#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#از_قلم_علینہ
#قسط_نمبر_٨
💕💕حصہ اول💕💕
"اچھا ایسے کون سے سپنے ہیں تمہارے جنہیں تم پورا کرنا چاہتی ہو؟"
"ابھی بتانے کا وقت نہیں آیا۔جیسے ہی آئے گا سب سے پہلے میں تمہیں ہی بتاؤنگی۔"
"اوکے.....اب میرے سوال کا جواب دو۔"
"سوچ کے بتاؤنگی....فی الحال میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔"
فراز کچھ بھی کہے بخیر مڑ کر واپس جانے لگا۔
"کیا تمہیں میری آنکھیں کچھ نہیں کہتیں....جو مجھ سے پوچھ رہے ہو؟"
"سنو!!!!
مجھ سے نہیں ہوتا
دلیلیں دوں
مثالیں دوں
میری آنکھوں میں لکھا ہے
مجھے تم سے محبت ہے"
"آنکھیں تو بہت کچھ کہتی ہیں پر تمہاری زبان تمہاری آنکھوں کا ساتھ نہیں دیتی.....پوچھ سکتا ہوں ایسا کیوں؟"
"فراز پہلے تم مجھے یہ بتاؤ میرے ہاں یا نا کہنے سے کیا فرق پڑے گا تمہیں؟"
"دونوں صورتوں میں.......میں خاموش ہو جاؤنگا۔"
"خاموش کیوں؟"
"اگر تم نا کہو گی تو میں زبردستی تم پر اپنی محبت مسلط نہیں کر سکتا اس لیے خاموش ہو جاؤنگا۔اور اگر ہاں کہو گی تب بھی خاموش ہو جاؤنگا۔کیونکہ میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہا اور نا میں ٹین ایجر ہوں کہ تمہارے ہاں کہنے پر الٹی سیدھی حرکتیں کرنا شروع کر دونگا۔ہمارا تعلق جیسے پہلے تھا اب بھی ویسے ہی رہے گا۔ہاں اس کی نوعیت بدل جائے گی۔پہلے صرف دوستی تھی اب دوستی کے ساتھ محبت بھی شامل ہو جائے گی۔
میں صحیح وقت پر صحیح کام کرنے کا عادی ہوں۔جب وقت آئے گا میں خود سب سے ہمارے رشتے کے بارے میں بات کرونگا۔ابھی میں یہ سب بتا کر تمہیں اعتماد میں لینا چاہتا ہوں کہ کل کو اگر کوئی تم سے رشتے کے بارے میں بات کرے تو تم کم از کم میرے بارے میں ضرور سوچو۔
کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا کہ تم صرف میری ہو۔تمہارے سنگ ہی میری ساری خوشیاں ساری بہاریں ہیں۔عرینا میں تمہیں کبھی بھی کسی اور کے پاس جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔"فراز نے جذب سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے یقین دلایا۔جب کوئی اتنے پیار سے اپنی محبت کا یقین دلائے تو یقین تو آنا ہی تھا۔
"میں کسی اور کے پاس جانا بھی نہیں چاہتی۔"
عرینا کا اقرار سن کر دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔
چاند بھی ان کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
❤❤آرزو یہی ہے کہ تیرے ساتھ دیکھوں
دنیا کی نعمتیں اور جنت کی رحمتیں❤❤
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عرینا بیٹا آرام سے ناشتہ کرو۔کس بات کی جلدی ہے؟"
"امی فراز آفس جانے کے لیے گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔ مجھے پہلے ہی دیر ہو گئی ہے اگر میں ابھی نہیں گئی تو وہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا۔اللہ حافظ امی۔"
"في أمان اللهْ۔"
عرینا صبح دیر سے اٹھی تھی اس لیے جلدی جلدی تیار ہو کر تھوڑا بہت ناشتہ کر کے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
"بڑی جلدی اٹھ گئی ہو آج تو تم۔"
"طنز نہ کرو مجھ پر تیز گاڑی چلاؤ۔نہیں تو دیر ہو جائے گی مجھے۔"
"تو کس نے کہا تھا اتنی دیر تک سوتی رہو۔"
"تم نے۔"
"میں نے کب کہا جھوٹی۔ہر وقت جھوٹ ہی بولتی رہا کرو بس۔"
"میں جھوٹ نہیں بول رہی تمہاری باتوں نے ہی سونے نہیں دیا تھا مجھے۔"
"اب یہ بھی میرا ہی قصور ہے۔"
"اور نہیں تو کیا۔"
"اچھا چلو اترو پھر آ گیا ہے تمہارا کالج۔"
"فراز کیا آج تم واپسی پر مجھے لینے آ سکتے ہو؟"
"نہیں اس وقت بہت بزی ہوتا ہوں میں۔"
