#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_٩
💕💕حصہ اول💕💕
"میرا سوچنا تیری ذات تک
میری گفتگو تیری بات تک
نہ تم ملو جو کبھی مجھے
میرا ڈھونڈنا تجھے پار تک
کبھی فرصتیں جو ملیں تو آ
میری زندگی کے حصار تک
میں نے جانا کہ میں تو کچھ نہیں
تیرے پہلے سے تیرے بعد تک"
کالے اسکارف کے لپٹے چہرے کی روئی روئی آنکھیں اس کی معصومیت اور حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں۔رو رو کر اس کی آنکھوں کا رنگ مذید نکھر گیا تھا۔
فراز نے کھانے کا آرڈر کیا پھر عرینا کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی آنکھیں رگڑ رہی تھی۔فراز کو مستی سوجھی۔اس نے عرینا کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا۔پھر بولا۔
"کچھ نظر آ رہا ہے رو رو کر تو آنکھوں کا رنگ ہی اڑا لیا ہے۔"
"اور رولایا کس نے؟"وہ نروٹھے پن سے بولی تو فراز مسکرا دیا۔
"صرف میں نے نہیں تمہارے تھانیدار کزن نے بھی اور کچھ ویسے ہی تمہیں نخرے اٹھوانے کی عادت ہو گئی ہے۔"
"کوئی نخرے اٹھائے تو اٹھوائے جاتے ہیں۔ہر کسی پر تو یہ مان نہیں ہوتا۔"وہ بڑے مان سے بولی۔فراز نے اسے غور سے دیکھا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے شیروان تمہارے نخرے نہیں اٹھائے گا؟"
"مجھے اٹھوانے ہی نہیں ہے اس سے۔اب اس کا نام مت لینا.....یہ بتاؤ ایگزیبیشن کب سے شروع ہو رہی ہے؟"اور پھر وہ اپنی باتیں کرتے کھانا کھانے لگے۔
"میم یہ آپ کے لیے۔"ویٹر نے آ کر ایک رقعہ سا عرینا کے آگے کیا۔عرینا نے دیکھ کر فراز کی طرف اشارہ کیا۔
"فراز دیکھنا ذرا۔"عرینا نے پکڑا بھی نہ۔
"میم آپ کے لیے ہے۔"
"انہیں پکڑا دو۔"
"میم ہے آپ کے لیے تو۔"اسے سخت آرڈر ملا تھا عرینا کو ہی دینے کا اس لیے وہ اڑا رہا۔
"یار دیکھ لو ناں۔"فراز نے کہا تو عرینا نے پکڑ کر مسکرا کر ویٹر کا شکریہ ادا کر کے اسے بھیجا۔
"دیکھو کیا ہے یہ؟"فراز کو پکڑا دیا۔اور خود کھانے میں لگی رہی۔
"کیا ہے؟"جب فراز کچھ نہ بولا تو عرینا نے پوچھا۔
"ایف_آئی_آر۔"
"مطلب شیروان.....کیا لکھا ہے؟"
"کچھ نہیں کہہ رہا ہے باہر گاڑی اور ڈرائيور موجود ہے جب جانا چاہو جہاں جانا چاہو اسے استعمال کر سکتی ہو۔ساتھ نمبر بھی دیا ہے اس نے اپنا۔"
"آفر کا شکریہ۔"عرینا نے پکڑ کر پھاڑ دیا۔
"اؤے نمبر تو دیکھنے دیتی۔"
"مجھے نہیں چاہیے میں تمہارے ساتھ آئی ہوں تم ہی سیر کرواؤ گے۔"
"اور وہ جو باہر کھڑا ہے؟"
"اس کی ڈیوٹی ہے میں کیا کر سکتی ہوں.....فراز تمہیں کراچی کی سڑکوں کا تو پتہ ہے ناں راستوں کا؟"
"ہونہہ.....میری تو پچھلے ہفتے یاد داشت چلے گئی ہے۔"
"کیوں؟"
"وہ تم نے مجھے ساس پین نہیں مارا تھا۔"
"کب؟"اس نے حیرت سے پوچھا۔
"وہ......وہ بھی نہیں یاد۔"فراز سر کھجا کر بولا تو عرینا کی ہنسی چھوٹ گئی۔ورنہ وہ بھی سوچنے لگی تھی کہ کب کی بات ہے۔
وہ مذید بولا۔
"ویسے عرینا اس کی گاڑی استعمال کرنے میں حرج کوئی نہیں ہے۔"
"مجھے اس کی کسی شے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"ویسے تم......اسے اتنا.....ڈیس لائک کیوں کرتی ہو؟"
"میں کہاں......کیا مطلب ہے تمہارا ؟"عرینا کہنے لگی مگر اس کی آنکھوں کے بدلتے رنگ کو دیکھ کر رکی۔
فراز بولا۔
"تم نے اسے کچھ زیادہ ہی اعصاب پر سوار کر لیا ہے اس طرح اسے اگنور کر کے تم اسے زیادہ امپورٹینس دے رہی ہو۔ٹریٹ ہیم نارملی ورنہ وہ کچھ اور سمجھنے لگے گا۔"
"کیا سمجھے گا وہ؟"عرینا نے تڑی لگائی۔
"یہی کہ تمہارے اور میرے درميان کچھ چل رہا ہے اور تم اس کی مداخلت پسند نہیں کرتی۔"
"فراز تمہیں کیا لگتا ہے میں اس تھری سٹار ہوٹل کی وجہ سے تمہارا لحاظ کر جاؤنگی۔میں نے پلیٹ اٹھا کر تمہارے سر پر مار دینی ہے۔چپ رہو۔"
"ہاں ہاں مار دو تاکہ تم آزادی کے ساتھ شیروان کے ساتھ جا سکو۔ہے ناں؟"
