Friday, 16 August 2019

Tumhari Madh Aur mera Qalam Ho ||Episode#10

#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو 
( عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر ) 
#دسویں_قسط 
#از_صالحہ_منصوری 

رات کا پچھلا پہر تھا ۔ کمرے میں پھیلی ہوئی مدھم سنہری روشنی اور کھڑکی سے باہر شور مچاتی بارش نے الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا ۔ ایسے میں اذان تہجد کی نماز ادا کئے قبلہ رخ ہو کر چپ چاپ بیٹھا تھا ۔ مرجھایا چہرہ ، گلابی ہوتی آنکھیں ، سوکھے ہونٹوں پر جمی پپڑیاں اور منہ سے نکلتی گرم سانس جو آہ سی محسوس ہوتیں ۔ اسے کئی دنوں سے بہت تیز بخار تھا لیکن اس حال میں بھی وہ بلا ناغہ تہجد بھی ادا کرتا تھا ۔ کہتے ہیں نا تہجد پر ہمیں ہماری محبت بیدار کرتی ہے ۔ آپ لاکھ کوشش کریں ، ہزار الارم لگا لیں ، کتنے ہی لوگوں کو کہہ کر سوئیں کہ مجھے نماز کے لئے جگہ دینا لیکن اگر آپ کا ایمان آپ کی محبّت کامل نہیں تو آپ کبھی نہیں جاگ سکیں گے مگر وہ جن کے دل نور ایمان اور محبت سے منوّر ہوتے ہیں نا وہ تہجد میں بیدار ہو ہی جاتے ہیں ۔ اہل محبّت کا حال عام لوگوں سے الگ ہوتا ہے اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقی عشق میں مبتلا ہونے والے کو قبر کی مٹی نقصان نہیں پہنچاتی ۔ کتنے ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جن کی قبریں کبھی شق ہوئی تو دیکھا گیا کہ وہ قرآن پڑھ رہے ہیں ، نماز پڑھ رہے ہیں ۔۔۔ یہ سب کیوں ہوا ۔۔۔؟ صرف اخلاص سے ، ایمان سے ، محبت سے ، محبت ایمان کی تکمیل کرتی ہے ۔ ایمان ہے اللّه اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو بنا دیکھے سچ ماننا ، دل سے یقین کرتے ہوئے زبان سے اقرار کرنا اور محبت ہے کہ ایمان کی حدّت کو قلب میں اتنا اجاگر کر لینا کہ نور خداوندی کے ماسوا کچھ بھی خیال و گمان باقی نا رہے ۔ اپنے آپ کو خالص اللّه اور اس کے رسول کی محبّت و اطاعت میں غرق کر لینا ، اپنے ہر ہر قول و فعل میں نبی پاک ﷺ کی سنّت کا خیال رکھنا اور یہ خیال ہمیشہ قائم رکھنا کہ کل ہمیں اللّه ﷻ کو ہر چیز کا حساب دینا ہے ۔ لوگوں سے سہولت کا معاملہ کرنا اپنے ایذاء دیں تب بھی یہی سوچ کر معاف کر دیں کہ پیارے آقا علیہ السلام کو شاید ہمارا یہی عمل پسند آ جائے اور کل قیامت میں وہ ہمارا نام لے کر کہیں کہ ہاں یہ ہے میرا امّتی ، 
کون نہیں چاہے گا کہ کل بروز قیامت جب اللّه عزوجل اپنے قہر و غضب کے ساتھ ہم سے ہمکلام ہو گا ، جو یہاں محبّت کا دعویٰ کرتے ہیں کل ہمیں پہچاننے سے بھی انکاری ہوں گے ، ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو گا ایسے میں رحمت اللعالمین کہیں گے کہ آ جاؤ میں اسی لئے ہوں میں تمہاری شفاعت کروں گا ۔۔۔۔ ہاں ہاں تم میرے امّتی ہو ۔۔۔۔ 
ذرا تصور کرو کہ ہر طرف سے مایوسی کے بعد جب وہ شفیع المذنبین ، امام المرسلین ، خاتم النبین ﷺ ہمیں اپنی ردا میں چھپا لیں گے اس وقت کیا کیفیت ہو گی ۔ صحرا میں بھٹکنے والوں سے پوچھو کہ جب پانی میسّر آتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ، جب ڈوبتے ہوئے کو کنارہ ملتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ، جب کسی بے بس کو یہ کہا جائے کہ ہاں تمہارے لئے رحمت کے تمام دروازے کھول دئے گئے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔ بنا محبّت کے کئے گئے ہزار سجدوں پر محبّت کا ایک آنسو بھاری ہوتا ہے ۔ نبی کی تعظیم کے بنا ادا کی گئی برسوں کی عبادت پر محبت سے پڑھا گیا ایک درود بھاری ہوتا ہے ۔

