Friday, 16 August 2019

Tumhari Madh Aur mera Qalam Ho ||Episode#5

#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو 
#پانچویں_قسط 
#از_صالحہ_منصوری 

اذان کو امام صاحب کے پاس جاتے ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہونے آے تھے اور اب تک وہ نماز کے علاوہ دین کی بنیادی باتیں بھی سیکھ چکا تھا ۔ ہر روز وہ ظہر بعد امام صاحب کے پاس جاتا اور علم دین حاصل کرتا رہتا ۔ اب وہ با قاعدہ صلاة و تسبیح کا پابند بن چکا تھا ۔ ایک دن وہ یونیورسٹی سے واپس ہو رہا تھا جب اسے اپنے سر میں شدید درد سا اٹھتا ہوا محسوس ہوا ۔ نایاب کا گھر قریب تھا سو اذان نے سوچا کہ وہ کچھ دیر آرام بھی کر لے گا اور نماز بھی پڑھ لے گا کیوں کہ ظہر کا وقت قریب تھا۔ نایاب کے گھر آکر اس نے ڈور بیل بجائی ۔ 

" السلام علیکم ۔" نایاب دروازہ کھولتے ہی خوش گوار حیرت سے بولی ۔" اذان تم ۔۔؟ اچانک ۔" 

" سر پھٹ رہا ہے نایاب میں کچھ دیر ریسٹ کرنا چاہتا ہوں۔ " اذان نے سلام کا جواب دے کر کہا تو نایاب اسے ایک کمرے کی طرف لے آئی اور خود کہیں چلی گئی ۔ اذان بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گیا ۔ کچھ دیر بعد جب نایاب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں سوپ اور دوائیاں موجود تھیں ۔

" اذان اٹھو ۔۔ دیکھو سوپ پی لو اچھا لگے گا اور دوائی کھا کر آرام کرو گے تو سر درد بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔" وہ ٹرے میز پر رکھتی گویا ہوئی ۔

" نایاب پلیز ۔۔" 

" اذان پلیز ۔۔ میں کوئی بہانہ سننے کے موڈ میں نہیں مجھے میرا بھائی بالکل ٹھیک چاہئے ۔" وہ ایک مان سے بولی تو اذان اسے انکار نہیں کر سکا وہ اٹھا اور سوپ کے ساتھ دوائی لے کر دوبارہ لیٹ گیا ۔ ابھی اس نے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ خیال آیا آج ظہر بعد امام صاحب ہمیشہ کی طرح منتظر ہوں گے اگر وہ نہیں جا سکتا تو کم از کم انہیں اطلاع ہی کر دے ۔ یہی سوچ کر اذان نے فون اٹھایا اور صادق کو کال کر کے تمام صورت حال بتائی ۔ صادق نے اسے تسلّی دی اور کہا کہ اذان کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ بس اپنا خیال رکھے ۔ صادق سے بات کرنے کے بعد وہ کافی دیر لیٹا رہا جب قریب ہی سے اللّه کے منادی کی پکار سنائی دی ۔ 

" اللّه اکبر اللّه اکبر ۔۔" 

ظہر کا وقت ہو چکا تھا وہ اپنی تمام تر ہمّت کو اکھٹا کر کے اٹھا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔ جب واپس آیا تو اس کے اعضائے وضو سے پانی کے قطرے موتیوں کی مانند چمک رہے تھے ۔ اذان نے اپنی جیب سے رومال نکال کر سر پر بندھی اور نماز شروع کر دی ۔ وہ نفل کا عادی نہیں تھا لیکن سنّت مؤکدہ کسی حال میں ترک نہیں کرتا تھا ۔ کہتے ہیں ناں محبوب کی چاہ محب کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتی ہے ۔ اذان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا ۔ جب سے اس نے جانا تب سے وہ نبئ کریم کی محبّت میں ان کی سنّتوں کا پابند بنا چلا جا رہا تھا ۔ ابھی وہ فرض کے بعد کی دو سنّت کے آخری قعدہ میں بیٹھے تشہد پڑھ رہا تھا جب پیچھے سے ایک مانوس سی آواز آئی ۔ 

" نایاب ۔" 

اذان یہ آواز سینکڑوں کے مجمعے میں پہچان سکتا تھا ۔ آیت نایاب کو آواز دیتی وہاں آ گئی تھی اور اذان کو اس طرح دیکھ کر ششدر رہ گئی ۔ تشہد میں بیٹھے اذان کی انگلیاں سختی سے پیر پر دباؤ ڈالنے لگیں قریب تھا کہ اس کے ذہن کی رو بھٹک جاتی کہ اچانک اس نے پڑھا : 

