Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Last Episode

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
سولھویں قسط ( آخری قسط )
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Episode No. Sixteen ( Last epi )
---------------------------------------
مہک اور کیان کے درمیان صلح کروا کے سلیم ملک شمیم بیگم اور ثریا بیگم کو گاوں لے گیا تھا. بظاہر تو بڑوں کے سامنے انہوں سے لڑائی ختم کر دی تھی لیکن کیان اور مہک میں دن بدن کشیدگیاں بڑھنے لگی تھی. آئے دن کسی کسی نا کسی بات پر دونوں میں تلخ کلامی ہو جایا کرتی تھی. بالاج کے رپلائی نہ کرنے کی وجہ سے وہ عجیب سی ہو گئی تھی. وہ ہسپتال میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اچانک اسے خیال آیا. 
" اس نے میرا نمبر بلاک کیا ہے آفس کا تو نہیں تو کیوں ناں آفس کے نمبر سے کال کی جائے. "
اس نے فون اپنی طرف کرتے ہوئے نمبر ڈائل کیا. پہلی ہی بیل پر کال ریسیو کرلی گئی تھی. دوسری طرف سے بھاری مردانہ آواز آئی تھی.
" ہیلو." ( اس نے چائے بننے کے لیے پتیلی چولہے پر رکھتے ہوئے کہا تھا. )
" ہیلو. " ( اس نے دوسری طرف سے خاموشی کی وجہ سے دو دفعہ کہا تھا.) 
" کال مت کاٹنا. " ( اس نے کہا تھا. ) 
وہ اس کی آواز پہچان گیا تھا. اس کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی. اس کے باوجود اس نے انجان بنتے ہوئے پوچھا تھا. 
" کون ؟ " 
" بھول گئے ناں مجھے تم. " ( اس نے پیپر ویٹ کو میز پر گھوماتے ہوئے کہا تھا. ) 
وہ اسے کیسے بھول سکتا تھا. ایک وہی تو تھی جو اسے یاد تھی. لیکن وہ اسے یہ شو نہیں کروانا چاہتا تھا کہ وہ آج بھی وہی کھڑا ہے. محبت کے تپتے صحرا میں اکیلا اس کے انتطار میں بیٹھا ہے. 
" دیکھیں محترمہ آپ جو کوئی بھی ہیں سیدھی طرح بتائیں اور یہ بھی بتائیں آپ کو کس سے بات کرنی ہے. ؟ " ( اس نے چولہہ کم کیا تھا )
" میں کون ہوں یہ تم بتاو گے ؟ اور بات مجھے تم سے ہی کرنی ہے. "
" بھاڑ میں جاو. " ( اب وہ اسے کے لہجے میں بات کر رہا تھا. ) 
" رکو رکو. فون مت بند کرنا. " ( اس نے فورا کہا تھا. ) 
" تو اب بتاو کون ہو اور مجھے کیوں تنگ کر رہی ہو ؟ " 
" میں مہک بات کر رہی ہوں. " 
( اس کے بعد ایک لمبی خاموشی تھی. چائے ابل کر چولہے پر گرنے لگی تھی. ) 
" بات تو کرو. " (مہک نے خود ہی خاموشی توڑی تھی. ) 
" کون مہک ؟ میں کسی مہک کو نہیں جانتا ؟ " ( اس نے اپنا چائے کا پتیلا ہاتھ سے پکڑتے ہوئے کہا تھا. جس سے اس کی انگلیوں کے پورے جل گئے تھے. لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا. )
" کھاو قسم میں تمھیں یاد نہیں ہوں کیا ؟ " 
" نہیں یاد. " ( اس نے غصے سے کہا تھا. ) 
" ایسے نہیں قسم کھاو. "
" دیکھو محترمہ تم جو کوئی بھی ہو مجھے تم سے کوئی غرض نہیں. میں ایک شادی شدہ شخص ہوں اور اپنی لائف سے خوش ہوں. " ( اس نے اب جھوٹ بولا تھا. ) 
" اوہ تو وہ لڑکی اسی لیے تمھیں بھائی بول رہی تھی. " 
" تمھارا مسئلہ کیا ہے مہک ؟ " ( اس نے جھنجھلاہٹ سے کہا تھا. )
