تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
گیارھویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Eleventh Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
اب بالاج اور مہک کالج میں اکثر اکٹھے پائے جاتے تھے. کلاس کے فورا بعد نظریں ایک دوسرے کے تعقب میں ہوتی تھی. ان دونوں میں باقاعدہ الفاظ کا کوئی اظہار نہیں ہوا تھا لیکن ان کا تعلق دوستی سے بڑھ کر تھا. بریک ہوتے ہی بالاج کینٹین سے کولڈ ڈرنکس کہنیوں میں لگائے ، سموسے اور چاٹ دونوں ہاتھوں میں پکڑے لان میں بیٹھی مہک کے پاس آیا. اس سے پہلے کے بالاج اسے چیزیں پکڑانے کے لئے ہاتھ آگے کرتا مہک نے سیل فون کان کو لگائے انگلی سے اسے چپ کرنے کا اشارہ کیا. بالاج نے مشکل سے چیزیں نیچے رکھی اور مہک کے پاس بیٹھا باتیں سننے لگا. کال ختم ہوتے ہی بالاج نے پہلا سوال کیا. " کون تھا ؟ "
" وہ ابو کی کال آئی تھی. ابا ڈرائیور کے ساتھ کسی دوست سے ملنے ڈسکہ گئے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ کیان لینے آئے گا. "
" اچھا. " ( بالاج کیان کا نام سنتے ہوئے بالاج نے صرف اتنا ہی کہا تھا. )
" منہ کیوں بنا رہے ہو ؟ "
" میں کیوں منہ بناوں گا ؟ " ( بالاج نے کین کھولتے ہوئے کہا. )
" لگ تو رہا ہے ؟ "
" کیسے ؟ "
" کیان جو مجھے لینے آرہا ہے اس لئے منہ بنا رہے ہو. "
" مہک میں نے کوئی منہ نہیں بنایا ہے یہ کھاو. " ( اس نے چاٹ کی پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا. )
" پکا ؟ " ( مہک نے سموسہ کھاتے ہوئے کہا. )
" ایک بات پوچھوں ." ( بالاج نے کچھ سوچتے ہوئے کہا. )
" ہوں ." ( مہک نے سموسہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا. )
" ہم دونوں میں سے کون تمھارے لئے اہم ہے ؟ " ( اس نے کین نیچے رکھتے ہوئے کہا.)
" تم دونوں ہی اہم ہو میرے لئے. "
" میں نے کسی ایک کا پوچھا ہے. "
" کیا تمھیں پتا ہے ؟ " ( مہک نے بات بدلتے ہوئے کہا.)
" نہیں تم بتاو گی تو معلوم ہوگا. لیکن جو بھی بتانا ہے بعد میں بتانا پہلے میرے سوال کا جواب دو. "
" اس کا جواب دے رہی ہوں. تمھارا اپنا مقام ہے اور اس کا اپنا. تم اسپیشل ہو اور وہ...." ( تھوڑی دیر کی خاموشی کی بعد وہ بولتے بولتے رکی تھی.)
" اور وہ کیا ؟ " ( بالاج نے پوچھا. )
" وہ صرف کزن ہے."
" کزن تو میں بھی ہوں. " ( اس نے یاد دلاتے ہوئے کہا.)
" ہاں تم بھی ہو. میں نے کب انکار کیا اس بات سے ؟ "
" تو پھر اس میں اور مجھ میں کیا فرق ہے ؟ "
" تم کون سی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو ؟ یہ کھول کے دو." ( مہک نے کین آگے بڑھایا.)
