Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena||Episode11

#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_١١
💕💕حصہ اول💕💕
شیراز اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب عامر نے اسے بابا جان کا پیغام دیا۔عامر ہال میں اپنی کتابیں پھیلائے بیٹھا تھا۔
"شیراز بھائی بابا جان نے آپ کو بلایا ہے۔"
"کیوں خیریت.....؟"
"پتہ نہیں بابا جان نے کہا ہے کہ جیسے ہی شیراز گھر آئے اسے میرے پاس بھیجنا۔"
"اوکے۔"شیراز بابا جان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
شیراز کے جانے کے بعد عامر پھر سے سٹڈی کرنے میں مصروف ہو گیا۔
"بابا جان آپ نے مجھے یاد کیا؟"شیراز نے اجازت لینے کے بعد لائبریری میں داخل ہوتے پوچھا۔
اس وقت لائبریری میں بابا جان بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا تینوں موجود تھے۔یہ تینوں بھائیوں کا ایکا ہی تھا جس نے اب تک اس گھر کو جوڑے رکھا تھا۔گھر میں کوئی بھی مسئلہ ہوتا یا کوئی اہم بات کرنی ہوتی یہ تینوں مل کر کرتے تھے۔بابا جان نے ہمیشہ اپنے دونوں بھائیوں کو اہمیت دی تھی تو چھوٹے بھائی بھی بابا جان پر جان وارتے تھے۔ان کے ہر فیصلے کو بغیر کسی چوں چراں کے مانتے آئے تھے۔کیونکہ بابا جان نے ان دونوں کو ہمیشہ اپنی اولاد پر ترجیح دی تھی۔
"جی برخودار آ جاؤ....بیٹھو ہمیں آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔"
"جی کہیے بابا جان۔"
"بیٹا جی بات کچھ اس طرح ہے کہ ہمیں لگ رہا ہے کہ ہماری کمپنی کے ڈیٹا اکاؤنٹس کے ساتھ کوئی گڑ بڑ کر رہا ہے۔آئے دن کوئی نا کوئی مسئلہ بنا ہوتا ہے۔"بڑے پاپا نے بات کا آغاز کیا۔
"شیراز بیٹا میں نے آپ کو کمپيوٹر ڈپلومہ اسی لیے کروایا تھا کہ آپ بھی کمپنی کو جوائن کر ہمارے ساتھ بزنس کو آگے بڑھاؤ۔مگر آپ کی ضد تھی کہ بابا جان مجھے پڑھانے کا شوق ہے میں اسے پورا کرنا چاہتا ہوں......ہم نے آپ کو دو سال کا وقت دیا تھا کہ آپ دو سال تک اپنے شوق کو پورا کر سکتے ہو پھر کمپنی کو جوائن کرلینا......ایسے ہی ہے ناں؟"
"جی بابا جان مجھے یاد ہے کہ میں نے ایسا ہی کہا تھا اور آپ نے مجھے میرا شوق پورا کرنے کے لیے دو سال کا وقت دیا تھا۔"
"جی اب آپ کے دو سال پورے ہو چکے ہیں.....تو پھر آپ آفس کب سے جوائن کر رہے ہو؟"چھوٹے پاپا نے پوچھا۔
"چھوٹے پاپا مجھے کچھ دنوں کی مہلت دے دیں....جیسے ہی پیپرز ہو گئے میرا یونیورسٹی سے سال کا کنٹریکٹ ختم ہو جائے گا۔پھر میں آفس جوائن کر لونگا۔"
"آپ کی بات بھی ٹھیک ہے مگر ہمیں تو ابھی آپ کی ضرورت ہے۔"بابا جان نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔
"میں اس کے لیے یونيورسٹی سے چند دنوں کی چھٹیاں لے لیتا ہوں اور کچھ دن آپ کے ساتھ جاتا ہوں....جیسے ہی آپ کا مسئلہ حل ہو گیا میں یونيورسٹی چلا جاؤنگا۔"
"ٹھیک.....اور اکیڈمی کا کیا کرنا ہے؟"
"بابا جان اکیڈمی کو میں نے بڑی محنت سے بنایا ہے میں اسے ختم نہیں کر سکتا وہ چلتی رہے گی.....مجھے جب بھی ٹائم ملا کرے گا میں ادھر چلا جایا کرونگا۔"
"چلیں ایک مسئلہ تو حل ہوا۔" بڑے پاپا نے بابا جان سے کہا۔
"بڑے پاپا کوئی اور مسئلہ بھی ہے کیا.....؟"
"جی بیٹا جی ایک اور کام بھی ہے جس کے لیے ہمیں آپ کی اجازت درکار ہے۔"چھوٹے پاپا نے کہا۔
"چھوٹے پاپا ایسا کون سا کام ہے جس کے لیے آپ کو میری اجازت چاہیے؟"
"بھائی صاحب آپ ہی بتائيں۔"چھوٹے پاپا نے سارا بوجھ بابا جان کے کندھوں پر ڈال دیا۔
"بیٹا جی ربیعہ کے ساتھ کیا ہوا ہے اس سے تو آپ واقف ہی ہو.......؟"
"بابا جان آپ کو کیسے پتہ چلا جو آج ہوا ہے؟"شیراز کو بابا جان کی بات سن کر حیرانگی ہوئی کہ یہ بات تو ان دونوں کے علاوہ کسی کو معلوم بھی نہیں اور بابا جان کو پتہ بھی چل گیا۔
"کیوں....کیا ہوا ہے آج اس کے ساتھ؟"بابا جان بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا تینوں حیران ہو گئے۔اور شیراز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ غلط بات کر گیا ہے۔پر اب وہ خاموش بھی نہیں رہ سکتا تھا اس لیے اس نے ساری روداد سنا دی۔
