تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
بارھویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Twelveth Episode
---------------------------------------
کیان پورے گھر میں مہک کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو رہا تھا. اس نے مہک کا کمرہ ، کچن ، چچی کا کمرہ ، ہر جگہ دیکھ لینے کے بعد تھک کر لان کا رخ کیا. اسے چھت پر کوئی تھوڑی سی روشنی لیے چلتے ہوئے محسوس ہوا. اس نے آواز دی. مگر مہک نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ وہ اسے لان میں بیٹھا دیکھ چکی تھی. کیان نے یہ سوچتے ہوئے سیل فون نکالا کہ جہاں بھی منہ بنائے بیٹھی ہوگی فون تو ساتھ ہی لے کر گئی ہوگی. اس نے " بندریا " نام کو کال ملائی. سکرین پر " بندر " چمک رہا تھا. مہک نے چکر لگاتے ہوئے اس کی کال کاٹ دی. اس نے پھر سے کال ملائی. مہک نے پھر سے کال کاٹ دی. پھر اس نے میسج کیا. " کدھر ہو یار ؟ "
مہک نے میسج دیکھ کر اگنور کیا. آخر تنگ آکر وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا چھت پر آیا. اسکا شک بلکل صحیح تھا. چھت پر وہی تھی. وہ ہینڈ فری لگائے گانے سننے میں مصروف تھی.
" کب سے تمھیں ڈھونڈ رہا ہوں کال بھی کی اور میسج بھی. مگر تم نے کوئی ریسپونس ہی نہیں کیا ؟ "
کیان نے مہک کے کانوں سے ہینڈ فریز نکالتے ہوئے کہا. وہ اس سے بات کیے بنا چکر لگانے کے لئے مڑی. کیان نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا. " ہوا کیا ہے ؟ "
" میں تم سے ناراض ہوں. "
" ناراض کیوں ہو ؟ ناراض ہونے کی کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے."
" کوئی ایک وجہ ہو تو بتاوں ناں ؟ " ( اس نے شکل بناتے ہوئے کہا.)
" ایسا بھی کیا کر دیا ہے یار میں نے اب ؟ "
" تمھیں خود پتا ہونا چاہیے. " ( وہ اب تیز تیز چکر لگانے لگی تھی. )
" مجھے نہیں پتا. اس لئے تم بتاو کیوں ناراض ہو ؟ "
" تم نے پہلے میرے ساتھ شاپنگ پر جانے سے انکار کیوں کیا تھا ؟ "
" یار شاپنگ پر لے کر تو گیا تھا. "
" سو باتیں سنا کر. " ( وہ چکر لگائے جا رہی تھی. ) " ہم بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں ناں. " ( کیان نے اسے روکتے ہوئے کہا. وہ دونوں ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے. )
" چلو اب بتاو اور کیا وجہ ہے ؟ " ( کیان نے پھر سے بات شروع کی.)
" تم نے جب ڈرائیور والی بات کی تھی تب تم کچھ کہتے کہتے رکے تھے پہلے وہ بات بتاو ؟ "
" تو وہ بات تم ابھی تک دل میں لے کر بیٹھی ہوئی ؟ "
" مجھے کیا ضرورت ہے تمھارے جیسے بندر کی باتیں دل پر لوں ؟ "
" اچھا تو کس کی باتیں لے کر بیٹھی ہو ؟ " ( کیان نے مسکراتے ہوئے کہا. )
" جس کی بھی لے کر بیٹھوں تمھیں کیوں بتاوں ؟ " ( مہک نے بھی سمائل پاس کی.)
" مطلب واقعی کوئی ہے کیا ؟ " ( کیان کے دل میں گھنٹیاں بج رہی تھی. وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا. )
" تمھیں اس سے کیا ؟ "
" مجھی کو تو اس سے مطلب ہے." ( کیان نے دل میں خود سے کہا تھا.)
" ویسے تم مجھے منانے آئے تھے." ( مہک نے چٹکی بجاتے ہوئے کیان کو مخاطب کیا. )
" ہاں ناں. اب بتاو تم کیسے مانو گی ؟ "
" جیسے تم مناو ."
