تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
چھٹی قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Sixth Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
..
..
مہک ہسپتال کے لان میں یونہی اپنا سر پکڑے بیٹھی تھی. نرس اس کے پاس آئی.
" ڈاکٹر صاحبہ آپ یہاں بیٹھی ہیں. آپ کے کمرے کا فون کب سے بج رہا تھا. آپ کے شوہر آپ کو کال کر رہے تھے مگر آپ نے کال ریسیو نہیں کی تو انہوں نے آفس کے فون پر کال کی تھی."
وہ بنا کچھ سنے گم سم تھی. نرس نے اس کا کندھا ہلایا.
" ڈاکٹر صاحبہ آپ ٹھیک ہیں ؟ "
" ہاں."
" ایسا کرو مجھے ایک رکشہ منگوا دو. "
" مگر ڈاکٹر صاحبہ. "
" میں کمرے سے اپنا بیگ لے کر آتی ہوں. " ( وہ لان سے اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئی. )
" جی ٹھیک ہے " نرس نے کسی ورکر کو کہہ کر مہک کو رکشہ منگوا کر دیا.
" باجی کدھر جانا ہے."
وہ خاموش بےسود بیٹھی تھی. رکشے والے نے پھر سے پوچھا. " باجی کچھ دسو وی ؟ "
" گوہر کالونی. "
رکشے والے نے بیک مرر سے اس کو دیکھ کر منہ بناتے ہوئے رکشہ سٹارٹ کیا.
مہک کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس صدمے میں ہے. اسے کیا ہو رہا ہے. اسے بالاج کے یوں سامنے آنے پر خوش ہونا چاہئیے یا وہ غم کرے. اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو رہی تھی.
گوہر کالونی پہنچ کر رکشے والا پھر سے اسکا منہ دیکھنے لگ گیا. کہ شاید آگے کا راستہ وہ خود بتائے مگر اسے چپ چاپ بیٹھے دیکھ کر اس کو مجبورا پوچھنا پڑا . " باجی کالونی آگئی. آگے کدھر جانا ہے ؟ "
اس کا سر چکرا رہا تھا. اس نے بڑی مشکل سے اپنا سر باہر نکال کر دیکھا اور رکشے والے کو راستہ بتایا. رکشے والا اس کے بتائے ہوئے مکان کے پاس لا کر اتار دیا. مہک سے پیسے لیتے ہوئے وہ بڑبڑایا. " عجیب پاگل ڈاکٹر ہے جسے اپنی ہی ہوش نہیں ہے. پتا نہیں یہ لوگوں کا کیا علاج کرتی ہوگی ؟ "
مہک نے بیگ سے چابی نکالی. دروازہ کھول کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی. اسے اس گھر سے وحشت آرہی تھی. آج سے پہلے اس گھر میں داخل ہوتے ہوئے اسے اتنا خوف کبھی محسوس نہیں ہوا تھا. کمرے میں آکر اس نے بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور بیڈ کو ٹیک لگائے اپنا منہ گھٹنوں میں چھپائے وہ شل تھی.
کیان اس کو باربار کالز کر رہا تھا. آخر تنگ آ کر وہ فیکٹری سے نکلا اور گاڑی لے کر سیدھا ہسپتال کی طرف آگیا. اسے گیٹ پر گارڈ نے روک لیا.
" سر آپ ابھی اندر نہیں جا سکتے ہیں. "
" دیکھیں میرا ابھی اندر جانا بہت ضروری ہے. ( اس نے گارڈ کو گیٹ پاس دیکھاتے ہوئے کہا.)
" سر آپ پھر بھی اندر نہیں جا سکتے ہیں. ابھی اندر کچھ آفسران زخمی مجاہدین سے ملنے آئے ہیں. آپ کو تکلیف کے لئے معذرت. " ( گارڈ نے گاڑی سائیڈ پر لگانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا. )
کیان پہلے ہی مہک کی وجہ سے بہت پریشان تھا اب اسے شدید غصہ آرہا تھا. " کیا بکواس ہے. " اس نے پھر سے مہک کو کال ملائی مگر دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا. اس نے غصے سے سٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مارا.
