Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#4

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
چوتھی قسط
----------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Forth Episode
-----------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
..
..
ان دونوں کے حویلی سے نکلتے ہی شیدا ان کے پیچھے ہوا.. 
" پتر ، پتر." وہ آوازیں دے رہا تھا.
ہاجرہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا. چاچا شیدا ان کو پیچھے ہانپتے ہوئے آرہا تھا. وہ رکی. 
" پتر کب سے آوازیں دے رہا ہوں. " 
" چاچا اب کہاں کوئی آواز سنائی دیتی ہے. " 
" پتر تم میرے ساتھ گھر چلو. اس وقت اکیلے کہاں جاو گی. " 
" چاچا میں اکیلی کہاں ہوں. میرا بیٹا ہے ناں ساتھ میرے. " 
" پتر تینوں نی پتا اس دنیا دا. بس توں میرے نال چل. " 
" مگر چاچا بڑے بھائی صاحب کو پتا چلا تو تمھیں بھی نوکری سے نکال دیں گے. " 
" بڑے ملک صاحب نوکری سے نکال بھی دیں تو اللہ بہتر کرے گا. ویسے بھی میرے کون سے بھترے جی ہیں. ایک میں ہوں اور ایک تمھاری چاچی ہے. سب مل کر روکھی سوکھی کھا لیں گے. " 
" نہیں چاچا. میں آپ پر بوجھ نہیں بن سکتی. " ہاجرہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا.
شیدے نے ہاجرہ سے کپڑوں کا تھیلا پکڑا اور بالاج کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. " پتر چاچا بھی کہہ رہی ہو اور انکار بھی کر رہی ہو بیٹیاں بوجھ تھوڑی ہوتی ہیں .." 
شیدا ان دونوں کو اپنے ساتھ گھر لے آیا. اس کی بیوی رحمت نے کھانا بنایا ہوا تھا. چاروں نے صبر شکر کر کے کھانا کھایا. کھانا کھانے کے بعد شیدے نے ہاجرہ سے کہا. " پتر بالاج میرے نال چل ڈاکٹر سے دوائی لے آئیں. " مگر بالاج سے ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی وہ حویلی سے اس کے گھر تک نا جانے کیسے چل کر آیا تھا. ہاجرہ نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا. " چاچا آپ ڈاکٹر کو ایسے ہی بتا کہ دوائی لا دیں. اگرحویلی میں سے کسی نے آپ کو بالاج کے ساتھ دیکھ لیا تو ؟" 
" ٹھیک وے پتر. " شیدا یہ کہتے ہوئے اٹھا اور بالاج کو گاوں کا ڈاکٹر ( جو کہ صرف رات کو ہی کلینک کھولتا تھا ) سے دوائی لے کر دی. وہ کچھ بہتر ہوگیا تھا. صبح سکول جانے کے لئے اٹھا. مگر سکول کیسے جاتا ؟ اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا. حویلی میں تو تایا نے ایک گاڑی لگوا دی تھی وہ بھی اس لئے کے سکول دور تھا ورنہ شاید سکول بھی اسے پیدل ہی جانا پڑتا. جبکہ ان کے خود کے بچوں کو ڈرائیور ہی سکول چھوڑ کر جاتا تھا اور لے کر بھی آتا تھا. مگر اب کیا کرے ؟ سکول کیسے جائے ؟ وہ انہی سوچوں میں گم سم کھڑا تھا کہ شیدے نے اماں رحمت کو آواز دی. " رحمتے اٹھ جا روٹی پکا.میں نے بالاج پتر کو سکول بھی چھوڑنے جانا ہے . " 
تبھی ہاجرہ آئی. " چچی آپ رہنے دیں میں روٹی بناتی ہوں. آپ بس یہ بتائیں کون سی چیز کدھر پڑی ہے ؟ " 
" نہیں پتر. میں پکا لیتی ہوں. " 
" چچی.. میں آپ کی بیٹی ہوں ناں ؟" 
" آہو.. پتر " چچی رحمت نے شفقت سے ہاجرہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. 
