#تم_ہم_کو_یاد_رکھنا
از شاہ رخ گل
تیسری قسط
----------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Third Episode
------------------------------------
~ donot copy without permission ..
---------------------------------------------
..
..
خالد ملک فیکڑی جانے کے لئے نکل ہی رہا تھا کہ تبھی فون کی گھنٹی بجی. اس زمانے میں سیل فون تو اتنے عام نہیں تھے البتہ بازار میں ایکا دوکا پی - سی - او - شاپس ہوتی تھی اور گاوں کے سب سے امیر گھرانوں میں پی - ٹی - سی - ایل ضرور موجود ہوتا تھا. جس کسی کو بھی علم ہوتا وہ بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ ہمارے گاوں کے فلاں گھر میں فون ہے. اگر کبھی فون کرنے کی ضرورت ہوئی تو میں ان کا نمبر لے کر دوں گا. تم ان کے گھر فون کر کے بتا دینا.
تیسری گھنٹی بجنے سے پہلے خالد ملک نے ریسیور کان کو لگایا. اور رعب دار آواز میں " ہیلو " کہا.
" اسلام علیکم ! جناب میں ' ایف - جی ' سکول سے بات کر رہا ہوں. آپ بالاج کے والد صاحب بول رہے ہیں کیا. ؟ " پرنسپل نے دوسری طرف سے کہا.
" نہیں. میں اس کا تایا بات کر رہا ہوں. آپ بتائیں کیا کر دیا اس نالائق نے. ؟ "
" جناب آپ کے بچے کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے. اس لئے آپ اسے سکول سے آکر لے جائے. "
" اچھا ٹھیک ہے. " کہتے ہوئے ملک صاحب نے کال بند کردی. اور ہاجرہ کو آواز دی.
ہاجرہ کمرے کی صفائی میں مصروف تھی. اس نے فرش پر لگانے والا کپڑا بالٹی میں ڈالا اور دوپٹہ سیدھا کرتے ہوئے آئی." جی بھائی صاحب. آپ نے بلایا. "
" وہ بالاج کے سکول سے فون آیا تھا."
تبھی ہال میں بیٹھی ثریا بیگم بولی. " کی ضرروت وے بھلا سکول والوں کو نمبر دینے کی ؟"
" اس کی طبعیت خراب ہو گی ہے. تم اسے سکول سے جا کر لے آو. " خالد ملک نے ثریا بیگم کی بات اگنور کرتے ہوئے کہا.
" بھائی صاحب میں ؟ " اس نے پریشان ہوتے ہوئے کہا. شوہر کی وفات کے بعد شاید ہی وہ کبھی باہر نکلی ہو. اب تو اسے ٹھیک سے راستے بھی یاد نہیں تھے.
" یہ پیسے رکھ لو اور تم اسے خود لے آو. مجھے فی الحال فیکڑی کے لئے دیر ہو رہی ہے ورنہ میں اسے لینے چلا جاتا. "
ہاجرہ نے گیلے ہاتھوں سے پیسے پکڑے. اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی. کمرے میں آکر اس نے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور چادر لیتے ہوئے حویلی سے باہر نکلی. ہاجرہ شہر سے گاوں میں آئی تھی مگر وہ ہمیشہ خود کو ڈھانپ کر رکھتی تھی تا کہ کوئی کل کو اس کے بیٹے کو بات نہ کرسکے.وہ پیدل چلتے ہوئے اپنے گاوں سے دوسرے گاوں میں آئی جہاں سے گاڑی شہر کو جاتی تھی. گرمی سے اس کا برا حال تھا مگر اسے گرمی کی پرواہ کہاں تھی. اس وقت تو اسے صرف بالاج کی فکر تھی. گاڑی کے آتے ہی وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھی اور گھنٹہ گھر کے پاس وین والے نے آکر اسے اتار دیا. اسے اب یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرف جائے. اس نے ایک آدمی سے پوچھا. وہ یوں ہی پوچھتے پوچھاتے چلتے ہوئے آخر سکول کے پاس آکھڑی ہوئی. سکول کے باہر دو آرمی آفیسرز گارڈ کے ساتھ کھڑے تھے. ان میں سے ایک فوجی نے پریشان حال ہاجرہ سے پوچھا. " جی بی بی. کس سے ملنا ہے آپ کو ؟"