"بکواس نہیں کرو۔اسے جو لگتا ہے لگنے دو۔مجھے کوئی پرواہ نہیں اس کی۔"عرینا نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے کہا۔
"اچھا تمہارے اور میرے درمیان کیا ہے؟"
"ابھی تک تو صرف دوستی ہی ہے۔"
"یعنی شادی کا کوئی چانس نہیں؟"
"بکو مت۔"
"تم بلش کیوں ہو جاتی ہو......وہ بھی مجھ سے شادی کے نام پر.....کیا ارادے ہیں؟"فراز اب اسے چھیڑ رہا تھا۔عرینا گھور کر رہ گئی۔تو بولا۔
"اب مجھے یقین ہو رہا ہے تمہاری شادی ہونی مجھ سے ہی ہے۔"
فراز نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
فراز نے کھانا کھانے کے بعد ویٹر کو چائے لانے کا کہا۔ویٹر برتن اٹھا کر چائے کے دو کپ رکھ کر چلا گیا۔اب وہ دونوں چائے بھی پی رہے تھے اور گپیں بھی مار رہے تھے۔
"اور یہ غلط فہمی کیوں؟"عرینا نے اپنے گال کو ہتھیلی پر ٹکا کر کہا۔وہ بھی اب اسی کے انداز میں اسے چھیڑ رہی تھی۔
"کیونکہ تمہاری گھوری بالکل بیویوں والی ہے۔اور پھر تمہیں اعتراض کیا ہے۔اچھا خاصا بر سرِ روزگار شریف النفس نوجوان ہوں شکل و صورت بھی ٹھیک ہے۔اور آنکھیں میں تو مر جاؤ ڈوب کر۔"
"میں اصل میں صاف انکار کر کے تمہارا دل نہیں توڑنا چاہتی۔"
"ہاں بھئی اب تو DSP کزن آ گیا ہے سین میں۔ہمیں انکار ہی ہونا ہے۔"وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بولا۔عرینا ہنس پڑی۔
"ویسے صحیح بتاؤ۔مجھ سے شادی کا کوئی چانس ہے؟"
"فراز سٹاپ اٹ ناؤ۔"وہ سٹپٹا کر رہ گئی۔
فراز آگے سے مسکرانے لگا تو وہ بھی مسکرانے لگی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ربیعہ صبح آفس بابا جان کے ساتھ اور اکیڈمی وہ ڈرائيور کے ساتھ چلی گئی۔
وہ بہت کوشش کر رہی تھی کہ شیراز کو نہ دیکھے اس سے دور رہے۔ایسے نہ ہو اس کی آنکھوں میں چھپی شیراز کی محبت کی حقیقت کو کوئی پا لے۔بابا جان نے تو پہلے ہی اسے وارن کر دیا تھا کہ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو وہ خود اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھر سے باہر نکال دینگے۔
اس لیے وہ ڈری ڈری سی شیراز سے دور ہی رہتی۔
مگر جب شیراز اس کی کلاس اٹینڈ کرنے آتا اس کے لیے شیراز سے نظریں ہٹانا اور بھی مشکل ہو جاتا۔
وہ بہت کوشش کرتی مگر پھر بھی شیراز کو دیکھ کر اس میں کھو سی جاتی۔آج شیراز نے دو دفعہ اسے ٹوک بھی دیا۔جس پر اسے اچھی خاصی شرمندگی ہوئی۔
واپسی پر اس نے اکیڈمی نا جانے کا فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اکیڈمی نہیں جائے گی ویسے بھی جلد ہی اس کے پیپرز ہونے والے ہیں تو وہ گھر میں ہی رہ کر تیاری کر لے گی۔
مگر جب رات کا اندھیرا پھیلا تو اس کے دل میں بے چینی ہونے لگی۔
"دل سکون چاہتا ہے
جو اب تمہارے بخیر میسر نہیں"
آنکھیں دیدارِ یار کو تڑپنے لگتی۔
اب بھی وہ بستر پر لیٹی سوچ رہی تھی۔
"پتہ نہیں شیراز زندگی آپ کو دیکھنے سے پہلے مشکل تھی یا اب آپ کو دیکھنے کے بعد مشکل ہو گئی ہے۔
پہلے یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتی رہتی تھی کہ کہیں نا کہیں تو وہ مل ہی جائے گا مگر اب جب وہ مجھے مل گیا ہے۔میری نظروں کے سامنے ہے۔تو پاس ہو کے بھی کتنا دور ہے مجھ سے۔
میں لاکھ کوشش کر لوں۔پر وہ میرے لیے چاند کو پالینے کے برابر ہو گیا ہے۔نا آج تک چاند کو پا سکا کوئی نا میں شیراز کو چاہ کر بھی پا سکتی ہوں۔
دل ہر کسی کے لیے نہیں دھڑکتا۔کوئی خاص ہوتا ہے جس کی دھن پر یہ ناچتا ہے۔
دل انسان کی نہیں سنتا.....دل پر بس نہیں چلتا......جب دل ہی کسی کو اپنا بنا لے.....اپنا مان لے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
میرا دل بھی میرے اختيار میں نہیں ہے۔
کاش......شیراز میں اپنا دل کھول کے آپ کو دکھا سکتی کہ میں کتنی محبت کرتی ہوں آپ سے۔
کاش.......