" میرے اللّه ﷺ ۔" اذان کے لبوں سے الفاظ آزاد ہوئے ۔ " میرا ماضی بہت سیاہ تھا اللّه ، اتنا کہ آج پیچھے دیکھتا ہوں تو کچھ بھی نظر نہیں آتا کوئی عمل ایسا نہیں دکھائی دیتا جسے سہارا بنا کر خود کی تسلّی کا سامان کر سکوں ، مولا تو نے آیت کے ذریعے مجھے اپنی طرف راہ دی تو اب گمراہ نا ہونے دینا ، جسے تو نے میرے لئے روشنی بنائی اسے میرے لئے اندھیرا مت بنانا ، میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے کس حال میں ہے لیکن تو علیم و خبیر ہے ، اس کی حفاظت فرمانا مولا ۔" اذان کے الفاظ دم توڑ گئے اور ہچکیاں سی بندھ گئی ۔ دعا کے لئے اٹھے ہاتھ ایک جھٹکے سے نیچے آ گرے اور وہ آگے جھک کر زار زار رونے لگا ۔ تبھی اس کے کانوں میں فجر کی اذان گونج گئی ۔ 

" اللّه اکبر اللّه اکبر ۔" 

کون ہے اللّه ۔؟ وہی جو ہر ہر لمحہ اس کے ساتھ رہا تھا ۔ آنسو اور شدت سے بہنے لگے تھے ۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب اس نے سڑک کے کنارے بیٹھ کر بغور اذان سنی تھی ۔ دونوں ہی وقت اذان کی حالت قابل رحم تھی ۔ وہ اس وقت بھی رویا تھا اور اس وقت وجہ تھی کہ اس نے اپنی زندگی میں اللّه کو نہیں جانا ، اور آج بھی وہ رو رہا تھا اور وجہ تھی کہ وہ اللّه کو کھو دینے کے ڈر سے خود کے گمراہ ہونے کے ڈر سے رو رہا تھا ۔ ہم میں کون ہے جو وثوق سے کہہ سکے کہ ہاں ہم اسلام کے معاملے میں کامل ہیں ۔؟ کون کہہ سکتا ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہی ہوگا۔ ؟ لیکن ۔۔۔۔

نبی ﷺ سے محبت رکھنے والوں کے دلوں پر اللّه ایمان نقش فرما دیتا ہے اور کبھی بھی عالم نزع ان پر بھاری نہیں ہوتا ، ان کا خاتمہ ایمان پر ہی ہوتا ہے اور یہ میں نہیں کہتی یہ خود اللّه رب العزت فرماتا ہے کہ : 

" تو نا پاۓ گا انہیں جو اللّه اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں ان کے دلوں میں ایسوں کی محبت جنہوں نے اللّه اور اس کے رسول سے مخالفت کی ، چاہے وہ ان کے باپ ، بیٹے ، بھائی یا عزیز ہی کیوں نا ہوں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللّه نے ایمان نقش فرما دیا ۔" ( 58:22 ) 

تو جب اللّه نے نقش فرما دیا تو کیسے ممکن ہے ایمان دلوں سے مٹ جائے ۔ اللّه کا لکھا کبھی نہیں مٹتا اور یہی چیز حسن خاتمہ کی بشارت ہے ۔ مؤذن کی مترنم آواز جب تک فضا کو مسحور کرتی رہی تب تک اذان روتا رہا ۔ مؤذن جب اپنے کلمات ادا کر چکا تو اذان نے بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے ۔ دعائے اذان کے بعد اس نے دعا کی : 

