Friday, 16 August 2019

Tumhari Madh Aur mera Qalam Ho ||Episode#1

#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو
 ( عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر ) 
#پہلی_قسط 
#از_صالحہ_منصوری 

رات کے گیارہ بجے سڑک کے دونوں طرف لگے ہوئے درخت اور زرد روشنی کے درمیان ان کی کار تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ کار میں بجتا میوزک اتنی تیز آواز لئے ہوئے تھا کہ کافی دور تک محسوس ہوتا ۔ اس کار میں نایاب ، عظمیٰ ، زارون پیچھے بیٹھے تھے اور آگے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالے ساحل کے بازو میں سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لیتا اذان موجود تھا ۔ امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے یہ پانچ افراد یونیورسٹی کے طالب علم اور آپس میں گہرے دوست تھے ۔ آے دن ان کی تفریح کا کوئی نہ کوئی پلان کسی نہ کسی کے پاس ضرور ہوتا ۔ آج بھی وہ لوگ رات گئے کلب سے لوٹنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے شہر بھر میں مٹرگشتی کرنے میں مصروف تھے ۔ ایک ایک کا گھر آتا گیا اور ایک ایک اس گاڑی سے اترتا گیا ۔ سب سے آخر میں ساحل کا گھر تھا لیکن اذان کا گھر آتے ہی وہ کار سے اتر گیا ۔

" کیا ہوا تجھے ۔؟" اذان نے حیرت سے پوچھا ۔ 

" تیرا گھر آگیا تو جا ۔۔ میں واک کر لوں گا ۔" کار چونکہ اذان کی تھی تو وہ مسکرا کر آگے بڑھ گیا ۔ اذان نے آہستہ سے سر جھٹکا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر کار پارک کرکے گھر کی طرف بڑھ گیا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا استقبال اندھیرے نے کیا ۔ گول چکر دار زینے کو عبور کرتا وہ اوپری منزل پر پہنچ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور بغیر جوتے اتارے بستر پر لیٹ گیا ۔ آنکھیں کمرے کی چھت پر چسپاں ایک خوبصورت عورت کی پینٹنگ پر مرکوز ہو گئیں ۔ حسن کا شیدا وہ شخص مسکرا کر اپنی آنکھیں موند گیا ۔

***

وہ تیزی سے قدم بڑھاتی راہ داری سے گزر رہی تھی جب خاموشی سے دبے پاؤں چلتی نایاب نے آکر اسے ڈرا دیا ۔ 

" بھو ۔۔ " 

وہ تیزی پلٹی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب مقابل پر دے ماری ۔

" آؤچ ۔۔ سوری ۔" وہ نایاب کو پہچان لئے جانے پر سخت نادم ہوئی ۔ نایاب جو کہ اپنے سر پر ہاتھ رکھے کراہ رہی تھی اس کی معذرت پر خونخوار آنکھوں سے گھورتی ہوئی بولی ۔

" مارنے سے پہلے دیکھ لیتی آیت کی بچی ۔" اس بات پر آیت صرف سر جھکا کر اپنی مسکراہٹ چھپانے لگی ۔ وہ دونوں گھر کی راہ داری میں موجود تھیں جہاں ایک طرف کشادہ کھڑکیاں تھیں تو دوسری طرف دیوار پر لگی مختلف پینٹنگز ۔۔ نایاب آیت کی کزن تھی مگر دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں تاہم وہ آپس میں بہت محبت قائم کئے ہوئے تھیں ۔

" اچھا سوری ۔۔ تم نے بھی تو بے وجہ ڈرایا ۔" آیت نے اسے دیکھا تو نایاب مسکرا دی ۔ 

" اچھا سنو میں بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں تم سے ۔ دھیان سے سننا اور انکار مت کرنا ۔" 