یہی سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادی میں کھو گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"السلام علیکم بیٹا جی کیسے ہو؟"فراز صبح صبح اٹھ کر میٹنگ میں جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب چھوٹے پاپا کی کال آ گئی۔
"وعلیکم السلام چھوٹے پاپا میں ٹھیک ہوں۔آپ کیسے ہیں؟"
"الحَمْدُ ِلله میں بھی ٹھیک ہوں۔کیا ہو رہا تھا بیٹا جی؟"
"چھوٹے پاپا میٹنگ اٹینڈ کرنے جا رہا ہوں۔"
"ٹھیک.....میں نے بھی یہی پوچھنے کے لیے تمہیں کال کی تھی کہ کب جانا ہے۔"
"چھوٹے پاپا میں نے ادھر آتے ہی ان کو کال کی تھی تو انہوں نے آج کا ٹائم دیا تھا۔بس اسی کے لیے تیار ہو رہا ہوں۔"
"عرینا کیسی ہے.....ابھی بات ہو سکتی ہے میری اس سے؟"
"جی چھوٹے پاپا وہ اپنے کمرے میں ہے میں جا کر بات کرواتا ہوں۔"
فراز نے عرینا کو اپنا موبائل پکڑایا خود وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
سلام دعا کے بعد چھوٹے پاپا نے اس سے پوچھا۔
"عرینا شیروان سے ملاقات ہوئی تمہاری؟"
"جی پاپا ملی تھی میں اس کھڑوس سے۔"
"بیٹا ایسے نہیں بولتے کسی کے بارے میں۔"
"پاپا جب وہ ہے ہی ایسا تو ایسا ہی کہنا ہے میں نے۔مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا۔اکڑو نا ہو تو۔پتہ نہیں کس چیز کا گھمنڈ پایا جاتا ہے اس میں۔"
"اچھا......"
"عرینا بات کر لی ہے؟"فراز نے عرینا سے پوچھا تو عرینا نے موبائل اسے پکڑا دیا۔
"چھوٹے پاپا مجھے دیر ہو رہی ہے۔آپ ہوٹل کے نمبر پہ کال کر لیں۔میں نمبر لکھوا دیتا ہوں آپ کو۔"
"نہیں ٹھیک ہے بات کر لی ہے میں نے اس سے۔جب تم واپس آئے پھر بات کر لونگا میں۔"
"جی بہتر چھوٹے پاپا۔"
فون رکھنے کے بعد چھوٹے پاپا سوچنے لگے۔مجھے لگتا ہے عرینا شیروان کو ناپسند کرتی ہے۔
"جی تو کیا مشورہ کرنا تھا تم دونوں نے مجھ سے؟"
اس وقت کمرے میں چھوٹے پاپا چھوٹی امی اور بابا جان عرینا کو کراچی جانے کی اجازت دینے کے بعد بیٹھے تھے۔
"وہ......دراصل بھائی صاحب......میری آپا نے......."ابھی رخسانہ بیگم کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ چھوٹے پاپا نے ان کی بات ہی بدل دی۔
"ہم دونوں کو اپنا گھر دیکھنے کی دعوت دی ہے۔"چھوٹی امی حیرانگی سے ان کی طرف دیکھنے لگی کہ ہم بات کیا کرنے لگے تھے اور یہ کیا کہہ رہے ہیں۔چھوٹے پاپا نے نظروں ہی نظروں میں انہیں چپ رہنے کا اشارہ کیا تو وہ چپ ہو گئیں۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔تم دونوں کو ضرور جانا چاہیے۔"
"جی بھائی صاحب میں نے آپ سے یہی کہنا تھا پر اب چونکہ فراز کراچی جا رہا ہے تو جب وہ واپس آئے گا پھر ہم چلے جائیں گے۔"
"جیسے تمہیں بہتر لگے۔"
"ٹھیک ہے بھائی صاحب آپ بھی آرام کریں۔ہم اب چلتے ہیں۔"
"شب خیر۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ دوم💕💕
"ہم عرینا اور شیروان کے رشتے کے بارے میں مشورہ کرنے گئے تھے پر آپ نے نا خود بات کی اور نہ مجھے بات کرنے دی۔"
رخسانہ بیگم کمرے میں آ کر پوچھنے لگی۔
"مجھے لگتا ہے عرینا شیروان کو ناپسند کرتی ہے۔اس لیے ہمارے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس کی رائے کو جاننا بہت ضروری ہے۔میں کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے بعد میں مجھے پچھتانا پڑے۔"
"میں کہہ تو رہی ہوں آپ سے کہ میں نے خود اس سے پوچھا تھا اس نے کہا آپ جو بھی فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا۔پھر بھی پتہ نہیں آپ کو کس بات پر اعتراض ہے۔"
"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے میں بس ایک بار اپنے طور تسلی کرنا چاہتا ہوں۔عرینا کو کراچی سے ہو آنے دو۔تم پھر اس سے واضح کر کے شیروان اور اس کے رشتے کے بارے میں پوچھنا۔اس سے پہلے تک تم چپ ہی رہو گی۔"
"ٹھیک ہے نہیں کچھ کہتی میں کیونکہ آپ کو تو ایسے لگتا ہے جیسے میں اس کی دشمن ہوں۔اس کے لیے غلط ہی سوچتی ہوں۔"
چھوٹے پاپا نے کوئی بھی جواب نا دیا تو رخسانہ بیگم غصے سے لیٹ گئیں۔
اگر یہ سمجھا جائے کہ چھوٹے پاپا کو اس دن غلط فہمی ہوئی تھی تو آج پھر عرینا کے لہجے میں شیروان کے لیے ناپسندیدگی دیکھ کر ان کو یقین ہوا چلا تھا کہ عرینا شیروان کو پسند نہیں کرتی۔جب وہ اس سے ملنے تک کی راوادر نہیں ہے پھر وہ اس سے شادی کے لیے کبھی ہامی نہیں بھرے گی۔
