Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena||Episode14

#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_١٤
💕💕سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ_حصہ اول💕💕
"عرینا تمہاری خالہ آئیں ہیں خالہ شبانہ۔"عرینا یونيورسٹی سے آئی تو ربیعہ نے اسے بتایا۔
ربیعہ نے اب آفس جانا چھوڑ دیا تھا اب گھر میں ہی بڑی امی کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹھاتی تھی۔اور جس دن عرینا کو چھٹی ہوتی وہ بھی ربیعہ کے ساتھ لگ کر کھانا بناتی۔
"اچھا.....کدھر ہیں؟"
"ادھر۔"ربیعہ نے کمرے کی طرف اشارے کرتے بتایا۔
وہ کمرے میں گئی ان کے ساتھ حنا اور حرا بھی آئیں تھیں۔بڑے تپاک سے وہ ملیں مگر تپاک کچھ روٹین سے زیادہ تھا۔کوئی خاص بات تو نہ ہوئی اس کے ساتھ۔بس وہ سب بابا جان اور بڑے پاپا کے پاس بیٹھی رہیں۔پھر عریشہ کو بھی بلایا گیا۔
عرینا کو دیکھ کر حیرت اور الجھن ہو رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔جو اسے بھی نہیں بتایا جا رہا۔
شام کو شیروان بھی آ گیا۔عرینا نے اس سے سلام لیا۔
"السلام علیکم شیروان بھائی۔"وہ بجائے جواب دینے کے عرینا کو غور سے دیکھ کر مسکرایا اور اندر چلے گیا۔
عرینا کافی دیر اس کی نظروں میں الجھی رہی۔
پھر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔لیٹے لیٹے اسے پتہ ہی نا چلا کب اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئی۔
پھر وہ لوگ کب واپس گئے عرینا کو علم ہی نا ہوا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز مجھے یونيورسٹی چھوڑ کر آؤ۔"وہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا جب عرینا نیچے کھڑی چلا رہی تھی۔
"یا وحشت......تمہارا ڈرائيور کہاں ہے؟"فراز نے نیچے آتے پوچھا۔
"گاؤں گیا ہوا ہے خود ہی تو بھیجا تھا......جائيں جی میں چھوڑ آؤں گا......فکر نا کریں۔"عرینا نے اسے یاد دلایا۔
"ابھی ساڑھے آٹھ ہوئے ہیں اتنی صبح صبح.....نو ساڑھے نو کلاس ہونی ہے۔"
"تو ایک گھنٹہ تمہیں تیار ہونے میں لگنا ہے لڑکیوں سے زیادہ ٹائم لگاتے ہو۔"
"تم.....لوکل چلی جاؤ۔آج چھٹی کی ہے تو مجھے آرام کر لینے دو۔"
"ہاں ہاں جان چھڑا رہے ہو....آٹھ لڑکوں کے ہوتے میں ویگینوں میں دھکے کھاتی پھیروں یہی خدا نے مجھے بھائی دیا ہوتا تو اتنی منتیں تو نا کرنی پڑتیں مجھے۔"وہ روٹھ گئی۔
"آ رہا ہوں پانچ منٹ میں۔"وہ مسکرا کر بولا اور اوپر چلا گیا۔
"یہ شرٹ استری کرو۔" اس نے شرٹ عرینا پر پھینکی۔جو سیدھی اس کے منہ پر آ کر لگی۔
"نشانہ بھی پکا ہے بدتمیز کا۔"
وہ بڑبڑا کر استری کرنے چلے گئی۔
ربیعہ کچن کی کھڑکی سے یہ دیکھ کر مسکرانے لگی۔اس کے لیے یہ منظر نیا تھا۔اتوار کو وہ فراز اور عرینا کے جھگڑے تو دیکھتی تھی پر یہ ناٹک بازی نئی تھی۔ویسے عرینا کی دوستی تو سب سے تھی مگر یہ لاڈ صرف فراز کے ساتھ دیکھے تھے۔
جب وہ ان کے ساتھ رہنے لگی تو آہستہ آہستہ اسے پتہ چلا کہ اس گھر میں سب کی ہی اپنی جگہ اتھارٹی ہے۔ہر کسی کی رائے مقدم ہے کسی سے کوئی بات منوانا ہو تو ڈائریکٹ اسی سے کہو ورنہ وہ کہے گا میں ڈریکولہ ہوں مجھ سے ڈر لگتا ہے کہتے ہوئے۔
مگر اس قانون سے فراز اور عرینا مبرا تھے۔فراز گھر پر اگر کسی سے بات کرتا تھا تو وہ عرینا تھی۔باقیوں سے بس ضرورت کے وقت بات کرتا تھا۔سو اگر فراز سے بات کرنی اور منوانی ہو تو عرینا کا سہارا لو اور اگر عرینا سے بات منوانی ہے تو فراز کے دروازے پر دستک دو۔
"کیا بات ہے بڑا مسکرایا جا رہا ہے؟"شیراز نے کچن میں آتے ربیعہ کو مسکراتے دیکھ کر پوچھا۔
"بس کوئی تو وجہ ہے میرے مسکرانے کی۔"
"کونسی وجہ ہے میرے سوا؟"شیراز نے بھنویں اچکا کر کہا۔
"ہے کوئی آپ کو بتانا ضروری ہے کیا؟"وہ شیراز کے لیے ناشتہ نکالنے لگی۔
"ہاں....ہے....اب تم بتاؤ گی یا....."شیراز نے اسے اپنی طرف موڑ کر پوچھا۔
"یا.....کیا کر لو گے آپ؟"ربیعہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"ہائے.....اتنی پیاری بیوی سے پیار ہی کیا جا سکتا ہے بس۔"
"بھروسہ,وفا,دعا,خواب,من,محبت
کتنے ناموں میں سمٹے ہو,اک صرف تم"
شیراز نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"شیراز شرم کریں یہ کچن ہے۔"