"اوکے فائن۔"عرینا گاڑی سے اتر کر کالج چلے گئی یہ فراز کی عادت تھی کہ جب تک تسلی نہ ہو جاتی کہ وہ کالج میں داخل ہو گئی ہے وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہتا۔ابھی بھی وہ کالج کے اندر گئی تو اس نے کار آگے بڑھا دی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز بھائی کیا بات ہے آج آپ بہت خوش خوش لگ رہے ہیں۔"
ربیعہ لنچ ٹائم فراز کے پاس ہی آ کر بیٹھ گئی۔کھانا کھاتے اس نے فراز کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو پوچھے بخیر نہ رہ سکی۔
"مجھے تین دن کے لیے آفس کے کسی کام کے لیے کراچی بھیجا جا رہا ہے۔عجیب اتفاق ہے میں خود بھی کراچی جانے کے لیے چھٹی لینے والا تھا۔دیکھو اب خود ہی مل گئی ہے۔"
"آپ نے کراچی کس لیے جانا تھا بھائی۔"
"کراچی میں پرسوں سے تین دن کے لیے آرٹ ایگزیبیشن کا انعقاد کیا گیا ہے۔جس میں اس بار میری پینٹینگز بھی نمائش میں لگائی جائیں گی۔"
"ارے واہ...... فراز بھائی آپ پینٹینگز بھی بناتے ہو۔میں بھی دیکھنا چاہونگی۔"
"ضرور دیکھ لینا.....تم مجھے یہ بتاؤ تمہارا آج کا دن کیسا گزر رہا ہے آفس میں۔"
"بہت اچھا فراز بھائی.....مجھے اس آفس کا ماحول بہت پسند آیا ہے مطلب سب اتنے اچھے ہیں۔"
"بی کیئیر فل کسی پہ بھی اتنی جلدی اعتبار مت کرنا۔کوئی نہیں پتہ ہوتا ہے کہ کون کیسا ہے یا اس کے دل میں کیا پایا جاتا ہے۔اور سب سے امپورٹنٹ بات کسی سے بھی اپنی پرسنلز نہیں شئیر کرنی۔اوکے۔"
"ٹھیک ہے فراز بھائی......ویسے مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ,بابا جان,بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا ہو نا میرے ساتھ۔"
"زندگی میں ایسا موڑ ضرور آتا ہے کہ جب انسان کو اتنے سارے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی تنہا رہنا پڑتا ہے۔تنہا فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔اپنے آپ کو مشکل سے خود باہر نکالنا پڑتا ہے۔سو خود کو کسی کا عادی مت بناؤ۔اور یہ جو تم بابا جان بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا کی بات کر رہی ہو یہ تینوں کام کے معاملے میں اچھے خاصے سخت ہیں۔"
"فراز بھائی میں اپنی پوری کوشش کرونگی کہ میں کسی کو بھی شکایت کا موقع نہ دوں۔دل لگا کر محنت کر کے سب کا دل جیت لوں۔"
"گڈ.....ربیعہ تم پڑھتی ہو کہ پڑھائی چھوڑ دی ہے؟"
"فراز بھائی لاسٹ ائیر میں ہوں....مجبوری کے باعث جاب کرنی پڑ ری ہے۔نہیں تو میرا تو ارادہ تھا کہ میں آگے پڑھوں۔"
"کوئی مسئلہ نہیں ہے تم شام کو شیراز کی اکیڈمی میں چلی جایا کرنا۔اس طرح تمہاری پڑھائی بھی جاری رہے گی۔اور جاب بھی کرتی رہنا۔"
"شیراز کون....؟"
"میرا بڑا بھائی ہے۔تم ملی نہیں اس سے۔"
"نہیں۔"
"ٹھیک ہے میں آج شام تمہیں اس کی اکیڈمی میں چھوڑ آؤنگا۔تب دیکھ لینا اسے۔"
"جی۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"مومنہ تم نے مجھے کبھی بتایا نہیں کہ تمہاری کہیں منگنی وغیرہ ہوئی ہے یا نہیں۔"عرینا اور مومنہ فری پیریڈ میں کلاس میں بیٹھی تھیں جب عرینا کو عاکف کی بات یاد آ گئی تو اس نے مومنہ سے پوچھا۔
"نہیں فی الحال تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ابھی میری بڑی آپی کی شادی ہونی ہے ان کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں گھر والے ان کے بعد میری باری آئے گی۔"
"تم لوگ کتنے بہن بھائی ہو؟"
"ہم ایک بھائی اور تین بہنیں ہیں۔"
"اچھا.....کس کس کی شادی ہو گئی ہے؟"
"سب سے بڑے بھائی کی اور ان سے چھوٹی آپی کی اکٹھی شادیاں ہوئیں تھیں۔اب ہم دونوں بہنیں رو گئی ہیں۔"
"مطلب تم دونوں کی بھی اکٹھی شادیاں ہونگی۔"
"پتہ نہیں۔"
"ہمممم......"
