Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena||Episode12

#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_١٢
💕💕حصہ اول💕💕
"فراز بھائی میرے بھی پیپرز ہو رہے ہیں مجھ سے بھی پوچھ لیا کرو۔"عامر ان کی گفتگو سن کر ادھر ہی آگیا۔
"یار تو مرد بندہ ہے ایک کِک مار اورجا کر کھا آ۔اسے کون لے کر جائے۔"فراز نے عرینا کی حمایت کی تو عرینا نے مظلومیت سے منہ لٹکایا۔
"پر سر میرے بھی پیپرز ہو رہے ہیں میں کہاں کِکیں مار کر جا سکتا ہوں۔"
"اچھا جا رہا ہوں سب کے لیے لے آؤنگا۔"فراز مسکرا کر باہر نکلا تو عامر بھی چلا آیا کہ اس کی عرینا سے فراز کی طرح دوستی نہیں تھی بے تکلفی تو خیر سب سے تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز نے آئس کریم لانے کے بعد سب کو بلا کر آئس کریم کھلائی۔
شیراز اٹھ کر جانے لگا تو فراز بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔
"شیراز تم نے کبھی میری بہن کو بھی کچھ کھلایا ہے یا ایسے ہی پیپرز کی تیاری کروا رہے ہو اسے؟"
"تیاری کہاں......تمہاری بہن صرف ایک دن آئی تھی میرے پاس وہ بھی عرینا لے کر آئی تھی۔اس کے بعد سے آج میں نے اسے آج دیکھا ہے...فراز پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے جیسے میں اسے پسند نہیں ہوں.....دور بھاگتی ہے مجھ سے۔"
"ہاہاہاہا......."فراز قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
"فراز تم ہنس کیوں رہے ہو؟"
"وہ اس لیے میرے بھائی وہ اک تمہیں ہی تو پسند کرتی ہے......اور تم ہی اس بات سے بے خبر ہو۔"
"اچھا.......تو پھر مجھے دیکھ کر چھپ کیوں جاتی ہے؟"
"شاید تم سے شرماتی ہو......اگر وہ نہیں بات کر رہی تو تم ہی جا کر اس سے بات کر لو۔"
"ہمممممم......آئیڈیا تو اچھا ہے.....میں پیپرز کیسے ہو رہے ہیں...یہ پوچھنے تو جا ہی سکتا ہوں اس کے پاس۔"
"ویسے تمہیں اس سے بات کرنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہے.....بیوی ہے تمہاری جب مرضی بات کر سکتے ہو اس سے۔"
"ٹھیک ہے۔"شیراز یہ کہہ کر ربیعہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"تیرے شفاف نگاہوں کے تبسم کی قسم
ان ابگینوں سے بڑا پیار کیا ہے ہم نے"
ربیعہ اپنی کتاب میں رکھی شیراز کی تصویر کو دیکھ رہی تھی۔ربیعہ نے یہ تصویر عریشہ کے پاس پڑی البم میں سے لی تھی۔
نکاح کے بعد سے وہ عریشہ کے روم میں منتقل ہو گئی تھی۔
بابا جان نے تو اسے عرینا کے ساتھ روم شئیر کرنے کا کہا تھا مگر عریشہ کی خواہش پر وہ عریشہ کے کمرے میں رہنے لگی۔
عریشہ نے ربیعہ کو ایک دن اپنی البم میں سے سب کی تصویریں دکھائیں۔جب عریشہ البم رکھ کر چلے گئی تو ربیعہ نے اس میں سے شیراز کی ایک تصویر لے لی۔
یہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب ربیعہ نے پہلی بار شیراز کو دیکھا تھا۔یہ تصویر شیراز نے ان کے کالج گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر بنوائی ہوئی تھی۔
ابھی بھی ربیعہ شیراز کی تصویر دیکھنے میں اس قدر مگن تھی کہ اسے علم ہی نہیں ہوا کہ کب شیراز اس کے پاس کھڑا اسے تصویر میں مگن بیٹھی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ 
ربیعہ نے خود پر کسی کی نگاہوں کی تپش محسوس کرتے سامنے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔شیراز دروازے سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا۔دیکھنے کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ یہاں کافی دیر سے کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔
"پلکیں کب تک رکوع میں رکھو گی
حسن کا واسطہ...............قیام کرو"
"آپ.....یہاں ؟"ربیعہ حیرت زدہ سی کھڑی ہو گئی۔
"کیوں میرا یہاں آنا ممنوع ہے؟"
"جی......نہیں.....آپ کا جب دل چاہے آپ یہاں آ سکتے ہیں۔"
"ہمممم.....اتنے مراقبے میں جا کر کیا پڑھا جا رہا تھا؟"شیراز نے اس کی کتاب کو دیکھتے پوچھا۔
"آپ کو......نہیں.....وہ....میرا مطلب میں پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔"رییعہ کو اپنی زبان کی پسلن پر غصہ آیا کہ بے اختیاری میں کیا کہہ گئی ہے۔
