Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#9

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
نویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Ninth Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
" بھیا. " ( چاند نے دروازے میں کھڑے ہوکر بالاج کو کہا. ) 
" ہوں. " ( بالاج نے اسے بنا دیکھے جواب دیا. ) 
" پلیز تھوڑی دیر. " ( اب وہ دروازے سے تھوڑا آگے آتے ہوئے کہہ رہا تھا. )
" نو." ( وہ کتابوں میں یوں ہی مگن تھا. ) 
" یو آر مائی سویٹ بردار. میرا پرا... آج بس کھیل لیں. پھر جب تک آپ کے پیپرز ہیں بلکل بھی تنگ نہیں کروں گا. پکا پرومس. " 
" تم مکھن مت لگاو. آج کل ویسے بھی بہت مہنگائی ہے. میرے پیپرز بس ختم ہو جائیں پھر کھیلیں گے. پکا پرومس. " ( بالاج نے اس کو اسی کے انداز میں جواب دیا تھا.) 
" مہنگائی کا کھیلنے سے کیا تعلق ؟ " ( اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا.)
" تم اپنے چھوٹے سے دماغ پر زور مت ڈالو ورنہ یہ ضائع ہو جائے گا. " ( بالاج نے ہنستے ہوئے کہا.) 
" میں بڑے پاپا سے ریکویسٹ کر لیتا ہوں. وہ کچھ ٹائم میرے ساتھ کھیل لیں. آپ بنے رہیں کتابی کیڑا. " ( وہ منہ بنائے دروازے سے مڑا. ) 
" تھینک یو. " ( اس نے پنسل سے کچھ لکھتے لکھتے کہا تھا. ) 
" نو نیڈ. مگر میں یاد رکھوں گا. " ( چاند نے کمرے سے باہر نکل بڑے پاپا کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اونچی آواز میں کہا تھا. )
" اوکے. " ( اس نے بھی آواز لگائی. ) 
چاند بڑے پاپا کے کمرے میں منہ پھولائے خاموشی سے داخل ہوا. وہ دیوار پر لگائی تصاویر میں اس قدر مگن تھے جس کی وجہ سے انہیں اس کے آنے کا پتا نہیں چلا تھا. 
" بڑے پاپا. " ( وہ ان کے بلکل پاس کھڑے ہو کر بولا. ) 
" تم کب آئے ؟ " ( برگیڈئیر صاحب نے انگلیوں کی پوروں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا. )
" بڑے پاپا آپ رو رہے ہیں ؟ " ( اس نے اداس ہوتے ہوئے پوچھا. ) 
" نہیں بیٹا. " 
" کیا آپ کو پاپا کی یاد آرہی ہے ؟ "ے 
" ہاں. یاد تو آتی ہے. مگر میرے پاس میرے دو بیٹے تو ہیں." 
" بڑے پاپا ایک سیکرٹ بتاوں آپ کو ؟ " 
" جی میرا بیٹا. بولو. " 
" مجھے بھی پاپا بہت یاد آتے ہیں. بڑے پاپا کیا بالاج بھیا کو بھی اپنے پاپا یاد آتے ہوں گے ؟ " 
" بیٹا.. ہم سب کی کہانیاں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں. بس اس میں حادثے اور کردار بدل جاتے ہیں. " ( برگیڈئیر صاحب نے اسے پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا. ) 
" بڑے پاپا کچھ سمجھ نہیں آئی. " 
" کچھ نہیں بیٹا. تم بتاو تم کس لئے آئے تھے." 
