تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
دسویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Tenth Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
" چلو میرے ڈرائیونگ سیکھنے کی خوشی میں سب گاڑی میں بیٹھو، فاطمہ اور زینب کی طرف چلتے ہیں. " ( کیان نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا. )
" ہاں کتنے ہی دن ہو گئے ہیں ان دونوں نے فون بھی نہیں کیا." ( ثریا بیگم نے بیٹے کی آفر قبول کرتے ہوئے کہا )
" تو پھر دیر کس بات کی. چلیں سب تیار ہو جائیں. " " تم سب جاو. میرے سر میں درد ہے میں پھر کبھی چکر لگا آوں گی. " ( شمیم بیگم نے سر پکڑتے ہوئے کہا.)
" یہ کیا بات ہوئی چچی ؟ " ( کیان نے منہ بناتے ہوئے کہا. )
" پتر میں تمھارے ساتھ کسی دن پھر چلی جاوں گی. " ( شمیم نے پھر سے ٹالتے ہوئے کہا.)
" کیان پتر رہنے دو اگر وہ نہیں جانا چاہتی تو کیوں ضد کر رہے ہو ؟ " ( شمیم بیگم نے منہ چڑاتے ہوئے کہا. )
" اچھا مہک تم تو اٹھو. "
" ناں مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمھارے ساتھ جا کر مرنے کا. " (مہک نے دانت نکالتے ہوئے کہا.)
" اللہ نہ کرے. کیسی باتیں کر رہی ہو لڑکی ؟ " ( ثریا بیگم نے مہک کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا. )
" تائی امی میں مزاح کر رہی ہوں آپ تو سیریس ہی ہو گئی ہیں. "
" جس نے جانا ہے وہ تیار ہو جائے." ( ثریا بیگم نے لاونج سے اٹھتے ہوئے کہا. )
" چلو اٹھ جاو ناں اب. امی بھی ناراض ہوگئی ہیں. " ( کیان نے مہک کا بازو پکڑ کے اسے اٹھاتے ہوئے کہا. )
" مجھے نہیں جانا تمھارے ساتھ. " ( مہک نے بازو چھڑواتے ہوئے کہا اور ہاتھ باندھ کر منہ پھولائے بیٹھ گئی. )
" ٹھیک ہے مت جاو میں امی کو ہی ساتھ لے جاتا ہوں. " ( یہ کہتے ہوئے کیان بھی کمرے کی طرف چلا گیا. )
" تم تو چلی جاو. " ( آپا کا بھی منہ بن گیا.)
" اماں مجھے نہیں جانا." ( اس نے ٹیلی ویژن کا ریمورٹ پکڑتے ہوئے کہا. )
کیان ماں کو لے کر فاطمہ اور زینب کی طرف چلا گیا تھا. اب مہک بیٹھی سوچ رہی تھی کہ وہ بالاج کو فون کیسے کرے. آخر ہمت کرکے اس نے ماں سے کہا : " امی مجھے اپنی ایک فرینڈ کو فون کرنا ہے کر لو ؟ "
" کونسی فرینڈ ؟ "
" سکول فرینڈ ہے عائشہ. "
" اچھا کر لو مگر جلدی بند کر دینا. ورنہ تمھاری تائی پھر ذیادہ بل آنے پر شور کریں گے. " ( شمیم بیگم نے اٹھتے ہوئے کہا.)
ماں کے کمرے میں جاتے ہی مہک نے نمبر ڈائل کیا اور فون ہاتھ میں پکڑے اس کی تار کے بل ایک ہاتھ سے نکال رہی تھی جو کہ اس کے ہاتھ پرے کرتے ہی واپس ویسے ہی ہو جاتے تھے. دوسری طرف گھنٹی بج رہی تھی. ماں کو بتانے کے باوجود اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا. ایک تو ماں کے آنے کا ڈر اور دوسرا کال کرنے کی ایکسائٹمنٹ. انتظار کے بعد دوسری طرف سے کال ریسیو کی گئی تھی.
" ہیلو. " ( اس نے فورا سے کہا.)
" اسلام علیکم. " ( دوسری طرف سے کہا گیا تھا. )
" ہاجرہ چچی بات کر رہی ہیں کیا ؟ کیسی ہیں آپ ؟ " ( اس نے نسوانی آواز سننے پر کہا تھا.)
" جی. آپ کون ؟ کس سے بات کرنی ہے ؟ " ( نائمہ نے بات کو سمجھتے ہوئے صرف اتنا ہی پوچھا تھا.)
