تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
ساتویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Seventh Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
..
..
" کیان پلیز اپنی یہ کھیکھی بند کردو. 2 بج رہے ہیں سو جاو اور مجھے بھی سونے دو. مجھے صبح ہسپتال بھی جانا ہے." مہک نے اپنے منہ پر تکیہ رکھتے ہوئے کہا.
" تم سو جاو ناں. مجھے فلم دیکھنے دو. "
" کیانننننننننننن. " اس نے بری سی آواز نکلاتے ہوئے کہا.
" اب میری آواز نہیں آئے گی. میں بلکل میوٹ ہو کر فلم دیکھوں گا. سو جاو. سو جاو. " اس نے بچوں کی طرح اس کو پھسلاتے ہوئے سر پر ہاتھ سے تھپکانا شروع کر دیا. مہک نے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کروٹ بدلی. اور دوسری طرف منہ کر کے سو گئی. کیان بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا.
کچھ دیر بعد مہک کے فون کی گھنٹی بجی. کیان نے اس کو ہلاتے ہوئے کہا. " اب تمھارا فون بج رہا ہے. "
" پلیز سونے دو. "
" مسزز کیان. ہسپتال سے کال ہے. " ( کیان نے سیل فون اس کے کان کو لگتے ہوتے کہا )
" ہیلو " ( اس نے مشکل سے اپنی جمائی روکتے ہوئے کہا )
" ڈاکٹر مہک ملک. لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی وجہ سے حالات کافی خراب ہو رہے ہیں. دشمن نے کئی دیہاتوں پر گولا باری کی ہے جس سے ہمارے جوان اور دیہاتی شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کئے جارے ہیں. اس لئے آپ جلد از جلد ہسپتال پہنچیں. "
" اللہ جی. اٹھا لیں مجھے پلیز. " ( مہک نے یہ کہتے ہوئے فون بند کیا. )
" ہر وقت کچھ بھی نہ بولتی رہا کرو. ہوا کیا ہے یہ بتاو. " ( کیان نے اس کے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا. )
" تم انگلی ہٹاو گے تو میں کچھ بولوں گی ناں. "
" بتاو. " ( کیان نے اپنے انگلی پرے کی.)
" بارڈر پر پھر سے انڈیا والوں نے فائرنگ شروع کر دی ہے. جس سے بہت سے لوگ زخمی ہو رہے ہیں. اس لئے مجھے ابھی ہسپتال بلایا ہے. "
" اوہو . میری بیچاری بیوی کو سونے بھی نہیں دیا. "
" اب زیادہ باتیں نہیں کرو. تم نے بھی مجھے سونے نہیں دیا. میں چینج کر لوں. تم اٹھو جلدی سے گاڑی نکالو. "
" جو حکم میرے آقا. " ( مہک نے اٹھتے ہوئے اس کے سینے پر گھونسا دے مارا. )
" لگتی ہے یار. ایک تو آجکل تم نے یہ گھونسوں والا نیا کام شروع کر لیا. "
دونوں سیڑھیاں اتر رہے تھے تبھی شمیم بیگم کچن سے پانی کا جگ لئے نکل رہی تھی. " اس وقت کدھر جانے کی تیاری ہے. "
کیان نے چچی کو " سلام " کیا. " چچی مہک کو ہسپتال چھوڑنے جارہا ہوں. "
" اس وقت ؟ "
" جی. "
" بھلا یہ کوئی ٹائم ہے ہسپتال جانے کا ؟ ہسپتال والے بھی کمال کرتے ہیں. "
" اماں باقی کہانیاں کیان آپ کو واپس آکر سنادے گا. فی الحال مجھے دیر ہو رہی ہے. "
" دھیان سے جانا. "
" ٹھیک ہے چچی آپ بھی جاکر سو جائیں. "
کیان نے سیل فون پر نیوز لگالی.