"اچھا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا.....بہت شکریہ میری معلومات میں اضافہ کرنے کا۔"
"شیراز.....چلیں ناشتہ کریں اور جائیں آفس۔"
"ظالم بیوی۔"شیراز نے نروٹھے پن سے کہا تو ربیعہ مسکرا دی۔پھر اسی طرح منہ پھلائے شیراز آفس چلا گیا۔
عرینا شرٹ استری کر کے فراز کے کمرے میں ہی آ گئی۔فراز نے تھوڑی سیٹنگ چینج کی تھی ڈریسنگ ٹیبل اٹھا کر سامنے کی دیوار کے ساتھ رکھ دیا تھا جس کے ساتھ ہی باتھ روم کا دروازہ تھا۔
عرینا ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے اسکے کلون چیک کرنے لگی کہ وہ چہرے پر تولیہ پھیرتا باتھ روم سے نکلا اور ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آیا۔عرینا پلٹی تو اس کے انتہائی قریب ہو گئی بنا شرٹ کے گرے پینٹ سفید بنیان اور گیلا بدن اسے ٹھنڈک سی آئی۔
فراز نے بھی اسے دیکھا تو پزل ہو گیا۔
"ضروری تو نہیں زبان سے کہیں دل کی بات
زبان ایک اور بھی ہوتی ہے اظہار محبت کی"
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
"وہ.....شرٹ رکھنے آئی تھی۔"
"رکھ دی ہے نا اب جاؤ۔"وہ اپنی گھبراہٹ چھپا رہا تھا ورنہ اتنے قربت اس کے بھی ہوش اڑا رہی تھی۔عرینا سر پٹ نیچے چلی آئی۔
تھوڑی دیر میں فراز آیا اور ناشتہ کر کے باہر آ کر گاڑی میں بیٹھا۔
"عرینا چلو۔"سرسری سا پکارا۔
یہ پہلا سفر تھا کہ سارا رستہ دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
چوتھے دن عرینا رات میں پھر ڈر گئی۔وہی دورہ پڑا زور زور سے چلانے لگی اور ہاتھ پاؤں مارنے لگی کہ کسی کے قابو نہ آئی مگر فراز وہاں نہیں تھا۔سب نے اسے آوازیں دیں مگر وہ نہیں آیا۔
"فراز وہ پھر ڈر گئی ہے سنائی نہیں دیتا۔"بابا جان نے اسے ڈپٹا۔
"رہنے دیں خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔اسے عادت ہو گئی ہے۔" وہ اوپر سے ہی بولا۔
"فراز نیچے آؤ وہ رو رہی ہے۔"عاطر نے بتایا۔
"تو میں کیا کروں......کب تک اس کی نگہبانی کروں؟"
"عرینا....عرینا....وہ بے ہوش ہو گئی ہے.....عاطر گاڑی نکال۔"
شیراز نے کہا۔اب کے فراز تڑپ کر آیا۔اور آتے ہی اسے تھام لیا۔
"ہو جائے گی ٹھیک آپ لوگ جائیں۔"
"فراز وہ گاڑی..."عاطر نے کہا۔
"میرے اوپر چڑھا دے.....فراز وہ گاڑی......وہ اپنے ماں باپ کا حادثہ یاد کرنے لگتی ہے اس لیے ایسی حالت ہو جاتی ہے اس کی....خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔"
فراز نے اسے پانی پلا کر ہوش دلائی۔اسے ہوش آ گیا تو سب مطمئن ہو کر چلے گئے۔
"کچھ نہیں ہے وہاں۔عرینا کچھ نہیں ہے۔"الفاظ اس کے وہی تھے مگر لہجہ بدل گیا تھا۔عرینا نے بے یقینی سے دیکھا اور سوچا۔
"تو یہ آخری سہارا بھی گیا۔"
"اپنے بستر پر آؤ۔"
"وہاں کوئی ہے تو نہیں۔"
"کون؟"
فراز نے اس کے بیڈ کو دیکھا پھر اسے لا کر بٹھایا۔
"عرینا ناتھنگ ایز پرماننٹ....تم نہ میں.....نہ ہمارا ساتھ اور دوستی......میں اس دوستی کے نام پر اب تمہیں سینے سے لگا کر تمہارے آنسو نہیں سمیٹ سکتا.....تمہارے لیے اب وہ رشتہ آ چکا ہے جسے یہ سب حق ہے بہتر ہے تم اس کی طرف توجہ دو۔"
وہ کہہ کر اٹھ آیا نہ دیکھا اس کے دل پر کیا بیتی اس کے چہرے نے کیا بتایا نہ وہ سنا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
یہ تب کی بات ہے جب عرینا کی خالہ آئیں تھیں۔
عرینا کی خالہ آئے اور وہ کچھ کر کے نا جائیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا تھا عرینا کی خالہ نے بابا جان کو بتایا۔ "بھائی صاحب ایکسیڈنٹ سے پہلے جب عرینا کی امی عریشہ اور اس کے پاپا ہمارے گھر گئے تھے تو وہ ایک قسم کے ان دونوں کے رشتے کے لیے ہاں کر آئے تھے۔انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ وہ جاتے ہی ہمیں بلائیں گے تو ہم پھر باقاعدہ رشتہ طے کر کے منگنی کی رسم کر دینگے....بھائی صاحب مرنے والوں کی آخری خواہش پوری کرنی چاہیے ہمیں....ہم یہی آپ کو بتانے آئیں ہیں کہ عرینا ہماری امانت ہے ہمیں دے دیں۔"
"دیکھیں بہن میں اتنا بڑا فیصلہ خود نہیں کر سکتا پہلے ہمیں عرینا سے پوچھنا پڑے گا پھر ہی میں آپ کو کوئی جواب دے پاؤنگا۔"
