Friday, 16 August 2019

Tumhari Madh Aur mera Qalam Ho ||Episode#12

#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو 
) عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر ( 
#بارہویں_قسط
) سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ ( 
#از_صالحہ_منصوری 

اذان اور آیت کی شادی کے فنکشن شروع ہو چکے تھے اور آج ان کی مہندی تھی ۔ نایاب نے شفا کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور اس پر مختلف پھول پتیوں کی طرح ڈیزائن بنا رہی تھی ۔ آیت خاموشی سے بیٹھی کبھی نایاب کو دیکھتی تو کبھی ارد گرد موجود لوگوں کو دیکھ لیتی ۔ جب ڈیزائن پوری ہو چکی تو نایاب نے اس کے مہندی سے سجے ہاتھ کی فوٹو کلک کی اور بغیر اسے بتائے فوٹو اذان کو سینڈ کر دی ۔ آیت کافی دیر سے بیٹھ بیٹھ کر تھک چکی تھی سو وہ مہندی کے پورا ہوتے ہی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی گئی ۔ دوسری جانب جب اذان نے نایاب کا میسج دیکھا تو ایک آیت کا ہاتھ دیکھ کر فورا پہچان گیا ۔ 

" کیسا ہے ۔؟" اذان کے سین کرتے ہی نایاب نے دوبارہ میسج کیا ۔ 

" بہت خوبصورت ۔۔ کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں ۔؟" یہ جملہ کہنے کے ساتھ ہی اذان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ نایاب کے میسج سین کرنے سے قبل ہی اسے ریموو کر کے اٹھ کھڑا ہوا فون آف کر کے میز پر رکھا اور خود واش روم کی جانب بڑھ گیا جب وہ واپس آیا تو چہرے پر سنجیدگی اور آنکھوں میں شرمندگی تھی ۔ اعضائے وضو سے پانی کے ٹپکتے قطرے اس بات کے گواہ تھے کہ وہ وضو کر کے آیا ہے ۔ اس نے مصلیٰ نکال کر نماز شروع کی ۔ 

" انّ بطش ربک لشدید ۔" 
( بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے ۔) القرآن ۔

اس آیت کو نماز میں پڑھتے ہوئے وہ لرز اٹھا ۔ کیوں ایک غیر محرم کو دیکھنے کی چاہ کی ۔؟ کیوں وہ خود پر قابو نا رکھ سکا ۔؟ شدت خوف خدا سے اس کا رواں رواں کانپ اٹھا ۔ اسے خوف آ رہا تھا کہ خدا اسے چھوڑ نا دے ، اسے ڈر تھا کہ کہیں گناہ میں مبتلا نا ہو جائے ۔ اس نے سلام پھیرا تو آنسو بہتے ہوئے شانے پر گر گئے ۔ اذان نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ دل کے کسی گوشے سے آواز آئی ۔

" اللّه ایسوں کو کیوں کر ہدایت دے جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی ۔ " آنسو اور تیزی سے بہنے لگے ، دل تھا کہ سنبھل نہیں رہا تھا ۔