" یہ لو تمھارے لئے. " ( کیان نے ایک خاکی لفافہ جیب سے نکالتے ہوئے کہا. )
" اس میں کیا ہے ؟ "
" کھول کر دیکھ لو. "
مہک نے لفافہ کھول کر دیکھا اس میں گولڈن جھمکے تھے.
" یہ تم نے کب لئے ؟ اور تمھاری چوائس اتنی اچھی کب سے ہو گی ؟ " ( مہک نے حیرانگی سے پوچھا.)
" جب تم منہ بنائے شاپنگ کر رہی تھی.... چوائس تو میری بچپن سے اچھی ہے خود کو ہی دیکھ لو. " ( کیان نے آدھی بات خود سے کہی تھی. )
" یہ واقعی بہت اچھے ہیں. " ( مہک نے خوشی سے کہا. )
" تمھیں پسند آئے کیا ؟ "
" اب اور کیسے بتاو ؟ "
" اچھا اب پھر سے غصہ تو مت کرو. اب تو ناراض نہیں ہو ناں مجھ سے ؟ "
" ان جھمکوں کی وجہ سے تمھیں چھوڑ رہی ہوں. "
کیان نے ہاتھ اٹھا کر " شکر " کیا. مہک نے اسی بات پر اسے ایک زور دار گھوسہ مارا اور اٹھ کر نیچے کی طرف بھاگی وہ بھی اس کے پیچھے آیا.
---------☆----------
پورے کالج میں شور شرابا تھا کوئی پانی سے بچ رہا تھا تو کوئی رنگ بھرے غبارے پکڑے دوسرے طلبا کا شکار کرنے میں تاک لگائے بیٹھا تھا. سیکنڈ ائیر کے طلبا ایک دوسرے کی شرٹس پر کچھ نا کچھ لکھ رہے تھے. مگر بالاج اسے کہیں نظر نہیں آرہا تھا. وہ اس کے گروپ کے سب لڑکوں کو ایک ایک کر کے پوچھ چکی تھی مگر ان میں سے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کدھر ہے ؟ مہک بچ بچا کر لائبریری کی طرف اسے دیکھنے جارہی تھی. اس کی نظر سٹاف روم میں بیٹھے بالاج پر پڑی. وہ خود سے باتیں کررہا تھا. اس نے سٹاف روم کا دروازہ کھولا. بالاج نے پیچھے مڑ کر دیکھا. مہک نے غصہ کرتے ہوئے کہا : " ادھر کیوں چھپ کے بیٹھے ہوئے ہو ؟ "
" تم یہاں کیسے ؟ "
" کب سے تمھیں ڈھونڈ رہی ہوں ؟ "
" چلو اچھا ہوا تم نے مجھے ڈھونڈ لیا مجھے بھی تم سے بات کرنی تھی. "
" اگر بات کرنی تھی تو یوں چھپ کے کیوں بیٹھے ہو ؟ " ( مہک نے ایک کرسی گھسیٹی اوراس کے پاس آکر بیٹھی. )
" مممم مہک. " ( وہ اپنی ساری ہمت اکٹھی کرتے ہوئے اس کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا. )
" بالاج کیا ہوا ؟ " وہ تھوڑا پیچھے ہوئی. بالاج کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے کہاں سے شروع کرے. اس نے بہت اختیاط سے الفاظ کا چناو کرتے ہوئے کہا : " مہک ماما ہمارے بارے میں بات کرنے کے لئے خویلی آنا چاہتی ہیں. "
" ہمارے بارے میں. " ( اس نے دوہرایا تھا.)
" ہاں ہمارے بارے میں. " ( اس نے پھر سے کہا تھا.)