"بھائی صاحب مجھے لگتا ہے اس وجہ سے ہی ان کے گھر لڑائی ہو رہی ہے۔"چھوٹے پاپا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
"ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے.....آپ دونوں کا کیا خیال ہے جو ربیعہ کی بہن نے ہم سے درخواست کی ہے اس پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں.....؟"
"بھائی صاحب میں تو کہتا ہوں آپ شیراز سے ایک بار پوچھ لیں اگر یہ راضی ہے تو ٹھیک۔نہیں تو میں اپنے بیٹوں میں سے کسی کے ساتھ ربیعہ کا نکاح کروا دیتا ہوں۔"بڑے پاپا کو بھی ربیعہ بہت پیاری لگتی تھی اس لیے وہ بھی اسے اپنے گھر ہی رکھنا چاہتے تھے۔
شیراز خاموش بیٹھا ان کے تبصرے سن رہا تھا۔مگر جب بات ربیعہ کے نکاح کی ہوئی تو اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
"شیراز بیٹا ابھی ربیعہ کی بڑی بہن کلثوم کا فون آیا تھا۔اس نے ہمیں بتایا کہ ان دونوں بہنوں کے گھروں میں جھگڑا ہو رہا ہے کہ ربیعہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے اور اس لڑکے نے ہی ان کے بیٹے کو مارا ہے۔ان کی عزت کو مٹی میں ملا کر چلی گئی ہے وہ اسے واپس لے جانا چاہتے ہیں۔دونوں بہنوں نے بڑا سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے انہوں نے خود اس کو یہاں رہنے کے لیے بھیجا ہے مگر وہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں وہ اسے واپس لے جا کر اپنے بیٹے سے اس کی شادی کر دینگے۔
ربیعہ کو بچانے کے لیے ان دونوں نے جھوٹ بول دیا کہ انہوں نے ربیعہ کا نکاح کر کے اسے اس لڑکے کے ساتھ رخصت کیا ہے جس نے ان کے بیٹے کو مارا ہے۔
کل وہ لوگ یہاں اس بات کی تصدیق کرنے آ رہے ہیں کہ ربیعہ کا نکاح ہوا ہے یا نہیں.......دونوں بہنوں نے ہم سے التجا کی ہے کہ ہم ربیعہ کا نکاح پڑھوا دیں کسی سے بھی....پھر چاہے بعد میں چھوڑ دے۔ابھی کے لیے اس کی جان بچا لیں۔
ہمیں یہ سن کر اس بچی کے لیے برا لگا.....تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کا نکاح تم سے کروا دیتے ہیں اگر تم ہاں کرو تو.....نہیں تو ہم کسی اور سے بات کرتے ہیں......وکیل کو ہم نے بلایا ہے وہ آتا ہی ہو گا......اس سے پہلے تم ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دو۔"
شیراز کچھ دیر خاموشی سے ساری صورتحال پر غور کرتا رہا پھر بولا۔
"بابا جان جیسے آپ کو مناسب لگے۔مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔"
"شیراز بیٹا آپ نے میرا مان رکھا۔مجھے بڑی خوشی ہوئی۔جیتے رہو خوش رہو۔"بابا جان نے خوشی سے اسے گلے سے لگایا۔
بابا جان ربیعہ کی بڑی بہن سے فون پر بات کرنے لگے۔بابا جان نے بات کرنے کے بعد کلثوم کو ربیعہ سے خود بات کر کے اسے سمجھانے کا کہا۔
"ٹھیک ہے انکل جی آپ میری بات کروائيں ربیعہ سے میں اسے سب سمجھاتی ہوں۔"
"ٹھیک ہے میں بات کرواتا ہوں۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شیراز بابا جان کی بات سن کر اپنے کمرے میں آ گیا۔بابا جان نے اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی تھی بلکہ اسے اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا۔
مگر اس نے سوچا جو فیصلہ ایک باپ اپنی اولاد کے لیے کر سکتا ہے وہ انسان خود بھی اپنے لیے نہیں کر سکتا۔اس لیے وہ بابا جان کو ہاں کہہ آیا۔
اب سے کچھ ہی دیر میں وکیل آئے گا تو دونوں کا نکاح ہو جائے گا۔
دونوں تھوڑی دیر پہلے ایک دوسرے سے بیگانہ تھے اور اب اک خوبصورت بندھن میں بندھنے جا رہے تھے۔
ابھی صرف نکاح کرنے کا سوچا گیا تھا شادی کا فیصلہ بعد میں ہونا تھا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
بابا جان نے شمیم بیگم اور رخسانہ بیگم دونوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ان دونوں سے بھی اس فیصلے پر رائے لی گئی۔ان کو کیا اعتراض بھلا وہ بھی مان گئیں۔
بابا جان نے ان دونوں کو ربیعہ کے پاس بھیجا کہ جا کر بچی کو حوصلہ دو۔اکیلی پریشان ہو رہی ہو گی۔