"ربیعہ......ایک مشورہ دوں میں؟"
"جی ضرور۔"
"یہ جھوٹ بولنا آپ کے بس کی بات نہیں سو نا بولا کرو۔"ربیعہ نے شرمندہ سی ہو کہ سر جھکا لیا۔
"اب پریشان کیوں ہو گئی ہو....اپنے شوہر کو دیکھنا کوئی غلط بات تو نہیں۔"
ربیعہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
"تو پھر شرمندہ کیوں ہو رہی ہو؟"
"شیراز میں ایک بات پوچھ سکتی ہوں آپ سے؟"جب سے ربیعہ شیراز سے ملی تھی اس نے پہلی بار شیراز کو اس کے نام سے پکارا تھا۔اور ربیعہ کے منہ سے شیراز کو اپنا نام پیارا بھی بہت لگا تھا۔اس نے خوشگوار سی حیرت سے ربیعہ کی بات پر ہاں کہا۔
شاید یہ نکاح کا بندھن ہوتا ہی ایسا ہے کہ انسان ناچاہتے ہوئے بھی اپنی شریک حیات سے محبت کرنے لگتا ہے۔آج سے پہلے کبھی شیراز نے اس نہج پر نہیں سوچا تھا اور نا ہی اس کا دل اس لے پر دھڑکا تھا۔
ربیعہ کی شرم و حیا کی لالی اسے بھا گئی تھی۔وہ اسے نظروں سے دل میں اترتا محسوس کر رہا تھا۔
"آپ....مجھ سے نکاح کرنے کے لیے راضی کیسے ہو گئے؟.....مطلب آپ نے اپنی مرضی سے مجھ سے نکاح کیا.....؟"
"بالکل اپنی مرضی سے کیا ہے.....مجھے کوئی کیسے مجبور کر سکتا تھا۔"ربیعہ حیرت زدہ سی اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"ربیعہ تمہیں یاد ہے جب تم پہلے دن فراز کے ساتھ میری اکیڈمی گئی تھی.....اور جب تم گلاس ڈور کے پاس کھڑی محویت سے مجھے دیکھ رہی تھی.....میں نے تمہیں پہلی بار وہاں دیکھا تھا اس دن تم نے بلیک ڈریس زیب تن کیا ہوا تھا.....مجھے تم اس دن بہت پیاری لگی تھی.....تمہارا یہ معصوم سا چہرہ میرے دل کو اسی دن بھا گیا تھا.....اس کے بعد تمہارا مجھ میں کھو جانا.....مجھے دیکھتے رہنا.....اور پھر میرے لیے کھانا بنا کر لانا.....مجھے پسند کرنے کے باوجود کوئی بھی ایسی ویسی حرکت نا کرنا.....مجھے دیکھ کر خود میں سمٹ جانا......یہ سب وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے تم مجھے اچھی لگنے لگی.....جانتی ہو ایسا کیوں ہوا؟"
"نہیں۔" ربیعہ ہونق بنی شیراز کو سن رہی تھی۔
"وہ اس لیے کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے لیے ایسی ہی شریک حیات کی خواہش کی تھی....جسے میرے رب تعالی نے پورا بھی کر دیا....اگر میں یہ کہوں کہ میں خوش قسمت ہوں جسے تمہارے جیسی شرم و حیا کی پیکر بیوی ملی ہے تو یہ سو فیصد سچ ہو گا۔"
ربیعہ پھر سے شیراز کو دیکھے جا رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔
"تو مسسز اب تم مجھے دیکھتی ہی رہو گی یا یہ بتاؤ گی کہ میں تمہیں کب اور کیوں اچھا لگا تھا؟"
"کیوں کا تو مجھے پتہ نہیں.....مگر جب میں نے آپ کو اپنے کالج میں دیکھا تھا تو میں آپ کو دیکھ کر دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔"
"کالج میں....؟"
"جی جب آپ ہمارے سانگلہ ہل والے کالج میں لیکچر دینے گئے تھے میں نے تب آپ کو اپنی کلاس میں دیکھا تھا۔"
"ہاہاہاہاہا.....ایک مزے کی بات بتاتا ہوں میں تمہیں.....میں اس ٹور کے لیے عین ٹائم تک راضی نہیں ہو رہا تھا.....مگر فراز نے زبردستی مجھے بھیجا تھا۔"
"اچھا۔"
"ہاں۔"
اس کے بعد وہ اپنی باتوں میں مگن ہو گئے۔یہ ربیعہ اور شیراز کی اب تک کی ملاقات میں سب سے تفصیلی ملاقات تھی جس میں دونوں حال دل ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔یہ ان دونوں کی زندگی میں اترنے والی بہترین شام میں سے ایک تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
عرینا کے پیپرز ختم ہو گئے تھے اور اب وہ گھر پر مشین سنبھال کر بیٹھی تھی۔
ربیعہ نے پیپرز کے بعد پھر سے آفس جوائن کر لیا تھا۔
یہ واحد کام تھا جس کا عرینا کو شوق تھا۔اور دل لگا کر کرتی تھی۔
ہر چھٹیوں میں یہ اس کا پسندیدہ کام ہوتا تھا۔اب بھی وہ یہی کر رہی تھی خاص کر اتوار کا دن وہ فراز کے سر پر کھڑی ہوتی وہ اسے ڈیزائن ٹریس کر دیتا اور عرینا کڑھائی کرتی۔
