#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#بقلم_علینہ
#قسط_نمبر_١٣
💕💕 حصہ اول💕💕
عرینا کو جان بوجھ کر باہر نہیں آنے دیا جا رہا تھا کہ تعزیت کے لیے آنے والیاں لپٹ لپٹ کر اسے مذید رلاتی تھیں۔
رات کا ایک بج گیا تھا اور ہر کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔اپنے اپنے بیڈ پر بیٹھے ہر کوئی ساکن تھا۔
مگر پھر جنبش ہوئی تو عرینا کی آواز پر جو ہسٹریائی ہو کر چیخنے لگی تھی۔سب اس کے کمرے کی طرف دوڑے۔ربیعہ اور بڑی امی نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ جس طاقت سے ان دونوں کو پیچھے دھکیل رہی تھی کہ لڑکوں کو ہی آگے ہونا پڑا۔اس کے کمرے میں سب ہی موجود تھے۔مگر اس کی چیخ و پکار کسی کے بھی بس کی بات نا تھی۔
بابا جان کی تو یہ چہیتی بیٹی تھی مگر اس کی حالت دیکھ کر ان میں حوصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ آگے بڑھ کر اسے خاموش کرواتے۔اس سے نظریں چراتے جس خاموشی سے آئے تھے اسی خاموشی سے آنکھوں میں آنسو لیے واپس چلے گئے۔
"پانی لاؤ۔"فراز نے اسے تھاما جب وہ نقاہت سے لڑھک گئی۔شاید حنا نے لا کر اسے پانی پکڑایا۔فراز نے ایک گھونٹ اس کے منہ میں ڈالا پھر منہ پر چھینٹے مارے۔
"نہیں.....پاپا.....امی.....مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔"وہ پھر سے چلانے لگی ہر آنکھ کو اس نے رلادیا۔
"عرینا سنبھالو خود کو......عرینا...."فراز نے اپنے آنسو روکتے اسے جھنجھوڑا۔
"کمرہ ذرا خالی کریں گھٹن ہو رہی ہے.....عرینا.....عرینا آنکھیں کھولو ہوش کرو چندا اٹھو۔"
"پاپا......امی جی....."
"عرینا......عرینا سنبھالو خود کو۔"کمرے میں اب فراز کے ساتھ عاکف اور عاطر رہ گئے۔
"عرینا۔"وہ نقاہت اور بے بسی سے سر جھکائے بیٹھی رہی۔فراز بولا۔
"عرینا سنبھالو خود کو.....جنہیں جانا تھا وہ تو چلے گئے پر عریشہ ابھی زندہ ہے۔اسے تمہاری ضرورت ہے تم اپنا یہ حال کروگی تو اس چھوٹی بچی کو کون سنبھالے گا۔اسے سہارا کون دے گا۔"کسی نے کھانا لا کر دیا۔
لو کھانا کھا لو۔اسے تمہاری ضرورت ہے عرینا۔اور ہم سب تمہارے پاس ہیں تم اکیلی نہیں ہو۔تمہارے فراز کا وعدہ ہے تمہیں کبھی یتیمی کا احساس نہیں ہو گا عریشہ کو بھی نہیں تم.....تم خود کو سنبھالو....لو تھوڑا سا کھا لو۔"
فراز نے اس کی طرف نوالہ بڑھایا۔عرینا نے بے بسی سے منہ موڑا۔
"عرینا ایسے نہیں کرو تمہیں....تمہیں عریشہ کی قسم۔"
"فراز۔"وہ رو پڑی۔
"رونا بند کرو اور کھانا کھا لو پلیز تمہیں.....میری قسم۔"
عرینا نے سسکی روکتے اس کی طرف دیکھا۔آج بیس سال میں اس نے پہلی بار اپنی قسم دی تھی ورنہ اسے کہاں ضرورت پڑتی تھی اتنے ترلے کرنے کی۔ویسے بھی ہمیشہ عرینا ہی منوایا کرتی تھی۔عرینا نے نوالہ منہ میں ڈالا۔چند نوالے لے کر اس نے منہ پھیر لیا۔
"عرینا تھوڑا سا اور کھا لو۔"عاطر بولا تھا فراز نے رہنے دو کا اشارہ کر دیا۔تو وہ ٹرے لے کر چلا گیا۔
رو رو کر اس کی آنکھیں جلنے اور سر دکھنے لگا تھا۔
"فراز۔"دونوں کمرے میں اکیلے رہ گئے تو وہ بولی۔
"ہوں۔"
"تم نے کھانا کھایا؟"کہہ کر عرینا نے فراز کو دیکھا جو بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا کہ اس غم میں بھی اسے فراز یاد تھا۔بس آنکهوں میں نمی نا ہوتی تو یہ وہی عرینا تھی فراز کی بیسٹ فرینڈ کئیرنگ سی۔
اور خود عرینا کے لیے بھی تو فراز ہی تو رہ گیا تھا زندگی کی آخری امید۔جس کی موجودگی میں اسے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔
باری باری سارے مہمان اپنے اپنے گھر کو رخصت ہو گئے۔ربیعہ نے ایسی حالت میں عرینا اور بڑی امی کا بڑا خیال رکھا۔گھر پر کافی عرصے بعد سارے لڑکے اکٹھے ہوئے تھے نہیں تو عید تہوار پر بھی عاطف اور عابر کو چھٹی نہیں ملا کرتی تھی مگر اب وہ بھی آئے ہوئے تھے۔
اگلے دن وہ لوگ عریشہ کو دیکھنے ہسپتال گئے۔وہ ابھی تک ICU میں تھی۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ کوئی سیون فریکچر ہے ریڑھ کی ہڈی پر۔اب تو ہوش آئے گا تو پتہ چلے گا کہ کونسا حصہ متاثر ہوا ہے۔
"ڈاکٹر اسے......ہوش آئے گا نا؟"عرینا نے بے یقینی سے پوچھا۔
"إن شاءالله۔"
اور وہ شیشے کے دروازے سے عریشہ کو دیکھتے رہے۔فراز اور عرینا ہی اس کے پاس رہے۔گھر سے کوئی نا کوئی لڑکا آ کر کھانا وغیرہ دے جاتا۔بڑی امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی ایسے میں کھانا بنانے کی ساری ذمہ داری ربیعہ پر آ گئی تھی۔جسے وہ بڑی خوش اسلوبی سے ادا کر رہی تھی۔
ادھر محسن اور رخسانہ کا دسواں ہوا ادھر عریشہ کو ہوش آ گیا۔ڈاکٹرز نے چیک کیا۔
"ڈاکٹر وہ ٹھیک ہے نا؟"دونوں نے بے چینی سے پوچھا۔
"باقی تو سب ٹھیک ہے مگر......"
