#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#از_قلم_علینہ
#قسط_نمبر_٢
💕💕حصہ اول💕💕
شیراز نے ایم_ایس_سی کیا تھا اور کمپیوٹر میں ڈپلومہ بھی کیا تھا اس وقت وہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔صبح کے وقت یونیورسٹی جاتا پھر اس کے بعد اس نے اپنی اکیڈمی بنائی تھی جہاں وہ سیکنڈ ٹائم پڑھاتا تھا۔
نواز آٹو موبائل انجنیئرنگ کر رہا تھا گجرانوالہ سے عاکف بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا لیکن وہ الیکٹریکل انجينئرنگ کر رہا تھا۔
عاطر ایم_سی_ایس کر رہا تھا۔
عامر میس کام کر رہا تھا۔
عابِر آرمی میں چلا گیا تھا۔
عاطف اس وقت آرمی میں کیپٹن تھا۔
عرینا BSC کے فائنل ائیر میں تھی۔
عریشہ آٹھویں جماعت میں تھی۔
غرضیکہ گھر کے سب افراد مصروف ہوتے تھے مگر آج سب فراز کے پوزیشن لینے کی خوشی میں شریک تھے سوائے عاطف اور عابِر کے۔ان دونوں کو چھوٹی نہیں ملی تھی۔
اور اس وقت سب فراز کا سر کھا رہے تھے۔
"فراز بھائی جب تک آپ نے ہمیں ٹریٹ نا دی۔ہم سے آپ کی جان نہیں چھوٹے گی۔"عریشہ نے بڑے پیار سے کہا۔
"ٹھیک ہے چھوٹی میڈم میں سمجھ گیا۔مجھے جیسے ہی پہلی تنخواہ ملے گی میں تم سب کو ٹریٹ دونگا۔اب تو جان خلاصی ہو سکتی ہے ناں میری۔"
"ہاں جی بالکل۔"سب نے یک زبان کہا۔
"چلو اب سارے رفو چکر ہو جاؤ یہاں سے۔میں اب آرام کرنا چاہتا ہوں۔"
سب باری باری اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز۔"رات وہ باہر سے آیا تو کسی نے سرگوشی میں پکارا۔فراز گیلری کی طرف پلٹا۔
"کون؟"فراز نے پوچھا۔
"توبہ ہے کتنی لڑکیوں کی آوازیں ہیں کانوں میں پہچانتے نہیں ہو؟"
"بھئی اب یونیورسٹی کی ہر لڑکی فراز فراز پکارتی رہتی ہے۔"
"چلو بھئی deduct کر گئے ہو۔"
"اچھا یہ بتاؤ یہ رات کے اندھیرے میں چڑیلوں کی طرح فراز فراز کیوں پکار رہی تھی؟"
"تمہیں کچا چبانے کے لیے......ہاہاہاہا۔"
"ویری فنی.........مجھے ہنسی ہی نہیں آئی۔"
"دفع ہو.......ادھر آؤ میرے ساتھ۔"عرینا اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے والی گیلری میں لے گئی جو بالکل استعمال نہیں کی جاتی تھی مگر وہاں عرینا نے تھوڑی سی جگہ صاف کر کے راہداری بنائی ہوئی تھی۔فراز اکتایا ہوا اس کے ساتھ چل رہا تھا۔آگے موم بتیوں کی روشنی تھی۔
"تم نے تو پارٹی دی نہیں مگر مجھے تو سیلیبریٹ کرنا ہے ناں۔"
عرینا بولی۔کاپر کلر کے سوٹ میں اور موم بتیوں کی روشنی میں وہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔اس کی سنہری آنکھیں اور سنہری بال روشنی میں اور جنوں خیز ہو رہے تھے۔چھوٹے سے ٹیبل پر سفید کاغذ پر چاکلیٹ کیک پڑا جس کے چاروں طرف ٹیبل پر کینڈلز تھیں۔فراز دھیما سا مسکرا رہا تھا مگر ساتھ ہی اس سے نظریں بھی چرا رہا تھا۔کیونکہ آج وہ خود کو عرینا کو دیکھنے سے روک نہیں پا رہا تھا۔
"چلو کاٹو۔"
"کیا کاٹوں؟"یہ بونگا سا سوال جانے کیوں اس نے پوچھا۔
