Sunday, 18 August 2019

Mujhy Yaad rakhna Tum By Shah Rukh Gull ||Episode#8

تم ہم کو یاد رکھنا
از شاہ رخ گل
آٹھویں قسط
---------------------------------
Novel : Tum Hum Ko Yaad Rakhna
By Shah Rukh Gull
Eight Episode
---------------------------------------
~ donot copy without permission ..
-----------------------------------------------
..
..
..
مہک اب روز اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کبھی بوائز سیکشن کے پاس خود پہنچ جاتی اور کبھی ڈرائیور سے ضد کر کے گاڑی بوائز سیکشن کے سامنے کروا لیتی. لیکن اگر وہ نظر نہیں آتا تو وہ پورا دن بے چین رہتی.
کیان کو مہک کی یہ حرکت بلکل بھی پسند نہیں آرہی تھی. اسے بوائز سیکشن کے سامنے یوں دیکھ کر اسے مہک پر غصہ آتا تھا. کبھی کبھی تو وہ ڈرائیور چچا کو بھی ڈانٹ دیا کرتا تھا. 
" چچا آپ میرے سکول کے سامنے اسے لے کر گاڑی کھڑی نا کیا کرے. " 
لیکن مہک کی ضد کے آگے کیان کی ڈانٹ سے ڈرائیور چچا کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی تھی.
مگر آج سکول سے واپس لوٹنے پر مہک کا منہ کچھ اترا ہوا تھا. اس نے ہال میں بیٹھی تائی اور ماں کو سلام کیا. شمیم بیگم نے اسے کھانے کا پوچھا. " مہک بیٹا کھانا لگا دوں ؟ " 
" نہیں امی بھوک نہیں ہے. " وہ اتنا کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی.ر
" ارے اسے کیا ہوا ہے ؟ " ثریا بیگم نے کیان کو پیار کرتے ہوئے کہا. کیان نے کندھے اچکاتے ہوئے بیگ وہی رکھا اور چچی سے کہا.
" چچی مجھے تو بہت بھوک لگی ہے مجھے تو کھانا یہی لا دیں. " 
مہک نے کمرے میں جاتے ہی بیگ ایک طرف پھینکا اور بیڈ پر یوں ہی لیٹ گئی. مہک نے آج ماں اور تائی کو کیان کی شکایت نہیں لگائی تھی. آج بالاج کے نہ ملنے پر وہ اس کا دل برا سا ہو رہا تھا. ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے.
" کیا وہ آج سکول آیا تھا ؟ " 
" لیکن اگر وہ سکول آیا تھا تو مجھے نظر کیوں نہیں آیا ؟ " 
وہ ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ کیان کھانا کھا کر اس کے کمرے میں داخل ہوا. 
" یہ کیا بدتمیزی ہے ؟" 
" کیا ؟ " ( کیان نے حیرانگی سے پوچھا. ) 
" تمھیں تمیز نہیں ہے کسی کے کمرے میں جانے کی ؟ " ( مہک اپنا غصہ اس پر اتارنے کی کوشش میں تھی. مگر وہ بھی کیان تھا.مہک کا غصہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑتا تھا. )
" میں کسی کے کمرہ میں تو نہیں آیا تمھارے کمرے میں آیا ہوں. " 
" ہاں تو. تمھیں دستک دے کر آنا چاہئیے تھا. کیونکہ یہ میرا کمرہ ہے." 
" کمرہ تمھارا ہے میں کب کہہ رہا ہوں میرا ہے ... مگر تم تو میری ہو ناں. " ( آدھی بات وہ اسے کہہ نہ سکا.) 