"ٹھیک ہے بھائی صاحب.....آپ حناء کی شادی پر آئیں پھر اس کے بعد مل بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں....ویسے مجھے امید تو ہے کہ آپ ہمیں انکار نہیں کرینگے۔"
"اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔"
اس کے بعد شیروان آیا تو وہ سب واپس چلے گئے۔
ان کے جانے کے دو دن بعد شام کو بابا جان نے عرینا کو بلا کر اس کی خالہ کے آنے کی وجہ بتائی۔اور ساتھ ہی کہا۔
"عرینا بیٹا میں نے ان سے کہا ہے کہ ہم عرینا کی مرضی معلوم کر کے ہی کچھ کریں گے۔بیٹا جی آپ سوچ لو پھر بتا دینا۔"
وہ اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے۔بابا جان عرینا کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے تھے مگر پھر عرینا کی مرضی جاننا ضروری سمجھا کہ کہیں وہ یہ نا کہے کہ میرے والدین نہیں رہے تو اب مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں۔
عرینا چپ ہو گئی۔عرینا کافی دیر تک سوچتی رہی باہر فراز کی گاڑی آئی تو وہ باہر آئی۔
"فراز۔"
"ہاں۔"وہ بے اعتنائی سے بولا۔
"بات کرنی ہے تم سے۔"
"بولو۔"اتنا اکتایا تو وہ کبھی نہیں رہا اس کے ساتھ۔
"وہ.....وہ شیروان کا پرپوزل آیا ہے مجھے تم سے کہنا تھا...."
"پتہ ہے پھر۔"
"میں کیا کروں؟"
"زندگی تم نے گزارنی ہے تم فیصلہ کرو۔"
"فراز تم انکار کر دو انہیں۔"
"میں کیوں کروں؟"
"میری انڈرسٹینڈنگ نہیں اسکے ساتھ......میں کیسے......ہے بھی وہ اکھڑ سا۔"فراز نے سوچا شاید یہ کہے گی کیونکہ مجھے تم سے شادی کرنی ہے مگر اس نے جو وجہ بتائی اس سے فراز کو اور غصہ آ گیا۔
"یہ سٹریکٹلی تمہارا پرسنل معاملہ ہے میں کون ہوتا ہوں کچھ کہنے والا۔"وہ کہہ کر چلا گیا۔
فراز چلا تو گیا مگر دماغ میں اس دن کی شیروان کی باتیں گونج رہی تھیں۔
اس دن جب شیروان اپنی امی اور بہنوں کو لینے آیا تھا تو فراز سے ملاقات ہوئی۔سلام لینے کے بعد فراز نے پوچھا۔
"کیسے ہو شیروان؟"
"پہلے سے بہت بہتر.....بلکہ یوں سمجھو اب تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔"
"خیریت....تم اتنے خوش پہلے تو کبھی نہیں ہوئے؟"
"کیوں میری خوشی برداشت نہیں ہوئی تمہیں؟"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ_حصہ دوم💕💕
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں تو جاننا چاہتا ہوں کہ تمہاری خوشی کی وجہ کیا ہے.....آخر مجھے بھی تو پتہ چلے۔"
"تم بھی خوش ہو گے جان کر....یا پھر شاید نہیں.....دراصل خالہ اور خالو جب اس دفعہ ہمارے پاس گئے تھے تب وہ میرا اور عرینا کا رشتہ طے کر آئے تھے....آج امی لوگ وہی بات کرنے آئے ہیں ادھر....میرے خیال سے عرینا کو بھی پتہ ہے تبھی تو وہ ابھی مجھ سے ملی میں نے سلام کیا تو شرما کر اندر کی طرف چلے گئی۔"
شیروان فراز کے چہرے کا اڑا ہوا رنگ دیکھنا چاہتا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ فراز کے اندر صبر اور ضبط کوٹ کوٹ کر بھرا ہے....وہ کسی بھی بات کا اندازہ اپنے چہرے سے نہیں ہونے دیتا....پھر چاہے اکیلے میں وہ پھوٹ پھوٹ کر کیوں نا رؤے۔
"اچھا....مبارک ہو۔"یہ فراز ہی جانتا تھا کہ کیسے اس نے یہ الفاظ ادا کیے۔
"خیر مبارک.....اور ہاں فراز ایک بات کرنی تھی تم سے۔"
"کہو۔"
"دیکھو برا مت منانا.....عرینا اب میری منگ ہے میں جانتا ہوں تم اس کے دوست ہو مگر اب اس دوستی کے ناطے اسے گلے سے لگا کر چپ مت کرواتے پھرنا.....مجھے یہ سب پسند نہیں ہے.....آگے تم خود سمجھدار ہو.....ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں۔"
شیروان اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی بات کہہ کر چلا گیا مگر فراز سے تو ہلا بھی نہیں جا رہا تھا۔وہ بڑی مشکل سے اپنے کمرے میں گیا اور جا کر بیڈ پر لیٹ کر سوچنے لگا۔
"تکلیف یہ نہیں ہوتی کہ آپ یک طرفہ محبت کریں اور دوسرے دل میں آپ کے لیے محبت نا پائی جائے۔
تکلیف یہ بھی نہیں ہوتی کہ آپ کسی کو پسند کریں اور وہ آپ کو ٹھکرا دے۔
تکلیف تو یہ ہوتی ہے کہ آپ محبت اور اس کے وجود سے بے خبر اپنے طریقے سے زندگی گزار رہے ہوں۔
پھر اچانک سے کوئی آپ کی زندگی میں آئے,آپ کا ہاتھ تھامے,آپ کے راستے پر کہکہشاں بٹھائے,آپ پہ اپنی جان لٹائے,پھر جب آپ کو ان عنایتوں کی عادت ہو جائے۔
آپ کے بنجر دل پر محبت کی کونپلیں پھوٹنے لگیں....