"تمہیں آج یہ سب پوچھنے کا خیال کہاں سے آ گیا؟"
"وہ........مومنہ تم نے میرے عاکف بھائی کو دیکھا تھا ناں کل؟"
"مجھے نہیں یاد شاید دیکھا ہو۔"
"ارے وہی جن کا تم کہہ رہی تھی کہ تمہارا بھائی مجھے گھور رہا ہے۔"
"ہاں آ گیا یاد.....تم نے پوچھا کیوں گھور رہے تھے محترم مجھے۔"
"ہاہاہاہا......ارے پگلی وہ تمہیں گھور نہیں رہے تھے تم ان کو اچھی لگی اس لیے وہ تمہیں دیکھ رہے تھے۔"
"کیا.....؟"
"جی ہاں.....اور اب تم تیار رہنا میں نے کسی دن اپنے گھر والوں کو لے کر تمہارے گھر چھاپا مارنا ہے۔اور پھر رشتہ لے کر ہی اٹھیں گے وہاں سے۔"
"عرینا تمہیں پتہ بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو۔"
"پتہ ہے تو کہہ رہی ہوں ناں سویٹی۔اب تم میری بھابھی بننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔"عرینا نے خوشی سے اس کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔
"ویسے تمہیں میرے بھائی اچھے تو لگے ناں؟"
"مجھے کیا پتہ کیسے ہیں۔مجھے گھور تو ایسے رہے تھے جیسے تھانیدار ملزم کو گھورتا ہے۔"
"ہاہاہا......میرے بھائی بہت اچھے ہیں تم خواہ مخواہ ان کے بارے میں غلط سوچ رہی ہو۔"
"اس بات کو چھوڑو اب۔جو ہو گا دیکھا جائے گا۔نیکسٹ پیریڈ کی بیل ہو گئی ہے۔کلاس میں دیر سے پہنچے تو میم سے ڈانٹ پڑ جائے گی۔"
"اوکے چلو۔"
؛؛؛؛؛؛
"فراز تم کتنے دن کراچی میں گزارو گے؟"فراز نے عرینا کو بتایا تو وہ اس سے پوچھنے لگی۔
"صبح جا رہا ہوں تین دن اور وہاں رہونگا چوتھے دن واپس آ جاؤنگا۔"
"تو پھر تم تین دن آفس کا کام کرو گے یا ایگزیبیشن میں جاؤ گے؟"
"آفس کے کام سے تو ایک میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے باقی چھٹی ہی سمجھو۔"
"فراز تم......"عرینا کچھ اور بھی کہنے لگی تھی جب کسی نے دروازے پر دستک دی۔وہ دونوں اس وقت فراز کے پینٹنگ روم تھے۔فراز اس سے باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ نمائش میں لگانے والی پینٹنگز بھی سیلیکٹ کر رہا تھا۔
"آجاؤ۔"فراز نے اجازت دی تو ربیعہ اندر آئی۔
"فراز بھائی....میں نے آپ دونوں کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟"ربیعہ کچھ اور بھی کہنے لگی تھی جب عرینا کو دیکھا تو پوچھنا ضروری سمجھا۔
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"فراز نے جواب دیا۔
"فراز بھائی آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے اپنی پینٹنگز دکھاؤ گے۔تو کیا اب میں آپ کی پینٹنگز دیکھ سکتی ہوں۔"
"جی ضرور دیکھ سکتی ہو۔بلکہ آؤ میں خود تمہیں دکھاتا ہوں۔"
"اوکے آپ لوگ پینٹنگز دیکھیں میں چلتی ہوں۔"
"عرینا تم بھی ادھر ٹھہر سکتی ہو۔تمہیں کسی نے یہاں سے جانے کا تو نہیں کہا۔"فراز کو اس کا ربیعہ کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ دیکھ برا لگا۔
"نہیں مجھے ایک کام ہے میں پھر آجاتی ہوں۔"
"آر یو شیور....؟"
"یس آف کورس۔"
"اوکے جلدی آنا۔"
"ٹھیک ہے۔"
عرینا کے جانے کے بعد فراز ربیعہ کو اپنی پینٹنگز دکھانے لگا۔
ربیعہ تو فراز کی پینٹنگز دیکھ دیکھ کر اپنی عادت کے مطابق ان میں کھو سی گئی۔
"فراز بھائی آپ تو سچ میں بہت اچھی پینٹنگز بناتے ہو۔مجھے تو ساری ہی بہت اچھی لگی ہیں۔سب ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت ہیں۔"
ربیعہ فراز کی پینٹنگز دیکھ کر کھلے دل سے تعریف کر رہی تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ دوم💕💕
عرینا کو اچانک یاد آیا تھا کہ اس نے عاکف بھائی کو اپنے مطالبات کی لسٹ بنا کر دینی ہے۔
"اس سے پہلے کہ عاکف بھائی آ جائیں میں اپنی لسٹ بنا لیتی ہوں۔"
یہی سوچ کر وہ اپنے کمرے میں آ کر رائٹنگ ٹیبل پر نوٹ پیڈ رکھ کر بیٹھ گئی۔قلم پکڑ تو لیا تھا مگر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب لکھے کیا۔
بہت سوچ بچار کے بعد اس نے لکھنا شروع کیا۔
"میری پہلی مانگ یہ ہے کہ........"