"کیک اور کیا میرا گلا کاٹنا ہے۔"اب عرینا کی جھنجلاہٹ تو بنتی تھی۔
فراز نے کیک کاٹا۔عرینا نے بے آواز سی تالیاں بجائیں۔تھوڑا سا کیک اٹھا کر فراز نے عرینا کے منہ میں ڈالا۔عرینا کے نرم گلابی ہونٹ اس کی انگلیوں سے مس ہوئے اور لمس فراز کے دل تک پہنچ گیا۔پھر عرینا نے فراز کو کھلایا تو فراز نے اس کی انگلی پر کاٹا۔
"اوئے ہوئے کتنی کڑوی ہو تم۔"فراز نے منہ بنا کر کہا۔
"خود تو جیسے بڑے میٹھے ہو.......یہ بتاؤ کیک کیسا ہے؟"
"بہت اچھا۔"فراز مذید کیک کھانے لگا۔
"سچی.......میں نے بنایا ہے۔"
"اچھا......گھر پر کسی کو پتہ نہیں چلا کیا.......ورنہ کیک پر تو سب مکھیوں کی طرح منڈلاتے ہیں۔"
"بس تمہارے لیے چھپا کر رکھا تھا۔"
"اچھا۔"
"اور یہ تمہارا گفٹ۔"
"کیا ہے اس میں؟"فراز نے اس بڑے سے ڈبے کو اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
"یہ پوچھو کیا کیا ہے اس میں۔"
"ہوں دیکھ لیتے ہیں.........پینٹ,برش,ایزل,بورڈ اور یہ یہ کیا ہے؟"
"اسے چائینہ کلے کہتے ہیں sculpturs والی۔"
"اچھا خود کہتی ہو ان اوٹ پٹانگ حرکتوں کو چھوڑ دوں پھر خود ہی گفٹ کر رہی ہو۔تم چاہتی کیا ہو؟"
"میں تو تمہاری خوشی چاہتی ہوں کیونکہ تمہاری ہر کاميابی اور خوشی سے مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔"
"رئیلی........تھینک یو......آج تم نے واقعی میری دوست ہونے کا حق ادا کیا ہے۔"
"اور تم نے آج تک نہیں کیا۔"
"اچھا کل کالج سے تمہیں پِک کرونگا۔تو تمہیں ٹریٹ دے دونگا۔ٹھیک ہے؟"
"اوکے۔"عرینا چمک اٹھی۔
"چلو اب اٹھاؤ یہ سب رات کافی ہو گئی ہے۔اینڈ تھینک یو۔"
"یو آر آلویز ویلکم۔"
"گڈ نائٹ۔" فراز نے کہہ کر کینڈلز کو پھونک مار کر اندھیرا کر دیا۔
"فراز تمہارا ستیاناس یہ کیک کیڑیوں کی نظر ہو جائے گا۔"
فراز کے قہقہے اسے سنائی دئیے پھر اس نے لائیٹ جلائی۔
"کیک کا بہانہ بنایا ہے ورنہ اندھیرے سے ڈر گئی تھی ناں۔"
"بھوتوں میں رہنے کی عادت ہو گئی ہے مجھے۔روشنی ہو یا اندھیرا۔"
"ظاہر ہے چڑیل نے بھوتوں کے ساتھ ہی رہنا ہے........چلو چلیں۔آگے لگو۔"
فراز نے پیچھے کینڈل اٹھائی اور اسے راستہ دکھایا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
اگلے دن کالج میں عرینا کی نظریں گھڑی پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔اس وقت وہ آخری پیریڈ اٹینڈ کر کے گراؤنڈ میں اپنی فرینڈز کے ساتھ بیٹھی فراز کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
"کس کا ہے یہ تم کو انتظار بولو ناں......"اس کی فرینڈ مومنہ بار بار اس کی بے چینی کو دیکھ کر اسے چھیڑنے لگی۔مومنہ اور اس کی دوستی فرسٹ ائیر میں ہوئی تھی۔
"آج فراز نے ٹریٹ دینی ہے۔ایم_اے میں تیسری پوزیشن جو لی ہے اس نے۔"عرینا نے فخر سے بتایا۔