" بھارت کی جانب سے ایک دفعہ پھر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی. جس سے کئی دیہات متاثر. پاک فوج کی جوابی کروائی پر دشمن کی توپیں خاموش. "
" مزید خبروں کے لئے ہمارے ساتھ رہے گا. " مہک نے کیان کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا. جس پر کیان ہنسنے لگا اور وہ ہسپتال پہنچنے تک سوتی رہی. ہسپتال پہنچ کر کیان نے اسے جگانے کے لئے ہاتھ آگے کیا. اس کے چہرے پر بالوں کی ایک لٹ مچل رہی تھی. کیان نے وہ پرے کی. تو اس کی آنکھ کھل گئی.
" ہسپتال آگیا اور تم نے مجھے جگایا نہیں . "
" میں تمھیں جگانے کی ہی کوشش کر رہا تھا. "
اس نے جلدی سے اپنا بیگ پکڑا اور گاڑی سے اتری. کیان نے اس بلایا. " مہک "
" کیا. "
" تم سوتے ہوئے اور بھی پیاری لگتی ہو. "
" اچھا ناں اب جاو. " ( وہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی. )
اپنے کمرے میں بیگ رکھنے کے بعد اس نے باقی ڈاکٹرز اور نرسوں کے ساتھ مل کر زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا شروع کردی تھی. جن کی حالت زیادہ تشویش ناک تھی انہیں الگ سے ٹریٹمنٹ دیا جا رہا تھا. یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا.
----------------------------------
سب کھانے کی میز پر موجود تھے. شمیم بیگم ناشتہ تیار کرکے لارہی تھی. ثریا بیگم نے بہو کو موجود نہ پاکر کیان سے پوچھا.
" کیان پتر. مہک نہیں اٹھی ابھی تک کیا ؟ "
" اماں وہ رات کو ہسپتال چلی گئی تھی. "
" ہیں. پتر یہ کیا بات ہوئی ؟ ہسپتال والے جب چاہے بلا لے. ؟ "
" نہیں دراصل اماں. رات کو حالات پھر سے خراب ہوگئے تھے. جس کی وجہ سے سب ڈاکٹروں کو بلایا گیا تھا. "
" پتر خبراں تے لا فیر زرا. " سلیم ملک نے کیان سے کہا.
" اے ہاے .. ملک صاحب پتر نوں ناشتہ تے کر لینے دو. "
کیان نے نوالہ وہی چھوڑتے ہوئے L.C.D آن کی.
" بھارت کی آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر پاک آرمی نے اپنی توپوں کا رخ دشمن کی طرف کر لیا ہے. "
" پتا نہیں اے کھسماں نوں کھانے کی کرنا چاہ رہے نے. "
ناظرین آپ کو بریکنگ نیوز بتاتے چلیں.
" پاک فضائیہ کے بہادر نوجوانوں نے دشمن کے دو جنگی طیارے مار گراتے ہوئے بھارت کی سرجیکل سٹرائیک ناکام بنادی. " مزید جانیے ایک بریک کے بعد.
اب کھانے کی میز پر پاک بھارت جنگ کی ڈسکشن جاری ہو چکی تھی.
--------------------------
نرس کے دروازہ کھٹکھٹانے پر مہک کی آنکھ کھلی تھی. وہ مریضوں کی پٹی کے بعد اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گئی تھی اور وہی بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی. اس نے اونگھتے ہوئے کہا. " Come in "
" ڈاکٹر صاحبہ آپ ناشتہ کرے گی ؟ "
" نہیں مجھے بس ایک کپ چائے منگوا دو. "
مہک منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو میز پر چائے پڑی ہوئی تھی. چائے پینے کے بعد اس نے فائل اٹھائی اور راونڈ پر نکل گئی. وارڈ میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر بالاج کے بیڈ پر پڑی. اس کا بیڈ خالی تھا. لیکن وہ ایسے کیسے جا سکتا ہے ؟ اس کے زخم ابھی کچے تھے ؟ اس کے زہن میں مختلف خیالات آرہے تھے. اس نے باقی مریضوں کے بارے میں پوچھا. اس کے بیڈ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی.