" اس لئے تو کہتی ہوں مجھ سے مینرز کی کچھ کلاسز لے لیا کرو. " ( وہ اب ہنسی تھی. )
" کلاسز سے یاد آیا کہیں تم اس لئے اداس تو نہیں ہو کہ میں کل سے تمھارے ساتھ سکول نہیں جاوں گا . " ( اس نے برا سا منہ بنایا. )
" میں تو شکر کروں گی. " 
" تم پہلی لڑکی ہو جو اس بات پر شکر کر رہی ہو. " " اوہوووو... تو اور کتنی لڑکیوں سے بات کرتے ہو تم بتانا ذرا ؟ "
" کیا مطلب ؟ " 
" تم نے خود ہی تو کہا ہے میں پہلی لڑکی ہوں. "
" ہاں لڑکیاں تو مجھ پے کافی مرتی ہیں. مگر میں تو تمھارے سوا کسی سے بات نہیں کرتا. اور نہ ہی کروں گا. " ( اب وہ جتا رہا تھا. ) 
" اہم. اہم. غلط فہمی ہے تمھاری. ویسے آجکل تم کچھ زیادہ ہی چھچھوری حرکتیں کرنے لگے ہو. " ( اس نے شرماتے ہوئے تکیہ کیان کی طرف پھینکا.)
" جی نہیں. " ( کیان تکیے سے بچتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا. )
" آئینے میں جا کر اپنی شکل دیکھنا." ( اس نے تکیہ دروازے سے اٹھاتے ہوئے کہا. )
" روز دیکھتا ہوں. الحمداللہ بہت پیاری ہے. " ( اس نے جاتے جاتے کہا تھا.)
-------------------------------
بالاج بخار کی وجہ سے بیڈ پر پڑا " ماما ، ماما " پکار رہا تھا. وہ جب بھی ماں یا باپ کو بہت یاد کیا کرتا تھا تو ایسے ہی بخار میں لوٹ پوٹ ہو جایا کرتا تھا. نائمہ اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹی کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس کے ماما پکارنے پے جی بیٹا بھی کہہ رہی تھی. جب کہ چاند اس کا ہاتھ پکڑے پریشان سا بیٹھا ہوا تھا.
---------------------------------
فاطمہ کھانے کی میز پر لسی کا جگ رکھ کر بیٹھ گئی. باقی سب بھی بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے. سلیم ملک نے ثریا بیگم سے پوچھا. " آج بچوں نے سکول نہیں جانا کیا ؟ ابھی اٹھے ہی نہیں ہیں."
" کیان کے تو پیپرز ہیں ساری رات پڑھتا رہا ہے. " 
" اور مہک ."
" مہک سکول کے لئے تیار ہو رہی ہے. بس آتی ہی ہو گی. " شمیم بیگم نے جواب دیا. اتنے میں مہک بھی " سلام " کرتے ہوئے آئی. 
" وعلیکم سلام پتر. " ( خالد ملک نے روٹی کا ایک نوالہ لیتے ہوئے کہا. ) 
تبھی سلیم ملک نے سب کو مخاطب کیا. " میں نے رات کو پیر صاحب کو فون کیا تھا تو وہ 2-2:30 بجے تک آئیں گے. تو کیان کی ماں تم کھانے کا سب انتظام اچھے سے کر لینا. کوئی کمی نہیں رہنی چاہئیے پیر صاحب کی خدمت میں."
" ٹھیک ہے میں سب دیکھ لوں گی. "
" بھائی صاحب رشتے والوں نے کیا کہا ؟ " شمیم بیگم نے سلیم ملک سے پوچھا.
" پیر صاحب کو اسی لئے بلایا ہے کہ وہ شادی کی تاریخ طے کر جائیں." 
مہک کو پیر صاحب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ وہ زینب اور فاطمہ کی شادی کو لے کر کافی ایکسائٹڈ تھی. کیونکہ فیملی میں پہلی شادی تھی. اس نے اپنا بیگ پکڑا اور گاڑی میں بیٹھ کر سکول چلی گئی. گھر سے نکلتے ہی اسکا دھیان ایک دفعہ پھر سے بالاج کی طرف ہو گیا. ناشتے کے بعد سے ہی گھر میں پیر صاحب کے آنے کے لئے تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی تھیں.
روز کی طرح چھٹی ہوتے ہی وہ گاڑی میں بیگ رکھ کر عائشہ کو ساتھ لئے بالاج کے انتظار میں گیٹ کے پاس آگئی تھی. اب کیان کے سکول نہ آنے کی وجہ سے وہ سکون سے بوائز سیکشن کے پاس کھڑی تھی. اسے آج یہ ڈر نہیں تھا کہ کیان دیکھ لے گا. 