" اللھم انّی اسئلک المعافاة فی الدنیا ولآخرہ ۔" 

ترجمہ : اے اللّه میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ 

یہ وہ دعا ہے جو نبی کریم ﷺ اکثر پڑھا کرتے تھے ۔ اور یہ دعا اسے صادق نے سکھانے کے ساتھ ساتھ تلقین کی تھی کہ ہر اذان کے بعد اسے پڑھ لیا کرنا کیوں کہ یہ ایک ایسی دعا ہے جو دنیا اور آخرت کی بھلائی اور تمام دعاؤں کا مجموعہ ہے ، ہم جو چاہتے ہیں اور جو ہمارے حق میں بہتر ہو اللّه قبول فرما لے گا ۔ اذان نے دعا پڑھ کر چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ساتھ ہی آنسو بھی صاف کر ڈالے ۔ وہ نماز فجر پڑھ کر انگریزی ترجمے والا قرآن لے کر بیٹھ گیا ۔ وہ بے سکون تھا اور چاہتا تھا کہ کوئی اسے سکون دے ، وہ یہ بات جانتا تھا کہ سکون اللّه کی یاد میں ہے اور وہ تمام الجھن جو اسے در پیش ہے اللّه ہی سننے والا ہے ۔ وہ سمیع ہے ۔ تم اپنی پریشانی اسے بیان کرو اور پھر قرآن لے کر بیٹھو ۔۔۔ دیکھنا تم دوران قرات کوئی ایسی آیت ضرور پڑھو گے جو تمہارے مسئلے کا حل ہو گی ۔ مجھ پر یقین مت کریں خود تجربہ کریں ۔ اذان بھی حق تعالیٰ ، سمیع البصیر کے روبرو بیٹھا قرآن حکیم پڑھتے ہوئے اس سے ہم کلام تھا اور سکون آہستہ آہستہ اس کی رگ و پے میں سرایت کرتا جا رہا تھا ۔

***

صبح سات بجے کا وقت تھا جب اذان نے دروازے پر دستک کی آواز سنی ۔ وہ تلاوت کے بعد تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا تھا اور اب سات بجے نا جانے کس نے آکر اسے بیدار کر دیا ۔ وہ اٹھا اور دروازہ کھولتے ہی اپنے سامنے صادق کو کھڑا پایا ۔ 

" السلام علیکم ۔" صادق اس کے گلے لگ گیا ۔ " کیا ہوا میرے بھائی سب خیریت ہے ناں ۔؟ تم فجر میں مسجد کیوں نہیں آے ۔" وہ کافی پریشان سا لگ رہا تھا ۔ اذان اس کی اس حرکت پر مسکرا دیا ۔ 

" وعلیکم السلام میرے بھائی بس آج ہمّت نہیں ہوئی ۔" اب وہ اسے کیا بتاتا کہ رات کے چار بجے سے تیز بخار ہونے کے باوجود وہ جاگ رہا تھا ۔ کب فجر طلوع ہوئی اسے علم تب ہوا جب نماز کا وقت آیا ۔ 

" خیر ہے اذان ایک کال کر دیتے ، میں کب سے ٹرائے کر رہا تھا مگر تم فون اٹھاؤ تب ناں ۔" صادق اب کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ چکا تھا ۔ 

" میرا فون ۔۔ " اذان نے اپنی جینز کی جیب تھپتھپائی ۔ " اوہ وہاں ہے ۔" اس نے میز پر رکھے فون کو اٹھایا اور دیکھا تو فون سائلنٹ پر تھا ساتھ ہی صادق کی پانچ مسڈ کال شو ہو رہی تھیں ۔ 

" سو و و و و و و سوری ۔" اذان نے سو کو کچھ زیادہ ہی کھینچ کر ادا کیا تو صادق ہولے سے مسکرایا ۔

" سوری ووری کچھ نہیں تمہاری حالت دکھائی دے رہی ہے کہ کتنی بہتر ہے ، چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ ہمیں مسجد جانا ہے ۔" 