گھر کے سارے کشن اور صوفہ پیک کی شکل بدل چکی تھی اور اب وہ فراز کے بیڈ کے سرہانے نکال رہی تھی جس کا ڈیزائن بھی اس نے اپنی مرضی سے نکالا تھا۔گرمیوں کے کپڑوں کی سلائی کی ذمہ داری تھی تو اس پر مگر جس قدر احسان چڑھا کر وہ سیتی تھی رخسانہ بیگم کہا کرتیں۔
"عرینا اس سے تو بہتر بندہ درزی سے سلوا لے۔"
"ہاں ہاں مالِ مفت دل بے رحم۔"وہ سلائی چھوڑ کر بھن کر کہتی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"تمہارے ماموں مفتی اپنی بیٹی کے دن رکھ رہے ہیں ہمیں بلایا ہے پیکنگ کر لو۔"
"امی......ماموں نے......ماموں مفتی نے......مجھے بلایا ہے۔سوچ لیں مجھے بلایا ہے۔"
عرینا نے حیرت سے پوچھا انکی بیگم جہاں بھر کی مفت خوری تھیں۔ ہر جگہ رشتے داری بنا لیتیں رخسانہ بیگم سے بھی ان کی غرض تھی عرینا اگر ان کی بہو بن جائے تو ٹھیک تھا ورنہ عرینا کے سامنے آنے سے ان کی بچیوں کے رشتے پلٹ جاتے تھے۔ایک بار ہی اس سے یہ "گناہ" ہوا تھا تو عرینا نے ان کے گھر جانے اور بیگم مفتی(جو کہ عرینا کہا کرتی تھی) نے اسے بلانے سے توبہ کر لی۔تب تو عرینا میٹرک میں تھی مگر اب تو اس کی شادی کی عمر بھی تھی اوپر سے ان کا وہ بیٹا جسے وہ رخسانہ بیگم کا داماد بنانے کے خواب دیکھتی تھی ایسی چکنی چپڑی لگاتیں کہ عرینا کو وہ اپنی بہو ہی سمجھنے لگیں۔کافی عرصے تک وہ عرینا کے ہمسائے رہے بڑی اچھی جان پہچان تھی۔ان کے لڑکے بھاگ بھاگ کر بیگم مفتی کے کام کرتے مگر جیسے ہی انہوں نے اپنی بچیوں کے رشتے کی بات کی یہ سارے لڑکے بھی بھاگ گئے۔
بیگم مفتی کا صاحب زادہ "دل جانی" یہ کوئی تخلص نہیں اس کا نام تھا پتہ نہیں گھر میں کیا سنتا تھا کہ عرینا سے شرمانے لگ گیا پٹھانی رنگت اور لمبی آنکھوں والا دل جانی اس سے شرماتا نہایت برا لگتا خیر برا تو نا شرماتے بھی لگتا تھا۔
"ویسے تم دونوں بلی آنکھوں والے سجو گے خوب۔"فراز نے کبھی اسے چڑایا تھا۔
"ہاں دور سے ہم دونوں بہنیں لگیں گی۔"
"ویسے لگو گی تو قریب سے بھی بہنیں ہی بلکہ بہن بھائی۔وہ بہن اور تم بھائی۔جس قدر اس میں نسواینیت اور تم میں......"
"فراز بکواس نہیں کرو۔"وہ بات کاٹ کر بولی۔
پھر ایک دن فراز نے سنجیدگی سے اسے کہا تھا کہ وہ ان کی فیملی سے نہیں ملے گی اور اس دل جانی س مکمل پردہ۔بات کا پتہ نہیں چلا کیا تھی مگر عرینا نے عمل خوب کیا سو اب بھی وہ ان کے گھر جانے سے کترا رہی تھی جو انہوں نے چار سال پہلے شیخوپورہ میں گھر لیا تھا کہ بیگم مفتی کے رشتے دار وہاں تھے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕حصہ دوم💕💕
مولوی صاحب ماموں مفتی مسجد کے امام۔یہ بھی عجیب تھا مولوی صاحب نے اپنے بیٹے کو زبردستی اپنے ساتھ مدرسے میں رکھا تھا دین کی تعلیم دینے کے لیے۔دنیا کی تعلیم کو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے حالانکہ دل جانی پڑھنے والا تھا مگر مولوی صاحب کی زبردستی کی وجہ سے دین سمجھ نہ سکا اور پڑھایا اتنا تھا نہیں میٹرک تک بمشکل پرائيویٹ پڑھا تھا۔مولوی صاحب کا کہنا تھا۔
"یہ جو رات رات جاگ کر کتابيں پڑھتے ہو یہی خدا کے آگے سجدہ کرو تو کچھ حاصل بھی ہو۔"کبھی کہتے۔
"ان کتابوں میں تو کفر ہے فقط۔دین کو ایک کتاب تک محدود کر دیا ہے اور لادینیت چھ چھ کتابوں پر محیط ہے لاحول ولا قوة۔"
"مت جاؤ تم۔ہم خود ہی چلے جاتے ہیں۔"وہ خفا ہو کر بلیک میل کرنے لگیں۔
"کہاں جانے سے انکار کر رہی ہے؟"فراز آفس سے آیا تو رخسانہ بیگم کی بات سن کر رک گیا۔
"ماموں مفتی کے گھر جانا ہے۔"عرینا نے بتایا۔فراز نے بھی اسے دیکھا۔
"کیوں؟"
"ان کی بیٹی کے دن رکھنے ہیں۔"
"تو اس کا وہاں کیا کام؟" وہ سپاٹ لہجے میں بولتا تو بڑوں کو بھی گڑ بڑا دیا کرتا۔عرینا اس کے لیے پانی لینے چلے گئی۔
"فراز بیٹا ہم نے پہلے آپا کے گھر بھی جانا ہے عرینا اور شیروان کا رشتہ طے کرنے اس کے بعد ادھر جائیں گے۔"
جب عرینا واپس آئی رخسانہ بیگم فراز کو خویش و اقارب کے حقوق گنوا رہی تھیں۔
"آپ چلی جائیں یہ نہیں جائے گی۔"وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"نو مور ارگومنٹ۔ڈن۔"عرینا نے اس کی تائید کی۔
"ارے فارغ ہی ہے یہ۔یہاں کیا کرے گی۔ذرا سیر بھی کر آئے گی۔اکیلی بور ہوتی رہے گی تو......."