اچانک عائشہ کی نظر چاند پر پڑی. اس نے مہک کو اشارہ کرتے ہوئے کہا.
" مہک وہ اس کا بھائی جا رہا ہے. " 
وہ دونوں اس کی طرف لپکی. مہک نے اسے آواز دی. " رکو."
وہ بھاری بھرکم بیگ پہنے گاڑی کی طرف جارہا تھا. مہک نے اس کا بیگ ہانپتے ہوئے کھینچا. چاند نے پیچھے مڑ کر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا. 
" کب سے تمھیں رکنے کا کہہ رہے ہیں. تم بنا بریک چلتے ہو کیا. ؟ عائشہ نے اسے کہا.
" Excuse me. " 
" تم بالاج کے بھائی ہو ناں ؟ " ( مہک نے فورا سے سوال کیا. ) 
" جی. مگر آپ کون ؟ " 
" وہ سکول کیوں نہیں آرہا ہے ؟ " ( اس نے دوسرا سوال کیا.) 
اب وہ چپ ان دونوں کو دیکھ رہا تھا. جیسے کہہ رہا ہو پہلے میرے سوال کا جواب دو تو ہی میں بھی بتاوں گا. مہک کچھ بولنے ہی والی ہی تھی کہ چاند نے اپنی آئی برو اوپر کرتے ہوئے منہ سا بنایا. تو مہک نے کہا.
" میں اس کی دوست ہوں. "
" آپ کو تو پتا ہونا چاہیے تھا کہ آپ کا دوست بیمار ہے ؟ کیسی دوست ہیں آپ ؟ ( اس نے اب مانو جیسے تیر چلایا تھا. ) میرے بڑے پاپا میرا انتظار کر رہے ہوں گے تو میں اب جاوں ؟ " 
وہ دونوں اس کی شکل دیکھتی رہ گئی تھی. چلو خیر آج اسے معلوم تو ہو گیا تھا کہ وہ سکول کیوں نہیں آرہا ہے. 
چاند نے پورا راستہ بڑی مشکل سے یہ بات ہضم کرے رکھی تھی. وہ گھر میں داخل ہوتے ہی بالاج کے کمرے کی طرف بیگ لئے بھاگا. 
" ماما بھیا کدھر ہیں ؟ " 
" اپنے کمرے میں. " نائمہ نے پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے کہا. کمرے میں داخل ہوتے ہی بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے بالاج کو مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا . 
" کیا. " بالاج نے اسے کہا. 
" یہ تو آپ بتائیں گے. " 
" تم سکول میں پھر سے کوئی شرارت کر کے آئے ہو کیا ؟ " 
" نہیں . " 
" تو کیا ؟ " 
" دو لڑکیاں آپ کے بارے میں پوچھ رہی تھی. " 
" کو ن سی لڑکیاں ؟ " ( بالاج نے حیرانگی سے پوچھا. ) 
" نام تو مجھے پوچھنا یاد ہی نہیں رہا. " 
" اگلی دفعہ کوئی لڑکی میرے بارے میں پوچھے تو اسکا نام ضرور پوچھ لینا. " ( اس نے چاند کو گھدگھدی کرتے ہوئے کہا. ) وہ سمجھ تو گیا تھا کہ لڑکی کون تھی. اتنے میں نائمہ پانی کا گلاس لیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی. 
" آج ایسا بھی کیا ہو گیا جو تم بھاگے بھاگے بھیا کے کمرے میں آئے. " 
" Nothing Mama. " 
اچھا چلو یونیفارم اتارو میں کھانا لگاتی ہوں تم دونوں بھائی آجاو اب. بالاج نے بھی تمھارے انتظار میں کھانا نہیں کھایا. 