" میرا مسئلہ تم ہو. میجر بالاج ملک رابطے ختم کرنے سے محبت ختم نہیں ہو جاتی ہے. " 
"کس محبت کی بات کر رہی ہو ؟ اور تمھارا مسئلہ اب میں نہیں تمھارا شوہر ہونا چاہیے. " 
" لیکن تم مجھے جانتے نہیں تو تمھیں یہ کیسے معلوم کہ میں شادی شدہ ہوں. " ( اس نے اپنا دماغ لڑایا تھا اور بالاج کی غلطی پکڑ لی تھی. بالاج نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا. )
" شٹ میں نے یہ کیوں بول دیا ؟ " ( اب وہ خود کو کوس رہا تھا. ) 
" کیا چاہتی ہو تم اب ؟ ( اس نے مہک سے پوچھا تھا. ) 
" تم سے بات کرنا چاہتی ہوں. " 
" مگر کیوں ؟ " 
" اس کیوں کا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے. لیکن اگر تم مجھ سے بات کر لیا کرو گے تو تمھارا کیا جائے گا ؟ " 
" دیکھو مہک جو تم کر رہی ہو یہ غلط ہے. تمھیں اندازہ بھی ہے اس سے تمھاری شادی شدہ زندگی پر کیا اثر پڑے گا. " 
" غلط تو میں نے تمھارے ساتھ کیا تھا. " 
اب وہ اسے ایموشنل بلیک میل کر رہی تھی. اس کے بات کرنے کے دوران نرس دروازے پر دستک دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تو مہک نے یہ کہتے ہوئے کال بند کر دی. 
"میں تم سے تھوڑی دیر تک بات کرتی ہوں. " 
اس لڑکی نے بالاج کو عجیب کشمکش میں ڈال دیا تھا. اس نے جلا ہوا پتیلا اٹھایا ہی تھا کہ ارسلان اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے پیچھے آیا. 
" مجھے لگتا ہے تمھارے ہاتھ کی ایک کپ چائے مجھے اگلے جنم میں نصیب ہوگی اور تم کیا ناراض معشوق کی طرح پتیلے جلائے بیٹھے ہو. " ( ارسلان نے جلا ہوا پتیلا دیکھ کر کہا تھا. ) 
" بکواس نہ کر یار. میں کال سن رہا تھا تو بس جل گئی چائے بھی. " ( اس نے پتیلا سینک میں رکھ کر دھوتے ہوئے کہا تھا. ) 
" تمھیں کس کی کال آگئی ؟ دکھاو تو کہیں اس " sorry " والی کی کال تو نہیں آگی ؟ " ( اس نے سیل فون پکڑتے ہوئے کہا تھا. بالاج نے جلدی سے ہاتھ دھوتے ہوئے اس سے سیل فون چھینا. )
" نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. میں چائے بنا کر لاتا ہوں تم جا کر کمرے میں بیٹھو. " ( بالاج نے دوبارہ پتیلا چولہے پر رکھ کر اسے باہر بھیجتے ہوئے کہا تھا. )
باتیں ملاقاتیں انکا معمول سا بن گیا تھا. بالاج اور مہک میں قربتیں بڑھنے لگی تھی جبکہ کیان اور مہک میں اب بس نام کا رشتہ رہ گیا تھا. آج پھر ان دونوں کا کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا.
" آج تم مجھے بتا ہی دو آخر تم چاہتی کیا ہو ؟ " ( کیان اس پر چلا رہا تھا. ) 
" میں تمھیں کتنی دفعہ بتاوں ؟ مجھے تمھارے ساتھ نہیں رہنا بس. " 
"میرے ساتھ نہیں رہنا تو کس کے ساتھ رہنا ہے تمھیں ؟ تم مجھ سے تنگ آگئی ہو یا پھر کوئی اور پسند آگیا ہے ؟ " ( اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ کو ہاتھ مار کر نیچے گرایا ہے. ) 
" چیزیں مجھے بھی توڑنی آتی ہیں مسٹر کیان ملک. " ( اس نے بھی گلدان کو پکڑا کر نیچے پھینکا تھا. )
" آخر مجھے بھی تو معلوم ہو. میرے بعد میری بیوی کس کے ساتھ رہے گی ؟ " 
" مجھے تمھارے منہ ہی نہیں لگنا ہے. " ( مہک یہ کہتے ہوئے باہر نکلنے لگی تھی.) 