" السلام علیک ایھا النبی ۔" 

اتنا کہنا تھا کہ اس کے ذہن سے آیت نکل گئی اور اس کا تصور اسے سبز گنبد کے سامنے لے آیا ۔ یہ میرے نبئ کریم ﷺ کا معجزہ ہے کہ ایک سچا عاشق رسول تصور کے ایک لمحے ہی میں مدینہ پہنچ جاتا ہے ۔ اذان کو یاد آیا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا جسم لہو لہو ہونے کے بعد بھی وہ ہم جیسوں کے لئے لوگوں کی دی گئی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ، یہ وہی نبی ہیں جن کے اپنے انہیں چھوڑ گئے ، یہ وہی نبی ہیں جو لوگوں کی لغ باتیں برداشت کرتے رہے ، یہ وہی نبی ہیں جو اپنے پیارے شہر کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیوں۔۔۔۔۔؟ صرف ہم جیسے گنہگار امّتوں کی خاطر۔۔ ہم جیسوں تک دین پہنچانے کی خاطر ۔۔ ہم جیسوں کو اللّه سے ملانے کی خاطر ۔۔ اور آج ہم نے ان کی محبّت کا کیا صلہ دیا ۔۔؟؟ 

اذان کی آنکھوں سے دوران نماز ہی آنسو بہنے لگے ۔ روضہء مبارک آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔ دل میں ہوک سی اٹھنے لگی اور منہ سے بے اختیار آہ نکل گئی ۔۔۔ آنسو متواتر گود میں گرے جا رہے تھے پھر اس نے درود ابراہیمی پڑھا ۔ درود کے بعد جب وہ دعائے ماثورہ پڑھنے لگا تو خوف الہی سے لرز اٹھا ۔ 

" اے رب میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کئے ۔" اذان کو وہ وقت یاد آیا جب وہ دین سے بیگانہ تھا ۔ اس کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئی ۔ 

" تیرے علاوہ اور کوئی بخشنے والا نہیں ۔ " اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے مصلیٰ تلے پل صراط ہے اور اس کے نیچے وہ بھیانک آگ موجود ہے جس کا وعدہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ 

" تو مجھے بخش دے ، اپنی رحمت خاص سے ، مجھ پر رحم فرما ، بیشک تو بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔" اذان محسوس کر سکتا تھا کہ سامنے جنّت کے عین درمیان میں کعبہ ہے جسے وہ اپنے رب کے حکم سے سجدہ کر رہا ہے ۔ ساری بات عشق کی تو ہے ۔ جسے عشق ہو وہ اطاعت سے کبھی منہ نہیں موڑتا ۔ ہم کعبہ کو سجدہ اس لئے ہی تو کرتے ہیں کہ یہ رب کا حکم ہے ۔۔ اور رب سے محبت کا ثبوت اس کی اطاعت سے پتا چلتا ہے ۔ 

اذان نے سلام پھیرا تو دروازے سے لگی سسکتی ہوئی آیت کو اس کا چہرہ آنسوؤں سے دھلا ہوا لگا ۔ وہ خود بھی بمشکل اپنی سسکیوں کو روکتی بار بار اپنے آنسو صاف کر رہی تھی ۔ اذان نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے ۔ اس کی دعا دو ہی ہوتیں ، ایک تو یہ کہ وہ آخری سانس تک نبی کریم سے محبت کرتے ہوئے دین پر سختی سے عمل پیرا رہے دوسری دعا ہوتی کہ وہ آیت کے ساتھ اس کا محرم بن کر حج کرے ۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوا تو کھڑے ہو کر سلام پڑھنے لگا ۔

" قسم ان کی کہ باقاعدہ صف باندھیں ۔" ( سورہ الصف ۔ پہلی آیت ) پروفیسر ڈاکٹر محمّد مسعود احمد نقشبندی علیہ الرحمہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللّه نے اپنے حبیب پر درود بھیجا کس حال میں ۔؟ کوئی نہیں بتا سکتا ، نا گمان ہو سکتا ہے اور نا بیان ۔۔ پھر جب فرشتوں نے درود بھیجا تو اللّه نے ان کی یعنی کہ فرشتوں کی ہئیت کا ذکر فرمایا کہ جب فرشتوں نے درود بھیجا تو کھڑے ہو کر با ادب درود بھیجا اس سے ثابت ہوا کہ کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھنانا صرف جائز و مستحب بلکہ فرشتوں کی سنّت ہے ۔ 

" جان کر کافی سہارا ، 
لے لیا ہے در تمہارا ،
خلق کے وارث خدارا ،
لو سلام آقا ہمارا ۔۔۔ " 

