#وحشتِ عشق
#بقلم رمشاء مہناز
#قسط نمبر 4
(Don't copy without any permission)
وہ لوگ تیار ہو کہ آزر کے ماموں مامی کے گھر پہنچے تو وہ لوگ پہلے سے ہی ان کے استقبال کے لئے موجود تھے سب خوشگوار موڈ میں بیٹھے باتیں باتیں کر رہے تھے برہان کی نگاہیں بار بار بھٹک کے شزرا کے چہرے پہ جاٹکتیں جانے اس میں ایسی کون سی کشش تھی کہ اس کا دل بار بار اس کی طرف کھینچا چلا جا رہا تھا شزرا اس سے بے نیاز سویرا اور منال کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی اس کی چوڑیوں کی کھنک برہان کا دل کھینچے چلے جا رہی تھی اس خود بھی اپنی کیفیت پہ حیرت ہوئی وہ دل پھینک مردوں میں سے ہر گز نہیں تھا مگر شزرا میں کچھ خاص تھا ایک بار دیکھو تو بار بار دیکھنے کی تمنا دل میں جاگ رہی تھی۔برہان کا شزرا کر دیکھنا آزر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھا وہ بمشکل خود پہ ضبط کئے وہاں بیٹھے تھے ورنہ ان کاخود پہ بس نہیں چل رہا تھا وہ بار بار بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے وہ شزرا کو وہاں سے غائب کردینا چاہتے وہ چاہتے تھے اپنی شزرا کو دنیا کی نگاہوں سے چھپا لیں مگر کس حق سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
یہ حق تو شزرا نے انہیں دینا تھا مگر وہی اس سب سے بے نیاز تھی اب آزر کو شزرا پہ بھی غصہ آنے لگا مگر یہاں وہ کوئی تماشا نہیں چاہتے تھے۔
کچھ دیر بعد کھانے کا دور چلا کھانے سے فارغ ہو کر وہ لوگ جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
منال اور شزرا سویرا کے روم میں تھیں سویرا انہیں اپنی پینٹنگز دیکھانے لے گئی تھی۔
تائی امی نے دونوں کو آواز دی تو دونوں نیچے جانے کے لئے روم سے نکل آئیں منال اور سویرا باتیں کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں جبکہ شزرا گھر میں لگی پینٹنگز کا محویت سے تک رہی تھی ایک پینٹنگ کے سامنے وہ جا کے رک گئی وہ پینٹنگ اپنی مثال آپ تھی بلاشبہ سویرا ایک بہترین پینٹر تھی۔
"آپ کو پینٹنگز پسند ہیں؟" برہان کی آواز نے اس کی محویت کو توڑا۔
"جی" اس نے یک لفظی جواب دیا.
"مجھے بھی بہت پسند ہیں۔۔۔یہ سب سویرا کے ہاتھ کہ پینٹنگز ہیں" برہان نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا۔
"جی سویرا نے بتایا ابھی۔۔۔۔وہ بہت اچھی پینٹر ہیں" شزرا نے مسکراتے ہوئے سویرا کی تعریف کی۔
"شزرا۔۔۔۔۔۔!!!" آزر نے سیڑھیاں چڑھتے شزرا کو مخاطب کیا شزرا نے پیچھے پلٹ کے دیکھا تو آزر تیوریوں پہ بل ڈالے اوپر چڑھ چکے تھے۔
"سب نیچے ویٹ کر رہے ہیں اور تم یہاں کھڑی ہو" انہوں نے برہان کو نظر انداز کر کے شزرا سے کہا۔
"جی میں بس آرہی تھی" شزرا کو ان کا لہجہ عجیب سا لگا۔
"چلو" آزر سے پورے حق سے شزرا کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کہ نیچے چلے گئے اپنے اس رویے سے وہ برہان کو بن کہے بہت کچھ جتا چکے تھے۔
پورے راستے وہ بہت خاموش خاموش سے تھے گھر آکے بھی سیدھے اپنے روم میں جانے لگے جب تائی امی نے انہیں مخاطب کیا۔
"آزر بیٹا کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے" تائی امی نے ان کی حالت بھانپتے ہوئے پریشانی سے پوچھا۔
"جی امی ٹھیک ہے بس سر میں تھوڑا درد ہے آرام کروں گا تو صحیح ہو جائے گا" آزر نے دو انگلیوں سے اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے کہا۔
"شزرا جاؤ بیٹا آذر کو کافی بنا دو" تائی امی نے شزرا کو مخاطب کیا جو آرام سے صوفے پہ بیٹھی تھی آزر نے ایک نظر شزرا کی طرف دیکھا اور اپنے روم میں چلے گئے۔
