Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#15

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
پندرھویں قسط 
( سیکنڈ لاسٹ )
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Episode No. Fifteen ( Second Last Epi )
---------------------------------------
وہ دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا یونٹ سے باہر نکل رہا تھا. اس کے لبوں پر کوئی مدھر گیت تھا. جو وہ مسلسل گا رہا تھا. 
" I am sorry. " 
اس کے سیل فون پر میسج موصول ہوا. وہ میسج دیکھ کر تھوڑا حیران و پریشان ہوا. 
" اب یہ کون ہے ؟ جو مجھ سے دن دہاڑے معافیاں مانگ رہا ہے. " 
" ہیں معافی اور تم سے ؟ " ( ڈرائیو کرتے ہوئے کیپٹن ارسلان نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا.) 
" ہاں. دیکھو تو. " ( کیان نے سیل فون اس کی طرف کرتے ہوئے اسے میسج دکھایا.) 
" ویسے شکل تو نہیں ہے تمھاری کہ تمھیں کوئی لڑکی میسج کرے. مگر پھر بھی کال تو ملا زرا. " 
" مجھے کیا ضرورت ہے ؟ کال کرنے کی جو بھی ہوگی یا ہوگا خودی بتائے. " 
" کر لے نا یار. آخر پتا تو چلے کون ہے ؟ " ( اس نے گاڑی پارک کرکے متجسس ہوتے ہوئے پوچھا. ) 
" تمھیں اتنی کیا آگ لگی ہوئی ہے ؟ " ( بالاج نے ارسلان کے پیٹ میں گھونسہ مارتے ہوئے کہا. ) 
" کیونکہ اب میں بھی تمھاری شادی کا کھانا کھانا چاہتا ہوں. " ( ارسلان نے پیچھے ہوتے ہوئے کہا تھا. ) 
" بھوکا انسان. "
" شکر تم نے مجھے انسان تو مانا چاہے بھوکا ہی سہی."
وہ دونوں راہداری سے گزرتے ہوئے ایک ہال کی طرف بڑھ گئے. ہال میں عجیب سماں تھا. پورا ہال خاکی وردی پہنے سینوں پر میڈلز سجائے تمام مرد مجاہد سے بھرا ہوا تھا. جو کہ ایک عجب منظر پیش کر رہا تھا. کرسیوں پر بیٹھا کوئی پنجابی ، سندھی اور بلوچی نہیں تھا سب صرف اور صرف پاکستانی کہلوا رہے تھے. وہ بھی خالی کرسیاں دیکھ کر پیچھے ہی بیٹھ گئے تھے. کچھ ہی دیر میں خالی کرسیاں بھی بھر چکی تھی. شہدا کی فیملیز کو اسپیشل پروٹوکول دیا گیا تھا. یہ تقریب باونڈری لائنز پر شہادت پانے والے سپوتوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے رکھی گئی تھی.
------☆------
مہک نے ہسپتال سے سیدھا گھر جانے کی بجائے بالاج کے گھر کی طرف رخ کیا تھا. اس نے گاڑی سے اتر کر دروازہ کھٹکھٹایا تھا. اندر سے ایک لڑکا باہر آیا تھا.
" جی . آپ کو کس سے ملنا ہے ؟" 
" صاحب گھر ہیں کیا ؟ " ( مہک نے دروازہ کھلتے ہی پوچھا تھا.) 
" کون سے والے صاحب. چھوٹے ، بڑے یا سب سے بڑے. " ( اس لڑکے نے پھر سے پوچھا تھا. ) 
" بالاج گھر پر ہے کیا. ؟ 
" نہیں بالاج صاحب تو ڈیوٹی پر ہیں. "
" اور کوئی گھر ہے کیا ؟ " 
" نہیں. آپ مجھے اپنا نام پتہ بتا دیں. جب بڑے صاحب اور بیگم صاحبہ گھر آئیں گی تو میں انہیں بتا دوں گا. " ( اس لڑکے نے پھر سے کہا تھا. ) 
" نہیں میں پھر آجاوں گی. " 
مہک یہ کہتے ہوئے مایوس سی وہاں سے واپس آئی تھی. گھر آکر وہ پھر سے کمرے میں گھس گئی تھی. کیان نے فیکٹری سے واپس آتے ہی مہک کا پوچھا تھا. اس نے غصے سے کمرے میں داخل ہوتے پوچھا تھا.