ہاجرہ نے پوری کہانی بتا دی. فوجی ہاجرہ کو ساتھ لیتے ہوئے کشادہ گراونڈ میں سے گزارتے ہوئے جہاں بڑے بڑے سایہ دار درخت اور خوبصورت پھولوں والے پودے لگے ہوئے تھے. پرنسپل کے کمرے کے سامنے چھوڑ کر واپس چلا گیا. ہاجرہ نے پرنسپل سے ملنے کے بعد بالاج کو سکول سے لیا.ہاجرہ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ رکشہ لے کر گھر چلی جاتی تو وہ بخار میں تپتے بالاج کو اپنے ساتھ پیدل چلاتے ہوئے گاڑی تک آئی. وہ ایسے ہی گھر پہنچی. شمیم نے اسے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا جیسے ہی واپس آئی تو اس نے چاچا شیدے کو کہا کہ " وہ مہرانی آوارہ گردی کرکے آ گئی ہے اسے کہو آ کر اب کھانا بنائے. "
چاچے شیدے نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا. " چھوٹی مالکن آپ کو بڑی مالکن بلا رہی ہیں. "
" اندر آجائیں چاچا. " شیدا اندر آیا تو وہ بالاج کو پانی کی پٹیاں کر رہی تھی.
" کیسی طبعیت ہے اب اسکی پتر ؟ "
" چاچا شربت پڑا تھا وہ پلایا تو ہے. آپ بس دعا کریں جلدی سے ٹھیک ہو جائے میرا بیٹا. "
" آمین. پتر جلدی آجانا ورنہ بڑی مالکن غصہ ہوں گی. " شیدا اتنا کہتے ہوئے واپس چلا گیا.ہاجرہ بالاج کو یوں ہی بخار میں تپتا چھوڑ کر حویلی آگئی. آکر اس نے کچن سنبھال لیا مگر دھیان اس کا بالاج کی طرف ہی تھا. شام ہونے کو تھی ایک آدھ بار اسکا دل کیا کے کمرے میں جاکر بالاج کو دیکھ آئے مگر ایک کام ختم ہوتا تو کوئی دوسرا اس کے سر آ پڑتا. رات کو تھک ہار کر واپس آئی. بالاج بخار میں ویسے ہی پڑا ہوا تھا. ہاجرہ نے اسے اٹھا کر کھانا کھلوایا اور دوائی دی.
اتوار کے دن حویلی میں صبح سے شام بچوں بڑوں سب کے لئے اسپیشل کھانے بنتے تھے. ہاجرہ روز کی طرح سب کے پسندیدہ کھانے بنانے میں مصروف تھی. 11 بجے بالاج کی آنکھ کھلی تو ماں کو کمرے میں نا پایا.
اسے خود پے ترس آرہا تھا. " اللہ جی میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ؟ " وہ بڑبڑایا.
اسے شدید بھوک بھی لگی ہوئی تھی. اس نے منہ ہاتھ دھویا اور حویلی کی طرف آگیا. بڑے ملک صاحب کو شہر کسی کام سے جانا تھا. ان کے نکلتے ہی سب بچے ناشتہ کرکے لان میں آ گئے تھے. کیان اور مہک ٹینس کھیل رہے تھے. لان میں باقاعدہ کوئی ٹینس کورٹ نہیں بنایا گیا تھا. شہر کے ایک اچھے سکول میں پڑھنے کی وجہ سے وہ گاوں میں رہتے ہوئے بھی سب نیشنل اور انٹر نیشنل گیمز سے واقف تھے مگر لان ٹینس مہک کا فیورٹ تھا. زینب اور فاطمہ بیٹھی ان دونوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھیں.