"چھوٹی امی۔مجھے اس کا جانا اچھا نہیں لگے گا۔باقی آپ ماں ہیں آپ کا حق ہے آپ کی مرضی۔السلام علیکم۔"وہ چلا گیا۔
"کیا ہے امی ابھی آفس سے آیا ہے اور اسے ناراض کر دیا ہے۔ مجھے نہیں جانا تو نہیں جانا بس۔اب اگر پاپا بھی کہیں گے تو میں نہیں جاؤنگی۔میں اسے کھانا دوں۔آپ بھی ناں۔"وہ بڑبڑاتی اٹھ گئی۔
"لے میں نے کیا کیا ہے؟"وہ اس کے جانے کے بعد بے بسی سے بولیں۔
"فراز کھانا۔"عرینا نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔اپنے بستر پر اوندھا لیٹا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔نواز گجرانوالہ تھا سو وہ آج کل کمرے میں اکیلا تھا۔کبھی عامر کا دل کرتا ادھر آجاتا۔
عرینا کھانا رکھ کر جانے لگی تو فراز بولا۔
"عرینا مری جانا ہے؟"اس کی آواز میں بھی شوخی تھی۔عرینا چہک کر پلٹی۔
"ضرور۔"
"تم تو میرے ساتھ جہنم میں بھی جانے کو تیار ہو جاؤ گی۔"
"اب اتنا عشق بھی نہیں سوار۔"وہ اپنی ٹون میں بولی۔
"چلو تھوڑا بہت تو ہے ناں۔"
"بکواس نہیں کرو یہ بتاؤ کب جانا ہے؟"
"اگلے سال فروری میں۔"
"کیا.....دفع ہو جاؤ۔"وہ اٹھ کھڑی ہوئی فراز نے اسے ہاتھ تھام کر روکا تو وہ ڈگمگا کر اس کے اوپر آ پڑی۔فراز بھی پزل ہو گیا۔عرینا بال سمیٹتی ہٹی۔
"تم کھانا کھاؤ پھر بات کرتے ہیں۔"اور وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔
"دل کی حالت عجیب تھی دونوں طرف
سانس ساکن تھی اس طرف تو تھا پھولا ہوا ادھر
دھڑکن اس کی بے ترتیب تھی تو وہ بھی گن رہا تھا ادھر
وہ زلفوں کی مہک میں کھویا ہوا تھا 
اسے لمس نے ستایا ادھر
اسے سانسیں دہکا رہی تھیں
تو اسے نظروں نے گدگدایا ادھر
مگر جو جانتے تھے اپنی حالتیں دوجے تھے وہ بے خبر"
(بقلم_علینہ)
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ربیعہ اب شیراز کے ساتھ آفس جاتی اور اس کے ساتھ ہی واپس آتی تھی۔
اب بھی ربیعہ شیراز کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی جب شیراز کو یاد آیا کہ اس نے ربیعہ سے اس دن کے بعد سے اس کی بہنوں کے بارے میں نہیں پوچھا۔
"ربیعہ تمہاری بہنیں اب ٹھیک تو رہتی ہیں ناں....کوئی مسئلہ تو نہیں اب؟"
"نہیں شیراز اب ان کے سسرال والے بڑے اچھے طریقے سے رہتے ہیں ان کے ساتھ.....پر مجھے سمجھ نہیں آتی اچانک سے وہ ٹھیک کیسے ہو گئے۔"
"اچانک سے ٹھیک نہیں ہوئے.....انہیں ٹھیک میں نے کیا تھا۔"
"آپ نے.....کیسے؟"
اس دن جب وہ سب سے بات کر کے جانے لگے تو بابا جان بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا اندر بیٹھک میں ہی بیٹھے تھے تو شیراز فراز نواز اور عاکف ان کے پیچھے گئے۔ابھی وہ اپنی گاڑی کے پاس ہی پہنچے تھے کہ شیراز نے انہیں بلایا۔
"سنیے۔"
"جی۔"
"آپ سب اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو...آخر ہو کیا تم لوگ.....ذرا شرم نہیں آتی تم لوگوں کو ان یتیم بچیوں پر ظلم ڈھاتے ہوئے....تم لوگوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ اب ان کے پیچھے پوچھنے والا کوئی نہیں تو ہم جو چاہیں ان کے ساتھ کر سکتے ہیں....تو یہ تم لوگوں کی سب سے بڑی بھول ہے۔ان کے پیچھے پوچھنے والے ہم ہیں.....خبردار جو تم لوگوں نے ان کے ساتھ کچھ بھی برا کیا تو اس جگہ لے جا کر مارے گے تم لوگوں کہ پانی کی اک بوند کو بھی ترسو گے.....میں ان دونوں کا بھائی ہوں....اور بھائی چھوٹے بھی بڑے ہوتے ہیں....یاد رکھنا اس بات کو...ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا.....اس بات کو یاد رکھنا.....اب تم لوگ آرام سکون سے جا سکتے ہو۔"
وہ سب ہونق بنے ان سب کو دیکھتے چلے گئے۔
"ارے واہ شیراز آپ نے تو کمال کر دیا....کیا غصہ دکھایا ان کو۔"
ربیعہ خوش ہو گئی۔
"ویسے غصے کے برے ہی ہو آپ۔"ساتھ ہی گلہ بھی کر دیا۔
"ہاہاہاہا.....تمہیں اب پتہ چلا ہے؟"
"اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟"
"تو اس میں سیرئیس ہونے والی کیا بات ہے؟"
ربیعہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔
"ویسے تم منہ پھلا کر بیٹھی......بالکل.....بھی اچھی نہیں لگتی۔"
"ہاں اب میں آپ کو اچھی بھی کیوں لگنے لگی؟"
"ہاں....اب مجھے کسی...."