" میرے منہ نہیں لگنا تو جس کے منہ لگنا ہے اس کا بتا دو. " ( کیان نے اسکا بازو پکڑتے ہوئے مروڑا تھا. ) 
" ہاتھ مت لگاو مجھے. " ( اس نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا تھا.) 
" کیوں میرا ہاتھ لگانا اب تمھیں برا لگ رہا ہے کیا ؟ " " ہاں. " 
اتنا کہنے پر کیان نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر مہک کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا تھا. جس پر اس کا سر جا کر ٹیبل پر لگا تھا. کیان اسے وہی کمرے میں روتا ہوا چھوڑ کر چلا گیا تھا. وہ سیدھا گاوں آیا تھا. گھر والوں کو ساری صورتحال بیان کر دی تھی. کیان چچی ، اماں اور ابا کو لے کر شہر آیا تھا.
" ہائے ہائے یہ کیا حال بنا رکھا میری بچی. " ( شمیم بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا تھا. وہ اسے جہاں چھوڑ کر گیا تھا وہ وہی بیٹھی آنسو بہا رہی تھی. ) 
" اماں. " ( وہ اٹھ کر شمیم بیگم کے گلے لگی تھی. ) 
" مہک پتر یہ سب کیا ہے ؟ " ( تایا نے کمرے کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تھا جبکہ کیان اپنی ماں کے ساتھ دروازے کے ساتھ پاس کھڑا تھا. )
" تایا ابا. اپنے بیٹے سے پوچھیں. اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے. " ( اس نے روتے ہوئے کہا تھا. ) 
" ابا یہ بکواس کرتی رہے اور میں چپ کر کے سن تو نہیں سکتا. " ( کیان ہاتھ باندھے کہہ رہا تھا.
" کیان تم چپ کرو. مجھے مہک سے بات کرنی ہے. بیٹا باہر آو. ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں. " ( سلیم ملک نے کیان کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا. )
" تایا ابا. مجھے اب کسی سے کوئی بات نہیں کرنی ہے. میری غلطی تھی جو اس انسان سے شادی کر لی تھی." 
" تم سے شادی کرتا کون تھا ؟ " ( ثریا بیگم نے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا تھا. ) 
" چپ کرو. تم بات کو بڑھاو مت. " ( سلیم ملک نے ثریا بیگم کو چپ کرواتے ہوئے کہا تھا. ) 
" ابا اس سے پوچھیں یہ چاہتی کیا ہے ؟ کیوں اس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے ؟ اگر اسے مجھ سے مسئلہ ہے تو اسے بے شک آپ اپنے ساتھ گاوں لے جائیں. مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے. " 
" جینا حرام تو تم نے میرا کر رکھا ہے. میں کیوں گاوں جاوں ؟ اگر کوئی اس گھر سے جائے گا تو تم کیونکہ یہ گھر میرے نام ہے." 
" دیکھو تو کیسے زبان چل رہی ہے اس لڑکی کی. اسی لیے کہتی تھی اس کو مت اتنا سر پہ چڑھاو. مگر اس وقت میری سنتا کون تھا ؟ " ( ثریا بیگم جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی. ) 
" تائی مجھے آپ کا بھی پتا ہے. " 
" مہک اپنی بکواس بند کرلو. ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا. " ( کیان نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا تھا. ) 
" تم سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا ہے اور اب مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا. " ( مہک نے اسے جواب دیا تھا. )
" اگر تم دونوں نے ایسے ہی لڑنا تھا تو پھر ہم تینوں کو کیوں لائے تھے تم. " ( سلیم ملک نے کیان کو کہا تھا. ) 
" میں چپ ہو ابا. پوچھیں اس سے یہ کیا چاہتی ہے ؟ " 
" ہاں مہک پتر بتاو. کیا مسئلہ ہے ؟ " 
" تایا مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے. " 
" چچی پوچھیں اس سے یہ کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے ؟ " 
" مہک پتر چھوڑو غصہ. وہ تمھارا شوہر ہے. " ( شمیم بیگم نے مہک کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا. )
" اماں شوہر تھا. مجھے اب اس کے ساتھ نہیں رہنا. " " اگر میرے ساتھ نہیں رہنا تو میں تمھیں کسی اور کے ساتھ بھی رہنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا. میں آج یہ قصہ ہی ختم کردوں گا." ( کیان نے اسکی گردن دبوچتے ہوئے کہا تھا.)