"فراز وہ جو تمہارے بڑے پاپا کا بیٹا ہے؟"نور فاطمہ نے پوچھا۔جس کو سب پیار سے نور ہی بولتے تھے۔نور سے عرینا کی دوستی چھے ماہ پہلے ہوئی تھی۔نور جس ٹائپ کی لڑکی تھی مومنہ کو بالکل اچھی نہیں لگتی تھی مگر اس بات کا کبھی اس نے عرینا سے برملا اظہار نہیں کیا تھا کہ کہیں اسے برا نا لگے کیونکہ نور سے دوستی عرینا نے کی تھی۔
"ارے نہیں......وہ تو بابا جان کا منجھلا بیٹا ہے۔"
"پھر تو وہ تم سے بڑا ہو گا ناں۔"نور نے پوچھا۔
"ہاں مجھ سے کافی بڑا ہے۔"
"تو تم اسے بھائی کیوں نہیں کہتی؟"نور نے کہا۔
"بس ہماری دوستی ہی بہت ہے۔"
پھر وہ تینوں کالج کے گیٹ کے پاس آ گئیں۔
"وہ لڑکا تمہیں بلا رہا ہے شاید۔"مومنہ نے عرینا سے کہا۔
عرینا نے پلٹ کر دیکھا۔
"آ گیا ہے۔"
"یہ ہے فراز۔"نور نے فراز کو دیکھتے پوچھا۔
"ہاں فراز صرف میں کہہ سکتی ہوں تم دونوں اسے بھائی بولو۔"
"مجھے کوئی اعتراض نہیں فراز کو بھائی بولنے پر۔"مومنہ نے جھٹ سے بات مان لی۔
"مجھے بھائی بنانے کا کوئی شوق نہیں اسے۔"نور تو لگتا پوری طرح لٹو ہو گئی تھی فراز پر۔
"اور تمہارا کچھ اور بننے پر وہ بالکل تیار نہیں ہو گا۔"
"ظاہر ہے اتنا لمبا ہاتھ مارا ہے اسے کیا ضرورت ہے۔"نور اسے سنا کر منہ بنا کر چلے گئی۔
"مومنہ کیا مطلب تھا اس کا۔"
"چھوڑو تم اسے۔وہ ویسے ہی جلتی ہے تم سے۔اس لیے ایسی باتیں کر رہی ہے۔"
"لیکن وہ جلتی کیوں ہے مجھ سے؟"
"جو بھی ہے چھوڑو اسے۔اس لیے میں تمہیں کہتی ہوں اس سے دوستی ٹھیک نہیں ہے۔"
"ٹھیک ہے اب میں نے اس سے دوستی ہی نہیں رکھنی۔"
"اچھا میرا بھائی آ گیا ہے اب میں بھی چلتی ہوں۔تم بھی جاؤ۔"
مومنہ بھی چلے گئی تو وہ اپنی چادر ٹھیک کرتی اس طرف چلے گئی جہاں فراز کھڑا تھا۔
"کب سے کھڑا ہوں پلٹ کر دیکھ لیا کرو۔بس اپنی سہیلیوں کے ساتھ گپیں مارنے میں لگی رہتی ہو۔تین سال سے یہی رونا ہے تمہارا۔"فراز کا دھوپ میں کھڑے ہو کر پارہ ہی ہائی ہو گیا تھا۔
"السلام علیکم۔"ہمیشہ کی طرح اس کی ڈانٹ کے آگے سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام.......اب چلو گھر۔"
"گھر.........فراز۔"گویا وہ بھول گیا۔
"کیوں گھر نہیں جانا؟"
"تو تم بھول گئے ہو؟"
"میں بھولا نہیں ہوں پر گھر تو پھر بھی جانا ہے ناں اور پلیز اب اپنی پھٹی آواز میں رونا مت شروع کر دینا۔"
"ارے میرے گلے میں تو کوئل بولتی ہے۔"
"اور تم اس کے بھی کان کھاتی ہو۔"
"جلو تم۔"عرینا اس کے ساتھ بائیک پہ بیٹھ گئی۔
"اچھا زیادہ فری نا ہو ورنہ سیدھا گھر لے جاؤنگا۔"
"پتہ ہے مجھے ازلی کنجوس ہو۔"
"تم سے کم ہی ہوں........کہاں جانا ہے؟"
"چائینیز۔"
"چائینیز کھا کھا کر بھی تم چائینیز لڑکیوں کی طرح خوبصورت نہیں بننے والی۔"
"فراز خاموشی سے ڈرائيو کرو۔ایسا نا میں پیچھے سے تمہاری کمر توڑ دوں مار مار کے۔"
"اللہ توبہ ظالم لڑکی۔میری کمر توڑ دو گی تو اپنا ہی نقصان کروگی۔"
"وہ کیسے؟"
"کیونکہ پھر میں تمہیں سیدھا ہسپتال لے جاؤنگا۔سارے پیسے میرے ادھر لگ جانے۔کھا لینا پھر چائینیز۔"
"اچھا تم ٹریٹ دو توڑنے کا پروگرام میں فی الحال پوس پونڈ کر دیتی ہوں۔"
