Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#13

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
تیرھویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Episode No Thirteen
---------------------------------------
پاک فوج کی توپوں کے رخ دشمن کی طرف مڑتے ہی مکار دشمن نے اپنی خیر منانے کے لئے اپنی توپیں پیچھے ہٹا لی تھی. دشمن شاید یہ بھول چکا تھا کہ پاک فوج کے ہوتے ہوئے وہ ہمارا بال بھی بھانکا نہیں کر سکتا. اب لائن آف کنٹرول پر امن کی فضا تھی. ہر طرف ماحول پر سکون سا تھا البتہ لوگوں کے دلوں میں جنگ کا خوف و دہشت ابھی بھی تھا. لوگ اپنے گھروں میں دوبارہ واپس آچکے تھے. پورے سیالکوٹ شہر میں خاکی وردی پہنے جوان پھر سے نظر آنے لگے تھے. باقی سیکٹرز میں بھی امن تھا. ہسپتال میں مریضوں کی حالت بھی قدرے بہتر ہو رہی تھی ان میں سے ایک بالاج ملک بھی تھا. بالاج نے مہک کی شفٹ ختم ہوتے ہی دوسرے ڈاکٹر کے آتے ہی بڑے پاپا کو بھیج کر خود کو ڈسچارج کروانے پر راضی کروا لیا تھا. کیونکہ وہ اب مزید اس سے بات کئے بنا نہیں رہ پا رہا تھا اگر ایک دو دن اور ہسپتال میں رہتا تو اپنا ضبط کھو بیٹھتا. اس کے فوجی ساتھی ابھی بھی ہسپتال میں تھے. وہ سب کو علیک سلیک کرتے ہوئے ماما کے ساتھ سہارا لیتے ہوئے گاڑی تک پہنچا. بڑے پاپا فارمیسی سے اس کی کچھ میڈیسن لینے گئے تھے. ان کے آتے ہی وہ ہسپال سے نکل آئے.
گھر میں اس کا چہرہ تو اسے نظر نہیں آرہا تھا مگر وہ تھوڑا اطمینان میں تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے معلوم ہو کہ وہ ابھی بھی اس کے انتظار کا روزہ رکھے ہوئے ہے. اور وہ روزہ صرف اسی کے آنے سے کھل سکتا تھا. مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اب اس کی زندگی مہکا نہیں سکتی تھی. سب کچھ جانتے ہوئے اور نہ چاہنے کے باوجوف بھی وہ اس کا انتظار کرنا چاہتا تھا.
بالاج بڑے پاپا کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا جبکہ نائمہ اس کو پھل کاٹ کر دے رہی تھی. تبھی باہر کسی نے گھنٹی بجائی. 
" اس وقت کون آگیا ؟ " ( نائمہ نے کہا. ) 
" میں دیکھتا ہوں. "
برگیڈئیر صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھے. دروازہ کھولتی ہی ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی. انہوں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا.
" Finally you are here Captain Chand Kiyani. "
" Thank you Sir. " 
اس نے بڑے پاپا کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہا تھا اور پھر وہ دونوں خود ہی ہنسنے لگے. چاند دبے پاوں بڑے پاپا کے پیچھے چلتے ہوئے آرہا تھا کیونکہ وہ بالاج اور نائمہ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا. 
" وہ لوگ ایک دو دن تک چکر لگائیں گے. " نائمہ بالاج کو کہہ رہی تھی. اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اس ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتا لیکن ماما کے سامنے وہ کچھ نہیں بول سکتا تھا اس لئے خاموشی سے سن رہا تھا. بڑے پاپا کے داخل ہوتے ہی بالاج نے ان سے پوچھا. 
" بڑے پاپا کون تھا باہر ؟ " 
" پتا نہیں. " 
انہوں نے انجان بنتے ہوئے کہا. وہ دونوں ان کی شکل دیکھنے لگے. تبھی پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز آئی. 
