Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#5

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
پانچویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Fifth Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
..
..
" بالاج بیٹا ! اٹھ جاو. چچا جی کب سے اٹھ گئے ہیں. " ہاجرہ نے بالاج سے چادر ہٹاتے ہوئے کہا.
" امی بس پانچ منٹ. " اس نے چادر کو پھر سے لیتے ہوئے آنکھیں بند کی.
" پتا نہیں ان آخری پانچ منٹ میں کون سا قلعہ فتح کرنا ہوتا ہے اس منڈے نے." پاس بیٹھی اماں رحمت نے کہا.
" اماں آپ کیا جانیں ان پانچ منٹ کا مزہ. " 
" چل اٹھ جا. اب تو کوئی سو نہیں رہا. اور نہ ہی اب تمھیں کوئی نیند آنے والی ہے. " 
"آپ سونے دیں تو نیند آئے ناں." بالاج چادر پرے کرتے ہوا اٹھا.
" ہاں. اب الزام مجھے دے دو. آ لینے دے تیرے لالا کو میں بتاتی ہوں. " ( لالا گاوں میں بڑے بزرگوں کو کہتے ہیں. )
" اب آپ میری شکایت لگایئں گی اماں ؟ " بالاج نے اماں رحمت کے گلے میں بانہے ڈالتے ہوئے کہا.
" ہاں تو اور کیا ؟" 
" ویسے آپ بتا دیں. لالا مجھے کچھ نہیں کہتے ہیں. وہ الٹا امی اور آپ کو ہی ڈانٹے گے جو مجھے سونے نہیں دیتی." 
" چل شریر کہیں کا ؟ "
" اب اگر تم سکول کے لئے تیار نہ ہوئے تو تم مجھ سے ضرور ڈانٹ کھا لوگے. " ہاجرہ نے اس کا لنچ باکس تیار کرتے ہوئے کہا.
بالاج جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا کے تیار ہوا. وہ سکول کے لئے نکل رہا تھا کہ لان میں برگیڈئیر صاحب کے ساتھ ایک خوبصورت بچہ واک کر رہا تھا. اتنے دنوں سے وہ برگیڈئیر صاحب کو اکیلے واک کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا.
" بڑے پاپا " 
" Yes my son. " 
" Who is he ? " اس بچے نے رک کر بالاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا. 
" He is grandson of our new guard. "
" اسکا نام کیا ہے بڑے پاپا. " اس نے اپنے معصوما سوال جاری رکھے. اب برگیڈئیر صاحب کو اسکا نام تو معلوم ہی نہیں تھا. تبھی انہوں نے بالاج کو آواز دی. 
" Come here young man. " 
بالاج " جی سر." کہتے ہوئے گیٹ کی طرف جانے کی بجائے ان دونوں دادا پوتے کی طرف آگیا. اس نے برگیڈئیر صاحب کو سلام کیا. اتنے میں اس بچے نے اپنا ننھا سا ہاتھ ملانے کے لئے آگے بڑھایا. بالاج نے جیسے ہی اس کے چھوٹے سے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا. اس نے طوطے کی طرح بولنا شروع کیا. 
" Hi ! I am Chand Kiyani son of Martyr Captain Abdullah Kiyani and grandson of Brigadier Akhter Kiyani. What is your name Bhaiya ? "
بالاج نے جواب دیا.
" I am Balaj Malik."
اتنے میں چچا شیدا نے بالاج کو آواز دی. جو کہ کب سے اپنے سائیکل باہر نکالے کھڑا انتظار کر رہا تھا. 
" سر میں جاوں ؟ " بالاج نے اجازت لی. مگر اس کا دل چاہ رہا تھا وہ وہی اس ننھے بچے سے کھڑا باتیں کرے اس سے کھیلے. اسے پیار کرے. 
" ہاں جاو بیٹا. تمھیں سکول سے دیر ہو رہی ہے. " چاند وہی کھڑے اسے ہاتھ ہلائے ' bye ' کر رہا تھا. بالاج بھی ہاتھ ہلاتے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گیا. اور سائیکل پر بیٹھ کر سکول کی طرف نکل گیا. 
