#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_١٥
💕💕آخری قسط_حصہ اول💕💕
دو تین بعد عرینا نے یونيورسٹی جانا شروع کر دیا۔
ڈرائيور کی طبیعت ایک دن خراب ہو گئی۔عرینا نے فراز سے کہا تو پھر وہی ایشو۔مگر آج عرینا کا موڈ اوف تھا جو فراز کے علم میں نہیں تھا۔
"میرا بھائی ہوتا تو کتنا سکون ہوتا۔"عرینا نے بے بسی سے کہا۔
"اور ہماری جان چھٹتی عذاب سے۔"فراز نے مذاق میں کہا مگر عرینا نے اسے کسی اور رخ میں لیا۔
"ہاں۔"اس نے حیرت سے فراز کو دیکھا۔
"آ رہا ہوں۔"وہ کہہ کر چابی لینے گیا۔مگر عرینا انتظار کیے بغر خود ہی پیدل چلنے لگی۔عرینا کے اس رویے کی وجہ رات کو آیا عرینا کی خالہ شبانہ بیگم کا فون تھا۔جس میں انہوں نے برملا بابا جان سے کہا تھا۔
"بھائی صاحب لڑکی آپ کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔اسے جتنی جلدی ہو لگامیں ڈالیں....ہے تو یہ میری ہی میرے حوالے کر دیں۔"
انداز ایسا تھا بابا جان کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
"جی عرینا سے بات کر لوں پھر گھر والوں سے بات کرنی ہے پھر بتاتا ہوں میں آپ کو۔"
یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔
"عرینا کی خالہ تو بالکل اس کی امی جیسی نہیں ہے۔"۔وہ خود سے سوچنے لگے۔
ابھی صبح صبح ہی بڑی امی نے اسے اس کی خالہ کی باتیں بتائيں تھیں جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہو گئی۔
انہی خیالوں میں چلی جا رہی تھی کہ فراز نے اس کے پاس لا کر گاڑی روک دی اور فورا نکل کر اس کے سامنے آیا۔
"فراز پلیز ترس مت کھانا مجھ پہ۔"وہ اس کے بولنے سے پہلے ہی کہہ گئی۔
"سوری یار.....مجھے نہیں پتہ تھا تمہارا موڈ خراب ہے...ورنہ میری تو یہ روز کی بک بک ہے۔"وہ معذرت کر رہا تھا۔عرینا اگنور کر کے آگے بڑھی۔فراز اس کے سامنے آیا اور اپنے کان پکڑ لیے۔
"سوری......نہیں....اوکے یہ..."فراز اس کے سامنے سٹ اپ کرنے لگا۔
"فراز سٹاپ اٹ۔"
"معاف کر دو۔"عرینا کے بے بسی کے تاثرات دیکھ کر فراز نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔عرینا بیٹھ گئی۔مگر سارا رستہ دونوں نے کوئی بات نا کی۔
واپسی پر بھی فراز ہی اسے لینے آیا مگر اب بھی عرینا نے کوئی بات نا کی۔
گھر پہنچ کر فراز نے عرینا سے کہا۔
"عرینا ربیعہ کی طبیعت تھوڑی خراب ہے ذرا تم پوچھ لو اس کو۔"
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور عرینا کپڑے بدل کر ربیعہ کے کمرے میں آ گئی۔
"عرینا تمہيں پتہ ہے کل تمہاری خالہ کا فون آیا تھا۔وہ تمہارا جواب چاہتے ہیں بابا جان.....تم نے شیروان کو....آئی مین کیسا ہے وہ؟"
"پتہ نہیں۔"
"عرینا ہمیں جواب دینا ہے۔"
"میرے پاس جواب نہیں ہے......وہ کہتا ہے عورت پہل کرتی اچھا نہیں کرتی۔"
"وہ.....تو ہو سکتا ہے پہل ہو چکی ہو....تم رکی ہو۔"
"جی...."
"میرا مطلب....اگر تمہیں شیروان پسند ہے تو...."
"مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے بدتمیز,بد لحاظ,راشی..."