صحیح تو کہہ رہا تھا وہ اسے صرف نبی پاک ﷺ کا ہی تو سہارا تھا ۔ دنیا بھر کے دھتکارے ہوئے اسی بارگاہ میں پناہ حاصل کرتے ہیں ، سارے جہاں کی رسوائی ہونے کے بعد بھی اگر کوئی بنا احساس ندامت دلائے سینے سے لگا لے تو وہ صرف حضور پر نور ﷺ کی ہی ذات مقدس ہے ۔ یہاں مجرموں پر لعن طعن نہیں کیا جاتا انہیں زمین سے اٹھا کر ، سینے سے لگا کر محبوب الہی بنا دیا جاتا ہے ۔ اذان کے ہاتھ اب دعا کی صورت تھے اور اس کا گریہ بڑھ چکا تھا ۔ اب وہ دوسرا شعر پڑھنے لگا تھا ۔

" روح جب تن سے جدا ہو ، 
ماہ رمضان دن جمعہ ہو ،
دوپہر سے دن ڈھلا ہو ،
لب پہ جاری یہ صدا ہو ۔۔۔۔" 

شدّت غم سے اس کا دل زار زار رو رہا تھا اور حالت تھی کہ سنبھل ہی نہیں رہی تھی ۔

" اتنا کرم شاہ امم ہو ،
خالی روح سے جب بدن ہو ،
آپ کے شہر کا کفن ہو ،
اور مدینے میں دفن ہو ۔۔" اس نے جیسے اپنی التجا پیش کی ۔ 

یا نبی سلام علیک ،
یا رسول سلام علیک ،
یا حبیب سلام علیک ،
صلوة اللّه علیک ۔" 

آیت کے لئے سانس لینا دشوار ہو گیا ، سینے میں درد کی ایک لہر سی اٹھی اور وہ آگے جھک گئی ۔ اچھا ہوا کہ اس نے دروازہ تھام لیا ورنہ یقینی طور پر گر جاتی ۔ اذان اپنے معمولات کو ادا کر رہا تھا جب وہ سلام سے فارغ ہو کر آہستگی سے مڑا تو دونوں کی ہی آنکھوں میں گلابی پن اور رخساروں پر آنسوؤں کے نشان تھے ۔ آیت دروازے کو تھامے سسکیاں روکتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی جب کہ اذان نے اسے ایک نظر دیکھ کر نگاہیں جھکا لیں ۔ 

" عشق احمد ﷺ میں کبھی ڈوب کے دیکھا تو نے ، 
جتنا ڈوبے کوئی شیدا وہ ابھرتا جائے ۔" 

اذان سائیڈ سے ہوتا کمرے سے باہر نکل گیا اور یہاں آیت زمین پر ڈھے جانے والے انداز میں بیٹھ گئی ۔ اذان تیز تیز قدموں سے چلتا باہر ہال میں آیا جہاں نایاب صوفے پر بیٹھی جوس پینے میں مگن تھی ۔ 

" اسے تم نے یہاں بلایا تھا ۔؟" اذان نے لمبی لمبی سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کے بعد پوچھا ۔ 

" کس کو ۔؟" نایاب حیران ہوئی لیکن اذان سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا رہا ۔ چند لمحے لگے نایاب کو سمجھنے کے لئے کہ اذان کس کی بات کر رہا ہے ۔ وہ سر پر ہاتھ مارتی ہوئی کھڑی ہو گئی ۔

" اوہ گاڈ ۔۔ تم ۔۔ وہ کچھ کتاب لینے آنے والی تھی ۔ میں کچن میں تھی تو شاید وہ اوپر چلی گئی ۔" 

" اسے جا کر سنبھالو ۔۔ وہ رو رہی تھی ۔" اذان اتنا کہہ کر باہر کی جانب چل دیا ۔ 

" اذان رکو ۔۔ سنو تو صحیح ۔۔۔" نایاب نے آواز لگائی مگر تب تک وہ جا چکا تھا ۔ نایاب بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی تو آیت ہنوز دروازے سے ٹیک لئے رو رہی تھی ۔

" آیت میری بہن ۔۔" نایاب نے اسے خود سے لگایا ۔ 

" نا ۔۔نایاب ۔۔ " آیت اس کے شانے سے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔" اگر وہ میری وجہ سے ایسا کر رہا ہے تو پلیز منع کر دو یہ گناہ ہے کہ کسی انسان کی خاطر ہم اللّه کے قریب ہوں ۔" 