"مگر۔"
"اس کی دائیں ٹانگ مفلوج ہو چکی ہے۔بٹ ڈونٹ وری۔کبھی بھی کلوٹ کھل سکتا ہے اور وہ پھر سے نارمل ہو جائے گی مگر ابھی وہ بے حس ہے۔ٹانگ کاٹنی نہیں پڑے گی بے فکر رہیں۔"
ڈاکٹر ایک بری خبر کے ساتھ تسلی بھی دے گیا۔عرینا بے قراری سے اندر گئی اور عریشہ سے لپٹ گئی۔فراز مسکراتا ہوا اندر گیا۔فراز نے عرینا کو اٹھایا۔
"اوہو کیوں تنگ کر رہی ہو میری گڑیا کو۔اٹھو اتنا وزن ڈال دیا ہے اس پر۔"
اسے ذرا سائیڈ پر لے جا کر بولا۔
"اسے کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے۔"
چند دنوں بعد اسے گھر لے آئے۔اپنی مفلوج ٹانگ کی وجہ سے وہ ہنستی کھیلتی اور اٹھکیلیاں کرتی عریشہ بستر کی ہو کر رہ گئی بلکہ باتھ روم تک کے لیے عرینا کی محتاج ہو گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عرینا تمہارا رزلٹ آ رہا ہے کل۔"فراز نے اسے خبر دی۔
"اچھا۔"اس کے چہرے کے تاثرات نہ بدلے اس وقت وہ عریشہ کی دوائی چیک کر رہی تھی۔
وقت گزرتے کہاں پتہ چلتا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے آج ڈیڑھ ماہ گزر چکا تھا۔
"عرینا محسن فرسٹ ڈویژن ٦١٣ نمبر۔"عامر نے لا کر اس کا رزلٹ پکڑایا اور تقریبا ڈیڑه ماہ بعد اس کے چہرے پر ہنسی آئی۔وہ دوڑی فراز کے کمرے میں گئی۔دروازہ کھٹکھٹایا۔فراز آیا جمائیاں لیتا۔
"فراز میرا رزلٹ آ گیا۔"
"او یار ساری رات یاد کر کے سویا ہوں۔صبح آنکھ ہی نہیں کھلی۔لاؤ دکھاؤ پاس ہو گئی ہو؟"
"فراز.....٦١٣ مارکس۔"
"٦١٣....ٹھیک ہیں۔"
"فراز.....ٹھیک ہے....یہ بہت اچھے ہیں۔"
"اچھا اچھے ہیں۔"فراز نے حیرت سے پوچھا۔"اچھا چلو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں۔مبارک ہو۔اب ایم۔ایس۔سی کس میں کرنا ہے۔"
"ایم۔ایس سی.....آئی گڑیا.....ایک منٹ میں آئی۔"عریشہ کی آواز پر وہ پلٹ آئی۔
"فراز تم آفس کیوں نہیں گئے؟"وہ اس کے کمرے میں آ بیٹھا تو عرینا نے پوچھا۔
"ویسے ہی.....گڑیا تمہاری آپی نے فرسٹ ڈویژن لی ہے۔مبارک ہو۔"فراز نے عریشہ کو بتایا۔اس نے چہک کر عرینا کو دیکھا۔
"پھر اب ایم۔ایس سی کس میں کرنا؟"
"تمہاری مرضی۔"
"اوکے۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"اوئے نکمے تو۔"عاطف گھر آتے ہی عابر کو دیکھتے شروع ہو گیا۔عابر آج صبح ہی گھر آیا تھا۔اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ کیوں آیا ہے۔اور اب ہال میں مزے سے بیٹھا تھا۔
"ہاں۔"عابر کو کوئی افسوس نا تھا جبکہ عاطف تپا ہوا تھا۔
"ہاں......بڑے فخر کی بات ہے کیپٹن عاطف کا بھائی اور پاسنگ آؤٹ سے پہلے ہی نکل گیا۔
"پر ہوا کیا ہے؟"شیراز نے پوچھا۔
"ہوا.....سر جی اپنے میجر صاحب کو ایٹیٹیوڈ دکھا رہے تھے۔"
"ہیں عابر؟"عرینا نے پوچھا۔
"وہ بھی تو......"