" بات بدلنا کوئی تم سے سیکھے. " ( بالاج نے اسے کین کھول کر دیتے ہوئے کہا. )
" اچھا. " ( اس نے منہ بناتے ہوئے کہا. )
اتنے میں بیل بجی اور وہ دونوں اٹھ کر اپنی اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئے. چھٹی کے وقت مہک اپنا بیگ کندھے پر لٹکائے کتاب ہاتھ میں پکڑے بالاج کی کلاس کے باہر کھڑی اس کا انتظار کرنے لگی. پچھلی قطار کتابیں بند کر چکی تھی لیکن سامنے بیٹھے سٹوڈنٹس پروفیسر کا لیکچر چپ چاپ سن رہے تھے ان میں سے ایک بالاج بھی تھا. مہک کلاس روم کے باہر کھڑی باربار اندر دیکھ رہی تھی اسے پروفیسر پر شدید غصہ آرہا تھا. بالاج کا پورا دھیان لیکچر کی طرف تھا. پروفیسر نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتے ہوئے کتاب بند کیا اور کمرے سے باہر نکلے. مہک نے " سلام " کیا.
" وعلیکم سلام. مہک آپ یہاں ؟ " ( پروفیسر نے دروازے میں کھڑے عینک تھوڑی نیچے کرتے ہوئے کہا. )
" جی سر. وہ کزن کو لینے آئی تھی." ( مہک نے منہ بناتے ہوئے کہا. ) پروفیسر نے دروازے سے پرے ہوتے ہوئے اسے ہاتھ سے اندر جانے کا اشارہ کیا اور خود سٹاف روم کی طرف چلے گئے. بالاج بیگ پکڑتے ہوئے چپ چاپ اس کے پاس آکر کھڑا ہو گیا.
" چلیں." مہک نے کہا. وہ جواب دئیے بغیر اس کے ساتھ چلنے لگا تھا. گیٹ سے پہلے اس نے کہا. " اب تم جاو. "
" کیوں ؟ " ( مہک نے پوچھا.)
" تمھارا کزن آ گیا ہوگا. "
" تم نے تو بات دل پر ہی لے لی. " ( مہک نے کتاب اسے کندھے پر مارتے ہوئے کہا.)
" نہیں. " ( وہ تھوڑا پیچھے ہوا. )
" ہاں. " اتنے میں مہک کے سیل فون کی بیل بجھی. سکرین پر " بندر " چمک رہا تھا.
" میں چلتا ہوں." ( اس نے سیل فون دیکھتے ہوئے کہا. )
" رکو." ( اس نے سیل فون کان کو لگاتے ہوئے کہا. )
" کدھر ہو یار ؟ " ( کیان نے اس کے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا. "
" کالج ." ( مہک نے جواب دیا.)
" وہ تو مجھے پتا ہے. میں کب سے کالج کے گیٹ کے پاس کھڑا ہوں. جلدی آو. " ( اس نے غصہ کرتے ہوئے کہا. )
" اچھا بس پانچ منٹ میں آرہی ہوں." ( اس نے کال بند کرتے ہوئے کہا.)
" اب تم جاو. "
" تمھارا پھر سے منہ بن گیا کیا ؟ "
" تمھیں ہر بار ایسا کیوں لگتا ہے ؟ "
" کیونکہ تم ری ایکٹ ہی ایسے کرتے ہو. "
" کیسے ؟ "
" پھر بتاوں گی. ابھی فی الحال مجھے دیر ہو رہی ہے. تو میں جاوں ؟ "
" اوکے. "
وہ اسے جاتا دیکھ رہا تھا. وہ کیان کے ساتھ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی تھی اور وہ وہیں کھڑا تھا.
گھر آکر بالاج سارا وقت پریشان سا رہا. نائمہ کے پوچھنے پر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا.