جیسے جیسے وہ لکھتی جا رہی تھی اس کے چہرے پر کبھی شرارت تو کبھی خوشی کے تاثرات واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔
جب وہ اپنے سارے مطالبات لکھ چکی تو اٹھ کر فراز کے کمرے کی طرف چلی گئی۔
"فراز ربیعہ چلے گئی؟"عرینا نے کمرے میں آ کر دیکھا فراز اکیلا ہی تھا تو اس نے ربیعہ کے متعلق پوچھا۔
"ہاں وہ چلے گئی ہے پینٹنگز دیکھ کر۔"
"پھر کیسی لگی اسے تمہاری پینٹنگز؟"
"وہ تو بہت خوش ہو رہی تھی میری پینٹنگز دیکھ دیکھ کر۔بلکہ ایک دو جگہ مجھے بتا کر بھی گئی کہ اس چیز کو اگر آپ ایسے کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔مجھے لگتا ہے اسے بھی آرٹ میں دلچسپی ہے۔"
"اچھا یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔چلو کوئی تو تمہارے جیسا نکلا۔"
"ویسے یہ کام تم بھی کر سکتی تھی۔اگر تم تھوڑی سی توجہ دیتی میری پینٹنگز پر۔"
"اہاں.....پھر کل سے میں بھی تمہارے ساتھ پینٹنگز بنایا کرونگی۔"
"جی نہیں شکریہ۔ابھی تم صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔پیپرز ہونے والے ہیں تمہارے۔"
"اچھا.....فراز تم وہ سرخ اور گلابی گلابوں والی تصویر لے کر جا رہے ہو؟"
"ہاں کیوں؟"
"وہ سیل نہ کرنا میں اپنے کمرے میں لگاؤنگی۔"
"اچھا تم رکھ لو۔"فراز ہنس پڑا۔
"فراز تم کون کون سی پینٹنگز لے کر جا رہے ہو؟"
"وہ صحرا والی,ساحل کی ریت والی اور......اوئے میرا شاہکار تو دے دو واپس کر دونگا آ کر۔"
"کون سی؟"
"وہی تمہارا پوٹریٹ دیٹس مائی ماسٹر پیس۔"
"نہیں میں نہیں دے رہی۔وہ میرا گفٹ ہے میں کیوں اسے سیل کرنے کے لیے تمہیں دوں؟"
"سیل نہیں کرونگا۔بس ایگزیبیشن پر لگاؤنگا۔"
"نہیں میں نے نہیں دینا......فراز اس بار مجھے بھی ساتھ لے چلو۔"اسے ایک دم خیال آیا۔
"کیا؟"فراز نے تعجب سے اسے دیکھا۔
"میں نے کبھی کراچی بھی نہیں دیکھا۔"
فراز کچھ دیر مسکرا کر اسے دیکھتا رہا پھر بولا:"ٹھیک ہے بابا جان سے پوچھ لو۔"
"اوکے میں ابھی پوچھ کر آتی ہوں۔"عرینا یہ کہہ کر جھٹ سے بابا جان کے کمرے کی طرف گئی۔
فراز اس کی تیزی دیکھ کر مسکرانے لگا:"پاگل لڑکی بھلا اس کو کس نے میرے ساتھ اکیلے جانے دینا ہے۔"
عرینا نے بابا جان کے کمرے پر دستک دی۔
"بابا جان میں آجاؤں؟"
"آؤ بیٹا جی آجاؤ۔"عرینا آ کر ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔اس وقت اس کمرے میں بابا جان کے علاوہ چھوٹے پاپا بھی موجود تھے۔وہ عرینا اور شیروان کے رشتے کے بارے میں بابا جان سے مشورہ کرنے آئے تھے کہ عرینا بھی آ گئی۔
"جی بیٹا کہو۔"
"وہ......وہ بابا جان....وہ میں.....میں فراز کے ساتھ چلی جاؤں؟"
"کہاں؟"
"کراچی۔"
"کیا.....وہ کراچی کس لیے جا رہا ہے؟"
"بھائی صاحب آفس کی میٹنگ کے سلسلے میں اسے کراچی بھیج رہے ہیں ہم۔"عرینا کی بجائے چھوٹے پاپا نے جواب دیا۔
"اچھا ٹھیک.....بیٹا جی وہ تو کام کے سلسلے میں ادھر جا رہا ہے۔آپ نے کیا کرنا ہے وہاں جا کر؟"
"بابا جان وہ.....میں کبھی گھر سے نکلی ہوں۔گھر سے کالج اور کالج سے گھر....اس طرح میں بھی کراچی دیکھ لونگی۔"
"مگر بیٹا جی آپ کا فراز کے ساتھ اکیلے جانا معیوب لگے گا۔"
"اس میں کیا معیوبیت ہے ہم دونوں تو بچپن سے دوست ہیں۔"
"اور اب آپ بچے نہیں ہو۔"
"بابا جان میں نے کبھی آپ سے کوئی فرمائش نہیں کی۔آپ میری سالگرہ تک بھول جاتے ہیں۔میں نے کبھی کچھ نہیں کہا پر اب مجھے جانا ہے۔"
"کیا ضد کر رہی ہے اب یہ؟"رخسانہ بیگم اندر آئیں تو بولیں۔
"تم ہی سمجھاؤ اسے کہہ رہی ہے فراز کے ساتھ کراچی جانا ہے۔"
"عرینا!........ارے وہاں تو شیروان کی پوسٹنگ ہوئی ہے۔شبانہ آپا بھی اس کے پاس گئی ہوئی ہیں۔میں شبانہ آپا کو فون کر دیتی ہوں وہ تمہیں پک کر لے گا۔پھر تم ادھر رہ سکتی ہو.....آپ کیا کہتے ہیں بھائی صاحب؟"
"ہاں یہ ہو سکتا ہے۔"حسان صاحب نے بھی تائید کی۔
"ہاں ہاں ہو سکتا ہے۔مجھے کوئی شوق نہیں آپ کے اس DSP بھانجے کی سڑی ہوئی شکل دیکھنے کا۔ہر کسی کو مشکوک مجرم سمجھنے لگتا ہے۔اور پھر میں کیوں کسی غیر کے ساتھ جاؤنگی بھلا مجھے تو فراز پر ہی اعتبار ہے اور مجھے اسی کے ساتھ جانا ہے۔"وہ بات منوانے پر آتی تو ہر شرط اپنی منواتی۔
"چلو تم دونوں کی رہائش کا بندوبست کر دے گا۔ٹھیک ہے تم پیکنگ کرو۔"