پھر یہ دونوں سارے رستے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہے.....یہ تھی ان دونوں کی پہلی لڑائی......جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔
کہتے ہیں جہاں پیار ہو وہاں لڑائی بھی ہوتی ہے.....تو یہ ان دونوں کی پیار بھری لڑائی کی شروعات تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عرینا تم نے بتایا نہیں کہ مومنہ نے کیا کہا تھا تمہیں؟"
عرینا کچن میں تھی جب عاکف گھر آتے ہی اس سے مومنہ کے بارے پوچھنے لگا۔
"مومنہ نے تو بڑا کچھ کہا تھا.....کہتی تمہارا بھائی تھانیدار کی طرح گھور گھور کر دیکھ رہا تھا مجھے۔"
"ہاہاہاہا......اور کیا کہا؟"
"اور یہ کہ آپ اس کو بالکل بھی اچھے نہیں لگے۔"
"کیا یار اپنی دوست کی آنکھوں کا علاج کرواؤ....اتنا ہینڈسم ڈیشنگ سا بندہ اسے پسند ہی نہیں آیا۔"
"اب میں کیا کر سکتی ہوں اسے آپ پسند نہیں آئے تو۔"
عاکف کا منہ لٹک گیا یہ بات سن کر۔
"ہاہاہاہا.....مذاق کر رہی تھی میں......ایسا ہو سکتا ہے کہ میرا بھائی اسے پسند نا آئے۔"
"اچھا......تو پھر کب جانا ہے بابا جان کو ساتھ لے کر مومنہ کے گھر رشتہ لینے؟"
"واہ بڑی جلدی آپ کو۔"
"کہیں اور نا رشتہ طے ہو جائے اس کا اس لیے جلدی سے بابا جان کو بتا کر ان کو رشتہ لینے لے کر جاؤ۔"
"ٹھیک ہے میں بابا جان کو بتاتی ہوں کہ آپ ایسا چاہتے ہو۔"
"واہ میری شہزادی بہن.....دل خوش کر دیا......تھینک یو۔"
"تھینک یو سے کام نہیں چلے گا پہلے میری مانگیں پوری کرنی پڑینگی۔"
"اچھا.....بتاؤ کیا کرنا ہے مجھے؟"
"ایک منٹ میں رجسٹر لے کر آتی ہوں۔"
"چلو میں بھی ادھر ہی چلتا ہوں۔"
"آ جائیں۔"
عرینا اور عاکف دونوں کمرے میں آ گئے۔
عرینا نے اسے اپنی ڈیمانڈز والا صفحہ کھول کر دکھایا۔
"اللہ توبہ یہ کیا کیا لکھ دیا تم نے؟"عاکف نے اس کی ڈیمانڈز پڑھنے کے بعد کہا۔
"جو میرا دل کیا۔"
"اتنا سب کچھ میں کیسے پورا کرونگا؟"عاکف نے مصنوعی حیرانگی سے کہا کہ یہ ساری ڈیمانڈذ تو وہ اس کے کہنے کے بغیر بھی کرنے والا تھا۔
"اب یہ تو آپ کو پتہ ہو.....ویسے اتنی زیادہ مانگیں نہیں ہیں میری......
نمبر١:
آپ کو مجھے رشتہ طے کروانے سے پہلے,منگنی سے پہلے اور شادی کے تینوں دنوں کے لیے شاپنگ کروانی ہو گی۔
نمبر٢:
میرا جب دل چاہے آپ کی شادی سے پہلے تک آپ کو مجھے آئس کریم کھلانی ہو گی۔
نمبر٣:
آپ کو میری دوست کو ہمیشہ خوش رکھنا ہو گا۔
نمبر٤:
آپ کبھی بھی ہم دونوں کی دوستی پر پابندی نہیں لگاؤ گے۔
نمبر٥:
آپ میری دوست کو شادی کے بعد سیر کروانے لے کر جایا کرو گے.....گھر میں قید کر کے نہیں رکھو گے۔
نمبر٦:
آپ کبھی بھی میری دوست سے لڑائی جھگڑا نہیں کرو گے....نہیں تو عرینا کے غصے سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا۔
بس اتنی سی تو ڈیمانڈذ ہیں میری۔"
"ویسے عرینا چھوٹی امی صحیح کہتی ہیں......تم ابھی بھی بچی ہی ہو.....مطلب اتنا سنہری موقع ملا تھا تمہیں مجھ سے کچھ بھی مانگ سکتی تھی....پر تم نے تو سب اپنی دوست کے لیے مانگا.....اور مانگا بھی وہ جو میں نے تمہارے کہنے کے باوجود کرنا ہی تھا۔"
"عاکف بھائی انسان وہی اچھا ہوتا ہے جو اپنے سے پہلے اپنے سے جڑے رشتوں کے بارے میں سوچے۔"
"ماشاءالله بہت اچھی سوچ ہے تمہاری.....چلو جی آپ کی ساری ڈیمانڈز مجھے تہہ دل سے قبول ہیں....اب تو بابا جان سے بات کرو گی ناں۔"عاکف نے صفحے کو رول کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔
"ہاں جی بالکل۔"
"تھینک یو......خوش رہو۔"عاکف یہ کہہ کر چلا گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
عرینا رات دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں آئی تو اسے پیکنگ کرتا دیکھ کر چونکی۔