" نہیں میری بہن وہ اپنی وجہ سے ایسا کر رہا ہے ہاں یہ حسین اتفاق ہے کہ تم بھی اسی راہ کی مسافر ہو جہاں کا وہ ارادہ کر چکا ہے ۔ آیت وہ تمہاری وجہ سے نہیں نبی کریم ﷺ کی محبت میں ایسا کر ہے وہ خود اپنے آپ اور اپنے رب کے درمیان موجود فاصلے کو مٹا رہا ہے ۔ " نایاب اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔ " تم خود کو بھی تکلیف مت دو آیت ۔۔ تم باعث گناہ نہیں بلکہ باعث نیکی بنی ہو ۔ " نایاب مسلسل اس کا سر سہلا رہی تھی ۔ آیت نے اس نے شانے میں اپنا منہ چھپا لیا ۔ 

***

عصر کے بعد صادق ہال میں موجود آنکھیں بند کئے بیٹھا پرسکون سا زیر لب پڑھ رہا تھا ۔ 

" تو ہے احرام انور باندھے ہوئے ،
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے ، 
کعبہء عشق تو ، میں تیرے چار سو ،
تو اثر میں دعا۔۔۔۔۔۔ 
تو کجا من کجا ۔۔۔۔۔۔
تو کجا من کجا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " 

وہ پڑھ ہی رہا تھا جب کسی کے سسکنے کی آواز نے اسے چونک کر آنکھیں کھول دینے پر مجبور کیا ۔ صادق نے دیکھا کہ اذان اس کے سامنے دوزانو بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کا شفاف چہرہ آنسوؤں سے گیلا ہو چکا تھا اور آنکھیں قدرے سرخ ہونے لگی تھیں ۔ 

" السلام علیکم ۔" صادق نرمی سے بولتا ہوا اس کے پاس آ بیٹھا ۔ " کیا ہوا اذان سب خیر ہے ناں ۔؟ تم تو بیمار تھے نہیں آنے والے تھے پھر ۔۔۔" 

" وعلیکم السلام ۔" اذان نے اسے دیکھا ۔ " صادق میں آج دوبارہ ایک گناہ کا مرتکب بنا ۔" 

" اپنے گناہ پر کسی کو گواہ نہیں بناتے اذان ۔" صادق نے سنجیدگی سے کہا ۔ 

" لیکن مسئلے کا حل تو دریافت کر سکتے ہیں ناں ۔" امام صاحب نا جانے کب آ کر ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔ اذان نے انہیں دیکھا اور اٹھ کر ان کے پاس آیا ، دست بوسی اور قدم بوسی کی ، 

( لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کو برقرار رکھا، لہذا اس واقعہ میں صاحب شرف و منزلت اور علمی شخصیات کےہاتھ اور پاؤں پر بوسہ دینے کا جواز ملتا ہے،اسی طرح ماں باپ وغیرہ کے ہاتھ پاؤں چومنے کا بھی جواز ملتا ہے کیونکہ ادب و احترام انکا حق ہے، اور یہ تواضع کی ایک صورت ہے""شرح رياض الصالحين" )4/451(

ام ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع - جو کہ وفد عبدالقیس میں شامل تھا -سے بیان کرتی ہیں وہ کہتے ہیں: جب ہم مدینہ آئے تو ہم اپنی سواریوں سے اتر کر جلدی جلدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے اور آپکے ہاتھ و پاؤں پر بوسہ دیا۔اسے ابو داود)5227( نے روایت کیا ہے، اور حافظ ابنحجر نے اسکی سندکو"فتح الباری")11/57( میں جید کہا ہے، جبکہ البانی نے "صحيح أبو داود"میں حسن قرار دیا ۔) 

اس کے بعد امام صاحب کرسی پر بیٹھ گئے تو وہ ان کے قدموں کے پاس آ بیٹھا ۔ 

" کہو میرے بچے کیوں اداس ہو ۔؟" انہوں نے شفقت سے اذان کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ 

" میری وجہ سے آج اس کی آنکھوں میں آنسو آے ہیں ۔۔ میں تو ایسا گناہ کر بیٹھا جس کی تلافی بھی آسان نہیں ۔" وہ مدھم سا کہہ رہا تھا ۔ 

" کسی گناہ کی تلافی آسان نہیں ہوتی ۔۔ ہمیں اپنی انا کو ہارنا پڑتا ہے ، روح کو مجروح کرنا پڑتا ہے ۔" امام صاحب نے پرسکون انداز میں کہا تو اذان نے انہیں بتایا کہ کس طرح آج آیت سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی اور وہ رو رہی تھی ۔ 