" سر پرائز. " 
بڑے پاپا کے ہٹتے ہی چاند آگے آیا. نائمہ اور بالاج کی چہرے خوشی سے چمک اٹھے تھے. 
" What a pleasant surprise man ? " 
بالاج نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا.
" لیٹے رہو میجر بالاج. " چاند نے آگے بڑھتے ہوئے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا تھا. پھر وہ نائمہ سے ملا تھا.
" تھک گئے ہوگے تم ؟ " 
" تھکا تو نہیں ہوں ماما. بھوک ضرور لگی ہے. " 
" تو تم بیٹھو میں ابھی تمھارے لئے کھانا لگاتی ہوں." 
" آپ سب کھا چکے کیا ؟ " 
" ہم تو کب کا کھا چکے ؟ " 
" مطلب مجھے اکیلے ہی کھانا پڑے گا تو ایسا کریں ماما آپ بھیا کے کمرے میں ہی لے آئیں کھانا. " 
نائمہ کھانا لینے چلی گئی. کھانا کھاتے ہوئے چاند نے نائمہ سے پوچھا : " ویسے ماما میری انٹری سے پہلے کس کی آمد کی بات ہو رہی تھی ؟ " 
" بالاج کے رشتے کے لئے میرے ایک فرینڈ کی فیملی آرہی ہے. " ( نائمہ کی بجائے برگیڈئیر صاحب نے جواب دیا تھا. ) 
" شکر ہے. بڑے پاپا اب کی دفعہ پلیز شادی کر ہی دیں بھیا کی. " ( کیان نے کھانے کا نوالہ لیتے ہوئے کہا. )
" ماما مجھے سے زیادہ جلدی اس موصوف کو ہے تو پہلے اسی کی ہی کر دیں. " ( بالاج نے مسکراتے ہوئے کہا تھا. ) 
" ننن. نہیں مجھے تو کوئی جلدی نہیں مگر آپ کی شادی کے بعد ہی مجھ غریب کے بارے میں بھی کوئی سوچے گا ناں. " ( چاند نے بالاج کو چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا. )
" ویسے فرید صاحب کی دو بیٹیاں ہیں اگر تم دونوں راضی ہو تو میں تم دونوں کی ہی شادی کروا دیتا ہوں. " ( برگیڈئیر صاحب نے تنگ کرتے ہوئے کہا تھا. ) 
" نہیں بڑے پاپا مجھے کوئی جلدی نہیں ہے آپ پہلے بھیا کو ہی بھلی کا بکرا بنائیں. " چاند نے خود کو بچانے کے لئے کہا تھا. اب شادی کے ٹاپک سے ہٹ ملک کی موجودہ صورتحال کی طرف تینوں آگئے تھے. اور آرمی کے موضوع پر بات چھڑتے ہی نائمہ سونے کے لئے چلی گئی کیونکہ اسے پتا تھا.
اب ان تینوں فوجیوں کی خوب محفل جمنے والی تھی. یہ بحث و مباحثہ رات دیر تک جاری رہنے والا تھا. اگر یہ تینوں بیٹھ کر آرمی کے قصوں پر کتابیں لکھ کر چھپواتے تو پاکستان کے سب ہی پبلیشرز کے پاس کسی اور کی کتابوں کو پبلیش کرنے کا وقت ہی نہ ہوتا.
--------☆--------
مہک کو روز کی طرح کیان ہسپتال چھوڑ کر گیا تھا. راونڈ کے دوران بالاج کو نہ پاکر اسے شدید غصہ آرہا تھا. نرس سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو رات کو ہی ڈسچارج ہوکر گھر چلا گیا ہے. مہک نے اس کی فائل اپنے آفس میں منگوائی. اس کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر کی تصویر لے کر اس نےسیل فون بیگ میں رکھ دیا. لیکن اسکا ضمیر اسے جھنجھوڑ رہا تھا.
