Friday, 16 August 2019

Tumhari Madh Aur mera Qalam Ho ||Episode#9

#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو 
( عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر ) 
#نویں_قسط 
#از_صالحہ_منصوری 

توصیف حیران تھا کہ اس انجان لڑکی سے کیسے اور کیا کہے جو سراپا سوال بنی سامنے موجود تھی ۔ 

" مجھے نرس نے بتایا تھا کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور آپ مجھے یہاں ہسپتال لے کر آے ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ دراصل آپ نے وہاں کیا دیکھا تھا ۔؟" آیت نے نرم لیکن اٹل لہجے میں سوال کیا ۔ 

" جج ۔۔جی ۔۔ میں پسند کروں گا ۔" توصیف نے نگاہیں جھکا کر کہا ، کچھ تو تھا اس لڑکی کے چہرے پر کہ وہ اس پر نگاہ نہیں رکھ سکا ۔" میں وہیں موجود تھا جہاں آپ کی کار حادثے کا شکار ہوئی ۔ وہاں دو لڑکیاں تھیں ایک آپ اور ایک دوسری لڑکی ۔۔ میں کسی ایک کو ہی لے کر ہسپتال آ سکتا تھا سو آپ کو یہاں لے آیا ۔ جب میں واپس دوسری لڑکی کو لینے گیا تو نا وہاں کار تھی اور نا لڑکی ۔۔۔ وہ جگہ بالکل صاف تھی ۔ " اس نے تفصیل سے ساری بات بتائی ۔ 

" دوسری لڑکی ۔۔ ؟" آیت کا ذہن پھر الجھ گیا ۔ وہ بار بار اپنے دماغ پر زور دیتی لیکن چند دھندلے چہرے نظر آنے کے علاوہ کچھ حاصل نا ہوتا ۔ وہ اپنے سر کے بال مٹھی میں جکڑے زور زور سے جھٹکنے لگی اور آخر کار زمین پر بیٹھ کر رونے لگی ۔ توصیف نے بے چارگی سے اسے دیکھا اور قریب آکر کچھ فاصلے پر خود بھی دو زانو ہو کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوا ۔

" دیکھیں آپ اس طرح مت روئیں ، یہ آپ کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا ، خدا پر بھروسہ رکھیں ۔" وہ اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا بولا ۔ " جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتیں اور آپ کے متعلقین آپ کو ڈھونڈ نہیں لیتے آپ میری ذمہ داری ہیں ۔" وہ نرمی سے کہتا اسے بیڈ پر بیٹھا چکا تھا ۔ 

" ذمہ داری ۔" آیت نے توصیف کو دیکھا ۔ " کس حیثیت سے ۔؟" 

" ایک مومن ہونے کی حیثیت سے ۔" وہ لمحے بھر کے توقف کے بعد بولا اور آیت نے بے بسی سے آنکھیں بند کر لیں ۔ 

اگلے دن اسے ڈاکٹرز نے آیت کے اصرار پر اسے ڈسچارج کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اسے صرف شاک کی وجہ سے کچھ یاد نہیں ہے جیسے ہی وہ اس حادثے سے نکل جائے گی نارمل ہو جائے گی اور اسے سب کچھ یاد آ جائے گا ۔ وہ ہسپتال سے توصیف کے گھر آ گئی ۔ دو منزلہ کی سادہ سی لیکن خوبصورت عمارت کو دیکھتے ہوئے وہ کھو سی گئی ۔

" کیا ہوا ۔؟" توصیف نے پوچھا ۔ 

" کچھ نہیں ۔" آیت نے اسے دیکھا ۔" معاف کیجیے میں آپ کا نام نہیں پوچھ سکی ۔" 

" توصیف ۔" وہ مسکرایا ۔ " اور آپ ۔؟" سوال کرتے ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن زبان سے ادا کئے ہوئے الفاظ واپس کب آتے ہیں ۔

" سوری ۔" آیت کے اداس چہرے کو دیکھ کر اس نے فورا بات سنبھالی ۔" آپ میرے لئے گڑیا ہیں ۔" 