" یقین کریں امام صاحب اگر مجھے خوف خدا یا نبی ﷺ کی ناراضگی کا ڈر نا ہوتا تو میں اس سے ضرور بات کرتا ۔۔ میں تائب ہو چکا ہوں دوبارہ گناہ نہیں کرنا چاہتا لیکن ۔۔۔ میں اسے بھی کھونا نہیں چاہتا ۔" اذان کا لہجہ ٹوٹ رہا تھا ۔ یہ واحد جگہ تھی جہاں وہ اپنے دل کے زخم بخوبی دکھا سکتا تھا ، یہاں وہ رو سکتا تھا ، کیوں کہ اسے امام صاحب اور صادق کی صورت میں حق سبحانہ کی طرف جانے والے راستے کی روشنی ملی تھی اور اللّه کے نیک بندوں کے کام ہی یہی ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر بارگاہ خداوندی تک لے جائیں ۔ 

" تم اسے نکاح کا پیغام کیوں نہیں دے دیتے ۔؟" صادق نے پوچھا تو لمحے بھر کو اذان ساکت سا رہ گیا ۔ 

" میں ڈرتا ہوں اگر اس نے انکار کر دیا تو ۔۔ تو یہ بھرم بھی جاتا رہے گا ۔" اس کے چہرے پر بےبسی در آئی ۔ 

" اذان ۔" امام صاحب نے اسے خود کی طرف متوجہ کیا ۔ " نکاح کا پیغام دے دو ، کیوں کہ جس نبی سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو اس کے حکم پر عمل بھی کرو ، یا تو نکاح کرو یا پھر روزہ رکھ کر خود پر قابو کرو اور اسے چھوڑ دو ۔" امام صاحب کا لہجہ دو ٹوک تھا ۔ " صرف ڈر کی وجہ سے تم اس طرح نہیں کر سکتے ۔۔ جس نبی ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو وہی نبی کریم تمہیں دیکھ رہے ہیں ۔۔ تمہارے ہر ہر عمل پر ان کی نظر ہے ۔ تمہاری ایک ایک بات وہ سن رہے ہیں ۔۔ کل قیامت میں انہیں کیا منہ دکھاؤ گے کہ باوجود استطاعت کے تم ان کی نافرمانی کرتے رہے ۔۔۔ یقین کرو اذان ہمارا ہر برا عمل ان کی روح کو بے چین کرتا ہے ۔ " یہ کہتے ہوئے امام صاحب کی بھی آواز بھر آئی اور وہ خاموش ہو گئے ۔ 

" وہ کیسے جانتے ہیں امام صاحب ۔؟" اذان نے بے چین سا ہو کر پوچھا ۔

" وہ حاضر و ناظر ہیں اذان ۔۔ نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک کو ایک آن کے لئے موت واقع ہوئی کیوں کہ یہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ' کل نفس ذائقة الموت ۔' پھر اللّه نے ان کی روح کو دوبارہ انہیں کے جسم اطہر میں لوٹا دیا۔ وہ جس طرح زمین کے اوپر صاحب اختیار و تصرف تھے اسی طرح زمین کے نیچے بھی صاحب اختیار و تصرف ہیں ۔" امام صاحب نے اسے سمجھایا ۔ 

" لیکن موت کے بعد تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ناں آپ نے ہی تو کہا تھا ۔" اذان نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔

" انبیاء علیہ السلام کا حال باقی لوگوں سے الگ ہے پیارے ، میں تمہیں سمجھاتا ہوں ۔" امام صاحب مسکرا پڑے ۔ نبی کریم سے محبت کرنے والا ہر شخص ان کا ذکر کرتے ہوئے مسکرا اٹھتا ہے ، آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں اور روح پر ایک لطیف کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ جو اپنے نبی سے جتنی محبت کرتا ہے اتنا ہی اسے یہ لطف محسوس ہوتا ہے ۔ یہ میرے نبی ﷺ کا فیض ہے تو میں کیوں نا کہوں کہ آپ ﷺ میرے آقا و مولا ہیں ، میرے نبی ہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اللّه کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمّد ﷺ اللّه کے سچے اور آخری رسول ہونے کے ساتھ اس رب تعالیٰ کے بندے ہیں ۔ 

