#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو
( عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر )
#دوسری_قسط
#از_صالحہ_منصوری
" نایاب ۔"
وہ لائبریری سے نکل رہی تھی جب اذان نے اسے آواز دیتے روکا ۔ نایاب نے مڑ کر دیکھا تو وہ دیوار سے ٹیک لگائے مسکراتا ہوا کھڑا تھا ۔
" یس ہینڈسم بوائے ۔" وہ اس کے پاس چلی آئی ۔
" یہ ہاتھ میں کیا ہے ۔؟" اذان نے اس کے ہاتھ میں موجود مختلف نوٹس دیکھ کر پوچھا تو وہ بے اختیار نوٹس اپنے پیچھے چھپا گئی ۔
" وہ ۔۔۔ وہ کچھ خاص نہیں ۔" نایاب نے بہت مشکل سے اپنے تاثرات نارمل رکھے کیوں کہ وہ نوٹس اگلے سمسٹر کے تھے ۔ دوستی اپنی جگہ لیکن چاہے جانے اور سب سے زیادہ بلند رتبہ پانے کی چاہ اپنی جگہ ۔ نایاب جانتی تھی کہ اذان کے علاوہ اور کوئی پوزیشن نہیں لے سکتا مگر اسے ایک موہوم سی امید تھی کہ کاش ۔۔ کاش وہ کسی طرح اذان سے بہتر پرفارم کر کے دکھاۓ ۔
" اچھا ۔۔۔" اذان کی تیز نظروں نے اسے بھانپ لیا تھا ۔" ان نوٹس کی مجھے ضرورت نہیں ۔" وہ بے پرواہ سا بولا تو بے ساختہ نایاب کے منہ سے کچھ نازیبا الفاظ نکل گئے ۔ اذان ہنسنے لگا مگر پھر فورا ہی سنجیدہ ہو گیا ۔
" اوکے نایاب لسن ۔۔ " اذان کو سنجیدہ ہوتے دیکھ کر نایاب چونک گئی ۔
" ہاں بولو ۔"
" زیادہ لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا ۔ مجھے ۔۔۔ " وہ ایک لمحے کو رک کر نایاب کے چہرے کا جائزہ لینے لگا ۔" مجھے اس لڑکی کا کونٹیکٹ چاہئے جو دعا کی انگیجمنٹ میں تمہارے ساتھ آئی تھی ۔"
" وہاٹ ۔؟؟" نایاب کا منہ کھل گیا ۔ " تت ۔۔ تم اس کا کونٹیکٹ کیوں حاصل کرنا چاہتے ہو ۔؟"
" تمہیں اس سے کیا ۔؟" وہ ابرو اٹھائے بولا ۔
" اذان تم ۔۔۔ " نایاب کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے ۔" تم جانتے بھی ہو کہ کون ہے وہ ۔؟"
" جان لوں گا ۔" وہ ڈھیٹ سا اپنی جینز کی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا رہا ۔
" وہ میری کزن ہے اذان ۔" نایاب کا پارہ چڑھ گیا ۔" اور وہ مجھ جیسی فری مائنڈ نہیں ہے وہ بہت الگ ہے ۔ " اس کی آنکھوں میں آیت کا چہرہ آ گیا ۔
" تمہارے خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ تم زارون کے ساتھ کنیا کماری کی ٹرپ پر جاؤ ۔" اذان نے اطمینان سے اپنی گہری نگاہیں نایاب پر جما دیں ۔
" اذان ۔" نایاب نے اسے غصّے سے گھورا ۔
" بےبی اگر تم نہیں چاہتی کہ وقت سے پہلے زارون کو تمہارے خوابوں کا علم ہو تو تم مجھے اپنی کزن سے کل ہی ملواؤ گی ۔ کیسے ، کہاں یہ تمہارا سر درد ہے ۔" اذان دیوار کا ٹیک چھوڑ کر سیدھا ہوا ۔
" ویسے نام کیا ہے اس کا ۔؟"
" آیت ۔" نایاب نے بےبسی سے کہا تو وہ سر کو ہلکا سا خم دیتا ہوا دوسری جانب بڑھ گیا ۔
***
" آیت تم یہیں رکو میں ایک کال کر کے ابھی آئی ۔" نایاب نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
" ارے یار ۔۔" آیت نے اعتراض کیا ۔