" تو کیا بیٹی کو اچھا لگے گا ؟ کہ ماں کام کرے اور بیٹی بیٹھی رہے. " اس نے چچی رحمت کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا. ہاجرہ نے روٹی بنائی. کھانے کے بعد شیدے نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سائیکل نکالی اور بالاج کا بستہ اپنے کندھے پے ڈالتے ہوئے اس کو سائیکل پر بیٹھا کر سکول چھوڑنے گیا. راستے میں گاوں کے لوگوں نے اسے بالاج کو لے جاتے دیکھ کر باتیں کرنا شروع کردی. شیدے نے اسے سکول کے گیٹ کے سامنے اتارا اور بیگ اسے پکڑاتے ہوئے کہا. " پتر فکر ناں کری میں چھٹی کے وقت لینے آجاوں گا. "
بالاج کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے کو تھے.ابا کے بعد اس کی فکر صرف ہاجرہ کو تھی مگر اب چاچے شیدے کے اس رویے کی وجہ سے ان لوگوں کی لسٹ میں اضافہ ہو رہا تھا. اس نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور سکول کے اندر چلا گیا.
شیدا حویلی آکر کام کاج میں لگ گیا. آج حویلی میں کوئی گھریلو کام نہیں ہوا تھا صرف بچوں کو کھانا بنا کر سکول بھیجا گیا تھا. جب سے ہاجرہ آئی تھی سب کام وہی کر رہی تھی. باقی دونوں بھابھیوں نے تو کام سے جیسے چھٹی لے لی تھی.
گاوں کی ایک عورت ثریا بیگم کے پاس کام کا پتا کرنے کے لئے آئی تھی. صبح ہی بڑے ملک صاحب نے ڈرائیور کو کہا دیا تھا کہ حویلی کے لئے ایک نوکرانی کا انتظام کروائے. ثریا بیگم کرسی پر بیٹھی اس عورت کو کام سمجھا رہی تھی. تبھی شیدا اندر آیا. اور ثریا بیگم سے پوچھنے لگا. " بڑی مالکن میں زرا شہر جا رہا ہوں کچھ منگوانا ہو تو بتا دیں. " ثریا بیگم نے اسے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ کچھ نہیں چاہئیے. وہ ہال سے نکلا ہی تھا کہ اس عورت نے ثریا بیگم سے کہا. " بڑی مالکن معاف کیجیے مگر ایک بات پوچھوں. ثریا بیگم نے ہونہہ کیا.
" آج چھوٹے ملک صاحب دے پتر نوں چاچا شیدا اپنی سائیکل تے کیوں سکول لے کے جا ریا سی ؟ " 
یہ سنتے ہی ثریا بیگم جیسے آگ بگولہ ہو گئی. اس نے نوکرانی کو جواب دینے کی بجائے ڈانٹ دیا.
" تیان نال اپنا کام کر نی."
اور اٹھ کر شمیم کے کمرے کی طرف چلی آئی اسے یہ خبر بتانے. 
" بھابھی مینوں تے پہلے ہی شک سی. ان دونوں کا کوئی چکر چل رہا ہے. تبھی تو شیدا اس کے آگے پیچھے گھومتا رہتا تھا. " شمیم نے ثریا کی بات سنتے ہوئے کہا. 