" اللّه نہیں پلیز نہیں ۔۔۔۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔ اکثر ہمارے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ گناہ کا خیال بھی کیوں آتا ہے ۔؟ آخر یہ نفس اور شیطان ہمیں اکیلا کیوں نہیں چھوڑ دیتے ۔ ؟ تو اس کا آسان سا جواب ہے کہ خدا نے ہمیں بنایا ہی اس حکمت کے ساتھ ہے کہ ہم اپنے آپ پر قابو پا کر خود کو خدا کے حضور پیش ہونے کے قابل بنائیں ۔ ہم یہ ثابت کریں کہ ہم شیطان کے ساتھی نہیں بلکہ رحمٰن کے بندے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث یاد ہے کہ : من يضمن لي ما بين لحييه وما بين رجليه أضمن له الجنة) جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان)زبان( اور دوٹانگوں کے درمیاں)شرمگاہ( کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں ۔ ( متفق علیہ ) ۔۔۔۔ اور سورہ والشمس میں اللّه ﷻ نے گیارہ قسموں کے بعد فرمایا کہ کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس پر قابو پا لیا ۔۔ تو یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے ۔؟ نفس پر قابو پانا بہت دشوار ہے اسی لئے تو اللّه نے اتنے انعامات کا وعدہ فرمایا اور اس کے سچے رسول نے جنّت کی ضمانت دی ۔ نفس پر قابو کیا تو شیطان خود بخود ہی دور ہو جائے گا کیوں کہ یہ نفس ہی ہے جو شیطان کو دعوت دیتا ہے ۔ جنّت سے شیطان کو نکالنے والا اس کا نفس ہی تھا ۔ بیشک نفس پر قابو پانا اور شیطان کو خود سے دور کرنا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ بس ایک چیز دماغ میں بیٹھا لیں کہ ہم جو کچھ بھی کریں ہمیں اللّه کو جواب دینا ہے ۔ یہ سب سے آسان طریقہ ہے گناہوں سے بچنے کا جیسا کہ اللّه تعالیٰ کا فرمان ہے : 
( اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ولمن خاف مقام ربہ جنتان )جو شخص اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگیا اس کے لیے دو جنتیں ہوں گی(۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں۔ یہ دو جنتیں اس شخص کو عطا فرمائی جائیں گی جس نے گناہ کاارادہ کیا پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کے خوف سے گناہ کرنے سے رک گیا۔ )معارف القرآن( 

اذان کے آنسو بدستور بہے جا رہے تھے ۔ بیشک آیت اس کی ہونے والی منکوحہ تھی لیکن فی الحال وہ غیر محرم ہی تھی ۔ روتے روتے اس کی نظر داہنی طرف لگے سبز گنبد پر پڑی اسے لگا جیسے حضور علیہ السلام بھی اس سے خفا ہو چکے ہوں ۔ وہ پوری دنیا ہار سکتا تھا لیکن خود پر سے حضور پاک صلی اللّه تعالیٰ علیہ وسلم کا لطف و کرم کبھی بھی منقطع ہونے نہیں دے سکتا تھا ۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹھ کر باہر کی جانب بھاگا اور کچھ ہی دیر میں اس کی کار تیز رفتاری سے بہت دور جا چکی تھی ۔ 

***

صادق آنکھیں موندے مسجد کے صحن میں لیٹا ہوا تھا ۔ دونوں ہاتھ سینے پر رکھے لبوں پر ہمیشہ کھیلتی مسکراہٹ اور پر نور چہرے پر بند آنکھوں کے ساتھ وہ زیر لب پڑھ رہا تھا ۔

" یہ ان کے سبز گنبد پر بخط نور لکھا ہے ، 
وہ اچھے ہو کے جاتے ہیں جو یاں بیمار آتے ہیں ۔" 

اذان جو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آ گیا تھا اس کی زبانی یہ شعر سن کر سکتے میں آ گیا ۔۔۔ " اسے کیسے علم ہوا کہ میں مصیبت میں ہوں ۔۔۔؟؟؟" وہ خود سے سوال کر بیٹھا تبھی صادق نے اگلا شعر پڑھا ۔ 

" جو کہتے ہیں مصیبت میں اغثنی یا رسول اللّه ﷺ ، 
مدد کرنے کو ان کی سید ابرار آتے ہیں ۔" 

اذان لڑکھڑا گیا اور بمشکل دیوار کا سہارا لیتے خود کو سنبھالا ۔" یعنی یعنی ۔۔۔ نبی ﷺ کو میرے حال کا علم ہے ۔؟ اوہ اللّه یہ میں نے کیسے سوچ لیا کہ وہ مجھ سے نگاہیں پھیر لیں گے ۔؟" اذان دل ہی دل میں شرمندہ ہونے کے ساتھ ساتھ رو بھی رہا تھا ۔ 

