Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#14

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
چودھویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Episode No. Fourteen
---------------------------------------
" آنسو بھرا چہرہ " دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھا تھا. ایک جانا پہچانا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا. ٹرینگ کے بعد وہ اتنا تھک جایا کرتا تھا اس لئے وہ جلدی سو جایا کرتا تھا.وہ روز کی طرح آج بھی جلدی سو گیا تھا آج پہلی دفعہ " مہک " کہتے ہوئے نیند سے جاگا تھا. سامنے لیٹے دوست نے اس کو یوں ہڑبڑا کر اٹھنے پر پوچھا تھا : " کیا ہوا ؟ تم نے کہیں کمانڈر کو تو خواب میں نہیں دیکھ لیا. ؟ "
" کچھ نہیں بس ایسے ہی آنکھ کھل گئی. " بالاج نے پسینہ پوچھتے ہوا کہا تھا.
" چل سو جا پھر سے. " ( اس نے تکیہ پھینکتے ہوئے کہا تھا.)
" توں بھی سو جا. کب تک ایسے ہی جاگتے رہو گے. " ( بالاج نے دوبارہ لیٹتے ہوئے اسے کہا تھا. ) 
" جب تک تمھاری ہونے والی بھابھی کہے گی. " 
اس نے سیل فون کی مدھم روشنی اس کی طرف کر کے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا. بالاج نے آنکھیں بند کر لی تھی.
-------☆-------
کیان کو رات 3 بجے کے قریب اس کے ابا نے کال کرکے بتایا تھا کہ تمھارے چچا کی طبعیت کئی دنوں سے خراب تھی وہ ہسپتال میں ایڈمیٹ ہیں. ان کی طبیعت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی اس لئے تم صبح مہک کو لے کر گاوں پہنچو. کیان نے صبح صبح مہک کو کال کی تھی مگر وہ گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی اس لئے اس کی کال ریسیو نہیں کر رہی تھئ. کیان نے اپنی ضرورت کی چیزیں بیگ میں ڈالی اور مہک کے ہاسٹل کے باہر آکر کھڑا ہو گیا اور چوکیدار کو نام پتا بتا کر اندر اسے جگانے کو کہا. مہک جمائی لیتے ہوئے اٹھی. بیڈ کے نیچے ہاتھ مار کر اس نے سیل فون پکڑا تھا. سیل فون پر کیان کی اتنی مسڈ کالز دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی. وہ ایک ہاتھ میں سیل فون پکڑے دوسرے ہاتھ سے اپنے بالوں کو پونی کرتے ہوئے سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آئی تھی. کیان باہر بیگ لئے کھڑا تھا. 
" تم اتنی جلدی کیسے آگئے. تم نے تو مجھے کہا تھا تمھیں 8 بجے اٹھاوں. " ( مہک نے کیان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا.) 
" آج میں خود ہی جلدی اٹھ گیا ہوں. تو اب تم جلدی سے جاو اور تیار ہو کر آو. " 
" ابھی تو 7 بھی نہیں بجے ہیں کیان. اتنی بھی جلدی کیا ہے ؟ " ( مہک نے پھر سے جمائی لی تھی. ) 
" جلدی ہے نا یار. تمھیں جو بھی لینا ہے لے کر بس 5 منٹ میں آو. " 
" کیان پہلے تو تم نے اتنی ہڑبڑی کبھی نہیں مچائی. سب ٹھیک تو ہے ناں. " 
" چچا کی طبعیت .... " ( وہ کہتے کہتے رکا تھا. ) 
" کیا ہوا ابا کی طبعیت کو ؟ " ( مہک نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا تھا. ) 
" کچھ بھی نہیں ہوا ہے یار مہک. " 
" کیان جب تک تم بتاو گے نہیں میں یہاں سے ہلنے والی نہیں. " 
" تین چار دن سے چچا ہسپتال میں ہیں. ان کی طبیعت رات سے مزید خراب ہوگئی ہے اس لئے رات ابا نے مجھے کل کی تھی کہ تمھیں لے کر گھر آجاوں. " 
" اتنے دنوں سے ابا کی طبعیت خراب ہے اور کسی نے مجھے بتایا تک نہیں. ( اس نے ماں کو کال ملاتے ہوئے کیان کو کہا تھا. ) 
" کچھ بھی نہیں ہوتا ہے ابا ہے ناں چچا کے ساتھ. اور اب تم چچی کو تنگ مت کرو. وہ پہلے ہی پریشان ہیں. " ( کیان نے اس کاسیل فون لے کر کال بند کرتے ہوئے کہا تھا. )
" کیان پلیز مجھے ابا سے بات کرنی ہے. " ( اس نے سیل فون مانگتے ہوئے کہا تھا. ) 
" مہک بچی نہیں بنو یار. گھر جاکر آرام سے بات کر لینا. ابھی تم چل رہی ہو یا میں اکیلا ہی چلےجاوں." 