کچھ دیر بعد شزرا آزر کے روم میں کافی لے کہ گئی تو روم میں اندھیرا چھایا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کہ لائٹ کھولی سامنے بیڈ پہ ہی آزر آڑھے ترچھے سے لیٹے تھے آزر نے گردن گھما کہ اس کی طرف دیکھا اور اٹھ کہ بیٹھ گئے۔
شزرا نے کافی ان کی طرف بڑھائی مگر انہوں نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔
"طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟" شزرا کے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا آزر کی سرخ آنکھیں شدید سر درد کا پتا دے رہی تھیں۔
"میں ٹھیک نہیں ہوں" انہوں نے سر جھکائے کہا۔
"کیا ہوا ہے؟ بتائیں مجھے" شزرا نے ان کا چہرہ اپنی طرف کرتے نرمی سے پوچھا ان کے آسودہ چہرے پہ ایک بے چینی سی تھی آزر نے پل بھر کو جھانک کہ اس کی گہری جھیل سی آنکھوں میں دیکھا وہاں شاید محبت کا سمندر موجزن تھا۔
"بس تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں" آزر نے اپنا سر اس کے کندھے پہ رکھتے کہا پل بھر کو وہ ساکت ہوئی تھی یہ شخص اسے اپنانا چاہتا تھا دنیا سے چھپانا چاہتا تھا پھر کیوں وہ اس کی محبت قبول کرنے سے ڈرتی تھی کیوں وہ اسے ہی قبول نہیں کر پارہی تھی کیا چیز تھی جو اسے روک رہی تھی وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
"میں یہیں ہوں آزر" وہ صرف اتنا ہی بول سکی آزر نے سر اٹھا کہ اسے دیکھا۔
"اسے میں محبت کا اقرار سمجھوں"پتا نہیں وہ پوچھ رہے تھے یا بتا رہے تھے مگر جو بھی تھا وہ صحیح سمجھے تھے۔
شزرا خاموش رہی تو آزر بھی خاموش تھے۔
"آپ کی کافی ٹھندی ہورہی ہے" شزرا نے ان کی توجہ کافی کی جانب مبذول کروائی۔
"ہہہم" وہ سیدھے ہو کہ بیٹھ گئے اور کافی کا مگ لبوں سے لگا لیا۔
کافی پینے کے بعد شزرا انہیں سردرد کی میڈیسن دے کہ روم سے باہر آگئی.
وہ سونے لیٹی تو نیند بھی اس سے خفا ہو گئی کافی دیر تک وہ کروٹیں بدلتی رہی وہ جتنا سونے کی کوشش کرتی نیند اتنا ہی اس سے دور بھاگ رہی تھی۔
آج کل تو نیندیں بھی اس پہ مہربان نہ تھیں۔
عجیب بے چین سی کیفیت تھی وہ خود بھی اپنی حالت نہیں سمجھ پا رہی تھی۔
تھک ہار کے وہ اٹھی اور منال کے روم کی جانب بڑھی اس نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو دروازہ بناء کسی آواز کے کھلتا چلا گیا۔
کمرے میں نائٹ بلب روشن تھا منال شاید سو رہی تھی وہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر پلٹ کے آنے لگی تو اس اندھیرے میں اس کی نظر منال کے برابر میں رکھی کھلی ڈائری پہ پڑی وہ دھیرے سے آگے بڑھی اور کھلی ڈائری بند کر کے سائڈ ٹیبل پہ رکھنے لگی مگر بند کرتے ہوئے اس کی نظر شاید آزر کے نام پہ پڑی تھی جو اس ڈائری میں لکھا تھا اس نے اپنا وہم سمجھا اور ڈائری واپس رکھنے لگی مگر کچھ سوچ کے وہ ٹھٹھک گئی اور ڈائری کھول لی۔
ڈائری میں جگہ جگہ آزر کا نام بکھرا پڑا تھا وہ اس اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے آزر کے نام کے جگمگاتے لفظوں کو دیکھ رہی تھی شاید سانسیں ساکن ہوئی تھیں وہ کانپتے ہاتھوں سے ورق پلٹ رہی تھی جسم میں جیسے جان ختم ہو گئی تھی وہ کبھی سوئی منال کو دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑی ڈائری کو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا سوچے کیا سمجھے اس کی دھڑکن تیز اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ واضح تھی یہ خواب تھا یا حقیقت وہ بے یقین ہوئی۔۔۔۔۔۔۔!!!