" نرس یہ مریض کہاں ہے؟ "
" ڈاکٹر صاحبہ میں دیکھتی ہوں. "
" کیا دیکھتی ہوں. تمھیں پتا تھا ناں میں راونڈ لگانے والی ہوں پھر کیوں باہر نکلنے دیا. " ( وہ نرس پر غصہ ہو رہی تھی. )
اتنے میں بالاج اپنے بڑے پاپا کے ساتھ سہارا لیتے ہوئے وارڈ میں داخل ہوا.
" آپ کدھر چلے گئے تھے ؟ ڈاکٹر صاحبہ غصہ ہو رہی ہیں. " ( نرس نے ڈرتے ڈرتے کہا. )
" ارے کیوں بیٹا. ڈاکٹر آپ پر کیوں غصہ ہو رہی ہیں. ڈاکٹر کو کہیں اس نالائق کو ڈانٹے جسے باہر جانے کی پڑی ہوئی تھی. " ( برگیڈئیر صاحب نے ہنستے ہوئے نرس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. )
" کدھر گھوم رہے ہیں آپ ؟ " ( مہک نے اپنی پوری ہمت اکٹھے کرتے ہوئے بالاج سے کہا. )
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا برگیڈئیر صاحب نے جواب دیا. " فوجی صاحب بیڈ پر پڑے پڑے بور ہو رہے تھے. تو میں ان کو باہر لے گیا تھا. "
" لیکن سر ابھی ان کے زخم کچے ہیں. آپ ان کو اس طرح باہر نہیں لے کر جا سکتے ہیں. "
" اس وطن کے بیٹوں کے لئے یہ زخم کچھ بھی نہیں ہیں بیٹا. "
مہک جس سے بات کرنا چاہتی تھی وہ تو کچھ بول تو کیا اسے دیکھ بھی نہیں رہا تھا. یہ بڑے میاں ہی سب جواب دئیے جا رہے ہیں. اس نے جنجھلاتے ہوئے نرس کو کہا کہ میں آفس میں جا رہی ہوں. انکا چیک اپ کر لینا. اگر کچھ مسلہ ہوا تو پوچھ لینا.
برگیڈئیر صاحب کے باہر جانے پر ساتھ والے بیڈ پر لیٹے فوجی نے بالاج کو آواز دی.
" بالاج. "
" کیا ؟"
" ادھر سن ناں. "
" بولو بھی اب کیا ہے ؟ سن تو رہا ہوں. "
" یہ ڈاکٹر تمھارے لئے کچھ زیادہ ہی پوزیسسو نہیں ہو رہی ہے ؟ " ( فوجی نے آہستہ سے اسے کہا. )
" بکواس نہ کر. "
" سچی. ڈاکٹر اب آئے گی تو نوٹ کرنا. وہ کل بھی تمھیں بہت گھور رہی تھی. "
اتنے میں برگیڈئیر صاحب نائمہ کو ساتھ لے کر آئے. تو دونوں نےبات بدلی.
مہک آفس میں جاکر غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی.
" خود کو سمجھتا کیا ہے ؟ وہ مجھے دیکھ کر بھی یوں کیسے اگنور کر سکتا ہے ؟ "
تبھی اندر سے آواز آئی. ( وہ تمھیں اگنور کر سکتا ہے. پہلے بھی تو کیا کرتا تھا. اس کی پرانی عادت ہے. )
وہ اپنا سر پکڑے کرسی پر بیٹھی اس وقت کو یاد کر رہی تھی. جب بالاج اور ہاجرہ کے گھر چھوڑنے کے بعد اس نے کتنی ہی دعائیں اور منتیں مانگی تھی. مگر کتنے ہی سال وہ اسے نظر نا آیا.
کلاس میں لڑکیاں زیرو پیریڈ میں ٹیچر کے نہ آنے پر شور کر رہی تھی تبھی ہاوس کیپر کلاس میں خوشی خوشی داخل ہوئی.