"ہاں وہ بھی تو......اس نے ڈانٹ پلا دی اور آگے سے کہتا ایکسکیوزمی سر ہم اپنے ملک کی خاطر اپنی فیمیلیز چھوڑ کر آئے ہیں آپ سے انسلٹ کروانے نہیں۔"
"کیا کہا انہوں نے تمہیں؟"
"وہ چھٹیاں لی تھیں ناں چاچو کی ڈیتھ پر۔اس پر ہی شروع ہو گیا یہاں ہر سال ہمارے سامنے ہزاروں لاکھوں لوگ مرتے ہیں تم نے یونہی میرے چاچو میرے چاچو کہہ کر گھر کو بھاگنا ہے تو گھر ہی بیٹھو اور لڑکیوں کے آنسو پونچھو۔اس بات پر مجھے غصہ آ گیا۔"
"ہاں ہاں آپ تو بڑے لاٹ صاحب تھے نا غصہ آ گیا۔"عاطر نے کہا۔
"ویسے اس بات پر میں آپ کو فیور نہیں کرونگی عاطر بھائی.....اور نہ ہی عابر کو یہ واقعی میرے آنسو پونچھنے کو آرمی چھوڑ آیا ہے۔"
"ویسے اب صاحب زادے کرینگے کیا؟"حسیب صاحب نے فکر مندی سے پوچھا۔
"میں نئی کرنی آرمی دی نوکری آلو مٹر بیچ لاں گا(میں نے نہیں کرنی آرمی کی نوکری آلو مٹر بیچ لونگا)"وہ مستی سے بولا۔
"عابر بری بات کوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے۔"عرینا نے اسے ڈانٹا۔
"ویسے تم برا نا مناؤ ہونا یہی ہے جہاں جائے گا وہ لوگ پوچھیں گے نا کیوں کاکا کتھے ساں ہن تک(کہاں تھے اب تک) تب پتہ لگے گا جب بتانا جی آرمی والوں نے ڈنڈے مار کر نکالا ہے۔"عاطف نے غصے سے کہا تو عابر منہ بنا کر اٹھ کر چلا گیا۔
"عاطف بھائی کانٹ یو ڈو سم تھنگ فور ہیم۔"
"وہی دیکھنے تو آیا تھا پر اس کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔"
"اس طرح تو وہ چڑے گا ہی نا۔"عرینہ نے عابر کی وکالت کی۔
"کرتا ہوں بات پہلے اس کا تو پتہ چلے کہیں اگلی بار اپنے ساتھ میرا بھی کورٹ مارشل نہ کروا دے۔"
عاطف کسی کو فون کرتا باہر کی طرف چلا گیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"ارے یہ اتنی پیاری سی لڑکی کہاں سے آ گئی ہمارے گھر؟"عابر نے ربیعہ کی طرف دیکھتے کہا جو اس وقت عریشہ کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔
"عابی بھائی شرم کریں بھابھی ہیں یہ۔"
"لو میں نے کونسی لائن ماری ہے ان پہ جو مجھے شرم کرنے کا کہہ رہی ہو....میں نے تو تعریف ہی کی ہے۔ہے نا بھابھی؟"
"ہاں جی پتہ مجھے آپ کا کیا کرتے ہو آپ۔"
"ہائے......آج کل تو ویلا ہو گیا ہوں.....کچھ نہیں کرتا۔"
"کیوں؟"
"آرمی چھوڑ دی نا.....ویسے بھابھی آپ اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے اچھی سی چائے تو پلائیں مجھے۔"
"جی میں بنا کر لاتی ہوں۔"ربیعہ اٹھ کر چلی گئی۔
"مکھن لگانا تو کوئی آپ سے سیکھے....ویسے عابی بھائی آپ نے آرمی کیوں چھوڑ دی؟"
"نہیں بلکہ یوں سمجھو آرمی نے مجھے چھوڑ دیا بلکہ نکال دیا۔"وہ مسکرا کر بولا۔
"آپ آرمی کے کپڑوں میں اتنے اچھے لگتے تھے۔"وہ اشتیاق سے بولی۔
"میں.....آرمی میں واپس چلا جاؤں؟"عابر نے ایسے پوچھا گویا اسکی رائے سب سے اہم ہے۔عریشہ نے مسکرا کر سر ہلایا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ دوم💕💕
"لو ڈن ہو گیا......اب مجھے پاؤں بھی پڑنا پڑا میں واپس جاؤنگا۔"
"کیوں پاؤں پڑنا ضروری ہے کیا؟"
"پڑنا پڑے گا.....میں انہیں کافی ذلیل کر کے آیا ہوں۔"
"ہو ہائے.....آپ کو شرم نہیں آئی اپنے سے بڑے کو کچھ کہتے ہوئے۔"
"تم مجھے بِست کر رہی ہو۔"اس نے ہونٹ لٹکا کر پوچھا۔تو عریشہ نے سر اوپر نیچے ہلایا۔
"میری تو کوئی عزت ہی نہیں ہے کہیں بھی۔"
"آپ بڑے والے فوجی بن جائیں نا پھر سب آپکی عزت کرینگے۔ابھی تو آپ چھوٹے ہیں۔"عریشہ نے معصومیت سے کہا تو عابر ہنس پڑا۔
"تم سے تو خیر بڑا ہوں۔اور تم بھی بست کرتی ہو۔"وہ نروٹھے پن سے بولا۔عریشہ آگے سے ہنس پڑی۔عابر اس کے پاس پنجوں پر بیٹھ گیا۔
"عریشہ ایک بات بتاؤ؟"
"پوچھیں۔"
"تم مجھ سے دوستی کروگی؟"اس نے مستی سے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا۔
"جیسی دوستی فراز بھائی اور آپی میں ہے؟"
"ہاں۔ویسے ہی۔"
"نہیں۔"
"کیوں؟"عابر مظلومیت سے بولا۔
