Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena ||Episode#3

#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#از_قلم_علینہ
#قسط_نمبر_٣
💕💕حصہ اول💕💕
"مجھے اب اس چابی کی ضرورت نہیں ہے۔"
"بائیک پہ نہیں جانا تو کیا پیدل جاؤ گے؟"
"نہیں۔"
"تو....؟"
"تو یہ دیکھو۔بابا جان نے مجھے اپنی کار گفٹ کر دی ہے۔"
"ارے واہ........پہلے دن ہی گفٹ مل گیا.......بہت بہت مبارک ہو فراز۔"
"خیر مبارک۔"
"اس کا مطلب پھر میرا آئس کریم کھانا تو بنتا ہے۔"
"ایک تو تمہارے جیسی پیٹو دوست نا ہو کسی کی۔جسے ہر وقت کھانے کی پڑی ہوتی ہے۔"
"ٹھیک ہے نا کھلاؤ۔"عرینا ناراض ہو کر اپنا چہرہ موڑ گئی۔
"اے شیرنی.......ناراض کیوں ہوتی ہو.......کھلا دونگا تمہیں آئس کریم جس دن مجھے ٹائم ملا.......اب تو خوش ہو ناں۔"فراز نے عرینا کا چہرہ اپنی طرف موڑ کر کہا۔
"دیکھا میں اس لیے ہی کہتی ہوں کہ میرے فراز جتنا اچھا کوئی نہیں۔"عرینا ایک منٹ میں راضی بھی ہو گئی۔اس کو خوش دیکھنے کے لیے ہی تو فراز اتنا سب کچھ کرتا تھا۔اس بات کو اس نے کبھی عرینا پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔مگر اس کی خوشی کے ساتھ ہی تو فراز کی خوشی جڑی تھی۔
"اچھا اب مکھن نا لگاؤ........میں جا رہا ہوں دیر ہو رہی ہے مجھے.......اللہ حافظ۔"
"اللہ حافظ اینڈ آل دا بیسٹ۔"
"تھینکس۔"
فراز کچن کے پاس سے گزرنے لگا تو چھوٹی امی نے اسے دیکھ لیا۔
"ماشاءالله ماشاءالله میرا بیٹا کتنا پیارا لگ رہا ہے۔اللہ نظرِ بد سے بچائے تمہیں۔اللہ تمہیں ڈھیروں کامیابیاں عطا فرمائے۔"
"آمین۔چھوٹی امی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے مجھے۔"
"ماں کی دعائيں ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔"
چھوٹی امی نے فراز کی ڈھیروں بلائیں لے کر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونک مار کر اسے اپنی دعاؤں کے حصار میں رخصت کیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"السلام علیکم بڑے پاپا۔"فراز جیسے آفس پہنچا اس نے بڑے پاپا کو دیکھ کر سلام کیا جو کاؤنٹر کے پاس کھڑے فائل چیک کر رہے تھے۔
"وعلیکم اسلام......ویلکم ینگ مین۔"بڑے پاپا نے خوشی سے اسے گلے لگایا۔
"ماشاءالله آج ہمارا فراز بہت ڈیشنگ لگ رہا ہے۔"فراز نے آج بلیک کلر کا تھری پیس پہنا تھا۔جو اس کے کسرتی جسم پر بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔بڑے پاپا نے کھلے دل سے اس کی تعریف کی۔فراز آگے سے شرما گیا۔
"آ.......بڑے پاپا میرا کیبن کون سا ہوگا؟"
"ایک منٹ.......ایوری ون آٹینشن پلیز........آپ سب فراز کو تو پہلے سے ہی جانتے ہونگے۔لیکن آج یہ یہاں اپنی ایک نئی پہچان لے کر آیا ہے۔آج سے یہ آپ کا نیو سر ہے۔"
بڑے پاپا نے اس کا سب سے تعارف کروایا سب نے اسے ویلکم سر کہا جس کا اس نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔
پرسنیلٹی تو پہلے ہی اس کی رعب دار تھی اوپر سے اس کا سنجیدہ انداز سب کو مرغوب کرنے کے لیے کافی تھا۔