انہوں نے پکا اراہ کر لیا کہ وہ عرینا کی مرضی جانے بخیر عرینا کا رشتہ شیروان سے طے نہیں کرینگے۔
انسان سوچتا کچھ ہے اور تقدیر نے کوئی اور فیصلہ کر رکھا ہوتا ہے اس کے لیے۔ان کی زندگی میں بھی کوئی ایسا موڑ آنے والا تھا جس سے وہ بے خبر تھے۔
اک فیصلہ وہ ہوتا ہے جو ہم اپنے پیاروں کے لیے کرتے ہیں اور اک فیصلہ وہ ہوتا ہے جو رب تعالی اپنے پیارے بندوں کے لیےکرتا ہے۔
جیسے کہ حدیث قدسی ہے۔
اے ابن آدم اک تیری چاہت ہے۔اک میری چاہت ہے۔
اگر تو نے سپرد کر دیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے۔تو میں تمہیں وہ بھی دونگا جو تیری چاہت ہے۔لیکن اگر تو نے نافرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تمہیں دھکا دونگا اس میں جو تیری چاہت ہے۔
اور پھر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز کہاں جانے کی جلدی ہے تمہیں پاپا سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کرنے دی تم نے مجھے۔"
"مجھے میٹنگ میں جانا ہے۔پتہ نہیں مجھے کتنا ٹائم لگے وہاں۔تم کمرے میں ہی رہنا۔کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولنا۔کھانا کمرے میں ہی منگوا لینا۔اور کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔گھر کے نمبرز تو تمہیں یاد ہی ہونگے۔جس سے بات کرنے کا دل ہو ریسیپشن سے کہہ کر کال ملا کر بات کر لینا۔"فراز یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔"
"میں پھر کہہ رہا ہوں کمرے سے باہر نہیں جانا ایسا نہ ہو میرے آنے تک خود ہی سیر سپاٹا کرنے نکلی ہو۔نہ یہاں کے رستوں کا تمہیں پتہ ہے کہیں گم ہوئی ہو۔اور میں یہاں ڈھونڈ ڈھونڈ کے کملا ہو رہا ہوں۔"فراز نے پھر سے پیچھے مڑ کر اسے نصیحت کی۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے نہیں جاتی کہیں بھی۔تم تو لیکچر دینا ہی شروع کر دیتے ہو۔"
"لیکچر نہیں دے رہا سمجھا رہا ہوں تمہیں۔جھلی سی تو ہو۔ایویں ہی منہ اٹھا کر کہیں چلی نہ جاؤ۔"
"کیا......فراز میں تمہیں جھلی لگتی ہوں؟"
"کوئی شک نہیں.....اچھا اپنا دھیان رکھنا....اور دروازہ بند کر لو....اللہ حافظ۔"
فراز عرینا کو اچھی خاصی نصیحتیں کر کے چلا گیا۔عرینا نے مسکرا کر دروازہ بند کر لیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ربیعہ آفس سے آنے کے بعد پھولوں کے پاس کھڑی مگن سی سرخ گلاب کو چھو کر اس کی خوشبو سونگھ رہی تھی جب شیراز کسی کام سے گھر آیا تو اس نے ربیعہ کو صحن میں پھولوں کے پاس کھڑے دیکھا۔
آج وہ اکیڈمی نہیں گئی تھی شیراز نے سوچا اس سے جا کر وجہ جاننی چاہیے کہ وہ اکیڈمی کیوں نہیں آئی۔
"اہممم.....مس ربیعہ آپ آج اکیڈمی کیوں نہیں آئیں؟"ربیعہ ہڑ بڑا کر مڑی۔
"جی......وہ....."اسے سمجھ نہیں آئی کہ اب وہ کیا بہانہ بنائے۔
"جی.....وہ کیا.....آپ کو پتہ ہے دو ہفتے بعد آپ کے پیپرز ہونے والے ہیں۔اور آپ یہاں چھٹی کر کے بیٹھی ہیں.....آج میں نے آپ کی کلاس کو انگلش کے نوٹس بنا کر دیے ہیں۔اور آپ گئی نہیں آج۔اب آپ وہ نوٹس کیسے حاصل کرو گی......ذرا بتاؤ مجھے....؟"شیراز اس وقت واقعی ایک ٹیچر کی طرح اسے ڈانٹ رہا تھا۔
"سوری سر...."ربیعہ نے معذرت کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
"سوری سے کام نہیں چلے گا۔میں پھر اکیڈمی جا رہا ہوں۔جلدی سے اپنی بکس لے آؤ پھر میرے ساتھ ہی اکیڈمی چلی جانا۔"شیراز یہ کہہ کر اندر کی طرف بڑھنے لگا تو ربیعہ بولی۔
"سر....میں نے نہیں اکیڈمی جایا کرنا۔"
"کیا میں وجہ جان سکتا ہوں...؟"شیراز نے مڑ کر پوچھا۔
"سر کوئی وجہ نہیں ہے میں خود ہی گھر میں تیاری کر لونگی۔"
"مس ربیعہ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ پہلے ہی باقی کلاس سے کتنا پیچھے رہ گئی ہو.....آپ کی کلاس کے باقی بچے ٹیسٹ دے رہے ہیں اور آپ کا کورس بھی ابھی کمپلیٹ نہیں ہوا۔میں اسپیشلی آپ کو الگ سے ٹائم دے کر پڑھا رہا ہوں تاکہ آپ کا سال ضائع نا ہو جائے۔اور آپ اکیڈمی نا جانے کی بات کر رہی ہو.....دیس از ناٹ فئیر۔آپ کو اپنا نہیں تو کم از کم میرا خیال ہی کر لینا چاہیے تھا کہ میں کتنی مشکل سے اپنے شیڈول میں سے ٹائم نکال کر آپ کو دے رہا ہوں۔"
"سوری سر...."