" وہ بھیا... ( کہتے کہتے رکا اور پھر بولا. ) 
" کچھ نہیں بڑے پاپا میں تو بس آپ کو دیکھنے کے لئے آیا تھا کہ آپ کہیں بور تو نہیں ہو رہے ہیں. " 
" میں اور بور .. بیٹا میرے پاس یادوں کا ایک خزانہ ہے. ویسے مجھے لگتا ہے کہ بالاج کے پیپرز کی وجہ سے تم ضرور بور ہو رہے ہو. " 
" ہاں ناں بڑے پاپا. مگر آپ کو کیسے پتا چلا ؟ " 
" بس مجھے پتا چل جاتا ہے. " 
" تو کیا آپ میرے ساتھ ٹینس کھیلیں گے ؟ پلیز بڑے پاپا." ( اس نے معصوم سا منہ بنایا.) 
" یس ینگ مین. پھر چلو اٹھو. " ( یہ کہتے ہوئے وہ اس کے ساتھ کھیلنے چلے گئے.)
------------☆------------
مہک نے بھی ادھر خود کو کمرے میں کتابوں کے گرد گھیرے ہوا تھا. پوری رات یوں ہی پڑھتے پڑھتے آنکھیں بند ہو رہی تھی. جیسے ہی آنکھ کھلتی وہ اٹھ کر منہ دھو کر آتی اور پھر پڑھنے بیٹھ جاتی. صبح سوجھی ہوئی آنکھوں کے ساتھ وہ کتاب لئے ناشتہ کرنے کے لئے آئی تھی. جہاں سب بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے. 
" مہک بیٹی کتنا پڑھو گی اب بس بھی کرو. " ( ملک سلیم نے مہک کو کتاب پکڑے آتے دیکھ کر کہا.) 
" تایا ابو.. بس تھوڑا سا رہ گیا. سکول جانے سے پہلے ایک دفعہ سب پڑھ لوں. پھر چھوڑ دوں گی." ( اس نے ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا.) 
" پہلے ناشتہ کروں آرام سے. پھر پورا راستہ جتنا چاہئے پڑھائی کرتی جانا. " ( شمیم بیگم نے اس سے کتاب لے کر پرے رکھتے ہوئے کہا. )
ناشتہ کرنے کے بعد وہ پھر سے کتاب پکڑے یوں ہی پڑھتے ہوئے سکول پہنچی. ایگزیمینیشن ہال کے باہر کچھ لڑکے لڑکیاں خوش گپیوں میں مگن تھے جبکہ کچھ ابھی بھی کتابوں کو لئے بیٹھے تھے. مہک بھی ان میں سے ایک تھی. 
" ابھی چھے پیپر باقی ہیں آج ہی سب پڑھ لو گی کیا ؟ " ( پاس سے گزرتے ہوئے لڑکوں کے ایک گروپ نے کمنٹ پاس کیا.) 
" شٹ اپ. " ( اس نے گردن موڑتے ہوئے کہا اور پھر کتاب پر نظریں جما لی. )
اس نے بڑے اطمینان سے پیپر دیا اور ہال سے باہر نکلتے ہی اس نے عائشہ کا ہاتھ پکڑ کر بالاج کو ڈھونڈنا شروع کیا. 
" پیپر سے پہلے تو تمھیں اس کی یاد نہیں آئی تھی." ( عائشہ نے منہ بناتے ہوئے کہا.) 
" یار میں اسے کب بھولی ہوں." 
" اچھا ؟ ویسے تمھاری جنرل نالج میں اضافہ کردوں تو وہ تمھارے پاس سے گزرا تھا. " 
" کیا ؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا ؟ "
( اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا. ) 
" میں نے تمھیں ایک دفعہ کہنی ماری تھی مگر تم نے مجھے کیا کہا تھا یاد کرو ذرا. " 
" سوری نا یار. " ( مہک نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا. ) 
" اچھا اب ڈرامہ نہیں کرو. تمھارا کرش نکل رہا ہے باہر. " ( عائشہ نے اس کو اشارہ کرتے ہوئے کہا. ) 
وہ آج بھی اسے بنا دیکھے اس کے پاس سے گزر گیا تھا. مہک یوں ہی کھڑی اسے دیکھتے رہ گئی تھی. گاڑی میں بیٹھتے ہی بڑے پاپا نے اس سے پوچھا. " ہاں بھئی. پیپر کیسا ہوا ہے ؟ " 
" بہت اچھا ہوا بڑے پاپا. " 
چاند اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا. بالاج نے اس کی مسکراہٹ دیکھتے ہوئے پوچھا. " تم کیوں مجھے ایسے دیکھ کر مسکرا رہے ہو ؟ " 
" وہ آپ کو آج بھی دیکھ رہی تھی. " 
" کون وہ ؟ " 
" آپ کی دوست. " 
" میری تو کوئی دوست نہیں. " 
" کس دوست کی باتیں ہو رہی ہیں ؟ " ( برگیڈئیر صاحب نے بیک مرر سے دیکھتے ہوئے کہا.) 