" بڑے پاپا. میں کب سکول جاوں گا. ؟ "
اس نے اپنے سوالوں کا سلسلہ بالاج کے اوجھل ہوتے ہی پھر سے شروع کر دیا تھا.
" جب آپ بڑے ہو جاو گے. " 
" اور میں بڑا کب ہوں گا بڑے پاپا ؟ " 
" اگلے سال. " 
" واقعی بڑے پاپا میں اگلے سال بڑا ہو جاوں گا ؟ " چاند نے خوشی سے پوچھا.
" جی میرا بیٹا. " 
" پھر میں آپ کے اور پاپا کی طرح آرمی میں جاوں گا . اور پاپا کی طرح شہید ہو جاوں گا. آپ کو پتا بڑے پاپا, ماما کہتی ہیں. ' شہید مرتے نہیں ہیں وہ زندہ ہوتے ہیں.' اور مجھے بھی ایسے ہی زندہ رہنا ہے. " وہ اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہے جا رہا تھا. برگیڈئیر صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے. 
" بڑے پاپا. آپ رو کیوں رہے ہیں ؟ " اس نے برگیڈئیر صاحب کے آنسو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پونچھتے ہوئے پھر سے کہا.
" یہ تو خوشی کے آنسو ہیں بیٹا. ایک فوجی کو اپنی جان سے بھی زیادہ اپنے وطن کی مٹی سے پیار ہوتا ہے. اور فوجی میدان میں جذبہ شہادت لئے اترتا ہے. اور ہم خوش نصیب ہیں کہ تم ایک شہید کے بیٹے اور میں ایک شہید کا باپ ہوں. " وہ اپنا سر فخر سے بلند کئے ہوئے اپنے پوتے کو کمرے میں لے جاتے ہوئے بتا رہے تھے.
اب بالاج کا معمول تھا کہ وہ اپنی پاکٹ منی سے پیسے بچا کر چاند کے لئے چاکلیٹ خریدتا اور صبح اسکول جانے سے پہلے اسے دیتا. چاند بھی اس سے مانوس ہو گیا تھا. 
اتوار کے دن چاند اور برگیڈئیر صاحب روز کی طرح واک کر رہے تھے. واک کرتے ہوئے چاند بار بار سروئینٹ کوارٹر کے راستے کو دیکھ رہا تھا. آخر تنگ آکر وہ برگیڈئیر صاحب سے مخاطب ہوا.
" بڑے پاپا آج بالاج بھیا سکول کیوں نہیں جا رہے. ؟ "
" بیٹا آج سنڈے ہے ناں. " 
" مگر بڑے پاپا انہیں مجھ سے ملنے باہر تو آنا چاہئیے ناں. " چاند نے اداس ہوتے ہوئے کہا.
برگیڈئیر صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا. " تو چلو ہم مل آتے ہیں. " 
چاند ایکسائٹمنٹ سے سروینٹ کوارٹر کی طرف اپنے بڑے پاپا کی طرف آیا. وہ اس سے پہلے کوارٹر کی طرف کبھی نہیں آیا تھا. اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے دروازے پر دستک دی. بالاج ناشتہ کر رہا تھا. اس نے نوالہ وہی چھوڑا اور دروازہ کھولا. آگے چاند اور برگیڈئیر صاحب کھڑے تھے. " سر آپ ؟ " بالاج کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے اس لئے پہلا لفظ یہی نکلا.
" میں بھی ساتھ ہوں بھیا. " چاند نے بالاج کی توجہ اپنی طرف دلاتے ہوئے کہا. 
" چاند بیٹا آپ کو یاد کر رہا تھا. تو میں نے سوچا کیوں ناں تم سے مل لیا جائے. " 
" سر آپ اندر آئیں ناں. " 
" نہیں ینگ مین.. ایسا کرو آج تم بھی ہمارے ساتھ واک کرو. ویسے بھی آج سنڈے ہے. " 
" ہاں اور آج بڑے پاپا نے مجھے ایک سٹوری بھی سنانی ہے. " چاند ہر اتوار اپنے بڑے پاپا سے ایک کہانی سنتا تھا.