" cheater , cheater. Kiyaan is a cheater. "
مہک ٹینس ریکٹ کو ہلاتے ہوئے کہہ رہی تھی.
" تمھیں خود کھیلنا نہیں آتا ہے. اور مجھے الٹا چیٹر کہہ رہی ہو. میں نے کوئی چیٹینگ نہیں کی مہک کی بچی. " کیان برا سا منہ بنائے کہہ رہا تھا. تبھی بالاج لان میں آیا. کیان نے ریکٹ سے بالاج کا راستہ روکتے ہوئے کہا. " کدھر گھسے جا رہے ہو تم ؟ "
" امی کے پاس. " کیان نے اپنے سوکھے ہونٹوں سے جواب دیا.
" ارے بچے کو اپنی اماں کی یاد آرہی ہے. " زینب ، فاطمہ اور کیان تینوں ہنسنے لگے. مہک کو برا لگ رہا تھا تو اس نے کیان کو ڈانٹا.
" کیان تنگ نہیں کرو اسے. "
" تم کیوں اماں بن رہی ہو ؟ " کیان نے مہک کو چپ کروایا.
" کیان ہٹو. " بالاج نے کہا.
" نہیں ہٹتا. کیا کر لو گے. ؟
" پیچھے ہٹو. " بالاج نے کیان کو سائیڈ پے کرنا چاہا جس سے وہ نیچے گر گیا. اس کا سر پاس پڑے گملے کو جا کر لگا اور اس کے سر سے خون نکلنے لگا. بالاج کو سمجھ نہیں آیا تھا یہ کیا ہو گیا؟ زینب اور فاطمہ بھاگتی ہوئی آئی.
" یہ کیا کیا تم نے ؟ " فاطمہ نے بالاج کو پکڑتے ہوئے کہا. زینب نے اماں کو آوازیں دینا شروع کردی. اتنے میں شور سن کر ثریا بیگم اور شمیم باہر آگئ.
" ہائے میرا پتر کی ہو گیا ؟" ثریا بیگم نے کیان کا بہتا خون دیکھ کر کہا. زینب نے سب کچھ ماں اور چچی کو جلدی سے سنایا. شمیم بیگم کیان کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا کر خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا. شمیم بیگم کا ہاتھ خون سے تر ہو رہا تھا. ثریا بیگم کیان کی پٹی کروانے کی بجائے بالاج کو مارنے میں مصروف تھی. اس بات کا خیال کیے بغیر کہ وہ بھی ایک بچہ ہے. اتنے میں خالد ملک اور ہاجرہ بھی باہر آگئے.
" آپا اس کو پہلے سے ہی اتنا تیز بخار ہے پلیز مت مارئیں اسے." ہاجرہ نے روتے ہوئے ثریا بیگم کے آگے ہاتھ جوڑے.
" سنبھالو اسے." خالد نے بالاج کو چھڑواتے ہوئے ہاجرہ کو کہا.
" ارے ان ماں بیٹے کو کوئی حویلی سے باہر نکالو. پہلے اپنے پیو کو کھا گیا اب میرے اکلوتے پتر کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے گیا. ہاے میرا بچہ. " ثریا بیگم بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھی.
" آپا ابھی ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے آپ اور شمیم کیان کو لے کر آئیں میں گاڑی نکالتا ہوں."
" خالد ملک کیان کو پٹی کروانے شہر لے گیا تھا. مہک ، زینب اور فاطمہ تینوں اندر آگئیں. جبکہ ہاجرہ بالاج کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی. اب بالاج کی بھوک پیاس سب ختم ہو گئی تھی.اور بخار بھوک کی وجہ سے پھر بڑھ گیا تھا. اب ثریا تائی واپس آکر پتا نہیں کیا کریں گی. ادھر مہک کا دل بھی برا سا ہو رہا تھا. اسے کیان کی فکر بھی ہو رہی تھی اور بالاج کے لئے بھی پریشان تھی. مگر جو ہوا اس میں بالاج کا کوئی قصور نہیں تھا.