پھر بڑے پاپا اسے اس کے کیبن میں لے گئے۔
"فراز بیٹا یہ لو بھئی ہماری طرف سے چھوٹا سا تحفہ۔"فراز کے ٹیبل پہ پھولوں کا بکے پہلے سے موجود تھا جسے بڑے پاپا نے اسے دیا۔
"جزاک اللہ بڑے پاپا........یہ بہت پیارے ہیں۔"
"سر مے آئی کم ان؟"
"جی آ جائے امتیاز صاحب۔"
"فراز بیٹا یہ امتیاز صاحب ہماری کمپنی کے مینیجر ہیں۔کافی عرصہ ہو گیا ہے ان کو ہمارے ساتھ کام کرتے۔یہ بہت ہی وفادار اور قابل اعتبار ہیں۔"
"سر یہ تو آپ کا بڑا پن ہے ورنہ یہ ناچیز کس قابل۔"
"ارے نہیں نہیں.......آپ واقعی اس قابل ہیں کہ آپ کی تعریف کی جائے.......تو فراز بیٹا یہ آج سے آپ کے ساتھ رہیں گے۔آپ کو ہر چیز سمجھا دیں گے.......آپ ان پہ اعتبار کر سکتے ہو۔"
"جی بہتر بڑے پاپا۔"
"اب آپ دونوں اپنا کام کریں۔میں چلتا ہوں۔"
"ٹھیک بڑے پاپا۔"
اس کے بعد امتیاز صاحب اسے اس کا کام سمجھانے لگے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز کیسے ہو.......آفس کا پہلا دن کیسا گزر رہا ہے.....لنچ کر لیا تم نے؟"
فراز نے لنچ ٹائم میں فری ہو کر گھر کال کی تو عرینا فراز کی آواز سنتے ہی شروع ہو گئی۔
"ارے بابا........صبر کرو......اتنے سارے سوال ایک دفعہ ہی پوچھ لیے تم نے۔"
"اچھا یہ بتاؤ لنچ کر لیا تم نے؟"
"لنچ کر کے فری ہو کر ہی تمہیں کال کی ہے۔"
"ٹھیک.......تو اب یہ بتاؤ آفس میں پہلا دن کیسا گزر رہا ہے؟"
"اچھا گزر رہا ہے......باقی تفصیل میں گھر آ کر تمہیں بتاؤنگا......تم آج کالج کیوں نہیں گئی؟"فراز کو عرینا کا بلاوجہ کالج سے چھٹی کرنا بہت برا لگتا تھا۔پڑھائی کے معاملے میں وہ عرینا کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آتا تھا۔
"بس آج میرا چھٹی کرنے کو دل تھا تو میں نے چھٹی کر لی۔"
"کیوں؟"
"ویسے ہی۔"
"ویسے ہی کیسے.......تم خود نہیں گئی یا کوئی لے کر نہیں گیا؟"
"آ........نہیں میں خود نہیں گئی۔"
"عرینا تمہیں پتہ ہے ناں تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتی۔"
"اگر اتنی فکر تھی میری تو خود کالج چھوڑ کر جاتے ناں مجھے۔"
"اوکے.......میں سوچتا ہوں اس مسئلے کا حل۔"
"سوچو,سوچو......تم نے نہیں سوچنا تو اور کس نے سوچنا ہے۔"
"اچھا ٹھیک ہے.......میں اب گھر آ کر بات کرونگا تم سے......چھٹی کر لی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم آگے سبق یاد نہیں کرو گی۔اگلا سبق یاد کر کے رکھنا....میں نے آ کے سننا ہے تم سے۔"
"ایک تو تم جب میرے ٹیچر بنتے ہو ناں بالکل زہر لگتے ہو مجھے۔"
"اچھا اب زہر لگ رہا ہوں تو شہد کب لگتا ہوں میں تمہیں؟"
فراز نے ہنسی میں بات اڑائی تو عرینا نے غصے سے ریسیور پٹخ دیا۔
فراز ہنسنے لگا کہ چلو اب یہ غصے سے اپنا سبق تو یاد کرے گی ناں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
گرمیوں کی رات تھی قدرِ ٹھنڈی اور پرسکون سی۔