شمیم اور رخسانہ بیگم دونوں ربیعہ کے پاس گئیں۔انہوں نے دیکھا ربیعہ کو چوٹ لگی ہوئی ہے اور رو رو کر اس کا برا حال ہوا ہے۔انہوں نے اسے گلے سے لگایا اسے تسلی دی اسے چپ کروایا۔پھر اس کی بات اس کی بڑی بہن سے کروائی۔
کلثوم آپا نے اسے سارے حالات سے آگاہ کیا۔اور اسے نکاح کے لیے راضی کیا۔
"ربیعہ تم نکاح کر لو۔نہیں تو یہ لوگ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرینگے۔تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ہمیں پتہ ہے ہم یہاں کتنی مشکل سے رہ رہی ہیں۔ہم تمہیں اس مشکل سے نکالنا چاہتی ہیں۔ہم نہیں چاہتیں تم یہاں آ کر ذلت و رسوائی کی زندگی جیو۔اس لیے ہماری بہن اللہ نے تمہیں ایک اچھی زندگی جینے کا جو موقع دیا ہے اسے ہاتھ سے جانے نا دینا۔اگر کبھی دل کرے تو اپنے شوہر کے ساتھ ہمیں ملنے آ جانا۔یہ لوگ تو کبھی ہمیں تم سے ملانے نہیں لے کر جائیں گے۔ہماری دعا ہے کہ تم اپنے گھر خوش رہو آباد رہو۔ہمیں برا مت سمجھنا تمہارے بھلے کے لیے ہم نے اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے۔"
"نہیں آپا میں آپ دونوں کو کبھی برا نہیں سمجھ سکتی۔آپ دونوں تو میری بہنیں ہو۔میرا برا کیسے سوچ سکتی ہو۔"
"بس پھر ربیعہ نکاح کر لو۔اگر ہم سے ہو سکا تو ہم تمہاری شادی میں شریک ہو جائینگی نہیں تو ہم سے کوئی گلہ نا رکھنا۔"
"جی آپی۔"اس کے بعد فون بند ہو گیا۔
ربیعہ کو اپنی بہنوں کے ساتھ ہو رہی زیادتی کا سن کر دکھ ہوا۔اور وہ مذید رونے لگی۔
"ربیعہ بیٹا رونے سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔آپ کو حوصلہ رکھنا ہو گا۔"شمیم بیگم اسے خود سے لگا کر چپ کرواتی رہیں۔
عرینا کو جیسے ہی ربیعہ اور شیراز کے نکاح کا پتہ چلا وہ خوشی خوشی ربیعہ کے پاس بھاگی جا رہی تھی۔جب فراز اس کے سامنے آ گیا۔
"تمہیں کس بات کی اتنی خوشی چڑھی ہے جو ایسے سر پٹ دوڑی جا رہی ہو؟"
"ارے فراز میری دوست میری بھابھی بننے والی ہے مجھے خوشی تو ہو گی ناں۔"
"ہمممممم......بھابھی یا جیٹھانی؟"
"بھابھی۔"
فراز نے تیوری چڑھا کر اسے دیکھا پھر بولا۔
"سوچ لو.....کہیں ایسا نا ہو میں ربیعہ کو کسی اور کی جیٹھانی بنا دوں؟"
"گلا دبا دونگی میں۔"
"کس کا؟"
"اس چڑیل کا جسے تم اپنی بیوی بنانے کا سوچ رہے ہو۔"
"ہاہ......اپنے ہاتھوں سے اپنا ہی گلا دباؤگی۔"
"فراز.....دفع ہو....میں ربیعہ کے پاس جا رہی ہوں۔"
"تو جاؤ میں نے کون سا تمہیں پکڑا ہے۔"
"آگے سے ہٹو گے تو جاؤنگی ناں۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕حصہ دوم💕💕
"چلو دونوں چلتے ہیں۔"فراز بھی اس کے ساتھ جانے لگا۔
"تم نے کدھر جانا ہے؟"
"کیا مطلب کدھر جانا ہے.....ارے اپنی بہن کے پاس جا رہا ہوں اسے اپنے بھائی کی ضرورت ہو گی۔"
"ہاں بھائی تو دیکھو جس کو کچھ پتہ ہی نہیں۔"
"کیا نہیں پتہ مجھے؟"
"یہی کہ اس کی بہن کسی کو پسند کرتی ہے۔"
"کس کو.....عرینا جلدی بتاؤ مجھے.....کہیں ربیعہ کے ساتھ زیادتی نا ہو جائے۔"فراز سچ میں پریشان ہو گیا۔
"نہیں ہوتی......وہ شیراز بھائی کو ہی پسند کرتی ہے۔"
"ارے واہ......اسے کہتے ہیں اللہ ملائی جوڑی۔"
"ہاں جی۔"دونوں ربیعہ کے کمرے میں داخل ہوئے۔چھوٹی امی اور بڑی امی دونوں ربیعہ کے پاس بیٹھیں اسے چپ کروا رہی تھیں۔
فراز نے ربیعہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے چپ کروایا۔
"ربیعہ جب تک تمہارا بھائی زندہ ہے تمہیں بالکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"فراز بھائی پتہ نہیں میری بہنوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہو گا۔مجھے اپنی نہیں ان کی ٹینشن لگی ہے۔"
"اچھا تم پریشان نہ ہو ہم کسی دن ادھر جائینگے....ٹھیک ہے؟"
"جی فراز بھائی۔"
اس کے بعد ربیعہ اور شیراز کا نکاح کروا دیا گیا۔
فراز نے ربیعہ کے بھائی ہونے کے ناطے اس کی طرف سے بطور گواہ دستخط کیے۔
ربیعہ کو آج اپنے اماں ابا اور بہنوں کی شدت سے یاد ستا رہی تھی ۔اس کا یہ دکھ ہی نہیں کم ہو رہا تھا کہ اس خوشی کے موقع پر اس کے اپنے اس کے ساتھ نہیں۔