"تھینک یو....اور اسے کہہ دیجیے گا میں اس کے گھر میں نہیں رہونگی۔"
عرینا نے احسان جتاتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور ایک حکم تما جاری کر کے باہر آ گئی۔پھر فراز کے کمرے میں گئی۔
"جی جناب کیا بنا؟"فراز نے بیگ میں اپنے کپڑے ڈالتے پوچھا۔
مل گئی ہے اجازت نا والی کون سی بات تھی بھلا۔"عرینا اٹھلا کر بولی۔
"اچھا مبارک ہو۔چلو جا کر پیکنگ کرو۔تمہیں کراچی اپنی نظروں سے دکھاؤنگا۔"
فراز نے بیگ کی زپ بند کی۔عرینا نے اسے غور سے دیکھا جو اب جا کر بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔
عرینا اس کے پاس نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
یو نو واٹ فراز.....تم اس دنیا کے سب سے اچھے مرد ہو۔"
فراز مزے سے مسکرایا:"اچھا.....چلو اب مکھن نہیں لگاؤ مجھے جا کر پیکنگ کرو۔"
"آئی مین ایٹ فراز تم بہت.....بہت اچھے ہو۔"
"ساتھ لے کر جا تو رہا ہوں پھر ایویں ہی.....چلو کل جانا ہے لیٹ ہوئی تو چھوڑ جاؤنگا پھر یہی سب سے اچھا فراز بھوت اور جن ہو جائے گا۔چلو اٹھو۔"
"تمہیں اندازہ نہیں ہے تم میرے لیے کیا ہو۔"وہ اس قدر سنجیدہ تھی کہ یقین آ ہی گیا۔
"چلو جا کر پیکنگ کرو۔"
عرینا نے گہرا سانس لیا اور اٹھ گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ربیعہ کمرے میں بیڈ پر اپنی کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی۔وہ آج کے حسین دن کے بارے میں سوچنے لگی۔کتابیں تو سامنے کھلی تھیں پر دھیان کی روح کہیں اور ہی بھٹک رہی تھی۔
آج ہی اس نے اپنا سامان سرونٹ کواٹر میں شفٹ کیا تھا۔آفس سے آنے کے بعد اس نے اپنے سارے سامان کو سیٹ کر کے رکھا تھا۔
ابھی اس کی سیٹنگ مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب فراز نے اسے اپنے ساتھ شیراز کی اکیڈمی جانے کا کہا۔وہ جلدی سے اپنی کتابیں پکڑ کر چادر لے کر فراز کے ساتھ چلے گئی۔
"ربیعہ آج میں تمہیں چھوڑنے جا رہا ہوں کل سے تمہیں ڈرائيور چھوڑ آیا کرے گا۔واپسی پر شیراز کے ساتھ ہی آ جایا کرنا۔"
"جی فراز بھائی۔"
"تمہیں بالکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔میرا بھائی بالکل میرے جیسا ہی ہے۔تم اس پہ بھی اعتبار کر سکتی ہو۔ٹھیک ہے؟"فراز نے اسے نروس دیکھ کر تسلی دی۔
"نہیں فراز بھائی میں پریشان تو نہیں ہوں۔میں تو بس یہ سوچ رہی تھی کہ میں آپ سب پر بوجھ بن گئی ہوں۔"
"بہن بھائی پر کبھی بوجھ نہیں بنتی۔پگلی ایسی بات دوبارہ مت کرنا۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"
"جی میں سمجھ گئی فراز بھائی۔"
"چلو آجاؤ اترو نیچے اکیڈمی آ گئی ہے۔"
پھر وہ دونوں اتر کر اکیڈمی کے اندر چلے گئے۔
"سنو....شیراز کہاں ہے اس وقت؟"فراز نے کسی سٹوڈنٹ سے شیراز کا پوچھا۔
"سر اس وقت کلاس لے رہے ہیں۔"
"اوکے......تم ان کو جا کر کہو کہ آپ کو آپ کا بھائی فراز بلا رہا ہے۔آفس میں بیٹھا ہے۔"
"جی ٹھیک ہے۔"سٹوڈنٹ چل گیا تو فراز ربیعہ کو ساتھ لے کر آفس میں بیٹھ گیا۔
"تم یہی بیٹھو میں دیکھ کر آتا ہوں شیراز کو۔"
دس پندرہ منٹ گزرنے کے بعد بھی جب شیراز نہیں آیا تو فراز خود اٹھ کر باہر چلا گیا اسے دیکھنے کے لیے۔
وہ باہر نکلا ہی تھا کہ سامنے سے اسے شیراز آتا نظر آ گیا۔وہ دونوں وہیں کھڑے ہو کر باتیں کر رہے تھے جب ربیعہ نے باہر کی طرف دیکھا۔
پھر جو اسے نظر آیا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
وہ اٹھ کر گلاس ڈور کے پاس کھڑی ہو کر یقین کرنے لگی کہ جو وہ دیکھ رہی ہے وہ سچ ہے یا نظروں کا دھوکہ۔
پر وہ دھوکہ نہیں اک اٹل حقیقت تھی جسے وہ دیکھ رہی تھی۔
جسے دیکھنے کے لیے اس کی نظریں ناجانے کہاں کہاں بھٹکتی رہی تھیں وہ آج خود ہی اس کے سامنے آ گیا تھا۔
جیسے ہی شیراز اور فراز دروازے کے پاس آئے ربیعہ اپنے آپ کو سنبھالتی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔
"السلام علیکم۔"شیراز نے اندر آ کر سلام لیا۔جس کا جواب ربیعہ نے آہستہ آواز میں دیا۔وہ شیراز کی طرف دیکھنے سے گریز پا تھی۔
اس کے بعد شیراز نے اس سے اس کے سبجیکٹ وغیرہ کے متعلق پوچھا۔جس کا جواب وہ غیر حاضر دماغ سے دیتی رہی۔
"ٹھیک ہے مس ربیعہ آپ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو آپ کی کلاس میں چھوڑ آتا ہوں۔"