"تو عرینا کہہ دو.....وہ کئی بار کہہ چکا ہے....پہل ہو چکی ہے۔وہ مذاق نہیں تھا۔عرینا اب فیصلے کا وقت ہے اور وہ تمہیں اتنا سٹرونگ سمجھتا ہے کہ تمہارے انکار کا انتظار کر رہا ہے.....ٹھیک ہے تم بڑی خوبصورت ہو پر پھر بھی چلو گی مجھے اپنی....."
"ربیعہ پلیز۔"عرینا آگے سے شرما گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شام کو عرینا اپنے کمرے میں سر پکڑ کر بیٹھی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے۔
سوچتے سوچتے اسے احساس ہوا کہ آج اس کی ماں ہوتی تو شیروان کے چلن,حرا کی زبان اور بہن کے تیور دیکھ کر خود ہی انکار کر دیتیں یا وہ آسانی سے گلہ کر کے انکار کر دیتیں۔مگر اب کس سے کہے....بابا جان سے۔
"بابا جان مجھے شیروان نہیں فراز پسند ہے میری اس سے شادی کروا دیں۔ہو ہی نہیں سکتا۔میں بابا جان کے سامنے یہ سب کیسے کہونگی۔"
اس کے آنسو بہنے لگے اور اسے پتہ ہی نہیں چلا۔
"عرینا چلو آؤ....اوئے تمہیں کیا ہوا ہے؟"فراز اس کے کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا۔عرینا نے اپنے آنسو پونچھے۔وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
"کچھ نہیں امی ابو یاد آ گئے تھے۔"
"پتہ ہے عرینا تم نے پہلی بار سچی وجہ بتائی ہے۔"
"پہلی بار تو نہیں۔"
"اچھا اٹھو آئس کریم کھا کر آتے ہیں۔"
"اتنی سردی میں؟"
"جی اتنی سردی میں ہی....جلدی اٹھو ورنہ وہ نکل جائے گا اسے لے کر۔"
"کون کسے لے کر؟"
"عابر عریشہ کو لے کر....اٹھو۔"
"اچھا حلیہ تو ٹھیک کر لوں۔"
"او سوہنے لوگوں کے حلیے ٹھیک ہی ہوتے ہیں۔"فراز نے لاڈ سے کہا۔
"تو پھر تم تو حلیہ ٹھیک کر لو۔"
"میرا حلیہ.....عرینا۔"فراز چونکا تو عرینا ہنسنے لگی۔
"تمہارے چہرے پر ہنسی بڑی پیاری لگتی ہے عرینا مسکراتی رہا کرو....رویا نا کرو۔"
"فراز امی ابو کے بعد صرف تمہاری وجہ سے روئی ہوں۔"
"اچھا سوری....تم بھی تو میری بیوقوفیوں کی عادی نہیں ہوتی....چلو چلیں۔"
فراز اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی کے پاس لے آیا۔
فراز ڈرائيو کر رہا تھا عابر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔جبکہ وہ دونوں بہنیں پیچھے بیٹھ گئیں۔
ادھر آ کر انہوں نے آئس کریم مقابلہ کیا۔
"بیمار ہوئی تو پھر دیکھنا۔"عرینا نے تڑی لگائی۔
سب مزے سے بیٹھے اوپن پلیس میں آئس کریم کھا رہے تھے۔
کہ بارش شروع ہو گئی۔
"ہیں بارش۔"عرینا نے کہا۔
بارش اک دم تیز ہو گئی۔
"چلو گاڑی کی طرف...میں سب کے لیے آئس کریم لے آؤں۔"فراز اٹھ گیا۔عرینا بھی دوڑی۔عریشہ اپنی ماڈرن سی گرے اسٹک پکڑ رہی تھی جب عابر بولا۔
"اٹھا لوں؟"مگر عریشہ کے جواب سے پہلے ہی وہ اسے اپنے بازو پر اٹھا کر گاڑی کی طرف چلنے لگا۔
عریشہ کچھ بول ہی نا پائی۔
تینوں گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔
"عریشہ عاطف شادی کر رہا ہے۔"عابر نے پلٹ کر سنس پھیلائی۔
"ہیں...."عرینا نے حیران ہوتے پوچھا۔
"افففف عابر کی اک اور سنسی۔"عریشہ اکتا کر بولی۔
"سچ کہہ رہا ہوں...کرنل بشیر صاحب اپنی بیٹی کے ساتھ عاطف کی شادی کرنا چاہتے ہیں عاطف تو پاگل ہوا جا رہا ہے...پتہ نہیں گھر بتاتا بھی ہے یا نہیں۔"
"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے کہ گھر بتانے سے کوئی پرابلم ہو گی....گھر والوں کو بتا کر ہی کرینگے شادی۔"عریشہ نے اختلاف کیا۔"آپ اپنی بات کریں۔آپ کے ارادے کچھ ایسے ہونگے۔عاطف بھائی تو بڑے شریف ہیں۔"
"ہیں....عرینا آپی دیکھو میری بستی کر رہی ہے یہ۔ویسے عریشہ تم سے عزت کروانے کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا۔کتنا بڑا فوجی بن جاؤں؟"وہ مظلومیت سے بولا تو دونوں ہنس پڑیں۔فراز آ کر گاڑی میں بیٹھا۔
"عرینا آپی پوچھو اس سے کب کرے گی میری عزت۔"
"ہیں.....تجھے عزت کروانے کا کیا شوق ہے بھئی۔"فراز بولا۔
"یار آرمی آفیسر ہو گیا ہوں۔بی۔اے پاس لڑکا ہوں....."