ادھر بالاج کے زخمی ہونے کی خبر اس کے گھر پہنچتے ہی برگیڈئیر صاحب اور نائمہ اس کے پاس پہنچ چکے تھے. بالاج کی حالت دیکھ کر نائمہ کی آنکھوں میں آنسو تھے. بالاج نے نائمہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا.
"ماما مجھے پتا تھا آپ روئیں گی. اسے لئے میں نے بڑے پاپا کو منع کیا تھا کہ آپ کو نہ بتائیں. "
" ینگ مین وہ ماں ہے تمھاری. اسے مجھ سے پہلے پتا چل جاتا ہے. " پاس بیٹھے برگیڈئیر صاحب نے بالاج کو جواب دیا.
اعلی افسران کے جانے کے بعد سیویلین کو اندر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی. کیان جلدی سے گاڑی سے اترا اور پیدل ہی ہسپتال چلا گیا. اس کے کمرے کی طرف گیا تو اسے تالا لگا دیکھ اس کی پریشانی اور بڑھ گئی. اس نے واپس آکر ریسیپشن پر آکر پوچھا تو لڑکے نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو گئے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا ہے. وہ جلدی سے وہاں سے نکل کر گاڑی لے کر گھر کی طرف بھاگا. گھر آتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف گیا. اسے کمرے میں دیکھ کر سکون کا سانس آیا.
" مہک." ( اس کو ہلاتے ہوئے.)
مہک نے منہ اوپر کرتے اسے دیکھا.
" میری کال کیوں پک نہیں کر رہی تھی. اور ہسپتال سے بھی بنا بتائے چلی آئی. میں پریشان ہو گیا تھا." ( کیان نے اس کے کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا. ) وہ ویسے ہی ساکت بیٹھی تھی. کیان نے اسے ہلایا.
" مہک.. کیا ہوا ہے ؟"
مہک ابھی بھی خاموش تھی.
" مسز کیان ملک.. اگر یہ آپ کا کوئی نیا مزاق ہے تو مجھے یہ مزاق بلکل بھی پسند نہیں آیا. تم کچھ بول کیوں نہیں رہی. اب بچے کی جان لو گی کیا ؟ "
مہک کے ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا. اب اس کے گالوں پے آنسو بہہ رہے تھے.
" میری جان .. پلیز چپ کر جاو. اب کیا چناب میں سیلاب لاو گی ؟ " کیان اس کو ہنسانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا. مگر وہ یونہی روئے جا رہی تھی.
کیان نے اسے سینے سے لگایا. اور اس کے آنسوں کو صاف کیا. مگر آنسو کا سلسلہ جاری تھا یہاں تک کہ شرٹ کے جس حصے پر اس کے گال لگ رہے تھے وہ بھیگ چکا تھا.
" بے بی.. اب اگر تم چپ نا ہوئی تو میں بھی رو دوں گا. یو نو ناں تم مجھے روتے ہوئے بلکل بھی اچھی نہیں لگتی. " ( اس نے مہک کو منہ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا. )
اتنے دیر سے صرف کیان ہی بولے جا رہا تھا اور وہ روئے جا رہی تھی.
" مہک. یہ کیا ہے یار . اگر تم یوں ہی روتی رہو گی اور کچھ بتاو گی نہیں تو مجھے پتا کیسے چلے گا کی تمھیں کیا ہوا ہے. "
وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ میں نے آج اس انسان کو دیکھا ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کے سب سے حسین پل گزارنا چاہتی تھی. وہ انسان جس کا خواب اس نے بچپن سے دیکھا تھا. جو اس کی دعاوں ، منتوں کا حاصل تھا. مگر وہ صرف یہی کہہ سکی. " ابو کی بہت یاد آرہی ہے. "
" مہک تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی یار. بس اتنی سی بات ؟ " کیان نے اس کے گرد اپنی بانہوں کا گھیرا مزید تنگ کرتے ہوئے کہا.