" گڑیا ۔؟" وہ حیران ہوئی ۔

" ہاں ۔۔ آپ گڑیا جیسی ہی تو ہیں ۔" وہ مسکرا کر آگے بڑھ گیا تو آیت نے بھی اپنے قدم اس کی اتباع میں بڑھا دئے ۔ توصیف اپنے بھائی کے ساتھ اکیلے گھر میں رہتا تھا ۔ والدین عرصہ ہوا فوت ہو چکے تھے۔ اس نے آیت کو ایک کمرہ دیا اور آرام کرنے کا کہہ کر خود باہر چلا گیا لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ توصیف کا بھائی جمیل اذان کا دوست ہے ۔ 

*** 

وہ نا جانے کب سے امام صاحب کے سامنے بیٹھا سر جھکائے آنکھوں کی نمی چھپا رہا تھا ۔ اس کا جسم بخار کی شدّت سے ہلکا ہلکا جل رہا تھا اور منہ سے نکلتی گرم سانس اسے اور نحیف ظاہر کر رہی تھیں ۔ 

" یہ کیا حال بنا لیا ہے ۔" صادق اسے گلے سے لگا کر گویا ہوا ۔ امام صاحب بھی خاموش بیٹھے تھے ۔ 

" مجھے میرے گناہوں کی سزا دی گئی ہے ۔" وہ جھکے ہوئے سر کے ساتھ گویا ہوا ۔ " مجھے اللّه نے سزا دی ہے ۔ " 

" نہیں میرے بچے ۔۔" امام صاحب سے رہا نا گیا کہ اذان اپنی زبان سے اور کچھ غلط کہے تو انہوں نے اسے روک دیا ۔" اللّه اپنے بندوں پر آزمائش ڈالتا ہے تاکہ بندہ اور پاکیزہ رتبے والا بن جائے اور یقین کرو اذان اللّه کسی بندے پر اس کی برداشت سے زیادہ آزمائش نہیں دیتا ۔" 

" لیکن حضرت میں نہیں برداشت کر پا رہا ۔" اذان نے بے بسی سے انہیں دیکھا ۔" مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے جس لڑکی سے میں محبت کرتا تھا جو میرے لئے خدا کی پہچان کا سبب بنی وہ مجھ سے چھین لی گئی ۔ میرا دل کسی طور سکون نہیں پا رہا ، میری روح بے چین ہو رہی ہے اور تکلیف ایسی کہ سانس لینا بھی دشوار لگتا ہے ۔ میں ۔۔۔۔ میں اپنی ہی کیفیت سے انجان ہونے لگا ہوں ۔۔۔۔ آپ بتائیں آخر کیا کروں میں ۔۔؟ کہاں جاؤں ۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا ۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔ 

" وہ ضرور مل جائے گی جس خدا پر تم ایمان لاۓ ہو اس خدا پر بھروسہ بھی کرو کہ وہ تمہاری آہوں سے بے خبر نہیں ہے ۔" امام صاحب نے کھلی ہوئی کھڑکی سے نظر آتے بادل کو دیکھا ۔ 

" محبت صرف مرد و زن کے تعلق کا نام نہیں ہے اذان بیٹا ۔" امام صاحب کی نظر دور کہیں آسمان پر جا ٹکی تھی ۔ بکھرے بال اور ملگجے لباس میں ملبوس اذان چہرے پر ڈھیروں کرب اور آنکھوں میں یاسیت لئے ان کے سامنے زمین بیٹھا تھا ۔

" محبت ایک لطیف جذبہ ہے ۔ جو محبت نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا ۔" آسمان پر دور کہیں مرغابیوں کا غول اڑ کر اپنے ٹھکانوں پر واپس جا رہا تھا اچانک امام صاحب نے اذان کو دیکھتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا : 