"کیونکہ آپ فراز بھائی جیسے نہیں ہیں۔"
"کیسے؟"وہ منہ پھلا کر بولا۔
"فراز بھائی بہت اچھے ہیں۔"
"اچھا.....میں اچھا نہیں ہوں؟"
"آپ اتنے اچھے نہیں ہیں۔"
"یار دیکھو تو کتنا ہینڈسم ہوں میں۔اتنا خوبصورت کزن ہے تمہارا ۔"
"بس......اور کیا خوبصورت ہے آپ کا شکل تو سب کی ہی اچھی ہوتی ہے۔"
"تم....کچھ زیادہ بڑی باتیں نہیں کرنے لگی۔"
"چھوڑیں میں اپنے کمرے میں چلوں....مجھے سردی لگ رہی ہے۔"
"چلو میں چھوڑ آتا ہوں۔"
"رہنے دیں.....سہارا ایک ہی ہونا چاہیے۔"وہ کہہ کر اپنی ویل چئیر گھسیٹتی اندر چلے گئی۔
اتنی چھوٹی عمر میں اتنا دکھیارا لہجہ۔عابر وہیں کھڑا رہ گیا۔پلٹا تو پیچھے عرینا کھڑی تھی وہ بھی اسی کی طرح گم صم تھی....جو ربیعہ کے کہنے پر عابر کے لیے چائے لے کر آئی تھی اور غالبا اس نے عریشہ کی آخری بات سن لی تھی۔
"وہ......وہ بھیا کا کیا موڈ ہے۔کچھ کرنے کا ارادہ ہے میرے لیے؟"
عابر نے اپنے لہجے میں بشاشت لاتے کہا۔
"ہیں....ہاں....وہ کرینگے کچھ....تم بات کر لو۔"عرینا اس سے کہہ کر اسے کپ پکڑا کر چلے گئی۔مگر دونوں کا ذہن عریشہ کے الفاظ میں ہی الجھا ہوا تھا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"یہ لو سائین کر دو۔میں نے فل کر دیا ہے فارم۔"رات فراز نے عرینا کے آگے ایم۔اے کا ایڈمیشن فارم رکھتے ہوئے کہا۔عرینا نے پین پکڑا۔
"دیکھ تو لو کیا لکھا ہے میں نے....کہیں دوسری طرف نکاح نامہ نہ ہو۔"
"فراز۔"اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہہ کر صفحہ پلٹا۔
"زولوجی.....چلے گا۔"
عرینا نے نام لکھ دیا۔فراز اٹھ کر جانے لگا تو عرینا بولی۔
"فراز بات کرنی تھی تم سے۔"
"ہاں بولو۔"وہ رک گیا۔
"باہر چل کر۔"دونوں لان میں آ گئے۔
"ہاں اب کہو۔"
"فراز.....عریشہ اپنی حالت کی وجہ سے بڑی اپ سیٹ ہے۔بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہے۔اور پھر اس کا سکول وغیرہ اس طرح تو وہ کنٹینیو نہیں کر سکے گی۔"عریشہ کا آٹھویں جماعت کا رزلٹ آ چکا تھا۔عرینا اسے آگے پڑھانا چاہتی تھی مگر وہ ہاں ہی نہیں کر رہی تھی۔
"اس کی فکر نا کرو میں اسے کانویڈ میں کروا رہا ہوں۔"
"میں اسے بورڈنگ نہیں بھیجونگی۔"عرینا تڑپ کر بولی۔
"بورڈنگ نہیں ڈے سکالر ہی رہے گی وہ۔ذرا پڑھا لکھا ماحول ہے وہاں کا اسے کوئی تنگ بھی نہیں کریگا۔"
عرینا نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"عرینا تمہیں کوئی شہزادی یاد ہے؟"وہ آفس سے آیا تو اس سے پوچھنے لگا۔
"نہیں......کیوں؟"وہ ذہن پر زور دے کر بولی۔
"آج یونيورسٹی میں تمہارا ایڈمیشن کروانے گیا تھا وہاں ملی تھی ایک لڑکی....کہہ رہی تھی کراچی سے واپسی پر ملے تھے....میں مروت میں سر ہلا گیا ورنہ یاد تو نہیں آیا مجھے۔"
"اچھا.....وہ شہزادی نے شہرزاد ہو گی....وہی جو ٹرین میں فیملی ہمارے ساتھ تھی نا جب کراچی سے آرہے تھے میں اور تم....کیا کہہ رہی تھی؟"
"ہیں....پتہ نہیں کہہ رہی تھی شاید ایڈمیشن کروانے آئی تھی۔"
"اچھا میرے ایڈمیشن کا بتاؤ؟"
"ہو گیا ہے۔یہ رہی تمہاری رولنمبر سلپ۔اگلے پیر سے کلاسسز ہیں۔شام کو چل کر بکس لے آئینگے۔"
"فراز میں چلی جاؤنگی تو عریشہ کا خیال کون رکھے گا؟"
"بھئی اس ٹائم وہ خود سکول ہوا کرے گی اور پھر امی ہیں ناں۔"
"بڑی امی کیسے سنبهال سکتی ہیں۔اب وہ کافی بڑی ہے۔"
"چلو ایسا کرتے ہیں.....کیسا کرتے ہیں.....چلو تمہیں ڈرائيور رکھ دیتا ہوں میں۔میری گاڑی فارغ ہی رہتی ہے تم جب فارغ ہو جایا کرو واپس آ جایا کرنا۔کیا خیال ہے؟"
"ٹھیک۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
دونوں بہنیں جانے لگی.....باقی سب بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔زندگی کب کسی کے لیے رکتی ہے۔یہ تو چلتی رہتی ہے۔دنیا کا دستور ہی یہی ہے ایک آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ہاں جو چلا جاتا ہے اس کا خلا کوئی پر نہیں کر سکتا۔اس کی کمی زندگی کے ہر موڑ پر رہتی ہے۔
