Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena ||Episode#10


#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_١٠
💕💕حصہ اول💕💕
ربیعہ کا یہ اپارٹمنٹ ایک کمرے اٹیچ باتھ اور کچن پر محیط تھا۔کچن کے ساتھ ایک کھڑکی بھی لگی تھی جو کہ غالبا حبس اور کچن کی گرمی باہر نکالنے کے لیے بنائی گئی تھی۔کچن کے ساتھ تھوڑی سی جگہ تھی جدھر صوفہ رکھا گیا تھا۔صوفے پر اور ٹیبل پر ربیعہ کی کتابیں اور نوٹس پڑے ہوئے تھے۔جن کو جلدی سے سمیٹ کر ربیعہ نے ایک سائیڈ پر رکھ کر عرینا کے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔
"نوازش...آئیے بیٹھیے۔"
"ربیعہ سچ میں اتنی صفائی ستھرائی تو میرے کمرے میں بھی کبھی نہیں نظر آئی جتنے طریقے سلیقے سے تم نے ہر چیز کو سیٹ کیا ہے۔واقعی یہ قابلِ تعریف ہے۔ربیعہ تم نے پردے نہیں لگائے؟"عرینا اس کے اپارٹمنٹ کی ایک ایک چیز کو دیکھ کر اس کی تعریف کر رہی تھی۔
"پردے.....میں سوچ رہی تھی سیلیری ملتی ہے تو لگاتی ہوں۔"
"غلط بات....ایسا کبھی بھول کے بھی مت کرنا.....بابا جان نے غصہ ہو جانا ہے......میں بڑی امی سے کہہ دونگی وہ بجھوا دینگی پردے دروازوں پر لگانے کے لیے۔"
"بابا جان نے پہلے ہی اتنا بڑا احسان کیا ہے مجھ پر....سچ میں عرینا میں ان کی بڑی ممنوع ہوں.....ان کی نہیں بلکہ آپ سب کی.....سب سے بڑھ کر مجھے اس گھر میں بڑا بھائی مل گیا ہے۔فراز بھائی میری بہت مدد کرتے ہیں۔"
"ٹھیک.....ربیعہ یہ دیکھو میں تمہارے لیے کراچی سے کیا لے کر آئی ہوں۔"عرینا نے ایک پیکٹ ربیعہ کو پکڑایا۔
"عرینا آپ کو اتنا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی۔"ربیعہ نے پیکٹ پکڑ کر سائیڈ پر رکھ دیا۔
"ربیعہ میں تم سے بڑی نہیں ہوں۔ہم سیم عمر کی ہیں تو تم بھی مجھے تم پکار سکتی ہو۔اتنی فارمل مت ہو میرے لیے.....اوکے؟"
"جی....تو کیا لو گی آپ؟"
"آپ نہیں تم۔"
"اوکے....تو مس عرینا کیا لو گی تم؟"
"ہاہاہا....دیٹس گڈ.....پر میں یہاں کچھ لینے نہیں بلکہ دینے آئی تھی......یہ خوشبو کیسی ہے؟......کیا پکا رہی ہو تم ربیعہ؟"
"وہ ایکچوئیلی میرا آج دل کر رہا تھا کہ میں کوفتے بناؤں....تو وہی بنائے ہیں۔"
"مجھے تو اس کی خوشبو سونگھ کے ہی بھوک لگ گئی ہے۔"
"میں تمہیں چیک کراؤں؟"
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔میں کھانے کے لیے ہمیشہ ریڈی رہتی ہوں۔"
"پھر تو تمہاری اور میری خوب جمے گی۔"
"وہ کیسے؟"
"مجھے پکانے کا شوق ہے اور تمہیں کھانے کا۔"
"یہ ٹھیک کہا.....تمہارے پاس کھانے والا کوئی نہیں اور مجھے پکانا نہیں آتا.....ویسے فراز کو بھی کوفتے بہت پسند ہیں۔"
ربیعہ نے کوفتے اور تندوری روٹی عرینا کے سامنے پیش کی۔
"واہ......یہ تو دیکھنے میں ہی مزے کے لگ رہے ہیں۔" 
"کھا کر بتاؤ کیسے بنے ہیں؟.....پھر میں فراز بھائی کے لیے بھی ڈال دیتی ہوں تم لے جانا۔"
"نا بابا نا میں نہیں لے کر جا رہی۔"
"کیوں؟"
"کیونکہ ایک کے لیے لے کر گئی تو باقی سب نے مکھیوں کی طرح اکٹھے ہو کر کھا جانے ہیں۔"
"تو پھر میں سارے ہی ڈونگے میں ڈال دونگی تم سب کے لیے لے جانا۔"
"نہیں میں نہیں تم لے کے جاؤ گی۔"
"اب تم لے کر بھی نہیں جا سکتی؟"
"ہرگز نہیں بھئی خود لے کر جاؤ.....سب کو بتا کر کھلا کر داد وصول کرو......ویسے مجھے تو بہت مزے کے لگ رہے ہیں۔"
"عرینا مجھے تھوڑا عجیب لگے گا۔سب کیا سوچیں گے۔"
"کیا سوچیں گے؟"
"یہی کہ میں اس گھر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔"
"ہاہاہاہا.......ریلیکس کوئی کچھ نہیں سوچے گا بلکہ سب کو اچھا کھانا کھانے کو مل جائے گا۔"
"پر عرینا یہ تو تھوڑے ہیں سب کو پورے بھی نہیں آئیں گے۔"
"اور سالن بھی بنا ہے گھر میں۔ہو جائے گا پورا۔"
"پر عرینا....."