" کیوں ۔؟" اذان حیران ہوا ۔

" میں آٹھ سے دس تک بچوں کو دینیات پڑھاتا ہوں ۔ مسجد کے باہر جو ایک کمرہ ہے ناں ۔۔۔ وہیں ۔" صادق نے رسانیت سے بتایا تو اذان مسکرا کر رہ گیا وہ جانتا تھا کہ سب صادق کو ٹالنا مشکل ہے ۔ صادق اسے اپنے ساتھ اس لئے لے جانا چاہتا تھا کہ اس کا دل بہل جائے اور وہی ہوا پورے راستے صادق اور اذان مختلف باتیں کرتے ہوئے آے ۔ جب وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچے تو اذان نے دیکھا وہ ایک سادہ سا کمرہ تھا جہاں چند چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔ ایک طرف پانی بھرا ہوا مٹی کا بڑا مٹکہ تھا تو دوسری طرف کھلی سی الماری تھی جہاں سے کچھ کتابیں دکھائی دیتی تھیں ۔ 

" کتنی فیس لیتے ہو ۔؟" اذان نے صادق سے پوچھا جو اب زمین پر بچھی چٹائی کے کنارے بیٹھ چکا تھا ۔ 

" مطلب بچوں سے ۔؟" اس نے سوالیہ انداز میں ابرو اٹھائی تو اذان نے اثبات میں سر ہلایا ۔

" کچھ بھی نہیں خالص اللّه کے لئے کام کرتا ہوں ۔" وہ مسکرا کر گویا ہوا تو اذان کا منہ کھل گیا ۔ 

" یہ اچھی بات ہے لیکن ۔۔۔" اذان کچھ کہتے کہتے رک گیا تو صادق نے اسے بغور دیکھا ۔ 

" اذان جو کام اللّه کے لئے کئے جاتے ہیں ناں ان پر نا ہی اجرت طلب کی جاتی ہے اور نا ہی جنّت کی لالچ ۔۔ بلکہ کام صرف اس کی رضا کے لئے کیا جاتا ہے ۔ اصل محبت میں کبھی پانے کی چاہ نہیں ہوتی بلکہ فنا ہو جانے کی طلب ہوتی ہے ۔ پتا ہے اذان میرا دل کیا کہتا ہے ۔" اذان اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔ ابھی بچے نہیں آے تھے تو وہ پر سکون انداز میں کہہ رہا تھا ۔ 

" میرا دل چاہتا ہے اذان کہ کچھ ایسا کر جاؤں کہ کل کو جب موت آے ناں تو نبی پاک ﷺ کی زیارت کروں۔ عالم تصور ہی صحیح بس ایک بار وہ چہرہ ضرور دیکھوں جس کی قسم اللّه قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ۔ تم نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ : 

واللیل تیرے سایئے گیسو کا تراشا ، 
والعصر تیری نیم نگاہی کی ادا ہے ۔

بس ایک بار میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں ، میری زندگی کی سب سے بڑی حسرت ہے کہ آخری سانس پر مجھے اللّه ﷻ کے حبیب ﷺ کا دیدار ہو ۔ میں نعت خواں ہوں اذان اور یہ میرا وجدان کہتا ہے کہ میری یہ دعا ضرور قبول ہوگی ۔" 

وہ دور کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہ مرکوز کئے کہتا جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ اذان کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور ایک گولو مولو خوبصورت سا بچہ کمرے میں جھانک کر گویا ہوا ۔

" السلام علیکم صادق بھائی ، کیا ہم آ جائیں ۔؟" 

" آ جاؤ ۔" صادق نے مسکرا کر سلام کا جواب دینے کے بعد کہا ۔ بچے اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے پورا دروازہ کھولتے ہوئے آگے آ گیا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا ۔ بچے اپنا روز کا سبق دہرا دہرا کر سنانے لگے ۔ صادق چہرے پر نرم سی مسکراہٹ لئے سب کی باتیں سن رہا تھا ۔ 

" نہیں یہ ایسا نہیں و اطیعوا اللہ ۔۔۔ طا ۔۔۔ طا کا مخرج صحیح کرو پیارے یہ اللّه کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے۔" صادق نے درس کے بیچ ہی ایک بچے کو ٹوکا ۔ 