" بالاج لیکن ابھی کیوں ؟ اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ ابھی تو مجھے پڑھنا ہے اور یہ بات تمھیں بھی اچھے سے پتا ہے ڈاکٹر بننا میرا خواب ہے. "
" مہک میں تمھیں پڑھنے سے منع نہیں کر رہا. صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ایک دفعہ گھر میں بات ہو جائے تم میرے نام سے منسوب ہو جاو بس. "
" نہیں بالاج ابھی بات کر کے میں اپنے کرئیر پر فل سٹاپ نہیں لگوانا چاہتی. "
" مہک کیسی باتیں کر رہی ہو تم. میں تمھیں کھونا نہیں چاہتا پلیز. "
" میں مر تو نہیں رہی ہوں. "
" ایسے مت بولو پلیز. اللہ نہ کرے تمھیں کچھ ہو. ( بالاج نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا. )
" میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا اگر تم انتظار کر سکتے ہو تو ٹھیک ہے. ورنہ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے. "
اس نے بالاج کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا. مہک کو اس وقت صرف اپنا کرئیر نظر آرہا تھا بالاج کی محبت کہیں دور صحرا میں گھم ہو رہی تھی. وہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا. مہک نے اس کے سب الفاظ چھین لیے تھے. وہ سٹاف روم سے اٹھ کر باہر آگئی تھی. وہ اسے سپاٹ چہرے سے خود سے دور جاتا دیکھ رہا تھا. جو لڑکی وہاں سے اٹھ کر گئی تھی وہ بالاج کی مہک نہیں ہو سکتی تھی وہ اتنی خود غرض تو کبھی نہیں تھی. اسے اپنے کرئیر کے سامنے بالاج کی محبت کیوں نظر نہیں آئی تھی ؟ بالاج وہی شل بیٹھا رہا.
کالج سے چھٹی ہوئے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا. چاند بڑے پاپا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے بالاج کا انتظار کر رہا تھا. مگر اس کا ابھی تک کوئی اتا پتا نہیں تھا.
" بڑے پاپا میں بھیا کو دیکھ کر آوں ؟ " ( چاند نے بھوک کے مارے کہا تھا.)
" ہاں دیکھو تو آج تمھارا بھائی کدھر رہ گیا ہے ؟ "
چاند گاڑیوں کے رش سے ہوتا ہوا گیٹ کے پاس آیا مگر بالاج ادھر بھی نہیں تھا. وہ کسی سے اس کی کلاس کا پوچھتے ہوئے وہاں بھی دیکھ آیا تھا. وہ پریشان سا بڑے پاپا کے پاس آیا.
" بڑے پاپا بھیا اندر نہیں ہیں. "
" تم نے ٹھیک سے دیکھا ہے کیا ؟ "
برگیڈئیر صاحب بھی فکر مند ہوتے ہوئے گاڑی سے اترے. گارڈ سے پوچھتے ہوئے وہ پرنسپل کے آفس میں آرہے تھے کہ راستے میں بالاج کا ایک دوست انہیں مل گیا. اس نے سلام دعا کے بعد دونوں کو پریشان دیکھتے ہوئے پوچھا : " انکل سب خیریت ہے ناں ؟ "
" ہم کب سے بالاج بیٹے کا انتظار کر رہے ہیں چاند دیکھ کے بھی گیا مگر وہ پتا نہیں کدھر ہے ؟ "
دوست نے انہیں بتایا کہ وہ آج کافی دیر سے انہیں نظر نہیں آیا اور ان کے ساتھ پرنسپل آفس کے طرف چلا گیا. برگیڈئیر صاحب نے پرنسپل صاحب کو ساری سیچوئشن بتائی. پرنسپل نے تسلی دیتے ہوئے کہا : " آپ پریشان نہیں ہو ادھر کہیں کالج میں اہنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوگا."
پرنسپل نے بالاج کے دوست اور چاند کے ساتھ دو گارڈز کو سب کمروں میں دیکھنے کے لئے بھیجا. برگیڈئیر صاحب وہی آفس میں بیٹھے رہے. چاند اور بالاج کا دوست دوڑ دوڑ کر کمرے دیکھ رہے تھے جبکہ گارڈ ٹہلتے ہوئے ان کے پیچھے آرہے تھے. چاند نے سٹاف روم کا دروازہ کھولا تو وہ کچھ دیر کے لئے جیسے سن سا ہو گیا تھا. بالاج کا دوست بھاگتے ہوئے آگے بڑھا.