"پر ور کچھ نہیں تم میرے ساتھ لے کر چلنا....ارے گفٹ تو کھول کر دیکھو کیسا ہے۔"عرینا نے کھانا کھا کر ہاتھ صاف کرتے کہا۔
"اوکے میں دیکھتی ہوں۔"
ربیعہ نے گفٹ ریپر کھول کر دیکھا اندر سے سی شیل سے بنا اک خوبصورت سا ڈیکوریشن پیس تھا۔
"عرینا اٹس سو بیوٹیفل۔"
"مجھے پتہ تھا تمہیں پسند آئے گا۔"
"عرینا تھینک یو سو مچ.....یہ میری زندگی میں ملنے والا خوبصورت ترین تحفہ ہے۔"
"اس سے بھی اچھا تحفہ وہ ہے جو تم نے مجھے دیا ہے۔"
"میں نے تو کوئی تحفہ نہیں دیا تمہیں۔"
"ارے یہ اتنا مزے کا کھانا جو کھلایا ہے مجھے۔"
"اچھا......"
"ویسے ربیعہ مجھے لگتا ہے تمہیں شاعری سے کافی لگاؤ ہے۔"عرینا نے اس کی بکس شیلف میں رکھی گئی شاعری کی کتابوں کی طرف دیکھ کر تبصرہ کیا۔
"عرینا مجھے نیچر سے جڑی ہر چیز اپنی طرف فیسینیٹ کرتی ہے۔مجھے پتہ ہی نہیں چلتا جو چیز میری نظروں کو بھاہ جاتی ہے میں اس میں کھو سی جاتی ہوں۔"
"امیزنگ...."
ربیعہ مسکرا کر ڈونگے میں سالن ڈالنے لگ گئی جبکہ عرینا نے ایک طرف پڑی ڈائری پکڑ لی۔
"ربیعہ میں اسے پڑھ لوں؟"
"جی بالکل پڑھ سکتی ہو۔"
عرینا اس کی ڈائری پکڑ کر پڑھنے لگی۔
ایک صفحے پر لکھا تھا۔
"اتنا بھی خوبصورت نا ہوا کر اے موسم
اب ہر کسی کے پاس محبوب نہیں ہوتا"
"واؤ زبردست یہ تم نے خود لکھا ہے؟"
"جس پر نیچے میرے سائن ہوئے ہیں وہ میں نے ہی لکھا ہے۔"
"اس پر ہوئے ہیں سائن۔"
"تو پھر یہ میں نے ہی لکھا ہو گا۔"
عرینا نے ایک اور صفحہ پلٹا۔
"سنو آنکھوں کے قریب نہیں نا سہی 
ہاں مگر دل کے بہت قریب ہو تم"
ایک اور صفحے پر لکھا تھا۔
"پہلی خواہش کی بات رہنے دو
تم میری آخری تمنا ہو"
عرینا نے اک اور صفحہ پلٹا تو اس پر گزشتہ دن کی تاریخ رقم تھی۔
"کاش ایک دن ایسا بھی آئے وقت کا پل پل تھم جائے
سامنے بس تم ہی رہو.......................اور عمر گزر جائے"
"اہمممم......یہ کس کے لیے پیار بھری شاعری کی گئی ہے؟"
عرینا نے ڈائری بند کرتے پوچھا۔تو ربیعہ ہڑ بڑا گئی۔
"کسی کے لیے نہیں....بس ویسے ہی لکھی ہے۔"
"تمہاری آنکهیں تو کوئی اور ہی فسانہ سنا رہی ہیں۔"
عرینا نے مشکوک انداز میں پوچھا۔
"دیکھو آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں....تم اگر چاہو تو مجھ سے شئیر کر سکتی ہو۔"
"عرینا وہ.....ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے۔تمہیں وہم ہوا ہو گا۔"ربیعہ اس سے نظریں چرا رہی تھی مبادہ پکڑی نا جائے۔
"دیکھو لڑکی میرا نام عرینا ہے.....میں ایک طرح کی انویسٹیگیٹر ہوں اپنے گھر کی.....گھر کے ہر فرد کا راز جاننا اپنا فرضِ اولین سمجھتی ہوں.....ہاہاہاہا....تو تم مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتی۔"
"اور خود کا جو راز ہے اسے تو چھپا نہیں سکی۔"عرینا یہ سن کر حیران ہو گئی۔
"میرا کوئی راز واز نہیں ہے۔"
"عرینا آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں.....تمہاری آنکھوں میں صاف لکھا ہے کہ تم فراز بھائی سے بے پناہ محبت کرتی ہو۔"
ربیعہ کے انکشاف سے عرینا کی آنکهيں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
"تمہیں.......یہ سب کیسے پتہ؟"
"اک دل والا ہی کسی کے دل کا راز جان سکتا ہے۔"
"ہاں.....اور تمہیں کیا لگتا ہے تم جو شیراز بھائی کو چھپ چھپ کر دیکھتی ہو میری نظروں سے اوجھل رہتا ہے وہ سب؟"
ربیعہ یہ سن کر قیقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔
"مطلب ہم دونوں ہی اک دوسرے کے راز سے واقف ہیں.....ہے ناں؟"
"کوئی شک؟"
"نہیں۔"
"چلو آؤ پھر شیراز بھائی کو اپنے ہاتھ سے بنے کوفتے کھلا کر آؤ۔ویسے بھی مردوں کے دل کا راستہ ان کے پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے......شیراز بھائی تو کھانے کے ویسے ہی بہت شوقین ہیں....کیا پتہ تمہارے ہاتھ کے بنے لذیذ کوفتے کھا کر ان کا معدہ دل تک رستہ بنا دے۔"
پھر دونوں ہی مسکرانے لگیں۔
یہ تھی ان دونوں کی دوستی کی شروعات۔
ربیعہ نے سالن کا ڈونگہ بڑی امی کو پکڑایا وہ بہت خوش ہوئیں۔
"شکر ہے اس گھر میں کسی تیسرے بندے کو بھی کھانا بنانا آتا ہے۔"
"بڑی امی مجھے کھانا بنانے کا بڑا شوق ہے۔میں روز آپ کے ساتھ کھانا بنوا دیا کرونگی۔"