دن بھر کی گرمی اور حبس کے بعد شام میں ہوا نے کچھ اٹکھیلیاں شروع کی تھیں۔موتیا اور رات کی رانی کو چھو کر جب آنگن کا رخ کرتی تو پوری فضا مہکی ہوئی سی لگتی تھی۔ربیعہ نے سِرشام ہی کلثوم آپا اور ہما آپی کے ساتھ مل کر آنگن میں چھڑکاؤ کر دیا تھا۔پھر لائن میں چارپائیاں بچھا کر کھیس بچھا دیے تھے۔روزانہ کی طرح تینوں بہنوں نے یہ کام کرتے ہوئے آپس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی تھی۔اور نا ہی چھڑکاؤ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر پانی پھینکا تھا۔ایک دوسرے سے نظریں چرائے بس خاموشی سے ہر کام ہو گیا تھا۔اور ایسا پچھلے ایک ہفتے سے ہو رہا تھا۔
اور تو اور اماں بھی خاموش تھیں۔نہ کوئی ہدایت,نہ سرزنش۔برآمدے میں رکھے تخت پوش پر بیٹھیں,جانے کن سوچوں میں مگن تھیں۔ان کی آنکھیں ایک ہی نکتے پر مرکوز۔اور چہرے پر تفکرات کی لکیروں کا جال تھا۔
کسی کسی وقت ایک طویل سانس آہ کی صورت ان کے ہونٹوں سے خارج ہوتی تو چارپائیوں پر کھیس بچھاتے ہوئے ربیعہ کے ہاتھ وہیں رک جاتے اور وہ درد دیدہ نگاہوں سے اماں کی طرف دیکھنے لگتی۔
یہ سانگلہ ہل کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں کا شام کا منظر تھا۔جہاں شفیق صاحب,اختری بیگم اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے۔
ابا میاں ایک پرائيویٹ کمپنی میں ملازم تھے۔نہایت شریف ایماندار اور خدا کی رضا میں راضی رہنے والے۔کبھی کوئی شکوہ ان کے لب سے نہیں نکلا تھا ہمیشہ شکر کا کلمہ پڑھتے نظر آتے۔
ابامیاں کو کینسر کے آخری سٹیج پر پہنچنے کے باعث ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔کمپنی مالکان نے ان کو ان کے بقایا جات ایک ساتھ ہی دے دیے جس کی بناء پر شفیق صاحب نے اپنی دونوں بڑی بیٹیوں کلثوم اور ہما کی شادیاں کرنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ تو ربیعہ کی شادی بھی ساتھ ہی کرنا چاہتے تھے مگر اس کے لیے ان کو مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا۔
کلثوم کا رشتہ انہوں نے پہلے ہی اپنی بڑی بہن شگفتہ بیگم کے بڑے بیٹے کے ساتھ طے کیا ہوا تھا اور چھوٹی بیٹی ہما کا رشتہ اپنے بڑے بھائی کے سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ طے ہوا تھا۔
ہفتہ پہلے ابامیاں کی بیماری کا سن کر سب پریشان ہو گئے۔مگر آج دوپہر ابا میاں نے جب دو دن بعد ان دونوں کی شادی کرنے کا فیصلہ سنایا تو کوئی کچھ نہ کہہ سکا سوائے رونے کے۔
اماں نے پہلے ہی تھوڑا تھوڑا کر کے دونوں بیٹیوں کا سامان جوڑنا شروع کر دیا تھا۔
اماں کے ہونٹوں پہ تو چپ کی مہر ثبت ہو گئی تھی۔اپنے شریکِ حیات کے کسی پل ہی چھوڑ کر چلے جانے کا غم ان کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔
"کاش میرے بس میں ہوتا تو میں اس گھر کے سب دکھ درد سمیٹ لیتی۔سب پہلے کی طرح خوش و خرم رہتے۔کیسے سب کے ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے چہرے مرجھا گئے ہیں۔کاش میں دوبارہ ان پر خوشی کی رمق دیکھ پاتی۔"