وہ شخص اچانک سے منہ موڑ لے......
اس شخص کے منہ موڑتے ہی وہ کونپلیں یکدم درخت بن جائیں اور آپ کی ساری ذات پہ حاوی ہو جائیں.....دیکھتے ہی دیکھتے یہ درخت آکٹوپس بن جائے اور آپ کی ہڈیوں کو اپنی گرفت میں اس طرح سے لے کہ وہ تڑخنے لگ جائیں۔
آپ اس شخص کی طرف دیکھیں اور وہ آپ پر تھوک دے.....یہ ہوتی ہے تکلیف......یہ ہوتی ہے اذیت.....یہ ہوتا ہے ٹوٹنا.....یہ ہوتا ہے مرنا !
اور میں اس اذیت کی انتہا پہ ہوں......"
اس کے بعد اس نے واقعی خود کو عرینا سے دور کر لیا تھا۔
اب بھی فراز عرینا کی باتیں سن کر بمشکل اپنے کمرے تک پہنچا تھا۔
"عرینا محبت سحری میں پئیے گئے پانی کے آخری گھونٹ کے جیسی ہونی چاہیے جس کے بعد دوسرے گھونٹ کی گنجائش نا ہو۔
میری زندگی میں بھی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
عرینا میں نے تمہیں اتنا ڈرپوک تو نہیں بنایا تھا۔اک بار تو اپنے پیار کا اظہار کرتی مجھ سے کہتی فراز مجھے تمہارے بغیر نہیں جینا۔میرا ہاتھ تھامتی۔مجھ سے لڑتی کہ کیوں چپ ہو...کیوں مجھ سے اب پہلے کے جیسے بات نہیں کرتے.....پر نہیں....
"تیرے سلوک سے کوئی شکایت نہیں خدا کی قسم
میرے خلوص میں ہی شاید کوئی کمی ہو گی"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"دھوکا وہیں سے ملتا ہے 
جہاں اندھا دھند اعتبار ہو"
"مجھے اس سے شادی نہیں کرنی فراز۔"عرینا فراز کے جانے کے بعد بے بسی سے کہنے لگی۔
"تو پھر کس سے کرنی ہے؟"ربیعہ نے عرینا سے پوچھا۔
"ربیعہ۔"عرینا ربیعہ کے گلے لگ کر رونے لگی۔
"میرا دل کرتا ہے کہ کوئی میرے پاس بیٹھے اور اسے رو رو کر تمہاری باتیں سناؤں....
روؤں اور روتی جاؤں...
اتنا روؤں کے سارے دکھ دھل جائیں اور مجھے سکون کا سانس آئے۔"
"عرینا بس اب نہیں رونا....."