" آہو تے ہور کی ؟ ورنہ کون عورت کسی پرائے مرد کے گھر یوں منہ اٹھا کے چلی جائے. " 
شام کو کھانے کی میز پر ثریا شمیم کو اشارے کر رہی تھی اور شمیم ثریا کو کہ تم بتاو. تبھی خالد ملک نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. " کوئی بات کرنی ہے کیا ؟ " 
ثریا بیگم بولی. " یہ پوچھیں کہ اب کیا ہونا باقی رہ گیا ہے ؟ " 
بچے بھی عجیب نظروں سے اماں اور چچی کو دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا بول رہی ہیں. ملک سلیم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا. " پلیی لوکے . کی بول رہی وے. " 
" آپ کی بھاوج آپ کی عزت مٹی میں ملا رہی ہے. اب کوئی نیا چان چڑے گا. " 
" آپا کیا بولے جا رہی ہیں. " 
" آپا بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں. آج پینو کام کرنے آئی تھی اور وہ بتا رہی تھی کہ شیدا بالاج کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا. " شمیم نے جواب دیا.
" اس نے تو اپنے مرحوم شوہر کی شرم نہیں کی. " ثریا بیگم نے بات بڑہاتے ہوئے کہا. 
" اس شیدے کو آ لینے دو صبح ہی اس خانہ خراب کو نوکری سے فارغ کرتا ہوں. بلکہ نوکری سے کیا لڑکے بھیج کر اسے گاوں سے ہی نکلواتا ہوں. " سلیم ملک غصہ کرتے ہوئے اٹھا. باقی سب بھی باری باری اٹھے اور اپنے کمروں کی طرف چلے گئے. مہک کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ سب ایسا کیوں کر رہے ہیں. 
دروازے پر زور زور سے دستک ہورہی تھی.
" ارے کون آگیا بھائی صبر کرو زرا. اس بوڑھے نے اڑ کے تو نہیں آنا اب. " شیدے نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہا. دروازہ کھولتے ہی پانچ چھے ہٹے کٹے لڑکے شیدے کو دھکا دیتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے. " ارے پتر.. کون ہے تم لوگ میرے گھر میں کیوں گھسے جارہے ہو ؟ " 
" یہ تو تمھیں یہ سب کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا بڈھے. " 
لڑکوں نے توڑ پھوڑ شروع کر دی. وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینک رہے تھے. بالاج اٹھ کر ہاجرہ کے ساتھ چمٹ گیا. اماں رحمت بھی شور سن کر باہر آئی. " ارے یہ کیا کر رہے ہو. ؟ بیڑا غرقے تمھارا. " 
ایک لڑکے نے صحن میں مٹی سے بنے چولہے کو ٹانگ مارکر توڑتے ہوئے کہا. " چپ کر بڑھیا. ملک صاحب کا حکم ہے اگر آج تم لوگوں نے گھر خالی نہیں کیا تو گھر سے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے. " 
یہ سن کر ہاجرہ کے جیسے اوسان خطا ہو گئے. وہ لڑکے توڑ پھوڑ کر کے چلے گئے. اماں رحمتے روتے ہوئے بیٹھی بکھری چیزوں کو دیکھ رہی تھی. شیدا بھی بلکل شل کھڑا تھا. تبھی ہاجرہ باہر آئی. " مجھے معاف کردے چچا. یہ سب ہماری وجہ سے ہو رہا ہے. " ہاجرہ نے شیدے کے آگے ہاتھ جوڑے. شیدے نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا. " نہیں میرا پتر. ایسے نا بولو. میں اس گھر میں تمھیں اپنی بیٹی بنا کر لایا تھا. یہ فرعون اپنے مال و دولت کی وجہ سے اللہ کو بھول گئے ہیں. مگر خدا کی لاٹھی بےآواز ہوتی ہے. " 
" مگر شیدے ہم اب اس بڑھاپے میں کہاں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے. " اماں رحمتے نے روتے ہوئے کہا.