" مہک یہ کیا ہے ؟ "
مہک بیڈ پر اوندھی پڑی ہوئی تھی. اس نے کیان کی بات کو کوئی جواب نہیں دیا تھا.
" مہک میں تم سے پوچھ رہا ہوں. " ( اس نے مہک کو ہلاتے ہوئے کہا تھا. لیکن اس کا چہرہ دیکھ کر وہ پھر سے ٹھنڈا پڑنے لگا تھا.) 
" کیا ؟ " ( مہک نے منہ بنائے کہا تھا.) 
" تم آج پھر ہسپتال سے اکیلے کیوں واپس آئی ہو. ؟ 
" میری مرضی. " 
" مہک تم ایسا کیوں کر رہی ہو ؟ " 
" کیان میں کوئی تمھاری غلام نہیں ہوں. جو تمھیں ہر بات کا جواب دوں. " 
" بیوی ہو تم میری یار اینڈ یو نو آئی لو یو. " 
کیان نے مہک کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا. مہک نے ہاتھ چھڑایا تھا. کیان اس کے اس رویے کو سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا. اس لئے اس نے مہک سے " سوری " کی تھی لیکن وہ پھر سے تکیہ منہ پر رکھ کر دوسری طرف ہوئی تھی. 
" مہک . " 
کیان اسکی سائیڈ پر گیا. اس کا تکیہ ہٹنے کو کوشش کرتے ہوئے اس نے پھر سے بولنا شروع کیا تھا.
" مہک یار مجھے تمھارا یہ رویہ بلکل بھی برداشت نہیں ہو رہا ہے. کبھی تم مجھے بنا بتائے ہسپتال سے واپس آجاتی ہو. کبھی میری کالز کا جواب نہیں دیتی اور تمھیں یہ بات بھی اچھے سے معلوم ہے کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں. تم صرف میری بیوی یا دوست ہی نہیں میرا سب کچھ ہو. " 
" کیان تکیہ چھوڑو. " ( مہک نے تکیہ اس کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے صرف اتنا کہا تھا. ) 
" پہلے تم مجھ سے بات کرو. " ( وہ تکیہ یوں ہی پکڑے کھڑا تھا. ) 
" اب اگر تم نے تکیہ نہیں چھوڑا تو میں اماں کے کمرے میں چلی جاوں گی. " 
" جب تک تم بات نہیں کرو گی میں ادھر ہی تکیہ پکڑے کھڑا رہوں گا. "
" ٹھیک ہے تم یہی چاہتے ہو ناں. میں اس کمرے سے چلی جاو. تو اب تم ہی اس کمرے میں رہو. "
وہ تکیہ چھوڑ کر سائیڈ ٹیبل سے اپنا سیل فون پکڑے کمرے سے باہر نکلی تھی. تائی اور ماں نہ جانے کب سے ان کے کمرے کے باہر کھڑی تھیں. وہ بنا کچھ کہے ماں کے کمرے کی طرف چلی گئی تھی.
کیان بھی اس کے پیچھے آیا تو ماں اور چچی کو یوں کھڑا دیکھ کر تھوڑا شرمندہ سا ہوا. ماں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر پوچھا.
" اے سب کی چل ریا وے کیان پتر ؟ " 
" اماں کوئی خاص بات نہیں ہے. مہک تھوڑی ناراض ہے مجھ سے. " 
" ناراض شور شرابا کر کے ہوتے ہیں کیا ؟ ہمارے وقتوں میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا. خیر تو چل میرے نال نیچے کھانا کھا. مہک خود ہی مان جائے گی. " 
ثریا بیگم کیان کو ساتھ لے آئی. شمیم بیگم وہی کھڑی ان دونوں کو جاتا دیکھتی رہ گئی. وہاں سے اپنے کمرے میں آئی. تو مہک آنکھیں موندھے لیٹی تھی. اس نے بیڈ پر بیٹھے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا.