" اللّه کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ۔؟" اذان نے اسے نا سمجھی سے دیکھا ۔ " الگ الگ کیوں ۔؟" 

" بتاتا ہوں درس پورا ہو جائے ۔" صادق اتنا کہہ کر دوبارہ درس میں مشغول ہو گیا ۔ جب درس پورا ہوا تو صادق کے گرد تمام بچے بیٹھ کر اس سے نعت سنانے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ 

" اچھا ٹھیک ہے پہلے کچھ بتانا ہے ۔" صادق نے اذان کے ساتھ سب کو مخاطب کیا ۔ " دیکھو قرآن میں لکھا ہے کہ اطاعت کرو اللّه کی اور اطاعت کرو رسول کی کوئی بتاۓ گا کہ کیوں الگ الگ کہا گیا ۔؟" اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ 

" میں بتاؤں ۔؟ " ایک ننھے سے بچے نے کہا جو کہ اپنی کم عمری کے باعث صادق کا لاڈلا تھا ۔

" ہاں بتاؤ ۔" 

" کیوں کہ قرآن اور حدیث الگ الگ ہے ناں ۔" بچے نے اپنی عمر کے حساب سے کافی دانائی کے ساتھ جواب دیا ۔ 

" ہمم ۔۔۔" صادق کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔" بالکل ٹھیک کہا لیکن واضح میں کرتا ہوں ۔۔۔ دیکھو قرآن میں ہے کہ اللّه کی اطاعت کرو اور نبی کی اطاعت کرو ہے ناں ۔۔۔ پیاروں یہ سامنے کی بات ہے کہ اللّه کو مانو گے نبی کو نہیں مانو گے تو اللّه تک کیسے پہنچ سکو گے ۔ جیسے مثال کے طور پر سمجھو کہ ہم وضو کرتے ہیں قرآن میں لکھا ہے کہ " جب تم نماز کا ارادہ کرو تو دھوؤ اپنے چہروں کو ۔" اب دیکھو وضو سے پہلے ہمیں ہاتھ گٹھوں تک دھونے ہوتے ہیں ، پھر ہم وضو کرتے ہیں اگر ہم ڈائریکٹ پانی میں ہاتھ ڈال کر منہ پر مار لیں تو پانی تو پانی ہمارا منہ بھی مائع مستعمل سے آلودہ ہوجائے گا ۔ ہم حدیث کے ذریعے یعنی پہلے نبی کی اطاعت کے ذریعے وضو کرتے ہیں وضو کرنا اللّه کی اطاعت ۔۔۔ سمجھے یعنی نبی سے ہو کر ہی اللّه کا راستہ ملتا ہے ۔ صرف قرآن مان لینے سے اور حدیث چھوڑ دینے سے اللّه نہیں ملنے والا ۔۔۔ کیوں کہ قرآن اللّه کی راہ ہے لیکن یہ راستہ نبی سے ہو کر گزرتا ہے ۔ سمجھے اب ۔؟" اس نے استفسار بھری نظروں سے اذان کو دیکھا جس کا چہرہ کھل اٹھا تھا ۔ 

" سہارا چاہئے سرکار زندگی کے لئے ، 
تڑپ رہی ہوں مدینے کی حاضری کے لئے ۔" صادق نے ان سب کے اصرار پر نعت پڑھنا شروع کی ۔ کہتے ہیں جب پڑھنے والے ، سننے والے اہل تقویٰ ہوں تو الفاظ دلوں پر اپنا اثر ضرور ڈالتے ہیں اچانک ہی صادق نے نعت پڑھنے کے بیچ میں ہی کہا۔ 

" اب اگلا جو شعر ہے میں چاہتا ہوں کہ سب گنبد خضریٰ کو تصور کرتے ہوئے سنیں بہت اچھا لگے گا انشاء اللّه تعالیٰ ۔" 

اذان نے اپنی آنکھیں بند کی تو سامنے ہی وہ سبز گنبد جلوہ نما ہو گیا جس کی چھاؤں میں بے چین دل راحت پاتے ہیں ، جس کے در و دیوار سے نور جھلکتا ہے ، جہاں کسی سائل کو سوال نہیں کرنا پڑتا ۔ اسی لمحے صادق کی آواز اس کے کانوں میں پڑی : 