"واٹ سوری ہاں....؟"شیراز غصے سے بولا تو ربیعہ کے آنسو نکل آئے۔اسے روتا دیکھ کر شیراز بولا۔
"آ.......آئی ایم سوری....میں کچھ زیادہ ہی سخت بول گیا۔آپ نے جانا ہوا تو ابھی میرے ساتھ چلی جانا۔نہیں تو جیسے آپ کی مرضی۔"
شیراز معذرت کر کے اندر چلا گیا۔ربیعہ کو اس شخص کی سمجھ نہیں آئی کہ اک دم اتنا ہائیپر ہو گیا تھا تو ساتھ ہی غصہ ختم بھی ہو گیا۔پل میں تولا پل میں ماسے جیسا حساب تھا اس بندے کا۔
ربیعہ نے سوچا شیراز ٹھیک کہہ رہے ہیں جب وہ میرے لیے وقت نکال رہے ہیں تو مجھے اس چیز کی قدر کرنی چاہیے۔مجھے اکیڈمی جانا چاہیے تاکہ میں پیپرز کی تیاری ٹھیک سے کر سکوں۔
یہ سوچ کر وہ جلدی سے اپنے کمرے میں جا کر جلدی سے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر چادر لے کر اور بکس پکڑ کر آ گئی۔
باہر آکر اس نے دیکھا شیراز گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا اگر ایک منٹ بھی اسے آنے میں دیر ہو جاتی تو اس نے اسے چھوڑ کر چلے جانا تھا۔
وہ گاڑی کے پاس کھڑی ہو کر سوچنے لگی پتہ نہیں یہ مجھے لے کر جاتے ہیں یا نہیں۔
شیراز نے اسے کشمکش میں کھڑے دیکھ کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔
ربیعہ نے پہلے تو اچھنبے سے شیراز کی طرف دیکھا جو سپاٹ چہرے سے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا ربیعہ خاموشی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
"آئینے بھی تمہیں,تمہاری خبر نہ دے سکیں گے
آؤ دیکھو میری آنکھوں میں کتنے حسین ہو تم"
ربیعہ نے شیراز کو آئینہ دیکھتے سوچا۔اک خوشگوار سا احساس ہوا تھا اسے۔جس کے باعث وہ مسکرا کر باہر دیکھنے لگی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز شام چار بجے واپس آ گیا۔اس نے آتے ہی عرینا کو ریڈی ہونے کا کہا۔
"عرینا جلدی سے تیار ہو جاؤ۔آج میں تمہیں کراچی کا سمندر دکھاتا ہوں۔"
"اوکے.....میں ابھی تیار ہوتی ہوں۔"عرینا برا سا منہ بنا کر بیٹھی تھی کہ سارا دن اسے اکیلی کو کمرے میں بور ہونا پڑا تھا۔مگر اب سمندر دیکھنے کی بات سن کر اس کی ساری بوریت ختم ہو گئی۔
فراز بھی اپنے کمرے میں فریش ہونے چلا گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز اور عرینا شیراز کی گاڑی پر اس وقت سمندر کنارے کھڑے تھے۔
عرینا تو سمندر کو دیکھ خوش ہو رہی تھی۔اور فراز اسے خوش دیکھ کر خوش ہو کر مسکرا رہا تھا۔عرینا نے اس کی طرف دیکھا۔
"اسے مسکرانا پسند ہے
اور مجھے مسکراتا ہوا وہ"
(از_قلم_علینہ)
"فراز آؤ تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔"عرینا فراز کا ہاتھ پکڑ کر اسے گہرے پانی میں جانے کا کہنے لگی۔
"نہیں تم جاؤ میں یہی ٹھیک ہوں۔بلکہ تم بھی ادھر ہی رہو تم نے زیادہ گہرائی میں جا کر کیا کرنا ہے؟"
"فراز جب تک سمندر میں نا اترا جائے اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔"
"تو تم اس کی گہرائی کو ناپنے جا رہی ہو؟"
"نہیں میں چاہتی ہوں.....کوئی میرے ساتھ گہرائی میں اترے۔"
"اگر کسی کو گہرائی میں اترنے سے ڈر لگتا ہو تو؟"
"تو میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گہرائی میں لے جاؤنگی۔"
"اتنا یقین ہے خود پر؟"
"خود پر نہیں کسی اور پر ہے کہ وہ میرا ہاتھ کہیں نہیں چھوڑے گا۔"
"وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ وقت کا پہیہ کب کس اوڑھ مڑ جائے۔"
"تو کیا انسان اس اوڑھ مڑ جاتا ہے؟"
"وقت بھی ان بہتی لہروں کے جیسے ہوتا ہے۔جہاں جہاں یہ لہریں مڑتی جاتی ہیں۔انسان کو چاہتے نا چاہتے اس اوڑھ مڑنا پڑتا ہے۔"
"فراز تم مجھے ڈرا رہے ہو؟"
"ڈرا نہیں رہا۔اک عام سی بات کی ہے۔"فراز کندھے اچکا کر آگے بڑھ گیا۔
عرینا سوچنے لگی کبھی کبھی مجھے اس شخص کی ذرا سمجھ نہیں لگتی کیسی کیسی باتیں کر جاتا ہے اور پھر بعد میں کہتا ہے کہ میں نے تو بس ایسے ہی کہا تھا۔