" بڑے پاپا. بھیا کی....." ( چاند نے اتنا ہی کہا تھا کہ بالاج نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے چپ کروایا. ) 
" کچھ نہیں بڑے پاپا. " ( اس نے فورا سے کہا. ) 
" آپ چھپا لیں مجھ سے. مگر مجھے پتا ہے آپ بھی اسے چھپ چھپ کے دیکھتے ہیں. " ( اس نے آہستہ سا کہا. )
" بکواس نہیں کرو. میں کسی کو نہیں دیکھتا. " ( بالاج نے بھی آہستہ سے جواب دیا. ) 
مہک روز پیپر کے ختم ہوتے ہی اس کو دیکھنے کے لئے گیٹ کے سامنے کھڑی ہو جاتی اور وہ اسے بنا دیکھے اس کے پاس سے گزر جاتا تھا. آخری پیپر والے دن آخر اس نے تنگ آکر مہک نے ایک دفعہ پھر بالاج سے بات کرنے کا سوچا. وہ گاڑی سے اترتے ہی سکول کے لان میں سے ہوتے ہوئے کوریڈور میں پہنچی تو وہ کتاب لیے ایک طرف بیٹھا تھا. وہ اس کے سر پر کھڑی تھی. 
" مجھے تم سے بات کرنی ہے. " 
" پیپر کے بعد کرنا ابھی مجھے پڑھنے دو. " ( اس نے کتاب سے ایک نظر ہٹاتے ہوئے کہا. )
" مجھے ابھی بات کرنی ہے. " ( اس نے زور دیتے ہوئے کہا. )
" بولو. " ( اس نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا. )
" تم میری طرف دیکھتے کیوں نہیں ہو ؟ " 
" تمھیں دیکھنا ضروری ہے ؟" 
" میری بات کا جواب دینے کی بجائے تم الٹا مجھی سے سوال کر رہے ہو ؟ " 
" میرے پاس تمھارے الٹے سیدھے سوالوں کا جواب نہیں ہے. " 
" بالاج پلیز. " ( اس نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا تھا. " 
" میرے سامنے رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تمھیں. " ( اس نے کتاب دوبارہ کھولتے ہوئے کہا. ) 
" کیا تمھیں مجھ پر تھوڑا سا بھی ترس نہیں آتا ہے ؟ " ( اس نے بالاج نے کتاب لیتے ہوئے کہا. ) 
" یہ کیا بدتمیزی ہے ؟ میری کتاب ادھر کرو. " 
" کیا یہ کتاب مجھ سے زیادہ ضروری ہے ؟ " 
" مہک تماشہ نہیں بناو. سب دیکھ رہے ہیں. " 
" دیکھنے دو. جب تک تم مجھ سے بات نہیں کروگے یہ تماشہ چلتا رہے گا." ( اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا. )
" بولو کیا مسئلہ ہے تمھارا ؟ " 
" میرا مسئلہ تم ہو." ( اس نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا. ) 
" شٹ اپ. جیسا تم چاہتی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے. " 
" میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے بات کر لیا کرو." 