" صبا مدینے تو جا کر نبی سے کہہ دینا ،
ترس رہی ہیں یہ آنکھیں تیری گلی کے لئے ۔" 

یہ شعر سننا تھا کہ اذان کا ضبط جواب دے گیا اور وہ سر جھکائے خاموشی سے آنسو بہانے لگا ۔ اسے کبھی کبھی اپنا آپ بہت کمتر محسوس ہوتا کہ اتنے گناہ کے بعد بھی نبی کریم ﷺ نے اس سے محبت کی ، وہ خود کو اس قابل سمجھتا ہی کب تھا لیکن صادق نے اسے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر ایک آنسو بھی ذکر نبی میں بہا تو سمجھ جانا کہ نبی ﷺ کو تم سے اور تمہیں ان سے محبت ہے اور آج اذان رو رہا تھا ، گناہگار سہی ،بدکار سہی لیکن امّتی تھا ۔ یہی سہارا اس کی کل کائنات تھا ۔ دوسری طرف صادق کی آواز بھی اس شعر کو ادا کرتے ہوئے بیٹھ گئی ۔ حلق میں آنسوؤں کا گولہ سا پھنسنے لگا اور ساتھ ہی وہ مقطع ادا کرنے کے بعد باہر کی طرف چلا گیا ۔ وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے تھے لیکن اپنے آنسو چھپا چھپا کر رکھتے اس ڈر سے کہ کہیں ریا میں نا شمار ہو جائیں اور یہ تو بات حق ہے کہ ایمان بیم و رجاء کے درمیان ہے ۔ کچھ دیر بعد اذان کمرے سے باہر نکل کر صادق کو ڈھونڈنے نکلا تبھی اس کا فون بج اٹھا ۔ 

" ہیلو ۔۔" کان سے فون لگائے وہ اب بھی متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ 

" کہاں ہے تو ۔؟" سامنے سے جمیل کی استفسار کرتی آواز آئی ۔ 

" میں ذرا باہر آیا ہوں۔۔۔ تو بول کیا ہوا ۔؟" اذان نے پوچھا تو جمیل چپ سا ہو گیا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح بتائے آیت مل گئی اور آیت کے متعلق جاننے کے بعد اس کا کیا رد عمل ہوگا ۔ 

" بول نا ۔؟" اذان نے دوبارہ کہا ۔

" اذان ۔۔۔ بھائی آیت مل گئی ہے ۔" وہ اس ایک جملے کو تیزی سے ادا کرتے ہوئے گویا ہوا ۔ دوسری طرف اذان کے کان میں جیسے ہی یہ لفظ پڑے وہ اپنی جگہ سن سا ہو کر کھڑا رہ گیا ۔ 

" آ ۔۔ آیت ۔" اس کی زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا ۔

" ہاں اذان ۔۔ آیت میرے گھر پر ہے ۔" جمیل نے اسے تمام حالت سے آگاہ کیا اور شام میں آنے کا کہہ کر فون رکھ دیا ۔ اذان ابھی تک ساکت کھڑا تھا پھر اچانک ہی ایک جھٹکے سے اس کا پورا وجود زمین پر قبلہ رخ ڈھے گیا ۔ اسے تب ہوش آیا جب صادق نے آکر اس کا شانہ ہلایا ۔

" اذان ۔۔ اذان ۔۔ اٹھو یہاں سے ۔۔ تم ٹھیک تو ہو ۔؟" وہ اسے زمین سے اٹھانے لگا جو سر بسجود بس ایک ہی ورد کر رہا تھا ۔ 

" تیری ذات پاک ہے مولا ، بیشک تو ارحم الراحمین ہے ۔" 

***

شام میں وہ جمیل کے ساتھ ان کے گھر پہنچ گیا ۔ توصیف کو علم نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی آ جائے گا اسی لئے وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی ۔ آیت اپنے کمرے میں تھی سو اسے کچھ خبر نا ہوئی کہ اذان اسے لینے آیا ہے ۔ وہ اب بھی خاموش بیٹھی سوچوں میں گم تھی جب دروازے پر ایک انجان سی دستک ہوئی ۔ 