" میں مہک بات کر رہی ہوں چچی. مجھے پہچانا آپ نے ؟ ویسے مجھے بالاج سے بات کرنی تھی. "
" اچھا آپ انتظار کریں میں اسے بلاتی ہوں. "
نائمہ نے یہ کہتے ہوئے ریسیور کو میز پر رکھ کر بالاج کو آواز دی. اس کے آنے پر نائمہ نے اسے بتایا کہ اس کے لئے کال ہے اور کال سننے کے بعد میرے کمرے میں آنا مجھے تم سے بات کرنی ہے. بالاج نے " جی " کہتے ہوئے فون کان لو لگایا.
" ہیلو. کون ؟ "
" بوجھو تو جانو. " ( مہک نے دوسری طرف سے کہا. اس کے گال لال ہو رہے تھے. )
" مہک ؟ " ( بالاج نے جواب دیا.)
" کیسے پہچانا تم نے ؟ " ( مہک نے بلش کرتے ہوئے خیرت سے پوچھا.)
" میں لاکھوں کی بھیڑ میں بھی پہچان لوں گا تمھیں. " ( بالاج نے آہستہ سے کہا. )
" اہم اہم. ویسے میں نے یہ باتیں کرنے کے لئے کال نہیں کی تھی." ( مہک نے کھانستے ہوئے کہا.)
" اچھا بتاو کیوں کال کی ؟ " ( اس نے سنجیدگی سے پوچھا.)
" تم سے بات کرنے کے لئے. "
" کر لی بات ؟ تو پھر اللہ خافظ. " ( اس کے بعد خاموشی اختیار کی گئی تھی.)
" سنو. "
" بولو. "
" تم تو سیریس ہی ہوگئے ہو. وہ میں نے کہنا تھا کہ میں 25 تاریخ کو ایڈمیشن کے لئے کالج جا رہی ہوں تم آو گے ؟ "
" کس ٹائم ؟ " ( بالاج نے جواب دینے کی بجائے پوچھا تھا.)
" 10 بجے تک. "
" ٹھیک ہے میں آجاوں گا. "
" اچھا چلو. اب میں فون رکھتی ہوں اماں آ گئی تو ڈانٹ پڑ جائے گی. "
مہک نے اپنے مطلب کی بات کرتے ہوئے جلدی سےفون رکھا. اس سے پہلے بالاج کچھ بولتا دوسری طرف سے " ٹوں ٹوں " کی آواز آنے لگی تھی. اس نے بھی بلش کرتے ہوئے فون نیچے رکھا اور نائمہ کے کمرے کے باہر جا کر اس نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے پوچھا : " ماما اندر آجاوں ؟ "
" آجاو. "
بالاج کے اندر آتے ہی نائمہ نے اسے بیٹھنے کا کہا.
" بیٹا. اس سے پہلے میں تم سے کچھ پوچھوں مجھے تمھیں کچھ کہنا ہے. اس لیے میری بات غور سے سننا. شاید ابھی میری بات تمھیں بری لگے مگر میں تمھاری بھلائی کے لئے ہی سب کہوں گی. "
( بالاج نے صرف ہاں میں سر ہلایا. )
" کسی بھی لڑکی سے بات کرتے ہوئے ایک دفعہ اپنی ماں اور میرے بارے میں سوچ لینا. جس طرح ہماری عزت ہے بلکل اسی طرح ہر لڑکی ہر عورت کی عزت ہے. اپنے گھر کی عورتوں کو تو ہر کوئی عزت دیتا ہے ایک مرد کی تربیت کا پتا تب لگتا ہے جب وہ باہر کسی عورت کو اتنی ہی عزت دیتا ہے جتنا کہ اپنے گھر کی خواتین کو عزت دیتا ہے. میں تمھاری ماں نہیں ہوں مگر میں نے تمھیں ماں بن کر تمھیں پالا ضرور ہے اس لئے میرے اور اپنے بڑے پاپا کی عزت پر کبھی کسی کو بولنے کا موقع نا دینا. "
" ماما ایسے تو نا بولیں. " ( یہ بات بالاج کے دل کو چیر گئی تھی. بالاج نے نائمہ کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا.)