" اذان بیٹا جو میں کہنے جا رہا ہوں دھیان سے سننا اور سمجھ نا آے تو پوچھتے جانا ۔۔" امام صاحب نے اسے نرم لہجے میں کہا ۔ اذان ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔" دیکھو ۔۔۔ انبیا کے عمل ان کی موت کے بعد جاری رہتے ہیں کیوں کہ ان کے اجسام کبھی نہیں مٹتے ۔۔۔ ان کے جسم کو زمین کی مٹی نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔۔۔ وہ با حیات ہوتے ہیں حضرت شاہ ولی اللہ صا حب محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ ہیں وہ اپنی مشہور کتاب میں فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی اس رحمت اور فیض رسانی کا اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فتفطنت ان لہ خا صیۃمن تقویم روحہٖ بصورۃ جسدہٖ علیہ الصـلٰـوۃ والسلا م وانہ الذی اشار الیہ بقولہٖ ان الانبیاء لا یموتون وانھم یصلون و یحجون فی قبورھم وانھم احیاء الٰی غیر وذالک لم اسلم علیہ قط الاوقد انبسط الی وانشرح وتبدی وظھر وذالک لانہ رحمۃ للعا لمین )فیوض الحرمین ص ۲۸ (ترجمہ: ’’ پس مجھ کو دریا فت ہو ا کہ آ پ ﷺ کا خاصہ ہے ۔روح کو صورت جسم میں قائم کر نا اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف آ پ نے اپنے اس قول سے اشارہ فر مایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہیں مر تے اور نماز پڑھا کر تے ہیں اپنی قبروں میں اور انبیاء حج کیا کر تے ہیں اپنی قبروں میں اور وہ زندہ ہیں وغیرہ وغیرہ اور جب میں نے آ پ پر سلام بھیجا تو آپ مجھ سے خوش ہو ئے اور انشراح فرمایا اور ظاہر ہو ئے اور یہ اس واسطے کہ آ پ رحمۃ للعا لمین ہیں۔۔۔۔ " امام صاحب اتنا کہہ کر رک گئے ۔ 

" بولیں ناں آپ رک کیوں گئے ۔؟" اذان نے انہیں ٹوکا کیوں کہ جب تک امام صاحب بولتے رہے وہ اپنے آپ میں الگ سا سرور محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی تشنہ روح اپنی ذات میں مکمّل ہو رہی تھی اور یہ سچ بھی ہے کہ انسان کی پیاسی روح دین سے ہی سیراب ہوتی ہے ۔ 

" لڑکے میں بوڑھا ہوں میرا سانس پھول گیا تھا ۔" امام صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دیا ۔ 

" اور دیکھو ۔۔ ثابت کر تی ہے اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے ۔وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہٖ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ۔ ترجمہ: ’’اور نہ کہو ان لو گو ں کے لیے جو قتل کئےگئے اللہ کی راہ میں مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں جا نتے ۔ البقرۃ : ۱۵۴(بظا ہر یہ آ یت کر یمہ شہدا )غیر انبیا ء( کی حیا ت پردلا لت کر تی ہے لیکن درحقیقت انبیاء علیہم السلام با لخصو ص نبی کر یم ﷺ اس میں شا مل ہیں ۔ اس لئے کہ دلائل و واقعات کی رو شنی میں یہ حقیقت نا قابل انکار ہے کہ تمام انبیا ء علیہم السلام شہید ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں شہا دت کا درجہ پا یا اور ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ کے عموم میں حضو ر علیہ الصلوٰۃ و السلام بلاشبہ دا خل ہیں ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ’’ یقتل‘‘ قتل سے ما خوذ ہے اور قتل کے معنی ہیں اماتت یعنی مار ڈا لنا ۔" امام صاحب لمحے بھر کو رکے ۔ اذان دم سادھے انہیں سن رہا تھا ۔ 

" اب یہاں تھوڑے عربی گرامر کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن کوئی بات نہیں میں تمہیں آسان لفظوں میں بتاتا ہوں ۔۔ دیکھو ۔۔ قتل میں فعل فاعل کا اعتبار ہوتا ہے اور اماتت میں زندگی اور موت کا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللّه کے وعدے کے الفاظ ہیں ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ اس میں نہ قتل کا لفظ ہے نہ موت کا۔ اس وعدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کے مار ڈالنے سے اللہ آپ کو بچائے گا۔ یعنی آپ ﷺ کی ذات پاک کیلئے کوئی ایسا فعل نہ کرسکے گا جس سے عادتاً علی الفور آپ کی موت واقع ہوجائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور کسی شخص نے آپ ﷺ کو مارڈالنے پر قدرت نہ پائی ۔ رہا یہ امر کہ ’ مَنْ یُّقْتَلُ‘ میں حضور ﷺ کیسے داخل ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قتل سے مراد وہ فعل ہے جو زندگی اور موت کا موجب ہوجائے۔فعل قتل کا فوت حیات کیلئے موجب ہونا دو طریقے سے ہوتا ہے ایک عادتاً دوسرا خارقاً للعادۃ۔عادۃً فعل قتل سے علی الفور ازالہء حیات ہو جا تا ہے اور خر ق عادت کے طور پر علی الفور ازالہ حیات نہیں ہو تا ۔ بلکہ ایک مدت کے بعد ہی اس کا سبب موت ہو نا ظاہر ہو سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کو پہلی قسم کے قتل سے بچا کر اپنے و عدے کو پورا فرما دیا اور دوسری قسم کا فعل قتل حضور ﷺ کے لیے بر بنا ء حکمت متحقق کر دیا تاکہ حضور ﷺ ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے عمو م میں داخل ہو کر شہادت کا مرتبہ پائیں اور کسی بے دین کے لئے حضور ﷺ کو مردہ کہہ کر حیات نبو ت کے انکار کی مجا ل باقی نہ رہے ۔" امام صاحب اتنا کہہ کر پھر رک گئے ۔۔ 