" تم کیان کے ساتھ غلط کر رہی ہو ڈاکٹر مہک ملک . " مگر دوسرے ہی لمحے بالاج کی محبت اس پر حاوی تھی. " بالاج کے ساتھ بھی تو غلط ہوا تھا." 
" لیکن اب تم کیان کی بیوی ہو. " 
" تو کیا ہوا ؟ بالاج میرا کزن بھی تو ہے اور بات کرنے میں کیا حرج ہے ؟ " 
" تمھیں کیا لگتا ہے جو تم نے اس کے ساتھ کیا بالاج تمھیں معاف کردے گا ؟ " 
" اسے معاف کرنا ہوگا. میں نے یہ سب جان بوجھ کر تھوڑی کیا تھا. " 
" تم بالاج کے چکر میں کیان کو بھی کھو دو گی. " 
" نہیں. " اس نے اپنا سر جھٹکا اور ان خیالات سے باہر آئی.
--------☆---------
نائمہ ملازمہ کے ساتھ مل کر کھانا بنوانے میں مصروف تھی. بڑے پاپا اپنے دوست اور اس کی فیملی کے انتظار میں لان میں کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جبکہ چاند اور بالاج کمرے میں بیٹھے باتوں میں مگن تھے. نائمہ کچن سے نکل کر بالاج کے کمرے کی طرف آئے اور اسے چینج کرنے کہہ خود دوسرے معاملات دیکھنے چلی گئی. مہمان آ چکے تھے. ان کی خوب خاطر تواضع کی جارہی تھی. برگیڈئیر صاحب ، نائمہ اور بالاج بھی مہمانوں کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے. 
" آپ کا بیٹا نظر نہیں آرہا ؟ " ( مہمان خاتون نے پوچھا. ) 
پہلے تو نائمہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ بالاج کو چھوڑ کر دوسرے بیٹے کے بارے میں کیوں پوچھ رہی ہے. اس لئے اس نے اطمینان سے جواب دیا : " وہ سو رہا ہے. "
" ہم جس کے لئے آئے ہیں وہ ابھی تک سو رہا ہے. " برگیڈئیر صاحب کے دوست نے برگیڈئیر صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا. اب بالاج ، ماما اور بڑے پاپا کو ان پر حیرانی ہو رہی تھی. اس لئے برگیڈئیر صاحب نے کہا. " میں کچھ سمجھا نہیں شیراز علی ؟ " 
" اس میں کچھ نہ سمجھنے والی کیا بات ہے یار ہم یہاں تمھارے پوتے کے رشتے کے لئے آئے ہیں. " 
نائمہ اور بالاج بیٹھے ان کی شکل دیکھ رہے تھے.
" مگر میں نے تو تمھیں بڑے پوتے کے لئے کہا تھا. " بڑے پاپا نے کہا.
" تمھارا اصلی تو ایک ہی پوتا ہے. " ( برگیڈئیر صاحب کے دوست نے کہا. 
" میرے دو پوتے ہیں. میں مزید کچھ نہ کہنا چاہتا ہوں اور نہ ہی سننا چاہتا ہوں تم جا سکتے ہوں. " 
" عجیب لوگ ہیں. چلیں اٹھیں یہاں سے. " خاتون مہمان نے اپنے شوہر کو کہا تھا. بالاج نے بڑے پاپا کو اتنے غصے میں پہلی دفعہ دیکھا تھا. نائمہ بھی شدید غصے میں تھی. بالاج نے اب وہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں سمجھا تھا اس لئے وہ یہ کہتے ہوئے لاونج سے اٹھ کر کمرے میں آگیا. " ماما میں کیپٹن کو دیکھتا ہوں. "
ماما اور بڑے پاپا وہی بیٹھے تھے. 