اس کے بعد دونوں ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔
"فراز مجھے موبائل لے دو۔"ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے عرینا نے فرمائش کی۔
آج سے پہلے تک وہ اپنی فرمائشیں ایسے ہی فراز سے کیا کرتی تھی۔
"بی_ایس_سی میں ٹاپ کرو۔پھر لے دونگا۔"ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ عرینا کچھ مانگے اور فراز اسے انکار کر دے۔
"اتنی لیٹ۔"
"تم نے کیا کرنا ہے؟"
"تم شک کر رہے ہو مجھ پر؟"
فراز نے مسکرا کر سر اوپر نیچے کیا۔عرینا تپ گئی۔
"میں نہیں کھا رہی۔"
"اوکے پیک کروا لیتے ہیں۔"
"فراز ایک تو تمہیں کسی بات سے فرق ہی نہیں پڑتا۔پتہ نہیں کس مٹی سے بنے ہو۔آرٹسٹ لوگ تو اتنے حساس ہوتے ہیں۔"
"ایک تو تم ذرا ذرا سی بات پر منہ بسور لیتی ہو۔تمہیں اچھی طرح پتہ ہے ہم میں سوری والا ریلیشن نہیں ہے۔پھر ایویں ہی۔اور تمہیں پتہ ہے دنیا میں صرف ایک بندہ ہے جو مجھ سے اپنی بات منوا سکتا ہے اور وہ............"
"پتہ نہیں کون ہے۔"عرینا بسور کر ٹوک گئی۔
"اے شیرنی۔چلو جانے دو۔لو کھاؤ۔"فراز نے چمچ میں چاول بھر کر آگے کیا اسکے چہرے اور آنکھوں میں اتنا پیار تھا عرینا مسکرا دی۔
اس کے بعد دونوں باتیں کرتے رہے اور ساتھ ساتھ لنچ بھی کرتے رہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ دوم💕💕
"فراز تمہارے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں یہ سب کرنے کے؟"واپسی پر عرینا کو باباجان کی اس دن والی بات یاد آ گئی تو اس نے فراز سے پوچھا۔
"تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"
"ویسے ہی......تم بتاؤ ناں۔"
"بے فکر رہو اچھی حلال کی کمائی ہے۔"
"حلال کی ہوتی تو تم یوں نا اڑاتے۔"آج تو جیسے عرینا کے منہ میں بابا جان کی زبان آ گئی تھی۔
"تم پہ تو میں اپنی ساری کمائی ہنس کے لٹا سکتا ہوں۔کیونکہ تم میری.........دوست جو ہو۔"
فراز اپنے دل کی بات کرتے کرتے بات کو بدل گیا۔
"پھر بتاؤ تو کمائی کہاں کی ہے؟"عرینا کا انداز ایسا تھا گویا آج پوچھ کے ہی جان چھوڑے گی۔
"کہاں کی کا کیا مطلب؟........شیراز کی اکیڈمی میں میتھ پڑھاتا ہوں۔"
"کیا........چھپے رستم گھنے میسنے مجھے بتایا ہی نہیں۔"عرینا اس کا شانہ ٹھوکنے لگی۔
"اوئے باز آ جاؤ۔ڈرائيو کر رہا ہوں میں۔چلو اترو جننی۔"فراز نے گیٹ کے پاس بائیک کھڑی کر کے کہا۔
"کیا کہا ہے؟"
"جننی۔"
"تم اندر آؤ پھر پوچھتی ہوں تم سے۔بھوت کہیں کے۔"عرینا یہ کہہ کر اندر چلے گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عرینا۔"
"جی امی۔"
"ذرا اپنا بیگ رکھ کے میرے کمرے میں آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"جی امی میں آتی ہوں۔"
عرینا جیسے ہی اندر آئی اس کی امی نے اسے اپنے کمرے میں بلایا۔
عرینا بیگ رکھ کر امی کے کمرے میں آ گئی۔
"جی امی کہیے کیا کہنا ہے آپ نے؟"
"ادھر میرے پاس آکر بیٹھو۔"رخسانہ بیگم نے عرینا کو اپنے پاس بیڈ پر بیٹھنے کو کہا۔عرینا بیٹھ گئی تو بولیں۔