"کیوں نا روؤں میں ربیعہ....جس نے آج تک میری پرواہ کی جس نے اب تک مجھ سے سب سے زیادہ پیار کیا وہ اب بے حسوں کی طرح پھر رہا ہے میں یہ کیسے برداشت کر لوں؟"
"تم پریشان نہیں ہو میں شیراز سے کہہ کر فراز بھائی کی ٹیوننگ کرواتی ہوں....ارے اتنی پیاری میری دیورانی کو رولائی جا رہا ہے۔"
"ربیعہ۔"
"کیوں دیورانی نہیں بننا کیا میری؟"
"اففف ربیعہ....میں جا رہی ہوں۔"
"دیکھو تو لڑکی شرما رہی ہے۔"
عرینا نے کوئی جواب نہیں دیا اور اندر کی طرف چلے گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
روز شبانہ بیگم کے فون آ رہے تھے سو سب نے صبح جانے کی تیاری پکڑی کچھ عرینا کی طبیعت کی وجہ سے بھی کہ وہاں جا کر اس کا موڈ بہتر ہو جائے گا۔عرینا بھی سامان پیک کرنے لگی۔
اپنا ہینڈ بیگ چیک کیا تو اس میں پیسہ کوئی نا تھا۔ہاتھ مذید سست پڑ گئے۔بابا جان اور بڑے پاپا کہیں باہر گئے تھے کسی کام کے سلسلے میں تو عرینا ہمت کر کے فراز کے کمرے میں آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔
"آجاؤ۔"کی آواز پر اندر گئی۔فراز اور نواز بھی اس وقت پیکنگ کر رہے تھے۔
"اوہ....میرے جوتے تلے والے نیچے ہیں میں لایا۔"نواز کو یاد آیا تو وہ نیچے چلا گیا۔
"فراز۔"عرینا ہمت کر کے بولی۔
"ہوں۔"اس نے کپڑے رکھتے ہوئے سرسری سا کہا۔
"فراز وہ...."زبان لڑکھڑا گئی۔جو اب سے پہلے کبھی نہیں لڑ کھڑائی تھی۔اسے یاد آیا جب وہ کالج جاتی تھی تو ایک دن۔
"فراز۔"وہ کالج جانے لگی تھی کہ اس کے کمرے میں آئی۔
"ہاں۔"وہ آفس جانے کو تیار ہو رہا تھا۔
"فراز پیسے چاہیے۔"اس نے دھڑلے سے مانگے تھے فراز آگے سے مسکرایا بجائے یہ کہنے کے۔
"اپنے پاپا سے لو۔"اپنا والٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔عرینا نے بڑے مزے سے اس میں سے ہزار کا نوٹ نکالا۔
"اوئے۔"اور بس آگے سے فراز ہنس پڑا۔
مگر آج اس میں بولنے کی سکت نہیں تھی۔مانگنے کی ہمت نہیں تھی اور کہنے کی اجازت نہیں تھی۔بات شروع تو کر دی مگر آگے بول نا پائی۔فراز اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔عرینا نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر تھوک نگل کر بولی۔
"فراز.....وہ...."اور پھر یہی گردان۔"وہ...."
"کہہ بھی دو اب۔"وہ اس قدر اونچا بولا کہ وہ پوری جان سے کانپ گئی۔سانس سوکھ گیا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے فراز کا چہرہ دیکھنے لگی جس پر ناگواری کے تاثرات عیاں تھے۔دل تو گویا پھٹ پڑا تھا۔
"کیا چاہیے؟"وہ اسی کوفت اور بے زاری سے بولا بے اختيار عرینا کا سر نا میں ہلا۔
"کچھ نہیں۔"اور کہہ کر پلٹ آئی۔دروازے کے باہر نواز سے سامنا ہوا مگر وہ بنا رکے نیچے آ گئی۔
"اگر غلطی سے کسی کو اپنے رونے,ہنسنے اور جینے کی وجہ بنا لیا ہے تو خدارا.....
اس کو کبھی بھی اس بات کا احساس مت ہونے دیں
سچ میں
مار یے جائیں گے۔"
"کیا کہا ہے اسے؟"نواز نے اندر آتے ہی اسے آڑے ہاتھوں لیا۔
"کسے؟"فراز بولا جو ابھی تک اسی جگہ کھڑا تھا۔
"عرینا کو کیا کہا ہے وہ رو رہی تھی۔"
"رو رہی تھی؟"فراز کو تعجب بھی ہوا اور تھوڑا سا افسوس بھی۔
"میں آتا ہوں۔"وہ نیچے اس کے کمرے میں آیا۔
عرینا سست روی سے اپنا سامان پیک کر رہی تھی۔فراز کی طرف پشت تھی۔وہ ہلکا سا کھنگارا۔عرینا اس قدر سکتے میں تھی کہ وہ پلٹی ہی نہیں۔
"عرینا۔"اس نے سرسری انداز میں پکارا۔
"ہوں۔"وہ بے رخی سے بولی۔
"وہ....تم اوپر کیوں آئی تھی؟"
"کچھ نہیں.....وہ بڑی امی نے کہا تھا کہ دیکھو ان کی پیکنگ کہاں تک پہنچی ہے۔"
"مجھ سے چھپا لو گی؟"وہ بڑے زعم سے بولی۔
"تم جانتے کیا ہو جو دعوی کرتے ہو کہ میں تم سے کچھ چھپا نہیں سکتی۔"وہ اس درشتی سے بولی کہ اپنا بھی دل کٹ گیا۔
"عرینا......اتنا غصہ....چلو اب تو معاف کر دو۔اب تو تم ہم سے دور جا رہی ہو۔"
"ہاں کاش میں بھی چلی ہی گئی ہوتی امی پاپا کے ساتھ....تم لوگ تو سکون میں رہتے۔"
"عرینا۔"فراز نے ڈپٹا۔"اور تمہاری بہن۔"
"ہاں.....یہ بھی ہے پھر اس کا کیا ہوتا۔میں نہیں برداشت ہو رہی تم سے وہ تو بچاری عذاب بن جاتی۔"یہ طنزیہ لہجہ اس کا آج سے پہلے کبھی نہیں رہا تھا۔فراز کچھ دیر اسے دیکھتا رہا شاید اپنے رویے پر نظر ثانی کر رہا تھا۔
عرینا پلٹ کر اپنے کام میں لگ گئی۔فراز نے اس کا بازو تھام کر رخ اپنی طرف کیا۔اس سے بیشتر کے وہ جھنجھلاتی فراز نے دھیرے سے اس کا چہرہ چھوا۔اور ایک دم مسکرا دیا کہ اس کی آنکھیں بھی مسکرانے لگیں۔عرینا نے کنفیوژن سے فراز کو دیکھا۔
"تم میرے بغیر نہیں رہ سکتی ناں....تم مجھ سے دور جا ہی نہیں سکتی۔"
"تو کیوں بھیج رہے ہو خود سے دور؟"
"میں بھیج رہا ہوں کہ تمہیں خود شوق چڑھا ہے۔"
"مجھے کوئی شوق نہیں چڑھا اچھا۔"
"تو پھر شیروان سے شرماتی کیوں پھر رہی تھی؟"
"شیروان سے شرماؤں اور وہ بھی میں....ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا....زہر لگتا ہے مجھے اکھڑو سا....پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا توپ چیز سمجھتا ہے۔"
"تو پھر بابا جان سے انکار کیوں نہیں کیا تم نے؟"
"یہی تو تمہیں کہا تھا کہ تم بابا جان کو انکار کر دو....مگر..."