" جی سر. میں بس ابھی آیا. " بالاج جلدی سے کمرے میں گیا. اپنے ہاتھ دھوے بیگ سے چاکلیٹ نکالی اور جیب میں ڈالی.
" امی میں برگیڈئیر صاحب کے ساتھ واک کرنے لگا ہوں. " اتنا کہہ کر باہر نکل آیا. باہر چاند اور برگیڈئیر صاحب کھڑے اسکا انتظار کر رہے تھے. وہ کچھ دیر واک کرنے کے بعد لان میں آکر کرسیوں پر بیٹھ گئے . 
" چلیں بڑے پاپا اب سٹوری سنائیں. " 
" آج میں ایسے تاریخی دن کے بارے میں بتاوں گا جس میں پاک آرمی نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے. "
چاند اپنے چہرے پے دونوں ہاتھ رکھے ، کرسی کو ٹیک لگائے بڑے پاپا کی طرف متوجہ تھا. بالاج بھی کافی پر جوش تھا. کیونکہ وہ پہلی دفعہ یوں چاند اور برگیڈئیر صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا.
" میں اس وقت بالاج کا ہم عمر ہوں گا جب 6 ستمبر 1965 کو ملک میں ہر طرف ایمرجنسی نافذ ہو گئی تھی. اب سب لوگ حیران کہ یہ کیا ہوا. ہر طرف ایک عجیب خوف تھا. ہمارے ہمسایہ ملک نے کشمیر کو جواز بناتے ہوئے لاہور پر حملہ کر دیا. ہر طرف گولیوں اور بمبوں کی آواز تھی. بچوں اور عورتوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا. دشمن ایک کثیر تعداد میں فوج اور ٹینک لیے لاہور اور سیالکوٹ میں گھس رہا تھا. مگر پاک آرمی نے ان کی چالیں ہر طرف سے ناکام بنادی. ایک جگہ پر میجر شفقت بلوچ نے صرف 19 جوانوں کے ساتھ پوری ایک بٹالین کو روکے رکھا. ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی. دشمن چاہتا تھا کہ وہ لاہور کو رات و رات فتح کر کے صبح کا ناشتہ وہی کرے گا مگر ایم ایم عالم ، میجر عزیز شہید بھٹی جیسے کئی بہادر سپوتوں نے دشمن کا یہ خواب کبھی پوار نا ہونے دیا. دشمن اتنا بڑا لشکر لے کر پاک فوج سے دوستی کرنے نہیں آرہا تھا. وہ ہم سے ہمارا ملک چھیننے آرہا تھا. کئی نوجوان شہید اور زخمی حالت میں C.M.H میں لائے جارہے تھے. C.M.H میں اس قدر رش تھا. جب نوجوانوں کو پتا چلا کہ ہسپتال میں ان کی بہنیں انہیں ریسیو کر رہی ہیں تو انہوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائی کہ کہیں ان کی بہنیں انہیں بزدل نہ سمجھیں. 
دشمن اپنی مرضی سے پاک سرزمین میں داخل ہوا تھا مگر واپس اسے پاک فوج کی مرضی سے جانا تھا. سترہ روز تک یہ جنگ جاری رہی. ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ہر طرح سے پاک فوج کا حوصلہ بڑھایا گیا. یہ سب بتاتے ہوئے برگیڈئیر صاحب کی آنکھوں میں ایک چمک تھی. وہ بڑے فخر سے پاک فوج کے کارنامے اپنے پوتے کو سنایا کرتے تھے.
" پھر کیا ہوا بڑے پاپا. " چاند نے تجسس سے پوچھا.