" اوکے ۔" آیت نے سر ہلایا ۔ 

" کل شام دعا کی انگیجمنٹ ہے تمہارا فون بند تھا تو مجھے آنا پڑا ۔۔ اس نے کہا ہے کہ کسی بھی طرح آیت کو لے کر آنا ۔" نایاب نے تفصیل بتاتے دونوں کی مشترکہ دوست دعا کا ذکر کیا ۔ 

" یار تم جانتی ہو مجھے اس قسم کے فنکشنز میں الجھن ہوتی ہے میں نہیں جا رہی ۔" آیت نے صاف انکار کر دیا ۔ 

" صرف کچھ وقت کی تو بات ہے پرامس دو گھنٹے سے زیادہ نہیں بیٹھیں گے ۔" نایاب نے اسے بہلانے کی کوشش کی اور آخر کار اس کے کافی اصرار پر آیت دعا کی منگنی میں شامل ہونے پر رضا مند ہو گئی ۔

***

" ابے زارون اسے تو دیکھ ۔۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کالی پیلی ٹیکسی ہو ۔" ساحل نے زارون کی توجہ ایک لڑکی کی طرف کی جو پیلے رنگ کی چھوٹی قمیص کے ہمراہ ہم رنگ دوپٹہ داہنے کندھے پر ڈالے کالے رنگ کے غرارے میں ملبوس تھی ۔ ساحل کی توجہ دلانے پر وہ سب لڑکی کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے ۔لڑکی نے ان کی ہنسی بھی سنی اور باتیں بھی مگر وہ انہیں گھور کر آگے بڑھ گئی ۔ وہ تمام دوست آج دعا کی منگنی میں آے ہوئے تھے اور بہت زیادہ انجوائے کر رہے تھے ۔ زارون ، ساحل ، عظمیٰ اور اذان ساتھ کھڑے کسی بات پر ہنس رہے تھے جب انہیں سامنے سے نایاب آیت کے ساتھ آتی دکھائی دی ۔ 

" لو جی نایاب بھی آ گئی ۔" عظمیٰ نے مسکرا کر کہا تو نایاب نے بھی دور سے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلایا ۔ 

" اچھا سنو تم دعا کے پاس جاؤ میں اپنے دوستوں سے مل کر کچھ ہی دیر میں آتی ہوں ۔" اسکائی بلیو رنگ کے لمبے گھیر دار فراک جس پر سلور رنگ کے ڈائمنڈز سے کام کیا گیا تھا اس پر ہم رنگ چوڑی دار پاجامہ پہنے اور پرپل رنگ کے نیٹ کے دوپٹے کو داہنے شانے پر ڈالے وہ آیت سے گویا ہوئی ۔ نایاب کے کھلے ہوئے بال اور کانوں سے لٹکتے آویزے بات کرتے ہوئے ادھر ادھر ہو رہے تھے ۔ 

" لیکن ۔۔ " آیت کچھ کہنے ہی لگی تھی مگر نایاب تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔ اس نے بے چارگی سے جاتی ہوئی نایاب کو دیکھا پھر اپنا لمبا سنہری گاؤن دونوں کناروں سے اٹھا کر آہستہ آہستہ دعا کی طرف بڑھنے لگی ۔ 

" ہائےے ۔" نایاب دوستوں کے پاس آکر ایک ایک سے بات کرنے لگی مگر اذان کی نظریں دور کھڑی پریشان سی سنہرے گاؤن والی لڑکی پر جم گئی تھیں ۔ کچھ تھا اس میں جو اس حسن پرست شخص کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا ۔۔ کوئی کشش تھی اس میں جس سے بار بار اذان کا دل اسے دیکھنے پر مائل ہو رہا تھا ۔ نایاب کچھ دیر بعد دعا کے پاس آئی تو آیت بھی وہیں تھی ۔ وہ لوگ کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے رہے تبھی اچانک آیت کے فون پر کسی کی کال آئی تو وہ معذرت کرتی ہال کی دوسری طرف آ گئی ۔ 