" Ok Mama. " 
-----------------------------
ادھر مہک بھی گھر پہنچ چکی تھی. کل کی نسبت آج اسکا موڈ کچھ بہتر ہی تھا. پورچ میں گاڑی کے داخل ہوتے ہی حویلی کے خدوخال بتا رہے تھے کہ پیر صاحب کی آمد ہو چکی ہے. گاڑی سے اترتے ہی مہک نے سیدھا رخ کچن کی طرف کیا جہاں زینب اور فاطمہ شمیم بیگم کی مدد کر رہی تھیں. اس نے سب کو سلام کیا اور سلاد کی پلیٹ سے کھیرا اٹھا کر منہ میں ڈالنے ہی لگی تھی کہ ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا. " یہ پیر صاحب کے لئے ہے. رکھو. " 
" امممممی. بھوک لگی ہوئی ہے. " 
" پتیلے سے ڈال کر کھاو. " 
" ایک تو پیر صاحب نا ہوئے پتا نہیں کیا ہیں. " ( وہ اتنا کہتے ہوئے کچن سے باہر نکل کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی. ) 
" اب کھانا تو کھاتی جاو. " 
" کمرے میں بھیج دیں پلیز. " ( اس نے سیڑھیوں سے آواز لگائی. ) 
شمیم بیگم پیر صاحب کی خدمت میں اتنی مصروف ہو گئی کہ وہ مہک کو کھانا دینا بھول گئی. مہک چینج کر کے پھر سے کچن میں پہنچ چکی تھی اور بریانی کی پلیٹ پر اپنے ہاتھ صاف کر رہی تھی. کیان اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا. نظر مہک پر پڑتے ہی وہ پلٹا اور کچن کے دروازے پر کھڑا ہو گیا. " تو بلی ادھر چھپی بیٹھی برتن صاف کر رہی ہے. " 
اس نے کیان کو گھورا. " تم ہوگے بلے. " 
" ہر وقت مجھ سے لڑا مت کرو. " 
" کیوں ؟ " ( اس نے بریانی کا چمچ منہ میں ڈالا. ) 
" کیونکہ اماں کہتی ہیں جو زیادہ لڑتے ہیں ان میں پیار بھی ذیادہ ہوتا ہے. " 
" بکواس نا کیا کرو. " 
" مزاق کر رہا ہوں سیریس مت ہو. ویسے تم پیر صاحب کو سلام کیوں نہیں کرنے آئی ؟ " 
" میں مصروف ہوں. "
" ہاں وہ تو مجھے نظر آ ہی رہا ہے. "
" شادی کی کیا تاریخ رکھی. تمھارے پیر صاحب نے ؟ " 
" تمھارے کا کیا مطلب ہے ہم سب کے ہی ہیں." 
" اچھا اب بتاو بھی. " 
"تمھارے ایگزیمز سے پہلے اور میرے ایگزیمز کے بعد. "
" یہ کیا بات ہوئی. " 
" شکر کرو کہ میں پاس تھا. ورنہ ابو تو تمھارے پیپرز کے دنوں میں ہی شادی رکھ رہے تھے اور تم بیچاری کو کسی نے پوچھنا بھی نہیں تھا. " 
" تم اب زیادہ بنو مت. " 
" بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے. " 
اتنے میں ثریا بیگم کیان کو بلانے آئی. تو مہک کو بھی ساتھ ہی پیر صاحب کے پاس لے آئی. مہک جیسے ہی بیٹھک میں داخل ہوئی تو تایا اور ابا سمیت سبھی نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور پیر صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے. اس کو یہ سب دیکھ کر شدید غصہ آرہا تھا وہ سلام کیے بنا ہی الٹے پاوں واپس مڑی.
" ارے اسے کیا ہوا ہے ؟ " ( ثریا بیگم نے کہا. ) 
" میں دیکھتی ہوں آپا. " شمیم بیگم نے جواب دیا. شمیم بیگم مہک کے کمرے میں آئی تو وہ کتاب کھولے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی. 
" تم نے پیر صاحب کو سلام نہیں کرنا تھا تو بیٹھک میں آنے کی کیا ضرورت تھی. " 
" مجھے تائی اماں لائی تھی. " ( اس نے کتاب سے نظریں پرے کرتے ہوئے کہا. ) 
" چلو اٹھو. پیر صاحب کو سلام کر کے آو. " 
" اماں آپ کو ہی مبارک ایسے پیر صاحب. " 
" کیا مطلب ." 