"نیکی اور پوچھ پوچھ۔ہم تو خود تمہارے ہاتھ کا مزے دار کھانا کھانا پسند کرینگے۔"ٹیبل پر بیٹھے بڑی امی نے اسے کھانا بنانے کی اجازت دی۔
"ٹھیک ہے بڑی امی۔"
اس کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا۔تقریبا سب نے ہی ربیعہ کے سالن کی تعریف کی۔لیکن جس کی تعریف وہ سننا چاہتی تھی اس نے تو لگتا تھا چپ کا روزہ رکھا ہو۔ایک لفظ تک نہیں ادا کیا اور چپ چاپ کھانا کھا کر اٹھ گیا۔
ربیعہ کا دل بڑا دکھا کیا تھا جو باقیوں کی طرح وہ بھی تعریف کے دو بول,بول دیتا پر........
ربیعہ بھی خاموشی سے اٹھ کر اپنے اپارٹمنٹ میں آ گئی۔عرینا نے بھی یہ سب نوٹ کیا اسے بھی ربیعہ کے لیے برا لگا تھا مگر وہ فی الحال اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز بیٹا۔"رات جب فراز اپنے کمرے میں جانے لگا تو چھوٹی امی نے اسے پکارا۔
"جی چھوٹی امی۔"
"فراز بیٹا تمہارا بہت بہت شکریہ تم میری بات کا مان رکھتے ہوئے عرینا کو شیروان سے ملوانے لے گئے.....ویسے فراز تمہیں کیا لگتا ہے عرینا کی شیروان کے بارے میں کیا رائے ہے۔وہ اسے پسند کرنے لگی ہے یا نہیں؟"
"چھوٹی امی میں اسے شیروان سے ملوانے بھی لے کر گیا تھا پھر اسے اشارے کنائے سے سمجھاتا بھی رہا ہوں......مجھ سے جو ہو سکتا تھا میں نے کیا۔اب مجھے نہیں پتہ وہ اس کی طرف مائل ہوئی ہے یا نہیں۔"
"فراز عرینا کے پاپا ضد پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ عرینا سے بات کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرینگے۔حالانکہ میں اس سے پوچھ چکی ہوں پر وہ میری سنتے ہی نہیں۔تم عرینا سے کہنا جب اس کے پاپا اس سے پوچھے تو وہ انہیں نا نہیں کرے......تمہاری بات کو تو وہ بڑا مانتی ہے ناں۔"
"چھوٹی امی یہ خالصتا عورتوں والے کام ہیں۔پلیز مجھے تو آپ ان سب کاموں سے دور ہی رکھیں۔"
فراز انکار کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اور جا کر بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹ گیا۔
آہ........کتنا مشکل امر ہوتا ہے کہ جس کو آپ دل و جان سے چاہتے ہوں اسے کسی اپنے کے مان کے لیے کسی اور طرف مائل کریں۔
جس وقت چھوٹی امی اور فراز باتیں کر رہے تھے شیراز نے ان دونوں کی باتیں سن لیں۔اسے بہت دکھ ہوا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕حصہ دوم💕💕
شیراز کو اپنے بھائی پر رشک بھی ہو رہا تھا کہ کتنا صبر پایا جاتا ہے اس میں۔پر اس سے زیادہ اسے اپنے بھائی کے لیے دکھ ہو رہا تھا۔
شیراز نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ کل بابا جان سے فراز اور عرینا کے رشتے کے بارے میں ضرور بات کرے گا۔پچھلی بار بھی وہ باباجان سے بات کرنے لگا تو فراز نے اسے روک دیا۔مگر اس بار اس نے سوچا وہ اب فراز کے کہنے پر بھی نہیں رکے گا اور بابا جان سے بات کر کے ہی رہے گا۔
یہ سوچتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔اور جا کر سو گیا۔
اس بات سے بے خبر کے کوئی ہے جو اس کی ایک نظر کی طلبگار ہے۔کوئی ہے جو اس کے بات کرنے کی منتظر ہے۔کوئی ہے جو اس کے تعریف نا کرنے پر دکھی ہو کر اس وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کو سوچ رہی ہے۔اس سے خاموش محبت کرتی ہے۔
عرینا ان سب باتوں سے بے خبر فراز کے سپنے آنکھوں میں سجائے نیند کی وادی میں کھو چکی تھی۔اسے اس بات کا رتی بھر اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس وقت صرف اسے کھو دینے کے ڈر سے جلتے ہوئے انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔
فراز تھوڑی دیر لیٹنے کے بعد اٹھ کر کھڑکی سے نظر آتے چاند کو دیکھنے لگا۔جس کی روشنی اس کے کمرے میں بھی آ رہی تھی۔اس نے کوئی لائیٹ نہیں جلائی تھی۔چاند کی روشنی سے ہی سارا کمرہ دودھیا روشنی سے نہایا ہوا تھا۔اور کمرے کے جس حصے تک چاند کی روشنی نہیں جا رہی تھی وہ مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس کے کھڑکی میں کھڑے ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی چاند کی روشنی میں نہا گیا۔
"اے چاند!!!!!