" کیان پتر چھوڑو مر جائے گی. " 
شمیم بیگم نے مہک کو چھڑاتے ہوئے کہا تھا. اس کی گرفت مضبوط تھی کہ سلیم ملک بھی کیان کے ہاتھ مہک کی گردن سے الگ نہیں کر پایا تھا.
" چھوڑو مجھے. چھوڑو. "
اس کے خلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی. مگر کیان اس سے جتنی محبت کرتا تھا آج وہ اس کے لیے اتنا ہی وخشی بن چکا تھا.
" خدا کا واسطہ ہے کیان چھوڑ دو اسے. میری بیٹی مر جائے گی. بھائی صاحب اسے روکیں."
شمیم بیگم اب گڑگڑا رہی تھی. مگر وہ کسی کی ایک نہیں سن رہا تھا. آنسو ہی آنسو اس کے چہرے پر تھے.)
" کیان چھوڑ دو اسے. " ( سلیم ملک بھی اسے کہہ رہا تھا. )
" ابا میں اب اسے ایک ہی بار چھوڑوں گا. اسے مجھ سے چھٹکارا چاہیے ناں. میں اسے ہی مار کر سب ختم کرتا ہوں. "
" تمھیں کیا ضرورت ہے اس بدبخت کو مار کر اس کے قتل کا الزام اپنے سر لینے کا. طلاق دو اسے اور کام ختم کرو. " 
ثریا بیگم نے آگے بڑھ کر کیان کو کہا تھا. مہک کی اب آنکھیں بند ہو رہی تھی. آخری الفاظ جو اس نے سنے تھے اسے صرف وہی یاد تھے. 
" میں تمھیں طلاق دیتا ہوں. طلاق دیتا ہوں. طلاق دیتا ہوں. "
آنکھ کھلنے پر اس نے خود کو ہسپتال کے کمرے میں پایا تھا. اماں اسکا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی. ان کی آنکھوں میں آنسو تھے. مہک کو ہوش آنے پر شمیم بیگم نے کہا تھا. 
" سب کچھ ختم ہوگیا پتر. "
" آپ باہر جا کر بیٹھیں. آپ انہیں ٹینشن دے رہی ہیں. ایسے ان کی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے. " 
نرس نے شمیم بیگم کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا. وہ کمرے سے نکل کر باہر آگئی تھی.
----------☆--------
ادھر بالاج اسے کال کر کر کے ہلکان ہو رہا تھا. مگر اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا. بالاج کافی پریشان تھا. اسے اندر ہی اندر یہ خوف بھی کھائے جا رہا تھا کہ کہیں مہک اسے پہلے کی طرح پھر سے چھوڑ کر نہ چلی جائے.
-----------☆-------- 
" آپ سب کو یہاں ایک خصوصی مشن کے لیے بلایا گیا ہے. باونڈری لائن کے قریب سیکٹر سجیت گڑھ میں ہر سال دشمن کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کے جان و مال کو کافی نقصان پہنچاتا ہے خصوصا رمضان المبارک کے مہینے میں ان علاقوں کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے. اطلاعات کے مطابق مقامی لوگوں کی ہر چھوٹی بڑی حرکت نوٹ کی جارہی ہے اور جہاں ہجوم تھوڑا سا زیادہ ہونا شروع ہوتا ہے اس جگہ کو اپنا نشانہ بنا لیا جاتا ہے. جس سے نہ صرف لوگ اپنے مال مویشی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ اپنے پیاروں کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتا دیکھتے ہیں. ہم سب کا ایک ہی مقصد ہے اپنے لوگوں اور اپنے ملک کی خفاظت. اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اگر اپنی جان کا نظرانہ بھی پیش کرنا پڑے تو ہمیں کبھی گھبرانا نہیں ہے. ہمیں دشمن کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر مقابلہ کرنا ہے."