" یہ کہاں لکھا ہے کہ پیر صاحب کرسی پر بیٹھیں اور آپ سب فقیروں کی طرح نیچے بیٹھیں. ہمارے دین میں تو ایسا کچھ نہیں ہے پھر یہ کہاں کے پیر ہوئے ؟ " 
" مہک تم پیر صاحب کی بے حرمتی کر رہی ہو. " 
" اماں میں کوئی بے حرمتی نہیں کر رہی ہوں. " 
" بس ذیادہ بکواس نہیں کرو. نہیں آنا تو چپ کر کے پڑھائی کرو. " 
" وہی کر رہی تھی. " ( اس نے کتاب پھر سے پکڑتے ہوئے کہا. )
--------------------------------- 
سکول میں پاوں رکھتے ہی اسے پھر سے بالاج کی فکر ہونے لگ گئی تھی. پتا نہیں آج بھی آیا ہوگا کہ نہیں ؟ کیا اس کی طبیعت ٹھیک ہوئی ہے ؟
چھٹی ہوتے ہی وہ عائشہ کو کہہ رہی تھی. " جلدی چلو. وہ کہیں چلا نا جائے. " 
" یار تمھیں وہ نظر آئے یا نا آئے مگر مجھے تمھارے چکر میں ماما سے ڈانٹ ضرور پڑ جائے گی. " 
" باتیں بعد میں کر لینا ابھی چلو جلدی. لیٹ ہو رہے ہیں." ( مہک نے اسے کھنچتے ہوئے کہا. )
وہ دونوں بوائز سیکشن کی طرف آرہی تھی. لڑکے گروہ در گروہ باہر نکل رہے تھے. آتے ہوئے آج پھر سے ان کا ٹکراو چاند سے ہو گیا تھا. آج ان کے سوال سے پہلے اس نے پوچھا. " آپ وہی ہیں ناں جو مجھے کل ملی تھی ؟ " 
" کام آسان ہو گیا. " ( عائشہ نے مہک کو کہا. ) 
" ہاں. " 
" میں کل آپ کا نام پوچھنا بھول گیا تھا. آپ کا نام کیا ہے ؟ " 
" مہک ملک. " 
" نائس نیم . آئی ایم .... " 
اس سے پہلے وہ اپنا تعارف نامہ کھولتا. بالاج اس کے سامنے اور ان دونوں کے عین پیچھے کھڑا تھا. 
" بھیا."
" تم گاڑی میں جا کر بیٹھو میں 5 منٹ میں آتا ہوں. " " مجھے نام تو پوچھ لینے دیتے بھیا. " وہ خود سے مخاطب ہوتے ہوئے برا سا منہ بنا کر گاڑی کی طرف گیا. مہک کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا. 
" کیا مسئلہ ہے آپ کا ؟ آپ کیوں میرے بھائی کا دماغ خراب کر رہی ہیں. کل آپ اسے کہہ رہی تھی کہ آپ میری دوست ہیں. میں تو آپ کو جانتا تک نہیں ہوں ؟ " 
" کککوئی مسئلہ نہیں ہے." ( کچھ دیر بعد اس کے منہ سے الفاظ نکلے تھے. ) 
" اگر کوئی مسئلہ نہیں تو آج کے بعد میرے بھائی سے ایسی بات کرنے کی ہمت بھی مت کرنا. ورنہ مہک ملک مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا. تمھارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم میرے بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ دو." وہ اتنا کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا. وہ اسے جاتا دیکھ رہی تھی.