"ہاں ویسے یہ اچھی بات ہے عرینا سے چار سال چھوٹا ہو کر تو بی۔اے کر چکا ہے۔"فراز نے گاڑی اسٹارٹ کرتے اس کا جھوٹ پکڑا۔
"فراز بھائی سال چھوٹا ڈکلئیر کر کے میرا چانس نا مارو۔"
"عابر۔"تینوں اکٹھے بولے تو عابر خاموش ہو گیا۔
"اچھا تجھے عزت کروانی ہے نا ایک مشورہ ہے میرے پاس۔"فراز نے کہا۔
"سچی بتاؤ۔"
"بتاتا ہوں ٹھہر جا۔"
"فراز بھائی پلیز نو مور کونسپریسی اگینسٹ می۔"عریشہ نے اعتراض کیا۔
"ایٹ شور وانٹ بی۔"
عرینا بیک ویو مرر میں نظر آتی فراز کی آنکھیں دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں فیصلہ کر رہی تھی کہ اسے بابا جان سے کیا کہنا ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
گھر آ کر آئس کریم کی محفل جمی۔
"پھر عرینا بیٹا آپ کا کیا فیصلہ ہے؟"بابا جان ادھر بیٹھے ہی پوچھا۔
"ویسے بابا جان آئی اوبجیکٹ....یہ کیا بات ہوئی دو ہماری کزنز ہیں جن میں ایک شیرنی ہے وہ بھی خاندان سے باہر.....بچپن سے ہم ان کے ساتھ ہیں تو پہلا حق ہمارا بنتا ہے....میرے خیال سے دونوں کو اسی گھر میں رہنا چاہیے۔"عابر نے اپنی رائے تمام گھوریوں کے باوجود دے دی۔
"ہاں دل تو میرا بھی کرتا مگر اس کی مرضی.....ویسے عرینا کے حان کے ہیں بھی عریشہ کے لیے کون ہے؟"بابا جان نے پوچھا۔
"ہیں.....ایک تو میں اس گھر میں کسی کو نظر ہی نہیں آتا۔"پورا گھر وہاں موجود تھا حتی کہ عریشہ بھی مگر عابر کہہ گیا۔کچھ دیر سب خاموش رہے پھر بابا جان بولے۔
"اچھا اچھا تم لوگ جاؤ یہاں سے اب....اپنے کام کرو....مجھے عرینا سے بات کرنی ہے۔"سب اٹھ کر چلے گئے۔سوائے عرینا بابا جان اور بڑے ابو کے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز۔"وہ لان میں پھر رہا تھا کہ عرینا نے پکارا۔
"ہوں۔"جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
"تمہارے لیے بڑی اچھی خبر ہے۔"
"کیا؟"
"پہلے وعدہ کرو پسند آئی تو آئس کریم کھلاؤ گے؟"
"بولو۔"
"تم انٹرسٹ لو تو پھر بتاؤں۔"
"میرے انٹرسٹ کی کیا ہے۔"وہ بے زاری سے بولا۔
"پتہ نہیں.....پر پسند آئی تو آئس کریم کھلاؤ گے؟"
"ٹھیک ہے۔"
"میں نے شیروان کے لیے انکار کر دیا ہے۔"
"کیا؟"
"انکار۔"
"کس سے؟"
"شادی سے۔"
"کیوں؟"
"کیوں.....بدھو ہو تم بھی۔"اسے سوال پسند نہیں آیا تو کوفت سے پلٹی۔مگر فراز نے روک لیا اسے اپنے قریب کر کے بولا۔
"اتنا بھی بدھو نہیں....آئس کریم کھانے چلیں؟"
"اب تو ڈنر لونگی.....کینڈل لائٹ....سیٹرڈے نائٹ۔"عرینا اٹھلا کر بولی اور وہاں سے چلی آئی۔