دن میں کتنی بار ربیعہ نے اس انداز سے سوچا تھا۔اب بھی کھلے آسمان پر دور تک نظریں دوڑاتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں دہرایا۔پھر اس کی نظریں ستاروں کے جھرمٹ پر جم گئیں۔جو ایک دوسرے کے بے حد قریب ہو کر جانے کیا سرگوشیاں کر رہے تھے۔کچھ شریر سا انداز تھا۔
جلتے بجھتے جیسے ایک دوسرے کو اشارے کر رہے ہوں۔
روزانہ ستاروں کے جھرمٹ کو دیکھتے ہوئے اس کے ہونٹ اپنے آپ ہی مسکرانے لگتے تھے اور جب وہ ان کے درمیان چاند کو تصور کرتی تو ایک چہرہ نمودار ہو کر کتنے سہانے خواب اس کی پلکوں پر اتارا کرتا۔پھر بقیہ تمام رات وہ ان خوابوں کی سر زمین پر اس کا ہاتھ تھام کر بہت دور تک نکل جاتی تھی۔
اور خواب تو وہ اب بھی سجانا چاہتی تھی۔ہر طرف سے بے نیاز ہو کر کچھ دیر کے لیے حقیقی زندگی کی تلخیاں بھلا کر,چاہتی تھی,کچھ سہانے خواب ہی سجا لے۔لیکن دل اتنا بوجھل ہو رہا تھا کہ کوئی اچھی بات سوچی ہی نہ گئی۔ستاروں کے جھرمٹ سے سفر کرتے ہوئے اس کی نظریں اپنے آنگن کا طواف کرنے لگیں۔
کچن کے دروازے کے پاس پیڈسٹل فین رکھا تھا اور اس کے سامنے سب سے پہلے ابا میاں کی چارپائی تھی۔
ان کے کچھ فاصلے پر کلثوم آپا اور ہما آپی۔پھر وہ خود تھی۔
اماں کی چارپائی سرہانے کی طرف تھی۔
اس نے باری باری سب کو دیکھا۔ابھی تو رات کا پہلا پہر تھا اور سب سو رہے تھے۔
ہفتہ پہلے تک وہ تینوں کبھی بھی اتنی جلدی نہیں سوئیں تھیں۔رات کافی دیر تک باتیں کرتیں رہتیں۔پر اب..........
اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔پھر بھی کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛


💕💕حصہ دوم💕💕
"شکیل کے ابا سنا آپ نے......؟؟"امتیاز صاحب گھر آ کر کھانا کھا رہے تھے جب ان کی بیگم فضیلت ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
اس چار مرلے کے گھر میں چار افراد رہتے تھے۔امتیاز صاحب ان کی بیوی فضیلت بیگم بڑا بیٹا شکیل اور چھوٹی بیٹی فریدہ۔
اس گھر میں دو کمرے تھے ایک کمرے میں فریدہ ہوتی تھی تو دوسرے کمرے میں امتیاز صاحب اور ان کی بیگم۔آگے کچن اور باتھ روم تھا۔اس کے ساتھ بیٹھک بنی تھی۔بیٹھک میں شکیل رہتا تھا۔کیونکہ وہاں سے باہر نکلنا اس کے لیے بہت آسان تھا۔
کچن اور باتھ روم کے سامنے تھوڑی سی جگہ خالی تھی جہاں تخت پر اس وقت دونوں میاں بیوی بیٹھے تھے۔
"کیا......؟"
"ہائے غضب خدا کا......میرا تو سوچ سوچ کے ہی برا حال ہو رہا ہے۔پتہ نہیں میری آپا پر کیا گزر رہی ہو گی۔"
"کیا ہوا ہے تمہاری آپا کو.......؟؟؟"
"آج آپا کا فون آیا تھا۔بڑی رو رہی تھیں بیچاری.....بھائی صاحب بلڈ کینسر کے آخری سٹیج پر ہیں۔کمپنی والوں نے نوکری سے رخصت دے دی ہے۔جتنے ان کے بقایا جات تھے وہ بھی ان کو دے دیے ہیں۔"
"اللہ معاف کرے۔یہ تو شفیق بھائی کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔"
"ہاں جی۔کمپنی والے بھی اچھے ہیں جنہوں نے سارے پیسے ان کو دے دیے ہیں۔نہیں تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔علاج بھی کمپنی کی طرف سے ہو رہا ہے ان کا۔"