" ہاں. " اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا. مگر جو بات اس کے دل میں تھی وہ اس کے لئے اتنی سی نہیں تھی. اتنے میں کیان کے فون کی گھنٹی بجی. کیان نے ایک ہاتھ سے سیل فون نکل کر کان کو لگایا. مہک نے پرے ہونا چاہا. کیان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے بازو سے اسے پاس ہی رہنے کا اشارہ کیا.
" میں منہ دھو کر آتی ہوں ناں. " مہک نے آہستہ سے کہا.
اس نے پھر سے " نو " کا اشارہ کیا. کال پر شاید ابا جی تھے تبھی وہ ایسی حرکتیں کرتا تھا. ورنہ دوسروں کی کال پر وہ اکثر مہک کو کچھ بھی کہہ دیا کرتا تھا.
" ٹھیک ہے ابا جی آپ سب بس تیار رہیں. میں بس کچھ ہی دیر میں آپ کو لینے آتا ہوں. " وہ کال پر کہہ رہاتھا. کال بند ہونے پر وہ پھر سے مہک سے مخاطب ہوا.
" مجھ سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی. "
مہک نے اس کی طرف دیکھا. یہ کیا کہہ رہا ہے. مہک کا بنا ہوا منہ دیکھ کر وہ ہنس دیا.
" مزاق کر رہا ہوں میری جان. اگر تم مجھ سے جان چھڑوانا چاہو گی بھی تو میں تمھاری جان نہیں چھڑنے والا. "
مہک پھر سے نارمل ہو گئی تھی. اس نے اس کے پیٹ میں گھونسا مرتے ہوئے. " اچھا. " کہا.
کیان نے اپنی گرفت مضبوط کی. " اور یہ جو تم نے اتنے آنسو بہائے اب ان کاحساب کون دے گا ؟"
" مجھے کیا پتا ؟ "
" بتاوں تمھیں ؟ "
" تایا جان . کیا کہہ رہے تھے. " مہک نے فورا نے ٹاپک تبدیل کرنا چاہا.
" بہت تیز ہو تم. "
" ہاں ناں. تمھی سے سیکھا. "
" اچھا. میں تیز کب سے ہوا. ؟ مجھ جیسا معصوم انسان تو کوئی ہے ہی نہیں. "
" جی جی. بلکل. "
" ہاں ناں. "
" تم اب مجھے کاپی کر رہے ہو. "
" تم بھی تو میری ہو. اگر تمھیں کاپی کر بھی لوں تو میرا ہی فائدہ ہے." اس نے آنکھ مارتے ہوئے کہا. " بدتمیز. "
" بس یہی سننے کو باقی تھا. اب تم مجھے بدتمیز کہو گے. ویسے تمھیں چچا کی یاد آرہی تھی تو سیدھی طرح مجھے بتاتی اتنا بڑا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی. تمھیں پتا. "
" نہیں. مجھے کیسے پتا ہوگا ؟ " ( اب وہ اسے مذید تنگ کرنے کے موڈ میں تھی.)
" تمھاری ٹینشن میں میں نے کچھ بھی نہیں کھایا."
" ہاں تو کس نے کہا تھا. اتنی ٹینشن لو ؟ "
" تم کال بھی تو ریسیو نہیں کر رہی تھی. ذرا سیل فون چیک کرو کتنی کالز ہیں. "
مہک نے بیگ سے سیل فون نکلا اور سکرین دیکھ کر واقعی حیران تھی.