مہک جلدی سے چینج کرکے اپنا بیگ لیے باہر آئی تھی. وہ ہاسٹل سے سیدھا ڈائیو سیٹیشن پر پہنچے تھے. پوار راستہ مہک اداس سی بیٹھی تھی. کیان سے بھی کوئی بات نہیں کر رہی تھی. کیان نے اسے ناشتے کو پوچھا تھا مگر اس نے انکار کر دیا تھا. 
" کیان ابا ٹھیک ہیں ناں ؟ " (کافی دیر بعد اس نے خاموشی توڑی تھی. اس کی آ نکھوں میں آنسو تھے. اپنے آنسو چھپانے کے لئے مہک نے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا. ) 
" ہاں ناں یار. تم ٹینشن مت لو. "
" میرے ابا ہیں. میں کیسے ٹینشن نہ لوں. " 
اس نے کیان کے کندھے پر اپنا سر رکھا تھا. کیان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب اسے کیا کہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ کچھ ایسا بولے جس سے مہک اپنا سر اس کے کندھے سے ہٹا دے اور وہ اس پل کو گنوا دے. وہ یہ لمحہ قید کر لینا چاہتا تھا.
-------☆--------
کورس کے دوران وہ پہلی دفعہ اس قدر بےچین ہوا تھا.ٹرینگ کے لئے وہ رسی پر چڑھتے ہوئے نیچے گرا تھا. مہک کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر سے آیا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ایسا کیوں ہوا ہے. اس کے ساتھی بھی اس کی اس حرکت پر پریشان تھے. وہ پھر سے بالاج کو سزا کے طور پر لوڈ اٹھائے گراونڈ کے سو چکر لگانے کو کہا گیا تھا. اس نے چکر لگانے شروع کیے تھے لیکن اس کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں پا رہا تھا. اچانک اس کا سر چکرایا اور وہ نیچے گرا. آنکھ کھلنے پر اس نے خود کو ہسپتال کے بیڈ پر پایا تھا.
--------☆---------
مہک اور کیان گھر جانے کی بجائے سیدھا ہسپتال ہی پہنچے تھے. وہ روتے ہوئے اماں اور تائی کے گلے لگی تھی. جبکہ تایا اسے نظر نہیں آرہے تھے. کیان نے اپنا اور اس کا بیگ ایک سائیڈ پر رکھا تھا اور سب سے ملنے کے بعد اس کی بھی نظریں ابا کو ڈھونڈ رہی تھی. سلیم ملک کے آتے ہی مہک نے ایک ہی سانس میں پوچھا تھا. " تایا ابو ، ابا کیسے ہیں اب ؟ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ؟ مجھے ملنا ہے ان سے. " 
" میں ڈاکٹر سے ہی ملنے گیا تھا بیٹا. جیسے ہی طبیعت کچھ بہتر ہوتی ہے تو ملنے کی اجازت دے دیں گے. اور تم دونوں نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں ؟ " ( آخری بات انہوں نے کیان کو دیکھتے ہوئے پوچھی تھی. ) 
کیان نے نہ میں سر ہلایا تھا. 