" Guess what? "
لڑکیوں نے اور شور مچانا شروع کردیا. تبھی اس نے بتایا کہ اس دفعہ سپورٹس گالا کمبانڈ ہوگا. سب لڑکیوں نے خوشی سے کہا.
" whatttttttt ?"
اور ساتھ میں شور کم کرنے کا بھی کہہ گئی. لڑکیوں کے چہروں پر خوشی تھی. مگر مہک بلکل بھی خوش نہیں تھی کیونکہ کیان اکثر ایسے موقعوں پر اس پر نظر رکھے ہوئے ہوتا تھا. اور پھر گھر آکر سب کو بتاتا تھا کہ یہ آج ایسے کر رہی تھی. پھر یا تو اس کا مزاق اڑایا جاتا یا پھر اماں سے ڈانٹ سننے کو ملتی تھی. اور کیان اس کی ڈانٹ کو خوب انجوائے کرتا تھا.
سپورٹس گالا کے دن ہر بچہ پرجوش تھا. ہر ہاوس کے بچے اپنے اپنے کیپٹن کے ساتھ اپنی اپنی ٹیموں کو سپورٹ کر رہے تھے.مہک بھی خوب انجوائے کر رہی تھی کیونکہ کیان بخار کی وجہ سے آج سکول نہیں آیا تھا. ورنہ وہ اس پر نظر رکھے ہوتا. طرح طرح کے گیمز کھیلے جارہے تھے. تبھی ایک نام اس کے کانوں میں گونجا. وہ ایک پل کو تو جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہ کر سکی. اس نے ساتھ بیٹھی عائشہ سے پوچھا. " یہ میم نے کیا نام لیا ؟"
" بالاج. ویسے تم کیوں اتنی تجسس سے پوچھ رہی ہو. ( اس نے اسے کندھے مارتے ہوئے پوچھا.)
" کچھ خاص نہیں. یہ نام کچھ سنا سنا لگ رہا تھا اس لئے تم سے پوچھا. "
بالاج اپنا ریکٹ لئے کورٹ کی طرف آرہا تھا. مہک نے کوشش کی کہ وہ اس کا چہرہ دیکھ سکے مگر اس کی طرف اس کی پیٹھ تھی. اس کا سنئیر پہلے سے ہی ٹینس کورٹ میں کھڑا تھا. دونوں لڑکے اچھا کھیل رہے تھے..
دونوں طرف سے ان کے لئے نعرے لگائے جارہے تھے. چاند الگ سے ہی " بھیا ، بھیا " چیخ رہا تھا. مہک نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک دفعہ بالاج کو دیکھنے کی پھر سے کوشش کی مگر پاس کھڑی میم نے اسے پھر سے نیچے بیٹھا دیا. بالاج زور دار شاٹ لگا کر اپنے سینئر کو ہرا چکا تھا. اس کے کلاس فیلوز اور چاند نے ایک دفعہ پھر سے پورا گراونڈ سر پر اٹھا لیا تھا.
مہک اتنی کوشش کے بعد بھی اس کو ایک نظر دیکھ نہ سکی. باقی کی گیمز جاری تھی. مگر اسے ان سے اب کوئی دلچسپی نہیں تھی. اس نے پاس بیٹھی عائشہ کو بلایا.
" عائشہ."
" کیا ہے ؟ "
" مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے."
" جو بھی بات کرنی ہے بعد میں کرنا. ابھی چپ کر کے سپورٹس انجوائے کرو. " ( اس نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا. )
" نہیں ناں یار. سمجھو ناں پلیز. "
" ہاں بولو. " ( عائشہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. )
" پرومس می .. یہ بات صرف ہم دونوں کے درمیان رہے گی. "
" اب کچھ بتاو گی بھی ؟"
مہک نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا. " پہلے وعدہ کرو ناں. "
عائشہ نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا. " کر لیا وعدہ اب جو بھی بولنا جلدی بولو. "
" وہ ابھی جو لڑکا. "
ابھی مہک نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے مہک کو آنکھ مارتے ہوئے کہا. " اووو. تو اس لئے اسکا نام پوچھ رہی تھی. ؟ "
" میری بات تو پوری سن لو. "
" ویسا دیکھ میں بھی نہیں سکی اسے مگر اس کے نام سے لگ رہا تھا کہ کافی ہینڈسم ہوگا. ہے ناں ؟ "
" عائشہ " وہ جنجھلاتے ہوئے بولی. عائشہ نے آئبرو اوپر کرتے ہوئے کیا کا اشارہ کیا.