" بالاج کیا ہوا ہے یار ؟ " بالاج کے دوست سے اسے اٹھاتے ہوئے کہا. اتنے میں گارڈز بھی اندر آگے تھے گارڈ کا کندھا لگے سے چاند اپنی جگہ سے ہلا اور فورا بالاج کی طرف لپکا.
" بھیا. بھیا. " ( چاند نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ملتے ہوئے کہا تھا. )
چاروں نے مل کر اسے سہارا دیتے ہوئے اٹھایا اور آفس کی طرف لائے. چھٹی کا وقت تھا اس لئے بہت کم طلبا و طالبات کالج میں تھے سب اسے دیکھ کر پوچھ رہے تھے. " اسے کیا ہوا ہے ؟ "
پرنسپل آفس کے سامنے ایک جھرمٹ سا بن گیا تھا. ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے گارڈز کے نکلتے ہی سٹوڈنٹس سے انہیں گھیر لیا. اندر برگیڈئیر صاحب اس کی حالت دیکھ کر پریشان تھے. انہوں نے پانی لے کر اسے پلایا اور منہ پر کچھ چھینٹے مارے جس سے اسے تھوڑا ہوش آیا. بالاج کے ہوش میں آنے پر پرنسپل کی بھی جان میں جان آئی تھی. نائمہ باربار برگیڈئیر صاحب کو کال کر رہی تھی لیکن وہ اسکی کال ریسیو نہیں کر رہے تھے. گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے اسے کال ملائی. کال ریسیو کرتے ہی نائمہ نے کہا : " پاپا کب سے آپ کو کالز کر رہی تھی آپ ریسیو کیوں نہیں کر رہے تھے ؟ سب خیریت ہے ناں ؟ "
" ہاں سب خیریت ہے مجھے ایک دوست مل گیا تھا بس اسے کے پاس تھوڑا وقت لگ گیا تھوڑی دیر تک آجاتے ہیں ہم ."
" جلدی آجائیں پاپا میرا دل بہت عجیب سا ہو رہا ہے. "
برگیڈئیر صاحب نے نائمہ کو تسلی دیتے ہوئے فون بند کر دیا. برگیڈئیر صاحب نے گاڑی گھر جانے کی بجائے دوسری طرف موڑی.
" بڑے پاپا ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ " ( بالاج نے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا. بہت دیر کی خاموشی کے بعد اس نے بات کی تھی. )
" ڈاکٹر کے پاس. "
" میں ٹھیک ہوں بڑے پاپا. پلیز مجھے گھر لے جائیں. "
" اگر تم ٹھیک ہوتے تو آج یہ سب نہ ہوتا. "
" کچھ بھی نہیں ہوا تھا بڑے پاپا بس چکر آگئے تھے. "
" بھیا آپ چپ کر کے بیٹھے رہے. " ( چاند نے بھی حصہ لیا تھا.)
برگیڈئیر صاحب اسے چیک اپ کروانے کے بعد گھر لے آئے تھے مگر ان تینوں میں سے کسی نے بھی نائمہ کے سامنے ذکر نہیں کیا تھا.
کالج کے بعد بالاج اور مہک میں کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا. کیان مہک کو انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے روزانہ اکیڈمی لے کر جانے لگا تھا جس سے ان دونوں کی دوستی اور پکی ہو گئی تھی. مہک کا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہو گیا تھا. وہ اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک نئی اڑان بھرنے جا رہی تھی. کیان کا بھی پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا تھا. مہک نے ہوسٹل جانے سے پہلے بالاج کے گھر کال کی مگر اس سے بات نہ ہو سکی. ملک صاحب ان دونوں کو خود لاہور چھوڑنے گئے تھے. مہک اس سفر کے دوران کافی ایکسائیٹڈ تھی کیونکہ وہ پہلی دفعہ ٹرین کا سفر کر رہی تھی جس کی وجہ سے اسے بالاج سے بات نہ کرنے کا جو افسوس تھا وہ بھی بھول گیا تھا. وہ تایا اور کیان کے ساتھ پورا لاہور گھوم کر شام کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سامنے کھڑی تھی. اس کے بعد وہ پڑھائی اور لاہور کی رانائیوں میں کیان کے ساتھ اتنا مگن ہو گئی تھی کہ اسے بالاج کی کبھی یاد ہی نہیں آئی تھی. یا شائد وہ اسے یاد ہی نہیں کرنا چاہتی تھی.