---------☆----------
کیان مہک کو ہسپتال سے لے آیا تھا پورا راستہ اسکا موڈ خراب ہی رہا تھا. کیان کے پوچھنے پر اس نے صرف اتنا کہا تھا. " سر میں درد ہے. " اور پھر سے باہر دیکھنے لگی تھی. کیان ہسپتال آنے سے پہلے ہی ماں کو کھانا لگانے کا کہہ چکا تھا. پورچ میں گاڑی کھڑی کرتے ہی کھانے کی خوشبو نے اس کی بھوک اور بڑھا دی تھی. اب چونکہ حالات بہتر تھے تو تایا گاوں چلے گئے تھے گھر میں شمیم بیگم اور ثریا بیگم تھی. مہک ماں اور تائی کو سلام کرکے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی. 
" اسے کیا ہو گیا ہے ؟ " ( شمیم بیگم نے پیچھے سے کہا. ) 
" چچی اس کی طبیعت خراب ہے. " ( کیان نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا. ) 
" تو کھانا کھا ورنہ طبیعت مزید خراب کرلے گی. " 
" چچی آپ فکر نہیں کریں میں سنبھال لوں گا. آپ کھانا کھا کر اس کے لئے کھانا ڈال دیں مجھے. " 
" جب سے ہم ادھر آئیں اس لڑکی نوں پتا نہیں کی ہو گیا ؟ " ( اب ثریا بیگم نے بھی بیٹے کے سامنے رونا رویا تھا. ) 
" اماں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے آپ کو ایسا لگ رہا ہے. " 
" ایسی بھی کیا طبیعت خراب ہونا کہ ماں اور تائی کے پاس بھی نہ بیٹھ سکے. ہم تو اتنے اتنے بیمار ہوتی تھی پھر بھی گھر کے سارے کام کر لیا کرتی تھی. کیوں شمیم ؟ " 
" جی آپا. " 
کیان نے چپ کرکے کھانا کھانا ہی مناسب سمجھا کیونکہ اسے معلوم تھا اس بحث میں وہ جیت نہیں سکتا تھا.
--------☆----------
" ماما میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا. اب بھی کہہ رہا ہوں. پلیز چھوٹے کی شادی کا سوچیں. " ( بالاج نائمہ کے کمرے میں بیٹھا اسے کہہ رہا تھا. ) 
" بالاج تم میرے بڑے بیٹے ہو. پہلے تمھاری شادی ہوگی پھر چاند کی. "
" ماما یہ بات لوگوں کو سمجھانی مشکل ہے اور رہی بات میری شادی کی تو جب قسمت میں لکھی ہوگی شادی ہوجائے گی. " 
" میں لوگوں کو یہ بات سمجانا بھی نہیں چاہتی. تم میرے بیٹے ہو اور رہو گے. " 
" ماما میں آپ کا ہی بیٹا ہوں. میں اس بات سے انکار نہیں کر رہا. میں آپ کی ہر بات مانتا ہوں تو پلیز آپ بھی میری یہ بات مان لیں بس."
دونوں ماں بیٹا کافی دیر بیٹھے بحث کرتے رہے. بالاج ماں کے کمرے سے نکل کر چاند کے کمرے میں آگیا اور اسے بتایا کہ ماما تمھاری شادی کے لئے مان گئی ہیں. صبح ہونے والی بات ماما نے چاند کو پہلے ہی بتا دی تھی اس لئے بالاج کی شادی کے بارے میں اب اس نے کوئی بات نہیں کی تھی. مگر پھر بھی وہ بضد تھا کہ پہلے تمھاری شادی ہوگی تبھی میں شادی کروں گا. لیکن وہ بھی بالاج تھا. اس نے چاند کو اس بات پر راضی کرنے کے لئے بقول اس کی دوست جسے وہ کافی پسند کرتا تھا ملنا چاہا. چاند نے اپنی دوست کو کال ملائی اور کل کے میٹ اپ کے بارے میں بتایا. 
وہ اگلے دن طے شدہ وقت میں مال میں پہنچ گئے تھے. چاند کی دوست پہلے سے ہی مال میں موجود فوڈکورٹ میں بیٹھی ہوئی تھی. چاند نے تعارف کرواتے ہوئے کہا.