عرینا بھی اس کے پیچھے چلنے لگی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
اگلی صبح بھی فراز کہیں چلا گیا تقریبا دو بجے واپس آیا اور آتے ہی زبردستی عرینا کو اپنے ساتھ شیروان سے ملنے لے گیا۔
ان دونوں نے کراچی میں خوب انجوائے کیا۔شیروان کی بھیجی گاڑی بھی استعمال کی۔ڈرائيور کو اکثر وہ دونوں چھوڑ جاتے اور فراز خود ڈرائيو کرتا۔جھنڈے والی گاڑی کو کوئی روکتا بھی نہیں۔
"السلام علیکم شیروان اور DSP صاحب۔"
"وعلیکم السلام کیسے ہو یار؟"شیروان کچھ تمیز سے ملا۔
عرینا نے بھی سلام لیا۔شیروان فراز کی طرف متوجہ رہا اور صرف عرینا کو ایک نظر دیکھ کر سر ہلا دیا۔
شیروان کا سرکاری بنگلہ تھا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ سوم💕💕
کراچی جیسے پر ہجوم شہر میں اس قدر پر سکون کالونی اور بنگلے کی سجاوٹ بھی دیکھنے لائق تھی۔
"شیروان بھائی آپ کا گھر تو بہت خوبصورت ہے ماشاءالله ۔"
ماشاءالله عرینا کا فیورٹ لفظ تھا۔جو بھی چیز اچھی لگتی اس نے ماشاءالله لازمی کہنا ہوتا تھا۔
شیروان نے مسکرا کر اس کی داد وصول کی مگر بڑی ہی کٹھور مسکراہٹ تھی۔
"ویسے فراز تم آنٹی اور عریشہ کو بھی ساتھ لے آتے۔عرینا کو کمپنی ہو جاتی۔"
"اس نے پوچھا ہی نہیں انہیں۔"فراز نے سارا ملبہ عرینا پر ڈال دیا۔
"جی نہیں یہ مجھے احسان چڑھا کر لایا ہے اور لا کر بھول گیا تھا انہیں بھی لے آتے تو......"عرینا نے بھی گلہ کر دیا۔شیروان نے مشکوک انداز میں فراز کو دیکھا اور وضاحت مانگی۔
"یار یہ سو رہی تھی میں آرٹ گیلری چلا گیا اٹھ کر رونے لگ گئی۔"
"عرینا رونے لگ گئی......سچی....؟"اسے گویا یقین نا آیا کہ عرینا تو بہت بہادر ہے۔
"شیروان بھائی اب اتنے بڑے شہر میں اتنے بڑے کمرے میں ڈرنا ہی تھا میں نے۔اوپر سے بھوک بھی لگی ہوئی تھی۔"
"اور فیڈر یہ گھر ہی بھول آئی تھی۔"فراز نے لقمہ دیا۔
"فراز ناٹ فئیر۔"عرینا نے نروٹھے پن سے کہا۔
"شیروان بھائی آئی ایم سوری.....امی نے مجھے بتایا کہ آپ میرے ائیر پورٹ والے رویے سے ناراض ہیں۔ایکچوئیلی اس وقت میں تھکی بہت ہوئی تھی۔جب مجھے نیند آئی ہو ناں تو اس سے پوچھیں مجھے فراز بھی برا لگنے لگ جاتا ہے۔"
"حالانکہ فراز تمہیں کبھی برا نہیں لگتا۔"وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا وہ حیران ہوئی۔
"جی......شیروان بھائی آنٹی آپ کے ساتھ کیوں نہیں رہتی۔یہاں آپ اتنے بڑے گھر میں اکیلے رہتے ہیں۔"
"بھئی وہ کھلی فضاؤں کی عادی ہو چکی ہیں۔پھر وہاں زمینیں وغیرہ بھی ہیں تو وہ وہیں ابو کے ساتھ رہ کر ان کی مدد کرنا پسند کرتیں ہیں۔اس لیے نہیں میرے پاس رہتیں۔"
"اچھا یار ہم لوگ صبح واپس جا رہے ہیں۔تھینکس فار دا کار۔"فراز بولا۔
"نہیں نہیں تھینکس کہنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ مجھے تو ٹائم ہی نہیں ملا ورنہ میں تمہیں اپنے ٹریننگ سینٹرز وغیرہ دکھاتا۔بلکہ کیا ارادہ ہے ابھی چلیں؟"اس نے ایک دم آفر کی۔فراز نے بھی ہامی بھر لی۔
پھر رات نو بجے تک وہ شیروان کے ساتھ رہے۔اس کا آفس بھی دیکھا۔
سارے رستے عرینا پیچھے اور وہ دونوں آگے بیٹھتے تھے۔انتہائی کوشش کے باوجود شیروان کوئی نا کوئی سخت جملہ یا کوئی ڈبل میننگ بات کر جاتا۔اور عرینا اس سے مذید بد ذہن ہو جاتی۔مگر فراز کی ہدایات تھیں سو وہ کنٹرول کر جاتی۔
ان تینوں نے مل کر گھر والوں کے لیے تھوڑی بہت شاپنگ بھی کی۔
شیروان کو ایک ساڑھی بہت پسند آئی اس نے عرینا کو گفٹ کی مگر وہ عرینا ہی کیا جو اس سے کچھ لے۔
"شروان بھائی یہ ساڑھی سچ میں بہت خوبصورت ہے۔یقینا آپ نے دل سے خرید کر مجھے دی ہے۔لیکن میں یہ نہیں لے سکتی۔"
"کیوں.....یہ میں نے لے کر دی ہے اس لیے نہیں لینی.....یا...."