"یس...."فراز کے نعرے کی آواز آئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عابر دیکھو اب تو اپنی پسند بتا دو....گھر کے سب لڑکوں کی شادیاں ہو گئی ہیں.....بس تم رہ گئے ہو۔"
"صرف میں تو نہیں عریشہ بھی تو ہے۔"
"عابر.....اچھا بتاؤ.....پکی بات ہے تمہیں کوئی پسند ہے اس لیے ابھی تک چپ پھر رہے ہو؟"
گھر میں چھے بھابھیاں اور ساتویں عریشہ تھی اس نے بھی اب بی۔اے کر لیا تھا۔سب کو اب عابر کی شادی کی فکر تھی کہ اب کیپٹن ہو گیا ہے۔
شیراز کی شادی تو ربیعہ سے ہو گئی تھی۔اب ان کے دو بچے تھے ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔
عاطف کی شادی بنت کرنل شمع سے ہوئی تھی۔
عاکف کی شادی عرینا کی بیسٹ فرینڈ مومنہ سے ہو گئی تھی۔
نواز کی شادی اس کی خالہ کی سب سے چھوٹی بیٹی آیت فاطمہ کے ساتھ ہوئی تھی۔
عامر کی شادی شہرزاد سے ہوئی تھی۔
عاطر کی شادی فراز کی پنڈی والی خالہ کی بیٹی رومیسہ سے ہوئی تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕آخری قسط_حصہ اول💕💕
دو تین بعد عرینا نے یونيورسٹی جانا شروع کر دیا۔
ڈرائيور کی طبیعت ایک دن خراب ہو گئی۔عرینا نے فراز سے کہا تو پھر وہی ایشو۔مگر آج عرینا کا موڈ اوف تھا جو فراز کے علم میں نہیں تھا۔
"میرا بھائی ہوتا تو کتنا سکون ہوتا۔"عرینا نے بے بسی سے کہا۔
"اور ہماری جان چھٹتی عذاب سے۔"فراز نے مذاق میں کہا مگر عرینا نے اسے کسی اور رخ میں لیا۔
"ہاں۔"اس نے حیرت سے فراز کو دیکھا۔
"آ رہا ہوں۔"وہ کہہ کر چابی لینے گیا۔مگر عرینا انتظار کیے بغر خود ہی پیدل چلنے لگی۔عرینا کے اس رویے کی وجہ رات کو آیا عرینا کی خالہ شبانہ بیگم کا فون تھا۔جس میں انہوں نے برملا بابا جان سے کہا تھا۔
"بھائی صاحب لڑکی آپ کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔اسے جتنی جلدی ہو لگامیں ڈالیں....ہے تو یہ میری ہی میرے حوالے کر دیں۔"
انداز ایسا تھا بابا جان کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
"جی عرینا سے بات کر لوں پھر گھر والوں سے بات کرنی ہے پھر بتاتا ہوں میں آپ کو۔"
یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔
"عرینا کی خالہ تو بالکل اس کی امی جیسی نہیں ہے۔"۔وہ خود سے سوچنے لگے۔
ابھی صبح صبح ہی بڑی امی نے اسے اس کی خالہ کی باتیں بتائيں تھیں جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہو گئی۔
انہی خیالوں میں چلی جا رہی تھی کہ فراز نے اس کے پاس لا کر گاڑی روک دی اور فورا نکل کر اس کے سامنے آیا۔
"فراز پلیز ترس مت کھانا مجھ پہ۔"وہ اس کے بولنے سے پہلے ہی کہہ گئی۔