" بچوں کو لے کر تم دونوں گھر چلی جاو. میں ادھر ہی ہوں. " ( سلیم ملک نے ثریا بیگم کو کہا تھا. ) 
" نہیں تایا ابا مجھے بھوک نہیں ہے اور مجھے ہسپتال ہی رہنا ہے پلیز. میں ابا سے ملے بنا گھر نہیں جاوں گی. " 
" ابو آپ سب گھر جا کر آرام کر لیں. میں اور مہک ہسپتال رہتے ہیں. " 
" تم دونوں اتنا سفر کر کے آئے ہو تھک گئے ہوگے." " نہیں تایا ابا. " 
مہک بضد تھی کہ وہ ابا سے ملے بنا نہیں جائے گی اس لئے کیان ، مہک اور ملک سلیم ہسپتال ہی رکے تھے. ڈاکٹر نے چیک اپ کرتے ہوئے خالد ملک کو بھی کمرے میں بلایا تھا. تایا کے کھڑے ہوتے ہی مہک بھی کھڑی ہوگئی تھی. وہ خود ڈاکٹر سے ابا کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی. مگر تایا نے اسے کیان کے ساتھ ہی بیٹھنے کا کہا اور خود کمرے میں چلا گیا. وہ اترا ہوا چہرہ لے کر ڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا. 
" کیا ہوا ابا ؟ " 
" تایا ابا کیا کہا ڈاکٹر نے ؟ " 
مہک اور کیان نے سلیم ملک کو باہر نکلتے ہی ایک ساتھ پوچھا تھا. 
( ہمیں جلد از جلد ان کا آپریشن کرنا ہوگا 
" مجھے تم دونوں سے بات کرنی ہے. " ( سلیم ملک نے چپ کا تالا توڑا تھا. ) 
" ابا ٹھیک تو ہیں ناں ؟ " مہک نے پھر سے پوچھا تھا.
سلیم ملک نے کیان کا کندھے پر ہاتھ رکھ کر کرسی کی طرف اشارہ کیا تھا. کیان نے ابا کو بیٹھایا تھا اور مہک سے پانی لانے کو کہا. مہک نے بیگ سے چیزیں ادھر ادھر کرکے پانی کی بوتل نکالی اور تایا کو پانی پلایا. تھوڑا نارمل ہونے کے بعد تایا نے مہک کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس سے کہنا شروع کیا. 
" مہک بیٹا. تمھارے ابا نے ایک خواہش کی ہے. " 
مہک نے خیرانگی سے تایا کی طرف دیکھا. انہوں نے بات جاری رکھی.
" میرا بھائی اپنی اکلوتی اولاد کا گھر آباد کیے بنا اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا. " 
" تایا ابا آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں. ابا بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے. " ( مہک نے روتے ہوئے کہا تھا. 
" ہاں پتر. ٹھیک ہوجائے گا تیرا پیو. مگر وہ چاہتا ہے کہ آپریشن سے پہلے تمھارا اور کیان کا نکاح اس کی آنکھوں کے سامنے ہو. وہ تو آپریشن کرنے کے لئے مان ہی نہیں رہا تھا. پھر پتا نہیں کیا سوجھی خالد کو اس نے اپنا آپریشن کروانے کے لئے یہی شرط رکھی ہے. " 
کیان چپ چاپ تایا بھتیجی کی باتیں سن رہا تھا. تایا نے مہک سے ایسی بات کہہ دی تھی کہ اس کے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں بچا تھا. اس کے کانوں میں سلیم ملک کی آواز پھر سے گونجی تھی. 