"جانتا ہوں میں اپنے مالکان کو۔سب ہی بہت نیک دل ہیں۔سخاوت کے معاملے میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔میرے ہی کہنے پر انہوں نے شفیق بھائی کو اپنی سانگلے والے فیکٹری میں ملازمت دی تھی۔
آج سے بڑے صاحب کے بیٹے نے بھی کمپنی کو جوائن کر لیا ہے۔وہ بھی بہت اچھا ہے۔بڑے ہی تمیز سے بات کرتا ہے۔نہیں تو آج کل کی نوجوان نسل کہاں ملازموں سے ٹھیک سے بات کرتی ہے۔
اللہ لمبی حیاتی دے شفیق بھائی کو۔"
"آمین......ہمیں بھی کل گاؤں جانا پڑے گا۔"
"شفیق بھائی کی خیریت معلوم کرنے.....؟""
"خیریت بھی دریافت کرنی ہے اور ساتھ میں کلثوم اور ہما کی شادی بھی ہو رہی ہے۔"
"ہممممم.......بھائی صاحب نے یہ بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔اچھا ہے بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کر دیں۔"
"ہاں جی........شکیل کے ابا میں سوچ رہی تھی کیوں نا ربیعہ کا ہاتھ ہم اپنے شکیل کے لیے مانگ لیں۔اس طرح ان کا بوجھ بھی اتر جائے گا اور ہمارے شکیل کی شادی بھی ہو جائے گی۔"
شکیل نے بی_اے کے پیپرز دیے تھے اور اب وہ سارا سارا دن آوارہ پھرتا رہتا تھا۔امتیاز صاحب اسے جب بھی اپنے ساتھ جا کر کمپنی میں کام کرنے کو کہتے وہ لڑ جھگڑ کر انکار کر کے باہر چلا جاتا کہ مجھ سے نہیں کسی کی نوکری کی جاتی میں تو اپنا کاروبار کرونگا۔
اتنی مہنگائی میں جہاں گھر کا گزر بسر بہت مشکل سے ہو رہا تھا وہاں امتیاز صاحب اس کو کاروبار کے لیے اتنی بڑی رقم کہاں سے لا کر دیتے۔سو وہ آوارہ پھرتا رہتا تھا۔
پر اس کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں تھی۔وہ چاہتا تھا جیسے اب تک اس کی ہر مانگ پوری کی گئی ہے یہ بھی پوری کر دی جائے۔
"اماں ایسا سوچنا بھی مت۔میں نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنی ہے۔میں نے نہیں کسی پینڈو سے شادی کرنی۔"
شکیل تو ماں کی بات سن کر ہی غصے میں آ گیا۔
"ارے کمبخت......تو بھی اسی گاؤں سے ہی آیا ہے۔اتنی پیاری پڑھی لکھی لڑکی ہے۔اور میں دیکھتی ہوں کیسے تم اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرتا ہے۔دہائی خدا کی ہم جب اس عمر میں تھے ہماری تو اپنے ماں باپ کے سامنے زبان تک نہیں کھلتی تھی اور تو کیسے بے شرموں کی طرح اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرونگا,بول رہا ہے۔"
"اماں بھائی نے کچھ غلط بھی نہیں بولا۔میرا ایک ہی تو بھائی ہے اس کے لیے بھی ہم کسی پینڈو لڑکی کو لے آئیں۔مجھے بھی یہ بات نہیں منظور۔"
شکیل سے چھوٹی فریدہ نے بھی بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"دیکھ رہے ہیں آپ کتنے منہ پھٹ ہو گئے ہیں یہ دونوں۔"
"دیکھ بھی رہا ہوں اور سمجھ بھی رہا ہوں۔یہ سب تمہاری شہہ پر ہی ہو رہا ہے۔جب میں سختی کرتا تھا ان پہ تب تم ہی مجھے کچھ کہنے نہیں دیتی تھی۔اب بھگتو انجام۔"
امتیاز صاحب یہ کہہ کر اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگے۔
"ہاں ہاں اب یہ بھی میرا ہی قصور ہے.........."