"فراز کہاں جا رہے ہو تم؟"
"میں......وہ......ذرا کراچی جا رہا ہوں۔"
"اور مجھے اب بتا رہے ہو.......ایگزیبیشن پر جا رہے ہو؟"
"نہیں آفس کی طرف سے جا رہا ہوں.....ابھی بابا جان نے کہا ہے کہ تم نے کل کراچی جانا ہے۔"عرینا منہ بنا کر اس کے بیڈ پر پڑے بیگ کے پاس بیٹھ گئی۔
"کیا ہوا ہے.......جلدی آ جاؤنگا۔"فراز نے تسلی دی۔
"امی پاپا بھی جا رہے ہیں.....عریشہ بھی جا رہی ہے....اور اب تم بھی جا رہے ہو۔"
"تو تم ایسا کرو ان کے ساتھ چلی جاؤ۔"
"بڑے تیز ہو یہ نہیں کہا میرے ساتھ چلی جاؤ۔"
"میرا stay آفس کی طرف سے ہے۔میرے ساتھ چند اور لوگ بھی جا رہے ہیں سو آئی کانٹ آفر یو کمبائن۔"
"واپس کب آؤ گے؟"
"جلدی ہی۔"
"اوکے.....اور کچھ چاہیے؟"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕حصہ سوم💕💕
"مجھے صبح جلدی نکلنا ہے۔اٹھ کر ناشتہ بنا دینا پلیز۔"
"اوکے گڈ نائیٹ.....وہ دودھ رکھا ہے پی کر سو جانا۔"
"اوکے صبح اٹھ جانا۔"
"نیند کس کو آنی ہے۔" وہ بڑ بڑا کر بولی اور چلی آئی جانے وہ چاہتی تھی فراز سنے یا نہیں مگر اس نے تو سن لیا۔
"جھلی ہے پوری۔"
نیند سچ مچ رات بھر نہیں آئی اسے.......صبح نماز پڑھ کر کمرے سے نکلی......کچن میں جا کر ناشتہ بنایا......فراز بھی تھوڑی دیر میں آ گیا سامان سمیت.....عرینہ نے اسے ناشتہ دیا....فراز نے ناشتہ کرتے اس کی گم سم صورت دیکھی تو پوچھا۔
"کیا بات ہے؟"
"کچھ نہیں۔"
"تم اتنی اداس پہلے تو کبھی نہیں ہوئی۔"
"ہوں.....اس بار پتہ نہیں کیا ہے....تمہارا ہے یا امی ابو کا.....کچھ خوف سا ہے۔"
"کوئی نہیں موت کا ایک دن متعین ہے آنی تو ہے نا۔"
"فراز بکواس نہیں کرو.....میں رو پڑونگی۔"
"نا میری شیرنی رونا نہیں.....میں جلدی آ جاؤنگا.....اوکے خدا حافظ۔"
فراز اٹھ کر چلا گیا......اور اسی شام عرینا کے امی ابو اور عریشہ بھی شیخوپورہ کے لیے نکل پڑے....اپنی گاڑی پر بار بار عریشہ کہتی رہی۔
"آپی آپ بھی چلو نا ہمارے ساتھ۔"
پر وہ نا گئی کہ فراز کو اس کا جانا پسند نہیں تھا۔گھر اب خالی خالی سا ہو گیا۔بابا جان,بڑے پاپا,شیراز اور ربیعہ بھی صبح کے جاتے شام کو آتے۔
نواز,عاکف,عاطف اور عابر تو تھے ہی گھر سے دور۔عامر نے بھی مصروفیت ڈھونڈ لی تھی۔
عاطر کی بھی کچھ ایسی ہی جاب تھی کہ رات کے گیارہ بج جاتے تھے.....عریشہ کے جانے سے بالکل ہی خاموشی ہو گئی۔
بڑی امی بھی کام کروا کر سو جاتیں۔عرینا سلائی کڑھائی کا کام کرتی رہتی۔یا کبھی فراز کی کال آ جاتی۔
"عجیب بے کلمی میں دن گزر رہے ہیں.....تم ٹھیک ہو نا؟"
عرینا فراز کو بتا رہی تھی۔مگر فراز سے زیادہ بات نہیں ہوتی کہ وہ کام میں مصروف ہوتا تھا۔بس اس کی خیریت دریافت کرتا اور فون بند کر دیتا۔
امی ابو اور عریشہ کو گئے آج دو دن ہو گئے تھے۔وہ یہ دو دن شیروان کے گھر رہے تھے.....چونکہ عرینا کو شیروان پسند نہیں تھا اس لیے اس نے ادھر فون نہیں کیا تھا۔مگر آج اسے بے چینی ہو رہی تھی۔اس نے پہلے فراز سے اس کا حال پوچھا۔اور اب وہ امی کو فون کرنے کا سوچ رہی تھی کہ عاطر آ گیا۔
"عاطر بھائی پاپا کا فون آیا؟"اس نے اس کے گھر آتے ہی پوچھا۔
"نہیں کیوں گھر نہیں آیا؟"
"نہیں۔"
"اچھا میں کرتا ہوں پہلے کھانا لا دو۔"
"جی۔"
"عاطر کا کمرہ ساتھ ہی تھا نیچے....عرینا کھانا لے کر گئی تو عاطر فون پر بات کر رہا تھا۔
"جی اچھا ک ک......کہاں پر؟"
"اچھا ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔"کہہ کر عاطر نے فون بند کیا۔
"کیا ہوا؟"عرینا نے فون بند کرتے ہی پوچھا۔
"ہوں.....کچھ نہیں....میں....میں ابھی آتا ہوں۔"اس نے فورا گاڑی کی چابی اٹھائی۔
"بھائی کھانا۔"
"آتا ہوں۔" ساتھ ہی اس نے فون ملایا۔عرینا نے جو آواز سنی۔
"ہاں فراز...."