" آ جائیں ۔" اسے لگا شاید توصیف یا جمیل ہوں گے لیکن نوارد کو دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔ وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی پلکیں جھپکاتے ہوئے یقین کرنا چاہا کہ وہ جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ خواب نہیں ہے ۔ اذان آنکھوں میں نمی اور چہرے پر نرم مسکراہٹ لئے سامنے موجود تھا اور ہمیشہ کی طرح اس نے ایک نظر آیت کو دیکھ کر اپنی نگاہ جھکا لی تھی ۔ آیت پورے دس دنوں بعد وہ کسی اپنے کو دیکھ رہی تھی ۔ اسے اتنے دنوں کی احتیاط کے بعد آج حفاظت کا احساس ہوا تھا اور اسی احساس کو محسوس کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بہہ نکلیں ۔ 

" آؤ گھر چلتے ہیں ۔ " اذان سے کچھ بن نا پڑا تو اس نے یہی کہا ۔ آیت چپ چاپ اس کی اقتداء میں پیچھے چلتی ہوئی ہال میں آ گئی جہاں توصیف اور جمیل دونوں ہی موجود تھے ۔ اذان توصیف سے بغل گیر ہوا ۔

" تھینک یو یار ۔۔ تیرا احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔" 

" تو نکل گھر سے ۔۔۔ دوست بھی کہہ رہا ہے اور تھینکس بھی کہہ رہا ہے ۔" توصیف نے اسے ایک مکہ رسید کیا تو وہ ہنس پڑا ۔ آیت نے ان دونوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجازت لی اور پھر اذان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے گھر کی طرف روانہ ہو گئی ۔ 

***

جاری ہے ۔ 

السلام علیکم پیارے ریڈرز ، 

" تمہاری مدح اور میرا قلم ہو ۔" لکھتے ہوئے مجھے بالکل احساس نا تھا کہ اسے اتنی پزیرائی ملے گی ، لیکن شکریہ ان لوگوں کا جو اتنے عرصے میرے ساتھ رہے مگر آج میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں ۔۔۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ میرا نظریہ غلط ہے عقیدہ غلط ہے تو مجھے دلیل دو ۔ میں نے جتنی باتیں بھی لکھیں ان کے حوالہ جات بھی دئے ۔ حدیث لکھی کتاب کا نام بتایا ، آیت لکھی تو پارہ اور سورہ بھی بتائی لیکن جب اعتراض کرنے والوں سے کچھ بن نا پڑا تو میرا پیج رپورٹ کر دیا ۔

_تیرے حسد سے جو مشہور ہوئے خوب ہوئے ۔


مگر اس پر بھی مجھے کوئی غم نہیں ہے ، تم پیج رپورٹ کرو گے میں واپس لکھوں گی اور صرف لکھ کر تو تبلیغ نہیں ہوتی، میں بیان کرتی ہوں لوگ سنتے ہیں اور اصلاح کرتے ہیں ، ان کے دلوں میں عشق احمد روشن ہوتا ہے ، ہاں بیشک یہ میرا کوئی کمال نہیں لیکن میں اپنے مخالف کھڑے ہونے والوں کو اتنا ضرور کہنا چاہوں گی کہ ایک بات یاد رکھیں میں عزت ، شہرت اور دولت کے لئے نہیں لکھتی میں صرف حق کی روشنی بننا چاہتی ہوں ۔ آپ مجھے روک سکتے میرے مقصد کو نہیں روک سکتے۔ میں آج ہوں کل نہیں ہوں گی لیکن میرا خداوند کئی ایک صالحہ بنا دے گا بلکہ مجھ سے بھی بہتر ۔۔۔ تب آپ کیا کرو گے ۔ میرے سر پر میرے مرشد کریم کا ہاتھ ہے اور مجھے یقین ہے یہ سر کسی باطل کے آگے نہیں جھکے گا ۔ میری ساتھ تعاون کرو یا پھر الگ ہٹ جاؤ ۔ مولا ہدایت دے ۔

No comments:

Post a Comment