" تم دونوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے. " 
اس کے لب سل چکے تھے اور دل بند ہونے کو تھا. ثریا بیگم اور شمیم بیگم کھانا لے کر آچکی تھی. انہیں بھی نکاح کے بارے میں بتا دیا گیا تھا. چونکہ گھر میں مردوں کی چلتی تھی اس لئے انہوں نے بھی مہک سمیت فیصلے کو قبول کر لیا تھا. البتہ کیان کی ماں نے تھوڑا واویلا کرنا چاہا کہ میرا اکلوتا بیٹا ہے اس کی شادی کو لے کر دل میں کیا کیا ارمان ہیں لیکن اس کی بھی ایک نہ سنی گئی. قاضی صاحب اور سلیم ملک کے دوست بطور گواہ ہسپتال پہنچ چکے تھے. ہسپتال سے اسپیشل پرمیشن لی گئی تھی. 
مہک پہلی ڈاکٹر تھی جس کا نکاح ہسپتال میں ہونے جا رہا تھا. خالد ملک آکسیجن ماسک لگائے بیڈ پر پڑا ہوا تھا. قاضی صاحب اس کے سامنے پڑے بینچ پر سلیم ملک اور کیان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے. گھر کی دونوں عورتیں کرسی پر بیٹھی مہک کے پاس کھڑی تھی. قاضی صاحب نے پہلے کیان نے پوچھا. کیان نے فورا " قبول ہے " کہہ دیا. اس کے بعد مہک سے پوچھا گیا. 
" مہک ملک بنت خالد ملک کیا آپ کو کیان ملک والد سلیم ملک سقہ رائج الوقت ایک لاکھ حق مہر کے عوض نکاح قبول ہے. ؟ " 
شمیم بیگم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا. مہک کی آنکھوں سے آنسو چھلک کر اس کی قمیض میں جذب کہیں جذب ہورہے تھے. قاضی صاحب نے پھر سے پوچھا. اس نے ایک نظر ابا پر ڈالی جو بنا پلک جھپکے بیڈ پر پڑے ہوئے تھے. قاضی نے پھر سے پوچھا : " بیٹی کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟ " 
کیان اور ملک سلیم سمیت سب اس کے جواب کے منتظر تھے. آخرکار اس کے خلق سے آواز نکلی تھی.
" قبول ہے. "
دعا کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے. لیکن وہ خاموش بیٹھی ہوئی تھی. وہ ابا کی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنے پیار کو قربان کرنے والی پہلی بیٹی نہیں تھی مگر ہسپتال میں دلہن بننے والی پہلی ڈاکٹر ضرور تھی. 
نکاح کے بعد سب کو گھر بھیج دیا گیا تھا صرف کیان اور سلیم ملک ہسپتال رکے تھے. رات کو ہی آپریشن کی تیاری مکمل کر لی گئی تھی اگلے دن صبح صبح ہی آپریشن شروع کر دیا گیا تھا. گھر کی خواتین بھی آچکی تھی. مہک ایک کونے میں چپ بیٹھی ہوئی تھی جبکہ شمیم بیگم اپنے خاوند کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگنے میں مصروف تھی. کچھ دیر بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے ماسک اتارتے ہوئے داخل ہوا. ڈاکٹر کو دیکھتے ہی سب اس کی طرف لپکے. ڈاکٹر کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مہک ڈاکٹر کا چہرہ پڑھ چکی تھی تھی. ایک طرف ڈاکٹر خالد ملک کی وفات کی خبر دے رہا تھا اور دوسری طرف مہک زمین پر پڑی تھی. کیان نے جلدی سے مہک کو اٹھایا. اس کے منہ پر پانی چھڑکا اسے ہوش آنے پر ابا کی میت گھر لائی جاچکی تھی. مہک ابا کی خواہش پوری کرنے کے باوجود بھی ابا کو بچا نہیں سکی تھی. اب اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے. وہ سوجھی ہوئی آنکھیں لیے بستر پر پڑی تھی.
-------☆☆☆☆☆-------
( جاری ) 

No comments:

Post a Comment