ربیعہ اور شیراز اٹھ کر کلاس کی طرف چلے گئے۔شیراز اسے اس کی کلاس میں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔مگر ربیعہ کی نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں۔
اپنی کلاسسز اٹینڈ کرنے کے بعد وہ شیراز کے ساتھ ہی واپس آئی۔مگر اس دوران ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی کہ شیراز ویسے ہی کم گو تھا۔
ربیعہ کا دل تو کر رہا تھا کہ وہ اسے بتائے کہ آپ ایک دفعہ ہمارے کالج آئے تھے۔ہمیں لیکچر بھی دیا تھا۔
مگر اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی سو خاموشی سے بیک سیٹ پر بیٹھی باہر دیکھتی رہی۔جیسے ہی گھر آیا اسی خاموشی سے اتر کر اپنے کمرے میں چلے گئی۔
وہ کافی دیر بیٹھی شیراز کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔اس کی سوچوں کا ارتکاز تب ٹوٹا جب کسی نے دروازے پر دستک دی۔اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
"بی بی جی چھوٹی بی بی آپ کو کھانے پر بلا رہی ہیں۔"
"اوکے چلو۔"
ربیعہ نے اس کے ساتھ آ کر کھانا کھایا اس کے بعد وہ فراز کے کمرے میں اس کی پینٹنگز دیکھنے چلی گئی۔
اب وہاں سے واپس آ کر وہ اپنے پسندیدہ مشغلے میں گم تھی۔
یعنی کہ کسی چیز میں کھو سی جانا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ سوم💕💕
"عرینا۔"
ائیر پورٹ پر فراز اور عرینا اپنا سامان لے کر نکل رہے تھے کہ اسے پکارا گیا۔دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔اپنی پولیس کی وردی میں کالی عینک لگائے شیروان چند اور سپاہیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔عرینا نے فراز کے تاثرات دیکھے کہ شاید اسے برا لگا ہو مگر وہ بڑھ کر اس سے ملنے چل پڑا۔عرینا بھی پیچھے گئی۔فراز اس سے مل چکا تھا۔عرینا نے دھیما سا سلام کیا۔
"ارے مجھے تو یاد ہی نہیں تھا کہ تم یہاں اپوائنٹ ہو۔سو گڈ ٹو سی یو یار۔اچھے لگ رہے ہو۔"فراز نے خوش لی سے اس کی تعریف کی۔
"تھینکس۔"شیروان کا رخ فراز کی طرف مگر نگاہیں عرینا کی طرف تھیں۔مگر وہ اہمیت نہیں دے رہی تھی۔
"چلیں عرینا.....آنٹی نے کہا تھا تم تین دن میرے ساتھ رہو گی۔"فراز کی ساری باتوں کو بلکہ اس کی موجودگی کو نظر انداز کر کے بولا تو عرینا نے اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھا۔
"ابھی ہم کسی اور طرف جا رہے ہیں۔آپ سے پھر ملیں گے۔چلو چلیں فراز۔"عرینا کو گھر ہی پتہ چل گیا تھا کہ شبانہ آنٹی واپس چلے گئی ہیں اس لیے اس نے شیروان کے ساتھ جانے سے سہولت سے منع کر دیا۔
"کہاں جانا ہے؟"وہ گویا تفتیش کرنے لگ گیا۔
"وہ میری بکنگ ہوئی ہے۔"فراز نے جواب دیا۔
"کہاں ٹھہرے ہو؟"
فراز نے اسے کراچی کے مشہور ہوٹل کا نام بتایا۔
"ٹھیک ہے میں چھوڑ آتا ہوں تم دونوں کو پھر تم میرے ساتھ چلی جانا۔"
"جی نہیں شکریہ ہماری تینوں دن کی دونوں کی بکنگ ہوئی ہے۔"وہ کہہ کر آگے بڑھی۔
"عرینا۔"شیروان نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"بھئی ناراضگی ہے مجھ سے۔چلو کم از کم میں چھوڑ ہی آتا ہوں۔میں بھی تو فراز کی طرح تمہارا کزن ہوں۔"
عرینا نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور فراز کے قریب ہو گئی۔
"چلیں۔"وہ اب بھی عرینا سے ہی مخاطب تھا۔عرینا نے فراز کا بازو تھام لیا۔فراز کو بھی شیروان کی اس حرکت پہ غصہ آرہا تھا۔اس نے گردن موڑ کر عرینا کی طرف دیکھا۔گرے چادر کے حالے میں اس کی آنکھوں سے ٹھوڑی تک چہرہ نظر آ رہا تھا۔عرینا نے فراز کو دیکھا۔
"چلیں میرے خیال سے۔"فراز نے بڑے ضبط سے یہ الفاظ کہے۔عرینا اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔شیروان کی جھنڈے والی گاڑی آگے با وردی ڈرائيور ساتھ وہ خود بیٹھا پیچھے وہ دونوں۔ساتھ ایک پولیس کی وین مسلح سپاہیوں والی ساتھ آنے لگی۔
ہوٹل پہنچ کر سامان لابی میں رکھا گیا وہاں سے کمرے میں پہنچ گیا۔DSP شیروان کے رشتے دار آئے تھے سو ہوٹل انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی۔شیروان ان کو چھوڑ کر خود چلا گیا۔
"یہ تمہارا کمرہ ہے۔یہ ساتھ میرا ہے۔"فراز نے بتایا۔
اس کا موڈ اب خراب ہو چکا تھا۔عرینا کو رہ رہ کر شیروان پر غصہ آ رہا تھا۔