"سوری یار.....مجھے نہیں پتہ تھا تمہارا موڈ خراب ہے...ورنہ میری تو یہ روز کی بک بک ہے۔"وہ معذرت کر رہا تھا۔عرینا اگنور کر کے آگے بڑھی۔فراز اس کے سامنے آیا اور اپنے کان پکڑ لیے۔
"سوری......نہیں....اوکے یہ..."فراز اس کے سامنے سٹ اپ کرنے لگا۔
"فراز سٹاپ اٹ۔"
"معاف کر دو۔"عرینا کے بے بسی کے تاثرات دیکھ کر فراز نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔عرینا بیٹھ گئی۔مگر سارا رستہ دونوں نے کوئی بات نا کی۔
واپسی پر بھی فراز ہی اسے لینے آیا مگر اب بھی عرینا نے کوئی بات نا کی۔
گھر پہنچ کر فراز نے عرینا سے کہا۔
"عرینا ربیعہ کی طبیعت تھوڑی خراب ہے ذرا تم پوچھ لو اس کو۔"
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور عرینا کپڑے بدل کر ربیعہ کے کمرے میں آ گئی۔
"عرینا تمہيں پتہ ہے کل تمہاری خالہ کا فون آیا تھا۔وہ تمہارا جواب چاہتے ہیں بابا جان.....تم نے شیروان کو....آئی مین کیسا ہے وہ؟"
"پتہ نہیں۔"
"عرینا ہمیں جواب دینا ہے۔"
"میرے پاس جواب نہیں ہے......وہ کہتا ہے عورت پہل کرتی اچھا نہیں کرتی۔"
"وہ.....تو ہو سکتا ہے پہل ہو چکی ہو....تم رکی ہو۔"
"جی...."
"میرا مطلب....اگر تمہیں شیروان پسند ہے تو...."
"مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے بدتمیز,بد لحاظ,راشی..."
"تو عرینا کہہ دو.....وہ کئی بار کہہ چکا ہے....پہل ہو چکی ہے۔وہ مذاق نہیں تھا۔عرینا اب فیصلے کا وقت ہے اور وہ تمہیں اتنا سٹرونگ سمجھتا ہے کہ تمہارے انکار کا انتظار کر رہا ہے.....ٹھیک ہے تم بڑی خوبصورت ہو پر پھر بھی چلو گی مجھے اپنی....."
"ربیعہ پلیز۔"عرینا آگے سے شرما گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شام کو عرینا اپنے کمرے میں سر پکڑ کر بیٹھی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے۔
سوچتے سوچتے اسے احساس ہوا کہ آج اس کی ماں ہوتی تو شیروان کے چلن,حرا کی زبان اور بہن کے تیور دیکھ کر خود ہی انکار کر دیتیں یا وہ آسانی سے گلہ کر کے انکار کر دیتیں۔مگر اب کس سے کہے....بابا جان سے۔
"بابا جان مجھے شیروان نہیں فراز پسند ہے میری اس سے شادی کروا دیں۔ہو ہی نہیں سکتا۔میں بابا جان کے سامنے یہ سب کیسے کہونگی۔"
اس کے آنسو بہنے لگے اور اسے پتہ ہی نہیں چلا۔
"عرینا چلو آؤ....اوئے تمہیں کیا ہوا ہے؟"فراز اس کے کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا۔عرینا نے اپنے آنسو پونچھے۔وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
"کچھ نہیں امی ابو یاد آ گئے تھے۔"
"پتہ ہے عرینا تم نے پہلی بار سچی وجہ بتائی ہے۔"
"پہلی بار تو نہیں۔"