-------☆-------
بالاج نے بھی آرمی کے لئے اپلائی کر دیا تھا. سلیکشن لیٹر آچکا تھا. سب بہت خوش تھے. اسپیشلی بڑے پاپا اب ان کے پک کارنر پر ایک اور خاکی وردی والی تصویر لگنے والی تھی لیکن ماما کچھ اداس ، اداس سی نظر آرہی تھی. وہ اپنا سامان پیک کر رہا تھا جبکہ چاند اس کی مدد کر رہا تھا. نائمہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی.
" چاند تم باہر جاو مجھے بالاج سے کچھ بات کرنی ہے. "
چاند الماری سے کپڑے نکال رہا تھا وہ کپڑے بیڈ پر رکھ کر باہر آگیا. نائمہ بیڈ پر آکر بالاج کے پاس بیٹھ گئی. بالاج بریف کیس سائیڈ پر کرتے ہوئے نائمہ سے مخاطب ہوا : " ماما آپ مجھ سے ناراض ہیں کیا ؟ "
" نہیں بیٹا. مجھے تمھیں ایک بات بتانی تھی." ( اس نے جھجھکتے ہوئے کہا.)
" جی ماما."
" میں نے تم سے ایک بات چھپائی تھی اس کے لئے مجھے معاف کر دینا. "
نائمہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا. بالاج نے اس کے ہاتھوں میں ہاتھ رکھے تھے. کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر سے بولی تھی.
" مہک کی کال آئی تھی. "
" کب ماما ؟ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا ؟" ( اس نے کتنا ہی عرصہ اس کی کال کا انتظار کیا تھا.)
" تم بڑی مشکل سے سنبھلے تھے. میں تمھیں پھر سے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی. "
" مگر ماما... " ( وہ کہتے کہتے رکا تھا. )
وہ ماما کو کیسے بتاتا کہ ان کے نا بتانے سے وہ کس قرب و تکلیف سے گزرا تھا.
" اس وقت ایک ماں ہونے کے ناطے میں خود غرض ہوگئی تھی لیکن مجھے معلوم ہے اس لڑکی کو تم کتنا چاہتے ہو. اس لئے میں مزید تم سے یہ بات چھپانا نہیں چاہتی ہوں لیکن بیٹا ایک بات یاد رکھنا جس نے آپ کو چھوڑنا ہوتا ہے وہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن جو آپ سے نبھانا چاہتے ہیں کیسے بھی حالات کیوں نہ ہو وہ نبھاتے ہیں. اس لئے اب تم اس لڑکی کے لئے خود کو ہلکان مت کرو. "
" ماما میں ٹھیک ہوں اب آپ فکر مت کریں. آپ نے جو بھی کیا میری بہتری کے لئے ہی کیا ہوگا. " ( بالاج نے جود کو سنبھالتے ہوئے کہا تھا. )
" کل تم چلے جاو گے میری دعا ہے کہ اللہ تمھاری سب خواہشات پوری کرے. آمین. " ( نائمہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا. )
" ماما ایک وعدہ کریں گے کیا ؟ "
" بولو بیٹا. "
" اب کبھی بھی اس کی کال آئے تو پلیز اس کو میرا نمبر دے دینا یا اس کا اپنا نمبر لے لیجئے گا. "
" اچھا. یہ سب باتیں چھوڑو اب بتاو تمھاری کتنی پیکینگ رہ گئی ہے ؟ "
نائمہ نے بریف کیس اپنی طرف کرتے ہوئے کہا اور اس کی پیکنگ کرنے لگ گئی. اگلی صبح بڑے پاپا ، نائمہ اور چاند نے بالاج کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے لئے روانہ کیا. اکیڈمی کے اندر نوجوان اپنے پاک وطن کی حفاظت کا خواب لئے داخل ہو رہے تھے. خوشی اور غم کے ملے جلے لمحات تھے. تمام سپوتوں کو تہہ دل سے خوش آمدید کیا گیا تھا. پہلے دن کے ٹرینگ سیشن میں کچھ نوجوان کافی پرجوش تھے اور کچھ کی ہوایاں اڑی ہوئی تھی. ٹرینگ سے تھکے ہارے واپس آکر سب گھوڑے گدھے بیچ کر سو گئے. ایسے ہی ٹرینگ جاری رہی. مگر بالاج ٹرینگ کے دوران بھی مہک کو نہیں بھولا تھا. وہ ایک نام تھا جو اس کی سانس سانس میں رچا بسا تھا. بچپن سے اس نے جسے چاہا تھا جس کا خواب دیکھا تھا وہ اس کو کیسے بھول سکتا تھا.