" یہ تمہاری روح کی آواز ہے اذان اسے بغور سننے کی کوشش کرو ۔ محبت تصوف کا دوسرا نام ہے ۔ تمہارا دل بس ایک کا ہو کر رہ جائے گا، آنکھوں میں محبوب کے سوا کسی کا نقش نہیں بیٹھ سکے گا۔۔۔" وہ لمحے بھر کو رکے ۔ " آیت کو نبئ کریم ﷺ سے بےحد محبت تھی ناں ۔؟" 

" حضرت ۔۔" اذان نے اپنی آنکھیں میچ لیں ۔

" تمہارے سامنے راستہ موجود ہے اذان ! پہلا خیر کا راستہ ہے کہ اپنے آپ کو ، اپنی محبت کو معرفت تک لے جاؤ یا پھر ۔۔۔" 

" پھر ۔۔" اس نے بے چینی سے پوچھا ۔

" یا پھر شر کا راستہ کہ گناہوں میں ڈوب کر کبھی نا ختم ہونے والے عذاب سے گزرو اور اپنے مقدس جذبے کو پستیوں تک لے جاؤ پھر تم اہل محبت نہیں اہل نفس پرست کہلاؤ گے ۔ " وہ اتنا کہہ کر اٹھ گئے اور اذان فرش پر بیٹھا رہ گیا ۔ اس کے کانوں میں کہیں سے آواز آئی : 

" کوئی شخص اس وقت تک جنّت کا حقدار نہیں بن سکتا جب تک اپنی محبوب چیز اللّه کی راہ میں قربان نا کر دے ( القرآن ) " 

اذان کے سینے میں ہوک سی اٹھی ۔ محبوب چیز تو اس سے لے لی گئی تھی بس اسے جنّت کا حقدار ہونے کا فیصلہ کرنا تھا اور یہی لمحہ تھا جب اذان کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا ۔ بیشک انسان کا دل رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے ۔ جس طرح چاہے جس جانب چاہے بندے کے دل کو پھیر دیتا ہے ۔

***

سارا دن وہ اکیلے گھر میں بیٹھی خیالوں میں کھوئی رہی کہ وہ کون ہے ۔؟ کہاں سے آئی ہے ۔؟ کیا کرتی ہے ۔؟ جب کچھ بن نا پڑا تو اٹھ کر گھر کی دوسری جانب بنے لان میں جا کر نرم گھاس پر ننگے پاؤں چلنے لگی ۔ سرد ہوا اور ننگے پاؤں گھاس پر چلنا اسے بہت فرحت بخش محسوس ہوا ۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی اور چلتے ہی چلتے اس نے اچانک زیر لب گنگنانا شروع کیا : 

" تمہاری مدح اور میرا قلم ہو یا رسول اللّه ﷺ ۔۔۔۔" 

وہ پڑھتے پڑھتے ایک دم چونک گئی ۔ اسے محسوس ہوا جیسے یہ نعت وہ پہلے بھی کبھی پڑھ چکی ہے ۔ انسان سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن وہ اپنے وجود کی نبی ﷺ سے نسبت اور محبت کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔ وہ دوبارہ آہستہ آہستہ پڑھنے لگی ۔ اسے ایک دھندلا سا منظر یاد آیا کہ وہ جھولے پر بیٹھی یہی نعت پڑھ رہی تھی ۔ یہ نعت اس کے لئے کسی وظیفے یا عمل سے کم ثابت نہیں ہو رہی تھی ۔ ذہن کی اسکرین پر دھندلاتے ہوئے منظر آہستہ آہستہ صاف ہوتے گئے ۔ 

" محبّت محمّد ﷺ ہیں اذان ۔" کافی وقت پہلے کہا گیا اس کا اپنا جملہ اس کے کانوں میں گونج گیا ۔ وہ اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر بھاگتی ہوئی دوبارہ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے ہی نبی کریم ﷺ کے روضے مبارک کا طغریٰ موجود تھا ۔ وہ سکتے کی حالت میں رک گئی پھر آنکھوں میں ہلکی نمی لئے ایک ایک قدم لیتی آگے آئی ۔ 