کیا کبھی ایسے بھی کسی کے ساتھ ہوا ہو گا جیسا آج اس کے ساتھ ہو رہا ہے۔جو دنیا سے چلے جائيں ان کے شامل نا ہونے پر تو بندہ جیسے تیسے صبر کر ہی لیتا ہے لیکن جو اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اپنوں کی خوشی میں شامل نا ہو سکیں اس کا ملال ساری زندگی رہتا ہے۔
ربیعہ نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ زندگی اس سے اس طرح کا کڑا امتحان لے گی۔اس طرح کٹھنائیوں سے گزرنا پڑے گا اسے۔سنگلاخ زمین پر تنہا چلنا پڑے گا۔
جو سبق زندگی سکھاتی ہے وہ سبق کسی کتاب میں نہیں ملتا۔انسان ڈھونڈنا چاہے بھی تو نہیں ڈھونڈ سکتا۔انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا جو کچھ اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔وقت کا چکر کب کس طرف انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا اگر پتہ ہو تو انسان کبھی اس چکر کو گھومنے ہی نا دے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
آج سب مرد حضرات گھر ہی موجود تھے۔سب ہی صبح سے ان لوگوں کے آنے کے منتظر تھے۔وہ لوگ دوپہر کے قریب آئے۔
بابا جان,بڑے پاپا,چھوٹے پاپا شیراز,فراز,عاکف,نواز سب بیٹھک میں بیٹھے تھے۔عورتیں باہر ہال میں بیٹھی تھیں۔ربیعہ ڈر کے مارے عرینا کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔
ربیعہ کے رشتے داروں میں چار پانچ مرد حضرات آئے۔
"آپ سب اپنا تعارف کروا دیں تاکہ ہمیں پتہ تو چلے کون ربیعہ کا رشتے میں کیا لگتا ہے۔"
"جی میرا نام احمد ہے میں ربیعہ کا تایا ہوں۔یہ ربیعہ کا پھوپھا رشید ہے۔یہ ربیعہ کا بڑا بہنوئی عاصم ہے۔یہ ربیعہ کا چھوٹا بہنوئی لیاقت ہے۔اور یہ میرا بڑا بیٹا شرافت ہے۔"
"ٹھیک.....میرا نام حسان ہے سب مجھے بابا جان کہتے ہیں۔یہ میرا چھوٹا بھائی حسیب ہے۔یہ اس سے چھوٹا محسن ہے۔یہ میرا بڑا بیٹا شیراز ہے۔یہ اس سے چھوٹا فراز ہے۔اور یہ اس سے چھوٹا نواز ہے۔یہ عاکف حسیب کا بیٹا ہے.....جی تو خیریت سے آئے ہو آپ سب؟"
"دراصل ہم اپنی بیٹی ربیعہ کو لینے آئے ہیں۔"
"آپ کس سلسلے میں ربیعہ کو لینے آئے ہیں؟"
"ہمیں پتہ ہے کہ کلثوم اور ہما دونوں نے مل کر اپنی بہن کو بچانے کے لیے جھوٹ بولا ہے۔انہوں نے اس کو آپ کے گھر کام کرنے بھیجا تھا۔کسی سے نکاح نہیں ہوا ربیعہ کا۔"
"شیراز بیٹا کیا ربیعہ سے آپ کا نکاح نہیں ہوا ؟"بابا جان نے شیراز سے پوچھا۔
"ہوا ہے بابا جان۔بیوی ہے وہ میری۔اور میری غیرت کبھی یہ گوارا نہیں کرتی کہ کوئی ہماری عزت پہ ہاتھ ڈالے اور میں خاموش تماشائی بن کر اسے ہماری عزت کے ساتھ کھیلتے دیکھتا رہوں۔"
"تو تم نے میرے بیٹے کو مارا تھا؟"
"شکر ادا کریں ربیعہ کا جس نے اسے بچا لیا نہیں تو آج وہ آپ کو زندہ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔"شیراز نے غصے سے کہا۔
"آپ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔کوئی نکاح نہیں ہوا ربیعہ کا کسی سے۔"عاصم کو غصے آ گیا۔
"دیکھو مسٹر آواز نیچی رکھ کر بات کرو ہم سے۔ورنہ ہمیں غصہ آ گیا تو تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ کیا ہو گا تمہارے ساتھ۔"فراز نے اس کی بولتی بند کی۔
"عاصم تم چپ رہو۔"احمد صاحب نے عاصم کو چپ کروایا مبادا بات بگڑ جائے۔
"دیکھیے جناب آپ کی بھی بیٹیاں ہونگی۔آپ کو بھی اندازہ ہو گا کہ گھر کی عزت جب یوں سڑکوں پر سرِعام پھرتی ہے تو پورے خاندان کی بدنامی ہوتی ہے۔اس لیے ہم اسے لے جانے آنے ہیں آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور اسے ہمارے ساتھ بھیج دیں۔"
"احمد صاحب وہ ہمارے گھر کی بہو بیٹی ہے ہم اسے کیسے آپ کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ویسے جب ان بچوں کا جانے کا دل ہو جا سکتے ہیں مگر اس طرح نہیں جس طرح آپ کہہ رہے ہیں۔"بڑے پاپا نے سہولت سے انہیں سمجھانا چاہا۔
"آپ کہہ رہے ہیں کہ ربیعہ کا نکاح ہوا ہے آپ کے بیٹے سے۔تو ہمیں نکاح نامہ دیکھائیں۔ہمیں یقین ہو جائے گا۔"رشید صاحب نے بھی مداخلت کی۔
"محسن نکاح نامہ دکھاؤ ان کو۔"بابا جان نے چھوٹے پاپا سے کہا۔
چھوٹے پاپا نے نکاح نامے کی ایک کاپی ان کو پکڑائی۔