" اور اس سے کیا ہوگا ؟ تمھارے گھر والوں کو پتا ہے یہ سب جو تم کر رہی ہو. ؟ " 
" اس میں گھر والے کہاں سے آ گئے ؟ " 
" گھر والے آئیں گے. ہر بات میں آئیں گے. میں نہیں چاہتا کل کو تمھاری وجہ سے مجھے کوئی بات کرے. " 
" تمھیں کوئی کیوں بات کرے گا بالاج. " 
" اچھا فرض کرو میں تم سے بات کر بھی لوں تو اس سے کیا ہوگا ؟ " 
" مجھے اچھا لگے گا. کیا تم میری خوشی کے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتے ہو. ؟ دوست نہیں کم از کم کزن ہونے کے ناطے ہی بات کر لو. آج آخری پیپر ہے اگر آج تم سے بات نہ کرتی تو پھر شائد کبھی نہ کر پاتی. پلیز بالاج.. " ( اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا. )
" اچھا. مجھے پڑھنے دو اب پیپر شروع ہونے میں پندرہ منٹ رہ گئے ہیں. " ( اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا. ) 
" پہلے وعدہ کرو تم مجھ سے بات کیا کرو گے. " 
" وعدہ." 
" نمبر دو اپنا. " ( اس نے سائیڈ بیگ سے پیپر پین نکالتے ہوئے کہا. ) 
" نمبر کیوں ؟ " ( بالاج نے خیرت سے پوچھا. ) 
" بات کرنے کے لئے. " ( مہک نے جواب دیا. ) 
بالاج نے اسے نمبر دیا اور اس سے کتاب لے کر پڑھنے لگا وہ بھی ساتھ کتاب کھولے بیٹھ گئی. سب ان دونوں کو یوں ساتھ بیٹھے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے. پیپر شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے دونوں اٹھ کر پیپر دینے کے لئے چلے گئے تھے.
مہک کی ہمت اور آنسو آخر اس کے کام آگئے تھے اور اس طرح پھر سے ان کی دوستی کا آغاز ہو چکا تھا.
-------------☆-------------
کیان اور مہک بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے. ملک سلیم بھی آکر ان کے پاس بیٹھ گئے. اور ان دونوں سے مخاطب ہوا : 
" ہاں بھئی بچو. تم دونوں کا آگے کا کیا پلان ہے ؟ "
" ابو میں تو پنجاب کالج جاوں گا کیونکہ میرے سب فرینڈز بھی ادھر ہی جا رہے ہیں." 
" اور مہک بیٹا تم ؟ " ( ملک سلیم نے ثریا بیگم سے پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے کہا.)
" تایا ابو. میرا ابھی کچھ کنفرم نہیں ہے. کچھ دوست پنجاب کالج کا ہی کہہ رہی ہیں اور کچھ مرے کالج کا. رزلٹ آنے کے بعد ہی اب کچھ سوچوں گی."
" آپ اس مہک کے کچھ ذیادہ ہی لاڈ نہیں اٹھاتے ہیں. اپنا کیان تو آپ کو نظر نہیں آتا کیان کے ابا. " ( ثریا بیگم نے ملک سلیم کو کمرے میں جاتے ہی کہا.) 
" میں جو بھی کرتا ہوں کیان کے لئے ہی کرتا ہوں. " ( ملک سلیم نے غصے سے کہا. ) 
" مجھے تو کچھ بھی نظر نہیں آیا جو آپ نے میرے کیان کے لئے کیا ہو. " 
" جاہل عورت تم نے پہلے بھی ایسے ہی گیم خراب کی تھی. تمھیں جس بات کا علم نہ ہو اس میں ٹانگ مت اڑایا کرو. اور اپنی اس زبان کو تھوڑا کنٹرول رکھا کرو. " 
" اب میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا کیان کے ابا. " ( اس نے ناک چڑاتے ہوئے کہا. )
" جاو جا کر اپنا کام کرو. میرا دماغ خراب نہیں کرو. " 
------------☆-------------

( جاری )

No comments:

Post a Comment