اگر یہ حقیقت ہے تو یہ حقیقت اس کی روح کھینچ رہی تھی اس کا ویران چہرہ اس کے اندر کی اذیت بتا رہا تھا چہرے پہ تاریک سائے لہرا رہے تھے ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کے بے مول ہوا تھا اس کے ہاتھ بے جان ہو کہ پہلو میں گرے ڈائری چھوٹ کے فرش پہ گر گئی وہ بے جان مجسمہ بنی کھڑی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ زرا سنبھلی تو اس نے فرش سے ڈائری اٹھائی اور وہاں سے اپنے روم میں آگئی۔
مگر روم میں آتے ہی صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا وہ ٹھنڈے فرش پہ بیٹھتی چلی گئی آنسو قطار در قطار آنکھوں سے بہہ رہے تھے مگر لب خاموش سے تھے۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے ڈائری اٹھائی اس کا ایک کھلا صفحہ اس کے سامنے تھا شاید وہ صفحہ جو منال لکھتے لکھتے سو گئی تھی۔
اس نے برستی آنکھوں سے وہ پڑھنا شروع کیا۔
"میں نہیں جانتی مجھے آپ سے کب محبت ہوئی مگر جب سے یہ احساس دل میں جاگا ہے نہ مجھے دنیا خوبصورت لگنے لگی میں خوش رہنے لگی مجھے جینے کی وجہ سمجھ آنے لگی،یہ احساس بہت خوبصوربت ہے کسی کو چاہنا اور چاہتے ہی چلے جانا میں نہیں جانتی آپ کو مجھ سے محبت ہے یا نہیں،آپ کے دل میں میرے لئے کوئی جگہ ہے بھی یا نہیں مگر میں صرف یہ جانتی ہوں میری کل کائنات آپ ہیں اور یہ احساس ہر احساس پہ بھاری ہے میں لفظوں میں شاید بیاں نہ کر سکوں اپنی محبت مگر جو محبت میں نے آپ سے کی ہے وہ کبھی عیاں نہ کر سکوں۔جب پہلی بار آپ سے محبت ہوئی جب میں نے جانا تھا کہ ایک انسان کی محبت ہمیں کتنا بدل دیتی ہے مجھے ہر وہ چیز اچھی لگنے لگی جو آپ کو پسند ہے میں نے پہلی بار جانا کہ موسم بھی خوبصورت ہوا کرتے ہیں ٹھنڈی ہوا دلوں کو کیسے چھیڑتی ہے پورے چاند میں محبوب کا عکس کیسے دیکھتا ہے چاندنی رات میں چاند کو دل کا حال سنانا کیا ہوتا ہے یہ زندگی کے بھید مجھ پہ آپ کی محبت کی وجہ سے آشکار ہوئے شاید آپ کی محبت ہی میرے جینے کا سہارا ہے اگر یہ محبت مجھ سے چھین لی گئی تو میں زندہ تو رہوں گی مگر شاید مردوں سے بدتر زندگی گزاروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
شزرا نے یہ لائن پڑھ کےخوف سے ڈائری بند کی اور ٹرانس کی کیفیت سے باہر آئی۔
یہ کیسا موڑ لیا تھا زندگی نے۔۔۔۔!!!!