"فریدہ ایک کپ چائے کا بنا کر میرے کمرے میں پہنچا دینا۔"
فضیلت بیگم اور بھی جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں مگر امتیاز صاحب فریدہ کو چائے لانے کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
فریدہ بھی فورا کچن میں چلے گئی مبادہ اسے ہی ڈانٹ نا پڑنے لگ جائے۔
"اب تم کدھر دفع ہو رہے ہو۔سن نہیں رہے اپنے باپ کی باتیں۔ہر کوئی مجھے ہی الزام دیتا ہے۔"
"باہر گلی میں ہی ہوں اماں آ جاؤنگا تھوڑی دیر تک۔"
"ہاں تمہاری تھوڑی دیر پتہ ہے مجھے کب تک ہوتی ہے۔نہ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔کام دھندا کوئی کرتا نہیں رات کو بارہ بارہ بجے تک آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے۔یہ بھی نہیں سوچتا ماں گھر میں اس کے آنے کا انتظار کرتی رہتی ہے۔پر کسی کو کیا لگے میرے آرام سکون کی۔باپ بھی آ کر سو جاتا ہے۔ساری مصیبتیں میرے لیے ہی رکھی ہیں۔"
شکیل باہر جا چکا تھا پر اس کی اماں پھر بھی بول رہی تھیں۔
"فریدہ ایک کپ میرے لیے بھی بنا دینا......گندی اولاد سر میں درد کر کے رکھ دی ہے میرے۔اوپر سے اس کے ابا بھی مجھے ہی الزام دیتے ہیں......ہاں میں ہی بری ہوں جو گھر بھی سنبهالتی ہوں۔بچے بھی سنبهالتی ہوں۔پھر بھی مجھے ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں........ہائے......ارے لے آ چائے کمبخت ماری۔"فضیلت بیگم دوپٹے سے اپنا سر باندھ کر لیٹ گئیں۔
"لا رہی ہوں اماں۔"
"چائے بنا رہی ہے کہ پائے جو ابھی تک بنے نہیں....."
"یہ لے اماں چلاتی جو اتنا ہے سر تو درد ہو گا ناں۔"
فریدہ یہ کہہ کر کچن کی طرف بھاگ گئی مبادہ جوتا نہ کھانا پڑ جائے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"السلام علیکم........"بڑے پاپا اور فراز نے گھر آ کر سب پر سلامتی بھیجی۔
وعلیکم اسلام.......کیسا ہے میرا بچہ.....؟"بڑی امی نے اسے پانی کا گلاس تھماتے پوچھا۔
"امی میں ٹھیک ہوں.....بابا جان کہاں ہیں؟"
"وہ تو کسی کام سے گئے ہیں۔"
"کدھر......"
"فراز بیٹا میں آپ کو بتانا ہی بھول گیا۔بابا جان اور آپ کے چھوٹے پاپا سانگلہ ہل گئے ہیں۔"
"خیریت.....؟"
"ہاں وہاں چھوٹا سا کام تھا۔آ جائیں گے کل پرسوں تک۔"
"ٹھیک.....پر امی باقی سب کہاں ہیں.....کوئی نظر نہیں آ رہا۔"
"سب ادھر ہی تھے۔ابھی اپنے کمروں میں چلے گئے ہیں۔اچھا تم فریش ہو جاؤ میں کھانا لگاتی ہوں تب تک۔"
"جی امی....."