" یار تمھاری دوست پریشان ہے اور تم ہو کہ بات ہی نہیں سن رہی. "
" اچھا بولو. "
" وہ مجھے اس لڑکے کے بارے میں انفارمیشن چاہیے. " ( مہک نے جھجھکتے ہوئے کہا. )
" بس اتنی سی بات ؟ "
" ہاں ."
" میں کل ہی اپنے کزن سے پوچھ کے بتاتی ہوں تمھیں. اب خود بھی انجوائے کرو اور مجھے بھی کرنے دو. "
" تھینک یو. "
اگلے دن آتے ہی عائشہ نے مہک کو پکڑ لیا. اور قصہ بالاج سنانے لگ گئی. " وہ دو بھائی ہیں. کل جو بچہ ' بھیا ، بھیا ' کہہ رہا تھا وہ اسکا چھوٹا بھائی تھا. 5th کلاس میں پڑھتا ہے. ادھر کینٹ میں ہی رہتے ہیں. "
" میں نے تمھیں بالاج کی انفارمیشن لینے کو کہا تھا یا اس کے چھوٹے بھائی کی؟ " ( مہک اس پر غصہ ہوئی. اور ساتھ ہی اپنے چھوٹے سے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے خود سے کہہ رہی تھی یہ کوئی اور ہے شاید.)
" بتا رہی ہوں ناں. بے صبری عورت. " ( عورت پے مہک نے بڑا سا منہ کھولا.)
عائشہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے آگے بتانا شروع کیا. " مزے کی بات پتا کیا ہے وہ ہمارا ہی کلاس فیلو ہے. "
" ہائے. " ( مہک کے منہ سے فورا پھسلا. )
مہک نے عائشہ کے ساتھ مل کر پلاننگ کرنا شروع کی. آخر اس بالاج سے ملا کیسے جائے. چھٹی کے بعد وہ جلدی سے بوائز سیکشن کے پاس گیٹ سے زرا پرے ہو کر کھڑی ہو گئی. لڑکے باہر نکل رہے تھے اس کو ڈر بھی لگ رہا تھا. مگر وہ صرف ایک دفعہ اسے دیکھنا چاہتی تھی. وہ بے چینی سے اپنے ہاتھ مل رہی تھی. عائشہ نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا.
" ریلیکس یار. تم تو ایسے ڈر رہی ہو. جیسے پتا نہیں کیا ہو گیا ہے. "
( مہک نے پھیکی سی مسکراہٹ دی.)
اپنے دوستوں کے ساتھ وہ باتیں کرتے ہوئے گیٹ سے باہر نکل رہا تھا. وہ آج بھی بلکل ویسا ہی لگ رہا تھا. وہ کسی بات پر مسکرا رہا تھا.اس کا دوست شائد اسے کچھ کہہ رہا تھا. وہ اسکا بالاج ہی تو تھا. مگر وہ اس کے پاس سے گزر گیا. اس کو بنا دیکھے بنا کچھ کہے.
" وہ تو پتا نہیں کب آئے گا. مگر میرے کزن نے مجھے گیٹ کے پاس دیکھ لیا تو ماما سے شکایت کر دے گا. اس لئے جلدی چلو یہاں سے. " عائشہ نے اسے کھنچتے ہوئے کہا.
وہ اس کے اتنے پاس تھا. مہک کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا.
..
------------------☆☆☆☆☆-----------------
( جاری )
No comments:
Post a Comment