قوم پاک فوج کے شان بشانہ کھڑی تھی میرا بیٹا. سب کی دعاوں اور پاک فوج کی ہمت سے آخر ہر طرف ایک دفعہ پھر سے نعرہ تکبیر " اللہ اکبر " اور " پاکستان زندہ باد " کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے تھے. پاکستان جنگ جیت چکا تھا. اور آپ کو پتا بیٹا ابھی تک ہمارے بہت سے علاقوں میں دشمن کے ٹینک کھڑے ہیں. 
" سچی بڑے پاپا ؟ " چاند نے اپنی چھوٹی آنکھیں مزید سکوڑتے ہوئے کہا. 
" میں نے بھی وہ ٹینک دیکھیں ہیں." بالاج نے خوشی سے بتایا.
" بڑے پاپا مجھے بھی دیکھنے ہیں پلیز. " 
" ہاں کیوں نہیں میرا بیٹا. کسی دن دیکھ کے آئیں گے. " 
" تو ابھی میرا خیال ہے ناشتہ کر لیا جائے. " 
" جی بڑے پاپا. " 
وہ تینوں کھڑے ہوئے. تبھی بالاج نے چاکلیٹ نکال کر چاند کے ہاتھ ہر رکھی. چاند نے " تھینک یو بھیا " کہتے ہوئے چاکلیٹ لے لی. 
" اب میں جاوں سر ؟ " 
" بیٹا تم بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کرو. " 
" سر جب آپ آئے تھے میں نے ناشتہ کر لیا تھا. " وہ یہ کہتے ہوئے کوارٹر کی طرف بڑھ گیا.

*************************
" سر مجھے چھٹی چاہیے تھی. " شیدا بڑا غمگین برگیڈئیر صاحب کے پاس ہاتھ باندھے کھڑا تھا.
" سب خیریت ہے ناں ؟ " برگیڈئیر صاحب نے اس سے پوچھا.
" برگیڈئیر صاحب میری بیوی کی بہن فوت ہو گی ہے. مجھے ان کے ساتھ گجرات جانا ہے. شام تک لوٹ آئیں گے. " 
برگیڈئیر صاحب نے جیب سے کچھ پیسے نکلتے ہوئے اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا. " یہ رکھ لو کام آئیں گے. "
" نہیں صاحب جی اس کی ضرورت نہیں ہے. آپ کے ہم پے پہلے ہی بہت احسانات ہیں. " شیدا برگیڈئیر صاحب کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا. شیدا بالاج کو سکول سے لے آیا. ماں نے بالاج کو بھی ساتھ چلنے کہا مگر اس نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ اسکا صبح ٹیسٹ ہے. وہ تینوں گجرات کے لئے روانہ ہوگئے. بالاج نے کھانا کھایا اور ہوم ورک کرنے بیٹھ گیا.
ہوم ورک کرنے کے بعد وہ اتنا تھک چکا تھا کہ وہی چٹائی پر سو گیا. شام کو اس کی آنکھ کھلی. کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اس نے جلدی سے لائٹ آن کی. وہ تینوں ابھی تک نہیں آئے تھے. باہر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی. اسے ڈر بھی لگ رہا تھا. اتنی دیر ہو گئی تھی مگر یہ سب پتا نہیں کدھر رہ گئے ہیں. 
ادھر برگیڈئیر صاحب کے فون کی گھنٹی بجی. کال کرنے والے نے بتایا کہ شیدا اور اس کی بیوی اور ہاجرہ جس بس میں سفر کر رہے تھے وہ سڑک پر پھسلن کی وجہ سے نہر میں جا گری اور سب مسافر ڈوب گئے ہیں. جن میں سے کچھ مسافروں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ باقیوں کی تلاش ابھی جاری ہے. ملنے والوں میں سے ایک رشید نامی بندہ بھی ہے جس کی پاس سے آپ کا فون نمبر ملا. آپ سمبڑیال تھانہ میں فورا آجائیں.
برگیڈئیر صاحب نے " انّا للہ و انّا الیه راجعون " پڑھتے ہوئے فون رکھا. 