" ماما کچھ بھی نہیں ہوا ہے یہ آپ کا وہم ہے. " نائمہ بھی مطمئن سی ہو گی کہ واقعی اس کا وہم ہوگا. رات بھی بالاج یوں ہی بے چین سا رہا لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ سو نہیں پا رہا تھا یہاں تک کے فجر کی ازانیں اس کے کانوں میں گونجنے لگی. اس نے اپنے کمرے میں ہی نماز پڑھی مگر پھر بھی دل بے چین تھا. وہ جائے نماز سے اٹھا اور ماما کے کمرے کی طرف آگیا. ان کے کمرے کی بتی جل رہی تھی وہ دروازہ کھولتے ہوئے اندر آگیا. نائمہ دعا کر رہی تھی. اس کو دیکھ کر حیران سی ہوئی. اس نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے پوچھا : " بالاج بیٹا سب خیریت ہے کیا ؟ "
" جی ماما. آپ سے بات کرنی تھی. "
" تمھاری طبیعت ٹھیک ہے ناں. " ( اس نے پریشان ہوتے ہوئے بالاج کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چیک کرتے ہوئے کہا. )
" جی ماما میں بلکل ٹھیک ہوں. "
" لگ نہیں رہے. ایسی کونسی بات ہے جو تم اس وقت کرنا چاہ رہے ہو ؟ "
" ماما مجھے آپ کی ہیلپ چاہیئے. کچھ ٹائم بعد کالج ختم ہو جائے گا." ( اس کے بعد خاموشی اختیار کی گئی. )
" ہوں. "
"تو بڑے پاپا اور میری بھی یہی خواہش ہے کہ میں آرمی جوائن کر لوں مگر میں اس سے پہلے چاہتا ہوں کہ آپ چاچا سے بات کریں. "
" کس بارے میں ؟ " ( نائمہ کچھ سمجھی نہیں تھی.)
" مہک کے بارے میں. " ( اس نے ججھکتے ہوئے کہا تھا. )
" بیٹا میں بات کرلوں مگر ایک بیٹی کے باپ ہونے کے ناطے انہیں کچھ خدشات ہوں گے. اور میرا خیال ہے کہ ان میں سے سب سے پہلا وہ تمھاری جاب کے بارے میں پوچھیں گے. کیونکہ ہر باپ کو یہی فکر ہوتی ہے کہ جس گھر ان کی بیٹی جارہی ہے اسے وہاں کوئی تنگی نہ ہو. "
" ماما آپ کی باتیں ٹھیک ہیں مگر آپ ایک دفعہ میرے لئے بات تو کرلیں. "
" بیٹا تمھاری ڈگری ختم ہوتے ہی میں اور بڑے پاپا ان کے گھر چلے جائیں گے. مگر اس سے پہلے تمھیں مہک سے ایک دفعہ اس بارے میں بات کرنی ہوگی تاکہ اس کی رائے بھی معلوم ہو سکے. "
" ماما میں کل ہی اس سے بات کر لوں گا. "
" لیکن یہ بات کرتے ہوئے خیال رکھنا کہ کسی کا بھی دل نہ دکھے. "
" جی ماما. "
" اب جا کر سو جاو. " ( نائمہ نےشفقت سے اس کے سر پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا. اور وہ ایک اچھے فرمانبردار بیٹے کی طرح " جی " کہتے ہوئے اپنے کمرے میں آکر سکون کی نیند سو گیا جہاں چاند پہلے سے ہی گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا.
---------☆----------
ملک خویلی میں سب بڑے سورج طلوع ہوتے ہی روز کی طرح اٹھ گے تھے جبکہ کیان اور مہک اتوار کے دن اپنی مرضی سے جاگتے تھے. ناشتہ کرنے کے بعد چاروں لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے. تبھی سلیم ملک نے خالد ملک سے پوچھا. " کل تم کسی دوست کی طرف گئے ہوئے تھے سب خیریت تھی کیا ؟ "
" جی بھائی صاحب. رات میں بات کرنے آپ کے کمرے میں آیا تھا مگر آپ سو چکے تھے اس لئے نہیں کر سکا. "
" ہاں بولو کیا بات ہے ؟ "
" مہک کا کالج اب ختم ہونے کو ہے اور وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے ڈاکٹر بننا چاہتی ہے. تو میں چاہتا ہوں اس سے پہلے اس کو کسی سے منسوب کر دیا جائے تو شفیق تھا ناں اپنا جوہ ڈسکہ شفٹ ہو گیا اسکا بیٹا بھی ڈاکٹر بن رہا ہے تو اس نے مجھے کھانے پر دعوت دی. "
" مہک کے رشتے کا شفیق سے کیا تعلق. " ( شمیم بیگم نے پوچھا. )
" اس کا بیٹا ، گھر بھار سب پسند آگیا مجھے. اچھے لوگ ہیں. اس نے مہک کے لئے رشتہ مانگا تھا اسی سلسلے میں اس کے گھر گیا تھا. " ( خالد ملک نے سب کو بتایا. )
" لیکن یار خالد جب رشتہ گھر وچ موجود ہے تو باہر کیوں منہ مارتے پھرے بندہ. " ( سلیم ملک نے مونچھوں کو ہاتھ مارتے ہوئے کہا. )
" میں سمجھا نہیں بھائی صاحب. "
" اس میں نہ سمجھنے والی کیا بات ہے بھلا. کیان اور مہک ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں. ساتھ کھیڈے نے. شفیق سے رشتے کی بات کرنے دی کوئی ضرورت نہیں ہے. " ( سلیم ملک نے جیسے چھوٹے بھائی کو حکم دے دیا ہو.)