"ارے نہیں شیروان بھائی وہ ایسا ہے کہ میں نے کبھی ساڑھی نہیں پہنی اور نا مجھے پسند ہے۔اس لیے میں یہ نہیں لے سکتی......فراز میرے خیال سے اب ہمیں چلنا چاہیے ٹائم بہت ہو گیا ہے۔"
اس نے شیروان کو انکار کرنے کے ساتھ ساتھ فراز سے بھی چلنے کو کہا۔
شیروان کو برا تو لگا مگر پھر اپنے غصے کو پی گیا اور ساڑھی اپنے پاس رکھ لی کہ آج یہ مجھ سے نہیں لے رہی شادی کے بعد اسے ہی پہننی پڑے گی۔
اگلی صبح شیروان ہی ان دونوں کو ریلوے اسٹيشن چھوڑنے گیا۔
"آئے بائے ائیر ہو اور اب ٹرین کیا بات ہے؟"شیروان نے پوچھا۔
"اسے بہت شوق ہے ٹرین کے سفر کا۔"فراز نے عرینا کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
"اٹھارہ گھنٹے ہیں سوچ لو ابھی بھی۔"شیروان نے وارن کیا۔فراز عرینا کی طرف دیکھ کر مسکرایا جس کو اس وارننگ کا بالکل اثر نہیں ہوا تھا۔شیروان انہیں گاڑی میں بٹھا کر چلا گیا تو فراز نے پھر کہا۔
"عرینا اٹھارہ گھنٹے کا سفر ہے۔"
"کمپنی اچھی ہو تو لمبے سے لمبا سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔"
"تو تم کہہ سکتی ہو میں کیا کروں؟"
"فراز......تمہاری پینٹنگز....؟"اسے ایک دم خیال آیا۔
"بک گئیں ساری۔"
"کیا میری بھی...میں نے کہا بھی تھا گلابوں والی نہیں بیچنی۔"وہ خفا ہوئی۔
"کارگو سے آ رہی ہے بائے ائیر......توبہ اتنی گرمی میں ٹرین کا سفر سوجھا ہے محترمہ کو۔"
"گرمی کہاں ہے۔اتنا اچھا موسم ہے۔"اسے واقعی حیرت ہوئی۔
"توبہ پتہ نہیں کس موسم میں پیدا ہوئی ہو۔تمہیں گرمی ہی نہیں لگتی اور سردیوں میں کھڑ کھڑ کا مربہ بنی ہوتی ہو۔"
"تو تم نہایا کرو ناں نا گرمی لگے تمہیں۔"
"عرینا۔"
"فراز۔"
اسی چھیڑ خانی میں ان کا سفر شروع ہو گیا۔اس ڈبے میں ان کے ساتھ ایک اور فیملی بھی تھی۔اب اٹھارہ گھنٹے کے سفر میں تھوڑی بہت تو جان پہچان ہو ہی جانی تھی۔
فراز مسلسل جاگتا رہا مگر عرینا دو تین گھنٹے سو گئی۔
ساتھ والی فیملی میں اماں ابا دو چھوٹے لڑکے اور ایک عرینا سے چھوٹی لڑکی تھی۔جو قد میں تو عرینا جتنی ہی تھی۔مگر تھی اس سے چھوٹی۔ہاتھوں پہ مہندی لگائے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسی شادی سے آئے ہیں اور لاہور ہی جا رہے ہیں۔
وہ لڑکی شہرزاد سیکنڈ ائیر میں تھی اور لاہور کالج میں پڑھتی تھی۔
بڑی بہن شاہین کی شادی اپنے آبائی گاؤں میں کر کے آ رہے تھے۔
اماں نے بتایا کہ ہمارے ہاں رواج ہے اگر بیٹی کی شادی اپنوں میں کی جائے تو پھر ہم سب اپنے آبائی گاؤں میں جا کر ہی شادی کرتے ہیں۔
"آنٹی جی آپ پٹھان ہو؟"عرینا نے ان کی پٹھانی رنگت دیکھ کر پوچھا۔
"جی آپی جی ہماری اماں پٹھان ہیں جبکہ ابا پنجابی ہیں۔"شہرزاد کے بھائی شاہد نے جواب دیا۔
شہرزاد کا بھائی شاہد فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا چھوٹا بھائی شرجیل میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا۔
"ٹھیک.....شہرزاد یہ نام تو الف لیلی کا کردار تھا ناں۔"
پھر عرینا اور شہرزاد کافی دیر تک اس کے نام کو ڈسکس کرتی رہیں۔
اتنی دیر میں ہی گھر کے ایڈریس نمبر بھی ٹرانسفر ہو گئے۔
بیگم شہباز فراز کے بڑے واری صدقے جا رہی تھیں کہ وہ لگ بھی بہت پیارا رہا تھا۔گہرے ہرے شلوار کرتے میں۔
شہرزاد کے بھائی تھوڑے ریزرو سے تھے سو عرینا کچھ دیر بعد فراز کے پاس واپس آ گئی۔کیونکہ وہ بالکل اکیلا سنجیدہ سا چہرہ بنا کر بیٹھا تھا۔
عرینا نے اس لڑکی کو غور سے دیکھا۔رنگ روپ تو ٹھیک ہی تھا۔عرینا سے کافی کم۔ہو سکتا ہے اس کلر میں اچھا نہ لگتا ہو فیروضی رنگ کیری کرنا اتنا آسان نہیں۔یہ سوچ کر عرینا نے اس کے کلر کو بری الذمہ کیا۔