فراز یہ کہہ کر عرینا کے کمرے کی طرف چل دیا۔
"لگتا ہے میڈم کا موڈ اوف ہے.....نہیں تو ہال میں ہی میرا انتظار کر رہی ہوتی۔اور آتے ہی سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتی۔"
فراز اپنے آپ میں سوچتا عرینا کے کمرے کے باہر کھڑا ہو کر دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔
"کوئی نہیں ہے کمرے میں۔"اندر سے عرینا کی ناراضگی سے بھرپور آواز سنائی دی تو فراز دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔عرینا کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔
"ارے......میری عرینا کہاں چلے گئی.....کوئی اس کو ڈھونڈ کر لاؤ۔"فراز یہ کہہ کوٹ اتار کر صوفے پر پھینک کر آرام سے اس کے بیڈ پر لیٹ گیا۔
"یہ کیا طریقہ ہوا ایک تو بغیر اجازت میرے کمرے میں گھس آئے۔آتے ہی لیٹ ایسے گئے ہو جیسے یہ تمہارا کمرہ ہو۔"عرینا کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑنے لگی فراز سے۔
"ایک دن یہ کمرہ میرا ہی ہو گا تم دیکھ لینا۔"فراز چھت کو دیکھتے مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔اسے مزہ آ رہا تھا عرینا کو تپا کر۔
"کوئی نہیں میں تمہیں اپنا کمرہ کبھی نہیں دینے والی۔میرے کمرے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔"
فراز اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"میں تو دیکھوں گا یہ خواب......اور تم دیکھنا ایک دن میرا یہ خواب پورا بھی ہو جانا ہے۔وہ والا کمرہ میں نے نواز کو دے دینا ہے۔خود میں یہاں رہا کرونگا اپنی بیوی کے ساتھ۔"
"چلو اٹھو......نکلو میرے کمرے سے.....اور اپنے کمرے میں جا کر جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھو۔"
"دیکھو چڑیل ایک دن تمہاری شادی ہو جانی ہے۔پھر یہ کمرہ لاوارث ہو جائے گا۔تو اچھا نہیں میں اسے آباد رکھونگا......یہ جو تم نے یہاں اس کونے میں اپنا بک ریک رکھا ہے ناں میں یہاں کھڑا ہو کر اپنی بیوی کو یہاں بیڈ پر بیٹھا کر اس کا پوٹریٹ بناؤنگا......ہائے......کتنا زبردست لگے......"
فراز اٹھ کر اس کو جگہ کی نشاندہی کر کے بتا رہا تھا ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ عرینا نے تکیہ پکڑ کر اسے مارنا شروع کر دیا۔فراز نے اپنے بچاؤ کے لیے اپنے بازو چہرے کے آگے کر دیے۔
"اللہ توبہ جننی ہو تم پوری کی پوری۔"فراز نے بھی دوسرا تکیہ پکڑ لیا۔
"نہیں میں بتاتی ہوں تمہیں.....کیسے تم میرا کمرہ لو گے...اور کیسے اپنی بیوی کا پوٹریٹ بناؤ گے......اسے میرے بیڈ پہ بٹھا کر۔"
"ہاں بناؤنگا.....ضرور بناؤنگا......اپنی خوبصورت سی بیوی کا.....تم جلو.....مجھ سے جل جل کر ہی کالی ہو گئی ہو۔"
"کالی ہو تمہاری بیوی.....میں نہیں ہوں۔" 
عرینا تکیہ پھینک کر صوفے پر منہ بنا کر بیٹھ گئی۔فراز بھی تکیہ رکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
"عرینا یہ کیا بات ہوئی ایک تو میری بیچاری خوبصورت سی بیوی کو کالی بول رہی ہو.....اور اب خود ہی منہ بنا کر بیٹھ گئی ہو۔"
"کیوں ڈانٹا تھا دوپہر میں مجھے؟"
"تمہیں پتہ ہے ناں میں پڑھائی کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔اور نا تمہیں رعایت ملے گی۔جب شروع سے لے کر اب تک تمہاری پڑھائی کا ذمہ میں نے لے رکھا ہے تو پھر میں یہ قطعاََ برداشت نہیں کرونگا کہ تم پڑھائی کے معاملے میں لاپرواھی برتو۔"
"پڑھتی تو ہوں میں۔"
"گڈ......آج کا سبق یاد کیا ہے؟"
"ہاں....."
"عرینا....."فراز کو اس کا ہاں بولنا بہت برا لگتا تھا اس لیے اسے ٹوک گیا۔
"ہاں جی کیا ہے یاد سبق میں نے۔اب ٹھیک.....؟"
"ٹھیک ہے.....میں ڈنر کرنے کے بعد سنو گا سبق تم سے....."
"اوکے۔"فراز اپنا کوٹ پکڑ کر چلا گیا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

No comments:

Post a Comment