کچھ تو بات ہے میرے محبوب میں
جو وہ تیرے جیسا حسین ہے
جو اس کے مسکرانے سے بہار آ جاتی ہے
جو اس کے لب ہلانے سے پنکھڑیاں کھل جاتی ہیں
جو اس کے بات کرنے سے پھول جھڑتے ہیں"
ربیعہ کھڑکی کے پٹ کھولے کھڑی چاند کو دیکھتے ہوئے اپنے محبوب کو سوچ رہی تھی۔
"اے چاند تو ہی بتا 
کیا خاصیت ہے میرے محبوب میں
جو اس کو دیکھوں تو دنیا کو بھول جاتی ہوں
جو اس کو سوچوں تو خواب اس کے آتے ہیں
جو اس کو چاہوں تو چاہت بڑھتی جاتی ہے"
فراز ہنوز کھڑکی میں کھڑا چاند سے سوال کر رہا تھا۔
"اے چاند تو ہی بتا
کیا رتبہ ہے میرے محبوب کا
جو اس کے سامنے سب رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں
جو اس کے سامنے کوئی دوجا نظر ہی نہیں آتا
جو اس کے سامنے سب رنگ خوشنما لگتے ہیں" 
ربیعہ کھڑکی سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی اس وقت چاند کی روشنی اس کے آدھے چہرے پر پڑ رہی تھی۔
"اے چاند تو بتا دے ناں مجھ کو
میں ایسا کیا کروں جو وہ مجھے مل جائے
میں ایسا کیا کروں جو اس کی سوچوں میں جا بسوں
میں ایسا کیا کروں جو اس کی دنیا سے اپنی دنیا جوڑ سکوں
اے چاند کچھ تو بتا دے
اے چاند کچھ تو بتا دے"
فراز نے ایک بار پھر چاند کی طرف دیکھتے نہایت کرب سے اس سے پوچھا۔
آہ.......اے چاند کچھ تو بتا دے
اے چاند کچھ تو بتا دے"
(#بقلم_علینہ)
چاند اس وقت دو دلوں کو تڑپتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔اور سوچ رہا تھا یہ محبت نا جانے انسان سے کیا کیا کرواتی ہے۔کبھی کسی کو بن مانگے مل جاتی ہے تو کوئی اس کے لیے ساری عمر تڑپتا رہتا ہے۔مگر نا تو اسے اس کی محبت ملتی ہے اور نا وہ کبھی مکمل ہو پاتا ہے۔ہمیشہ آدھا ادھورا رہتا ہے۔کیونکہ اس کا آدھا وجود تو اس شخص کے پاس ہی رہ جاتا ہے جسے وہ خود سے بھی زیادہ چاہتا ہے۔
یہ دونوں اپنے اپنے محبوب کو پانے کے لیے تڑپ رہے ہیں اور ان کے محبوب اس بات سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
چاند بھی ان دونوں کے لیے دعاگو تھا کہ ان کو ان کی محبت مل جائے۔کہیں ان دونوں کی نیا سمندر میں موجود بھنور کا شکار نا ہو جائے۔اگر گرداب میں پھنس گئی تو ان کے لیے ساری عمر اس دکھ سے ابھرنا مشکل ہو جائے گا۔
اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دکھ ناسور بن جائے گا۔جو نا تو کبھی ختم ہو پائے گا اور نا کبھی بھر پائے گا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
عرینا کے فائینل ائیر کے پیپرز ہونے والے تھے۔سو وہ پیپرز کی تیاری کر رہی تھی۔اسے تو پہلے بھی کوئی تنگ نہیں کرتا تھا الٹا وہ سارے گھر والوں کو آگے لگائے رکھتی تھی۔
کالج سے فارغ ہونے سے ایک ہفتہ پہلے اس نے اپنی پریکٹیکل کاپیاں لے جا کر فراز کے آگے رکھ دیں۔
فراز اپنی فائلز کھولے ناجانے کیا کر رہا تھا جب فائل کے اوپر اسے باٹنی کی بک نظر آئی جسے دیکھ کر اس نے عرینا کو گھورا تو وہ آگے سے معصومیت سے مسکرائی۔
"میں بی۔اے تین سال پہلے کر چکا ہوں۔"
"پلیز میرے ایگزامز ہیں۔"
"پہلے کیوں نہیں بنائيں کتنی دفعہ کہا ہے ساتھ ساتھ کیا کرو۔"
"بنائی تھی چوری ہو گئی کالج میں۔"عرینا نے جھوٹ بول دیا۔
"تمہاری بک گم ہو گئی اور تم نے بتایا نہیں ہو ہی نہیں سکتا تم تو پورا کالج سر پر اٹھا لیتی۔"فراز نے اس کا بہانہ پکڑ لیا۔
"اب چھ چھ کاپیاں ہیں میں نے چار بنائی ہوئیں ہیں یہ دیکھ لو چیک بھی ہیں زولوجی اور کیسمٹری کی کمپلیٹ ہیں.....وہ باٹنی کی مجھ سے بنتی نہیں ہیں۔"
فراز نے دونوں ہاتھ سیدھے کر کے بیڈ پر رکھے اور اسے غور سے دیکھا۔
"اٹھاؤ دونوں کاپیوں کو اور خود بناؤ گی تم۔"
"فراز پلیز پھر میم چیک نہیں کرینگی۔"