نقش تھوڑے بیٹھے ہوئے ہیں لگتا ہے آنکل پہ چلے گئی ہے۔کیونکہ اس کے دونوں بھائی تو صحیح پٹھان ہی لگ رہے ہیں۔
آنکھیں چھوٹی ہیں ناک بھی بیٹھی ہوئی ہے۔لپ اسٹک لگائی ہوئی ہے پتہ نہیں ہونٹ کیسے ہوں۔
عرینا نے مستی سے فراز کی طرف دیکھا کہ اسے چھیڑے مگر وہ باہر دیکھتے ہوئے آنکھ میں انگلی مار رہا تھا۔اس کی امیدوں پر پانی پھیر گیا۔
"کچھ چلا گیا ہے؟"
عرینا نے پوچھا تو فراز نے سر ہاں میں ہلایا۔عرینا نے اپنا پلو پھونک سے گرم کر کے اس کی آنکھ پر رکھا۔چار پانچ دفعہ ایسا کرنے سے وہ کچھ بہتر ہو گیا۔
"یہ لیں گے آپ۔میں نے بنائے ہیں۔"شہرزاد اپنی اماں کی ہدایت پر اٹھ کر پلیٹ میں کباب رکھے لائی اور فراز کے آگے کیے۔
"میں کھانا کھا چکا ہوں۔عرینا سے پوچھ لیں۔" یہ کہہ کر فراز کھسک گیا۔اور جا کر دروازے میں کھڑا ہو گیا۔
شہرزاد کی فراز میں دلچسپی عرینا محسوس کر رہی تھی مگر فراز اتنا کچا نہیں ہے اس کا اسے یقین تھا۔
پھر لاہور آنے سے پہلے جب شہرزاد نے باتھ روم جا کر اپنا حلیہ سنوارا تو پہلی بار عرینا نے اپنا کسی سے موازنہ کیا۔اترانا تو خیر اسے نہیں آتا تھا سو وہ مسکرا دی مگر فراز کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔
عرینا نے فراز کی طرف دیکھا جو سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے کہیں اور پہنچا ہوا تھا۔عرینا نے شہرذاد کو دیکھا جو یک ٹک فراز کو دیکھ رہی تھی اور فراز کو پتہ بھی نہیں تھا۔
"کہاں گم ہو؟"عرینا نے اس کا شانہ ہلایا۔ وہ اس قدر ملائمیت سے مسکرایا کہ دل گدگدایا۔
"تمہی میں گم ہوں۔"
"میں اتنی کمپلیکیٹڈ تو نہیں۔"
"انٹرٹیننگ اور فیسینیٹنگ تو ہو ناں.....ویسے سچ بتاؤں میں س ویو یاد کر رہا تھا۔اونٹ کی رائیڈ۔"
"اپنی یا میری؟"
"ہم نے علیحدہ رائیڈ کب کیا تھا.....تمہیں ڈر کس سے لگ رہا تھا؟"
"وہ ہلتا بہت ہے۔"
"ہاہاہاہا.....کوئی حال نہیں تمہارا عرینا۔"فراز قہقہہ لگا کر ہنسنے لگ پڑا۔
"فراز بس کر دو اب.....مذاق اڑائی جا رہے ہو میرا۔"
مگر فراز پھر بھی ہنستا رہا۔عرینا منہ بنا کر بیٹھ گئی۔
لاہور اسٹیشن پہ ڈرائيور ان دونوں کو ریسیو کرنے آیا تھا۔
گھر آ کر دونوں نے گھر والوں کا جو سر کھایا۔اس نے مجھے زیادہ تنگ کیا۔نہیں اس نے مجھے زیادہ تنگ کیا۔
عرینا نے بابا جان سے بھی فراز کی شکایت لگائی جو وہ اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
"ٹھیک ہے تم آئیندہ اس کے ساتھ مت جانا۔"بابا جان نے کہا تو عرینا ہڑبڑا گئی۔
"نہیں بابا جان وہ تو میں ایسے ہی کہہ رہی تھی۔اتنا خیال رکھا اس نے میرا۔"
"اچھا یہ بتاؤ شیروان سے معافی مانگ لی تھی تم نے؟"
عرینا کی امی نے اس سے پوچھا۔
"جی مانگ لی تھی۔شکایت لگانے کو تو فورا فون کر دیا تھا یہ نہیں بتایا سڑو نے۔"
"عرینا......"فراز نے ٹوکا تو چپ ہو کر اٹھ کر اندر کی طرف چلے گئ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"ربیعہ۔"عرینا نے ربیعہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ربیعہ نے فٹافٹ دروازہ کھولا۔
"عرینا.......آپ یہاں...؟"ربیعہ کو حیرت ہو رہی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ عرینا اسے ناپسند کرتی ہے۔
"جی میں یہاں.....کیا میں یہاں نہیں آ سکتی؟"
"جی جی ضرور آئیے۔"ربیعہ نے سائیڈ پر ہو کر اسے اندر آنے کا رستہ دیا۔
"ویسے ماننا پڑے گا تم نفاست پسند ہو۔"عرینا نے چاروں طرف دیکھ کر اس کی تعریف کی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
No comments:
Post a Comment