" مہک پتر کیا ہوا ہے ؟ "
" کچھ نہیں اماں. مجھے سونا ہے. " 
" کھانا تو کھا لو بیٹا. " 
" مجھے نہیں کھانا. " 
" پتر_ ناراض تم کیان سے ہو کھانے سے کیسی ناراضگی ؟ " 
" اماں ایک بات پوچھوں. " (کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے سیدھے ہوتے ہوئے پوچھا. )
" ہاں بولو. " ( شمیم بیگم نے اسکا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا تھا. ) 
" اماں آپ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں ؟ " 
" یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے پتر. ایک ماں کو اپنی اولاد سے بڑھ کر اور کچھ عزیز نہیں ہوتا ہے. اور تم تو میری کل کائنات ہو. تمھارے سوا میرا اور ہے ہی کون ؟ " 
" اماں کیا آپ میرا ساتھ دیں گی ؟ " ( اب وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی. ) 
" بیٹا میں تمھارے ساتھ ہی ہوں. چاہے کچھ بھی ہو جائے. " 
" اماں کچھ بھی. " 
مہک نے بات پر زور دیا تھا. شمیم بیگم نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے " ہاں " کہا تھا. 
مہک کے اندر ناجانے کیا لاوہ پک رہا تھا. شمیم بیگم نے کچن سے کھانا لینے جانا چاہا مگر مہک نے اسے روک لیا اور دونوں ماں بیٹی بیٹھی باتیں کرنے لگی. اس نے سونے سے پہلے سیل فون پکڑا اور میسج ٹائپ کیا. 
" I am sorry. I want to talk you. When you will be free text me. " 
اور سینڈ کردیا. وہ میسج کا رپلائی کرتے کرتے سو گئی. مگر بالاج نے میسج سین کئے بنا ہی ڈلیٹ کر دیا تھا. 
ادھر کیان مہک کی وجہ سے پریشانی کے عالم میں بیڈ پر بیٹھا سگریٹ کے کش لگائے سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ کی لائٹ آن اور آف کر رہا تھا. وہ اچانک اٹھا اور شمیم بیگم کے کمرے کے باہر آ کھڑا ہوا. پھر اس نے آہستہ سے دروازے کو ہاتھ لگایا تو دروازہ کھلا ہوا تھا مگر لائٹ آف ہونے کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ مہک اور چچی سو چکی تھی. اس لیے وہ دروازہ ویسے ہی بند کر کے الٹے پاوں واپس مڑا.
صبح ہوتے ہی شمیم بیگم نے مہک کو جگایا تھا. اس نے سب سے پہلے سیل فون پکڑ کر چیک کیا تھا. اس نے ابھی تک میسج سین نہیں کیا تھا. مہک سیل فون وہی رکھے فریش ہونے چلی گئی. جب باہر نکلی تو کیان کرسی پر بیٹھا اس کا انتطار کر رہا تھا. اس نے بیڈ سے دوپٹہ پکڑتے ہوئے کندھے پر رکھا. 
" مہک بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے. " 
وہ بات ان سنی کرتے ہوئے باہر نکلنے لگی تھی. کیان نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کیا.
" تم نے سنا نہیں میں نے تمھیں کچھ کہا ہے. "
" مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے. " ( مہک نے اس کا بازو پرے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا. ) 
" تمھیں پیار کی زبان سمجھ نہیں آرہی ہے ناں ؟ " ( کیان نے اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا تھا. ) 
" ہاتھ چھوڑو میرا. " 
کیان کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے وہ ہاتھ چھڑوانے میں ناکام ہوگئی تھی. کیان کی انگلیوں کے نشان اس کے بازو پر بن چکے تھے. درد کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے. کیان نے اسے پکڑتے ہوئے بیڈ پر بیٹھایا تھا. مہک کے آنسو دیکھتے ہی وہ پگھلنے لگا تھا. اس نے مہک کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے کہا تھا. 