" جن کے لب پر رہا امّتی امّتی ،
یاد ان کی نیازی نا بھولو کبھی ،
وہ کہیں امّتی ، تم کہو یا نبی ،
ہم ہیں حاضر تیری چاکری کے لئے ۔۔۔" 

آنسو ٹپ ٹپ گرتے اس کے حجاب کو بھگونے لگے ۔ یہ شعر بھی وہ اکثر پڑھا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ کاش ۔۔۔ کاش کبھی ایسا ہو جائے کہ نبی ﷺ اسے مخاطب کر کے کہیں کہ ہاں یہ میری امّتی ہے ۔ 

" ایک طرف بخششیں ، ایک طرف جنّتیں ، 
کیسے انعام ہیں امّتی کے لئے ۔ " وہ وہیں زمین پر بے دم سی ہو کر بیٹھ گئی ۔ آنکھوں میں مدینہ بسائے وہ روحانی طور پر وہیں جا بیٹھی تھی جہاں نامراد دلوں کی دعا قبول ہو جاتی ہے ، جہاں شکستہ دل امید کے دیپ سے جل اٹھتے ہیں ، جہاں جانے والا کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹتا ۔ وہ خود کو گنبد خضریٰ کی چھاؤں میں بیٹھا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔ 

" گڑیا ۔۔۔ گڑیا ۔۔۔ " جانے کتنی ہی دیر وہ اپنے خیال میں ڈوبی رہتی جب توصیف کی آواز نے اس کا تسلسل توڑا ۔ " یہاں کیوں بیٹھی ہو ۔؟" وہ اس کی جانب پیٹھ کئے بیٹھی تھی تبھی توصیف اس کا چہرہ نا دیکھ سکا ۔ 

" اچھا دیکھو میں تمہارے لئے کچھ کپڑے اور کھانے کی چیزیں لے آیا ہوں، تمہیں ضرورت ہو گی ۔" توصیف اپنی ہی دھن میں بولتا جا رہا تھا جب آیت کی سسکی اس کے کانوں میں پڑی ۔ وہ فورا آیت کی طرف آیا ۔

" ارے ۔۔ گڑیا کیا ہوا روتے نہیں ۔۔ دیکھو سب ٹھیک ہو جائے گا میں خود تمہاری مدد کروں گا اوکے ۔" وہ اسے بالکل بڑے بھائیوں جیسے انداز میں بہلا رہا تھا ۔ آیت نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا ۔ اس کے لب کپکپائے ، وہ کہنا چاہتی تھی لیکن الفاظ جیسے کہیں حلق میں ہی اٹک گئے تھے ۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے زور زور سے رونے لگی ۔ توصیف فوراً اٹھا اور کچن سے پانی لے آیا ۔ آیت کے سامنے بیٹھتے ہوئے وہ نرمی سے گویا ہوا ۔

" گڑیا پانی پی لو ۔" 

آیت نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے پانی کا گلاس تھاما اور چند ایک گھونٹ لے کر رکھ دیا ۔ اس کے گریہ میں کمی ہو گئی لیکن آنکھیں ہنوز گلابی تھیں ۔ 

" اب مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ۔؟" توصیف نے مقابل بیٹھتے ہوئے پوچھا تو آیت نے اسے دیکھا ۔ 

" مجھے یاد آ چکا ہے کہ میں کون ہوں ۔؟" اس کے لہجے میں ہلکی سی کپکپاہٹ تھی جیسے وہ بہت تکلیف میں رہی ہو ۔ 

" کیا ۔؟" توصیف حیران بھی ہوا اور خوش بھی ۔" واقعی تم سب یاد آ چکا ہے ۔؟" اس جواب پر آیت نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔

" میری بہن پھر رو کیوں رہی ہو ۔۔ ؟ ارے ۔۔۔ ایک منٹ ۔؟" وہ اچانک رک گیا ۔" تم تم کو یاد کیسے آیا ۔؟" آیت نے نم آنکھوں سے مسکرا کر فریم کو دیکھا جہاں گنبد خضریٰ کا حسین منظر بنا ہوا اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور روح کو سکون دے رہا تھا ۔ 