خالد ملک کیان کی پٹی کروا لائے تھے بس معمولی سی چوٹ لگی تھی. مگر ثریا بیگم کے لئے یہ معمولی نہیں تھا.
شام کو بڑے ملک صاحب کے گھر آتے ہی انہوں نے ملک سلیم کو رو رو کر ایک کی چار باتیں بنا کر بتائی. جس سے وہ شدید تیش میں آگئے. غصے سے اٹھے اور سروینٹ روم کی طرف بڑھے. باقی سب بھی ان کے پیچھے ہولیے. باہر شیدا گھر جانے کے لئے نکل رہا تھا. ملک صاحب کو غصے میں دیکھ کر رک گیا. بڑے ملک صاحب نے سروینٹ روم کا دروازے کو زور سے پاوں مارا جس سے کمرے کا دروازہ فورا کھل گیا.
" نکالو اس کو باہر. جس تھالی وچ کھا ریا اسے میں چھید کر رہا ہے نمک حرام. " وہ بالاج کی طرف لپکے. ہاجرہ روتے ہوئے بالاج کو پیچھے چھپاتے ہوئے آگے ہوئی.
" بھائی صاحب بچہ ہے اس سے غلطی ہو گئی. معاف کردیں. "
" اس کی تو میں آج جان نکال دوں گا. اس کی ہمت کیسے ہوئی میرے پتر کو ہاتھ لگانے کی. پیچھے ہو توں. " ساتھ ہی انہوں نے ہاجرہ کو پرے کرتے ہوئے بالاج کو مارنا شروع کر دیا.
" آپا ، بھائی .. پلیز بھائی صاحب کو روکیں. "
بالاج کی حالت خراب ہو رہی تھی. " بھائی صاحب پلیز. آپ کو اللہ کا واسطہ بالاج کو مت مارئیں مر جائے گا. " وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی.
" اٹھاو اپنا سامان اور نکلو یہاں سے. " سلیم ملک چلایا.
" بھائی صاحب. اس وقت میں اسے لے کر کہاں جاو گی. میرا تو کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں ہے. "
" ہماری طرف سے جہنم میں جاو. " ثریا بیگم بولی.
" بھائی صاحب پلیز. میں آپ کے پاوں پکڑتی ہوں." وہ ان کے قدموں میں گری.
بالاج بے بسی سے روتے ہوئے ماں کو دیکھ رہا تھا. چھوٹے تایا اور تائی خاموش تماشائی بنے سب دیکھ رہے ہیں. بڑے تایا نے پاوں پیچھے کرتے ہوئے ملک خالد کو حکم صادر کیا. " جب یہ یہاں سے دفع ہو جائے تو اس کمرے کو تالا لگا دینا. " اور چلے گئے. ہاجرہ نے ایک دفعہ پھر خالد ملک کے آگئے ہاتھ جوڑے.
" بھائی صاحب. آپ بڑے بھائی صاحب کو بولیں آج کے بعد کوئی غلطی نہیں ہوگی. اس کی طرف سے میں معافی مانگتی ہوں. "
مگر وہ ہاتھ باندھے کمرے سے باہر آ کھڑے ہوئے. ہاجرہ نے روتے روتے اپنے اور بالاج کے دو چار کپڑے لئے اور اس کمرے سے باہر نکلی. ملک خالد نے کمرے کو تالا لگایا اور چلا گیا. ہاجرہ بالاج کو سہارا دیتے ہوئے اس دہلیز سے باہر نکل رہی تھی. مہک اپنی نم آنکھوں سے کمرے کی کھڑکی سے انہیں گھر سے جاتا دیکھ رہی تھی.
..
---------------------☆☆☆☆☆-----------------------
..
( جاری )
No comments:
Post a Comment