" مجھے ماں سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی دوست سمجھ کر سب بتاو. سب سے پہلے اس لڑکی کا بتاو. "
بالاج نے جھجکتے ہوئے بولنا شروع کیا : " ماما وہ میری کزن ہے مہک نام ہے اسکا. پاپا کی موت کے بعد گھر میں ماما اور دادا کے بعد ایک وہی میری ساتھی تھی. ہمارے یہاں آنے کے بعد میری اس سے کبھی بات نہیں ہوئی تھی. لیکن ماما کی ڈیتھ کے بعد جب آپ نے اور بڑے پاپا نے مجھے چاند کے سکول میں ایڈمیشن کروانے کا بتایا تو میں نے اسی لئے انکار کیا تھا کیونکہ مجھے پتا تھا میرے سب کزنز اسی سکول میں ہیں. مگر آپ دونوں بضد تھے اس لئے مجھے مجبورا مجھے اسی سکول میں جانا پڑا. مگر میں سکول میں کبھی ان کے سامنے نہیں آیا. صرف اسی لئے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی مجھے پہچانے. پھر مجھے نہیں پتا اس نے مجھے کہا دیکھا پھر وہ روز سکول کے سامنے آنے لگی ایک دفعہ اس نے چاند سے بھی میرے بارے میں بات کی جس پر میں نے اسے کافی ڈانٹا بھی تھا. مگر اس پر میری کسی بات کا زرہ برابر اثر بھی نہیں ہوا تھا."
" اتنا کچھ ہو گیا اور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ "
" ماما مجھے لگا تھا میں سب ہینڈل کرلوں گا مگر اس کے بعد آخری پیپر والے دن اس نے میرے پاس آکر رونا شروع کر دیا تھا اس لئے میں نے اسے روکنے کے لئے اپنا نمبر دیا تھا. مگر مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ سچ میں کال کردے گی. "
" کیا اسے ہاجرہ کی وفات کا پتا ہے ؟ "
" ماما میری اس سے اتنی بات نہیں ہوئی." ( بالاج نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا.)
" آج کیا بات ہوئی ؟ "
" ایڈمیشن کے بارے میں پوچھ رہی تھی. "
" میں اس نے ملنا چاہتی ہوں. "
" ٹھیک ہے ماما. جس دن ایڈمیشن کروانے جانا ہے آپ بھی میرے ساتھ چلیے گا. "
-----------☆------------
سب رشتے داروں کو خود فون کرکے بتایا جا رہا تھا. کیان کے نمبر مہک سے کم ہونے کے باوجود ثریا بیگم اپنے میکے والوں کو بڑھا چڑھا کر اپنے بیٹے کے نمبر بتارہی تھی اور خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی. سب لان میں بیٹھے ہوئے تھے. مہک نے آج ابا کی فرمائش پر اسپیشل چائے بنائی تھی. تایا کے آتے ہی وہ چائے اور باقی لوازمات میز پر رکھتے ہوئے. اس نے تایا سے پیار لیا. اور پاوں کے بل بیٹھے سب کو چائے ڈال کر دینے لگی.
" ابو آپ نے کہا تھا اچھا رزلٹ آنے پر مجھے سیل فون لے کر دیں گے. تو میرا گفٹ کدھر ہے." ( کیان نے ابا کو اپنی بات یاد کرواتے ہوئے کہا. )
سلیم ملک نے کیان کو گاڑی سے گفٹس لانے کو کہا. کیان نے آتے ہی ابا سے پوچھا : " ابو دو گفٹس کس لئے. "
" ایک تمھارا اور دوسرا میری بیٹی کے لئے. "
" تایا ابو آپ میرے لئے بھی گفٹ لائے ہیں. " ( مہک نے خوشی سے پوچھا. "
" بلکل. تمھارا رزلٹ تو اس نالائق سے بھی اچھا ہے تو میں تمھارے لئے گفٹ کیوں نا لاتا. ؟ "
" ابو میرا رزلٹ اتنا بھی برا نہیں ہے." ( کیان نے منہ بناتے ہوئے کہا. )
ملک سلیم نے پہلے کیان کو اور پھر مہک کو ایک ڈبہ دیا. دونوں نے فورا سے پیکنگ کھولی.
" تھینک یو تایا ابو. " ( اس نے فون کا ڈبہ میز پر رکھتے ہوئے ملک سلیم کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا.)
" بھائی بھلا اس کی مہک کو کیا ضرورت تھی ؟ " ( شمیم بیگم نے اعتراض کیا.)
" اس نے کالج جانا کرنا ہے تو تب اسے ضرورت پڑ سکتی ہے."
ملک سلیم نے جواب دیا. ثریا بیگم چپ چاپ یہ بیٹھے دیکھ رہی تھی.