ایک گھپ اندھیرے کمرے میں سلائیڈز چل رہی تھی. بالاج اور ارسلان سمیت اس کے اور چار ساتھی بیٹھے کرنل شیر خان کی باتیں بغور سن رہے تھے. کرنل شیر خان بریفنگ دے رہے تھے. 
" آئی ہوپ کے آپ چھ لوگ اچھی کارکردگی دکھائیں گے. اگر کسی کا کوئی سوال ہو تو پوچھ سکتا ہے. "
" سر اس مشن پر کب سے کام شروع کرنا ہے ؟ " ( بالاج کے ایک ساتھی نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے پوچھا تھا. ) 
" یہ مشن رمضان سے پہلے شروع کیا جائے گا. " 
" سر اس مشن سے پہلے کوئی ریلیف ؟ " ( اب بالاج نے کہا تھا. ) 
" ابھی تک ریلیف کا کوئی آرڈر نہیں آیا ہے. " 
" اوکے سر. " 
یہ میٹنگ ختم ہونے پر ان میں ایک نیا جذبہ تھا. اس مشن کو لے کر یہ سب کافی پرجوش تھے.
--------☆---------
مہک تھوڑی بہتر ہوئی تو اس نے بالاج کو فون کرکے سب بتا دیا تھا. اس کی کال آنے ہر اس نے سکھ کا سانس بھی لیا تھا مگر اس کی باتیں سن کر اسے تھوڑا دھچکا بھی لگا تھا. وہ چھٹی لے کر گھر آیا تھا. اس نے ماما اور بڑے پاپا کو ساری کہانی سنائی تھی. معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نائمہ اور برگیڈئیر صاحب مہک کے گھر گئے تھے اور شمیم بیگم سے مہک اور بالاج کے رشتے کی بات کی تھی. شمیم بیگم نے فورا ہاں کردی تھی. کیونکہ ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو ہی برا سمجھا جاتا ہے جبکہ مرد بھی اس کام میں برابر کا شریک ہوتا ہے.
نائمہ چاہتی تھی کہ جس طرح اس کے چھوٹے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی اسی طرح بڑے بیٹے کی بھی شادی کرے لیکن بالاج نے مہک کی ذہنی حالت کو سمجھتے ہوئے سادگی سے نکاح ہی کرنا چاہا. مناسب دن دیکھ کر دونوں کا نکاح کر دیا گیا تھا. جس میں بالاج کی گھر والے اور کچھ دوست شامل تھے. آخر کار بالاج کو اپنی محبت مل گئی تھی. جس لڑکی کو اس نے بچپن سے چاہا تھا اسے پا لیا تھا. مہک بھی بالاج کا ساتھ پاکر خوش تھی. البتہ شمیم بیگم بیٹی کی رخصتی پر اداس تھی کیونکہ وہ اکیلی ہو گئی تھی.
نکاح کے دو دن بعد ہی بالاج کے ساتھی مشن کے لیے سیالکوٹ پہنچ چکے تھے. وہ بھی اس کے نکاح کی خبر سن کر خوش تھے. بالاج نے انہیں مشن پر جانے سے پہلے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا تھا. دعوت کے بعد بالاج کو بھی انہی کے ساتھ جانا تھا. اس لیے مہک اداس سی تھی.
" تم نے میرا بیگ پیک کر دیا کیا ؟ " ( بالاج نے اسے اداس دیکھتے ہوئے پوچھا تھا. )
" ہاں کر دیا. " ( مہک نے منہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا تھا.) 
" تمھارا منہ کیوں بنا ہوا ہے یار ؟ " ( بالاج نے مہک کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا.) 
" بس ایسے ہی. " 
اتنے میں نائمہ دروازے پر دستک دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی. 
" اوہ. میں نے ڈسٹرب کر دیا. " ( اس نے واپس پلٹتے ہوئے کہا تھا.) 
" نہیں ماما. " ( بالاج نے تھوڑا پیچھے ہوتے ہوئے کہا تھا. )
" وہ تمھارے دوست تمھیں بلا رہے ہیں. " 
" ماما بس آرہا ہوں. "
اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا تھا. نائمہ اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل آئی تھی. بالاج بھی اس کے پیچھے نکلنے لگا تھا. تو مہک نے اسے کہا.
