ایک ہفتے بعد ہی اسے عمرے پر لے گیا تھا جہاں انہوں نے عمرے کی ادائیگی کے بعد پورے دس دن مدینہ شریف میں قیام کرنا تھا ۔ آیت اور اذان دونوں کو ہی مدینہ شریف دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا اور کیوں نا ہوتا یہ تو ہر مومن کی آرزو ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک بار ہی صحیح وہ سبز گنبد کی چھاؤں ہمیں بھی نصیب ہو خواہ چند لمحوں کے لئے ہی اور پتا ہے ۔۔۔ جب وہ لمحہ آتا ہے نا تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسےساری زندگی ان چاند لمحوں میں ہی قید ہو گئی ہو جو ہم نے حرم میں گزارے ہیں ۔ ان دونوں کی پہلی نظر جب سبز گنبد پر پڑی تو لاکھ ضبط کے باوجود آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے آنسو پونچھ نہیں رہا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ آنسو محبت کی شدت ہیں انہیں روکنا بے کار ہے ۔ وہ دونوں اس جگہ کھڑے تھے جہاں جانے پر جنید بغدادیؓ اور بایزید بسطامیؓ اپنی سانس روک لیتے کہ کہیں بے ادبی نا ہو جیسا کہ شعر ہے :
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر،
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا
آسمان کے نیچے ایک ایسی ادب گاہ)گنبد خضریٰ( ہے جو عرش سے بھی زیادہ نازک ہے۔جہاں جنید بغدادی رحمة الله عليه اور بایزید بسطامی رحمة الله عليه جیسے لوگ بھی سانس روک کر آتے ہیں)يعنى ادب سے اونچا سانس نہیں لیتے(۔
ان کی نظریں صحن کے حدود سے آگے بڑھ کر سبز گنبد پر مرکوز ہو گئیں ۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ادب سے جھک کر چلتے سنہری جالی کے پاس آے تو ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر اس قدر روۓ کہ نشان سے پڑ گئے ۔ بیشک محبت اپنی جگہ لیکن ادب رسول سے ہی محبّت رسول ﷺ کی بقا ہے ۔ ہم وہاں جانے سے پہلے کتنا ہی سوچ لیں کہ یہ مانگ لیں گے وہ مانگ لیں گے لیکن وہاں جا کر سب بھول جاتے ہیں ۔ بس یہی کہتے ہیں کہ یا رسول اللّه ﷺ ہمیں کچھ نہیں چاہئے ہمیں صرف آپ چاہئے ، آپ کی محبت چاہئے آپ کی رضا چاہئے ۔۔۔۔
اس وقت دل کرتا ہے کہ طیبہ کی گلیوں میں ہی خود کو کہیں چھپا لیں ، اور دیر محبوب سے لوٹ کر کہیں نا جائیں ۔ بس ہم ہوں اور لطف و کرم والے آقا علیہ السلام ۔
_ نصیب والوں میں میرا بھی نام ہو جائے ،
جو زندگی کی مدینے میں شام ہو جائے ۔
وہ کافی دیر روتے رہے پھر اذان اسے لے کر باہر آیا اور صحن میں ایک طرف رکا کر خود کہیں چلا گیا جب وہ واپس آیا تو ہاتھ میں کچھ کھانے کا سامان تھا ۔
" آج ہماری زندگی کا پہلا روزہ ایسا ہوگا جس کی افطار ہم صحن نبوی ﷺ میں کریں گے ۔" اذان نے گنبد خضریٰ کو دیکھتے ہوئے کہا تو آیت کی آنکھیں چمک گئیں ۔ وہ دونوں آج صحن نبوی میں بیٹھے اہل بیت کا صدقہ کھا کر روزہ افطار کر رہے تھے ۔ سبز گنبد پر ڈھلتی شام کے سائے خوبصورت روشنی سا امتزاج بناتے گم ہو رہے تھے اور وہ گنبد خضریٰ ہمیشہ کی طرح پورے عالم کو اپنی شعاع رحمت سے روشن کر رہا تھا ۔
*
ختم شد ۔
السلام علیکم ریڈرز ۔۔۔
الحمدللہ تعالیٰ ثم الحمدللہ آج میں نے اپنا ایک اور ناول " تمہاری مدح اور میرا قلم ہو ۔" مکمّل کر لیا اور آج جتنی خوشی مجھے کبھی نہیں ہوئی کیوں کہ اب تک جو لکھا وہ مختلف موضوع تھے لیکن اللّه کا بے بہا فضل و احسان کہ اس نے مجھ نا چیز کو نبی کریم ﷺ کے لئے کچھ کہنے کی کچھ لکھنے کی توفیق دی ۔ اس ناول لکھنے کا مقصد ہی حضور ﷺ کی مدح تھی اور یہ انہیں کے لئے لکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا نام رکھا گیا ۔" تمہاری مدح اور میرا قلم ہو "
میرے لئے اور تمام مومنین کے لئے دعاؤں کی درخواست انشاء اللّه تعالیٰ پھر نیو ناول کے ساتھ ملیں گے ۔ مولا سلامت رکھے ۔
جزاک اللّه تعالیٰ ۔
خدا حافظ ۔
#صالحہ_منصوری
No comments:
Post a Comment