"اچھا اٹھو آئس کریم کھا کر آتے ہیں۔"
"اتنی سردی میں؟"
"جی اتنی سردی میں ہی....جلدی اٹھو ورنہ وہ نکل جائے گا اسے لے کر۔"
"کون کسے لے کر؟"
"عابر عریشہ کو لے کر....اٹھو۔"
"اچھا حلیہ تو ٹھیک کر لوں۔"
"او سوہنے لوگوں کے حلیے ٹھیک ہی ہوتے ہیں۔"فراز نے لاڈ سے کہا۔
"تو پھر تم تو حلیہ ٹھیک کر لو۔"
"میرا حلیہ.....عرینا۔"فراز چونکا تو عرینا ہنسنے لگی۔
"تمہارے چہرے پر ہنسی بڑی پیاری لگتی ہے عرینا مسکراتی رہا کرو....رویا نا کرو۔"
"فراز امی ابو کے بعد صرف تمہاری وجہ سے روئی ہوں۔"
"اچھا سوری....تم بھی تو میری بیوقوفیوں کی عادی نہیں ہوتی....چلو چلیں۔"
فراز اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی کے پاس لے آیا۔
فراز ڈرائيو کر رہا تھا عابر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔جبکہ وہ دونوں بہنیں پیچھے بیٹھ گئیں۔
ادھر آ کر انہوں نے آئس کریم مقابلہ کیا۔
"بیمار ہوئی تو پھر دیکھنا۔"عرینا نے تڑی لگائی۔
سب مزے سے بیٹھے اوپن پلیس میں آئس کریم کھا رہے تھے۔
کہ بارش شروع ہو گئی۔
"ہیں بارش۔"عرینا نے کہا۔
بارش اک دم تیز ہو گئی۔
"چلو گاڑی کی طرف...میں سب کے لیے آئس کریم لے آؤں۔"فراز اٹھ گیا۔عرینا بھی دوڑی۔عریشہ اپنی ماڈرن سی گرے اسٹک پکڑ رہی تھی جب عابر بولا۔
"اٹھا لوں؟"مگر عریشہ کے جواب سے پہلے ہی وہ اسے اپنے بازو پر اٹھا کر گاڑی کی طرف چلنے لگا۔
عریشہ کچھ بول ہی نا پائی۔
تینوں گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔
"عریشہ عاطف شادی کر رہا ہے۔"عابر نے پلٹ کر سنس پھیلائی۔
"ہیں...."عرینا نے حیران ہوتے پوچھا۔
"افففف عابر کی اک اور سنسی۔"عریشہ اکتا کر بولی۔
"سچ کہہ رہا ہوں...کرنل بشیر صاحب اپنی بیٹی کے ساتھ عاطف کی شادی کرنا چاہتے ہیں عاطف تو پاگل ہوا جا رہا ہے...پتہ نہیں گھر بتاتا بھی ہے یا نہیں۔"
"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے کہ گھر بتانے سے کوئی پرابلم ہو گی....گھر والوں کو بتا کر ہی کرینگے شادی۔"عریشہ نے اختلاف کیا۔"آپ اپنی بات کریں۔آپ کے ارادے کچھ ایسے ہونگے۔عاطف بھائی تو بڑے شریف ہیں۔"
"ہیں....عرینا آپی دیکھو میری بستی کر رہی ہے یہ۔ویسے عریشہ تم سے عزت کروانے کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا۔کتنا بڑا فوجی بن جاؤں؟"وہ مظلومیت سے بولا تو دونوں ہنس پڑیں۔فراز آ کر گاڑی میں بیٹھا۔
"عرینا آپی پوچھو اس سے کب کرے گی میری عزت۔"
"ہیں.....تجھے عزت کروانے کا کیا شوق ہے بھئی۔"فراز بولا۔
"یار آرمی آفیسر ہو گیا ہوں۔بی۔اے پاس لڑکا ہوں....."