"نہیں میں بابا جان کو انکار نہیں کر سکتا.....بابا جان لازمی تم سے پوچھیں گے.....کیونکہ وہ اتنا بڑا فیصلہ تمہاری مرضی کے بغیر نہیں کرینگے۔"
"تو پھر میں کیا جواز پیش کرونگی بابا جان سے؟"
"تم ابھی شادی پہ چلو دیکھو سمجھو اسے کہ کیسا ہے وہ....پھر وہی بابا جان کو بتا دینا....بات ختم۔"
"واہ.....تم تو شہزادے ہو فراز۔"
"ہاں تو کون اس شہزادے سے پیار کرتا ہے؟"
"اک تیری خواہش ہے بس
کائنات کس نے مانگی ہے"
فراز نے دلفریب نظروں سے عرینا کی طرف دیکھا۔
کچھ لایا ہوں تمہارے لیے۔"فراز نے ایک شاپر عرینا کو پکڑایا۔
عرینا نے کھول کر دیکھا اس میں پیچ اور کاپر کلر کی ساڑھی تھی۔عرینا نے اسے پھر فراز کو حیرت سے دیکھا جو دھیمی سی مسکان سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔
"مجھے لگتا ہے شیراز بھائی نے تمہاری ٹیوننگ کی ہے جو تم سیدھے ہوئے ہو۔"
"ہاہاہا....اس شخص کی بات کر رہی ہے جس کے اپنے جھگڑے ختم نہیں ہوتے....اس نے کسی اور سے کیا کہنا ہے۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ_حصہ سوم💕💕
"ویسے فراز تم میرے لیے ساڑھی کیوں لے کر آئے؟"
"کیونکہ مجھے پتہ ہے تم نے کراچی ایسی ساڑھی دیکھی تھی تو تمہیں بہت پسند آئی تھی.....مگر وہ شیروان نے تمہیں لے کر دی تو تم نے لی نہیں.....سو پھر جب میں گیا تھا تو میں نے سب سے پہلے یہ ساڑھی ہی خریدی تھی اس شاپ سے۔"
"تو اب دینا یاد آیا ہے؟"
"پہلے کوئی موقع ہی نہیں ملا.....ویسے اس کو کب سلوا کر پہنو گی؟"
"ہمممم......جب میرا دل کیا تب۔"
"اوکے....میرا کام تمہیں لا کر دینا تھا آگے تمہاری مرضی جو مرضی کرو اس کے ساتھ۔"
"شکل تو دیکھو کیسے شریفوں جیسی بنائی ہے۔"
"میں شریف ہی ہوں اچھا.....ارے ہاں....یاد آیا...تم اوپر کیوں گئی تھی....کیا چاہیے تمہیں؟"
"تمہارا والٹ۔"
"اللہ اللہ اب تو مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ تم میری بیوی کے سارے فرائض ادا کر رہی ہو....جیسے بیویاں اپنے شوہروں کے والٹ میں پیسے برداشت نہیں کرتیں ویسے ہی تم بھی نہیں برداشت کرتی۔"
فراز نے اپنا والٹ نکال کر اسے دیتے دہائی دی۔
"شکر کرو ابھی پورا خالی نہیں کرتی۔"عرینا نے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر اسے والٹ پکڑاتے کہا۔
"ہاں شکر ہے کچھ تو جیب بھری رہتی ہے میری۔"
"فراز تم نے ربیعہ کی بہن کے شوہر سے کیا کہا تھا اس دن۔"اس دن عرینا نے ربیعہ کے کمرے سے آتے ہی فراز کو سب کچھ بتا دیا تھا۔
"کچھ نہیں بس ہلکی پھلکی ٹیوننگ کروائی تھی اب وہ دونوں فٹ ہو گئے ہیں۔"
"پر کیا کیا تھا مجھے بھی بتاؤ۔"
"بھئی میں شریف سا بندہ ہوں میں نے کبھی کسی کو کچھ کہا جو ان کو کہنا تھا....بس میں نے اپنے اک DSP دوست سے تھوڑی مدد لی تھی جو اس وقت سانگلہ ہل والے تھانے میں تعینات ہے....اس نے بھی کچھ زیادہ نہیں کیا بس ان کے گھر میں جو دو چار اتھرے لڑکے رہتے ہیں ان کو صرف تین دن حوالات میں بند کر کے ان کی اچھی خاصی خاطر مدارت کی....اس کے بعد سے وہ لوگ تیر کی طرح سیدھے ہو گئے ہیں....دیکھا نا میں نے کچھ نہیں کیا۔"