سب نے باری باری نکاح نامہ پڑھا۔بابا جان نے نکاح نامے پر اس دن کی تاریخ لکھوائی تھی جس دن وہ ربیعہ کو اپنے ساتھ لاہور لے کر آئے تھے۔
"دیکھ لیا نکاح نامہ آپ نے۔اب تو یقین ہو ہی گیا ہو گا آپ کو؟"
چھوٹے پاپا نے ان سے پوچھا۔
"کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ آپ تو ہم لوگوں کو جانتے بھی نہیں۔پھر آپ نے اپنے بیٹے کا نکاح ہماری بیٹی سے کیوں کروایا؟"رشید صاحب نے پوچھا۔
"بجا فرمایا آپ نے ہم واقعی آپ کو نہیں جانتے مگر ہم شفیق صاحب کو بڑے عرصے سے جانتے تھے۔وہ نہایت ایمان دار اور شریف انسان تھے۔ان کے توسط سے ہی ہم ان کی بیٹیوں کو جانتے ہیں۔میں ان کی بیٹیوں کی شادی میں بھی شامل ہوا تھا۔شاید آپ لوگوں نے مجھے ان کے گھر دیکھا ہو۔"
"جی ہم نے دیکھا تھا آپ کو شادی پہ....مہربانی کر کے اب آپ ہمیں یہ بھی بتا دیں نکاح کس دن اور کیسے ہوا تھا؟"احمد صاحب نے پوچھا۔
"ہم جس دن سانگلہ ہل سے واپس آنے لگے تھے اس دن کلثوم اور ہما ہمارے پاس آئیں تھیں۔ان دونوں نے ربیعہ کو ہمارے گھر کام کرنے کا کہا مگر مجھے یہ بچی اتنی پیاری لگی کہ میں نے اپنے بیٹے سے ربیعہ کا نکاح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
پھر ہم سب کی رضامندی سے کلثوم اور ہما نے ربیعہ کا نکاح شیراز سے کروا دیا۔
اس کے بعد ہم ربیعہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے.....بس یا کچھ اور بھی جاننا چاہتے ہیں آپ...؟"
بابا جان نے ربیعہ اور اس کی بہنوں کو بچانے کی خاطر جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے کام لیا۔کسی کی جان بچانے کے لیے جو جھوٹ بولا جائے وہ اس سچ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے جس سے کسی کی جان کو خطرہ ہو۔ 
"ٹھیک.....کلثوم یا ہما ہمیں اعتماد میں لے کر بھی تو یہ قدم اٹھا سکتی تھیں۔پھر انہوں نے ہم سے چھپایا کیوں؟"لیاقت نے پوچھا۔
"شاید اس کی وجہ وہ لڑکا ہے جس سے آپ زبردستی ربیعہ کی شادی کروانا چاہتے تھے۔"بڑے پاپا نے جواب دیا۔
"اب جب سب کچھ کلئیر ہو گیا ہے تو ہمارا یہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ابا ہمیں اب چلنا چاہیے۔"شرافت نے چلنے کا کہا۔
"آپ ربیعہ کے رشتے دار ہونے کے ناطے ہمارے لیے قابل احترام ہیں......ہمیں خوشی ہو گی اگر آپ آج یہاں رک جائیں تو۔"بابا جان نے ان سب کو رکنے کا کہا۔
"جی نہیں۔آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہمیں اپنا وقت دیا۔اب ہم چلتے ہیں۔"احمد صاحب نے کہا۔
پھر سب ان سے مل کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔وہ لوگ اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے ربیعہ سے ملنا بھی گوارا نا کیا اور چلے گئے۔
"کلثوم اور ہما بیٹا آپ دونوں نے ساری باتيں سن لی ناں؟"
ان کے جانے کے بعد بابا جان نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر ان سے پوچھا۔
"جی انکل ہم نے سب سن لیا ہے۔"
"اب یہ لوگ گھر پہنچ کر آپ دونوں سے یہ سب ضرور پوچھیں گے۔آپ نے اس بیان کو بدلنا نہیں ہے اب۔اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو بلاجھجھک مجھے فون کر کے بتانا۔میں خود ہی ٹھیک کر لونگا ان کو۔"
"انکل جی آپ نے اتنا بڑا احسان کیا ہے ہم یتیم بچیوں پر۔اللہ سائیں آپ کو سلامت رکھے۔آپ پر اللہ سائیں کی مہر رہے ۔ڈھیروں رحمتیں نازل ہوں آپ پر۔"دونوں بہنیں رو بھی رہی تھیں اور ان کے لیے ڈھیر ساری دعائيں بھی کر رہی تھیں۔
"بیٹا جی وسیلے اللہ بناتا ہے......کوئی انسان کسی کے لیے وسیلہ نہیں بنتا.......کسی کو کسی کا وسیلہ بنانے والی اللہ پاک کی ذات ہے......جسے چاہے جس کی سرپرستی عطا کر دیتا ہے.....جسے چاہتا ہے اس سے کسی کی سرپرستی, بادشاہی چھین لیتا ہے....بیٹا جی یہ سب اللہ پاک کے کام ہیں انسان خود کچھ نہیں کر سکتا.....اور آپ دونوں خود کو کبھی تنہا مت سمجھنا....مجھے اپنے باپ کی جگہ ہی سمجھو....مجھے ہمیشہ اپنے سر پر سایہ فگن پاؤ گی۔"
"انکل جی ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ جس سے ہم آپ کا شکریہ ادا کر سکیں......"