"عرینا تم فائنل ائیر میں ہو گئی ہو مگر عقل تو تمہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔"
"اب میں نے کیا کیا ہے امی؟"
"کیا کیا ہے.......یہ پوچھو کیا نہیں کیا تم نے......میں اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی جب میں نے تمہیں فراز کو مارتے دیکھا۔تمہیں ذرا شرم نہیں آئی......کتنا بڑا ہے وہ تم سے......مگر نہیں تم اس سے ایسے بات کرتی ہو جیسے وہ چھوٹا ہو تم سے.......چلو میں نے یہ سب بھی برداشت کیا......مگر یہ کیا تم نے اس پر ہاتھ کیسے اٹھایا......سب کے بے جا لاڈ پیار نے تمہیں سر چڑھا رکھا ہے........آج فراز پہ ہاتھ اٹھایا ہے تم نے۔کل کو اپنے شوہر پر بھی اٹھاؤ گی......لوگ تمہیں نہیں مجھے باتیں کریں گے کہ اس کی ماں نے اس کی تربیت ہی ٹھیک نہیں کی۔"
"پر امی مجھے تو شادی ہی نہیں کرنی تو لوگ باتیں کیسے کرینگے آپ کو؟"
"کیوں نہیں کرنی شادی تم نے؟"
"کیونکہ مجھے آپ کو اور اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا۔اور رہی بات فراز کو مارنے کی تو وہ تو میں نے ویسے ہی مذاق میں ایسا کیا تھا۔اگر میری امی کو برا لگا ہے تو میں فراز سے سوری کر لونگی۔اب خوش ہے ناں آپ؟.........اب تو آپ مجھے میری شادی کا نہیں سنائے گی ناں؟"عرینا یہ کہہ کر اپنی امی کے گلے لگ گئی۔
رخسانہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے سوچنے لگی کہ کتنی معصوم ہے میری بچی۔اللہ اس کے نیک نصیب کرے۔اسے زمانے کے سرد و گرم کا نہیں پتہ۔اللہ زندگی کے ہر اونچ نیچ سے اسے بچائے۔
"عرینا تمہاری خالہ نے ایک سوال کیا تھا مجھ سے۔میں نے تمہارے پاپا کو بتایا انہوں نے کہا کہ تم سے پوچھ کے جواب دوں میں۔"
"امی آپ کو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔آپ دونوں کو جو اچھا لگتا ہے آپ وہی جواب دے دیں خالہ کو۔"
رخسانہ بیگم خوش ہو گئیں۔
"ٹھیک ہے ہماری طرف سے تو ہاں ہے۔ویسے مجھے بڑی ٹینشن ہو رہی تھی کہ پتہ نہیں تم کیا کہو گی۔"
"میں نے کیا کہنا ہے الٹا آپ مجھے باتیں سنا دیتی ہیں۔"
"شریر لڑکی۔"رخسانہ بیگم نے ہلکی سی چپت لگائی اس کے سر پر۔
"اچھا امی اب میں جاؤں؟"
"ہاں جاؤ........میں کھانا لگاتی ہوں تمہارے لیے۔"
"نہیں امی مجھے بھوک نہیں ہے۔"
"کیوں بھوک نہیں ہے؟"
"ویسے ہی۔"
"اچھا چلو جب بھوک لگے تب کھا لینا۔"
"جی امی۔"
عرینا یہ کہہ کر فراز کے کمرے کی طرف چل دی۔اسے اس بات کا قطعاََ علم نہیں تھا کہ وہ کس بات کے لیے ہاں کر آئی ہے۔اسے تو خوشی تھی اس بات کی کہ اسے زیادہ ڈانٹ نہیں پڑی امی سے اور جلد ہی جان خلاصی ہو گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز تمہیں پتہ ہے ابھی میری کلاس لگی تھی امی سے۔"
"کیسی کلاس؟"
فراز اپنے پینٹینگ روم میں کھڑا اپنی پینٹینگز کو اچھے سے رکھ رہا تھا۔جب عرینا اس کے پاس آئی۔وہ اپنا کام چھوڑ کر اس کی رام کتھا سننے بیٹھ گیا۔