پر جانے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔چاہتے نا چاہتے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانا ہی پڑتا ہے۔نہیں تو پیچھے سے آنے والی گاڑیاں آپ کو کچلتے ہوئے آگے نکل جاتیں ہیں اور آپ کے ہاتھ سوائے خسارے کے کچھ نہیں آتا۔
ان دونوں بہنوں نے بھی وقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔جو کہ نہایت مشکل امر ہے۔پر جب تک انسان وقت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا وقت کے چکر میں پھنسا رہتا ہے۔اور یہ دونوں خود کو کنویں کا مینڈک بنا کر نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔
عریشہ کو کانویڈ کا ماحول بہت پسند آیا وہ بہت خوش تھی۔
اسٹاف اس کا بہت خیال رکھتا۔عرینا کو بھی تسلی ہو گئی۔
عریشہ نویں جماعت میں تھی جب عابر کی پاسنگ آؤٹ تھی۔گھر کے ہر فرد کے لیے انویٹیشن آیا تھا۔اور فون علیحدہ۔
"عریشہ تم نے ضرور آنا ہے۔میں نے سارڈ آف آنر لیا ہے۔دیکھنا جب ملے گا کتنا خوبصورت لگوں گا۔"
"اچھا مبارک ہو۔"
"تم بتاؤ تم آؤ گی نا؟"
"دیکھوں گی۔"
"عریشہ پلیز کلئیر بتاؤ تنگ نا کرو۔"
"بھئی میں صاف انکار نہیں کر سکتی۔"
"عریشہ۔"
"ویسے بھی میں نے سنا ہے آپ آرمی والے اپنی پاسنگ آؤٹ پر جان بوجھ کر زیادہ سے زیادہ اپنے رشتے داروں میں لڑکيوں کو انوائیٹ کرتے ہیں۔کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟"
"تمہاری قسم یار میں نے تو صرف تمہیں بلایا ہے۔اور تمہاری مروت میں تمہاری بہن کو بلانا پڑ گیا۔"
"بھئی مجھے آپ سے ہمدردی ہے کہ آپ کی کزنز میں لڑکيوں کی تعداد اتنی کم ہے۔"
"کیوں میرے ماموں خالاؤں کی لڑکیاں بھی تو ہیں۔پھر تمہاری ممانی مفتی دل و جان سے فدا تھیں مجھ پر۔مگر میں نے صرف تمہیں بلایا۔اب میں اگر واویلا نہیں کرتا تو اسکا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں کسی سے کم ہوں۔"
"خیر یہ کوئی واویلا کرنے والی بات بھی تو نہیں ہے کہ جی ہم پر لڑکياں مرتی ہیں یہ تو شرم کی بات ہے کہ ہم لڑکيوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔"
"تم آ رہی ہو؟"لہجہ سپاٹ تھا۔
"کہا نا دیکھوں گی۔"
"ٹھیک.....میں بھی دیکھونگا۔"اور اس نے فون بند کر دیا۔عریشہ فون رکھتے ہوئے ہنس پڑی۔
"عریشہ۔"عرینا نے اسے پکارا۔
"جی۔"
"عابر کا فون تھا,تم اس کے ساتھ اتنا روڈلی کیوں بولتی ہو؟"
"بس یونہی۔"وہ مسکرا کر بولی۔
"میں اسے کسی غلط فہمی میں نہیں ڈالنا چاہتی۔اینڈ ہی فیس دا رئیلٹی۔"
"اور رئیلٹی کیا ہے؟"
"رئیلٹی.....چھوڑیں....میں آتی ہوں۔"
عریشہ نے اب بیساکھی کے سہارے چلنا شروع کر دیا تھا۔عرینا الجھ کر رہ گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
عرینا کے ایم۔اے پارٹ ون کے ایگزامز ہونے والے تھے جب بابا جان نے ربیعہ اور شیراز کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔
"بابا جان میرے پیپر سر پر ہیں اور آپ نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔"عرینا نے شکوہ کیا۔
"بیٹا جی شادی آپ کے پیپرز کے بعد ہی ہو گی۔"
"صرف دو دن.....اور میں شادی کی تیاریوں میں تو کچھ نہیں کرسکتی ناں....میرے بڑے بھائی اور میری دوست کی شادی ہے اور مجھے تیاری کرنے کا بالکل بھی ٹائم نہیں ملے گا تو میں کیا کرونگی؟"
"اچھا آپ بتا دو آپ کا کیا ارادہ ہے۔"
"بابا جان بس ایک ہفتہ ڈیلے کر لیں میں تب تک فارغ ہو جاؤنگی۔"
"ٹھیک ہے جی جیسے آپ کی مرضی۔"
بابا جان نے عرینا کی بات مان لی اور پھر سب شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔
"عرینا لاسٹ پیپر والے دن تم کس لڑکی سے بات کر رہی تھی؟"شیراز اور ربیعہ کے لیے کی گئی شاپنگ دیکھتے فراز نے پوچھا۔
"وہ.....وہ شہرزاد ہی تھی....وہی جو تمہیں ایڈمیشن کے وقت ملی تھی....کیوں؟"
"ہوں.....مجھے لگ رہا تھا دیکھی دیکھی ہے....تم نے اسے شادی پر بلایا ہے؟"