" اب دیکھو یہ تو ہوئی قرآن کی بات اگر تم اور آسانی سے سمجھنا چاہو تو حدیث دیکھتے ہیں کہ ہمارے اس دعویٰ کی دلیل اما م بخاری اور امام بیہقی کی وہ حدیث ہے جو امام جلال الدین سیو طی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہو ر کتا ب ’’ انباء الا ذکیا بحیاۃ الانبیا ء ‘‘ میں نقل فرما ئی ہے۔واخرج البخاری والبیہقی عن عائشۃ قالت کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فی مرضہ الذی توفی فیہ لم ازل اجدالم الطعام الذی اکلت بخیبر فہٰذا او ان انقطع ابہری من ذالک السم)انبا ء الاذکیاء ص ۱۴۹(تر جمہ: ’’ امام بخاری اور امام بیہقی نے حضر ت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انہو ں نے فرمایا کہ رسو ل اللہ ﷺ اپنے مر ض میں فرماتے تھے کہ میں نے خیبر میں جو زہر آ لود ، لقمہ کھایا تھا میں اس کی تکلیف ہمیشہ محسو س کرتا رہا ہو ں پس اب وہ وقت آ پہنچا کہ اسی زہر کے اثر سے میر ی رگ جا ن منقطع ہو گئی ۔

پھر دوسری حدیث اما م زرقانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں وقد ثبت ان نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم مات شہیدا لاکلہ یوم خیبر من شاۃ مسمومۃ سما قاتلا من ساعتہ حتّٰی مات منہ بشر )بکسر الموحدۃ( وسکون المعجمۃ )ابن البراء( بن معرور )وصار بقاؤہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم معجزۃ فکان بہ الم السم یتعاہدہ( احیانا )الی ان مات بہ( ) زرقانی جلد ۸ ص۳۱۳(ترجمہ: ’’اور بیشک یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی وفات پائی ۔ اس لئے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ایسی زہر ملائی ہو ئی بکری کے گوشت کا ایک لقمہ تنا ول فرمایا، جس کا زہر ایسا قا تل تھا کہ اس کے کھانے سے اس وقت علی الفور مو ت واقع ہو جائے ۔یہا ں تک کہ اس زہر کے اثر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحا بی بشر بن براء بن معرور اسی وقت فوت ہو گئے اور حضور ﷺکا با قی رہنا معجزہ ہو گیا ۔ وہ زہر حضور ﷺ کو اکثر تکلیف دیتا تھا ۔یہاں تک کہ اسی کے اثر سے حضور ﷺ کی موت وا قع ہو ئی۔

بخاری ،بیہقی ، سیو طی اور زرقانی کی ان پیش کردہ روایات سے ہمارا دعویٰ بخوبی ثابت ہو گیا اور وہ یہ کہ حضور ﷺ کو قتل کر نے کے لیے زہر دیا گیا اور اسی زہر سے حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی مو ت واقع ہو ئی ۔ اگر چہ زہر دینے اور مو ت وا قع ہونے میں تین سال کا وقفہ تھا لیکن وفات شر یف اسی زہر دینے کے فعل سے وا قع ہو ئی اور تین سال تک حضور ﷺ کا باقی رہنا زہر دینے اور اس فعل قتل کی کمزوری کی بنا ء پر نہ تھا بلکہ خرق عادت اور حضور ﷺ کے معجزہ کے طور پر تھا ۔۔" امام صاحب نے اذان کو دیکھا تو وہ سمجھنے کے انداز میں سر ہلانے لگا ۔ 

" اوہ ۔۔ اب سمجھا ۔" 