"آرام کر لو شام کو چائے پر ملتے ہیں۔"فراز کہہ کر چلا گیا اور دروازہ بھی بند ہو گیا۔عرینا بھی پلٹی اور اپنے کمرے میں آ گئی۔
یہاں کم از کم فراز کی شان و شوکت نظر آتی تھی کہ یہ ہوٹل کمرہ اور اس کی بکنگ فراز نے کروائی تھی۔بڑے سے کمرے کے شاندار بستر والے بیڈ پر بیٹھی تو سرہانے پڑا سفید رنگ کا ٹیلیفون بول پڑا۔عرینا نے اٹھایا تو مینیجر بولا۔
"میم,ڈو یو نیڈ اینی تھنگ؟"
"ناتھنگ......اینڈ ڈونٹ کال می اگین۔"
عرینا فون رکھ کر اٹھی اور باہر آ کر فراز کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
"یس۔"اندر سے اتنی ہی آواز آئی۔عرینا دروازہ کھول کر اندر گئی۔فراز فون پر بات کر رہا تھا۔اور ہوٹل کا ایڈریس بتا رہا تھا۔فون رکھ کر وہ پلٹا۔
"کیا بات ہے تم آرام کرو ناں چل کر۔"
"اتنا بڑا کمرہ اور میں وہاں اکیلی۔مجھے نیند نہیں آ رہی۔"
عرینا اس کے برابر آ کھڑی ہوئی۔
"آئی کین انڈرسٹینڈ.....لیکن پرابلم یہ ہے کہ اب ہم بچے نہیں ہیں کہ ایک کمرے میں رہ سکیں تو دو تین دن کو تمہیں اکیلے رہنا بڑے گا۔"
عرینا نے بے چارگی سے منہ بنایا۔
"اب میں کیا کر سکتا ہوں۔پہلے ہی سرکومنٹینسس پر سوچ کر آنا تھا۔اب آ گئے ہیں تو کمپرومائز کرو۔اور ویسے بھی سیر سپاٹے میں بڑا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔اوکے۔چلو تمہیں کمرے میں چھوڑ آؤں۔اب میں اتنا کر سکتا ہوں کہ جب تک تم سو نہیں جاتی میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں۔ٹھیک ہے؟"
عرینا نے ہاں میں سر ہلایا۔فراز اسے اس کے کمرے میں لے آیا۔اسے زبردستی بستر میں گھسایا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ سو گئی تو فراز اٹھ کر آیا۔دروازے کا ناب اندر سے لاک کر کے باہر آیا تو دروازہ بند ہو گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
عرینا کی آنکھ کھلی تو چھے بج رہے تھے۔مغرب کی اذان بھی ہونے والی تھی۔عرینا اٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر آئی۔پھر آ کر فراز کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو سمجھی سو رہا ہو گا۔آخری بار کا سوچ کر بجایا تو کوئی ویٹر گزرتے ہوئے بولا۔
"میم سر باہر گئے ہیں۔"
"جی.....اوکے تھینکس۔"عرینا کو حیرت ہوئی سن کر وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ساتھ ہی اذان ہونے لگی وہ نماز پڑھ کر بیٹھ گئی مگر باہر اب تک کوئی آواز نہ آئی۔
سوا آٹھ ہو گئے تھے۔اندھیرا پھیل چکا تھا۔وہ اٹھ کر ٹیلیفون کے پاس بیٹھی اور ریسیپشن پر نمبر ملایا۔
"ایکسکیوزمی,ڈائل می آ نمبر پلیز.....03"
عرینا نے فراز کا نمبر ملوایا۔فراز نے فون ریسیو کیا تو ریسیپشن نے بتایا:سر میم عرینا بات کرینگی۔"
"اوئے۔"فراز کو اب گھڑی کا خیال آیا۔عرینا نے پوچھا:
"فراز کدھر ہو؟"وہ بہت پریشانی میں تھی۔
"آ رہا ہوں۔تم اٹھ گئی۔کچھ کھایا ہے؟"
"تم واپس آؤ پلیز۔"
"آ رہا ہوں۔"فراز نے فون بند کر دیا۔
فراز کچھ ہی دیر میں واپس آ گیا۔اپنے کمرے میں جانے کے بجائے اس نے عرینا کے کمرے کا دروازہ کھولا۔لاک کھولا ہی تھا۔فراز نے ہلکا سا کھٹکھٹا کر دروازہ دھکیلا۔
"عرینا۔"وہ بیڈ پر سر جھکائےبیٹھی تھی۔فراز کی آواز پر وہ چونکی اور اٹھ کر اس سے لپٹ گئی اور بھپک بھپک کر رونے لگی۔فراز ایک دم بوکھلا گیا۔
"کدھر گئے تھے بدتمیز۔یہ کوئی طریقہ ہے مجھے یہاں لا کر اکیلا چھوڑ دیا ہے۔واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔تم چلو واپس بابا جان کو بتاؤنگی بدتمیز ناں ہو تو۔"عرینا روتے ہوئے گلے بھی کر رہی تھی۔جن کو فراز خوش دلی سے قبول کر رہا تھا۔
"اچھا بابا سوری.....واقعی دیر ہو گئی وہ میں آرٹ گیلری چلا گیا تھا وہاں پینٹنگز سیٹ کرتے پتہ ہی نہیں چلا ٹائم کا۔سوری۔کھانا کھایا ہے؟"
"دفع ہو جاؤ۔کھانا کھایا ہے پرواہ تھی نہیں اب احسان چڑھا رہے ہو۔"عرینا اب بھی اس کے نہایت قریب تھی کہ وہ بوکھلا رہا تھا دوسرا وہ رو رہی تھی۔فراز نے اسے الگ کر کے اس کے آنسو پونچھے۔
"اوکے سوری یار۔عادت نہیں ہے ناں۔ہمیشہ اکیلے آتا ہوں جتنی مرضی دیر جہاں مرضی لگاتا ہوں۔تو یاد ہی نہیں رہا۔"
"ہیں.....فراز تم....تم بھول ہی گئے۔بات مت کرو مجھ سے۔"
"نہیں نہیں نہیں,میرا مطلب وہ.....عرینا وہ میرا مطلب تھا....."