"میں اسے شادی پر بلا لوں؟"
"ہاں اچھا ہے تمہیں کمپنی ہو جائے گی.....ویسے بھی یہاں لڑکیاں بہت کم ہیں۔"
عرینا نے غور سے اس کے تاثرات دیکھے مگر وہاں کوئی پسندیدگی نہیں تھی۔
"ٹھیک ہے.......فون کر دونگی۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
مہندی کی رات بڑی گہما گہمی تھی۔شیراز کے کئی دوست آئے تھے ساتھ ان کی بہنیں اور والدائیں جس کی سب سے بڑی وجہ تو اس گھر کے بے تحاشہ لڑکے تھے۔ اب تو ماموں کے چار لڑکے خالہ کے تین بھی آ گئے تھے۔پھر شیروان بھی مروتاََ آ ہی گیا تھا۔
ربیعہ کی دونوں بہنیں بھی اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ آگئیں تھیں۔ان کے شوہر مروت میں آ تو گئے تھے مگر منہ دونوں کے پھولے ہوئے ہی تھے۔ربیعہ دونوں بہنوں سے مل کر بہت خوش ہوئی سال بعد جو مل رہی تھی۔
بابا جان نے سارا انتظام خود کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ کلثوم اور ہما پر کسی قسم کا کوئی بوجھ ڈالیں۔
عرینا اور ربیعہ نے ایک جیسا ڈریس بنوایا تھا۔دونوں پیلے سوٹ اور گیندے کے گجروں میں گیندے کے پھول ہی لگ رہی تھیں۔
ربیعہ کے لیے ساری شاپنگ عرینا نے ہی کی تھی۔
اور عریشہ نے سبز رنگ کا سوٹ پہنا تھا۔
چونکہ ربیعہ اور شیراز کا نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا تو اس لیے دونوں کی اکٹھی مہندی کی جا رہی تھی۔
"یہ لو تم نے گجرے نہیں پہنے۔"عریشہ بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی نے اس کی گود میں گجرے رکھے۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
"تم.....آپ.....یہاں کیا کر رہے ہیں؟"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
💕💕حصہ سوم💕💕
"کیا مطلب میرے بھائی کی شادی ہے میں نہیں آ سکتا کیا؟"
"نہیں.....میرا مطلب پاسنگ آؤٹ سے پہلے کیسے....کہیں پھر تو نہیں نکالے گئے۔"
عابر آگے سے مسکرایا:"میری پاسنگ آؤٹ کو ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے۔"عریشہ شرمندہ ہو گئی۔عابر نے آرام سے اس کا ہاتھ پکڑ کر گجرے ڈالے۔
"اور سناؤ پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟"عریشہ اب میٹرک میں ہو گئی تھی۔
"ٹھیک ہے۔"عریشہ ان موتیے اور گلاب کے خوبصورت گجروں کو چھیڑتے بولی۔
"کانویڈ میں جا کر روڈ ہو گئی ہو تم......مذید۔"عابر ہنس کر بولا۔"کانویڈ میں بھی حسن کے چرچے ہونگے تمہارے جبھی مغرور ہو گئی ہو۔"
"مغرور.....غرور کرنے کے لیے میرے پاس ہے ہی کیا.....کچھ ایکسٹرا کوالٹیز ہوں تو غرور آتا ہے میں تو نارمل بھی نہیں ہوں۔ہاں احساس کمتری کی وجہ سے دبی ہوئی ضرور ہوں۔"عریشہ دلگرفتگی سے بولی تو عابر نے تڑپ کر پہلو بدلا۔اس طرح تو عریشہ عرینا کے سامنے بھی دل نہیں کھولتی تھی جس طرح عابر کو بتا دیتی تھی۔
"احساس کمتری اور دبی ہوئی اور وہ بھی تم......توبہ عریشہ کم جھوٹ بولو....تم اور دبی ہوئی....سیکنڈ لیفٹینٹ عابر حسیب کو تم ذلیل کر دیتی ہو اور ابھی تم دبی ہوئی ہو۔"
"ویسے ایک بات کہوں.....آپ آرمی میں جا کر بھی ڈیسنٹ نہیں ہوئے۔"
"دیکھو تم نے کہا تھا میں آرمی میں چلا جاؤں تم میری عزت کرو گی۔"
"غلط....میں اتنی بھی چھوٹی نہیں تھی مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا آپ بڑے والے فوجی بن جاؤ پھر سب آپ کی عزت کرینگے۔"
"مجھے تو لگتا ہے تم تب بھی نہیں کرو گی۔"
"کیوں؟"
"پھر کبھی بتاؤنگا۔"عابر کی آنکھوں میں جو دھنک کا رنگ اترا اور اس کے ہونٹوں کی کھلتی مسکان کسی بھی لڑکی کو بہار کا پیغام دے سکتی تھی مگر عریشہ کے لیے وہ خوشی کا باعث نہیں تھا۔
عرینا دوپٹہ ٹھیک کرو اپنا۔"فراز نے عرینا سے کہا۔
"ٹھیک تو ہے۔"اس نے دوپٹہ ٹھیک سے سر پر اوڑھا ہوا تھا پھر بھی فراز نے ایسا کہا تو اسے حیرانگی ہوئی۔
"سر پر ٹکاؤ۔"
"اوکے.....سر پر ہی تھا گر گیا ہے.....دانت کیوں پیس رہے ہو۔"