" اوہ نہیں لڑکے سبحان اللّه تعالیٰ کہو ۔" امام صاحب نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت رسید کی تو وہ کھلکھلا اٹھا ۔ نجانے کتنے ہی دن بعد اذان اس طرح کھل کر ہنسا تھا ۔ صادق بھی اسے خوش دیکھ کر مسکرا دیا ۔ امام صاحب اسے اس طرح دیکھ کر مطمئن سے ہو گئے ۔ " اچھا اور آپ نے کچھ حاضر والا بھی کہا تھا کہ انبیا مدد کرتے ہیں ۔۔۔ موت کے بعد ۔" اذان نے دوبارہ سوال کیا تو امام صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ۔ ۔

" موت نہیں کہتے اور نا ہی وفات ۔۔۔ یہ الفاظ ادنیٰ اور غیر مناسب بلکہ بے ادبی ہے ۔۔ تم یوں کہو کہ پردہ فرما لیا ۔" امام صاحب نے نرم انداز میں اسے سمجھایا ۔ 

" آہ ۔۔ ہاں ۔۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔۔ جی پردہ فرما لینے کے بعد مدد کیسے کرتے ہیں ۔؟" اذان نے اپنا سوال دہرایا ۔

" دیکھو اللّه تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذ ظَّلَمُوا اَنفُسَہُمْ جَآءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔)پ5،النساء:64(
اس آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اور یہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔۔۔" 

" بالکل ۔۔۔" اذان نے اثبات میں سر ہلایا ۔

" اور اسی طرح ہے کہ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِینَ ﴿۱۰۷اور نہیں بھیجا ہمنے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔)پ17،الانبیاء:107(حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا ۔۔۔ اس کے علاوہ فرمایا ہے کہ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیر"ا وَّ نَذِی را"اور نہیںبھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔)پ22،سبا:28(اس لِلنَّاسِ میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔۔۔۔ " امام صاحب نے تفصیل سے بیان کیا ۔

" الحمدللہ تعالیٰ سمجھ آیا ۔۔" اذان نے کہا تو امام صاحب نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔

" ایک واقعہ بتاتا ہوں تمہیں اور آسانی ہو گی ۔ ایک کتاب ہے حجة اللّه علی العالمین اس کتاب کے صفحہ نمبر آٹھ سو چالیس پر حضرت شیخ ابو عبداللّه نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم مدینہ شریف حاضر ہوئے ، تو دیکھا کہ مسجد نبوی میں محراب کے پاس ایک بزرگ سوۓ ہوئے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ جاگے اور جاگتے ہی روضہء منوّر پر حاضر ہو کر سلام پیش کیا پھر مسکراتے ہوئے لوٹ آے ۔ ایک خادم نے ان سے مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ میں سخت بھوکا تھا اسی عالم میں میں نے آپ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی تو ناجانے میں کب سو گیا ۔ خواب میں دیکھا کہ حضور عالم ﷺ نے مجھے ایک دودھ کا پیالہ عطا فرمایا ۔ میں نے جی بھر کر دودھ پیا ۔ 
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد جب بزرگ نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر دکھایا تو ہم سب نے دیکھا کہ ہتھیلی پر واقعی دودھ موجود تھا ۔ " امام صاحب اتنا کہہ کر رک گئے تھوڑی دیر بعد انہوں نے اذان سے پوچھا ۔

" اذان میں نے تمہیں آسان کر کے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔ تمہیں واقعی سب صحیح سے سمجھ آیا ۔۔؟" 

" میں سمجھ گیا حضرت ۔۔ الحمدللہ تعالیٰ ۔" اذان کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی ۔ 

" تم رو رہے ہو ۔؟" صادق نے حیران ہو کر پوچھا ۔ 

" ہاں میرے بھائی ۔۔ " اس نے صادق کو دیکھا ۔" دنیا میں کوئی کسی سے اتنی محبت نہیں کر سکتا جتنی ایک نبی کو اپنی امّت سے ہوتی ہے ۔" وہ اتنا کہہ کر امام صاحب کی طرف متوجہ ہوا ۔" آپ کی باتوں نے ایمان تازہ کر دیا ۔۔ میں آپ کا احسان تمام عمر نہیں بھول سکتا ۔" وہ واقعی بہت مشکور تھا ۔ 

" نہیں بیٹا یہ تو ہمارا کام بلکہ فرض ہے ، مجھے خوشی ہوتی ہے جب جب تمہارا دل نبی کریم کے لئے محبت میں بے چین ہوتا ہے ۔ میرے لئے بھی دعا کرنا اذان ۔۔ " امام صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ اذان کا دل بہت ہلکا ہو چکا تھا اور سارے غم جیسے بہت دور جا کر سو گئے تھے ۔


***

No comments:

Post a Comment