"ہاں ویسے یہ اچھی بات ہے عرینا سے چار سال چھوٹا ہو کر تو بی۔اے کر چکا ہے۔"فراز نے گاڑی اسٹارٹ کرتے اس کا جھوٹ پکڑا۔
"فراز بھائی سال چھوٹا ڈکلئیر کر کے میرا چانس نا مارو۔"
"عابر۔"تینوں اکٹھے بولے تو عابر خاموش ہو گیا۔
"اچھا تجھے عزت کروانی ہے نا ایک مشورہ ہے میرے پاس۔"فراز نے کہا۔
"سچی بتاؤ۔"
"بتاتا ہوں ٹھہر جا۔"
"فراز بھائی پلیز نو مور کونسپریسی اگینسٹ می۔"عریشہ نے اعتراض کیا۔
"ایٹ شور وانٹ بی۔"
عرینا بیک ویو مرر میں نظر آتی فراز کی آنکھیں دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں فیصلہ کر رہی تھی کہ اسے بابا جان سے کیا کہنا ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
گھر آ کر آئس کریم کی محفل جمی۔
"پھر عرینا بیٹا آپ کا کیا فیصلہ ہے؟"بابا جان ادھر بیٹھے ہی پوچھا۔
"ویسے بابا جان آئی اوبجیکٹ....یہ کیا بات ہوئی دو ہماری کزنز ہیں جن میں ایک شیرنی ہے وہ بھی خاندان سے باہر.....بچپن سے ہم ان کے ساتھ ہیں تو پہلا حق ہمارا بنتا ہے....میرے خیال سے دونوں کو اسی گھر میں رہنا چاہیے۔"عابر نے اپنی رائے تمام گھوریوں کے باوجود دے دی۔
"ہاں دل تو میرا بھی کرتا مگر اس کی مرضی.....ویسے عرینا کے حان کے ہیں بھی عریشہ کے لیے کون ہے؟"بابا جان نے پوچھا۔
"ہیں.....ایک تو میں اس گھر میں کسی کو نظر ہی نہیں آتا۔"پورا گھر وہاں موجود تھا حتی کہ عریشہ بھی مگر عابر کہہ گیا۔کچھ دیر سب خاموش رہے پھر بابا جان بولے۔
"اچھا اچھا تم لوگ جاؤ یہاں سے اب....اپنے کام کرو....مجھے عرینا سے بات کرنی ہے۔"سب اٹھ کر چلے گئے۔سوائے عرینا بابا جان اور بڑے ابو کے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز۔"وہ لان میں پھر رہا تھا کہ عرینا نے پکارا۔
"ہوں۔"جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
"تمہارے لیے بڑی اچھی خبر ہے۔"
"کیا؟"
"پہلے وعدہ کرو پسند آئی تو آئس کریم کھلاؤ گے؟"
"بولو۔"
"تم انٹرسٹ لو تو پھر بتاؤں۔"
"میرے انٹرسٹ کی کیا ہے۔"وہ بے زاری سے بولا۔
"پتہ نہیں.....پر پسند آئی تو آئس کریم کھلاؤ گے؟"
"ٹھیک ہے۔"
"میں نے شیروان کے لیے انکار کر دیا ہے۔"
"کیا؟"
"انکار۔"
"کس سے؟"
"شادی سے۔"
"کیوں؟"
"کیوں.....بدھو ہو تم بھی۔"اسے سوال پسند نہیں آیا تو کوفت سے پلٹی۔مگر فراز نے روک لیا اسے اپنے قریب کر کے بولا۔
"اتنا بھی بدھو نہیں....آئس کریم کھانے چلیں؟"
"اب تو ڈنر لونگی.....کینڈل لائٹ....سیٹرڈے نائٹ۔"عرینا اٹھلا کر بولی اور وہاں سے چلی آئی۔
"یس...."فراز کے نعرے کی آواز آئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عابر دیکھو اب تو اپنی پسند بتا دو....گھر کے سب لڑکوں کی شادیاں ہو گئی ہیں.....بس تم رہ گئے ہو۔"
"صرف میں تو نہیں عریشہ بھی تو ہے۔"
"عابر.....اچھا بتاؤ.....پکی بات ہے تمہیں کوئی پسند ہے اس لیے ابھی تک چپ پھر رہے ہو؟"
گھر میں چھے بھابھیاں اور ساتویں عریشہ تھی اس نے بھی اب بی۔اے کر لیا تھا۔سب کو اب عابر کی شادی کی فکر تھی کہ اب کیپٹن ہو گیا ہے۔
شیراز کی شادی تو ربیعہ سے ہو گئی تھی۔اب ان کے دو بچے تھے ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔
عاطف کی شادی بنت کرنل شمع سے ہوئی تھی۔
عاکف کی شادی عرینا کی بیسٹ فرینڈ مومنہ سے ہو گئی تھی۔
نواز کی شادی اس کی خالہ کی سب سے چھوٹی بیٹی آیت فاطمہ کے ساتھ ہوئی تھی۔
عامر کی شادی شہرزاد سے ہوئی تھی۔
عاطر کی شادی فراز کی پنڈی والی خالہ کی بیٹی رومیسہ سے ہوئی تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
No comments:
Post a Comment