وہ اکثر خود سے ہی سوال کیا کرتا تھا. " کیا مہک کو میری یاد نہیں آتی ہوگی ؟ وہ مجھے اتنی جلدی بھول گئی ہے کیا ؟ " پھر خود ہی اپنا سر جھٹک دیا کرتا تھا.
---------☆---------
کیان ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا سیل فون ہاتھ میں لیے مہک کی پک کو کب سے دیکھ رہا تھا. اچانک ابا اور چچا چچی کی ہدایت یاد آئی. اس نے فورا سے مہک کا نمبر نکلا اور کال ملائی. لاہور آنے کے بعد اس کا معمول تھا اس سے سونے سے پہلے بات کرنا وہ بہانے سے بھی اس کو کال کر لیا کرتا تھا. بیل جا رہی تھی اس نے کال ریسیو کرتے ہی کہا :
" پہلے سنا تھا شیطان کو یاد کرنے سے شیطان حاضر ہوتے ہیں مگر آجکل تو بندروں نےبھی یہ کام شروع کر دیا ہے. "
" ہائے تم اور مجھے یاد کر رہی تھی. میری اتنی قسمت.. " ( کیان نے لمبی آہ بھری تھی. )
" ہاں ناں. اچھا کیا کررہے تھے ؟ "
" نیشنل جیو گرافی دیکھ رہا تھا. "
" اس پر یقینا تم بندروں کو دیکھ رہے ہو گے. "
" ہاں ناں.. ویسے بندروں کو نہیں ایک ہی بندریا کو دیکھ رہے تھے. "
" اچھا تو مطلب تمھیں بندریا مل گئی. "
" ہاں تم ہو ناں."
" میرے ساتھ ایسی چھچھوری حرکتیں نہ کیا کرو کوجے بندر. "
" ہائے غصہ. "
" اگر تم نے کوئی کام کی بات نہیں کرنی تو میں کال بند کر رہی ہوں. "
" نہیں نہیں. سنو . میں ایسے ہی تمھیں تنگ کر رہا تھا. "
" پورے لاہور میں تمھیں ایک میں ہی ملی ہوں تنگ کرنے کے لئے کیا ؟ "
" اچھا سوری. میں نے یہ پوچھنا تھا صبح کا کیا پلان ہے ؟ گھر جانا ہے یا نہیں ؟ "
" جانا ہے جانا کیوں نہیں ؟ "
" تو بس پھر صبح مجھے جگا دینا."
" یہ ہر ویک اینڈ گھر جانے کے لئے تمھیں میں ہی کیوں جگاوں ؟ "
" مجھے اچھا لگتا ہے ناں میری بندریا. "
" کیانننننننن میں کوئی تمھاری نہیں ہوں. "
" اچھا تو کس کی ہو ؟ "
" اپنے ابا اماں کی.. "
" وہ بھی تو میرے ہیں ."
" .بھاڑ میں جاو."
مہک نے یہ کہتے ہوئے کال کاٹ دی . کیان نے میسج کیا صبح اگر گھر جانا ہے تو 8 بجے مجھے اٹھا دینا. مہک نے ساتھ ہی Ok کا میسج کیا. اور کتاب لے کر بیٹھ گئی.
☆☆☆☆☆☆
( جاری )
No comments:
Post a Comment