" ہیلو ۔۔" اس نے فون کانوں سے لگایا مگر سامنے سے کوئی جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ فون کاٹ کر پلٹی ہی تھی جب پیچھے کھڑے اذان کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں ۔ اذان اسے یک ٹک دیکھتا جا رہا تھا جب وہ گھبرا کر سائیڈ سے گزرنے لگی ۔ آیت نے جانے کی غرض سے ابھی قدم اٹھائے ہی تھے کہ اس کی نرم کلائی اذان کی سخت گرفت میں آ گئیں ۔ آیت نے پہلے تو اسے حیرانی سے دیکھا پھر ایک دم اس کے اعصاب پر غصّہ حاوی ہونے لگا ۔

" ہاتھ چھوڑیں میرا ۔" وہ غرّا کر بولی مگر اذان پلک جھپکائے بغیر اسے دیکھنے میں مصروف تھا ۔

" سنائی نہیں دیتا کیا ۔؟ میں نے کہا ہاتھ چھوڑیں ۔" آیت نے اس مرتبہ دانت پیس کر اسے گھورا ۔ اذان نے اس کے بائیں کان سے لٹکتے آویزے کو دیکھا جو چہرے کے گرد حصار کئے دوپٹے سے باہر جھانک رہے تھے ۔ اذان کے ہاتھ بے اختیار اس کے گال کی طرف بڑھے لیکن اگلے ہی لمحے آیت نے اس کا ہاتھ جھٹکتے زور دار تھپڑ مارا تو جیسے وہ حقیقت کی دنیا میں لوٹ آیا ۔

" شرم آنی چاہئے آپ کو کہ آپ ایک مسلمان ہیں ۔" 

وہ تنفر سے دیکھتی دوسری طرف بڑھ گئی اور یہاں اذان کے کانوں میں اس کے الفاظ گونج کر رہ گئے ۔ پھر جتنے وقت وہ وہاں رہی اذان کی نظریں خود پر محسوس کرتی رہی ۔ آیت نے دو گھنٹے پورے ہوتے ہی نایاب کو چلنے کہا اور وہ دونوں دعا سے مل کر چلی گئیں ۔

***

بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں ایک ہی چہرہ بار بار گردش کر رہا تھا ۔ وہ بیڈ پر آنکھیں بند کرتے ہوئے سیدھا لیٹا تب بھی آیت کا تصور اس کے سامنے آگیا ۔ اذان نے آنکھیں کھولیں تو نظر چھت چسپاں خوبصورت عورت کی تصویر پر پڑی ۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر ابھرا اور ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ وہ بیڈ سے اٹھا اور سائیڈ ٹیبل سے لگی ہوئی کرسی کو بیڈ پر رکھتے ہوئے اوپر چڑھ گیا ۔ اذان کا ہاتھ بآسانی تصویر تک پہنچ رہا تھا پھر کچھ ہی لمحے بعد وہ تصویر ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر فرش پر جابجا بکھر گئی ۔ اس نے پوری فوٹو نا صرف کمرے کی چھت سے نکال دی تھی بلکہ اس تصویر کو کئی حصّے میں بانٹ کر پھینک دیا تھا ۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ آسودگی سے مسکراتا ہوا شاور لینے چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد جب وہ واپس آیا تو کرسی کو اس کی جگہ پر رکھ کر بیڈ شیڈ کھینچی اور الماری سے دوسری بیڈ شیڈ نکال کر بستر پر صحیح سے لگانے لگا ۔ بیڈ شیڈ سیٹ کرنے کے بعد وہ برہنہ پیٹھ ہی لیٹ گیا ۔ اسے بار بار آیت کی باتیں یاد آ رہی تھی ، اس کا گھبرا جانا ، حیرت کا اظہار کرنا اور پھر غصّہ کرنا ۔۔۔ اذان نے مسکرا کر آنکھیں بند کی ۔ 

" نہیں جانتا کون ہو تم ، مگر یقین کرو تم جو بھی ہو جیسی بھی ہو صرف میری ہو ۔" اس کے لہجے میں جنون تھا ۔ 


*** 

No comments:

Post a Comment