" بھائی صاحب اس سے بڑھ کے اور کیا ہوگا ؟ ہماری بیٹی ہماری نظروں کے سامنے ہمارے ساتھ ہمارے پاس رہے گی. " ( شمیم بیگم نے خوشی سے کہا. )
" میں نے پہلے یہ بات اس لئے نہیں کی تھی کہ بچے ابھی پڑھ رہے ہیں اور اس طرح ان کا دھیان پڑھائی سے ہٹ نہ جائے. ورنہ مہک اور کیان میرے ہمیشہ سے لاڈلے رہے ہیں تو تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں مہک کو کسی اور کے گھر جانے دوں گا اور کیان کے لئے باہر سے کوئی لڑکی لا کر اس خویلی کے ٹکڑے کروالوں. "
ثریا بیگم کا اس بات پر منہ بن گیا تھا اس لئے وہ اس سارے معاملے میں خاموش رہی تھی اور غصے سے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آگئے تھی. مہک اور کیان اٹھ گئے تھے ان کے لئے برنچ تیار ہو چکا تھا. کیان برنچ کرنے کے بعد اما ابا کے کمرے کی طرف گیا. وہ دروازہ کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے رکا.
" آپ نے مہک اور کیان کی شادی کا اکیلے کیسے فیصلہ کر لیا. "
ثریا بیگم سلیم ملک کو کہہ رہی تھی. کیان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا. جو اس نے سنا تھا وہ اپنے اور مہک کے بارے میں سنا تھا. اس کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے. اس کا دل کر رہا تھا کہ وہی ڈانس کرنا شروع کر دے. اس کے تو جیسے من کی مراد پوری ہو گئ تھی. وہ اب کچھ اور سننا ہی نہیں چاہتا تھا جو اس نے سن لیا تھا اس کی زندگی بدلنے کے لئے کافی تھا. وہ الٹے پاوں وہاں سے مڑا. مگر ثریا بیگم ابھی بھی چلا رہی تھی. " کیان میرا بھی بیٹا ہے میں نے سوچا تھا اپنے اکلوتے بھائی کی بیٹی کو بیاہ کر اپنے گھر لاوں گی مگر تمھیں تو اپنے بھائی کے سامنے کوئی نظر ہی نہیں آتا ہے. "
" پاگل عورت. تمھارے بھائی کے پاس کیا ہے جو اس کی بیٹی میں اپنے گھر لے آوں. "
" اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے میرے بھائی کے پاس. "
" مجھے پتا ہے جو سب کچھ ہے اس کے پاس . تمھارے پاگل پن کے چکر میں میں ساری زمین جائیداد کا بٹوارہ کروا دوں کیا ؟ مہک اور کیان کی شادی ہوجائے گی تو مہک کی بھی ساری زمین کیان کی ہی ہوگی. تمھیں پتا ہے مہک کا حصہ کیان کے برابر ہے اور میں ایسا کبھی ہونے نہیں دوں گا کہ وہ حصہ میرے بیٹے کے سوا کسی اور کو ملے. "
یہ سب باتیں سن کر ثریا بیگم پھر سے خاموش ہوگئی تھی لیکن اب اسے سلیم ملک کی بجائے مہک پر غصہ آرہا تھا.