" بس پانچ منٹ ۔" وہ معذرت کرتی ہوئی اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔ آج نایاب نے آیت کو اپنے گھر پر انوائٹ کیا ہوا تھا ۔ سب لوگ ویسے بھی آج کسی رشتے دار کی طرف گئے ہوئے تھے تو نایاب کے لئے اچھا موقع تھا ۔ وہ زارون کو چاہتی تھی لیکن زارون سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنا ہوا تھا ۔ ایسے حالات میں وہ زارون کو اپنے خوابوں سے با خبر کر کے شرمندہ نہیں ہو سکتی تھی تو اس نے اذان کی بات مان لی اور اگلے ہی دن آیت کو گھر بلا لیا ۔
" جاؤ بھونک لو جو بھونکنا ہے ۔" نایاب کمرے کے باہر کھڑے اذان سے مخاطب ہوئی جو اس کی بات سن کر دل کھول کر ہنسا تھا ۔
" اذان ۔۔ " ابھی اذان نے کمرے میں داخل ہونے کے لئے اپنے قدم اٹھائے ہی تھے کہ نایاب نے اسے روکا ۔" پلیز اذان جو کہنا ہے کہہ لینا لیکن کوئی بدتمیزی ہرگز نہیں ۔"
" تمہیں میرے الفاظ سے نہیں عمل سے جواب مل جائے گا ۔" اذان سنجیدگی سے کہتا کمرے میں داخل ہوا ۔ آیت کی پشت دروازے کی طرف تھی ۔ گہرے نیلے رنگ کے دھاگوں سے کام کی ہوئی سفید شلوار قمیص میں ملبوس وہ دوپٹہ شانوں پر لئے اپنے کھلے بال پشت پر ڈالے ہوئے بیٹھی تھی ۔ سامنے آئینہ ہونے کے سبب اذان کی نظر بے اختیار اس پر پڑی ۔ گوری رنگت ، لمبی گھنی پلکیں ، گلابی ہونٹ جو موبائل پر کچھ پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ متحرک تھے ۔ خود پر کسی کی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے اس نے گردن موڑی تو سامنے اذان کو کھڑا دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں ۔ اس نے جھٹ دوپٹہ سر پر لیا اور خشمگین نگاہوں سے اسے گھورنے لگی ۔
" آپ ۔؟"
" آیت ۔" اس نے پرسکون انداز میں ایک لفظ ادا کیا ۔ آیت جتنی شاک تھی اذان اتنا ہی پرسکون سا تھا ۔ آیت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ موصوف دروازے پر ہی کھڑے تھے سو وہ کمرے سے باہر بھی نہیں جا سکتی تھی ۔
" آپ کیوں میرے راستے میں آ جاتے ہیں ۔؟" اذان کی چھا جانے والی پرسنالٹی اور اس کی گہری نظریں خود پر برداشت کرنا آیت کے لئے بہت مشکل تھا جب کہ دوسری طرف اذان کے دل میں ایک انجان جذبے نے سر اٹھایا تھا جسے اذان کوئی نام دینے سے قاصر تھا ۔ وہ قدم قدم چلتا آیت کے مقابل آ ٹھہرا ۔
" تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔"
" کیا بات کرنی ہے ۔؟" وہ نظریں ملائے بغیر گویا ہوئی ۔
" بات چند لفظوں کی نہیں ہے جو کہہ کر ختم کر دوں ۔۔ " اذان کا لہجہ اب بھی پر سکون تھا لیکن اس اب کی بار اس کے لہجے میں ہلکی سی آنچ بھی تھی ۔ وہ دو قدم اور آگے آیا اور آیت کے بازوؤں کو پکڑ کر اسے خود کے مقابل کیا ۔ " میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، نہیں جانتا کہ کیوں ۔۔ لیکن جب سے تمہیں دیکھا ہے تم سے دور نہیں ہونا چاہتا ۔" وہ آیت کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا جب وہ اپنی بات مکمّل کر چکا تو آیت نے اسے پیچھے ڈھکیلا ۔