" ایک طرف کہہ رہا ہے مجھے نہیں جانتا اور دوسری طرف میرا نام بھی لے رہا ہے. میں تمھیں مانتی ہوں بالاج ملک... ہیٹس آف... اچھے سپورٹس مین کے ساتھ ساتھ ایک اچھے اداکار بھی بن سکتے ہو. " 
" مہک یہ تو ہماری بےعزتی کر کے چلا گیا. " ( عائشہ نے اسے ہلاتے ہوئے کہا. ) 
" آس پاس کسی نے سنا تو نہیں ؟ " 
" نہیں. " 
" بس پھر اگنور کرو. جن کی عزت ہو ان کی بے عزتی ہوتی ہے. ہمارا بے عزتی سے کیا تعلق ؟ دو تالی. " ( اس نے آنکھ مارتے ہوئے کہا. عائشہ نے ہنستے ہوئے اس کے ہاتھ پے ہاتھ مارا. ) 
---------------------------- 
ملک حویلی کو چھوٹی ، پیلی بتیوں سے پورا بھر دیا گیا تھا. آنے والے مہمان ان لائٹوں کی وجہ سے شادی والا گھر دور سے پہچان سکتے تھے. حویلی کے دروازے کھلے پوئے تھے. مہمانوں کی خوب گہماگہمی تھی. حویلی میں پہلی شادی تھی. ملک صاحب اپنی بیٹوں کی شادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے. پورے گاوں کے بچوں کو مہندی اور چنے بطور شگون بانٹے جا رہے تھے. بچے خوشی خوشی برتن لے کر آرہے تھے اور مائی حاجن سے بھروا بھروا کر لے جا رہے تھے. دونوں لڑکیاں مہندی کے فنکشن کے لئے تیار ہو کر آ چکی تھیں. حویلی کے لان میں ہی کنوپی لگا دی گئی تھی.
سب رشتے دار اور مہمان لان میں دلہنوں کے آنے کے انتظار میں بیٹھ گئے تھے. شمیم بیگم اور ثریا بیگم پیلا دوپٹہ ایک ایک طرف سے پکڑے مہک کے انتظار میں کھڑی تھی. 
" یہ لڑکی پتا نہیں کب تیار ہو کر آئے گی ؟ کیان چھوڑو دوپٹہ پہلے اسے نیچے اتار کے لاو. " شمیم بیگم کو کیان کو کہا. وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اس کے کمرے کے پاس آیا. پہلے تو اس نے ڈائریکٹ انٹری کرنی چاہی مگر پھر اسے اس دن والی بےعزتی یاد آ گئی اس لئے دروازے پر دستک دی. 
" کون ؟ " 
" مہک جلدی کرو یار. اماں اور چچی بلا رہی ہیں." ( کیان یہ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا. ) 
وہ شیشے کے سامنے پیلی قیمض اور پنک شلوار و دوپٹہ پہنے ہوئے کھڑی تھی. ایک ہاتھ سے پانچ منٹ کا اشارہ کرتے ہوئے وہ کانوں میں بالی ڈال رہی تھی. 
" اچھی لگ رہی ہو. " کیان یہ کہے بنا رہ نہ سکا. 
" میں تو ہمیشہ اچھی ہی لگتی ہوں. " 
" مگر آج تمھیں اچھا نہیں لگنا چاہیے. " 
اس نے منہ بنایا. 
" شادی زینب اور فاطمہ کی ہے تمھاری نہیں. " ( کیان نے اسکا منہ دیکھتے ہوئے کہا. ) 
" اپنی شادی پر تو میں اس سے بھی ذیادہ تیار ہوں گی اور تم دیکھتے ہی رہ جاو گے. " 
" ابھی بھی تو دیکھ ہی رہا ہوں. " 
" اب تم اپنا ڈرامہ مت شروع کر لینا چلو. " ( اس نے کیان کا ہاتھ کھنچتے ہوئے کہا. ) 
ان دونوں کے آتے ہی زینب اور فاطمہ کو باہر لان میں لایا تھا جہاں سب مہمان تھے. خاندان کے بڑوں نے دونوں کو مہندی اور تیل لگا کر باقاعدہ رسم کا آغاز کیا. 
پورا فنکشن ہی بہت اچھا رہا. تایا تائی اپنی بیٹوں کے جانے سے خوش بھی تھے اور غمگین بھی. البتہ کیان اور مہک نے اپنے گھر میں ایک ساتھ دو ، دو شادیاں خوب انجوائے کیں. کئی دن تک گھر میں ہلا غلا جاری رہا. 
☆☆☆☆☆
..
( جاری ) 

No comments:

Post a Comment