"شکریہ ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بیٹا جی۔آپ دونوں اپنا خیال رکھنا اور ربیعہ کی فکر مت کرنا وہ یہاں محفوظ ہے۔"
"جی انکل جی.....اللہ حافظ۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
جیسے ہی شیراز آفس کی بلڈنگ میں داخل ہوا ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آیا۔کوئی کمپيوٹر پر لگا ہے۔کوئی کسی کا فون اٹینڈ کر رہا ہے تو کوئی چائے کے خالی مگ اٹھائے کچن کی طرف جا رہا ہے۔ 
شیراز متناسب چال چلتا آفس کے دروازہ کی طرف بڑھتا ہے۔جیسے ہی وہ دروازہ کھولنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے ایسے میں ایک لڑکی ہاتھ میں ڈھیروں فائلز پکڑے آفس کے دروازے سے باہر کی طرف بڑھتی ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛




💕💕حصہ سوم💕💕
ہاتھ میں ڈھیروں فائلز پکڑے ہونے کے باعث اسے شیراز نظر نہیں آیا اور شیراز سے ٹکرانے کے باعث اس کی ساری فائلز نیچے گِر گئیں۔
"ایکسکیوزمی مسسز......اللہ نے یہ دو آنکھیں دیکھنے کے لیے دی ہیں یا ان کو صرف نمائش پہ رکھا ہے جو کچھ نظر نہیں آتا۔"
"آپ میری ساری فائلز نیچے گرا کر مجھے ہی ڈانٹ رہے ہو.....یہ کیا بات ہوئی بھلا.....اور اگر میں آپ کو نہیں دیکھ پائی تو ایٹ لیسٹ آپ تو دیکھ ہی سکتے تھے کہ کوئی دروازہ کھول کر باہر آ رہا ہے میں ہی سائیڈ پر ہو جاؤں۔"
"جب غلطی آپ کی ہے تو ڈانٹ بھی تو آپ کو ہی پڑے گی ناں....ان دو بڑی بڑی آنکھوں کو استعمال کر لیا کرو کہ یہ کام بھی میں ہی کروں۔"
"آپ نے کون سا کام کیا ہے.....؟"
"شاباش....بہت خوب.....آپ دونوں میاں بیوی کے لیے گھر کیا کم پڑ گیا تھا جو آج آفس میں بھی لڑنا شروع ہو گئے ہو۔"فراز نے ربیعہ اور شیراز کو لڑتے دیکھ کر ڈانٹا۔
"کون لڑ رہا ہے......میں تو اسے سمجھا رہا ہوں جسے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔"
"صحیح کہا تمہارے سوا میری بہن کو اور کچھ نظر آ بھی کیسے سکتا ہے.....اس کی آنکھوں پر تو تمہاری محبت کی پٹی بندھی ہے۔"
"یہ اور مجھ سے پیار کرے ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا.....ایمپوسیبل....میں نہیں مانتا۔"
"تو نا مانیں.....آپ سے منوا کون رہا ہے؟"
"تمہیں تو میں آج جاتے ہوئے ڈاکٹر کو چیک کروانے لے جاؤنگا....کہیں تمہاری نظر نا کمزور ہو گئی ہو۔"
"چپ کرو آپ دونوں.....اب باقی کا گھر جا کر لڑنا......اب جاؤ اپنا اپنا کام کرو۔"فراز کے ڈانٹنے پر وہ دونوں چلے گئے۔
ہائے اللہ یہ دونوں کتنا لڑتے ہیں......سیریئسلی سر کھا جاتے ہیں۔"
فراز بڑبڑاتا اپنے آفس کی طرف چلا گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شیراز نے پیپرز ہونے کے بعد یونیورسٹی کو خیر آباد کہہ کہ آفس جوائن کر لیا.....مگر.....شیراز اور ربیعہ تو ایسے نہیں تھے پھر یہ دونوں لڑتے کیوں ہیں....؟؟؟
ہممممم.......میرے خیال سے شادی کے بعد سے ان کی لڑائی شروع ہوئی ہے۔
کیا......ان کی شادی کب ہوئی؟؟؟؟
چلیے تھوڑا پیچھے چل کر دیکھتے ہیں......