" دور رہیں مجھ سے ۔" وہ چیخی تو اذان جیسے کسی سحر سے باہر نکلا وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا اور آیت کے چہرے کو دیکھا جو کچھ خوف اور غصّے سے سرخ ہو چکا تھا ۔ آیت نے اسے پیچھے ہوتے دیکھا تو فوراً کمرے سے باہر کی طرف لپکی لیکن ابھی وہ دروازے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ اذان نے جلدی سے آگے آکر اس کی کلائی تھامی اور اپنی جانب کھینچا ۔
" پلیز لیٹ می گو ۔" آیت کی بند آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ اذان کی گرفت میں موجود وہ انجانے ڈر سے لرز اٹھی تھی ۔ دوپٹہ کھینچے جانے کی وجہ سے سر سے ڈھلک چکا تھا ۔ اذان چند لمحے کے لئے جیسے مسمرائز ہو گیا اس نے بےساختہ اپنے گال آگے کئے اور آیت کے آنسوؤں پر رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں اس طرح کرنے سے اذان کے ہونٹ آیت کے کان کے قریب ہو گئے ۔
" آیت ۔" ایک لفظ تھا جو اب اس کا ورد بن چکا تھا ۔ چند لمحے وہ رکا رہا پھر اسے چھوڑ کر تیزی سے باہر چلا گیا ۔
***
" کیوں میں اتنا بے خود ہو گیا ۔؟ کیوں نا چاہتے ہوئے بھی اسے ہرٹ کر گیا ۔؟" اذان آیت سے مل کر ایک سنسان سڑک پر اپنی بائیک تیز رفتار سے دوڑاتا ہوا خود سے الجھ رہا تھا ۔
" کیا وہ مجھ سے دور چلی جائے گی ۔؟" دل کے کسی گوشے سے ایک سوال ابھرا اور اذان کے پاؤں یکلخت بریک پر پڑے ۔
" نہیں ۔۔ میں اسے کبھی خود سے دور جانے نہیں دوں گا ۔ غلطی میری ہے تو اسے فکس بھی مجھے ہی کرنا ہے ۔" وہ نہایت بے چینی کے عالم میں تھا اور اسی الجھن میں اس نے نایاب کو کال کی تاکہ آیت کا ردعمل جان سکے ۔ نایاب تو جیسے بھری بیٹھی تھی پہلی ہی رنگ پر فون اٹھا لیا ۔
" کہا تھا ناں کچھ الٹا سیدھا مت کرنا لیکن وہ اذان ہی کیا جو میری بات سن لے ۔ اب وہ مجھ سے بھی بات نہیں کر رہی تم نے اس کی نظروں میں مجھے ہی بے اعتبار کر دیا ۔"
" اوہ ۔۔" اذان بس ایک گہری سانس لے کر رہ گیا اور اذان کی اس " اوہ " نے نایاب کا پارہ اور چڑھا دیا ۔
" وہاٹ اوہ اذان ۔۔ ناؤ ٹیل میں تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ۔؟" وہ آج صرف جواب سننا چاہتی تھی جواباً اذان نے اسے پوری روداد بیان کر دی ۔
" میں نہیں جانتا کس طرح میں اسے ہرٹ کر گیا ۔۔۔ ٹرسٹ می نایاب میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ۔۔" وہ بائیک پر آگے کی طرف جھک کر سر بازو پر ٹکائے بولا ۔
" تم واقعی اس سے محبت کرتے ہو ۔؟" کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد نایاب نے پوچھا ۔
" محبت ۔؟؟" اذان نے زیر لب کہا ۔ جہاں اذان نے اپنی بائیک روکی تھی وہیں کچھ فاصلے پر بنجارے آ بیٹھے تھے ۔
" اذان ۔۔" نایاب نے اسے خاموش پا کر دوبارہ پوچھا لیکن وہ اسے نہیں سن رہا تھا وہ ان بنجاروں کو دیکھنے لگا جو اپنا ساز نکال کر کچھ گنگنانے لگے تھے ۔
" عشق فنا بھی عشق بقا ہے۔
عشق مرض بھی عشق شفا ہے۔
عشق درد بھی عشق دوا ہے،
عشق جفا بھی عشق وفا ہے۔
عشق ہے مقتل ولی صفت کا،