"فراز ویسے شیراز بھائی کے بعد تمہاری باری ہی ہے۔"عاطر نے فراز سے کہا۔
"ہاں۔"فراز نے دلفریب مسکان سے عرینا کی طرف دیکھتے کہا تو عرینا شرما گئی۔
"اچھا.....یعنی تیار ہو۔"
"ہاں۔"وہ کاندھے اچکا کر بولا۔
"سچی....کون.....فراز ہمیں بھی بتاؤ۔"
"بتا دونگا ابھی وقت تو آنے دو میری شادی کا۔"
"فراز پلیز ابھی بتاؤ.....بلکہ تم نے ملوایا نہیں اس سے۔"
"عاطر ادھر آ ذرا۔"عاطر کو کسی نے بلایا تو وہ چلا گیا۔
"تم تو روز ملتی ہو نا اس سے؟"فراز نے اس کی طرف دیکھتے پوچھا۔
"کون.....مجھے کیا پتہ تم کس کی بات کر رہے ہو۔"عرینا صاف مکر گئی۔
"ہاہاہا....ہے کوئی جھلی۔"عرینا مسکرا دی۔
"ربیعہ تم پہلے تو خوبصورت تھی ہی پر آج تو حسین ترین لگ رہی ہو۔"
شیراز نے سب سے نظریں بچا کر پہلو میں بیٹھی اپنی بیوی کی تعریف کی۔تو ربیعہ شرم سے لال ہو گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
اگلی صبح عرینا ربیعہ کو پارلر لے کر چلے گئی۔ادھر سے ہی پھر دونوں نے ہال چلی جانا تھا۔فراز ان کو پارلر چھوڑ آیا تھا۔
مہندی کا انتظام گھر کے لان میں ہی کیا گیا تھا جبکہ بارات کے لیے ہال میں بکنگ کروائی گئی تھی۔
بارات میں ماشاءالله لڑکے ہی لڑکے تھے۔عرینا,عریشہ,حنا,حرا اور حرا کی امی اور بڑی امی۔
ماموں مفتی کی درِ شہدار اور درِثمین,درِنجف کی شادیاں ہو چکی تھیں وہ نہیں آئیں تھیں۔
پھر عاکف کی خالہ کی دو بیٹیاں تہمینہ اور ثمینہ۔
ماموں اکبر کی تین بیٹیاں صبیحہ,نازیہ,فوزیہ اور ان کی والدائیں۔
ربیعہ کی دو بہنیں۔صرف یہ خواتین تھیں باقی سب مرد حضرات ہی تھے۔
ربیعہ کو شیراز کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔اس وقت ربیعہ نے مہرون کلر کا لہنگا پہنا تھا جو سارا کام سے بھرا ہوا تھا۔شیراز نے اوف وائٹ سوٹ کے اوپر مہرون رنگ کی شیروانی پہنی تھی۔
دونوں ہی اس وقت بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
دودھ پلائی کی رسم ربیعہ کی دونوں بہنوں نے کی۔بابا جان نے دونوں کے لیے سونے کی انگوٹھیاں بنائی تھیں جو شیراز نے دودھ پلائی کی رسم میں ان دونوں کو دیں۔
ربیعہ کو شیراز کے خوبصورت پھولوں سے سجے کمرے میں لا کر بٹھا دیا گیا۔
عرینا اس کو بٹھا کر جانے لگی تو ربیعہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"عرینا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"جی تو کیا کہنا ہے میری بھابھی نے مجھ سے۔"عرینا پھر سے اس کے پاس بیٹھ گئی جبکہ باقی سب باہر چلی گئیں۔
"عرینا کلثوم آپا کہہ رہی تھیں کہ ان کے شوہر ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو بابا جان کی سانگلہ ہل میں واقع فیکٹری میں جاب دلائے۔آپا نے منع کر دیا تو انہوں نے کلثوم آپا کو طلاق کی دھمکی دی ہے۔جس کے باعث وہ بہت پریشان ہیں۔
آپا نے مجھے آج ہی بتایا۔مجھے کہتی میں واپس جا رہی ہوں اس سے پہلے کہ ان کے شوہر یہاں کوئی مسئلہ کھڑا کریں۔
تو عرینا تم فراز بھائی سے بات کرو کہ وہ آپا کے شوہر کو کچھ سمجھائیں۔
میں شیراز سے کہہ دیتی پر وہ تو غصے کے بہت برے ہیں پتہ نہیں کیا کر دیں ان کے ساتھ۔"
"ہاہاہا.....تمہیں کیا لگتا ہے فراز غصے والا نہیں ہے....ارے وہ تو غصے میں بابا جان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے....ویسے میں بات کرونگی فراز سے....تم پریشان نہیں ہو....اوکے گڈ نائٹ۔"
"اوکے گڈ نائٹ۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شیراز جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا بیڈ خالی تھا۔شیراز نے ادھر ادھر دیکھا۔وہ زمین پر تشہد میں بیٹھی تھی۔جانے کیوں اس کے لبوں پر مسکان آ گئی۔پھر سنجیدہ ہو کر کھنگارا۔وہ ایک دم پزل ہو کر کھڑی ہو گئی۔شیراز کی طرف اس کی پشت تھی۔
"میں نے سنا تھا دلہن بیڈ پر بیٹھی ہوتی ہے یہ تم کیا انوویشن کر رہی ہو؟"شیراز اس کے سامنے آیا۔