" مہک میں تمھیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا لیکن تم مجھے مجبور کر رہی ہو یار. میں تم سے محبت کرتا ہوں. محبت کا تعلق دل سے ہے مگر وہ بائیولوجی کی تھیوریز کی بجائے میتھ کے اصولوں کو مانتی ہے. کاش میں تمھیں بائیو کی زبان میں سمجھا سکتا لیکن مجھے میتھ ہی آتا ہے. پہلے پہل یہ دو الگ لوگوں کو یکجا کرتی ہے. جیسے میں اور تم ایک خوبصورت رشتے میں بندھے ہیں اور پھر اس حاصل جمع پر کاری ضربیں لگا کر ایک عجب سلسلے کا آغاز کردیتی ہے. اس لئے میں نہیں چاہتا کہ ہمارے اس رشتے میں یہ سلسلہ شروع ہو. جس میں اپنی انا اور خوداری کی نفی کرنا پڑتی ہے. محبت کبھی ختم نہیں ہوتی ہے. بس ہماری لاپرواہی سے یہ جذبہ کمزور ہو جاتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم ایک مرکز کی بجائے سمتوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں. اس لیے میں نہیں چاہتا کہ میری یا تمھاری لاپرواہی سے یہ محبت ختم ہو یا ہمارے اس رشتے پر آنچ بھی آئے.
میں نے بچپن سے ہی تمھارے سوا کسی اور کی چاہت نہیں کی لیکن جس دن چچا نے ہمارے نکاح کی خواہش کی تھی اس دن سے میرا پیار تمھارے لیے اور بڑھتا گیا. اب اگر تم مجھ سے ایسے رویہ رکھو گی تو مجھے برا تو لگے گا ناں اور اس سے گھر کا ماحول بھی خراب ہو رہا ہے. اماں اور چچی ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہوں گی ؟ "
اس کی یہ سب باتیں مہک کے لیے اب کچھ معنی نہیں رکھتی تھی. وہ موٹے موٹے آنسو ٹپکائے جا رہی تھی. اتنے میں کیان کا سیل فون بجا. اس نے مہک کو چھوڑ کر کال ریسیو کی دوسری طرف سے ابا کی آواز آئی. 
" اسلام وعلیکم کیان بیٹا. کیسے ہو ؟ "
( مہک نے پھر سے اٹھ کر جانا چاہا. کیان نے اسے روکتے ہوئے ہاتھ پکڑا. )
" میں ٹھیک ہوں ابا. آپ کیسے ہیں ؟ " 
" یہ تمھاری ماں کیا بتا رہی ہے ؟ تم دونوں نے گھر کو مچھلی بازار بنا رکھا ہے. " 
" کیا ابا ؟ ( کیان نے انجان بنتے ہوئے پوچھا. ) 
" تمھاری اور مہک کی لڑائی چل رہی ہے کیا. "
" نہیں ابا. ایسی کوئی بات نہیں ہے بس تھوڑی سی تلخ کلامی ہوگئی تھی. آپ کو تو پتہ میاں بیوی میں اتنا تو ہو ہی جاتا ہے مگر اب سب ٹھیک ہے. " 
" تم دونوں کا جو بھی مسئلہ ہے میرے گھر آنے سے پہلے ختم ہونا چاہیے. " 
" جی ٹھیک ابا. " کہتے ہوئے اس نے کال کاٹ دی. شمیم بیگم کمرے میں داخل ہوئی تو کیان مہک کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا.
" کیان بیٹا تم بھی ادھر ہی ہو. چلو دونوں آو. آپا ثریا تم دونوں کا ناشتے کے میز پر انتظار کر رہی ہے. " اماں کو دیکھتے ہی مہک نے کیان سے ہاتھ چھڑوا کر آنسو پونچھے. چچی کے پیچھے پیچھے کیان اسکا ہاتھ پکڑے اسے نیچے لایا تھا. ناشتے کے بعد کیان نے گاڑی نکالی اور اسے ہسپتال چھوڑنے چلا گیا. پورا راستہ مہک سیل فون کے ساتھ لگی رہی اور کیان سے کوئی بات نہ کی. کیان بھی چپ چاپ ڈرائیو کرتا رہا.
-------☆☆☆☆☆-------

( جاری )

No comments:

Post a Comment