"یہ پہلے سوچنا تھا۔"
پڑھائی کے معاملے میں وہ ایسا ہی تھا۔عرینا برملا کہا کرتی تھی کہ اس کے رزلٹ کا سارا کریڈٹ فراز کو جاتا ہے اسی کا ڈنڈا اس کے سر پر ہونے کی وجہ سے عرینا کے نمبرز بہت زبردست آتے ہیں۔
"میں پھر انکار ہی سمجھوں۔"وہ معصومیت سے بولی تو فراز کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"ایک شرط پہ بناؤنگا۔"فراز اس کے سامنے کھڑا ہوا۔
"مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔"
"سن تو لو۔"اس کی آنکھوں میں مستی اتر آئی تھی۔اور یہ مستی اس دن شیراز کے بابا جان سے عرینا اور فراز کے رشتے کی بات کرنے سے ہی واپس لوٹی تھی۔
شیراز نے اگلی صبح بابا جان کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔بابا جان کی تو اپنی دیرینہ خواہش تھی سو انہوں نے فورا سے ہامی بھر لی کہ وہ عرینا کے پیپرز کے بعد عرینا اور فراز کی شادی کی بات کرینگے لیکن اس سے پہلے وہ شیراز کے لیے شیراز کی خالہ کی بیٹی کے ساتھ شیراز کا رشتہ طے کرینگے تاکہ دونوں بیٹوں کی شادیاں اکٹھی کریں۔
جب یہ بات شیراز نے فراز کو بتائی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔وہ خوشی سے شیراز کے گلے لگ گیا۔
"تھینک یو شیراز.....تھینک یو سو مچ.....تم نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی ہے۔"
"اس میں شکریہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں....تم میرے چھوٹے بھائی ہو اب میرا اتنا تو فرض بنتا ہے کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کی خوشی اسے دلوا سکوں۔"
پھر دونوں مسکرانے لگے۔
"بولو۔"
"شرط یہ ہے کہ........تمہیں مجھ سے شادی کرنی پڑے گی۔"
وہ مزے سے کہہ گیا اور اس کا دل رک گیا۔فراز اس کی صورت دیکھ کر ہنس پڑا۔
"رنگ دیکھو اڑا۔"وہ واپس پیر لٹکا کر بیٹھ گیا۔تو عرینا بولی۔
"منظور ہے۔"
فراز نے تعجب سے اسے دیکھا۔"عرینا۔"
"تمہاری شرط ہے مجھے منظور ہے۔"
"میں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس سے شادی نہیں کرونگا۔کمزوریوں سے کھیلنا مجھے نہیں آتا.......تم جاؤ میں بنادونگا۔"وہ نہایت سنجيدگی سے بولا۔
"یہ کیا بات ہوئی تم بھی تو کہہ ہی لیتے ہو میں نے کہہ....."
"مرد کے منہ سے اچھی لگتی ہے عورت کے نہیں۔"وہ بات کاٹ کر درشتی سے بولا۔عرینا اسے دیکھتی رہ گئی۔
خیر سے اب تک ویسے بھی اس کی تربیت فراز نے ہی کی تھی۔ہر اونچ نیچ وہی سکھاتا,بتاتا اور سمجھاتا تھا پھر وہ ایسی عادی ہوئی کہ اسے اسکی ہی بات سمجھ آتی تھی۔
وہ اپنے کمرے میں آ گئی اور شام تک بخار میں تپ گئی۔فراز کی ہر ڈانٹ پر ایسے ہی ہوتا تھا وہ اس کی ہر بات کو بڑی سنجيدگی سے لیتی اور اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتی۔
فراز صبح آفس لیٹ گیا۔جانے سے پہلے اس کے کمرے میں گیا۔
"لو یہ ایک ہو گئی ہے لیبلینگ خود کر لینا۔اس کا وہی پرانا دوستانہ رویہ تھا۔
"تھینک یو۔"عرینا نے بستر سے اٹھتے ہوئے اپنے لہجے میں بشاست لانے کی کوشش کی مگر وہ فراز حسان ہی کیا جو عرینا کا لہجہ نا پہچانے۔
"کیا ہوا ہے؟" فراز نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اسے بٹھاتے ہوئے پوچھا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا۔
"کچھ نہیں رات دیر تک پڑھتی رہی ہوں نیند پوری نہیں ہوئی۔"
"تم روئی ہو؟.........واہ رے فراز حسان کیا قسمت ہے تیری.....دنیا کی سب سے حسین آنکھیں تیرے لیے روتی ہیں.....اوہونہہ میرے لیے نہیں میری وجہ سے,یہ بھی بڑی بات ہے تم میری بات کو اتنی اہمیت دیتی ہو کہ اسے سوچتی ہو اور ان پر آنسو بہاتی ہو۔ویسے......اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی ہے۔"فراز پھر مستی پر اتر آیا۔