"اؤے تم رو رہی ہو.....وجہ؟....اتنے ہینڈسم لڑکے کو پھنسا کر اب آنسو بہا رہی ہو....تمہیں تو کم از کم خوش ہونا چاہیے....اچھا یہ بتاؤ رو کیوں رہی ہو؟"
"کچھ نہیں....وہ بس امی ابو کی یاد آ گئی تھی۔"
"دیکھو ربیعہ میں مانتا ہوں کہ ماں باپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا....پر میں تمہیں اتنا یقین دلاتا ہوں کہ تمہیں یہاں ان کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔یہاں تمہیں ماں اور باپ دونوں کا پیار ملے گا....ساتھ میں ایک بونس بھی ملے گا۔"
"وہ کیا؟"
"میں اور کون۔"شیراز نے شوخ لہجے میں کہا تو ربیعہ مسکرا دی۔
"اچھا تو پھر آپ ہال میں بیٹھے لڑکیوں کو کیوں غور سے دیکھ رہے تھے؟"
"اللہ توبہ....تم تو ابھی سے ہی بیویوں جیسے شک کرنے لگ پڑی ہو مجھ پر...بھئی میں ون وومن مین ہوں اور وہ ون وومن تم ہو چکی ہو.....اب ہو گئی تسلی؟"
"جی....میں شک کب کر رہی تھی آپ پر۔"وہ دھیرے سے مسکرائی اور اٹھلا کر بولی۔
"اچھا چلو اسی خوشی میں ادھر آؤ۔"شیراز نے اپنے بازو پھیلا دیے تو ربیعہ ان میں سمٹ گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
اگلی صبح ناشتے کی میز پر شیراز کی بشاشت سے پہلے تو سب حیران ہو رہے تھے کہ ہر وقت سنجیدہ رہنے والا شیراز آج خود ہی مسکرا رہا ہے۔
سب دبے دبے مسکرانے لگے مگر جو حال عرینا کا تھا ہنسی روکنے کی کوشش میں لال ٹماٹر ہو رہی تھی۔جب اس نے نوالہ منہ میں ڈالنے کے لیے منہ کھولا تو اس کا قہقہہ چھوٹ گیا۔
باقی سب جو اب تک روکے بیٹھے تھے وہ بھی کھل کر ہنسنے لگے۔
ربیعہ تو اچھی خاصی پزل ہو گئی اور اٹھ کر کچن میں چلے گئی جبکہ شیراز بھی ان کے ساتھ مل کر ہنسنے لگا۔
ولیمے پر بھی شیراز کے قہقہے سب ہی محسوس کر رہے تھے۔
ساتھ بیٹھی پستہ رنگ کی میکسی میں ربیعہ کسی ملکہ سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
بابا جان دونوں کو خوش دیکھ کر مطمئن ہو گئے کہ انہوں نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا اپنے بیٹے کے لیے۔
اور انہوں نے دل ہی دل میں دونوں کو خوش رہنے کی دعائيں دیں۔
ربیعہ بہت ملنسار محبتوں کی پیاسی تھی اور دوستوں کی بھوک سی تھی جو عرینا کی صورت پوری ہو گئی۔اس لیے اب وہ ان محبتوں کو سینچ سینچ کر رکھ رہی تھی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
گھر میں کافی رونق ہو گئی تھی مہمانوں کے آنے سے۔
پر پھر ایک ایک کر کے سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔عاطف اور عابر بھی چلے گئے۔
"ربیعہ اب اگر تم جاب نا بھی کرو تو خیر ہے۔میری مانو تو آفس جانا چھوڑ دو اب۔"شادی کے ہفتے بعد جب شیراز آفس جانے لگا تو اس نے ربیعہ سے کہا۔
ربیعہ نے خود ہی گزشتہ رات آفس چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔کیونکہ کل بابا جان نے اسے کہا تھا کہ آپ آفس کی بجائے گھر رہو۔ہمیں آپ کی کمائی کی ضرورت نہیں۔پہلے آپ کی مجبوری تھی مگر اب نہیں۔آپ کو جو چاہیے گھر بیٹھے ہی مل جائے گا۔تو اس نے نا جانے کی ہامی بھری تھی۔بس آج کے دن جانا تھا اور جا کر اپنی چیزیں وغیرہ دے دینی تھی۔
"آپ مجھے آفس چھوڑنے کا اس لیے کہہ رہے ہو تاکہ وہاں موجود لڑکيوں کو گھور گھور کر دیکھ سکو۔"ربیعہ جان بوجھ کر شیراز کو ستانے لگی۔
"اللہ توبہ....تمہیں میں ایسا لگتا ہوں۔"
"ہاں جی بالکل۔"
"تو پھر جاؤ خود ہی آفس میں نہیں لے کر جا رہا تمہیں۔"
ربیعہ آفس جانے کے لیے تیار ہو گئی۔مگر شیراز آرام سے لیٹا رہا۔
ربیعہ باہر آ کر بابا جان کے ساتھ آفس چلے گئی۔
جبکہ شیراز اس کے جانے کے بعد تیار ہو کر آفس گیا اور ادھر ان دونوں کی جھڑپ ہو گئی۔
اس طرح کی چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں دونوں کی۔
گھر والے انجوائے کرتے کہ چلو تھوڑی بہت رونق تو ہوتی ہے نا گھر میں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
No comments:
Post a Comment