اگلے روز ایڈمیشن فارم جمع کروانے کے لئے مہک نے 9 بجے کے قریب اماں کو کہا : " ڈرائیور چچا کو کہیں مجھے کالج لے جائے. "
" تم اب بتا رہی ہو ؟ پہلے بتاتی تو تمھارے ابا تمھیں ساتھ لے جاتے. "
" مجھے لیٹ جانا تھا اس لئے ابو کو نہیں کہا تھا. آپ ڈرائیور چچا کو کہیں ناں. "
" وہ بھی تو ابھی تک تمھارے ابا کو چھوڑ کر واپس نہیں آیا ہے تم ایسا کرو کیان کے ساتھ چلی جاو. "
کیان کا نام سنتے ہی مہک کی ہوائیں اڑ گئی. " نہیں اماں مجھے اس بندر کے ساتھ نہیں جانا ہے."
" کیوں ؟ اس کے ساتھ جانے میں کیا مسئلہ ہے ؟ "
" بس مجھے نہیں پتا آپ ڈرائیور چچا کو بلائیں. "
اتنے میں کیان بھی تیار ہو کر سیڑھیوں سے نیچے اترتا دیکھائی دیا. شمیم بیگم نے اسے بلایا. اس نے آتے ہی مہک کو تنگ کرتے ہوئے کہا.
" بندریا تم آج اتنی صبح صبح تیار ہو کر کہاں جا رہی ہو. "
" تم ہو گے بندر. "
" ہاں میں تو ہوں. اور کچھ ؟ " ( اس نے ہنستے ہوئے کہا. )
" کیان بیٹا اس نے کالج جانا داخلہ فارم جمع کروانے تو تم اسے لے جاو. "
" ہاں چچی کیوں نہیں. " ( کیان نے موقع غنیمت جانا.)
" مجھے نہیں جانا تمھارے ساتھ. " ( مہک نے منہ بناتے ہوئے کہا. )
" تو ٹھیک ہے بیٹھی رہو پھر. ڈرائیور چچا تو چاچا اور ابا کو لے کر پسرور گئے ہوئے ہیں. شام کو ہی آئیں گے. "
" اچھا. چلو. " ( مہک نے سوچتے ہوئے کہا. )
مہک پورا راستہ یہی سوچتے ہوئے آئی کہ وہ کیان کو کالج کے اندر جانے سے کیسے روکے. کالج کے گیٹ کے سامنے مہک کو اتار رہا تھا اسے ایک دوست مل گیا تو وہ اس کے ساتھ چلا گیا. جس پر مہک نے سکھ کا سانس لیا.
ادھر بالاج بڑے پاپا کے ساتھ کالج کے لئے نکل رہے تھے کہ نائمہ بھی تیار ہو کر آگئی.
" پاپا میں بھی آپ دونوں کے ساتھ چلوں گی. "
" بیٹا تم جاکر کیا کرو گی ؟ "
" پاپا کالج میں میری ایک دوست پڑھاتی ہے وہ کافی عرصہ سے ملنے کا کہہ رہی تھی تو سوچا آج آپ کے ساتھ چلی جاتی ہوں. " ( نائمہ نے بالاج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. )
" ٹھیک ہے. " ( برگیڈئیر صاحب فورا سے مان گئے.)
تینوں کالج پہنچ چکے تھے. برگیڈئیر صاحب نے بہو کے ساتھ ہونے کی وجہ بالاج کے ساتھ اندر جانے کی بجائے گاڑی میں رکنا مناسب سمجھا. تھوڑی سی محنت کے بعد دونوں کو آخر مہک مل گئی تھی. مہک نے ملتے بالاج کو پوچھا. " کیسی لگ رہی ہوں میں. "
بالاج نے ماں کے سامنے شرمندہ سا ہوتے ہوئے کہا. " ماما تم سے ملنا چاہتی تھی."
" مجھ سے ملنا چاہتی ہے ، کدھر ہیں چچی ؟ " ( اس نے خوشی سے پوچھا.)
" میں بالاج کی ماما ہوں. " ( ساتھ کھڑی نائمہ نے کہا.)
" آپ. " ( مہک نے حیرانگی سے پوچھا. )
ایڈمیشن آفس کے تھوڑی پرے ایک بینچ پر تینوں بیٹھ گئے. بالاج اپنا اور مہک کا فارم جمع کروانے کے لئے قطار میں لگ گیا وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کن آکھیون سے ماں اور مہک کو باتیں کرتا دیکھتا اور پھر فارم کو دیکھنے لگتا. مہک کو ہاجرہ، شیدے اور مائی رحمتے کی موت کا سن کر دکھ ہوا تھا مگر وہ نائمہ کو مل کر خوش بھی تھی. اور نائمہ کی کمپنی انجوائے بھی کر رہی تھی.
-----☆☆☆☆☆-----
( جاری )
..
No comments:
Post a Comment