🌹🌹نکاح کے بعد🌹🌹
عرینا کے ایگزامز ہو رہے تھے۔سارا سارا دن وہ گھر میں بند رہتی بلکہ اپنے کمرے میں مقید رہتی۔فراز سے آتے جاتے بات ہوتی تو وہ کالر اٹھا کر اسے کہتا۔
"ایم۔اے تھرڈ پوزیشن۔"عرینا کو چیلنج کرتا۔
"تھرڈ پوزیشن کہتے ہو تو لگتا ہے تھرڈ ڈویژن کہہ رہے ہو۔"
عرینا بڑبڑاتی۔
"عرینا میں بھی تمہارے پاس بیٹھ کے پیپرز کی تیاری کر لیا کروں؟"جب سے نکاح ہوا تھا پیپرز کے لیے آفس سے ربیعہ کو ایک مہینے کی چھٹی مل گئی تھی۔پھر پیپرز سے پہلے ایک دن ربیعہ نے عرینا سے کہا۔
"کیوں.....؟"
"کیونکہ فراز بھائی بھی ادھر ہوتے ہیں.....مجھے اگر کوئی مدد چاہیے ہو گی تو میں فراز بھائی سے لے لیا کرونگی۔"
"دیکھو ربیعہ فراز میرا ٹیچر ہے تو وہ میری مدد کریگا.....تم اپنے ٹیچر سے مدد طلب کرو۔"
"نہیں.....مم....مجھے نہیں جانا شیراز کے پاس۔"
"ویسے مجھے تمہاری بالکل سمجھ نہیں آتی....جب سے نکاح ہوا ہے تم شیراز بھائی سے ملنا تو دور کی بات ان کے سامنے تک نہیں گئی.....خیر تو ہے......کوئی جھگڑا ہوا ہے کیا بھائی سے؟"
"نہیں کوئی جھگڑا نہیں ہوا......عرینا مجھے ویسے ہی ان سے شرم آتی ہے۔"
"ہاہاہاہا.....چلو میں تمہیں بھائی کے پاس چھوڑ کے آتی ہوں۔"
"نہیں......عرینا مجھے نہیں جانا۔"
مگر وہ عرینا ہی کیا جو اپنی بات نا منوائے۔وہ زبردستی ربیعہ کو اس کی کتابیں پکڑا کر شیراز کے کمرے میں لے گئی۔شیراز اس وقت بیڈ پر اپنا لیپ ٹاپ کھولے بابا جان نے جو کام اسے سونپا تھا وہ کرنے میں مصروف تھا اس کے آس پاس فائلز بکھری پڑی تھیں جب عرینا ربیعہ کا ہاتھ پکڑے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"شیراز بھائی آپ کو کوئی اندازہ ہے۔آپ کی سٹوڈنٹ کے پیپرز ہونے والے ہیں۔اسے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔"
"جس کو میری ضرورت تھی مجھے آ کر بتاتی۔اب مجھے الہام تو نہیں ہونا تھا کہ کسی کو میری مدد چاہیے۔"شیراز نے گلاسسز اتارتے ربیعہ کو اپنی آنکھوں میں اتارتے جواب دیا۔
"ہاں یہ بھی درست فرمایا آپ نے...چلیں پھر سنبھالیں اپنی سٹوڈنٹ پلس مسسز کو۔"عرینا اسے چھوڑ کر چلے گئی۔
"آپ بیٹھنا پسند کرینگی مس.....سوری مسسز۔"شیراز شوخ سے لہجے میں کہہ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ربیعہ شرم کے مارے چپ کر کے بیڈ کے کونے میں سمٹ کر بیٹھ گئی۔
ربیعہ اتنی نروس ہو رہی تھی کہ کتاب الٹی کھول کر بیٹھ گئی۔شیراز کو دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی۔مگر ہنسی کو کنٹرول کرتا اس کی طرف دیکھنے لگا۔
"جی تو مس....سوری پھر مس بول گیا....مسسز شیراز میری کیا مدد چاہیے آپ کو۔"
"وہ.....مجھے.....انگلش کے نوٹس کی سمجھ نہیں آ رہی۔"ربیعہ نے نوٹس کے بجائے انگلش کی کتاب شیراز کے آگے کی....وہ بھی الٹی۔شیراز نے پہلے تو کتاب کو سیدھا کیا۔
"نوٹس اس بک میں ہے؟"
"آ......نہیں.....وہ...."ربیعہ اپنی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی مگر اسے نوٹس نہیں ملے.....ملتے بھی کیسے کمرے میں آتے وقت نوٹس دروازے کے پاس کارپٹ پر گرے پڑے تھے۔
"وہ رہے نوٹس۔"شیراز نے اشارے کرتے اسے بتایا۔
ربیعہ نوٹس پکڑ لائی۔شیراز اس کی حالت کو انجوائے کر رہا تھا مگر اس سے کوئی بات نا کی کہ کہیں بھاگ ہی نا جائے یہاں سے۔
"اوکے لاؤ میں سمجھاتا ہوں.....کدھر سے سمجھ نہیں آ رہی؟"
ربیعہ نے شیراز کو بتایا تو وہ اسے سمجھانے لگا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"یہ لو۔"عرینا اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی۔اس کا سب سے نان فیورٹ باٹنی کا پیپر تھا کہ اس کے سامنے فالودے کا باؤل آیا۔
"چلو تھوڑا ریلیکس کرو اعصاب کو۔" فراز نے اس کی بک پکڑ کر سائیڈ پر رکھی اور باؤل اس کے ہاتھ میں تھمایا۔
"واہ شہزادہ ہے فراز.....سچی اتنا دل کر رہا تھا کسی ٹھنڈی میٹھی چیز کو....تھینک یو۔"
"اب اسی میں گھنٹہ نا لگا دینا دس منٹ کافی ہوتے ہیں ریلیکس کرنے کو۔"