" شہر میں میرے ایک جاننے والے بریگیڈئیر صاحب ہیں. میں ابھی ان کو کال کر کے آتا ہوں. باقی اللہ کو جو منظور. " 
اب تک پورے گاوں میں خبر پھیل چکی تھی کہ ملکوں کی چھوٹی بہو شیدے کے گھر چلی گئی ہے. لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے جبکہ اصل وجہ کوئی نہیں جانتا تھا.شیدے نے اپنی سائیکل نکالی. گاوں کا ہر بندہ چچا شیدے کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا. شیدے نے پی - سی - او پہنچ کر اپنی جیب سے ایک پرچی نکال کر برگیڈئیر صاحب کا نمبر دوکاندار کو دیتے ہوئے کہا اس نمبر پر کال کردو. دوسری طرف بیل جارہی ہے. برگیڈئیر صاحب نے تیسری ہی گھنٹی پر ایک بھاری ، رعب دار ، مردانہ آواز آئی. شیدے نے سلام دعا کے بعد سارا ماجرا سنادیا. برگیڈئیر صاحب نے شیدے کی سب کہانی سننے کے بعد ایک گہری سانس لی. لیکن وہ شیدے کو اس طرح منع بھی نہیں کر سکتا تھا تو برگیڈئیر صاحب نے اسے اپنے گھر میں بطور گارڈ رکھ لیا اور شیدے کو سروئینٹ کوارٹر میں بھی رہنے کی اجازت دے دی. شیدے نے شام ہوتے ہی ضرورت کا سامان لیا اور اپنی بیوی ، ہاجرہ اور بالاج کو ساتھ لے کر گاوں سے نکل آیا. ایک گھنٹے بعد وہ برگیڈئیر صاحب کی کوٹھی میں تھا. بالاج نے برگیڈئیر صاحب کے گھر میں پہلا قدم رکھا تھا. کوٹھی انتہائی خوبصورت تھی. اس کے لان میں طرح طرح کے پودے ، خصوصا گلاب بڑی ہی نفاست سے لگائے گئے تھے. جن کی خوشبو نا صرف لان کو یقینا گھر کے اندرونی حصے کو بھی مہکاتی ہوگی. برگیڈئیر صاحب کو شیدے کی آمد کی اطلاع ہو چکی تھی. ایک صحت مند ، رعب دار ، بڑی بڑی داڑھی مونچھ رکھے ( جس کی تراش خراش بڑی نفاست سے کی گئی تھی ) سفید شلوار قمیض پہنے ان کے سامنے کھڑا تھا. برگیڈئیر صاحب نے بڑی گرم جوشی سے شیدے اور اس کی فیملی کو خوش آمدید کیا. 
" آپ لوگوں کو کوئی تکلیف تو نہی ہوئی یہاں آنے میں ؟ "
" نہیں سر. آپ کا بہت شکریہ آپ نے اس مشکل وقت میں مجھے اور میرے گھر والوں کو سہارا دیا. " 
" ارے رشید صاحب ! آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں. سہارا میں نے آپ کو نہیں دیا بلکہ آپ نے مجھے دیا ہے. مجھے گارڈ کی ضرورت تھی اور آپ کو تو پتا ہے بااعتماد شخص آج کل ملنا کتنا مشکل ہوتا ہے. " بالاج نے پہلے دفعہ کوئی شخص دیکھا تھا جو چچے شیدے کو رشید صاحب کہہ کر پکار رہا تھا. 
" Hello young man. " 
برگیڈئیر صاحب نے بالاج کی طرف ہاتھ بڑہاتے ہوئے کہا. بالاج نے ہاتھ ملایا. تبھی چچا شیدے نے برگیڈئیر صاحب کو کہا.
" سر یہ میرا پوتا ہے. "
یہ سن کر ہاجرہ کی آنکھوں میں نمی آگئی.
" ماشاءاللہ بڑا پیارا بچہ ہے. میرا خیال ہے اب آپ تھک گئے ہوں گے آپ کوارٹر میں چل کر آرام کجئیے. آپ کو کھانا پہنچ جاتا ہے. صبح ملتے ہیں. " برگیڈئیر صاحب ایک بار پھر شیدے اور بالاج سے ہاتھ ملا کر کوٹھی کی طرف بڑھ گئے.
..

-----------------------☆☆☆☆☆---------------------
..

( جاری ) 

No comments:

Post a Comment