"فراز اگر مجھے تمہاری اس بات پر یقین آ گیا ناں تو تمہیں سیاپا پڑ جائے گا۔"
"ہیں......ایسا ویسا میں سادہ سا بندہ ہوں مجھ سے نہیں مگرمچھ کے نہیں بلکہ ڈائینوسارس کے آنسو دیکھے جاتے۔"
"فراز میں بخار میں تپ رہی ہوں اور تم مجھے مذید ستا رہے ہو۔"اب اس نے گلہ کیا۔
"میں تو بادِ مخالف ہوں عرینا۔زندگی میں ہر شخص کی بات کو اتنا سیریسلی لو گی ناں تو کوئی تمہیں اڑنے تو کیا پر بھی پھیلانے نہیں دے گا اور پھر بات کو سیریس لینے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ دل پر لے لیں اور بستر مل لیں بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ کسی کو تمہاری پرواہ ہے جو وہ تمہیں برا بھلا سمجھا رہا ہے اور پھر بات تو اتنی نا تھی جتنی تم سوار کر کے بیٹھ گئی ہو.....اٹھو منہ ہاتھ دھو اور ناشتہ کرو اور پڑھو بیٹھ کر۔اور یہ پکڑو اپنی پریکٹیکل کاپی ساری رات لگ گئی میری۔آفس سے پہلے ہی دیر ہو رہی تھی اوپر سے اس نخرہ بی بی کا موڈ بھی ٹھیک کرنا پڑا۔چلو اٹھو۔"
"فراز ایک بات کہوں؟"فراز اٹھنے لگا تو عرینا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"بولو۔"
"تم بہت اچھے ہو۔"وہ صدق دل سے بولی مگر فراز کا ناک چڑھ گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕 حصہ سوم💕💕
"اف........کاپی بنا دی اب میں اچھا ہو گیا کل تک میں اس گھر کا سب سے بڑا جن تھا توبہ عورتوں کی باتوں میں کوئی نا آئے۔"
"فراز آئی ایم سیریس۔"
"یہ تم اس وقت بھی کہتی ہو قسم سے فراز تم جنوں کے سردار ہو۔"فراز نے عرینا کی نقل اتاری تو عرینا نے سر جھکا لیا۔
"آئی ویش فراز تم بھی میری بات کو اتنا سیریسلی لو جتنا میں تمہاری بات کو لیتی ہوں۔"
"عرینا محسن جس دن تم ایسی عقل کی بات کروگی ناں میں ضرور سیریس لونگا۔پہلے تم میرے جتنی عقلمند تو ہو جاؤ۔پر کام صدیوں کا ہے لمحوں میں کہاں ہوتا ہے۔"
"فراز نکل جاؤ یہاں سے بدتمیز۔کسی کا دل رکھنا تو آتا ہی نہیں ہے تمہیں۔"
"کہا تھا ناں,میں انتظار کر رہا تھا کب تم مجھے بھوت جن یا بدتمیز کہتی ہو۔کوئی دین ایمان نہیں تمہارا۔عرینا کوئی حال نہیں۔تین جملوں میں دنیا کا سب سے اچھا مرد ایک بہت اچھا انسان نہایت بدتمیز ہو گیا ہے توبہ صبح صبح اتنی منافقت۔"فراز اٹھ کر باہر کی طرف جانے لگا تو عرینا کی سسکی پر رک گیا اور پلٹ کر اس کے پاس آیا جو گھٹنوں میں چہرہ دیے رونے لگی تھی۔فراز نے اس کا چہرہ اوپر کیا فراز کے تیور کڑے تھے۔اپنی ایک انگلی سے اس کے آنسو چن کر بولا۔
"اس کا مطلب؟"لہجہ اتنا رعب دار تھا کہ وہ سہم گئی۔
"کیا سننا چاہتی ہو۔میں وہ کہہ جاتا ہوں جس سے تمہیں تسلی ہو جائے۔"عرینا کے علاوہ کوئی اور یہ لہجہ سنتا تو ضرور گڑبڑا جاتا کہ وہ طنز تو نہیں کر رہا۔مگر عرینا جانتی تھی جب وہ عرینا کے آنسوؤں کے آگے بے بس ہو جاتا تو یہی کہتا۔
"ادھر دیکھو.......عرینا مجھے دیر ہو رہی ہے۔آئی ایم آلریڈی ہاف اینڈ آور لیٹ دیکھو میری طرف......"
اب کہ جو اس نے عرینا کی آنکھوں میں دیکھا تو اس کی اپنی آنکھیں پھیل گئیں۔
"عرینا......"اس نے حیرت زدہ آواز نکالی۔
"ک......کب ہوا؟"عرینا نظریں جھکا گئی۔
"پھر سے دیکھنا ادھر......"اس کے لبوں پر مسکان کھلنے لگی تھی۔
"اس کا کیا مطلب.....؟"اب اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
"کیا ہے؟"وہ پریشان ہو گئی۔
"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔"
"فراز.......باز آؤ......پتہ نہیں کیا ہانک رہے ہو۔ہٹو یہاں سے۔پتہ نہیں کیا دیکھ لیا ہے۔امید نہیں تھی,پتہ نہیں کیا امید نہیں تھی۔خواہ مخواہ پریشان کر رہا ہے جاؤ تم آفس......"