"جاب کیسی جا رہی ہے؟"عرینا نے سویاں کھینچتے پوچھا۔
"زبردست.....اب تو اور بھی مزہ آنے لگا ہے آفس جانے کا۔"فراز نے آنکھیں بند کر کے سحر ذدہ سا کہا۔فراز کی شرارتی رگ پھڑپھڑا رہی تھی اس لیے عرینا کو تھوڑا تنگ کرنے لگا۔عرینا نے مشکوک انداز میں اسے دیکھا۔
"اتنی زبردست کیوں ہے؟......اور اب کیسے مزہ آنے لگ پڑا ہے؟"
"بس کچھ مت پوچھو عرینا....مجھے لگتا ہے مجھے بہتری مل گئی ہے۔"
"ہیں.....کیا نام ہے اس بہتری کا؟"
"عرینا.....میں تمہیں ایسا لگتا ہوں؟"فراز نے آنکھیں مٹکا کر کہا۔
"تو پھر ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟"
"ارے بابا میرے کہنے کا مطلب.....مجھے پرموشن ملنے کے چانسسز نظر آ رہے ہیں...میں اس بہتری کی بات کر رہا ہوں..اور تم کیا سوچ رہی ہو.....اللہ توبہ تمہارے دماغ میں کتنا خناس بھرا ہوا ہے۔"
"کیا پتہ نظر آ گئی ہو کوئی بہتری....کوئی تمہاری فیلوز۔"
"ہاں ایک ہے تو سہی پر ابھی اس کے پیپرز ہو رہے ہیں۔"
"کیا.....تم گھوم پھر کر میرے پاس ہی کیوں آتے ہو؟"
"کیونکہ مجھے یہاں ستائش ملتی ہے۔"
"لو پکڑو ختم ہو گئی تمہاری ستائش.....اب مجھے پڑھنے دو۔"عرینا نے باؤل اس کے ہاتھ پر رکھا۔
"تیاری کیسی ہے؟"
"کوئی حال نہیں۔"
"اچھا ادھر آؤ تمہیں ٹیکنیکس بتاؤں باٹنی کی۔تصویریں یاد بھی ہو جائینگی اور بن بھی جائینگی۔"
پھر فراز کا لیکچر ختم ہوا تو عرینا بولی۔
"فراز تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔یہ تو بڑا آسان ہے۔میں پریکٹیکل کاپی بھی خود ہی بنا لیتی۔خواہ مخواہ تمہارا احسان لیا۔"
"کیا.....کیا کہا ہے.....احسان کیا ہے میں نے تم پر؟"فراز نے اس کا کان کھینچا۔
"نہیں نہیں احسان نہیں.....خدمت کی ہے تم نے میری۔تمہارا فرض تھا۔"وہ مچل کر بولی۔
"بکواس نہیں کرو....اور پڑھو بیٹھ کر۔"
"تھینک یو.....اور بہت بدتمیز ہو تم....کان لال کر دیا ہے ماسٹروں کی طرح کھینچا ہے۔"
"ویسے یہ بندی مجھے کبھی آسمان پر نہیں پہنچنے دیتی۔ذرا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی بدتمیز کا تمخہ بھی دے دیتی ہے۔"
"ظاہر ہے بندے کو اعتدال میں رہنا چاہیے۔"
"تمہارا اعتدال یہی ہے کہ عزت افزائی ٹکا کے کر کے پھر ذلیل کر دو۔"
"ایویں ہی اب مظلوم نا بنو تم.....ذلیل تو نہیں کیا خیر میں نے۔میں تو دل سے تمہاری عزت کرتی ہوں۔"
"کیا ہی اچھا ہو تم یہ دل والی عزت زبان سے بھی کرنے لگو۔"
"کرونگی دل کیوں چھوٹا کرتے ہو وقت تو آنے دو۔"
"کونسا....؟"
"جسے تم اپنی بیتری کہہ رہے تھے جب وہ آ جائے گی ناں تب میں تمہارے کان کھینچنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دونگی اور خود تمہاری عزت کرنے لگونگی۔"
"یعنی تم میری بیوی کے فرائض ادا کر رہی ہو؟"عرینا نے آگے سے سر ہلایا۔وہ مذید بولا۔
"یعنی تم ساری زندگی میری عزت نہیں کرو گی۔"
"ہیں......"عرینا کو پلے نا پڑا اور جب تک پڑا فراز فرار ہو چکا تھا۔وہ چلانے لگی مگر وہ تو تھا نہیں سو اس نے مسکرانے پر اکتفا کیا کہ بات کچھ کچھ اس کے دل کی تھی۔اپنا یہ معصوم سا شوخ سا اور پیارا سا تایا زاد اسے سچ مچ بڑا پیارا لگتا تھا کہ وہ کبھی کبھی اس رخ سے بھی سوچنے لگ جاتی تھی۔اور جب وہ مذاق میں بھی شادی کی بات کر جاتا تو وہ پہروں مسحور رہا کرتی۔فراز اس کی زندگی میں اس حد تک شامل ہو چکا تھا کہ اس سے دوری کا تصور بھی محال تھا اس کے لیے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"لو چپس کھاؤ۔"فراز نے لیز کا پیک عرینا کی طرف اچھالا اور باہر جانے کو پلٹا۔
فراز ایسا ہی تھا جب بھی عرینا کے پیپرز ہو رہے ہوتے۔اس کے کھانے پینے کا بڑا خیال رکھتا کہ عرینا کو پیپرز میں کھانے پینے کی ہوش ہی کہاں ہوتی تھی۔
"فراز مجھے آئس کریم کھانی ہے۔"وہ ہمیشہ ایسے ہی دھڑلے سے فرمائش کرتی تھی۔"فراز سے"
"مینگو؟"اس نے پلٹ کر پوچھا۔
"نہیں.....پستہ۔"وہ مزے سے بولی۔
"لاتا ہوں۔"

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

No comments:

Post a Comment