عاطر چلا گیا تھا عرینا اپنے کمرے میں آ گئی.....کچھ سمجھ ہی نا آئی تو الماری ٹھیک کرنے لگ گئی۔
ادھر عاطر نے فراز کو فون کیا۔
"یار جتنی جلدی ہو لاہور پہنچ۔"
"سب ٹھیک ہے نا۔"
"کانٹ سٹے....تو بس سب چھوڑ کر واپس آ......ضرورت ہے تیری۔"
"ٹھیک ہے۔"
"اور بائے ائیر آنا۔"
فراز نے فورا سامان باندھا اور ائیر پورٹ کو نکلا۔دن کی آخری فلائیٹ جانے والی تھی....فراز ٹکٹ لے کر پلین میں جا بیٹھا کہ اس کا موبائل بجا....عاطر کا نمبر دیکھ کر اس نے فورا فون اٹھایا۔
مگر نیٹ ورک کا مسئلہ ہو رہا تھا اسے کچھ سمجھ نا آئی کہ عاطر کیا کہہ رہا ہے۔
"ہاں یار اب تو بتا دے کیا ہوا ہے میں لاہور ائیر پورٹ پہنچ گیا ہوں۔"
"فراز وہ....وہ چھوٹے پاپا اور چھوٹی امی....کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ماموں مفتی کے گھر جاتے ہوئے....."
اس سے آگے عاطر کی آواز رندھ گئی۔فراز کے بھی حواس ڈگمگانے لگے۔
"کیا.....عرینا کو پتہ ہے؟"اسے سب سے پہلے یہی نام یاد آیا۔
"نہیں۔"
"اچھا کون سے ہاسپٹل ہیں میں وہی آجاتا ہوں۔"
"ہاسپٹل نہیں ہیں......میں....گھر جا رہا ہوں ان کی.....ڈیڈ باڈیز لے کر۔"
"کیا....."اس کے تو سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑا.....کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگ پڑی۔
"میں کچھ ہی دیر میں گھر پہنچتا ہوں..اور وہ عریشہ؟"
"زخمی ہے پر کوئی امید نہیں ہے۔"عاطر اب کے رو پڑا۔
"تو جلدی آ جا یار گھر پر کوئی بھی نہیں ہے.....سب کو کیسے سنبھالیں گے۔"
"میں آ رہا ہوں۔"
فراز نے فون بند کر دیا۔منظر ڈگمگانے لگے....سورج ڈھل رہا تھا....فراز نے اپنی پلکوں پر آئے آنسو صاف کیے گوگلز لگائے اور باہر آ کر ٹیکسی لی۔بمشکل اس کو ایڈریس بتایا۔سارا رستہ وہ کھویا رہا۔گھر پہنچ کر کرایہ دیا تو سو کی جگہ ہزار کا نوٹ تھما دیا۔ڈرائيور بولا۔
"بھائی کھلے نہیں ہیں؟"تو فراز ذرا دنیا میں واپس آیا۔اور اسے سو کا نوٹ تھما کر اندر کی طرف بڑھا۔
گھر پر صفِ ماتم بچھا ہوا تھا۔اس گھر کو ایسے ہی نیلے نیلے دن میں چھوڑ کر گیا تھا۔اور اب سب کچھ ہی بدلا ہوا تھا۔فراز کے اندر قدم رکھتے ہی عاطر نے اسے دیکھا اور دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔وہ تو خود کو سنبھال نہیں پا رہا تھا اسے کیا دلاسہ دیتا۔
عاطر ذرا حوصلے میں تھا مگر اتنا بھی نہیں۔سب کو خبر دے چکا تھا وہ۔
"عاطر.....عرینا...."فراز نے پوچھا۔
"اندر ہے....شاکڈ ہے....سکتے میں ہے۔"فراز جواب سن کر عرینا کے کمرے میں گیا۔ جہاں بڑی امی اور ربیعہ بیٹھیں تھیں۔بیڈ کے ایک کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے عرینا پتھرائی نظروں سے ایک ہی نقطے کو دیکھ رہی تھی۔فراز کے اپنے قدم ڈگمگائے مگر وہ سنبھل کر آگے بڑھا۔فراز نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔
"عرینا۔"دھیرے سے انگلیاں پھیرتے اس نے متوجہ کیا۔"عرینا۔"
فراز کی آواز بھی لڑکھڑائی۔عرینا کی آنکھوں کا سکتا ٹوٹا اس نے نظریں اٹھا کر فراز کو دیکھا۔اور پھر پل ٹوٹ گئے۔بند چھوٹ گئے۔عرینا فراز کے کندھے سے لگ کر رو دی۔
وہ اس قدر روئی کہ وہاں موجود ایک ایک بندے کو اس نے بری طرح رولایا۔
رشتے داروں میں سب سے پہلے شیروان کی فیملی آئی۔شیروان ان کے تھوڑی دیر بعد پہنچا۔
میتوں کو غسل دیا جا چکا تھا۔فراز اس وقت صحن میں بیٹھا تھا۔شیروان کو آتے دیکھ اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے پاس آیا۔دونوں گلے لگ گئے کہ فراز دلاسے دے دے کر تھک گیا تھا اور اب اسے بھی کاندھا ملا تھا رونے کو۔