" بالاج سنو. " 
" کیا ؟ " ( اس نے پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا تھا. ) 
" کچھ نہیں. اپنا خیال رکھنا. " 
" تم بھی اپنا خیال رکھنا. " ( اس نے آگے بڑھ کر مہک کا ماتھا چوما تھا.) 
" مجھے بھول تو نہیں جاو گی ؟ " 
" بلکل بھی نہیں. " 
اس کا جواب سن کر وہ سیڑھیاں اترتا نیچے آگیا. وہ کمرے کے کھڑکی سے اسے دوستوں کے ساتھ جاتا دیکھ رہی تھی. باہر ایک خصوصی گاڑی ان کو لے جانے کے لیے کھڑی تھی. اس میں بیٹھ کر وہ اپنے سفر پر روانہ تھے. 
" چیک پوسٹ پر ایک شخص بیگ لیے کھڑا ہوگا. کوڈ ورڈ بتانے پر بیگ تم لوگوں کے خوالے کر دیا جائے گا. اس میں کچھ خاص چیزیں ہیں جو اس مشن میں تم سب کے کام آئیں گی. " ( کرنل شیر خان دوسری طرف سے کہہ رہے تھے. ) 
" اوکے سر. " 
" اور تم سب کی رہائش کا بندوبست بھی ہو چکا ہے. گاڑی تم سب کو ادھر ہی ڈراپ کرے گی. " 
" اوکے سر. " 
اور ساتھ ہی کال بند کر دی گئی تھی. چیک پوسٹ پر گھڑی کا شیشہ نیچے کیا گیا تھا. 
" جان جاتی ہے تو جائے. " (شیشہ نیچے ہوتے ہی ایک لڑکے نے بیگ پیک پکڑے کہا تھا. ) 
" اپنے وطن پر کبھی آنچ نہ آئے. " 
بالاج نے اسے جواب دیا تھا اور بیگ اس کو پکڑا دیا گیا تھا. وہ سب اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے. انہوں نے وہاں پہنچ کر تھوڑا ریسٹ کیا اور پھر اپنے مشن پر کام شروع کر دیا تھا. کئی دن تک علاقے پر نظر رکھنے کے باوجود ان کے ہاتھ کچھ نہیں آرہا تھا. اس لیے انہوں نے ایک پلین بنایا.
جس کے تخت صبح ہوتے ہی ان میں دو ایک دوکان کے پاس کھڑے ہوگئے جہاں کچھ خواتین اپنے بچوں کو سکول بیجھنے کے لیے گاڑیوں کے انتطار میں کھڑی تھی. کچھ بزرگ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے. انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا. کام پر جانے والے کچھ لوگ رک کر ان کا تماشا دیکھ رہے تھے اور کچھ ان کو روک رہے تھے. جبکہ بالاج اور باقی کے ساتھی ان تمام افراد پر نظر رکھے ہوئے تھے. ایک ہجوم سا اکٹھا ہو گیا تھا. مگر سب مقامی لوگ لگ رہے تھے. پھر اچانک بالاج کی نظر ہرا لبادہ پہنے ایک شخص پر پڑی جو بظاہر تو ایک ملنگ لگ رہا تھا. جس طرح وہ سب ہجوم پر نظر رکھے ہوئے تھے وہ بھی ایسے ہی ان سب کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا. بالاج نے لڑنے والوں کو اشارہ کیا. اور یہ شور شرابا ختم کر دیا گیا. سب لوگ پھر سے اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوگئے. جبکہ ان سب کو اپنا ٹارگٹ مل گیا تھا. وہ ملنگ بھی ان کی حرکات سمجھ رہا تھا. وہ سب اسکا پیچھا کرتے ہوئے دربار کے پاس پہنچ چکے تھے. جہاں اس ملنگ بابا نے اپنے رہنے کے لیے ایک جھونپڑی سی بنائی ہوئی تھی. وہ کئی گھنٹے ادھر ادھر پھرتا رہا جب اسے یہ تسلی ہوگئی کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا تو اس نے ایک خفیہ مشین نکالی اور سرحد پار سب معلومات دینے لگا. بالاج یہ دیکھتے ہی اپنی گن نکال کر جھونپڑی میں داخل ہوا. اس کے پہلے ہی قدم پر ملنگ نے بھی گن نکالتے ہوئے کہا تھا. 