جب اس نے آزر کو اپنے دل میں جگہ دے دی انہیں اپنا سب کچھ ماننے لگی تو اچانک یہ طوفان کیسا۔۔۔۔۔۔
ایسا طوفان جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جانے کی طاقت رکھتا تھا۔
ساری اذیت سمٹ کے اس کے چہرے پہ آگئ تھی اسے زندگی تین لوگوں کی مثلث معلوم ہونے لگی۔
وہ خاموش رات کہر زدہ سی معلوم ہونے لگی پھر ایک دم جب درد حد سے سوا ہوا تو دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کے پھوٹ پھوٹ کے روئی اس کے علاؤہ شاید اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا دل تھا کہ ڈوب ڈوب کے ابھر رہا تھا۔
وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھوتی جارہی تھی لب خاموش مگر آنکھیں برستی ہوئیں۔
رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی اور یہاں وہ محبت کے گرداب میں پھنسی اپنی حالت غیر کر چکی تھی۔
قسمت کی اس چال پہ وہ حیرت زدہ تھی۔کیا قسمت بھی کبھی ایسے بے رحم ہوتی ہے۔
ماں کو اس نے کھو دیا تھا کبھی نہ دیکھا تھا مگر ماں کے روپ میں اس کے پاس منال تھی تو اسے کبھی کمی محسوس نہ ہوئی مگر منال کے پاس کون تھا جو اسے سمیٹتا اس کی ذات یکجا کرتا۔
وہ اس تحریر کی آخری لائن پڑھ کے بکھر سی گئی تھی وہ منال کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
اور آزر۔۔۔۔۔۔۔
ان کا کیا؟ وہ کیسے رہ لیتی ان کے بغیر ابھی تو اس نے محبت کرنا سیکھی ہی تھی گلوں میں کیسے رنگ بھرتے ہیں اسے سمجھ آنے لگا تھا تو اب کیسے وہ۔۔۔۔۔
اس کے اندر صحرا سا نمو پا رہا تھا۔
اسے اپنا وجود خالی خالی سا لگنے لگا۔
شاید ساری رات وہ وہیں بیٹھی اپنی محبت کا ماتم کرتی رہی
کہیں قریب سے کہ فجر کی اذانیں سنائی دے رہی تھیں وہ جیسے ہوش کی دنیا میں لوٹی۔
اس نے برابر میں پڑی ڈائری کو ہاتھ بڑھا کے اٹھایا اور اپنا ٹوٹا بکھرا وجود بمشکل سمیٹ کے اٹھی اور منال کے روم کی جانب بڑھی اس نے ڈائری سائڈ ٹیبل پہ رکھی اور ایک نظر منال کے سوئے چہرے پہ ڈالی جو اس کی اذیت اور تکلیف سے بے خبر سو رہی تھی اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی اور تیزی سے وہاں سے نکل کے اپنے روم میں آگئی۔
وہ وضو کر کہ جائے نماز پہ کھڑی ہو گئی آنسو مسلسل اس کے گال بھگو رہے تھے رات سے اب تک جانے کتنے آنسو بے مول ہوئے تھے اور اب حساب رکھنا بھی فضول ہی تھا۔
دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کہ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کہ رو دی اس کی ذات کی کرچیاں کمرے میں جا بجا بکھری تھیں۔
کیا مانگتی وہ دعا میں آزر کا ساتھ؟ یا منال کہ خوشی؟
اور اس کا دل جو کسی ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا اس کا کیا؟
اس سب میں وہ کہاں تھی؟
اس کی ذات کہاں تھی؟
شاید اب اس کی ذات کے بے مول ہونے کا وقت آگیا تھا۔
وہ اپنے دل سے لڑتی یا دماغ سے۔
اسے اپنا آپ مفلوج سا لگنے لگا وہ بے بسی کے آخری دوراہے پہ تھی۔
اسے لگ رہا تھا وہ تپتے صحرا میں ننگے پیر چل رہی ہے کوئی آسماں اس کے پر پہ نہ تھا،تپتا سورج اس کہ سر پہ کھڑا اسے پگھلا رہا تھا اور وہ جان کنی کی عالم میں چلتی جا رہی تھی۔سب سے بے نیاز سب سے بے خبر۔
روتے روتے جانے کب اس کی آنکھ لگی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔
نیند بھی کبھی کبھی کیسی مہربان ثابت ہوتی ہے۔
وہ نیند کی مہربان بانہوں کی آغوش میں ہر غم اور اذیت سے بے خبر سو چکی تھی۔
No comments:
Post a Comment