"اوہ.........تو چلو پھر سوری کرو مجھ سے؟"
"کیوں سوری کروں؟جب ہم میں سوری والا کوئی چکر ہی نہیں ہے تو۔"
"ہاں یہ تو تم نے صحیح کہا۔"
"فراز تمہیں پتہ ہے خالہ نے کسی بات کا سوال کیا تھا امی سے۔"
"کس بات کا؟"
"پتہ نہیں.........امی کہہ رہی تھیں کہ میں نے تمہارے پاپا سے بات کی تھی..........."اس کے بعد عرینا نے سب فراز کو بتا دیا۔
"تو تم نے پوچھا بھی نہیں اور ہاں کر دی؟"فراز کی چھٹی حس اسے کسی خطرے کا سگنل دے رہی تھی۔
"ہاں........میں نے پوچھ کے کیا کرنا تھا۔"
"اچھا چلو میں خود چھوٹے پاپا سے یا چھوٹی امی سے پوچھ لونگا۔"فراز نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں پوچھ لینا.......پر تم مجھے یہ بتاؤ تم اپنی پینٹینگز کسی کو دینے لگے ہو کیا جو اس طرح پیک کر رہے ہو؟"
"نہیں.........عرینا تم جاؤ جا کر اپنا کام کرو اور مجھے بھی میرا کام کرنے دو۔کل سے میں نے آفس جانا ہے تو یہ کام میں نے آج ہی ختم کرنا ہے۔"
"اوکے۔"
عرینا یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئی مگر فراز کو سوچوں کے سمندر میں غوطہ لگانے کے لیے چھوڑ گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز یہ والی شرٹ پہنو,نہیں یہ والی..........یہ بلیو پہن لو تمہیں بہت سوٹ کرتی ہے۔"
فراز آج آفس جانے لگا تھا پر اس سے زیادہ عرینا کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔
"عرینا میں پہلے دن سکول نہیں جا رہا چھوڑو یہ سب,میں ہو جاتا ہوں تیار۔تم ناشتہ بناؤ چل کے۔"فراز نے ہینگر اس کے ہاتھ سے لیے۔
"فراز ایک تو تم ہر چیز کو بڑا ایزی لیتے ہو۔"
"ایوری تھینگ ہیو گوٹ اٹ امپورٹینس ایٹ ایٹس پلیس۔اینڈ آئی نو ڈیٹ۔اب تم جاؤ گی تو میں تیار ہونگا ناں۔"
"اوکے ناشتہ اوپر ہی لے آؤں۔"
"نہیں آ رہا ہوں نیچے۔"
فراز نے تیار ہو کر نیچے آ کر ناشتہ کیا۔جانے لگا تو عرینا بولی۔
"فراز یہ پی کر جاؤ میں نے سورۃ واقع پڑھی ہے۔"فراز نے جلدی سے پانی کے گھونٹ بھرے اور گلاس اسے پکڑا دیا۔
"چلو اندر قدم رکھ کر درود پڑھنا۔"
"اوکے۔"
"فراز کامیابی کی پہلی سیڑھی کانفیڈنس ہوتا ہے۔پزل نہیں ہونا۔گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔کانفیڈنس سے بات کرنا سب سے۔امپریشن اچھا پڑے گا۔"
"عرینا عرینا ریلکس کیا بات ہے کیوں اتنی ایکسائیٹ ہو رہی ہو میں کوئی پہلی دفعہ آفس جا رہا ہوں۔بہت بار جا چکا ہوں سو کام ڈاؤن اوکے۔"
فراز نے کوٹ پہنتے اسے کہا تو عرینا گہرے سانس لینے لگی۔
"فراز۔"
"ہوں۔"
"بابا جانی آج آفس نہیں جا رہے۔اپنے کمرے میں ہیں وہ تو ان سے پیار لے کر جانا۔"وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔
"عرینا۔"
"کیا ہے؟"عرینا نے گویا اسے تنبہیہ کی۔
"عرینا وہ..........باباجان........تمہیں پتہ بھی ہے۔"فراز بے بسی سے بولا۔
"مجھے کچھ نہیں پتہ چلو ان سے ملے بخیر میں نے........بس تم جاؤ۔چلو بھی۔"عرینا اب اسے کمر سے دھکیل رہی تھی۔