" مجھے حضور پاک ﷺ نے بتایا ۔" وہ بہت محبت سے کہہ رہی تھی ۔ توصیف کا منہ حیرانی سے کھل گیا ۔ 

" گڑیا ۔۔ تم پکّا ٹھیک ہو نا ۔؟" 

" ہاہا ۔۔" وہ ہنس پڑی ۔" آپ کو لگتا ہے کہ میرا دماغ خراب ہو گیا ہے تو چلیں میں آپ کو سب بتاتی ہوں ۔ " پھر آیت اسے اپنے متعلق بتاتی گئی اور توصیف جو کہ پہلے حیران تھا اب سر جھکائے آنکھوں میں نمی لئے یہ سوچ رہا تھا کہ ہاں نبی کریم ﷺ اپنے کسی امّتی کو تنہا نہیں ہونے دیتے ۔۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللّه تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : 

فریاد امّتی جو کرے حال زار میں ،
ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نا ہو ۔

توصیف سر جھکائے آنسو بہا رہا تھا اور آیت مسلسل فریم کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔" جانتے ہیں بھائی جو اللّه پر ایمان لاتے ہیں نا انہیں ایمان کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی کرنا پڑتا ہے کہ اللّه انہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا ، جو خاتم النبیین ﷺ کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں انہیں یہ بھی یقین کرنا چاہئے کہ حضور سید عالم ﷺ اپنے امّتی کو کبھی رسوا نہیں ہونے دیں گے ، نا دنیوی زندگی میں اور نا ہی اخروی زندگی میں ۔۔۔۔ اور پتا ہے ۔۔۔ " وہ کہتے کہتے اچانک رک گئی شاید حلق میں پھنسنے والے آنسوؤں کے گولے نے اسے کچھ کہنے سے باز رکھا لیکن چند لمحے بعد وہ واپس گویا ہوئی ۔ " پتا ہے جو ان ﷺ سے محبت کرتے ہیں نا ان کی مدد اللّه ﷻ ایسے فرماتا ہے کہ اہل محبت کے ساتھ ساتھ ان کے اطراف میں بسنے والوں کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتا ۔ " وہ روتے گئی اور توصیف اس سوچ میں غرق تھا کہ واقعی یہ لڑکی اس کے ایمان کو تازہ کر گئی ہے ۔ 

***

دوپہر ڈھل چکی تھی اور شام کے پھیلتے سائے نے ہر طرف دھندلا سا ماحول قائم کر دیا تھا ۔ ایسے میں مسجد کے سامنے واقع کھلے میدان میں بیٹھا اذان اپنی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔ کبھی اس کے چہرے پر کرب نظر آتا تو کبھی بے بسی بھرے غصّے سے وہ میدان کی گھاس کو اپنی مضبوط انگلیوں میں پھنسا کر جڑ سے اکھاڑ دیتا ۔ ابھی بھی اس کی انگلیاں ننھی ننھی سبز گھاس میں تھیں کہ جب پیچھے سے صادق کی آواز آئی ۔ 

" تصوف کے راستے پر چلنے والے انا کے خون سے وضو کر کے نماز عشق ادا کرتے ہیں اور غصّہ بھی انا کا ہی عکس ہوتا ہے ۔" 

اذان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سفید شلوار سوٹ میں ملبوس ، سر پر ٹوپی اور خوبصورت چہرے پر داڑھی سجائے وہ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔ اس کے متوجہ ہونے پر صادق ساتھ ہی آ بیٹھا ۔ 

" میں بشری محبت میں گرفتار ایک گناہگار سا بندہ ہوں مجھے اتنا پاکیزہ گمان نا کرو ۔" اذان کے لہجے میں تھکن اتر آئی تو صادق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔

" عشق مجاز اگر واقعی سچ ہو نا تو حقیقی کا راستہ کبھی نا کبھی ضرور ملتا ہے اذان ۔۔۔ " 

" میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا ۔" 