اور جانے کیا بڑ بڑاتی وہ اپنے کمرے سے ملحقہ باتھ روم میں گھس گئی اور فراز خوب طرح سے ہنسا۔عرینا کا موڈ بدلنے کا یہ اس کا فارمولا ١٠٠ تھا کہ اسے حیرت میں ڈال دے ویسے فارمولے تو اس کے پاس ١٠٠ سے آگے بھی تھے۔جن کو ضرورت کے مطابق استعمال کرتا رہتا۔پر یہ ١٠٠ نمبر پر آتا تھا۔فراز اٹھ کر باہر آیا اور اپنے آفس کے لیے نکل پڑا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شام کے سرمئی سائے ہر طرف پھیلنا شروع ہو گئے تھے۔ایسے میں ربیعہ اکیڈمی کے گیٹ کے پاس کھڑی ڈرائيور کے آنے کا انتظار کر رہی تھی کہ آج شیراز کو ایک ضروری کام تھا جس کے لیے وہ آج گھر جانے کے بجائے کہیں اور چلا گیا تھا۔
پر جانے سے پہلے اس نے گھر کال کر کے ڈرائيور کو آنے کا کہہ دیا تھا۔
ربیعہ کو ڈرائيور کا انتظار کرتے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔مگر گاڑی کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔وہ بہت پریشان ہو رہی تھی کہ اگر ڈرائيور نا آیا تو وہ کیا کرے گی۔نا اسے یہاں کے راستوں کا پتہ تھا نا اس کے پاس موبائل تھا کہ وہ کسی اور کو تو نہیں کم از کم فراز کو کال کر کے بلا لیتی۔
ربیعہ بے چینی سے کھڑی ہو کر دیکھتی جب گاڑی نظر نہیں آتی تو پھر بیٹھ جاتی۔
ابھی بھی وہ دیکھ کر مڑی ہی تھی کہ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔اس نے مڑ کر دیکھا۔پھر جو اسے سامنے نظر آیا اس سے ربیعہ کا رنگ پیلا پڑ گیا وہ خوف زدہ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم.....یہاں.....کیا کر رہے ہو؟"
"تم سے ملنے آیا ہوں۔میں نے تو سنا تھا کہ تم سانگلہ میں ہی کسی کے گھر کام کرتی ہو.....پر تم تو یہاں لاہور میں ہو کپڑے بھی ٹھیک ٹھاک پہن رکھے ہیں(آج ربیعہ نے وہ سوٹ پہنا تھا جو عرینا اپنی برتھ ڈے پر اس کے لیے لے کر آئی تھی).....ہممممم کتابیں بھی پکڑی ہیں مطلب پڑھتی ہو.....اگر تم پڑھتی ہو تو مطلب کام نہیں کرتی.....اور کام نا کرنے کا مطلب......کوئی لمبا ہاتھ مارا ہے تم نے......اگر اس طرح ہاتھ ہی مارنا تھا تو مجھے کہہ دیتی میں......"
"اپنی فالتو کی بکواس بند کرو اور ہاتھ چھوڑو میرا۔"ربیعہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی جس میں وہ ناکام ہو رہی تھی۔اس کو سامنے دیکھ اس کے اوسان تو پہلے ہی خطا ہو گئے تھے اب اس سے مزاحمت بھی نہیں کی جا رہی تھی۔
"ارے واہ......تمہارے منہ میں بھی زبان لگ گئی ہے.......ویسے ایسا کون مل گیا ہے تمہیں جو مجھ سے زیادہ پیارا اور امیر ہے؟"
"میں کہہ رہی ہوں ہاتھ چھوڑو میرا.....اور وہ جو کوئی بھی ہے تم سے تو ہزار گنا بہتر ہے.....چھوڑو میرا ہاتھ لچے بدمعاش کہیں....."
ابھی ربیعہ کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ربیعہ کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ربیعہ پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔اس کے ہاتھ سے کتابیں گِر گئیں۔زندگی میں پہلی بار کسی نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔
"خود آوارہ گردی کرتی پھرتی ہو اور مجھے بدمعاش کہتی ہو....اب میں تمہیں اپنی بدمعاشی دکھاتا ہوں۔"وہ ربیعہ کا بازو پکڑ کر اسے کھینچ کر لے جانے لگا۔
ربیعہ نے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو پائی تو اس نے اس کے بازو پر اپنے دانت گاڑھ دے۔جس کی درد کے باعث اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔
مگر غصے کے باعث اس نے ربیعہ کو بالوں سے پکڑ کر پھر دو تین تھپڑ لگا دیے۔
"ہمارے خاندان کی عزت کا جنازہ نکالتی پھر رہی ہو.....تمہیں تو میں گھر لے جا کر سیدھا کرتا ہوں۔"
پے در پے تھپڑ لگنے کے باعث ربیعہ اپنا توازن قائم نا رکھ پائی اور نیچے گر گئی۔
اس کا ماتھا نیچے زمین پر جا لگا۔اس سے ہلا نہیں گیا وہ وہیں بیٹھی رونے لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ پھر سے ربیعہ کی طرف بڑھتا کسی نے اس کا ربیعہ کی طرف بڑھتا ہاتھ پکڑ لیا۔اور اس کی خوب جی بھر کر پٹائی کی۔