" کیا ہوا پاپا ؟ " نائمہ نے برگیڈئیر صاحب کو پریشان دیکھا تو پوچھا. ( نائمہ برگیڈئیر صاحب کے شہید بیٹے کی بیوی تھی. )
" بیٹا ہمارے گارڈ اور اس کے اہل خانہ وفات پاگئے ہیں. " 
" مگر پاپا . ان کا تو بچہ تو گھر پر ہے. میں چھت پر گئی تھی تو وہ کوئی کام کر رہا تھا. " 
" میں اس کو دیکھ کر آتا ہوں. مجھے زرا چھتری لا دو."
برگیڈئیر صاحب چھتری لے کر کوارٹر کی جانب بڑھے. انہوں نے دروازے پر دستک دی. بالاج آیا. انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا. بالاج کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے. 
" ینگ مین ! کوارٹر کو تالا لگاو اور میرے ساتھ چلو. " 
"کہاں سر. " اس نے حیرانگی سے پوچھا. 
" میں ایک ضروری کام سے باہر جا رہا ہوں تو کسی بہادر جوان کو تو چاند اور اس کی ماما کے ساتھ ہونا چاہیے ناں. " 
" مگر سر گھر میں کوئی بھی نہیں ہے. " 
" ارے بھئ اسی لئے تو کہہ رہا ہوں. " 
بالاج نے تالا لگایا اور برگیڈئیر صاحب کے ساتھ آ گیا. برگیڈئیر صاحب نے نائمہ کو کہا کہ بالاج کو کھانا دے. اور دروازہ بند کر لے.
بالاج نے پہلی دفعہ اس گھر کے اندر قدم رکھا تھا. گھر کو جس قدر باہر سے سجایا گیا تھا اس سے کئی گنا ذیادہ وہ اندر سے خوبصورت تھا. ایک دیوار پر پوری فیملی کی تصاویر لگائی ہوئی تھی. ایک دیوار پر کچھ آرمی آفیسرز کی تصاویر لگی ہوئی تھی. جن کے نیچے ان کو دئیے گے اعزازات کے بارے میں لکھا ہوا تھا. تبھی چاند نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا.
" یہ میرے پاپا ہیں. " 
باہر بادل زور سے گرجے اور چاند " ماما " کہتے ہوئے بالاج سے لپٹ گیا. نائمہ دوڑی دوڑی چاند کے پاس آئی. 
" چاند بیٹا.. یوں ڈرتے نہیں ہیں. دیکھو بھیا کتنے بہادر ہیں. " اس نے چاند کو پیار کرتے ہوئے کہا. 
اتنے میں باہر ایمبولینس کا سائرن بجنے لگا. برگیڈئیر اختر کیانی نے اپنے کچھ دوستوں کو اطلاع کردی تھی. ایمبولینس کی آواز سن کر کچھ آس پاس کے لوگ بھی آگئے تھے. میت کو ہال میں لا کر رکھا گیا تھا. برگیڈئیر صاحب نے بالاج کو پوری بات بڑے آرام سے بتائی. وہ ایک دفعہ پھر سے یتیم ہو گیا تھا. اس کے پاس کھونے کو اب کچھ نہیں رہا تھا. وہ کچھ بولے بنا بس آنسو بہائے جا رہا تھا. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس بات پے روئے ؟ ماں اور اماں کی لاش نہ پانی میں بہہ جانے پر یا لالا کی میت سامنے دیکھنے پر. یہ اپنی قسمت پر بیٹھ کر آہیں بھرے. برگیڈئیر صاحب جانتے تھے شیدے کو آگے پیچھے کوئی نہیں تھا سوائے ان تین لوگوں کے. جن میں سے اب صرف ایک ان کے سامنے بیٹھا رو رہا تھا. اس لئے بنا کسی کا انتظار کئے شیدے کو قبر میں اتار دیا گیا تھا. بالاج کو یقین نہیں آرہا تھا کہ جس انسان نے اسے اور اس کی ماں کو اس وقت سہارا دیا جب اس کے اپنوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا. وہ اس کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال رہا ہے. 
..
---------------☆☆☆☆☆----------------

( جاری )

No comments:

Post a Comment