" اٹھے گا شور محشر میں نا گھبراؤ گناہ گاروں ، 
وہ دیکھو شاہ کھولے گیسوئے خمدار آتے ہیں ۔" 

صادق کا اگلا شعر سن کر اذان کے پاؤں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا ۔ وہ یکلخت زمین پر گٹھنوں کے بل جھک گیا ۔ یہ کیسا رشتہ تھا ۔۔؟ نا کبھی دیکھا نا سنا لیکن پھر بھی اس قدر محبت کہ لمحہ بھر غفلت نا ہو ۔ یہ کیسا رشتہ ہے جو دنیا تو دنیا آخرت میں بھی ہمارا متلاشی ہے ۔ اذان کے آنسو مسجد کے فرش پر گرے ۔ اسے تکلیف ہوئی کہ جس نبی ﷺ کا وہ کلمہ پڑھتا ہے اسی نبی کریم کی نافرمانی کیسے کر گیا ۔ کیا وہ حضور علیہ السلام کی شفاعت کے قابل بھی ہے ۔ ؟ شفاعت تو دور کی بات کیا قبر میں اسے سکون مل سکے گا ۔؟ یہ اس کے دل کی آواز تھی اور تبھی صادق کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی ۔

" شب تاریک مرقد سے نا گھبرا اے دل مضطر ، 
کوئی دم میں نظر ، 
کوئی دم میں نظر وہ چاند سے رخسار آتے ہیں ۔"

اذان کا ضبط جواب دینے لگا تھا ، اس کی حالت غیر ہونے لگی اور سینے میں اس قدر درد جیسے دل غم سے پھٹنے لگا ہو ۔ 

" خداوندا دم آخر یہ عزرائیل فرمائیں ، 
جمیل قادری ہشیار ہو سرکار ﷺ آتے ہیں ۔" 

صادق اب اسی شعر کی بار بار تکرار کر رہا تھا پھر اس نے آمین کہہ کر اپنی آنکھیں کھولیں تو چوکھٹ پر اذان کو بیٹھے دیکھ کر وہ اٹھ گیا ۔ 

" ارے اذان تم ۔۔؟ " سلام کے بعد وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے گویا ہوا ۔ جب وہ پاس آیا تو اذان جس نے ابھی تک سلام کا بھی جواب نہیں دیا تھا اسے خالی خالی آنکھوں سے دیکھنے لگا ۔ اذان کے چہرے پر چھائے کرب نے صادق کو پریشان کر دیا اور وہ خود بھی اذان کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ 

" اذان میرے بھائی ۔۔۔ میرے دوست ۔۔۔ ہوا کیا ہے ۔ ؟" اس سوال پر اذان کی آنکھیں چھلک پڑیں وہ روتے ہوئے صادق کے گلے لگ گیا ۔ روتے ہوئے اس نے تمام روداد کہہ سنائی کہ کس طرح آیت کے ہاتھ کو دیکھنے کے بعد اس کے دل میں آیت کو دیکھنے کی چاہ ہوئی ۔ 

" میں مر جاؤں گا صادق اگر حضور پاک علیہ السلام مجھ سے راضی نا ہوئے تو میں برباد ہو جاؤں گا ، اگر اللّه نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تو میں دوبارہ تاریکیوں میں بھٹک جاؤں گا ۔" اس کی حالت بہت قابل رحم تھی ۔ صادق نے اذان کی باتیں سن کر اسے گلے لگایا اور پیشانی چوم لی ۔

" میرے بھائی تم اس زمانے میں رہ کر اللّه کا خوف رکھتے ہو حضور ﷺ کے ناراض ہو جانے سے ڈرتے ہو بار بار توبہ کا اہتمام کرتے ہو میرے پاس الفاظ نہیں کہ کس طرح بتاؤں یہ مبارک لوگوں کی نشانیاں ہیں ۔ " 