"جی جی بالکل....میرا فراز تھوڑی نا کچھ کرتا ہے۔"
پھر دونوں مسکرانے لگے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
اسی شام وہ لوگ شیروان کے کراچی والے گھر کے لیے نکلے۔حنا کا رشتہ شیروان کے کسی دوست کے ساتھ کیا تھا جو کراچی میں اس کا کولیگ تھا۔
"آپی ٹچ بٹن مل جائیں گے؟"مہندی والی رات عرینا نے حرا سے ٹچ بٹن مانگے۔
"ٹچ بٹن وہ کیا کرنے ہیں؟"
"چاہیے ہیں۔"
"لاتی ہوں۔"
"مجھے بتا دیں میں لے لیتی ہوں۔"
حرا نے بتایا تو وہ بٹن لینے چلے گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
سب لوگ سارا دن کسی نا کسی کام میں مصروف رہے۔شادی اور بارات کا انتظام گھر کے لان میں کیا گیا تھا۔
لڑکا اور لڑکی کی مہندی علیحدہ علیحدہ کی گئی سو یہ لوگ اپنے گھر ہی تھے۔
"عرینا تم بھی کچھ گاؤ ناں۔"اس وقت سب لڑکیاں ڈھولک لیے بیٹھی تھیں جب شیروان کی کزن نے اس سے فرمائش کی۔اس کا حسن ہی کچھ ایسا تھا کہ شیروان کی ساری کزنز اسے اہمیت دے رہی تھیں۔
"تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں 
ساری عمر بتا دوں
تو جو کہے تو تن من اپنا تجھ پہ لٹا دوں 
ساری عمر بتا دوں
تو جو کہے تو سجنا میں بن پتنگ چلی آؤں
چھوڑ کے سارا زمانہ تیرے رنگ میں رنگ چلی آؤں
او میرے متوا او میرے ساجن"
گانا ختم کر کے وہ فراز کو دیکھ کر مسکرائی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا مگر دیکھنے والے سمجھے ساتھ کھڑے شیروان کو دیکھ رہی ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
بارات پہ جو دونوں بہنیں تیار ہو کر آئیں تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔سیڑھیوں سے اترتے فراز عریشہ کو سہارا دینے آگے بڑھا مگر عابر نے اپنی خدمات پیش کیں۔جتنا عریشہ اسےاگنور اور avoid کرتی تھی اتنا ہی وہ بچھا جاتا تھا۔
"عابی بھائی میں چلی جاؤنگی۔"
"اوکے سٹوپ گیٹنگ فارمل میرے ساتھ تو ایسے بی ہیو کرتی ہو جیسے میں کوئی دور کا کزن ہوں یا تارکِ وطن جو تیرہ سال بعد واپس آیا ہے.....ویسے تمہارا سوٹ بڑا پیارا ہے۔"عابر سیڑھیاں اترتے اس سے باتیں کرتا اس کی تعریف بھی کر رہا تھا۔
"سوٹ پیارا ہے بس؟"
"بھئی اگر میں ڈائریکٹلی بولتا کہ تم اس سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی ہو تو تمہارا کیا بھروسہ اسی اسٹیک سے مجھے مارنے لگ پڑو.....ویسے دن بدن کافی امپروومنٹ ہوتی جا رہی ہے۔"
عریشہ اب اسٹیک سے چلتی تھی۔عریشہ بے بسی سے مسکرا دی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ولیمے والے دن اصل حیرت تو فراز کو ہوئی جب اس نے عرینا کو دیکھا۔
"اوئے تمہیں ساڑھی سٹیچ کرنی بھی آتی ہے؟"پیچ اور کاپر کلر کی ساڑھی میں وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔فراز آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم نے دو دنوں میں سی بھی لی؟"
عرینا نے آگے سے ہاں میں سر ہلایا۔فراز اسے دیکھ کر بے پناہ مسکرایا۔
"اب پھوٹو کچھ کیسی لگ رہی ہوں؟"عرینا ہنس کر بولی۔
"نظر لگواؤ گی۔"
"تھینک یو.....ویسے سوچ کر لانی تھی ناں۔"
"سوچ کر ہی لایا تھا but you're beyond expectations."