ایک ایک کر کے سب لڑکے بھی آ گئے غم بٹ گیا پھر ماموں مفتی ابرار بھی آ گئے بمعہ اہل و عیال۔
گھر سے دو جنازے اکٹھے رخصت ہوئے تو عرینا کی حالت خراب ہوئی جو اپنے ماں باپ کے جنازے پر گلا پھاڑ کر روئی کہ لگا دماغ کی کوئی شریان ہی پھٹ گئی ہو گی۔
تدفین کے بعد سب گھر واپس آئے۔ہر کوئی اپنی اپنی جگہ دکھی تھا۔بابا جان بڑے پاپا سے کہہ رہے تھے۔
"حسیب دیکھو محسن ہم دونوں بھائیوں کو چھوڑ کر چلا گیا ہے.....میرا ایک بازو الگ ہو گیا ہے مجھ سے۔"
سب کو سب سے زیادہ رنج عرینا کی یتیمی کا تھا۔پھر عریشہ کی حالت بھی ابھی تک سنبھل نا پائی تھی۔اس کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا کہ زندہ بچتی بھی ہے یا نہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"فراز بھائی عرینا کو کچھ کھلا دیں اس نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔"ربیعہ نے فراز کو آ کر بتایا تو وہ چونکا۔
کھایا تو دو دن سے کسی نے کچھ نہیں تھا۔کسی کو پتہ بھی نہیں چلا تھا اور چھوٹے پاپا اور چھوٹی امی کو ابدی نیند سوئے دو دن گزر گئے تھے۔
فراز اٹھ کر عرینا کے کمرے میں آیا وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔فراز سے اپنے آنسو روکنا محال تھا وہ اسے دلاسہ کیا دیتا۔مگر اسے دلاسہ چاہیے تھا۔ساتھ ہی شیراز اور عاکف بھی عرینا کے کمرے میں آ گئے۔شیراز نے فراز کے کندھے پر ہاتھ دھرا گویا اسے عرینا سے بات کرنے کا حوصلہ دیا ہو۔
"عرینا۔"اس نے ہمت کر کے اسے پکارا۔عرینا نے گود سے سر اٹھایا اور فراز کو دیکھا۔فراز اس کے پاس آیا اور اس کے بمقابل بیٹھ گیا۔پھر پلٹ کر دونوں کو دیکھا کہ اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔عاکف آگے بڑھا۔
"عرینا کچھ کھا لو تم نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔"
"بھائی امی ناراض تھیں مجھ سے.....انہوں نے ابھی گرمیوں کے کپڑے سلوانے تھے وہ بھی سارے پڑے ہیں.....میں ان کے ساتھ نہیں گئی......وہ ناراض تھیں....دیکھ لو وہ واپس نہیں آئیں۔"
"نہیں چندا کوئی اپنے بچوں سے ناراض ہو کر انہیں چھوڑتا نہیں.....وہ تو اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا ہے۔"عاکف بولا۔
"اس نے تمہارے صبر کا امتحان لیا ہے عرینا.....آزمائش ہے یہ ایسے ہار نا مانو۔"شیراز نے کہا۔
"میرا امتحان کیوں.....میرے پاس پہلے کیا تھا ان کے سوا....وہ بھی لے لیا۔"وہ رو پڑی شیراز نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔مگر وہ پاگلوں کی طرح ہاتھ چلانے لگی۔
"یہ ظلم ہے میرے ساتھ.....مجھے میرے ماں باپ واپس چاہیے...اسے کہو میرے ماں باپ واپس دے فراز اسے کہو مجھے چاہیے۔اسے کہو مجھے واپس چاہیے میں لاوارث ہو گئی ہوں فراز.....میرا سائبان چھین لیا ہے اس نے کیوں؟"
"نہیں,نہیں ایسے نہیں کہتے۔"فراز نے بڑھ کر اسے قابو کیا۔"ایسے نہیں کہتے۔"
"میں کہاں جاؤنگی...میرا کوئی نہیں رہا میں......"
"ہم ہیں ناں عرینا.....ہم سب تمہارے اپنے,تمہارے سائبان اور تمہارے محافظ تمہیں ڈر کس بات کا ہے.....ہم سب یہی ہیں عرینا ہم سب ہیں۔"
"تم.....تم.....میرے پاس ہو نا فراز.....تم ہو نا؟"وہ بے یقینی سے اس کے کندھے سے لگی اس کا کالر نوچ کر بولی۔
"میں ہوں.....میں ہوں تمہارے پاس....میں ہوں تمہارے پاس۔"
فراز اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔کسی نے کچھ نہیں کھایا۔
شیروان نے کھانے کا انتظام کیا مگر وہ بھی عزیز و اقارب کے لیے تھا کہ گھر کے افراد تو علیحدہ علیحدہ کونوں میں منہ چھپائے رو رہے تھے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

No comments:

Post a Comment