بابا جان کے کمرے کے باہر ہی فراز رک گیا۔عرینا نے اس کا ارادہ بھانپ لیا سو خود ہی دروازہ کھٹکھٹایا۔
"آ جاؤ کون ہے؟"اندر سے آواز آئی۔تو فراز نے عرینا کی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔
"میں باہر ہی کان لگا کر کھڑی ہوں۔چلو۔"
فراز دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔
"اسلام علیکم بابا جان۔"
"وا........علیکم سلام........تم آج سلام کرنے کیسے آ گئے؟"بابا جان اپنی آرام کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھتے بولے۔
"وہ.........وہ بابا جان آج میں پہلے دن آفس جا رہا ہوں ناں۔"
"تو؟"
"وہ میں آپ سے دعا لینے آیا ہوں۔"فراز ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر زمین پر بیٹھا۔
حسان صاحب نے چشمہ اتار کر دیکھا۔فراز کی گہری بڑی بڑی گرے معصوم سی آنکھیں۔کتنے پیار سے وہ انہیں دیکھ رہا تھا۔عرینا کہا کرتی تھی۔
"دنیا کی ہر خوبی فراز کی آنکھوں میں ہے۔بڑی بھی۔خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔گہری بھی۔اور معصوم بھی۔"
اور اسی معصومیت پر حسان صاحب کو پیار آ گیا۔آگے بڑھ کر انہوں نے فراز کا ماتھا چوما آنکھیں بند کر کے فراز نے اس احساس کو دل میں اتارا۔
"جانتے ہو ماں باپ کے لیے ان کی ہر اولاد برابر ہوتی ہے۔وہ سب سے پیار کرتے ہیں۔سب کا خیال رکھتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کی آنکھوں کے سامنے کامیابی کی سیڑھیاں پار کرتی رہے۔ماں باپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں ہوتی۔دنیا میں شاید ہی کوئی ماں باپ ایسے ہوں گے جو اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غم زدہ نا ہوں۔میں نے بھی جو تم لوگوں پر سختی کی وہ اس وجہ سے کی تاکہ تم لوگ کسی غلط کاموں میں نا پڑ جاؤ۔ترقی کی دوڑ میں آگے قدم بڑھا سکو۔تم لوگ میرا کل سرمایہ ہو۔میں تمہیں در بدر بھٹکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔باپ ہوں ناں فکر تو ہونی تھی خاص کر تمہاری۔
آج میں تمہارے اس فیصلے سے بے حد خوش ہوں۔میری دعائيں تمہارے ساتھ ہیں۔اللہ پاک زندگی کے ہر موڑ پر تمہیں کامیابی عطا کرے۔خوش رہو۔چلو اب تم جاؤ ایسا نا ہو پہلے دن ہی لیٹ ہو۔میں کل سے آفس جاؤنگا تو جو تمہیں نہیں سمجھ آئے گا مجھ سے پوچھ لیا کرنا۔"احسان صاحب نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔
"جی بابا جانی........تھینک یو.......تھینک یو سو مچ۔"فراز نے چہکتے ہوئے وارفتگی سے ان کے ہاتھ چومے اور خدا حافظ کہہ کر باہر آ گیا۔
عرینا ہاتھ میں بائیک کی چابی لیے باہر ہی کھڑی تھی۔فراز کے چہرے کی ہنسی کا مطلب فوراََ سمجھ گئی۔
"کہا تھا ناں۔لو اب نکلو دعائيں کافی ہو گئیں ہیں۔اب کامیاب ہو ہی جاؤ گے إن شاءالله۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
No comments:
Post a Comment