" بھیا یہ حناء ہے. اور ... ( چاند نے اتنا ہی کہا تھا کہ حناء نے خود ہی کہا. " اور یہ میجر بالاج تمھارے بھیا. ایم رائٹ ؟ " ( چاند نے سر ہلایا. ) 
" بہت تعریف سنی ہے آپ کی. یا یوں کہہ لیں ہر دن ایسی کوئی بات نہیں ہوتی جس میں آپ کا ذکر نہ ہو. میرے بھیا ایسے اور میرے بھیا ویسے.. " 
" اچھا مجھے تو اس نے کبھی نہیں بتایا. "
بالاج نے کہا. وہ تینوں بیٹھے باتیں کرنے لگے.
کیان کسی کام سے آوٹ آف سٹیشن گیا ہوا تھا. اس لئے وہ آج اسے ہسپتال سے پک کرنے نہیں آیا تھا. تو مہک نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ گھر جانے کی بجائے مال میں شاپنگ کرنے پہنچ گئی. مہک نے اپنے اور کیان کے لئے کچھ چیزیں لی. اتنے میں ہی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے اس نے فوڈ کورٹ کا رخ کیا. KFC پر کھڑے وہ اپنے آڈر کا ویٹ کررہی تھی. اس کی نظر دوسری طرف بیٹھے بالاج اور حناء پر پڑی. بالاج کو لڑکی کے ساتھ یوں دیکھ کر اسے جھٹکا سا لگا تھا. وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان دونوں کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی. مہک کو دیکھ کر بالاج کے کانوں میں شیخ احمد جام چشتی کی غزل کا ایک شعر گونجنے لگا.
دل خورد زخمے ز دیدہ خوں چکد
ایں چنیں تیر از کمانے دیگر است
" تو تم اس لڑکی کی وجہ سے مجھے اگنور کررہے تھے ؟ " 
حناء نے بالاج کی شکل دیکھتے ہوئے کہا. 
" Excuse me. " 
"زیادہ معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے. میرے بارے میں اس نے بتایا تو ہوگا. " 
وہ اب چلائی تھی. بالاج اور حناء کھڑے ہوگئے تھے. آس پاس کے لوگ ان تینوں کو دیکھ رہے تھے.
" بھیا یہ کون ہیں ؟ " 
حناء کے منہ سے بھیا سن کر وہ اور تیش میں آگئی تھی." اوہو.. میرے آتے ہی بھیا بن گیا اب یہ تمھارا. "
" مہک یہاں خود کا اور میرا تماشہ نہیں بناو. " 
" تماشہ مائی فٹ. " 
وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی. اب بھوک پیاس سب ختم ہوگئی تھی وہ ایلیوئٹر سے نیچے اترتے ہوئے بھی اس کو دیکھ رہی تھی. باہر آکر رکشہ لیتے ہوئے اسے اب اپنے کیے پر شرمندگی ہو رہی تھی.
اتنے میں چاند بھی آرڈر لے کر آگیا تھا. بالاج اور حناء کے رنگ اڑے ہوئے تھے اور سب کو اپنے ٹیبل کی طرف متوجہ دیکھ کر چاند تھوڑا پریشان ہوا. 
" Is every thing ok ? " 
حناء اور بالاج نے اسے سب بتایا. چاند نے حناء کو جواب میں صرف اتنا کہا تھا. " چھوڑو اسے. تم دونوں کھانا کھاو. "
بالاج کو حناء کافی پسند آئی تھی. چند ہی دنوں میں اس نے ماما اور بڑے پاپا کو حناء کے گھر چاند اور حناء کے رشتے کی بات کرنے کے لئے بھیج دیا تھا اور دونوں طرف بات پکی ہوگئی تھی. جس پر چاند کافی خوش تھا. بالاج اور چاند اب اپنی اپنی ڈیوٹی پر دوبارہ چلے گئے تھے. 
-------☆☆☆☆☆--------

( جاری )

No comments:

Post a Comment