#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو
( عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر )
#گیارہویں_قسط
#از_صالحہ_منصوری
جس وقت اذان آیت کو لے کر اس کے گھر پہنچا وہاں نایاب پہلے ہی موجود تھی ۔ وہ آیت کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی ۔ اذان اسے گھر چھوڑ کر واپس جا چکا تھا وہ جلد از جلد اپنی خوشی کو امام صاحب کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا ، وہ انہیں بتانا چاہتا تھا کہ ہاں اس کی دعا قبول کر لی گئی ہے ۔ جس وقت وہ امام صاحب کے پاس آیا تو وہ صادق کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے بیچ ایک بڑی سی کتاب کھلی ہوئی تھی اور صادق نہایت خاموشی سے انہیں سن رہا تھا ۔ امام صاحب کسی چیز کی وضاحت کر رہے تھے ۔
" اور میں تمہیں بتاؤ ۔۔ جب لاترفعوا اصواتکم آیت نازل ہوئی تو صحابہء کرام گھبرا گئے اور اتنی پست آواز میں بات کرنے لگے کہ حضور علیہ السلام کو دوبارہ دریافت کرنا پڑتا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ۔۔۔۔ " اذان خاموشی سے چلتا پاس آ بیٹھا ۔ امام صاحب مسلسل کہہ رہے تھے ۔
" تو یہ سب کیا ہے ۔؟ یہ ادب ہے کیوں کہ قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے کہ نبی کریم ﷺ کے حضور اپنی آواز پست رکھو انہیں ایسے القاب سے نا پکارو جن سے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ایسا نا ہو کہ تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اور آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ صرف نبی نبی کہہ کر اپنی بات پوری کرتے ہیں کبھی حضور صاحب کہتے ہیں کبھی جناب صاحب ۔۔۔ معاذاللہ تعالیٰ ثم معاذ اللّه ۔۔۔ بڑے بڑے مولویوں کو دیکھا جو دارالعلوم چلاتے ہیں یوٹیوب پر آتے ہیں اور بے ادبی کرتے ہیں ۔۔۔۔ مجھے حیرت ایسے لوگوں پر نہیں بلکہ افسوس ان کے ماننے والوں پر ہے کہ کیسے بے ادب گستاخ کو اپنا پیر مولوی بنا لیا ۔۔۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں مت مانوں بلکہ اللّه اور رسول کے طریقے پر جسے پاؤ اس کی پیروی کرو ۔۔۔۔ "
" لیکن لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آسان الفاظ نا ہو تو بھاگ جاتے ہیں کہتے ہیں یہ گاڑھی زبان والے مولوی آ گئے فتوے دینے ۔۔۔" امام صاحب خاموش ہوئے تو صادق نے سوال اٹھایا ۔
" برخودار ۔۔۔ آسان زبان ہی استعمال کرو ، اچھے اخلاق استعمال کرو لیکن حضور ﷺ کا نام جب بھی لو درود کے ساتھ لو اور ادب سے لو ۔۔۔ جس محبوب خدا کو خود خداوند خوبصورت القاب سے نوازے ، جس حبیب علیہ السلام کے درجے رب العزت خود بلند کرے پھر ہم اور آپ اس حبیب کے درجے میں کیسے کمی کر سکتے ہیں ۔۔۔؟ ابھی آیت سے بتایا کہ حضور پاک ﷺ کو ایسے نا پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو ورنہ اعمال اکارت ہو جائیں گے تو اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل چاہئے ۔۔۔۔ صرف نام کے پہلے حضرت اور اسم مبارک کے بعد صلی اللّه تعالیٰ علیہ وسلم کہہ دینے میں اور ادب کے دائرے میں رہ کر آپ علیہ السلام کی گفتگو کرنے میں کون سی دقت ہے کہ جان حلق پر آ گئی ۔۔۔؟ میں بتاؤ یہ دقت نہیں دل کی منافقت ہے ۔۔ اور جان لو کہ بارگاہ الہی میں کوئی بھی عمل خواہ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نا ہو اعمال کے اکارت ہونے کا سبب نہیں بنتا لیکن جو وجہ اعمال کے ضائع ہونے کا سبب ہے وہ کفر ہے تو ثابت ہوا کہ جو نبی ﷺ کا گستاخ ہے وہ بے ادب کافر ہے اور یہ بھی ہم خود سے نہیں کہہ رہے بلکہ " صحابہ کا عشق رسول از قلم اکرم رضوی " اور تفسیر کی کتابوں میں درج ہے ۔۔۔ " امام صاحب سانس لینے رکے کچھ دیر بعد انہوں نے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔
" جب ہم حضور علیہ السلام کے تبرکات دیکھنے جاتے ہیں تو اسی لئے درود پڑھتے ، ادب سے ، لرزتے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں کہ کہیں بے خبری میں کوئی بے ادبی نا واقع ہو جائے کیوں کہ آپ ﷺ کے تبرکات جو ہیں وہ آپ ہی کی ذات سے منسوب ہیں جیسے موئے مبارک جب ہم دیکھتے ہیں تو ادب کرتے ہیں کیوں کہ یہ سرکار کے جسم اطہر کا حصّہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم حدیث شریف پڑھتے ہیں تو با ادب بیٹھ کر پڑھتے ہیں کیوں کہ خواہ کہنے والا ، درس دینے والا کوئی اور ہے لیکن کلام تو حضور پاک صلی اللّه تعالیٰ علیہ وسلم کا ہے ۔ بھئ ہم باوضو بیٹھیں ، ادب سے بیٹھیں تو یہ مدرس کی خاطر نہیں بلکہ جو کلام پڑھا جا رہا ہے جو حدیث ہم سن رہے ہیں یہ اس حبیب پاک صلی اللّه تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم ہے ۔ اس لئے جب درس حدیث ہو تو بغور سنو بلا وجہ نا بولو، اگر حدیث شریف سمجھ نہیں آئی تو درمیان میں نا ٹوکو بلکہ حدیث پوری ہونے پر سوال کرو کیوں کہ اگر ادب نہیں تو یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ ۔۔۔
بے عشق محمّد ﷺ جو پڑھاتے ہیں بخاری ،
آتا ہے بخار ان کو بخاری نہیں آتی ۔ " امام صاحب اتنا کہہ کر رک گئے تو صادق نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سامنے موجود کتاب اٹھا کر آنکھوں سے لگائی اور پھر اسے رکھنے چلا گیا ۔ امام صاحب صادق کے جانے کے بعد اذان کی طرف متوجہ ہوئے جو مسکراتے ہوئے انہیں ہی دیکھ رہا تھا ۔
" بہت خوش لگ رہے ہو ماشاء اللّه تعالیٰ ۔؟" انہوں نے سلام کے بعد کہا تو اذان کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی ۔
" الحمدللہ تعالیٰ ۔" وہ انہیں دیکھتے ہوئے بولا اتنے میں صادق بھی آگیا ۔ " تم نے مجھے کہا تھا نا کہ جب کچھ بن نا پڑے چاروں طرف سے اندھیرے چھا جائیں تو حضور ﷺ کی بارگاہ میں ان کے پیارے نواسوں کا وسیلہ پیش کر دینا بات بن جائے گی ۔" اذان نے صادق سے کہا ۔ " میری بات بن گئی صادق ۔۔ ان کی بات کرتے کرتے ، ان کی ثنا کرتے کرتے ، ان سے محبت کرتے کرتے ۔۔" اس کی آواز رندھنے لگی تھی ۔ وہ اب امام صاحب کی طرف متوجہ ہوا ۔ " مجھے آیت لوٹا دی گئی ہے ۔" یہ آخری جملہ تھا اور اس کی آواز بیٹھ گئی ۔ شکر بھی کتنا انمول جذبہ ہے جب حقیقت میں ڈھل جاتا ہے تو آنسوؤں سے انسان کو پاک کرنے لگتا ہے ۔ امام صاحب اور صادق یہ خبر سن کر خوش ہو گئے ۔ اذان کافی دیر ان سے باتیں کرتا رہا ۔
" اور اگر تم شکر کرو تو ہم تمہیں اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔" ( القرآن )
***
آیت کمرے میں لیٹی کافی دیر سے سوچوں میں گم تھی جب نایاب نے دروازے پر دستک دی اور ساتھ ہی کمرے میں جھانکتے ہوئے گویا ہوئی ۔
" اجازت ہے ۔؟"
" آ جاؤ نایاب تمہیں کب سے اجازت کی ضرورت پڑ گئی ۔" آیت اٹھتے ہوئے بولی ۔ نایاب میانہ روی سے چلتی اس کے پاس آ بیٹھی ۔
" کیا سوچ رہی تھی۔ ؟"
" کچھ نہیں ۔"
" اوکے ۔۔۔" نایاب نے سر ہلایا ۔" پھر ایک کام کرو اپنی شادی کے متعلق سوچنا شروع کر دو ۔"
" کیا ۔؟" آیت اچھل کر کھڑی ہو گئی ۔
" اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے اور پہلے سکون سے بیٹھ جاؤ ۔" نایاب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر خود کی جانب کھینچا ۔" دیکھو آیت پہلے ہی سب تمہارے متعلق اتنے پریشان رہے ہیں اور سب سے زیادہ اذان ۔۔۔ تم خود سوچو اگر وہ دوبارہ سیدھی راہ سے بہک گیا تو اس کا گناہ کس کے سر جائے گا ۔ ؟" نایاب نے اسے تاریک پہلو سے آگاہ کیا تو آیت چپ ہو گئی ۔
" اب خاموش کیوں ہو ۔؟" آیت کی مسلسل خاموشی پر نایاب نے جھنجھلا کر سوال کیا تو آیت نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا جو آنسوؤں سے گیلا ہونے لگا تھا ۔
" فار گاڈ سیک آیت تم پاگل کر دو گی ۔۔۔ رو کیوں رہی ہو ۔؟" نایاب کے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے ۔
" اتنی جلدی یہ سب کیسے ہو گا ۔؟ شادی کی تیاریاں ، جہیز سب کچھ کیسے مینیج ہو گا ۔" وہ پریشانی سے کہتی نایاب کو اچھا خاصا زچ کر گئی ۔
" ہاں جی اذان نے تو منہ پھاڑ کر جہیز مانگا ہے نا کہ یہ چیز چاہئے یہ چاہئے وہ چاہئے ۔۔۔۔ خدا کا خوف کرو آیت اس نے پہلے ہی منع کر دیا ہے ان سب خرافات سے ۔ "
" لیکن یہ ضروری ہوتا ہے ۔" آیت منمنائی ۔
" ضروری ۔؟" نایاب کے لہجے میں طنز اتر آیا ۔" میری پیاری یہ صرف مشرقی معاشرے کی پیداوار ہے جو بھکاری جہیز کے نام پر اچھے خاصے سامان بٹور لیتے ہیں نا پھر تو انہیں زکوة فطرے کی رقم بھی دینی چاہئے ۔ اپنا صدقہ اتار اتار کر ایسے لوگوں کو ہی تھما دینا چاہئے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے میں بھی کیا کیا بول رہی ہوں ۔" نایاب نے سر جھٹکا ۔ " آیت بات سنو ۔۔۔ نبی کریم نے فرمایا تھا کہ بہتر نکاح وہ ہے جس کا مہر آسان ہو ۔ اور خود نبی ﷺ نے جب بی بی فاطمہؓ کو جہیز دیا تو صرف ضرورت کی چیز تھی۔ باقی کچھ نہیں تھا تم نے ہی مجھے بتایا تھا نا کہ اسلام میں نکاح بہت آسان ہے یہ ہمارا معاشرہ ہے جس نے نکاح کی شکل مسخ کر دی یہ چیز عبادت سے فیشن بن گئی ۔۔۔ خدا ہدایت دے ۔۔۔۔" نایاب نے بولتے بولتے آیت کی طرف دیکھا جو کھو سی گئی تھی ۔
" اوہ میڈم کہاں گم ہو ۔؟" اس نے آیت کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا تو جیسے وہ ہوش میں آئی ۔
" ہاں ۔۔"
" یار میں جب سے بھونک رہی ہوں تم اپنا خیالوں میں کھوئی ہو ۔" نایاب جھنجھلا گئی ۔
" نہیں ایسی بات نہیں ۔" آیت شرمندہ ہوئی ۔
" میں جا رہی ہوں تم سے بات کرنا مطلب دیوار سے سر مارنا ۔" وہ اٹھ کر دروازے تک گئی تو دوبارہ پلٹ کر آیت کو دیکھا ۔" اتنا ہی بتا دو کہ ٹھیک کہا نا میں نے ۔؟" اس کے استفسار پر آیت نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ مسکرا کر چلی گئی ۔
***
No comments:
Post a Comment