" مبارک لوگ گناہ نہیں کرتے صادق ، ان کے دلوں میں گناہ کا خیال تک نہیں آتا ۔" اذان نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے کہا ۔

" بات سنو تمہیں اپنے احساس گناہ کا احساس ہے ۔۔۔ گناہ کا نہیں ، کیوں کہ ایک چیز تمہارے دل میں آئی تم نے خود کو اس سے باز رکھا ۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ اللّه گناہ کے خیال پر اس وقت تک گناہ قرار نہیں دیتا جب تک اس گناہ پر عمل نا ہو جائے یعنی کسی گناہ کا خیال آدمی کو نقصان نہیں پہنچاتا اور نا ہی اللّه سزا دیتا ہے ۔۔۔ دوسری بات تمہیں یہ خیال آیا کہ یہ غلط ہے تو بھی تم خوش نصیب ہو کیوں کہ نا جانے کتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جو غلط کو سرے سے غلط کہتے ہی نہیں تو میرے بھائی ۔۔۔۔ تمہیں احساس ندامت ہونا بھی اللہ کی نعمت ہے ۔۔۔۔ تیسری بات مسند احمد ميں ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:" جو شخص اچھى طرح پورا وضوء كر كے پھر دو يا چارركعت ) راوى كو شك ہے ( اچھى طرح خشوع و خضوع اور اللہ كے ذكر سے ادا كرتا اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے "مسند احمد كے محققين كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر) 3398 ( ميں اسے صحيح قرار ديا ہے ۔۔۔" صادق اتنا کہہ کر رک گیا اور اذان کے چہرے کا بغور جائزہ لینے لگا ۔ 

" ت تو کیا میں امید رکھوں کہ خدا نے مجھے معاف کر دیا ۔؟" عجب سی بے یقینی تھی ۔

" قرآن میں اللّه ارشاد فرماتا ہے کہ نا امید وہی ہوتے ہیں جو سیدھی راہ سے بہکے ہوئے ہیں ، اور اسی طرح مومنین کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ لاتقنطوا من الرحمة اللّه یعنی اللّه کی رحمت سے نا امید نا ہو ۔" صادق نے اپنے تئیں بات ہی ختم کر دی ۔ اذان کے لب ہلکی مسکراہٹ میں ڈھل گئے اور ایک آنسو شکر اور احسان کے زیر تحت مسجد کے فرش پر گر گیا ۔

اللّه ہم پر کتنی ہی آسانی چاہتا ہے ، نبی پاک نے ہمیں کتنی ہی بشارت سنائی ، بس ہمیں سمجھنے کی دیر ہے خود کو خالص کرنے کی دیر ہے اور اگر ہم خود کو خالص کر لیں تو دیکھیں گے کہ کس طرح رحمت الہی ہمیں ہمہ وقت ڈھانپ کر رکھتی ہے ۔ اس کا بھی آسان طریقہ بتا دوں کہ خود کو کبھی فارغ نہیں رکھیں کیوں کہ یہ تو سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ فرما گئے ہیں کہ خود کو فارغ مت رکھو ، فارغ ذہن سے شیطان کھیلتا ہے ۔ 
جو خالص ہوتے ہیں نا محبت انہیں اتنی فرصت ہی نہیں دیتی کہ وہ محبوب کے علاوہ کسی چیز کو سوچیں ۔ وہ چلتے ہیں تو اللّه کی خاطر ، بات کریں تو اللّه کی خاطر ، کچھ کھائیں تو اللّه کی خاطر ۔۔۔۔ اہل محبت کا ہر ہر فعل اللّه کی خاطر ہوتا ہے ۔ ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللّه کے کس قدر قریب ہیں اور اللّه یہ مرتبہ انہیں ہی عطا فرماتا ہے جن کے دل نور ایمان ، محبت رسول ﷺ اور اخلاص سے منوّر ہوں ۔


***

No comments:

Post a Comment