اس لڑکے کو سمجھ نہیں لگی پھر اس کے ساتھ ہوا کیا۔
شیراز بری طرح سے اس لڑکے کو مار رہا تھا۔جب ربیعہ نے شیراز کو دیکھا پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا پھر جو وہ ہوش میں آئی تو اس نے آگے بڑھ کر شیراز کو روکنا چاہا۔
"شیراز پلیز اور مت ماریں اس کو.....یہ مر جائے گا۔"
شیراز اس لڑکے کو گریبان سے پکڑے اپنی کار کے ساتھ لگائے مار رہا تھا۔جب کسی نے اس کے بازو کو پکڑ کر مارنے سے روکا۔
ربیعہ شیراز کا بازو پکڑ کر اسے مارنے سے روک رہی تھی۔
"تم ابھی بھی اس کو بچا رہی ہو؟"شیراز نے غصے سے ربیعہ سے پوچھا۔
"میں اس کو نہیں آپ کو بچا رہی ہوں....اگر اسے کچھ ہو گیا تم آپ پکڑے جاؤ گے اور میں نہیں چاہتی کہ آپ کو کچھ ہو....مجھے اس کی نہیں آپ کی فکر ہے۔"
شیراز نے ربیعہ کی طرف غور سے دیکھا۔اس کے ماتھے اور ہونٹ سے خون رس رہا تھا۔گال بھی تھپڑ پڑنے کے باعث سرخ ہوئے تھے۔بالوں کی حالت بھی ابتر تھی۔آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔
ایسی حالت میں بھی وہ اپنے نہیں بلکہ شیراز کے بارے میں سوچ رہی تھی۔شیراز نے اس لڑکے کی طرف دیکھا جس کی مار کھانے کے باعث بری حالت ہو گئی تھی۔
"اگر آئیندہ تم مجھے ربیعہ کے آس پاس بھی نظر آئے تو زندہ گاڑھ دونگا میں تمہیں۔دفع ہو جاؤ اب یہاں سے۔"
شیراز نے اس لڑکے کو چھوڑ دیا وہ تو جلدی سے ہاں میں سر ہلاتا اپنی جان بچا کر بھاگ گیا۔
شیراز نے ربیعہ کی کتابیں جو ادھر ادھر گری پڑی تھیں اکٹھی کر کے ربیعہ کو پکڑائیں۔
ربیعہ نے اپنی چادر ٹھیک سے لی۔شیراز نے ربیعہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔
"یہ ٹشو سے خون صاف کر لو۔"شیراز نے اسے ٹشو پکڑایا۔ربیعہ خون صاف کرنے لگی۔
شیراز نے گاڑی اسٹارٹ کرتے پوچھا۔
"کون تھا وہ؟"لہجہ سپاٹ تھا نا اس میں لچک تھی اور نا غصہ۔
"وہ........میرا کزن ہے۔"
"تمہارے پیچھے کیوں لگا ہے؟"
"جی وہ........مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا ہم نے منع کر دیا تو....اس وجہ سے وہ میرے پیچھے لگا ہے۔"
"اسے کیسے پتہ چلا کہ تم یہاں ہو؟"
"اسے نہیں پتہ میں کہاں رہ رہی ہوں.....میرے خیال سے اس نے مجھے یہاں کھڑی دیکھ لیا تو......"
شیراز نے کلینک کے سامنے گاڑی روکی۔
ربیعہ کو لے کر کلینک گیا اس کی بیڈیج کروائی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی شیراز نے ڈرائيور کو کال ملائی۔
"کہاں ہو.......میں نے تمہیں کہا تھا کہ ٹائم سے آ کر ربیعہ کو گھر لے جانا۔اور تمہارا ابھی تک کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔"
"سر ٹائر پینچر ہو گیا تھا مجھے اسے رپیئیر کروانے میں ٹائم لگ گیا۔"
"دیر ہو گئی تھی تو کال کر کے بتا تو سکتے تھے ناں؟"
"سر ربیعہ میڈم کا نمبر نہیں ہے میرے پاس....میں اب اکیڈمی...."
"کوئی فائدہ نہیں اب اکیڈمی جانے کا۔گھر دفع ہو۔میں خود ہی اسے لے کر جا رہا ہوں۔"شیراز نے غصے سے فون بند کر دیا۔
"اپنا نمبر لکھواؤ مجھے تاکہ پھر کبھی ایسا کوئی مسئلہ ہو تو مجھے کال کر کے بتا دینا۔"
"سر میرے پاس موبائل نہیں ہے۔"ربیعہ نے جھکی نظروں سے کہا۔اب وہ شیراز کو کیا بتاتی کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں نہیں تو وہ خود ہی فون لے لیتی۔
"اوکے۔"شیراز کو سمجھ لگ گئی تھی کہ اس کے پاس پیسے نا ہونے کے باعث موبائل نہیں لیا ہو گا۔
جیسے ہی گاڑی گھر کے احاطے میں داخل ہوئی ربیعہ گاڑی سے اتر کر اپنے اپارٹمنٹ چلے گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ربیعہ گھر آنے کے بعد سے بیڈ پر لیٹی رو رہی تھی۔اس کے لیے یہ سوچ ہی سوہان روح تھی کہ اگر شیراز وہاں نہیں آتا اور وہ اسے لے جاتا تو ساری عمر اس کا کسی کو پتہ نہیں چلنا تھا کہ آخر وہ گئی کہاں۔
نا جانے وہ اسے اپنے ساتھ لے جا کر اس کے ساتھ کیا کرتا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

No comments:

Post a Comment