" ہمارے نبی نے کسی کو دھتکارا نہیں ہے اذان ۔ ہمیشہ احسن طریقے سے اصلاح کی ہے ۔" صادق نے نرم لہجے میں کہا ۔ وہ جب بھی بات کرتا تھا ایسا محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ نرم لہجہ اور ٹھہرے ہوئے الفاظ کہ سامنے والے کو سننے میں دشواری نا ہو اور ایک خاص بات جو اسے سب سے ممتاز بناتی تھی وہ یہ کہ صادق کے چہرے سے کبھی مسکراہٹ جدا نہیں ہوتی ۔ وہ ہر ایک کی مدد کرنے والا نیک صفت لڑکا تھا یہی وجہ تھی کہ مسجد میں ہر جاننے والا اور انجان اس سے مل کر خوش ہو جاتا ۔۔۔ اور کیوں نا ہوتا یہ تو نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ۔ 

اور اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ اچھے اخلاق والا ان لوگوں کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جو سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور ساری رات جاگ کر عبادت کرتے ہیں ۔ 

صادق بھی انہیں لوگوں میں سے تھا جن کے اخلاق میں سنّت نبوی ﷺ کی خوشبو ہوتی ۔ وہ اذان کو اکثر نرم انداز میں آپ ﷺ کے واقعات سناتا اور اس کا ایمان مضبوط کرتا رہتا اور ذکر نبی تو ایسی چیز ہے جو مردہ دل کو زندہ اور پتھر دل کو پگھلا دیتی ہے ۔ 

***

جمیل توصیف سے دوسرے کمرے میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا جب اچانک ہی آیت وہاں آ گئی ۔ جمیل نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ بات چیت میں مشغول ہو گیا ۔ 

" دعا کر بھائی ۔۔۔ " وہ توصیف سے کہہ رہا تھا ۔" وہ بہت پریشان ہے ۔" 

" کون پریشان ہے ۔؟" توصیف نے پوچھا ۔ 

" اذان اور کون ۔" جمیل نے چائے کا کپ میز پر رکھا ۔ اذان کا نام سن کر جہاں آیت چونک گئی وہیں توصیف بھی حیران رہ گیا ۔ 

" اذان کون ۔۔؟ اور کیا ہوا اسے ۔؟" آیت نے جلدی سے پوچھا تو جمیل نے اچنبھے سے اسے دیکھا ۔

" اذان ۔۔ میرا دوست ہے اور دو ماہ بعد اس کی جس لڑکی سے شادی ہونے والی تھی وہ لڑکی کھو گئی ہے ۔" جمیل نے مختصر لفظوں میں بات سمیٹنی چاہی ۔ " بے چارہ بہت پریشان ہے ، اتنے وقت سے اسے مسکراتے نہیں دیکھا ہمیشہ چہرے پر یاسیت لئے رہتا ہے ۔ نظریں چرا لیتا ہے کہ کہیں کوئی اس کے دل کا حال نا جان لے ۔" جمیل کہہ رہا تھا اور آیت دیوار کا سہارا لیتی زمین پر بیٹھ گئی ۔ ضبط کے با وجود اس کے آنسو بہہ نکلے ۔ جمیل نے چونک کر توصیف کو دیکھا جو اس کے پاس جا بیٹھا تھا ۔ 

" بس کر جاؤ گڑیا ہم تمہیں اس کے پاس لے جائیں گے ۔" 

" توصیف بھائی یہ سب ۔۔۔؟" جمیل کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔ توصیف نے اسے دیکھتے ہوئے الفاظ مرتب کئے : 

" یہی ہے وہ لڑکی جس سے اذان کی شادی ہونے والی تھی ۔ تم اذان کو کل یہاں لے آنا ۔" وہ آیت کو اٹھنے کا کہہ کر خود بھی کھڑا ہو گیا ۔ ان تینوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے تھے لیکن آیت کی آنکھوں میں آنسو اب بھی موجود تھے ۔ ہاں یہ شکر کے آنسو تھے اور شاید محبت کے بھی ۔۔۔ 


***

No comments:

Post a Comment