عشق کہیں پر طور بنا ہے۔ " اذان مکمّل طور پر ان کی طرف متوجہ ہو چکا تھا ۔
" عشق خدا کے قرب کا ذریعہ ،
عشق محبت راہِ خدا ہے۔ "
وہ لوگ اب یہی شعر بار بار دہرا رہے تھے اور اذان کسی ایسی کیفیت سے دو چار تھا جو اس نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔
" تم ٹھیک تو ہو ۔؟ اذان ۔۔۔ میری آواز آ رہی ہے تمہیں ۔؟" نایاب بار بار پوچھ رہی تھی ۔
" آ ۔۔ ہاں ۔" اذان نے اپنی آنکھیں چند لمحوں کے لئے بند کر کے دوبارہ کھولیں ۔
" میں نے کچھ پوچھا تھا تم سے ۔" نایاب کا لہجہ اب بھی اکھڑا اکھڑا سا تھا ۔
" مجھے اس سے محبت نہیں ۔۔ " اس کی آنکھوں کے سامنے بنجارے اب بھی موجود تھے ۔" مجھے اس سے عشق ہے ۔" اذان نے اتنا کہہ کر فون کاٹتے ہوئے اپنی جیب میں ڈالا اور ایک مرتبہ پھر بنجاروں کو دیکھ کر مسکراتا ہوا بائیک سٹارٹ کرتے تیز رفتار کے ساتھ وہاں سے چلا گیا ۔
***
" اذان اذان ۔۔۔۔ " وہ نوجوانوں کا ایک جم غفیر تھا جو بائیک ریس میں حصّہ لینے والوں میں سے اپنے پسندیدہ شخص کا نام چیخ چیخ کر لے رہا تھا ۔ ان میں اکثریت اذان کے شیدائیوں کی تھی ، کچھ وہ تھے جو یونیورسٹی کی بدولت اسے جانتے تھے اور جو نہیں جانتے تھے اس سے ملنے کا شوق رکھتے تھے ۔ ظاہر تھا کہ ایک امیر کبیر باپ کا اکلوتا بیٹا جو ہر طرح کی خوبیوں سے مالامال اور نہایت قابل ہو اس سے تعلق استوار رکھنا فخر کی ہی بات تھی ۔ اذان نے جب سے یونیورسٹی جوائن کی تھی کوئی ریس ایسی نہ ہوئی جس میں اس نے حصّہ نہ لیا ہو ۔ آج بھی وہ ریس کا حصّہ بنا ہوا ہمیشہ کی طرح پرجوش سا تھا مگر اس کے چہرے پر ایسی چمک تھی جو آج سے پہلے کسی نے اس کے چہرے پر نہیں دیکھی تھی۔ آج بھی وہ تیز رفتار سے بائیک کو گویا ہوا میں اڑاتا ہوا ریس کرنے میں مگن تھا اور کچھ دیر بعد وہ ریس جیت کر ریسٹ کرنے روم میں آیا تو سامنے ایک لڑکی کو بیٹھا دیکھتے چونک گیا۔
" Congratulations... "
وہ مسکرا کر گویا ہوئی ۔ یہ ہما تھی اس کی کلاس میٹ اور اکثر اذان کی توجہ خود کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتی رہتی ۔
" تھینکس ۔۔ اب تم جاؤ مجھے آرام کرنا ہے ۔" اذان نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا تو وہ اٹھ کر اس کے قریب آ گئی ۔
" کیوں تم اتنا روڈ رہتے ہو ۔؟ "
بلیک جینز اور ٹی شرٹ پر جیکٹ پہنے اذان نے اسے گھور کر دیکھا جو اسکرٹ میں ملبوس اسے دیکھنے میں مگن تھی ۔ اور قریب تھا کہ وہ اس کی جیکٹ کے بٹنز سے چھیڑ چھاڑ کرتی اذان نے اس کا ہاتھ جھٹکا ۔
" شرم آنی چاہئے ایک لڑکی ہو کر دعوت گناہ بنی ہوئی ہو ۔" اس نے سخت لہجے میں کہا تو ایک پل کو ہما بھی حیران رہ گئی ۔
" اذان ۔"
" وہاٹ اذان ۔۔ " وہ سرخ آنکھیں لئے اسے گھور رہا تھا ۔ ہما بے اختیار دو قدم پیچھے ہوئی پھر ایک دم اسے دھکا دے کر باہر کی طرف بھاگی ۔ اذان نے تھکے ہوئے انداز میں شانے اچکائے اور سامنے موجود بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گیا ۔
***
No comments:
Post a Comment