----------☆-----------
" امی اسے بندر کو کہیں مجھے کینٹ لے کر جائے." مہک کیان کو صوفے سے اٹھاتے ہوئے ماں سے کہہ رہی تھی.
" بیٹا تمیز سے بات کیا کرو." شمیم بیگم نے مہک کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا. کیان یہ بات سن کر پھر سے خوش ہوا.
" ہاں چچی اسے کہیں تمیز سے بات کیا کرے مجھ سے. "
" کیوں تم عرش سے اترے ہو کیا ؟ " ( مہک نے کیان کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا. )
" عرش سے اترا ہوں یا نہیں یہ تو پتا نہیں مگر فی الحال تم نے میرے ساتھ شاپنگ ضرور کرنے جانا ہے اس لئے سوچ لو. "
" اب تم مجھے بلیک میل کرو گے کیا ؟ ٹھیک ہے مت جاو. میں اکیلے چلی جاتی ہوں." ( وہ شولڈر بیگ کندھے پر لٹکائے صوفے سے اٹھی. )
" کیان بیٹا جاو اس کے ساتھ. دیکھو کہیں سچ میں اکیلی نہ چلی جائے. "
" چچی فکر نہ کریں اکیلی کہیں نہیں جاتی ہے. اسے کونسی ڈرائیونگ آتی ہے ؟ "
کیان لاونج سے اٹھتے ہوئے اسے پیچھے آیا تھا. وہ پورچ میں ہاتھ باندھے غصے سے کھڑی تھی.
" تم گئی نہیں ابھی تک ؟ "
کیان نے تنگ کرتے ہوئے کہا. وہ منہ بنائے ویسے ہی کھڑی رہی. کیان نے گاڑی میں بیٹھا گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے پھر سے کہا : " چلو اب بیٹھو بھی. "
اس نے بیک سیٹ کا کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا. " اسے تو کھولو پہلے. "
کیان نے نو کا اشارہ کرتے ہوئے کہا : " فرنٹ سیٹ پر بیٹھو گی آج سے تم ."
" کیوں " ( مہک نے غصے سے کہا )
" کیوں کہ میں تمھارا ڈرائیور نہیں ہوں تمھارا.... " ( وہ کہتے کہتے رکا. )
" کیا ؟ "
" کچھ نہیں. چلو آو اب. " اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا. مہک منہ بنائے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی. شاپنگ کرتے ہوئے بھی اس نے کیان سے کوئی بات نہیں کی تھی. وہ واپسی پر بھی چپ بیٹھی ہوئی. آخر تنگ آکر کیان نے فاسٹ میوزک لگایا یہ جانتے ہوئے بھی کہ مہک کو فاسٹ میوزک سے سخت چڑ تھی. مہک نے کچھ دیر برداشت کیا پھر تنگ آکر اس نے میوزک بند کیا. کیان نے پھر سے آن کیا. کیونکہ اسے معلوم تھا اب وہ بنا کسی وجہ کے بات نہیں کرے گی. مہک نے گانا چینج کیا.
" قسم سے ایسے لگ رہا ہے جیسے ابھی ابھی میرا بریک اپ ہوا ہے. "
کیان نے اسے دیکھتے ہوئے گانا پھر سے چینج کرتے ہوئے کہا تھا.مہک نے پھر سے وہی گانا لگا دیا. کیان نے پھر سے چینج کیا. مہک نے گانا بند کر کے بچوں کی طرح بٹن پر ہاتھ رکھ دیا اور گھر آنے تک ایسے ہی ہاتھ رکھے رکھا. گھر آکر اس نے ماں کو اپنے کپڑے دکھاتے ہوئے بھی کیان کو پورا پورا اگنور کیا.
----☆☆☆☆☆----
( جاری )
..
No comments:
Post a Comment