" مجھے پتا تھا تم لوگ کسی خاص مقصد کے لیے آئے ہو. " 
" تمھارا کھیل ختم. " ( بالاج نے اس پر گن تانتے ہوئے کہا تھا. ) 
" اتنی آسانی سے نہیں. " ( اس نے بھی بالاج پر گن تانی تھی. ) 
" بالاج تم تھوڑا پیچھے ہو میں اس نمک خرام کو دیکھتا ہوں. " 
ارسلان نے آگے آتے ہوئے کہا تھا. ملنگ مسکرایا تھا.
" ڈر گئے کیا ؟ مطلب میں نے تم لوگوں کے بارے میں غلط سنا تھا. " ( اور ساتھ ہی اس نے ٹریگر دبایا تھا. گولی بالاج کے سینے کو پار کرتے ہوئے گزر گئی تھی. باقی سب نے اس ملنگ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی.
بالاج کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے نیچے گرا. ارسلان نےاسے آگے بڑھتے ہوئے سنبھالنا چاہا. مگر وہ شہادت کا رتبہ پا چکا تھا. مقامی لوگ گولیوں کی آواز سن کر اکٹھے ہو چکے تھے. کچھ لڑکوں نے آکر باہر کھڑے ساتھیوں کو دبوچ لیا. اپنے کارڈ دکھانے پر معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا. آرمی بھی جائے وقوع پر پہنچ چکی تھی.
سورج طلوع ہو چکا تھا. آنکھ کھلتے ہی مہک کا دل عجیب سا ہو رہا تھا. وہ ناشتہ بنانے کے لیے کچن کی طرف آرہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی. 
" یا اللہ خیر اتنی صبح صبح کس کی کال آگئی. " 
اس نے ریسیور کان کو لگایا تھا.
" میجر بالاج ملک شہید ہوگئے ہیں. " 
اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے. فون ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ سے ﻧﯿﭽﮯ ﺟﺎ ﮔﺮﺍ.
‏( ﻣﯿﮟ تمھیں دنیا کی ہر خوشی دوں گا. ‏)
پاک فوج کے چار نوجوان اسکا تابوت کندھوں پر لیے دروازے پر کھڑے تھے.
‏( ﺗﻢ بھول گئے ناں مجھے. وہ ﯾﮑﺪﻡ ﭼﻼﺋﯽ ﺗﮭﯽ ‏)
تابوت ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ چلتے ہوئے بڑے پاپا.
مجھ اس لڑکی پر ترس آرہا ہے. ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے دونوں کے نکاح کو.
وہ قدم بڑھاتے ہوئے آگے آئی تھی.
تابوت لان میں رکھا گیا تھا. وہ یقین نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کرنا چاہتی تھی. اس تابوت میں وہ بند وجود بالاج کا ہو سکتا ہے.
بالاج اس کا بالاج . شہید ہو چکا تھا. 
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮨﯽ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ دروازے کے ساتھ ٹیک لگائی تھی. ﻭﮦ ﺭﻭنا نہیں چاہتی تھی مگر اس کے آنسو رک نہیں رہے تھے.
بھارتی جاسوس نے اس پر گولی چلائی تھی. ارسلان نائمہ کو بتا رہا تھا.
بڑے پاپا ، چاند اور بالاج کے دوست اسے کندھوں پر اٹھائے اس کے سامنے اس کے بالاج کو لے جارہے تھے. وہ انہیں روکنا چاہتی تھی مگر نہیں روک سکی تھی. میجر بالاج ملک کو گارڈ آف آنر کے ساتھ قبر میں اترا جا رہا تھا.
وہ اس دنیا سے رخصت ہو کر بھی ذندہ تھا. مہک جھولی پھیلائے بیٹھی تھی. کوئی دوسرا شخص اس کے لیے بالاج کبھی نہیں بن سکتا تھا جو اس کے لیے برسوں انتظار کرے. وہ اسے کبھی نہیں بھول سکتی تھی.
☆☆☆☆☆

ختم شد ..

No comments:

Post a Comment