" اب میسجز چیک مت کرنے بیٹھ جانا. تم اب جلدی سے تیار ہو اور گاوں چلیں. "
" مگر کیان میرا دل نہیں چاہ رہا. "
" کیوں بھئی. مسزز کیان ملک کا کیا دل چاہ رہا ہے. ویسے ابھی تو تم کہہ رہی تھی کہ چچا کی یاد آرہی ہے . میں نے تو اس لئے تمھیں ساتھ چلنے کا بولا کہ جاتے ہوئے قبرستان چلے جائیں گے. ان کی قبر پے فاتحہ پڑھ آئیں گے. "
" میں تیار ہی ہوں. "
" بلکل بھی نہیں. ایسی روتی ہوئی شکل میں تو میں تمھیں بلکل بھی نہ لے کر جاوں. چچی کو لگے کہ ان کا داماد ان کی بیٹی پر بہت ظلم کرتا ہے . اور اماں ابا سے جو مجھے باتیں سننی پڑے گی وہ الگ. اس لئے اچھے سے تیار ہو. "
" اچھا ناں. "
" میں فریش ہوں لو. تم تب تک کپڑے نکالو. "
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں تیار ہو کر گاوں کی طرف نکل گئے. راستے میں کیان نے سیڈ میوزک لگا دیا. مہک کی شکل دیکھ کر کیان نے کہا.
" اب پھر سے کچھ ہو گیا ہے کیا ؟ "
" نہیں تو. "
" تو پھر اتنی رونے والی شکل کیوں بنا لی ہے میری شہزادی نے ؟ "
" اب تم جیسے گانے لگاو گے میں تو ویسا ہی منہ بناوں گی ناں. "
" تو چینج کر لو. ویسے تم بھی تو ایسے ہی گانے پسند کرتی تھی. اب کیا ہوا ؟ "
" کیا مطلب ؟"
" ویسے ایک ٹائم تھا. جب تمھارے تو الارم بھی اریجیت کے گانے والے ہوتے تھے. وہ کون سا گانا تھا بتانا زرا مجھے. " ( اس نے مشکل سے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا. )
مہک نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا. " گاڑی روکو."
" اچھا سوری ناں میری جان. " کیان نے ایک ہاتھ کان کو لگایا.
کیان نے " تم ہی ہو. " لگاتے ہوئے کہا . " مہک میں تو مزاق کر رہا تھا یار ویسے مجھے ابھی بھی تمھاری پسند معلوم ہے. "
" جی نہیں اب میں یہ گانے نہیں سنتی ہوں. " اس نے گانا بند کرتے ہوئے کہا. باقی کا سارا راستہ اس نے منہ پھلائے رکھا. گاوں میں داخل ہوتے ہی ایک راستہ گھر کی طرف جاتا تھا اور دوسرا قبرستان کی طرف. کیان گاڑی قبرستان کی طرف لے گیا. قبرستان کے دروازے پر اس نے گاڑی روکی. مہک گاڑی میں بیٹھے دعا کرنے لگی اور کیان قبرستان میں فاتحہ پڑھنے چلا گیا. فاتحہ پڑھنے کے بعد کیان نے قبرستان سے سیدھا گھر کی طرف رخ کیا. جہاں سب بڑے ان دونوں کا انتظار کر رہے تھے. گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے خوب پیار بٹورا.
کیان نے ماں سے کہا. " اماں کچھ کھلا بھی دے یا صرف دعاوں سے گزارا کریں ؟"
مہک نے اسے کہنی ماری. کیان کے منہ سے اوچ نکلا. لیکن کسی نے اسے کہنی مارتے دیکھا نہیں تھا ورنہ اس بات پر بھی چرچا شروع ہو جاتا اور کھانا وہی کا وہی رہ جاتا. مہک نے تائی اور ماں کے ساتھ مل کر کھانا لگایا اور کھانے کے ٹیبل پر کیان کو ماں نے گاوں اور بارڈر کے سب حالات بتا دئیے. کھانا کھانے کے بعد کیان نے کپڑوں کا بیگ گاڑی میں رکھا. کیان اور مہک ، ثریا بیگم ، شمیم بیگم اور سلیم ملک کو شہر لے آئے.
..
-------------------☆☆☆☆☆---------------------
( جاری )
No comments:
Post a Comment