عرینا آگے سے مسکرا دی۔
ان دونوں کو مسکراتے دیکھ شیروان کے سینے میں سانپ لوٹنے لگا۔اس نے سوچا جب میں نے ایسی ہی ساڑھی دی تھی تب مجھے انکار کر دیا کہ مجھے ساڑھی نہیں پسند اور اب جب فراز نے دی تو فورا سی کر پہن بھی لی ہے۔اسے مذید غصہ آنے لگا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شادی کی تقریبات ختم ہو گئیں تو سب لوگوں نے واپس جانے کی تیاری کی۔
عرینا بھی اپنی تیاری کر رہی تھی جب اس نے بیٹھک کے پاس سے گزرتے اپنی خالہ اور حرا کی باتیں سنیں۔
اسے ان کے ساتھ رہتے اتنا تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ شیروان بہت اکھڑو ہے خیر یہ تو اسے پتہ تھا مگر اس کا یہ پرماننٹ رویہ تھا۔ہر وقت اور ہر کسی کے ساتھ تھا۔
حرا تو عرینا کو اک پل برداشت نہیں کر رہی تھی۔ہر دوسرے قدم پر کوئی شو اوف حرکت کرتی یا کوئی ایسا جملہ پھینکتی کہ عرینا دنگ رہ جاتی۔
اس کی خالہ کو جب سے یہ یقین دہانی ہو گئی تھی کہ عرینا ان کی بہو بنے گی وہ ساس بننے کی پریکٹس کرنے لگیں تھیں۔مگر ایسا تو ہر گھر میں ہوتا ہے۔
اب جو جملے اسے سب سے گراں گزرے وہ یہی تھے۔
"ویسے حد ہے لڑکوں سے بھرا پڑا گھر ہے اس کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا۔"
"فراز سے ویسے تو بڑی دوستی ہے مگر اسے اپنانے کو تیار نہیں ہوا۔"یہ حرا کا جملہ تھا۔
"بنتی تو ویسے یہ اتنی حسین ہے گھر کے لڑکے اندھے ہیں کیا.....مجھے تو لگتا ہے کوئی گل کھلایا ہو گا تبھی کوئی پوچھتا نہیں اسے۔"دونوں ماں بیٹیاں بیٹھی عرینا کے خلاف باتیں کر رہی تھیں۔
"آنٹی ابھی میرا رشتہ ہوا کب ہے جب ہو گا دیکھی جائے گی کون مجھے قبول کرتا ہے اور کسے میں قبول کرتی ہوں۔"جب بات عرینا کے بس سے باہر ہوئی تو اس نے کہہ ہی دیا۔
اتنا کہہ کر وہ جانے لگی کہ کاریڈور میں شیروان نے اسے بلایا۔
"بات سنو۔"عرینا کو شیروان نے پکارا۔
"ہوں۔"
"کیا کہا تم نے امی سے؟"
"کب؟"
"اتنی بھولی مت بنو۔امی کانوں کو ہاتھ لگا رہی ہیں تمہاری بد تمیزی پر۔"
"اب بتائيں گے کس بدتمیزی پر یا مجھے الہام ہو گا۔"وہ بھی تپ گئی۔
"زبان مت چلاؤ میرے آگے....اگر اس گھر میں بسنا ہے تو زبان اور غصے پر کنٹرول رکھنا....اس گھر میں یہ سب نہیں چلے گا۔"
"تو نا چلے چلانا کس کو ہے۔"وہ بھی تڑک کر بولی۔
"میرے سامنے زبان بند رکھو ورنہ کھینچ کر پاؤں کے انگوٹھے سے لگا دونگا۔"
"مسٹر شیروان ولید مائینڈ یور سیلف۔مائینڈ اٹ ڈیٹ یو آر ناٹ ٹاکنگ ٹو آ کریمینل کہ آپ مجھ سے اس طرح بات کریں۔"
"یہ تم مجھے سکھاؤ گی مجھے تم سے کس طرح بات کرنی ہے۔یو بیٹر مائینڈ اٹ مس عرینا محسن میں فراز نہیں ہوں۔جس کے سامنے تم کچھ بھی کہہ جاتی ہو سمجھیں۔"
"سمجھ گئی۔یو آر رائٹ ایکچوئیلی۔آپ فراز کیسے ہو سکتے ہیں عمر لگتی ہے آدمی کو انسان ہونے میں۔خدا حافظ۔"
عرینا یہ کہہ کر باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔شیروان اسے کبھی پسند نہیں تھا۔اب تو وہ بالکل بدذن ہو چکی تھی۔
خالہ کے جملے:"تمہیں تمہارے گھر کے لڑکوں نے نہیں پوچھا۔"
اب تو ہم دونوں بہنوں کی شادی اپنے ہی گھر میں ہونی چاہیے۔"وہ سوچنے لگی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز بڑی امی وغیرہ سب کہاں ہیں.....کوئی نظر ہی نہیں آ رہا۔"
اگلی صبح جب اسے گھر میں کوئی نظر نہیں آیا تو اس نے فراز سے پوچھا جو اس وقت اکیلا بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
"آنا بھی نہیں ہے وہ سب اس وقت ربیعہ کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔"
"کیوں؟"
"وہ.....اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ناں اس لیے۔"
"تو اس میں مسکرانے والی کون سی بات ہے؟"
"بات وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے طبیعت خراب ہے۔"وہ غیر معمولی چمک رہا تھا۔
"کیا؟"عرینا بھی چونکی۔
"تم پھپھو.....نہیں چچی بننے والی ہو۔"
"سچی......ماشاءالله...چلو آؤ اندر چلتے ہیں۔"وہ اشتیاق میں اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔فراز نے اس کے ہاتھ پر چپت لگائی۔
"اب ان حرکتوں سے باز آ جاؤ۔"
"واہ عادتیں پکی کر کے کہتے ہو باز آ جاؤ۔"دونوں کمرے کی طرف جانے لگے۔
"عرینا آپی میں چاچو بننے والا ہوں۔" عابر چہک کر اسے بتانے لگا۔
"مبارک ہو.....ہے کہاں وہ قانونِ مجاہد۔"
پھر وہ تینوں بھی کمرے میں چلے گئے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

No comments:

Post a Comment