"کوئی مطلب نہیں تھا تمہارا۔جاؤ یہاں سے۔میرا ہی دماغ خراب تھا جو اتنی دور تم پر اعتبار کر کے تمہارے ساتھ آ گئی مجھے پتہ ہوتا تم اتنے آرام سے بھول جاؤ گے کہ کوئی مرنی چڑیل عرینا ساتھ آئی ہے تو کبھی تمہارے ساتھ نہ آتی وہی مری رہتی۔"
"عرینا۔۔"
"مر گئی عرینا۔"
"اے چندا ایسے نہیں کہتے۔چلو جانے دو ناں۔"
"کیا جانے دوں تم جاؤ اپنی تصویریں اپنے شاہکاروں کی نمائش میں پزیرائی حاصل کرو مجھے مرنے دو یہاں۔آئی ایم سوری۔میں نے ساتھ آ کر تمہاری روٹین خراب کی۔"
عرینا نے ہاتھ جوڑے اور پھر سے رونے لگی فراز نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔عرینا کے گلے شکوؤں سے کوفت ہوئی اسے مگر وہ حق بجانب تھی۔دوسرا فراز تھا ہی ٹھنڈے مزاج کا۔جن باتوں پر کوئی:"بکواس بند کرو یا بد تمیزی نہیں کرو:کہہ سکتا تھا وہاں فراز کہا کرتا تھا۔اوکے یار۔سوری واقعی میری غلطی ہے۔"
مگر اب اس کا رونا زیادہ ہو رہا تھا اور فراز سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔سو وہ سوچتے ہوئے اس پوائنٹ پر آیا اسے ہنسایا کیسے جائے۔
"عرینا ویسے تم روتی ہوئی بڑی......بھیانک لگتی ہو:چپ کر جاؤ ڈر لگ رہا ہے۔"
"فراز۔"کوئی اور وقت ہوتا تو عرینا جھپٹ پڑی مگر اب وہ رو پڑی تھی۔فراز نے زبان دانتوں میں دبائی۔
"عرینا یار کیا ہو گیا ہے۔"اسے اب کچھ اور بات لگنے لگی تھی۔
"تمہیں کیا لگے؟"
"کون آیا تھامیرے پیچھے؟"اس نے مشکوک انداز میں پوچھا تو عرینا ہڑبڑائی:"عرینا کون آیا تھا؟"اس کا لہجہ گمبیر تھا۔
عرینا پزل ہو کر نظریں چرا رہی تھی وہ خود ہی بھانپ کر بولا:
"شیروان؟"
عرینا نے ایک دم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا وہ اس کے اندازے پر حیران تھی۔
"آیا تھا وہ؟"عرینا نے سر اوپر نیچے کر دیا۔
"تو یار کیا ہو گیا۔عرینا گرو اپ ناؤ۔جیسے میں تمہارا کزن ہوں ویسے وہ بھی ہے۔اگر وہ تم سے ملنے آ گیا تو کیا غضب ہو گیا۔تم میرے ساتھ بھی تو اس کمرے میں اکیلی ہو۔میں نے تمہیں اتنا ڈر پوک تو نہیں بنایا کہ تم اپنے اس کزن سے ڈرنے لگو جس سے ملتی بھی نہیں ہو اور آنسو بہانے لگی ہو کہ آیا کیوں۔کیا کہا ہے اس نے تمہیں؟"فراز چڑ گیا تھا۔
"کچھ بھی نہیں۔میں نیچے لاؤنج میں ملی تھی۔بس سلام کے بعد آ گئی۔فراز مجھے اس ہوٹل میں نہیں رہنا۔
آئی ڈونٹ وانٹ ٹو سیی ہیم اگین۔"
"عرینا! تمہیں پرابلم کیا ہے اس سے؟"
"وہ......وہ.....وہ مجھے بہت برا لگتا ہے۔"
"کیوں؟"اب اس نے تحمل سے پوچھا۔
کیونکہ سب گھر والے اسے تم سے سوپیریر سمجھتے ہیں اور میرے نزدیک......."
"فراز دنیا کا سب سے اچھا مرد ہے۔جو کہ تمہاری بے وقوفی ہے۔"
"فراز میری پسند جیسی بھی ہے۔آئی ایم پراؤڈ ٹو یو۔"
"پسند.......تم مجھے.....پسند کرتی ہو؟"فراز اب شریر ہونے لگا۔
"اچھا تو مجھ سے شادی کروگی؟"
"فراز....."وہ ایک دم لپکی۔فراز بھی ہنس پڑا مگر عرینا کی آنکھوں میں اترنے والا رنگ فراز بھی بھانپ گیا۔
"چلو آؤ کھانا کھا کر آتے ہیں۔چلو مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے۔"
عرینا اس کے ساتھ نیچے آئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
No comments:
Post a Comment